عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
تحریکی عمل کو جو پختگی درکار ہے
:عنوان

آدمی کی سمجھ اور فقہ کا امتحان تو اصل میں وہاں ہوتا ہے جہاں اسے دو خیروں میں سے "خیر" کا چناؤ کرنا ہوتا ہے یا دو شرّوں میں سے "شر" کو دفع۔۔۔ ابن تیمیہ

. اصولمنہج . اداریہ :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

ہمارے مضمون ’’درمیانی مرحلے کے بعض احکام‘‘ اور اس سے چل نکلنے والے سلسلۂ کلام پر تنقید، احتجاج اور تبصروں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ہمارا زیادہ وقت اِس دوران ابن تیمیہؒ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پر تعلیقات میں صرف ہوا، جس کی وجہ سے یہ موضوع قدرے موخر ہورہا ہے۔ ہم اُن حضرات کے ممنون ہیں جنہوں نے اِس سلسلہ میں ہمیں اپنی قیمتی آراء  اور تنقید سے مستفید فرمایا۔ جیسے ہی اس پر تفصیلی گفتگو کی گنجائش ہوئی، ہم ایسے بعض مراسلے بھی ان شاء اللہ ضرور شائع کریں گے۔

*****

مسلم دنیا کو پچھلے ڈیڑھ سو سال سے جس عظیم آفت کا سامنا ہے (یعنی امت کا مکمل طور پر مغلوب ہو جانا اور شریعت کا معاشرے پر اپنی بالادستی کھودینا)... بلاشبہ وہ ہماری تاریخ کی منفرد ترین آزمائش ہے؛ ایسی ناشدنی صورتحال اس سے پہلے کبھی اس امت کو پیش نہیں آئی۔ ایسے میں؛ خود اہل علم کے ہاں خاصی خاصی مختلف آراء کا پیدا ہونا خصوصاً اس سے نمٹنے کےلیے ایک سے زیادہ طرزِ عمل سامنے آنا ایک طبعی بات ہے۔  یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جس پر وحی اترتی ہو اور اِس وجہ سے  ہم اسی کی بات کو درست اور باقی سب کو ہیچ کہہ ڈالیں۔ اور اس لحاظ سے تو سب لوگ برابر ہیں؛ یہاں پیش کیے جانے والے سب آراء، سب حل اور سب لائحہ عمل یکساں ہیں؛ کسی کو کسی پر مقدم نہیں رکھا جا سکتا۔

تاہم یہ بات کچھ بند راستے کھولنے، آراء کی چھان پھٹک اور گہرائی میں جا کر ایک چیز کا مطالعہ کرنے کے اندر مانع نہیں۔ یہاں کوئی بھی کسی پر مقدم نہیں، پھر بھی ایک طالب علم کو آگے بڑھنے کےلیے کچھ نہ کچھ پیرامیٹرز parameters  درکار رہیں گے۔ لہٰذا ہماری جتنی بھی گفتگو اِس موضوع پر آج تک رہی ہے یا آئندہ ہوگی، صرف اِس حوالے سے ہے۔ ہماری درخواست ہے، اِس پورے سلسلۂ گفتگو کو اِس سیاق سے باہر نہ لیا جائے۔

چونکہ طالبعلمی کی سطح کی ایک بات ہورہی ہے، جس میں اشیاء کو سمجھنے سمجھانے کےلیے ایک گونہ صراحت اور بےتکلفی کے بغیر چارہ نہیں، لہٰذا یہاں اگر کوئی ’محسوس‘ ہونے والی بات آئے تو وہ اِسی قبیل سے ہوگی، جس پر ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔ سب اہل سنت طبقے، گروہ اور تحریکیں ہمارے لیے حد سے بڑھ کر قابل احترام ہیں؛ ان سب  بھائیوں کے ساتھ محبت اور وابستگی کے ہم دل سے قائل ہیں اور خیر کی راہ میں ان کےلیے توفیق و کامیابی، ان کی لغزشوں کی بخشش، غلطیوں کی اصلاح اور نیکیوں کی قبولیت کےلیے ہمہ دم دعا گو۔

*****

طالبعلم کو درکار پیرامیٹرز parameters  کے حوالے سے شاید سب سے پہلی بات یہ کہ...:

