فصل 1 (متن: خلافت و ملوکیت، از ابن تیمیہ)
آئینِ
اسلام: تین اطاعتیں
مجموع الفتاوىٰ،
المجلد 35:
بَابٌ
الْخِلَافَةُ وَالْمُلْكُ وَقِتَالُ أَهْلِ الْبَغْيِ
قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ أَحْمَد ابْنُ تَيْمِيَّة -
قَدَّسَ اللَّهُ رُوحَهُ -:
الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ
وَنَعُوذُ بِاَللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا؛
مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ
وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ
أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
تَسْلِيمًا.
أَمَّا بَعْدُ: فَهَذِهِ "
قَاعِدَةٌ مُخْتَصَرَةٌ فِي وُجُوبِ طَاعَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ " فِي كُلِّ
حَالٍ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ وَأَنَّ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ وَرَسُولُهُ مِنْ
طَاعَةِ اللَّهِ وَوُلَاةِ الْأُمُورِ وَمُنَاصَحَتِهِمْ: قَاعِدَةٌ:
یہاں ایک
مختصر قاعدہ ذکر کیا جاتا ہے: دین میں دو اطاعتیں تو ایسی ہیں جو ہر حال میں ہر شخص پر فرض ہیں۔ البتہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خدا کی فرماں برداری کے ساتھ
ساتھ اولی الامر کا فرماں بردار اور خیرخواہ رہنے کا جو حکم دے رکھا ہے وہ
بھی فرض ہے اور اس کے علاوہ بھی فرائض ہیں۔ فرمایا:
إنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ
إلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ
إنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء: 58)
اللہ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں
انہیں پہنچا ؤ۔ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو۔ یقیناً وہ
بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کررہا ہے۔ بےشک اللہ سنتا ہے، دیکھتا
ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ
وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إنْ
كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ
تَأْوِيلًا (النساء: 59)
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور
اطاعت کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اولی الامر کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو لوٹاؤ اُسے
اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، ... اگر تم ہو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان
رکھنے والے۔ یہ بہت بہتر اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔
چنانچہ یہاں ایمان
والوں کو اللہ، رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا، اُسی طرح جس طرح ان کو
حکم دیا کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کریں
یا یہ حکم دیا کہ جب بھی لوگوں کے مابین فیصلہ کریں عدل کے ساتھ کریں۔ یا
یہ حکم دیا کہ جب بھی وہ آپس میں نزاع کریں تو معاملے کو اللہ اور رسولؐ کی جانب لوٹا
دیں۔
’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا‘‘...
کس طرح؟
علماء اس کی
تفسیر میں کہتے ہیں: معاملے کو اللہ کی طرف لوٹانا یہ ہے کہ: اُس کی کتاب کی طرف
لوٹایا جائے، اور رسول کی جانب آپؐ کی وفات کے بعد لوٹانا یہ کہ: آپؐ کی سنت کی
طرف لوٹایا جائے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
كَانَ
النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ
وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ
النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ
مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ
الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ
يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (البقرۃ: 213)
دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے، اللہ تعالیٰ نے
نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں
نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔ اور صرف ان ہی لوگوں
نے جو اسے دیے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آ چکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے
اس میں اختلاف کیا۔ اس لیے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی
طرف اپنی مشیئت سے رہبری کی۔ اور اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔
چنانچہ ’’اپنی
اتاری ہوئی کتاب‘‘ کو اللہ نے یہ حیثیت دے دی کہ انسانوں کے مابین جو بھی اختلافات
اور نزاعات پائے جائیں ان کا فیصلہ یہ کتاب ہی کرے۔
وَفِي
صَحِيحِ مُسْلِمٍ وَغَيْرِهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إذَا قَامَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ
يَقُولُ: اللَّهُمَّ رَبَّ جبرائيل وميكائيل وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ
وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِك
فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ: اهْدِنِي لِمَا اُخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ
الْحَقِّ بِإِذْنِك؛ إنَّك تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم (صحیح مسلم
رقم 770)
مسلم
اور دیگر کتب حدیث میں عائشہ سے مروی آتا ہے، کہ نبیﷺ جب رات کے قیام میں نماز
کےلیے کھڑے ہوتے تو گویا ہوتے:
اے اللہ! جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے
رب! اے وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو وجود بخشا! اے وہ ذات جو غیب اور شہادت
کی خبر رکھتی ہے! تو ہی فیصلہ فرمانے والا ہے اپنے بندوں کے مابین اُن امور کا جن
میں وہ اختلاف کرلیتے رہے۔ ہدایت دے مجھے اس حق کی جس کی بابت یہاں اختلاف ہوتا
رہا۔ بےشک تو ہی ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی۔
’’اللہ‘‘ اور ’’رسول‘‘ کے بعد ایک تیسری وفادرای:
فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ
تَمِيمٍ الداري رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ الدِّينُ النَّصِيحَةُ الدِّينُ
النَّصِيحَةُ قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ
وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ (صحیح مسلم رقم 95)
مسلم میں تمیم داری سے مروی ہوا، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: دین تو ہے مخلص رہنا۔ دین تو ہے مخلص
رہنا۔ دین تو ہے مخلص رہنا۔ عرض کی گئی: مخلص
کس کا، اےاللہ کے رسول؟ فرمایا: مخلص اللہ
کا، اس کی کتاب کا، اس کے رسول کا، مسلمانوں کے ائمہ کا اور عامۃ المسلمین کا۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ أَيْضًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّ اللَّهَ
يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا؛ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَأَنْ
تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَأَنْ تناصحوا مَنْ
وَلَّاهُ اللَّهُ أَمْرَكُمْ (صحیح مسلم
رقم 1715)
صحیح مسلم ہی میں ابو
ہریرہ سے مروی ہوا، کہ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ
کو تمہارے لیے تین باتیں پسند ہیں: یہ کہ تم اس کی عبادت کرو بغیر اُس کے ساتھ کسی
چیز کو شریک کئے۔ اور یہ کہ سب مل کر اللہ
کی رسی سے چمٹ جاؤ اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔ اور یہ کہ جن لوگوں کو اللہ نے
تمہارا حکمران بنایا ہے ان کا وفادار و خیرخواہ رہو۔
وَفِي
السُّنَنِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَزَيْدِ بْنِ
ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأَ سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَبَلَّغَهُ إلَى مَنْ
لَمْ يَسْمَعْهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ
حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ. ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ:
إخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَمُنَاصَحَةُ وُلَاةِ الْأُمُورِ وَلُزُومُ جَمَاعَةِ
الْمُسْلِمِينَ؛ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ
(أحمد 13350، ابن ماجۃ 3056، صححہ الالبانی عن زید بن ثابت)
سنن کی کتابوں میں عبد اللہ بن مسعود نیز
زید بن ثابت سے روایت آتی ہے، کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو شاداب کرے جو ہم
سے کوئی بات سنے پھر اسے ان لوگوں تک پہنچا دے جنہوں نے وہ نہیں سنی؛ کیونکہ کتنے
ہی ایسے لوگ ہیں جو ایک سمجھ کی بات کو اس شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو سمجھ میں ان سے بڑھ کر ہوتا
ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو سمجھ کی
بات محفوظ تو رکھتے ہیں مگر خود سمجھ میں گہرے نہیں ہوتے۔ تین باتیں ایسی ہیں کہ
ان کا پابند مسلمان دل کا پاپی نہیں ہوتا: عمل کو خالص اللہ کےلیے کرنا۔ اولیاء
الامور کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی؛ کیونکہ مسلمانوں کا دعویٰ
(یا دعاء) ان کی پشت سے محیط ہے‘‘۔
حدیث میں لفظ
’’یغِلُّ‘‘ آیا ہے۔ جو دل کے خائن ہونے یا کینہ اور کدورت رکھنے کا
معنیٰ دیتا ہے۔ مراد یہ کہ جو آدمی ان تین امور کا پابند ہے اس کا دل اس خیانت اور
کینہ پروری کا محل نہیں رہتا۔ غور کریں تو یہ تین چیزیں جو اِس حدیث میں آئیں عین