ایک طالب علم اپنے لیے جہاں سے علمی و فقہی راہنمائی لے ، جن علمی شخصیات کی آراء کو وزنی اور قابلِ توجہ جانے، ایک تو یہ دیکھے کہ اُس خاص موضوع پراُن شخصیات کے ہاں علمی گہرائی اور وسعتِ نظر ومطالعہ کی کیا صورتحال ہے۔ اس خاص موضوع پر اُن کا علم کیا تخصص specialization  کے درجے کا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر اہم یہ کہ اس پر کیا ان شخصیات کو فکری استحکام حاصل ہے؟

فکری استحکام intellectual stability  سے ہماری کیا مراد ہے؟

وہ علمی شخصیات جو ایک عرصہ سے کسی مسئلہ پر صاحبِ موقف ہیں اور اس پر جتنی سی علمی تحقیق اور مطالعہ ضروری ہے وہ بہت پہلے (اپنے زمانۂ طالبعلمی میں ہی) اس سے عمومی فراغت پا چکی ہیں... اتفاق یا اختلاف بےشک آپ ان شخصیات سے بھی کریں گے، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طالبعلم کےلیے ان کی آراء کی جانب رجوع کرنا ایک درست بات ہے۔

لیکن وہ شخصیات جنہوں نے کسی تحریکی موضوع پر ’’تحقیق‘‘ اور ’’مطالعہ‘‘ کا مرحلہ ہی سر نہیں کیا؛ تحریکی دنیا سے متعلقہ بہت سے مباحث ان کےلیے نئے ہیں؛ اپنی دعوتی و تحریکی زندگی میں یہ نیک شخصیات اِس وقت جن اشیاء کی قائل ہیں چند سال پیشتر ابھی یہ ان اشیاء کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور شاید کچھ دیر تک ان کو رد بھی کرتی رہی ہوں؛ یعنی خود یہ اشیاء بھی جن کو آج یہ ’حتمی وقطعی‘ سمجھنے لگی ہیں چند سال پہلے ان کےلیے ’’نئی‘‘ تھیں اور ان میں سے ایک ایک چیز کو سمجھنے اور اس پر شرح صدر پانے کےلیے ان کو ڈھیروں وقت درکار ہوا تھا؛ جبکہ ممکن ہے ایسی بہت سی اشیاء ابھی پڑی ہوں جن کو پڑھنے، سمجھنے اور ان پر شرح صدر پانے کےلیے ان کو ابھی ڈھیروں وقت درکار ہو...  غرض وہ شخصیات جن کا علمی سفر ’’تحریکی موضوعات‘‘ کے حوالے سے ابھی خاصا باقی ہے؛ اور اس سلسلہ میں بہت سی ’نقل مکانی‘ کا امکان ان کے ہاں ابھی پایا جاتا ہے اگرچہ وہ اس سے کتنا ہی انکار کریں اور اپنے آپ کو ’حتمی‘ مواقف پر پہنچا ہوا محسوس کریں... ہماری نظر میں ضروری ہے کہ ان سب شخصیات کو ابھی وقت دیا جائے؛ اور علمی مراجعہ کےلیے اِن حضرات کی بجائے عالم اسلام کی صرف اُن شخصیات کا رخ کیا جائے جو باقاعدہ ’’سکول آف تھاٹ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں اور بڑی دیر سے اپنے ان مواقف کے مالہٗ وماعلیہ کا ہمہ جہت بیان کرتی آرہی ہیں۔ اسی کو ہم علمی یا فکری استحکام  intellectual stability کہتے ہیں۔

اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ تحریکی ضرورت کے بہت سے مباحث جو اِس وقت میدان میں ہیں،  برصغیر کے باہر کی دنیا میں پروان چڑھے اور حالیہ برسوں میں یہاں ’’منتقل‘‘ ہوئے ہیں۔ چند برس یا چند عشرے پیشتر یہ موضوعات نہ یہاں پائے جاتے تھے اور نہ اِن کو پیش کرنے والی یہاں کی مقامی شخصیات ہیں۔ یہاں بہت سے دینی طبقے اب بھی ایسے ہیں جو عشروں پیشتر کے اُن مناہج ہی کو من وعن چلا رہے ہیں جو برصغیر کی کچھ شخصیات کے ہاتھوں سامنے لائے گئے تھے۔ بہت سی تنظیمیں، بہت سی جماعتیں، اپنے اُنہی عشروں پرانے طریقے پر یہاں دعوت اور تحریک کا کام کرنے میں شبانہ روز مصروف ہیں اور معاشرے کا ایک طبقہ ان کے ساتھ مل کر یہاں دین کے احیاء اور اقامت کےلیے سرگرمِ عمل ہے۔ اِن جماعتوں کا پیچھے جانا، خواہ اس کے جو بھی اسباب ہوں، حالیہ دگرگوں حالات میں اپنی جگہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ تاہم ایک تعداد یہاں اب ایسے داعیوں کی ہے جو اُس علمی پیش رفت کو بھی توجہ دینے لگی ہے جو پچھلے چند عشروں کے دوران عالم اسلام کے بعض دیگر خطوں خصوصاً عرب کی تحریکی دنیا میں سامنے آئی ہے؛ اور جس سے بہت دیر تک لاتعلق رہنا اِس گلوبل دنیا کے اندر ویسے ممکن بھی نہیں تھا۔  حق یہ ہے کہ یہاں کے اکثر علماء وفضلاء تک کے لیے یہ موضوعات نئے ہیں۔ یہ اصحابِ علم و فضل کچھ روایتی موضوعات میں بےشک اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں گے مگر اِن موضوعات کے حوالے سے یہ بڑی حد تک مبتدی ہیں۔

یہ ’’نئے موضوعات‘‘[1]  یہاں پہلے سے پائے جانے والے تحریکی عمل سے لوگوں کو دور کرنے کا بھی باعث بنے ہیں؛ جوکہ بجائے خود کوئی قابل حوصلہ افزائی واقعہ نہیں۔ تاحال یہ کوئی بہت صحتمند فنامنا  healthy phenomenon  ثابت نہیں ہوا۔ یہ یہاں پر پہلے سے پائے جانے والے تفرقہ، شدت پسندی، تکفیر اور انتشار کو مزید ہوا دینے کا ہی موجب ہوا ہے؛ یعنی یہاں کسی مسئلہ کا حل ہونے کی بجائے تاحال یہ مسائل پیدا کرنے اور پہلے سے پائی جانی والی الجھنوں کو بڑھانے کا باعث ہو رہا ہے۔ اس میں ’’مرجعیت‘‘ خاصی حد تک مفقود نظر آتی ہے۔ یعنی یہ واضح ہونا ان موضوعات میں دلچسپی رکھنے والے شخص کےلیے شدید دشوار ہے کہ ان مسائل میں رجوع کِن مصادر سے ہو؟ اس کی پیداکردہ پیچیدگیاں تاحال اس کی افادیت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جس کے باعث ہم سمجھتے ہیں کہ پختگی کی ایک اعلیٰ سطح رکھے بغیر ان موضوعات کو اپنی تحریکی دنیا میں درآمد کرنا یا پھیلانا شاید کہیں زیادہ نقصان دہ ہو اور اس کے مقابلے پر یہاں کے روایتی دینی طبقوں اور تنظیموں کا پابند رہنا کہیں زیادہ فائدہ مند۔

*****

البتہ یہ  طرزِ عمل تشویشناک ہوگا کہ ہر وہ بات جو آپ کےلیے نئی ہے، جبکہ وہ ایسی شخصیات کی پیش کردہ ہے جو تحریکی دنیا میں سکول آف تھاٹ مانی جاتی ہیں اور شروع دن سے وہ بات کرتی آ رہی ہیں، آپ اُس پر اچھی خاصی سنسنی بلکہ محاذکھڑا کرلیں! ’استغفراللہ، ایسی غلط بات! یہ تو نری مداہنت ہے اور دین کی فلاں اور فلاں حقیقت کے ساتھ کھلا تصادم!‘ ایسی کسی بات کو جو شاید آپ کےلیے نئی ہےاور جس کو سمجھنے کےلیے ابھی شاید آپ کو کچھ وقت بھی درکار ہے،  دین کی ’’طےشدہ‘‘ و ’’متفق علیہ‘‘ باتوں کے ساتھ تصادم قرار دینے کی بجائے یہ کہیں بہتر ہوگا کہ اس پر آپ غور و خوض کرلیں ؛ اس سے اختلاف بھی کرنا ہے تو کم از کم  اس کو ایک علمی رائے کے طور پر لیں نہ کہ ایک ایسے انحراف کے طور پر جس کا لازماً رد ہونا چاہئے!

ایک علمی رائے سے بھی اختلاف تو بےشک آپ کرسکتے ہیں، لیکن  اس کو ایک منحرف سوچ کا درجہ دینا اس کے ساتھ، اور بطورِ طالبعلم خود اپنے ساتھ، زیادتی ہوگی۔  یہ رویے ہمارے نوجوانوں میں پختگی آنے کے اندر مانع رہیں گے۔

*****

یہ ایک مانی ہوئی established   علمی رائے ہے اور امت کے چوٹی کے اہل علم کے ہاں معتبر چلی آتی ہے کہ اِن دو باتوں میں فرق کیا جائے:

1.       ایک ہے معصیت پر مبنی ایک نظام کو ابتداءً  by origination  یا اختیاراً by choice وجود میں لانا، جوکہ یقینی طور پر غلط اور بذاتِ خود معصیت ہے۔

2.       اور ایک ہے معصیت پر مبنی ایک پہلے سے چلے آتے نظام  کے ساتھ معاملہ کرنا؛ اور اس میں ظلم اور معصیت کے عوامل کو کم کرنے اور خیر و عدل کے عوامل کو بڑھانے کےلیے اُس کے اندر کوئی کردار ادا کرنا، جوکہ مصالح اور مفاسد کی بنیاد پر اختیار کیا جانے والا ایک معتبر شرعی باب ہے۔

اس پر حالیہ شمارہ میں الگ سے ایک مضمون شاملِ اشاعت ہے (از تالیف شیخ ابراہیم السکران)، مسئلہ کی تفصیل وہاں سے دیکھی جا سکتی ہے۔

ایک نظام یا ایک اجتماعتی صورتحال کو باطل کہنے کے باوجود اس کے اندر کسی وقت کوئی فائدہ مند کردار ادا کرنے کا جواز دیکھنا... علماء کے ہاں ہمیشہ انہی دو (مذکورہ بالا) چیزوں کے مابین فرق کی بنیاد پر ہوا ہے۔ البتہ جن حضرات کے نزدیک اِن دو باتوں کے مابین کوئی فرق ہی نہیں ہے، لازمی بات ہے کہ وہ ہر دو معاملہ کا حکم ایک کردیں؛ یوں سیاسۃ شرعیۃ کا ایک بہت بڑا باب ہی سرے سے بند کردیں۔

اب اگر تو ہم نے اپنے ان بھائیوں کو ایسے علماء کے فتاویٰ دکھائے ہوں جو ڈیموکریسی کو درست کہتے یا اس کو ’اسلامی‘ کرنے کی گنجائش نکالتے ہوں یا ان نظاموں کو جو ڈیموکریسی پر قائم ہیں ’اسلامی‘ ہوجانے کی سند دیتے ہوں، پھر تو ان بھائیوں کا اعتراض ہم پر ضرور بنتا ہے کہ ہم کن علماء کی رائے کو لے کر بیٹھ گئے ہیں؛ یعنی جو علماء اپنے وقت کے شرک کو شرک تک نہیں کہہ پائے بلکہ اس شرک کو اسلام کے ٹانکے لگانے میں مصروف ہیں، اس شرک کے خلاف مزاحمت کھڑی کرنے کے معاملہ میں کس طرح ہم ان کے فتاویٰ کی جانب رجوع کریں۔ لیکن اگر ہم ان کو دورِ حاضر کے اُن علمائے توحید کے فتاویٰ پیش کررہے ہیں جو ڈیموکریسی کو صاف باطل کہنے والے ہیں اور اس میں ’اسلامی‘ و ’غیراسلامی‘ کے نکتے ہی سرے سے نہیں اٹھاتے، نیز جو حکم بغیر ما انزل اللہ کی بنیاد پر چلنے والے نظاموں اور ان کی مجالسِ قانون ساز کو صریح طور پر باطل کہتے ہیں... تاہم ان نظاموں کو باطل کہنے کے باوجود یہ علماء  یہاں پر موحد قوتوں کےلیے کسی وقت کوئی کردار بھی تجویز کرتے ہیں تو البتہ ہمارے ان بھائیوں کا سوچنا بنتا ہے کہ یہ علماء اتنی ’موٹی‘ بات آخر کیوں نہیں سمجھ رہے کہ جب انہوں نے ایک نظام کو باطل کہہ دیا تو پھر صالحین کےلیے اس میں شریک ہونے اور اس کے اندر کوئی صالح کردار ادا کرنے کی گنجائش وہ کس طرح نکال رہے ہیں! کیا یہ علماء اپنا یہ ’تناقض‘ ‘self-contradiction’ نہیں سمجھ رہے یا ہمارے یہ بھائی دو باتوں کے اُس بنیادی فرق سے ناواقف ہیں جس کی اوپر نشاندہی ہوئی ہے اور جوکہ ’’أھۡوَنُ الشَّرَّیۡنِ‘‘ کے فقہی اصول کو لاگو کرتے وقت ہمیشہ فقہائے کرام کے پیش نظر ہوتا ہے؟