وہی ہیں جو اس سے اوپر کی حدیث میں مذکور ہوئیں اور جس میں آتا ہے کہ یہ تین چیزیں اللہ کو
مسلمانوں کےلیے خاص طور پر پسند ہیں۔ یعنی: اللہ کی عبادت کرو اُس کے ساتھ کسی چیز
کو شریک کیے بغیر، سب مل کر اس کی رسی سے چمٹ جاؤ اور تفرقہ نہ کرو، اور
مسلمانوں کے اولیاء الامور کا خیرخواہ اور وفادار رہو۔کیونکہ اگر اللہ کو ہمارے
لیے یہ باتیں خاص طور پر پسند ہیں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ مومن جوکہ ایسی اشیاء کو
لازماً پسند کرے گا جو اللہ کو پسند ہوں، ان اشیاء کے معاملہ میں دل کا پاپی ہو
یعنی وہ ان فرائض کی بابت بغض اور کدورت
رکھے اور دین کے ان خصوصی فرائض سے متنفر ہو۔ مومن کا دل تو لازماً ان باتوں سے
محبت کرے گا اور ان پر راضی برضا رہے گا۔
’’جماعت‘‘ سے پیوستگی: سمع، اطاعت، حوصلہ، صبر
وَفِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ وَغَيْرِهِمَا عَنْ عبادة بْنِ
الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَايَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ
وَالْيُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ؛ وَعَلَى أُثْرَةٍ عَلَيْنَا وَعَلَى
أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَعَلَى أَنْ نَقُولَ أَوْ نَقُومَ بِالْحَقِّ
أَيْنَمَا كُنَّا؛ لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ۔ (صحیح البخاری 7199، صحیح مسلم
1709)
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتبِ
حدیث میں عبادہ بن الصامت سے روایت ہوئی، کہا: رسول اللہﷺ نے ہم سے بیعت لی اس پر کہ: ہم سمع
اور اطاعت کریں گے چاہے تنگی ہو یا آسانی، دل مانتا ہو یا نہ مانتا ہو، اور اگرچہ
ہمارے ساتھ امتیازی سلوک ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔ اور یہ کہ ہم اصحابِ اختیار کے ساتھ
اختیار پر نہ الجھیں گے۔ اور یہ کہ ہم حق
کہیں گے (یا یوں فرمایا کہ) حق پر پورا اتریں گے چاہے جہاں بھی ہوں، اللہ کے
معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔
وَفِي الصَّحِيحَيْنِ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: عَلَى الْمَرْءِ
الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ؛ إلَّا أَنْ يُؤْمَرَ
بِمَعْصِيَةِ فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةِ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةٌ۔ (البخاری 7144، مسلم 1839)
صحیحین ہی میں عبد اللہ بن عمر سے روایت
ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: مسلمان آدمی پر فرض ہے سمع و اطاعت، چاہے کوئی بات اس کی
پسند کی ہو یا ناپسند کی، ہاں سوائے جہاں اس کو (امیر کی طرف سے) گناہ پر مبنی حکم دیا جائے۔ پس جب اسے گناہ پر مبنی حکم دیا
جائے اس وقت کوئی سمع و اطاعت نہیں۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْك بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي عُسْرِك
وَيُسْرِك وَمَنْشَطِك وَمَكْرَهِك وَأُثْرَةٍ عَلَيْك (مسلم رقم 1836)
مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: سمع اور اطاعت کو لازم پکڑو چاہے تنگی ہو چاہے آسانی، چاہے دل مانتا ہو چاہے نہ مانتا ہو، اور اس
حال میں بھی جب تم پر کسی کو ترجیح دی جائے۔
اوپر ابو
ہریرہ کی حدیث میں اور اس سے پہلے عبادۃ بن الصامت کی حدیث میں ’’أثَرَۃٌ‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر امراء
تم پر کسی اور کو ناحق ترجیح دیں، یعنی تمہارے ساتھ زیادتی و ناانصافی ہو اور
تمہاری حق تلفی ہو تو بھی سمع اور اطاعت کی روش پر ہی قائم رہنا۔ جیساکہ :
فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ أسيد بْنِ حضير رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ
رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَلَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَلَّا تَسْتَعْمِلُنِي كَمَا اسْتَعْمَلْت فُلَانًا؟ فَقَالَ: إنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي
أُثْرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ۔
(البخاری 3792، مسلم 1845)
صحیحین میں اسید بن حضیر سے روایت ہے، کہ انصار کا ایک آدمی
رسول اللہﷺ کے ساتھ علیحدگی میں ملا اور عرض کی: جس طرح آپ نے فلاں آدمی کو ذمہ
داری دی کیا مجھے بھی کوئی ذمہ داری نہیں دیتے؟ آپؐ نے فرمایا: تم کو میرے بعد ایک
ترجیحی سلوک دیکھنے کو ملے گا، پس صبر کیے رہنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر ہی آملو۔
اور یہ وہی
بات ہے جو عبد اللہ بن مسعود کی حدیث میں آئی:
فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُول
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنَّهَا تَكُونُ بَعْدِي أُثْرَةٌ
وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا قَالُوا: يَا رَسُول اللَّهِ كَيْفَ تَأْمُرُ مَنْ
أَدْرَكَ مِنَّا ذَلِكَ؟ قَالَ؟ تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ
وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ۔
(البخاری 3603
مسلم 1843)
صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ
نے: میرے بعد امتیازی سلوک ہونے لگے گا
اور ایسے امور جن کو تم برا جانو۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! جو شخص وہ
زمانہ پائے اُس کے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: تم پر جو حق ہو وہ ادا کرتے رہنا
اور جو تمہارا حق بنتا ہو وہ اللہ سے
مانگنا۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ وَائِلِ بْنِ حجر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ
سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الجعفي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ
يَسْأَلُونَنَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ؛ ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ؛
ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ
بْنُ قَيْسٍ قَالَ؛ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَعُوا
وَأَطِيعُوا؛ فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ۔ (صحیح مسلم رقم
1846)
اور صحیح مسلم میں وائل بن
حجر سے روایت ہے، کہا: ایک بار سلمہ بن
یزید جعفی رسول اللہﷺ سے دریافت کرنے لگے، بولے:
اے اللہ کے رسول! اگر ہم پر ایسے امراء مقرر ہوجائیں جو ہم سے تو اپنا حق مانگیں
مگر ہمیں ہمارا حق نہ دیں، تو آپ کا کیا حکم ہے؟ تب رسول اللہﷺ نے اس سے اعراض
کیا۔ اُس نے پھر پوچھا، آپؐ نے اعراض کیا۔ اُس نے پھر دوسری یا تیسری بار پوچھا،
جس پر اشعث بن قیس نے اس کو کھینچا۔
کہا: تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: سمع اور اطاعت ہی کرنا؛ کیونکہ وہ اپنی ذمہ داریوں
کے جوابدہ ہوں گے اور تم اپنی ذمہ داریوں کے۔
چنانچہ اللہ
تعالیٰ نے اور اُس کے رسولﷺ نے اولیاء الامور کا فرماں بردار اور وفادار و خیرخواہ رہنے کا جو حکم دیا ہے،
وہ مسلمان پر واجب ہے، اگرچہ وہ اسکے ساتھ امتیازی سلوک ہی کیوں نہ کریں۔ اسی طرح اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے
اولیاء الامور کی نافرمانی سے جو منع فرمایا ہے، وہ اس پر حرام ہے اگرچہ وہ اس پر
مجبور کیوں نہ کیا جائے۔
اولی الامر کی اطاعت
نماز روزہ ہی کی طرح واجب ہے
اولی الامر کی
یہ جو اطاعت اور وفاداری ہے اور جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے باقاعدہ حکم دے
رکھا ہے، یہ انسان پر واجب ہے اگرچہ اولی الامر کے ساتھ آدمی کا کوئی عہد و پیمان نہ بھی ہو اور ان کے مابین
کوئی باقاعدہ حلف برداری نہ ہوئی ہو۔ جس طرح اُس پر پنج وقتہ نماز فرض ہے، زکات فرض ہے، روزہ اور خانہ کعبہ
کا حج فرض ہے، یا اسی طرح کے دیگر امور جن کا اللہ
اور اس کے رسول نے حکم دے رکھا ہے۔ چنانچہ آدمی اگر اس پر کوئی عہد یا حلف بھی
اٹھا لے تو وہ ایک ایسی چیز کی تاکید ہی کو بڑھا دے گا جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے پہلے سے فرض
ٹھہرا رکھا ہے یعنی اولی الامر کی اطاعت اور مناصحت۔ چنانچہ آدمی نے اگر
ان امور پر کوئی حلف اٹھایا ہو تو اس کےلیے جائز نہیں رہتا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرے، چاہے اس نے اللہ کے
نام پر یہ حلف اٹھایا ہو یا اس حلف کا کوئی اور انداز اختیار کیا ہو جو مسلمانوں
کے ہاں معروف ہے۔ غرض اولی الامر کی جو اطاعت اور مناصحت (خیرخواہی اور وفاداری)
اللہ نے فرض کررکھی ہے وہ فرض ہے اگرچہ اس پر کوئی حلف برداری نہ ہوئی ہو؛ اور اگر حلف اٹھایا ہو پھر تو اور بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اولی الامر کی نافرمانی اور خیانت کا
مرتکب ہونا جسے اللہ اور رسولؐ نے ممنوع ٹھہرا رکھا ہے وہ حرام ہے اگرچہ ان کے
مابین اس پر حلف برداری نہ بھی ہوئی ہو۔
یہ ایسا ہی ہے
جیسے آدمی یہ حلف اٹھائے کہ وہ لازماً پنج وقتہ نماز ادا کرے گا، رمضان کے روزے
رکھے گا، یا یہ کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا، یا حق بات کی شہادت دے گا، تو یہ
بات انسان پر ویسے بھی واجب ہے اگرچہ اس نے یہ حلف نہ اٹھایا ہو؛ ہاں اگر حلف
اٹھایا پھر تو اور بھی ضروری ہے۔ اسی طرح وہ باتیں جن سے اللہ اور اس کے رسولؐ نے
منع فرمایا ہے مانند شرک، جھوٹ، شراب خوری، ظلم، بےحیائی کے کام، اولی الامر کے
ساتھ خیانت اور ان کی اس اطاعت سے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے خروج کرلینا وغیرہ...