گویا... ’’أھۡوَنُ الشَّرَّیۡنِ‘‘ کے فقہی اصول کو لاگو کرنے والے فقہاء یا تو اس کو ’’شر‘‘ نہ کہیں، اور اگر اس کو ’’شر‘‘ کہہ دیا تو پھر ایک ’’شر‘‘ کو اختیار کیسے کرسکتے ہیں؟!!

امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں، آدمی کی سمجھ اور فقہ کا امتحان تو اصل میں وہاں ہوتا ہے جہاں اسے دو ’’خیروں‘‘ میں سے بڑی خیر کا چناؤ کرنا ہوتا ہے یا دو ’’شروں‘‘ میں سے  بڑے شر کو دفع اور چھوٹے شر کو اختیار کرنا ہوتا ہے؛ ورنہ خیرِ محض اور شرِ محض کی پہچان تو آدمی کر ہی لیتا ہے۔ فرماتے ہیں:

لَيْسَ الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْلَمُ الْخَيْرَ مِنْ الشَّرِّ وَإِنَّمَا الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْلَمُ خَيْرَ الْخَيْرَيْنِ وَشَرَّ الشَّرَّيْنِ                         (مجموع الفتاوىٰ: ج 20 ص 54)

عاقل وہ نہیں جو خیر اور شر کو جانتا ہو۔ اصل میں عاقل وہ ہے جو دو خیروں میں سے خیر کو جانے اور دو شروں میں سے شر کو جانے۔

ابن تیمیہ اسی حوالہ سے ایک اہم مبحث بیان فرماتے ہیں: شرائع صرف اتنا نہیں کہ دنیا کے اندر خیر کو پیدا کرنے اور شر کو مٹانے کےلیے آتی ہیں۔ بلکہ شرائع کو یہ بھی کرنا ہوتا ہے کہ جہاں تک انسانی بس ہو خیر کو بڑھائیں اور شر کو کم کریں:

فَإِنَّ الشَّرِيعَةَ جَاءَتْ بِتَحْصِيلِ الْمَصَالِحِ وَتَكْمِيلِهَا وَتَعْطِيلِ الْمَفَاسِدِ وَتَقْلِيلِهَا بِحَسَبِ الْإِمْكَانِ. وَمَطْلُوبُهَا تَرْجِيحُ خَيْرِ الْخَيْرَيْنِ إذَا لَمْ يُمْكِنْ أَنْ يَجْتَمِعَا جَمِيعًا وَدَفْعُ شَرِّ الشَّرَّيْنِ إذَا لَمْ يَنْدَفِعَا جَمِيعًا(مجموع الفتاوىٰ: ج 23 ص 343)

شریعت اس چیز کے ساتھ آئی ہے کہ حسبِ امکان:

ý        مصالح کو حاصل کیا جائے اور ان کو کامل سے کامل تر کیا جائے، اور

ý        مفاسد کو ختم کیا جائے یا ان کو کم سے کم کیا جائے۔

شریعت کا مطلوب یہ ہے کہ:

ý        دو خیروں میں سے جو خیر ہے اس کو ترجیح دی جائے، یہ اس وقت جب ان دونوں خیروں کو اکٹھا نہ چلایا جا سکتا ہو۔ اور

ý        دو شروں میں سے جو شر ہے اس کو دفع کیا جائے، یہ اس وقت جب وہ دونوں بیک وقت دفع نہ ہوسکتے ہوں۔

وَالشَّارِعُ دَائِمًا يُرَجِّحُ خَيْرَ الْخَيْرَيْنِ بِتَفْوِيتِ أَدْنَاهُمَا؛ وَيَدْفَعُ شَرَّ الشَّرَّيْنِ بِالْتِزَامِ أَدْنَاهُمَا                             (مجموع الفتاویٰ: ج 23 ص 182)

شارع کا دستور ہے کہ:

ý        دو خیروں میں سے جو خیر ہے وہ اس کو ترجیح دے، اور وہ اس طرح کہ ان میں سے جو چھوٹی خیر ہے اس کو قربان کردے۔ نیز

ý        دو شروں میں سے جو شر ہےاس کو دفع کرے، اور وہ اس طرح کہ ان میں جو چھوٹا شر ہے اس کو اختیار کرلے۔

وَمَعْلُومٌ أَنَّ الشَّرِيعَةَ جَاءَتْ بِتَحْصِيلِ الْمَصَالِحِ وَتَكْمِيلِهَا وَتَعْطِيلِ الْمَفَاسِدِ وَتَقْلِيلِهَا وَأُمِرْنَا بِتَقْدِيمِ خَيْرِ الْخَيْرَيْنِ بِتَفْوِيتِ أَدْنَاهُمَا وَبِدَفْعِ شَرِّ الشَّرَّيْنِ بِاحْتِمَالِ أَدْنَاهُمَا                              (مجموع الفتاویٰ:ج 30 ص 234)

یہ ایک معلوم بات ہے کہ شریعت مصالح کی تحصیل اور تکمیل کرنے آئی ہے۔ نیز مفاسد کو ختم کرنے اور گھٹانے کےلیے آئی ہے۔ ہم مامور ہیں کہ دو خیروں میں جو خیر ہے اس کو مقدم کیا کریں اور وہ اس طرح کہ ان میں سے جو چھوٹی خیر ہے اس کی قربانی کردیں، نیز دو شروں میں سے جو شر ہے اس کا سدباب کریں اور وہ اس طرح کہ ان میں سے جو چھوٹا شر ہے اس کو اختیار کرلیں۔

چنانچہ یہاں آپ ایک چیز کو ’’شر‘‘ بھی کہیں گے اور اس کو اختیار بھی کریں گے، اس لیے کہ اس کے مقابلے پر جو ’’شر‘‘ ہے وہ اس سے بھی بڑا ہے۔  ایک باطل نظام، یا سلطنت یا صورتحال میں آپ کا شریک ہونا اور وہاں پر کوئی کردار ادا کرنا اگر ’’شر‘‘ ہے بھی  تو دیکھنا یہ ہے کہ وہاں آپ کا کوئی کردار ادا نہ کرنا آیا اس سے بھی بڑا ’’شر‘‘ تو نہیں؟ضروری نہیں کہ اس کا جواب ہمیشہ ہاں میں ہو۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کا جواب ہمیشہ ناں میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ہمیشہ یہاں ’’مصالح اور مفاسد کے موازنہ‘‘ کی شرط لگاتے ہیں۔ اِسی کو ’’مصلحہ راجحہ‘‘ کہتے ہیں۔ ہاں یہ موازنہ کرلینے کے بعد اگر جواب ہاں میں آئے تو ایک کام شریعت کا تقاضا ہوگا ورنہ نہیں۔

اب اگر یہ مطلق قاعدہ بیان کردینے کے بعد اس کو ’اپلائی‘ کرنے کا کام ہم نے اپنے سر لے لیا ہوتا پھر بھی یہ حق بنتا تھا کہ ہم پر اعتراض ہو۔  کیونکہ واقعتاً یہاں کچھ طبقے ایسے ہیں جو متقدمین کی کتب سے کچھ قواعد نکال نکال کر ان کو فی زمانہ مسائل پر اپنی تطبیق کے ساتھ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ قواعد کی تطبیق کےلیے آدمی کا فقیہ ہونا اور فی زمانہ صورتحال پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔  البتہ یہاں اس بات کو بڑا آسان سمجھا جاتا ہے کہ قدیم ائمہ کے بیان کردہ اصول و قواعد کو بیان کرتے چلے جائیں اور ان کی روشنی میں نوجوانوں کو فی زمانہ مسائل کی بابت ’’راہنمائی‘‘ دیتے چلے جائیں؛ ساتھ میں یہ بھی دعویٰ کہ ہم نے خود سے کوئی فتویٰ تھوڑی دیا ہے یہ تو ائمۂ متقدمین کی کتب بول رہی ہیں جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں! حالانکہ ائمۂ متقدمین کی کتب کو فی زمانہ مسائل پر منطبق کرنا ایک نہایت بڑا منصب ہے جو وقت کے فقہاء کو اپنے دور میں ادا کرنا ہوتا ہے۔