تو یہ اشیاء حرام ہیں، اگرچہ ان سے مجتنب رہنے کا حلف آدمی نے نہ بھی اٹھایا ہو؛
ہاں اگر حلف اٹھایا ہو پھر تو اس کی سنگینی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
نیکی کا حلف بردار
اپنے حلف کو توڑنے کا مجاز نہیں
بنابریں، جس شخص نے اللہ اور رسولؐ
کے حکم کردہ کسی نیک کام کا حلف اٹھایا ہومانند امراء کی اطاعت و خیرخواہی، نماز،
زکاۃ، روزہ یا ادائے امانت وغیرہ: تو کسی مفتی کےلیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کو
اپنے حلف کی خلاف ورزی کرلینے اور اپنی قسم توڑ لینے کا فتویٰ دے۔ نہ خود اس شخص کےلیے جائز ہے کہ
وہ اس کےلیے فتویٰ لیتا پھرے۔ ایسے شخص کو جو آدمی فتویٰ دے کہ وہ اپنے حلف کی خلاف
ورزی کرلے یا اپنی قسم توڑ لے، وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا اور دین اسلام کے
برخلاف فتویٰ دینے والا ہے۔ حق یہ ہے کہ ایسا مفتی اگر ایک عام آدمی کو جس نے
تجارت کے کسی سودے یا نکاح یا اجارہ یا کسی بھی عقدنامے کے اندر باقاعدہ کوئی حلف
اٹھایا ہے، جبکہ وہ عقدنامہ ایسا ہے کہ اگر وہ اس پر حلف نہ بھی اٹھاتا تو بھی اس
کا پابند ہی ہوتا تاہم جب حلف اٹھا لیا تو وہ اس کا اور بھی پابند ہوا، یہ فتویٰ
دے کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرلے اور اپنی قسم کی پروا نہ کرے: تو وہ مفتی
اللہ پر جھوٹ باندھنے والا اور دین اسلام کے برخلاف فتویٰ دینے والا ہوگا۔ تو پھر
کیا خیال ہے اگر وہ مفتی اولیاء الامور ہی کے ساتھ مسلمان کے عہد وپیمان کے متعلق
ایسا فتویٰ دے؟! حالانکہ یہ سب سے بڑا عقدنامہ ہے جس کا پابند رہنے کا حکم اللہ رب
العزت نے دیا ہے۔
ناحق مجبور کرکے اٹھوایا جانے والا حلف دین میں معتبر نہیں
اسی طرح جمہور
علماء کا قول ہےکہ: ایک شخص سے حالتِ اکراہ (حالتِ مجبوری) میں اٹھوائی گئی
قسم منعقد نہیں ہوتی، چاہےوہ اللہ کی قسم ہو یا نذر ہو یا طلاق یا عتاق (غلام کو
آزاد کرنا)۔ یہ مذہب ہے امام مالک، شافعی اور احمد کا۔ تاہم ولی الامر اگر رعایا
کو اپنی اطاعت اور وفاداری کےلیے وہاں پر مجبور کرے جہاں ان پر اس کی اطاعت و
وفاداری واجب ہے، اور اس پر ان سے حلف لے: وہاں کسی مفتی کےلیے جائز نہیں کہ وہ
رعایا کو اجازت دے کہ وہ اس چیز کو ترک کرلیں جس کا اللہ اور رسولؐ کی طرف ان کو
حکم ہے۔ کوئی مفتی اس بات کا مجاز نہیں کہ وہ لوگوں کو
اس معاملہ میں اپنی قسمیں توڑ ڈالنے کی چھوٹ دے۔ کیونکہ جو چیز قسم اٹھائے بغیر
بھی شریعت میں واجب ہی تھی، قسم سے وہ مزید تقویت پائے گی نہ کہ اپنی اصل حیثیت سے
بھی نیچے چلی جائے گی، اگرچہ یہ فرض کیوں نہ کرلیا جائے کہ آدمی اُس چیز پہ (جس کا
وہ ویسے ہی ازروئے شریعت پابند تھا) قسم اٹھانے پر مجبور کردیا گیا تھا۔
ہاں جو شخص یہ کہنا چاہے کہ بعض
قَسموں میں مطلق پابندی لازم آتی ہے، تاکہ حکمرانوں کے بعض مواقع پر حلف اٹھوانے کی مطلق گنجائش
نکل آئے تو اسے کہا جائے گا کہ خود تمہارا موقف مجبوری کی قسم کے متعلق اس کے
برخلاف ہے اور تمہارے اپنے قول کی رو سے مجبوری کی قسم واقع نہیں ہوتی اگرچہ وہ
قسم حکمران نے کیوں نہ اٹھوائی ہو۔ اسی طرح بہت سے حیلوں میں تم جو راستہ اختیار
کرتے ہو وہ اس (حکمران کے مجبور کرنے پر پر اٹھوائے جانے والے حلف کو ہر حال میں
لازم ٹھہرانے) کے خلاف جاتا ہے، علاوہ اس کے جو اس میں اللہ اور رسول اور اولیاء
الامور کی نافرمانی لازم آتی ہے۔
جہاں تک اہل
علم و دین اور اہل فضل کا تعلق ہے تو وہ کسی کو چھوٹ نہیں دیتے کہ وہ اولی
الامر کی نافرمانی کرکے خدا کے ایک ممنوعہ کام کا ارتکاب کرے۔ یہ (اہل علم وفضل)
امراء کے ساتھ خیانت کرنے یا ان کے خلاف خروج کرلینے کی کسی بھی طرح اجازت نہیں
دیتے؛ اور یہ بات اہل سنت کےہاں قدیم سے لے کر آج تک ایک روایت اور دستور کی صورت
میں معروف چلی آتی ہے۔
بیعتِ شرعی کو توڑنے کی سنگینی۔۔۔ خونِ مسلم کی حرمت
صحیح حدیث میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبیﷺ
نے فرمایا:
يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ
لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اسْتِهِ بِقَدْرِ غَدْرِهِ۔ (صحیح مسلم
رقم 1738)
قیامت کے روز ہر غدر کرنے والے کی دبر کے
پاس ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔
پھر عبد اللہ
بن عمر نے کہا: سب سے بڑا غدر تو وہ ہے جو امام المسلمین کے ساتھ کیا جائے۔ یہ حدیث عبد اللہ بن عمر نے اس وقت
بیان کی جب اہل مدینہ کے کچھ لوگ اپنے ولی الامر کی اطاعت سے خروج کرنے لگے تھے
اور اس کی بیعت توڑنے جارہے تھے۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ
عَنْ نَافِعٍ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ؛ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ
مُعَاوِيَةَ؛ فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً. فَقَالَ:
إنِّي لَمْ آتِك لِأَجْلِسَ أَتَيْتُك لِأُحَدِّثَك حَدِيثًا؛ سَمِعْت رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ خَلَعَ يَدًا لَقِيَ
اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا حُجَّةَ لَهُ؛ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي
عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔ (رقم 1851)
مسلم نافعؒ سے روایت ہے، کہا: عبد اللہ بن عمر
عبد اللہ بن مطیع کے ہاں تشریف لائے جس وقت حرہ کا واقعہ ہونے جا رہا تھا، یزید بن
معاویہ کے دور میں۔ تب عبداللہ بن مطیع بولا: ابو عبد الرحمن (عبد اللہ بن عمر)
کےلیے تکیہ پیش کرو۔ تو عبداللہ نے فرمایا: میں تمہارے یہاں بیٹھنے نہیں آیا،
میں تو تمہیں ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سن رکھی ہے، آپﷺ نے
فرمایا: جس نے (اطاعت اور وفاداری سے) اپنا ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے روز اللہ سے
اس حالت میں ملے گا کہ وہ پیش کرنے کو کوئی حجت نہ رکھے گا۔ اور جو شخص ایسی حالت میں مرا
کہ اس کی گردن میں کوئی بیعت نہ ہوئی، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
وَفِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ
ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ
عَلَيْهِ؛ فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ يَخْرُجُ مِنْ السُّلْطَانِ
شِبْرًا فَمَاتَ عَلَيْهِ إلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔ (البخاری 7053 مسلم 1854)
صحیحین میں عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ
نے: جس نے اپنے امیر سے کوئی ایسی چیز دیکھی جس کو معیوب جانتا ہے تو اسے چاہئے کہ
صبر کرے۔ کیونکہ جو شخص سلطنتِ (اسلامی) سے ایک بالشت بھی نکلتا ہے پھر
اسی حالت میں مر جاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ خَرَجَ مِنْ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ
الْجَمَاعَةَ؛ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً؛ وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ
عُمِيَّةٍ؛ يَغْضَبُ لِعَصَبَيَّةِ، أَوْ يَدْعُو إلَى عَصَبَيَّةٍ؛ أَوْ يَنْصُرُ
عَصَبَيَّةً فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ ۔ (رقم 1848)
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺ نے
فرمایا: جو شخص اطاعت سے نکلا اور
جماعت سے مفارقت کرگیا اور اسی حالت میں مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جس شخص نے اندھے پرچم تلے لڑائی کی، یوں کہ وہ کسی عصبیت کےلیے جوش میں آتا ہے، یا عصبیت کی دعوت دیتا
ہے، یا عصبیت کی نصرت کرتا ہے، اور اس میں وہ مارا جاتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت
مارا جاتا ہے۔
وَفِي لَفْظٍ: لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مِنْ خَرَجَ عَلَى
أُمَّتِي يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا وَلَا يَتَحَاشَى مِنْ مُؤْمِنِهَا وَلَا
يُوفِي لِذِي عَهْدِهَا؛ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْت مِنْهُ۔ (صحیح مسلم
رقم 1848)
جبکہ حدیث کے ایک اور الفاظ یہ ہیں: وہ شخص میری امت سے نہیں
ہے جو میری امت کے خلاف خروج کرے اور اس کے نیک بد ہر کسی کو موت کے گھاٹ اتارتا
پھرے، نہ مومن کو چھوڑنے کا روادار ہو اور نہ معاہد کے عہد کو پورا کرتا ہو۔ نہ وہ
مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں۔
یہاں
(ابوہریرہ والی حدیث میں):
1. پہلا شخص وہ ہوا جو والی کی اطاعت سے نکلتا ہے اور جماعت
سے مفارقت اختیار کرلیتا ہے۔
2. دوسرا، وہ شخص جو عصبیت یا اقتدار کی خاطر لڑتا ہے، نہ کہ اللہ
کے راستے میں، جیساکہ اہل الاھواء لڑتے ہیں ،مثلاً قیسی قبائل اور یمنی قبائل کی
جنگ۔
3. تیسرا، وہ شخص جو رہزنی کرتا ہے؛ کیا مسلم کیا ذمی، ہر کسی کو
مارتا اور اس کا مال قبض کرتا پھرتا ہے، یا جس طرح حروریہ (خوارج) ایسے
باغی، جن سے حضرت علی بن ابی طالب نے قتال فرمایا تھا، اور جن کے بارے میں نبیﷺ
کی حدیث ہے: يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ
مَعَ صِيَامِهِمْ وَقِرَاءَتَهُ مَعَ قِرَاءَتِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا
يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ
مِنْ الرَّمِيَّةِ أَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ؛
فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ ’’تم میں سے
ایک آدمی اُن (خوارج) کی نماز کے آگے، اپنے روزوں کو اُن کے روزوں کے آگے، اور
اپنے قرآن پڑھنے کو اُن کے قرآن پڑھنے کے آگے کمتر جانے گا۔ وہ قرآن پڑھیں گے جو
ان کے حلقوں سے آگے نہ جاتا ہوگا۔ وہ اسلام سے یوں نکلے ہوں گے جیسے تیر اپنے شکار
کو مار کر نکل جاتا ہے۔ جہاں تمہارا ان کا سامنا ہو ان کو مارو؛ کیونکہ ان کو قتل
کرنے والے کےلیے روزِ قیامت اللہ کے ہاں خاص اجر ہے‘‘۔
نبیﷺ نے ولی
الامر کی اطاعت میں رہنے کا حکم دیا ہے اگرچہ حبشی غلام کیوں نہ ہو، جیساکہ مسلم میں نبیﷺ کا حکم ہے:
اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا
وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ۔
سمع و اطاعت پر کاربند رہو اگرچہ ایک حبشی
غلام جس کا سر منقے جیسا ہو تم پر والی مقرر کیا گیا ہو۔
وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ:
أَوْصَانِي خَلِيلِي أَنْ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا؛ وَلَوْ كَانَ حَبَشِيًّا
مُجَدَّعَ الْأَطْرَافِ۔
ابو ذر سے روایت ہے، کہا: میرے پیارےﷺ نے مجھے تلقین
فرمائی تھی کہ: ’’سمع و اطاعت کا پابند رہنا، اگرچہ وہ کوئی حبشی غلام ہو جس کے
اعضاء کٹے ہوئے ہوں‘‘
وَعَنْ الْبُخَارِيِّ:
وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ۔
بخاری کی روایت میں: ’’اگرچہ ایسے حبشی
(کی اطاعت کرنی پڑے) جس کا سر منقے جیسا ہو‘‘
بہترین ائمہ اور بدترین ائمہ؟ انکی
نافرمانی کب ہوسکتی ہے؟
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ
عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَقُولُ: وَلَوْ
اسْتَعْمَلَ عَبْدًا يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ
اللَّهِ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا۔
صحیح مسلم میں ام الحصین سے روایت ہے، کہ انہوں نے رسول اللہﷺ
کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگرچہ تم پر ایک غلام کو والی کیوں نہ
بنایا گیا ہو جو تم کو کتاب اللہ کے مطابق چلائے، تو سمع و اطاعت ہی کرو۔
وَفِي رِوَايَةٍ: عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ۔
ایک روایت میں الفاظ ہیں: نکٹا حبشی غلام
کیوں نہ ہو
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ
مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ: خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ
وَيُحِبُّونَكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَشِرَارُ
أَئِمَّتِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ
وَيَلْعَنُونَكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ
عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لَا؛ مَا أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ۔ لَا؛ مَا
أَقَامُوا فِيكُمْ الصَّلَاةَ۔ أَلَا مَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي
شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةٍ فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا
يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ۔ (رقم
1855)
صحیح مسلم میں عوف بن مالک سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے
بہترین ائمہ (والی) وہ ہوں گےجو تمہیں محبوب ہوں اور وہ تم ان کو محبوب ہو، تم ان
کےلیے دعاگو رہو اور وہ تمہارے لیے دعاگو رہیں۔ جبکہ تمہارے بدترین ائمہ (والی) وہ
ہوں گے جو تمہیں مبغوض ہوں اور تم ان کو مبغوض ہو، تم ان پر لعنتیں کرو اور وہ تم
پر لعنتیں کریں‘‘۔ ہم نے عرض کی: اگر ایسا وقت آجائے تو کیا ہم تلوار کے ساتھ ان
کے مقابلے پر نہ آجائیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، تاوقتیکہ وہ تم میں نماز قائم کیے
رکھیں تب تک نہیں۔ نہیں، تاوقتیکہ وہ تم میں نماز قائم کیے رہیں تب تک نہیں۔ خبردار! تم
میں سے جس پر کوئی ایسا والی مقرر ہو اور وہ دیکھے کہ والی خدا کی نافرمانی کا
کوئی کام کرتا ہے تو اُسے چاہئے کہ والی کے اُس کام کو جو خدا کی نافرمانی ہے
ناپسند ہی جانتا رہے، مگر (اس کی) اطاعت سے ہرگز ہرگز ہاتھ نہ کھینچے‘‘۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ
بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ
نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ. الَّذِينَ يَعْدِلُونَ
فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا ۔ (رقم 1827)
صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے، کہا: فرمایا
رسول اللہﷺ نے: بےشک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں جا کر،
رحمٰن کے داہنے ہاتھ، نور کے منبروں پر
نشست کریں گے، جبکہ رحمٰن کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے
فیصلوں کے اندر اور اپنے گھر والوں کے معاملے میں نیز جس جس چیز میں ان کا اختیار
ہے، انصاف کرتے ہیں۔
وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ عَنْ عَائِشَةَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا
فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي
شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ۔ (رقم 1828)
مسلم میں عائشہ سے
روایت ہے، کہ انہوں نے سنا رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے: اے اللہ! جس شخص نے میری امت کے کسی
معاملے میں عہدہ دار بن کر ان پر سختی کی تو اُس پر سختی کر۔ اور جس شخص نے میری امت کے کسی
معاملہ میں عہدہ دار بن کر ان پر نرمی کی تو اس پر نرمی فرما۔
وَفِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ
الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ عَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ
يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ: إنِّي
مُحَدِّثُك حَدِيثًا سَمِعْته مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ إنِّي سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
يَقُولُ: مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ
وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ إلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ۔ (البخاری 7150، مسلم 1829)
صحیحین میں حسن بصریؒ سے روایت ہے، کہا:
عبیداللہ بن زیاد صحابیِ رسولؐ معقل بن یسار کی بیماریِ مرگ میں ان کی عیادت کرنے گیا تو
حضرت معقل نے زیاد سے کہا: میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں جسے میں نے خود رسول
اللہﷺ سے سنا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص کو اللہ کسی رعایا کا راعی بنائے اور وہ مرے اس
حال میں کہ اپنی رعایا کا حق ادا کرنے میں خائن تھا، اللہ نے اس پر جنت حرام کردی
ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ
لِمُسْلِمِ: مَا مِنْ أَمِيرٍ يَلِي مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئًا ثُمَّ لَا
يَجْهَدُ لَهُمْ وَيَنْصَحُ إلَّا لَمْ يَدْخُلْ مَعَهُمْ الْجَنَّةَ۔ (رقم 1829)
مسلم کی ایک روایت میں الفاظ یوں ہیں: جو
بھی امیر مسلمانوں کے کسی معاملہ کا عہدہ دار بنے اور وہ ان کےلیے اپنی پوری
توانائی صرف نہ کردے اور ان کی خیرخواہی میں پورا زور نہ لگادے، تو ایسا امیر ان
کے ساتھ جنت میں داخل ہونے والا نہیں۔
اطاعت صرف
معروف میں
وَفِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ
ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَنَّهُ قَالَ: أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
وَالرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ
رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُ. وَالْعَبْدُ رَاعٍ
عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ
مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ (البخاری 893، مسلم 1829)
صحیحین میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے
کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’خبردار! تم میں سے ہر کوئی راعی ہےاور ہر کوئی اپنی رعیت کی
بابت جوابدہ ہے۔ آدمی اپنے اہل خانہ پر راعی ہے اور ان کی بابت جوابدہ ہے۔ عورت
اپنے خاوند کے گھر کی راعی ہے اور اس کی بابت جوابدہ ہے۔ غلام اپنے مالک کے مال کا
راعی ہے اور اس کی بابت جوابدہ۔ خبردار! تم میں سے ہر کوئی راعی ہے اور اپنی رعیت
کی بابت جوابدہ‘‘۔
وَفِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ
جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا؛ فَأَوْقَدَ نَارًا فَقَالَ: اُدْخُلُوهَا.
فَأَرَادَ النَّاسُ أَنْ يَدْخُلُوهَا وَقَالَ الْآخَرُونَ. إنَّا فَرَرْنَا
مِنْهَا فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا: لَوْ دَخَلْتُمُوهَا لَمْ تَزَالُوا
فِيهَا إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَالَ لِلْآخَرِينَ قَوْلًا حَسَنًا؛ وَقَالَ:
لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ؛ إنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ۔ (البخاری 7557، مسلم 1840)
صحیحین میں علی سے روایت ہے کہ: نبیﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور
اس پر ایک امیر مقرر کیا؛ تب اُس نے آگ کا الاؤ جلایا اور ان کو حکم دیا کہ اس آگ
میں کود جائیں۔ کچھ لوگوں نےارادہ کر بھی لیا کہ کود جائیں۔ کچھ دوسرے لوگ بولے:
آگ سے ہی تو ہم بھاگے ہیں۔ تب انہوں نے (واپس آکر) رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا تو
آپﷺ نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے آگ میں کود جانے کا ارادہ کیا تھا فرمایا: اگر
وہ اس میں کود جاتے تو قیامت تک اسی میں
رہتے۔ دوسرے فریق کو رسول اللہﷺ نے شاباش دی، اور فرمایا: ’’اللہ کی نافرمانی میں
(امیر کی) کوئی فرماں برداری (جائز) نہیں۔ اطاعت صرف معروف کے اندر اندر۔
باقی فصول آئندہ (ان شاء اللہ)۔ حالیہ
شمارہ میں اِسی فصل کے موضوعات کو
’’تعلیقات‘‘ کی صورت میں مزید کھولا گیا ہے۔