حق تو یہ ہے کہ کتب میں بیان ہونے والے اصولوں کو اپنے دور اور اپنی صورتحال پر چسپاں کرنا ہی ’’فتویٰ‘‘ ہے۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ ’’فتویٰ‘‘ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ یہاں پر کسرِ نفسی اختیار کرنا اور کہنا کہ ہم تو حلال اور حرام کا تعین کرکے نہیں دے رہے، اخفائے حقیقت ہے۔

ظاہر ہے ہم اس بات کو غلط جانتے ہیں کہ ہم جیسے غیر علماء یہ چیز اپنے ہاتھ میں لیں۔ یعنی متقدمین کے بیان کردہ اصولوں کو ہم خوداپنے زمانے کے مسائل میں تطبیق دیتے چلے جائیں۔ لہٰذا ابن تیمیہ وغیرہ کے حوالے سے جو کچھ قاعدے اور اصول اوپر بیان ہوئے، ان کو ہمارا بیان کرنا دراصل اس باب سے ہے کہ دورِ حاضر میں ہمارے وہ علماء اور فقہاء ہی جو یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ یہاں کے سماجی اداروں میں وقت کی صالح قوتوں کا کوئی کردار ہونا چاہئے، ان کے فتاویٰ کی بنیادیں واضح ہوجائیں۔  البتہ فتاویٰ پھر بھی ہم وقت کے علماء اور فقہاء ہی سے لے کر آتے ہیں، خود اپنے پاس سے کبھی فتویٰ نہیں دیتے۔

پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اِن آراء اور فتاویٰ سے اختلاف نہیں كيا جا سکتا۔  صرف یہ کہتے ہیں کہ اِس کا ایک ’’معروف علمی رائے‘‘ ہونا تسلیم کریں۔ خاص طور پر اس لیے کہ... دورِ حاضر کے وہ علماء جو ڈیموکریسی کو ہر ہر صورت میں حرام کہتے ہیں، ان کی ایک عظیم ترین اکثریت اِسی رائے پر ہے۔ اس کے مخالف رائے پر اول تو کبار علماء ہیں نہیں، اور اگر ہوں تو بہت گنے چنے ہوں گے۔

یہ ’’معروف رائے‘‘ رکھنے والے ہمارے وقت کے وہ علماء اور فقہاء ہیں جنہوں نے ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کے مسئلہ کو فی زمانہ اٹھایا اور واضح کیا ہے۔ اس کی سنگینی اور توحید سے اس کا تصادم آشکار کیا ہے۔ ردِ شرک کے اِن جديد مباحث کےلیے بڑی محنت کرکے’’عقیدہ‘‘ کی ذیل میں جگہ پیدا کرائی ہے۔ البتہ یہ علماء فقہ اور سیاسۃ شرعیۃ کے بنیادی حقائق کے ادراک سے بھی بہرہ ور ہیں، معاشرے سے کٹے ہوئے بھی نہیں ہیں اور انسانی حقیقتوں سے ناواقف بھی نہیں، لہٰذا ان کے فتاویٰ میں ’’سلبیت‘‘ اور ’’گوشہ نشینی‘‘  کا وہ روٹ بھی اختیار نہیں کیا جاتا جو اسلامی قوتوں پر یہاں سماجی شعبوں میں اترنے کے اکثر دروازے بند کردیتا ہے اور اس کے نتیجے میں  ان کے پاس یہاں ’’تبدیلی‘‘ لانے کےلیے سوائے خطبوں، وعظوں اور رسالوں کے، یا پھر سوائے بندوق اور گولی کے کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا۔ جبکہ ہمارے اِن علماء و مشائخ کے اختیار کردہ منہج کی رُو سے: معاشرتی تبدیلی، معاشرے میں اترے بغیر، اور یہاں کے سماجی شعبوں کے اندر چھائے بغیر، کبھی ممکن نہیں۔[2]

اصل میں یہی چیز ہے جو فتاویٰ میں دیکھی جاتی ہے۔ یعنی توحید کا فہم اور التزام رکھنے والے، خدا کی حدوں کے پابند، شریعت کے عالم لوگ ایک معاملہ میں کہاں تک جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ورنہ جہاں تک ’’سختی‘‘ کرنے کا تعلق ہے، تو وہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے۔ اور جہاں تک ’’نرمی‘‘ کی بات ہے تو اس کی جانب طبیعتوں کا میلان ہوتا ہی ہے۔ لہٰذا؛ ’’سختی‘‘ اور ’’نرمی‘‘ کی یہ کھینچاتانی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ ’’سختی‘‘ اور ’’نرمی‘‘ کی کوئی حدود نہیں ہوتیں؛ ہر حد کے بعد اس کی کوئی حد نکل آئے گی! ’’سختی‘‘کرنے والے ’’دلائل‘‘ کے اندر بھی سختی تلاش کرلیں گے اور زعم یہ کہ یہ کوئی ہماری بات تھوڑی ہے یہ تو دلائل سے ثابت ہے! ’’نرمی‘‘ کی جانب مائل لوگ ’’دلائل‘‘ کے اندر بھی نرمی ہی نرمی دیکھیں گے اور اطمینان یہ کہ یہ کوئی ہماری بات تھوڑی ہے دلائل کا اپنا ہی اقتضاء یہ ہے! یہاں؛ امام سفیان ثوری﷫ وبعض دیگر ائمۂ سلف  کا ایک نہایت مشہور قول ہے جو بعد ازاں علماءکے ہاں بہت زیادہ نقل ہوتا رہا ہے:

إنمَّا الْعلم عندنَا الرُّخْصَة من ثِقَةٍ، فَأَما التَّشْدِيدُ فُيُحسِنُه كُلُّ أحد

(جامع بيان العلم وفضله، لابن عبد البر ج 1 ص 784،

آداب الفتویٰ والمفتی والمستفتی، للنووی، ص 38، 112)

علم اصل میں ہمارے ہاں یہ ہے کہ ایک ثقہ (عالم یا امام) سے ایک رخصت ملنا ثابت ہو، ورنہ سختی کرنا تو ہر کسی کو آتا ہے۔

اس بات سے ثقہ علماء کے صرف وہ اقوال مستثنیٰ ہوں گے جو ’’شاذ‘‘ کے زمرے میں آتے ہوں؛ (ظاہر ہے شاذ کے تو احکام ہی الگ ہیں)... جبکہ عالم اسلام کے سماجی، انتظامی، وسیاسی اداروں میں شرکت کے جواز کے حوالہ سے ہم جو فتاویٰ پیش کرتے ہیں وہ وقت کے علمائے توحید کی عظیم ترین اکثریت کی رائے ہے۔

 



[1]  ہمارا یہ مقصد نہیں کہ یہ موضوعات دین میں نئے ہیں۔ خود وہ تحریکی مباحث جو آج سے کچھ عرصہ پیشتر برصغیر کی تنظیموں اور تحریکوں کے ہاتھوں پیش ہوئے اپنے پیش ہونے کے وقت ’نئے‘ ہی تھے۔ ایک صورتحال ہی عالم اسلام کےلیے جب نئی ہے (عالم اسلام میں شریعت کی بالادستی کا ختم ہونا) تو اس صورتحال کے  ساتھ معاملہ کرنے کے اپروچ بھی ظاہر ہے اس لحاظ سے نئے ہی ہوں گے۔

[2]  قارئین نوٹ فرما لیں: یہاں علماء کے جو فتاویٰ وغیرہ ہم لے کر آتے ہیں ان میں سے اکثر گو ’’سیاسی نظام‘‘ میں شرکت سے متعلق ہیں، تاہم یہاں کی صورتحال میں ’’سیاسی شرکت‘‘ فی الحال ہمارے تحریکی عمل کی ضرورت ہے اور نہ ہمارا موضوع۔ ہمارا اصل زور فی الحال یہاں کے سماجی شعبوں میں اترنے پر ہے۔  اِن فتاویٰ سے ہمارا مقصد  سماجی شعبوں میں اترنے کے اندر مانع اشکالات کا ازالہ ہی ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز