عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
غیر شرعی نظام کو بنانے اور اسکے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے
:عنوان

ان نظاموں کو ابتداء سے وجود میں لانا تو جائز نہیں لیکن اگر وہ وجود میں آئے ہوئے ہیں اور مستحکم حالت میں موجود پائے جاتے ہیں تو اس صورت میں البتہ کسی مصلحت کو راجح پاتے ہوئے ان کے اندر شرکت کرنا جائز ہے

. اصولمنہج . تنقیحات :کیٹیگری
شیخ ابراھیم السکران :مصنف

النظام السياسي غير المشروع: بین الإنشاء والمشاركة:

غیر شرعی نظام کو بنانے اور اسکے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے

شیخ ابراہیم السکران (ماجستر السیاسۃ الشرعیۃ از جامعۃ الامام)

اردو استفادہ: حامد کمال الدین              

جہاں تک تو ہے ایک خالص شرعی سیاسی نظام کا تعلق، تو اس کو وجود میں لانا بھی جائز ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی۔ نہ صرف جائز بلکہ یہ امت پر واجب ہے، کیونکہ یہ دینِ خداوندی کی اقامت  کو مکمل کرنے کا حصہ ہے۔

اور جہاں تک ہے ایک خلافِ شریعت نظام کا تعلق جیسے: استبداد، آمریت  یعنی تغلُّب، ہرقلیت یعنی موروثی بادشاہت، ملکِ جبری، ملکِ عضوض وغیرہ، یا مثلاً انسان ساختہ سیاسی نظام جو خلافِ شریعت ہیں جیسے جمہوریت... تو اِن سب نظاموں کے معاملہ میں ان دو باتوں کا فرق کیا جاتا ہے:

1.        ایک ہے ’’مقامِ انشاء‘‘۔ یعنی اِن نظاموں کو وجود میں لانا،

2.        اور ایک ہے ’’مقامِ مشارکہ للمصلحۃ الراجحۃ‘‘۔ یعنی کسی مصلحت کو راجح پاتے ہوئے اس میں خالی شرکت کرلینا۔

دوسرے معنوں میں، اہل علم کے ہاں ان دو باتوں میں فرق کیا جاتا ہے:

1.        ایک ہے مقامِ اختیار۔ یعنی جہاں ایک معاملے میں مرضی ہی آپ کی چلتی ہے۔

2.        اور ایک ہے مقامِ اضطرار۔ یعنی جہاں آپ کی مرضی چلتی ہی نہیں ہے۔

اہل علم اس معاملہ میں ان دونوں احوال کا فرق کرتے ہیں: ایک وہ جب آپ کو ایک معاملہ میں قدرت حاصل ہے۔ دوسرا وہ جب آپ عاجز اور بےاختیار ہوتے ہیں۔

چنانچہ یہ سب نظام جو خلافِ شریعت ہیں، ان کو ابتداء سے وجود میں لانا تو جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ وجود میں آئے ہوئے ہیں اور مستحکم حالت میں موجود پائے جاتے ہیں تو اس صورت میں البتہ کسی مصلحت کو راجح پاتے ہوئے ان کے اندر شرکت کرنا جائز ہے، تاکہ شریعت کا فرض کردہ عدل جہاں تک ہوسکے قائم کیا جاسکے اور ظلم کو جہاں تک ہوسکے کم کیا جاسکے، خواہ یہ (خلافِ شریعت) حکومت استبدادی ہو اور خواہ ڈیموکریٹک۔

اگر پوچھا جائے کہ... دلیل کیا ہے ایک نظام کو ابتداء سے وجود میں لانے اور ایک پہلے سے پائے گئے نظام میں شرکت کرنے کے مابین فرق کرنے پر؟

اس قاعدہ پر دلیل نصوصِ شریعت کے وہ عمومات ہیں جو ایک بات کا مکلف ہونے کو وسعت، استطاعت، قدرت اور امکان سے مشروط کرتے ہیں، مثلاً سورۃ البقرۃ کے اختتام پر فرمانِ خداوندی: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ’’اللہ نہیں بوجھ ڈالتا کسی نفس پر مگر اس کی وسعت کے اندر اندر‘‘۔ اور یہ آیت فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ’’اللہ کی حدوں کی پابندی کرو جتنی تمہاری طاقت ہے‘‘۔ چنانچہ جس وقت مسلمان کی وسعت اور استطاعت ہے اُس وقت اُس کےلیے جائز نہیں کہ وہ ایک ایسا نظام قائم کرے جو شریعت کے مطابق نہیں۔ البتہ جس وقت وہ اختیار اور استطاعت کا مالک نہیں اُس وقت اُس کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک ایسے خلافِ شریعت نظام میں جو پہلے سے چلا آتا ہے شرکت کرکے جتنا سا عدل قائم کرسکتا ہو یا جتنا سا ظلم کم کرسکتا ہو، کرلے۔

چنانچہ وسعت اور استطاعت سے متعلقہ نصوصِ شریعت اِس مسئلہ کی عمومی بنیادیں ہیں، اور اصل تو یہی ہیں۔ البتہ ان عمومی بنیادوں کے ساتھ  کچھ ایسی بنیادیں بھی ہیں جو دلیلِ خاص کا فائدہ دیتی ہیں، جن میں سے چند ایک:

عزیزِ مصر کا عہدہ: عزیزِ مصر کی حکومت وثنی حکومت تھی، جیساکہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

العزيز وامرأته وأهل مصر كانوا مشركين كما قال لهم يوسف: "إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَهُم بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَآئِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللهِ مِن شَيْءٍ"    (جامع الرسائل ج 2 ص 262)

عزیز مصر، اس کی بیوی اور اہل مصر مشرک تھے، جیساکہ یوسف﷣ نے ان کو کہا تھا:  ’’میں تارک ہوا ان لوگوں کی ملت کا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آخرت کے کافر ہیں۔  اور میں پیرو ہوا اپنے آباء کی ملت کا، یعنی ابراہیم، اسحاق اور یعقوب۔ ہمارا کام نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ شرک کریں کچھ بھی۔

لیکن اس کے باوجود، یعنی اس حکومت کے بت پرستانہ ہونے کے علی الرغم، یوسف﷣ نے سیاسی طور پر اس میں کردار ادا کرنے کی طلب کی۔  اور خصوصی طور پر  مالیات کا شعبہ طلب فرمایا اور بادشاہ کو  اپنی اُن خصوصی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی جو ریاست کے وسائل کو قابو میں لانے کے ساتھ خصوصی مناسبت رکھتی تھیں:

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ * قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ * وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ

اور بادشاہ نے کہا: اس کو میرے پاس لاؤ، میں اس کو اپنا خصوصی آدمی بناؤں، پھر جب اُن کی بات چیت ہوئی تو اُس نے کہا:  آج سے تو ہمارے ہاں معزز اور معتبر ہے۔ اُس نے کہا: مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو، بےشک میں حفاظت والا مہارت والا ہوں۔ اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں طاقت بخشی کہ اس میں وہ جہاں چاہے رہے۔

چنانچہ یہاں غور فرمائیے: مشرکوں کی ایک حکومت میں یوسف﷣ نے کیونکر سیاسی طور پر ایک کردار حاصل کیا، اور اس منصب کی مناسبت سے اپنی صلاحیتیں بادشاہ کو پیش کیں، پھر یہ غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے کیونکر اس کو کامیابی بنایا اور اس کو ’’تمکین‘‘ کہا۔

اس نظامِ مصر میں سیاسی کردار حاصل کرنے کے پیچھے یوسف﷣ کے پیش نظر محرکات کیا تھے؟ ابن تیمیہ اس کا جواب دیتے ہیں:

وأما سؤال يوسف وقوله "اجعلني على خزائن الأرض" فلأنه كان طريقا إلى أن يدعوهم إلى الله، ويعدل بين الناس، ويرفع عنهم الظلم، ويفعل من الخير مالم يكونوا يفعلوه   (مختصر المصریۃ ص 564)

جہاں تک یوسف﷣ کا  عہدہ طلب کرنا اور فرمانا کہ ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو‘‘، تو وہ اس لیے کہ یہ اس بات کےلیے راستہ تھا کہ آپؓ ان کو اللہ کی طرف بلائیں، نیز انسانوں کے مابین انصاف قائم کریں، ان سے ظلم کو ختم کریں اور خیر کے وہ امور انجام دیں جنہیں وہ لوگ انجام دینے والے نہ تھے۔

یوسف﷣ کے مقاصد کے حوالے سے، ایک اور مقام پر ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:

سأل الولاية للمصلحة الدينية 

(الفتاوى: ج 15 ص 114)

آپؑ نے عہدہ طلب فرمایا دینی مصلحت کےلیے۔

تو پھر اب ہم اصل سوال پر آجاتے ہیں: کوئی آدمی یہاں اگر یہ کہنے لگے  کہ مسلمان کےلیے جائز ہے کہ وہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرے جو شرک پر قائم ہو، اور اگر اُسے پوچھا جائے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ تو وہ کہے: دلیل اس کی یہ ہے کہ یوسف﷣ نے شرک پر قائم ایک سیاسی نظام کے اندر شرکت کی تھی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مسلمان کےلیے جائز ہے کہ وہ شرک پر قائم ایک نظام کو وجود دے لے! ایسا استدلال کرنے والے کی بابت کیا رائے رکھی جائے گی؟ ظاہر ہے ایسے شخص کا علم سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور وہ استدلال کرنے کی قدرت سے کورا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان دو باتوں میں ایک بنیادی فرق ہے: ایک ہے مقامِ انشاء، یعنی ایک نظام کو وجود میں لے کر آنا، اور دوسرا ہے مقامِ مشارکہ، یعنی کسی مصلحتِ راجحہ کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی کردار ادا کر آنا۔  پہلا ہے مقامِ اختیار، یعنی جہاں مرضی ہی آپ کی چلتی ہے اور دوسرا ہے مقامِ اضطرار، یعنی جہاں آپ کی بےبسی ہے۔ پہلی ہے حالتِ قدرت اور دوسری ہے حالتِ عجز۔

اب ہم ایک دوسری مثال لیتے ہیں: یہ ہے حبشہ کے نصاریٰ کا سیاسی نظام۔ یہ ایک نصرانی نظام تھا، جس میں نصرانی پاپائیت کا غلبہ تھا۔  پادریوں کو اچھے خاصے اختیارات حاصل تھے، یہاں تک کہ کسی وقت وہاں کے اساقفہ اور پادری ایک بادشاہ کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے کو بٹھا دیتے تھے، جیساکہ کتبِ سیرت میں بروایت عائشہ﷞ ودیگر آتا ہے۔

اب اِس نظام میں اصمحہ نام کا نجاشی نبیﷺ پر ایمان لے آتا ہے اور آپؐ کی خدمت میں باقاعدہ مکتوب روانہ کرتا ہے کہ وہ آپ پر ایمان لے آیا ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ طاقت نہیں رکھتا کہ اِس حبشی نصرانی نظام کے اندر وہ شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ کردے۔[1]  نجاشی اصمحہ اسی پر اکتفاء کرتا رہا کہ وہ اپنے امکان اور طاقت کی حد تک وہاں پر عدل و انصاف قائم کیے رکھے۔ نجاشی نے اپنے مکتوب میں نبیﷺ سے باقاعدہ پوچھا بھی کہ کیا آپﷺ اُس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ آپﷺ کی خدمت حاضر ہوجائے، مگر نبیﷺ نے نجاشی کو اُس حبشی نصرانی نظام کی سربراہی چھوڑ دینے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔

ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:

فالنجاشي وأمثاله سعداء في الجنة وإن كانوا لم يلتزموا من شرائع الإسلام ما لا يقدرون على التزامه، بل كانوا يحكمون بالأحكام التي يمكنهم الحكم بها 

(الفتاوىٰ ج 19 ص 229)

نجاشی اور اس جیسے لوگ جنت میں خوش و خرم رہنے والے ہیں، اگرچہ انہوں نے شرائع اسلام میں سے اُن احکام کی پابندی نہیں کی جن کی وہ طاقت نہ رکھتے تھے۔  اس کی بجائے یہ صرف اُن احکام کے مطابق حکومت کرتے تھے جن کی رو سے حکومت کرنا ان کےلیے ممکن تھا۔

چنانچہ یہ واقعہ اس بات پر دلیل ہے کہ ایک نصرانی حکومت میں سیاسی انداز کی شرکت کرلینا جائز ہے اگرچہ ایسی شرکت کرنے والا آدمی اکثر احکامِ شریعت کو نافذ کرنے پر نہ بھی قدرت رکھتا ہو، بشرطیکہ وہاں کوئی ایسی راجح مصلحت پائی جائے جو اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ وہاں انصافِ شرعی زیادہ سے زیادہ قائم اور ظلم کو زیادہ سے زیادہ کم کردیا جائے۔

اب یہاں پر اگر کوئی صاحب یہ نکتہ اٹھائیں کہ ایک عیسائی سیاسی نظام کو وجود میں لانا جائز ہے، کیونکہ نجاشی نے ایک عیسائی سیاسی نظام کے اندر شرکت جاری رکھی تھی اور اس کا یہ فعل شریعت کے مطابق مانا گیا... تو ایسے استدلال کو ہم آخری درجے کی سطحیت کہیں گے؛ کیونکہ ہر شخص اہل علم کے کلام میں ان دونوں باتوں کے مابین فرق کر سکتا ہے کہ مقامِ اِنشاء (ایک چیز کو اساس سے وجود میں لانا) اور ہے۔ اور مقامِ مشارکہ (ایک عمل میں سیاسی نوعیت کا ایک کردار رکھ لینا) جبکہ مصلحتِ راجحہ اس بات کا تقاضا کر رہی ہو، بالکل اور ہے۔

اب ہم ایک تیسری مثال کی طرف چلتے ہیں۔ یہ ہے تاتاری نظام کے تحت قضاء کا عہدہ قبول کرنا۔ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:

وكثيرا ما يتولى الرجل بين المسلمين والتتار قاضياً، بل وإماماً، وفي نفسه أمور من العدل يريد أن يعمل بها فلا يمكنه ذلك، بل هناك من يمنعه ذلك، ولا يكلف الله نفسا إلا وسعها

(الفتاوىٰ ج 19 ص 218)

بسا اوقات آدمی مسلمانوں اور تاتاریوں کے مابین قاضی کے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے، بلکہ امام کے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے، جبکہ اُس کے جی میں یہ ہے کہ وہ عدل کے بہت سے امور سرانجام دے، لیکن اس کےلیے یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ اسے اس بات سے روکنے والے وہاں پر ہوتے ہیں، اللہ بھی کسی نفس کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا۔

یہاں پھر ہم وہی سوال رکھ لیتے ہیں: کیا خیال ہے اگر آپ کسی کو یہ نکتہ وری کرتے ہوئے سنیں کہ: مسلمان کےلیے جائز ہے کہ وہ تاتاریوں جیسا مشرکانہ نظام قائم کرے، اس کی دلیل یہ کہ اہل علم نے مسلمانوں اور تاتاریوں کے مابین عہدۂ قضاء قبول کرنے کو جائز کہا ہے۔ کیا ایسا استدلال کرنے والا شخص جاہل نہ کہلائے گا؟ کیونکہ ایک نظام کو وجود میں لانا اور چیز ہے اور ایک چلتے ہوئے نظام میں کسی شرعی مصلحتِ راجحہ کے تحت حصہ لینا بالکل اور چیز۔

یہی معاملہ ایک چوتھی مثال کا رہے گا۔ اور وہ یہ کہ عمر بن عبدالعزیز﷫ نے بنی امیہ کے بعض مظالم جن پر عمرؒ کو قدرت نہ ہوئی اپنی اُسی حالت پر چھوڑ دیے۔ مفتی دیار مصر امام ابن عبدالحکم (متوفی 214ھ)  نے سیرۃِ عمر بن العزیز میں قصر ریاست میں پیش آنے والے بعض امور کو نقل کیا ہے، کہتے ہیں:

عمر بن عبد العزیزؒ نے منصب سنبھالا تو ان کے بیٹے عبدالملک نے ان سے کہا: اباجان میں دیکھ رہا ہوں آپ نے ایسے بہت سے امور کو موخر کر چھوڑا ہے جن کی بابت میرا خیال تھا کہ آپ کو دن کی کسی ایک گھڑی کےلیے بھی عہدہ ملے تو آپ ان کا معاملہ نمٹانے میں دیر نہ کریں۔ میری خواہش تھی کہ آپ یہ کام کر گزرتے، اگرچہ اس کی پاداش میں مجھے اور آپ کو ابلتی ہانڈیوں میں کیوں نہ ڈال دیا جاتا۔ عمرؒ بولے:  بیٹا تمہیں خدا نے بڑی نیکی دے رکھی ہے۔ مگر تم میں نوجوانوں والی ناپختگیِ رائے بھی ہے۔ بخدا میں  ان کے معاملے میں جو بھی دینی فیصلہ کرتا ہوں ساتھ میں تھوڑا سا دنیا کا معاملہ بھی رکھتا ہوں، جس سے میں ان کے دلوں کو اپنے ساتھ چلا لیتا ہوں، اس اندیشے سے کہ ان کی جانب سے پورا معاملہ ہی چوپٹ ہوجائے، اور وہ میرے بس سے ہی باہر ہوجائے۔                                                 (سیرت عمر بن عبدالعزیز ص 57)

ایک دوسرے واقعے میں عمر بن عبدالعزیزؒ اور ان کے بیٹے کا مکالمہ یوں نقل ہوا ہے:

عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکایت میں آتا ہے کہ ان کے بیٹے عبدالملک نے ان سے کہا: کیا ہوگیا ہے آپ امور کو نافذ کیوں نہیں کرتے۔ بخدا مجھے پروا نہیں کہ حق کے معاملے میں مجھے اور آپ کو ابلتی ہانڈیوں میں پھینک دیا جائے۔ عمر بولے: بیٹا جلد بازی نہ کرو؛ اللہ نے شراب کی قرآن کے اندر صرف مذمت کی اور پھر تیسری بار جاکر اس کو حرام کیا۔ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ میں ایک ہی بار حق کو لوگوں پر پورا کا پورا لاد دوں  اور وہ اس کو پورا کا پورا متروک ٹھہرا دیں، اور اس سے فتنہ جنم لے لے‘‘                                                               (الموافقات: ج 2 ص 148)

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز﷫ نے اموی سیاسی نظام میں حصہ لیا[2]،  جوکہ زبردستی مسلط ہونے والا نظام تھا۔ امویوں کے اس نظام میں لوگوں کا ناحق خون بھی ہوتا رہا اور ناحق اموال پر بھی تصرف ہوتا رہا۔ اس کے باوجود عمرؒ نے بعض مظالم جوں کے توں چھوڑ دیے اور ان کو ختم نہ کیا، یعنی شریعت کو مکمل طور پر نافذ نہ کیا، بلکہ حسب استطاعت شریعت نافذ کی، جیساکہ عمر اور آپ کے بیٹے کے مکالمہ سے ظاہر ہے۔

تو کیا یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک دھونس سے قائم کیا گیا سیاسی نظام کھڑا کرنا جائز ہے اور کوئی اس کی دلیل پوچھے تو کہے کہ کیا عمر بن عبدالعزیز نے ایک دھونس اور جبر سے قائم کیے گئے نظام میں شمولیت نہ رکھی تھی؟ بلکہ خلافت کا منصب پا لینے کے بعد بھی کیا اس کے بعض مظالم جوں کے توں نہ رہنے دیے تھے؟ کیا یہ استدلال کرنا عقلمندی ہوگی؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ مقامِ انشاء (ایک نظام کو وجود میں لانا) اور ہے اور مقامِ مشارکہ (مصلحتِ راجحہ کی بنیاد پر اس میں محض شرکت کرلینا) اور ہے۔

ان دونوں باتوں کا فرق اگر اچھی طرح واضح ہوچکا، تو اب ہم اپنے زمانے کی طرف آتے ہیں:

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دور کے عام علمائے اہل سنت[3] نے ڈیموکریٹک نظام پر خلافِ شریعت ہونے کا حکم لگا رکھا ہے۔ (ڈیموکریسی اور شریعت کے مابین تصادم اس تصنیف میں آگے چل کر بیان ہوگا)۔ اس بنا پر اس نظام کو وجود میں لانا جائز نہ ہوگا۔ ہاں البتہ جہاں یہ پہلے سے موجود ہے، وہاں یہ علماء اس میں سیاسی نوعیت کی شرکت کو جائز کہتے ہیں بشرطیکہ مصلحتِ راجحہ اس بات کا تقاضا کرے۔  علماء کے ان فتاویٰ کی ہم چند مثالیں دیتے چلیں گے:

أ:          ابن سعدیؒ کا موقف:

قصۂ شعیب﷣ پر گفتگو کرتے ہوئے، علامہ ابن سعدی (متوفیٰ 1376ھ، تفسیر سعدی کے مؤلف) لکھتے ہیں:

یہ سماجی رشتے جن سے کام لے کر اسلام اور مسلمانوں سے شر کو دفع کرلیا جائے، ان کو پروان چڑھانے کےلیے کوشش کرنا برا نہیں۔ بلکہ کسی وقت یہ ضروری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اصلاح حسبِ قدرت و حسبِ امکان ہی مطلوب ہے۔ بنابریں؛ مسلمان اگر کہیں پر کفار کے غلبہ کے تحت ہوں  اور وہاں جمہوری اقتدار کی ہی کوئی صورت نکال لیں، جس میں مسلمان بطورِ فرد اور بطورِ قوم اپنے دینی و دنیوی حقوق حاصل کرسکتے ہوں، تو وہ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ وہ ایک ایسی (استعماری) حکومت کے غلام بن کر رہیں جو نہ انہیں ان کے دینی حقوق دینے کی روادار ہو اور نہ دنیوی حقوق، بلکہ وہ ان کا وجود ہی ختم کرنے کے درپے ہو، اور ان کو گھٹیا درجے کے نوکر اور خدمتگار بنا کر رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہو۔ ہاں اگر یہ ممکن ہے کہ سارے کا سارا اقتدار ہی مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے اور حکمران ہی خود مسلمان ہوں، پھر تو یہی فرض ہوگا، لیکن اگر اِس درجہ کو پانا ممکن نہیں، تو پھر وہ درجہ پالینا ہی دین کی رو سے مقدم ہوگا جس میں دین اور دنیا کا (حتی الامکان) تحفظ ہوتا ہو، واللہ اعلم۔     (تفسیر سعدی ص 389)

یہاں آپ ابن سعدی﷫ کے تفقہ کی گہرائی کا اندازہ کرتے ہیں؛ جو صاف طور پر مقامِ اختیار اور مقامِ اضطرار کے مابین فرق کرتے ہیں۔ مسلمان اگر صورتحال پر اختیار رکھتا ہے پھر تو اس پر یہی واجب ہے کہ وہ خالص شرعی نظام قائم کرے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہاں اگر یہ ممکن ہے کہ سارے کا سارا اقتدار ہی مسلمانوں کے ہاتھ میں آجائے اور حکمران ہی خود مسلمان ہوں، پھر تو یہی فرض ہوگا‘‘۔  لیکن جہاں بس نہیں چلتا، وہاں وہ کہتے ہیں: جو اس سے نچلا درجہ ہے پھر وہی مطلوب ہوجائے گا، اور جوکہ ایک جمہوری حقوق والا نظام ہے (جو ایک ایسی حالت سے بہرحال بہتر ہے جہاں مسلمانوں پر متسلط استعمار ان کو گھٹیا درجے کے نوکر اور اردلی بنا کر رکھتا ہے اور وہ حقوق بھی دینے پر آمادہ نہیں جو ایک جمہوری نظام کے اندر ایک محکوم قوم کو مل جاتے ہیں)۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں ابن سعدی ایک جمہوری نظام کا مسلمانوں کے حق میں جائز ہونا اس بات سے مشروط ٹھہراتے ہیں کہ  انہیں ایک ایسی صورتحال درپیش ہے جہاں وہ ایک شرعی نظام قائم کرنے کی قدرت اور اختیار ہی سے محروم ہیں۔ ابن سعدی کی اس گراں قدر عبارت سے یہ بات ماخوذ ہوتی ہے کہ ابن سعدی﷫ ایک جمہوری نظام کو خلافِ شریعت ہی جانتے ہیں، یہ وجہ ہے کہ وہ اس کے جائز ہونے کو مسلمانوں کے عجز اور اضطرار سے مشروط ٹھہراتے ہیں۔

اب یہاں اگر کوئی شخص کہے کہ: شیخ ابن سعدی﷫ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک اسلامی حکومت کو جمہوری نظام میں بدل دینا جائز ہے، تو ہم کہیں گے یہ شخص مدلس اور فریب کار ہے۔ کیونکہ شیخ ابن سعدی واضح طور پر کہتے ہیں کہ اگر مسلمان طاقت رکھتے ہیں پھر تو اسلامی نظام ہی فرض ہے، ہاں جس وقت یہ ممکن نہیں وہاں جمہوری نظام کی طرف جایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس کی مصلحت راجح ہو۔ اور یہ عین وہ بات ہے جو اہل علم کرتے آئے ہیں، اور اکثر فقہاء اس بات سے اختلاف نہیں کرتے۔

ب:        فتویٰ کمیٹی زیر سرکردگی شیخ ابن باز کا موقف:

سعودی عرب کی لجنۃ دائمہ للافتاء نے شیخ ابن باز﷫ (متوفیٰ 1420ھ) کی سرکردگی میں متعدد فتوے صادر کیے ہیں، سب کے سبب بلا استثناء ان دونوں مقامات میں فرق کرتے ہیں: مقامِ اختیار (جہاں آدمی کی مرضی چلتی ہے) اور مقامِ اضطرار (جہاں آدمی کی مرضی نہیں چلتی)۔ نیز یہ سب کے سب فتاویٰ مقامِ انشاء (ایک چیز کو وجود میں لانا) اور مقامِ مشارکہ (اس میں صرف شرکت کرلینا) کے مابین فرق کرتے ہیں، جس وقت شرکت کرنے کے اندر مصلحت راجح ہو۔

آئیے ان میں سے چند فتوے پڑھتے ہیں، ساتھ ساتھ یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے اندر کونسے قواعد اختیار کیے گئے ہیں:

پہلا فتویٰ:

سوال: کیا انتخابات میں ووٹ ڈالنا اور بطورِ امیدوار نامزد ہونا جائز ہے؟ معلوم رہے، کہ ہمارے ملک میں حکم بغیر ما انزل اللہ کا نظام ہے۔

جواب: مسلمان کےلیے جائز نہیں کہ وہ امیدوار نامزد ہو تاکہ وہ ایک ایسے نظام کا حصہ بنے جو حکم بما انزل اللہ پر قائم نہیں ہے، ایسی حکومت کا حصہ بنے جو شریعتِ اسلام کے مطابق نہیں چلتی۔ مسلمان کےلیے جائز نہیں کہ ایسے شخص یا اس جیسے کسی دوسرے کےلیے ووٹ ڈالے جو اس نظام کے اندر کام کریں گے۔ اِلّا یہ کہ نامزد ہونے والا مسلمان یا اُس کو ووٹ ڈالنے والے مسلمان یہ امید رکھتے ہوں کہ اس میں شامل ہو کر وہ اس نظام کو بدل کر شریعت کے تابع کردیں گے، اور اس بات کو وہ اس نظام پر قابو پانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہوں۔ اس شرط پر کہ اس کےلیے نامزد مسلمان کامیاب ہوجانے کے بعد ایسے کسی عہدے پر کام نہ کرے جو شریعتِ اسلامیہ کے منافی ہو۔

(فتویٰ اللجنۃ الدائمۃ رقم 23: 407)

چنانچہ دیکھ لیجئے کس طرح یہ علماء مقامِ انشاء (ایک نظام کو وجود میں لانا) اور مقامِ مشارکہ (ایک پہلے سے پائے گئے نظام میں سیاسی شرکت کرنا) کے مابین فرق کرتے ہیں، جبکہ ایسا کرنا راجح مصلحت کا تقاضا ہو۔ اور یہ عین وہ بات ہے جو ایک غیر شرعی سیاسی نظام کی بابت شروع دن سے فقہائے اسلام بیان کرتے آئے ہیں۔

ایک دوسرے فتویٰ میں ایک سیکولر سیاسی نظام والے ملک کے اندر اسلامی پارٹیاں تشکیل دینے کے متعلق سوال کیا گیا:

سوال: کیا یہ جائز ہے کہ ایک سیکولر ملک کے اندر اسلامی پارٹیاں قائم کرلی جائیں، اور یہ پارٹیاں قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے باقاعدہ انداز میں کام کریں، تاہم ان پارٹیوں کی غرض و غایت کچھ اور ہو اور وہ یہ کہ درحقیقت وہ اسلامی دعوت کا کام کررہی ہوں؟

جواب: وہ مسلمان جو کسی کافر ملک میں رہائش کی آزمائش میں مبتلا ہیں، ان کےلیے جائز ہے کہ وہ رابطۂ باہمی میں آئیں، آپس میں متعاون ہوں، خواہ وہ اسلامی پارٹیوں کے زیرعنوان ہو یا اسلامی انجمنوں کے زیرعنوان؛ اس لیے کہ اس میں تعاون علی البر والتقویٰ کی ایک صورت ہے                                    (فتوى اللجنۃ الدائمۃ رقم 23: 408)

چنانچہ یہاں اہل علم ایک سیکولر سیاسی نظام کو وجود میں لانے کی ممانعت ہی کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا نظام جو پہلے سے قائم ہے اس میں سیاسی کردار ادا کرنے کی اجازت دیتے ہیں اگر راجح مصلحت کا یہی تقاضا ہو۔ اب اگر کوئی آدمی آئے اور کہے کہ فتویٰ کمیٹی ایک سیکولر نظام قائم کرنے کو جائز قرار دیتی ہےاور دلیل اس کی یہ کہ اس نے ایک سیکولر نظام میں حصہ لینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے... تو ایسے آدمی کی سمجھ بوجھ کے بارے میں عقلاء کیا رائے رکھیں گے؟

اس سلسلہ میں ایک نہایت خصوصی فتویٰ بھی ہمیں دستیاب ہے، جس سے پوری طرح واضح ہے کہ ان مسائل میں علماء ’’مصلحتِ راجحہ کا اعتبار‘‘ کرنے کی اپروچ کے معاملات کو لیتے ہیں، جس کے تحت وہ ایک نظام کے اندر سیاسی انداز کی شرکت کے دائرے کو وسیع بھی کردیتے ہیں۔ فتویٰ میں سوال اور جواب یوں ہے:

سوال:         بعض لوگ ہیں تو مسلمان لیکن وہ سیاسی پارٹیوں کی ممبرشپ لےلیتے ہیں۔ یہ پارٹیاں یا تو روس نواز ہوتی ہیں یا امریکہ نواز۔ یہ پارٹیاں خاصی زیادہ اور متنوع ہیں۔ پروگریسو سوشلسٹ پارٹی ہے، انڈی پنڈنٹ پارٹی ہے، نیشنل پارٹی ہے، یوتھ انڈی پنڈنٹ پارٹی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔ ان پارٹیوں کی بابت اسلام کا کیا موقف ہے۔ اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو ان پارٹیوں کا ممبر بن جائے؟ کیا وہ مسلمان رہ جاتا ہے؟

جواب: وہ شخص جو اسلامی بصیرت رکھتا ہے، ایمان میں قوی ہے، نظریاتی لحاظ سے اس درجہ پر ہے کہ وہ کسی نظریے کی چکاچوند سے بہک نہیں جائے گا، معاملہ فہم اور  عاقبت اندیش ہے، زبان کی فصاحت سے مالامال ہے، اور ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے کہ وہ ایک پارٹی کے رخ پر اثرانداز ہوسکے، اور اس کو اسلام کی جانب لے کر آسکے، تو اس کےلیے جائز ہے کہ وہ ان پارٹیوں کے ساتھ گھلے ملے، یا ان پارٹیوں میں ایسے عناصر کے ساتھ گھلے ملے جن کی بابت اُسے امید ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے والے ہیں۔ بہت امکان ہے ایسے آدمی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نفع بخش صورت پیدا فرما دے، اور اس کے ہاتھ پر کچھ لوگوں کو راہِ راست پر لے آئے اور وہ منحرف سیاسی پٹڑیوں کو چھوڑ کر اسلام کی عادلانہ سیاست کی جانب آجائیں، جس سے امت کی شیرازہ بندی ہو۔ تاہم اس عمل کے دوران اس کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ وہ اُن (پارٹیوں) کے منحرف اصولوں کا پابند ہوجائے۔ ہاں وہ شخص جو اِس درجہ کا ایمان نہیں رکھتا، نظریاتی طور پر اس کو یہ ناقابلِ تسخیر حیثیت حاصل نہیں، بلکہ اس کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ وہاں پر اثرانداز ہونے کی بجائے اثر قبول کر آئے گا، تو ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ ان پارٹیوں سے کنارہ کش ہی رہے، یہی اس کے حق میں فتنہ سے دور رہنا ہے، اور یہی اس کے حق میں ایمان کا تحفظ ہے کہ مبادا اس کی دینی حالت بھی وہی ہوجائے جو اُن لوگوں (پارٹیوں) کی ہے اور یہ بھی اُسی فساد اور انحراف میں مبتلا ہوجائے جس میں وہ (پارٹیاں) مبتلا ہیں۔ اور توفیق دینے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔       

(فتویٰ اللجنۃ الدائمۃ: رقم 12: 385)

سبحان اللہ! اب ذرا یہاں آپ غور کرلیں، جن پارٹیوں کے بارے میں سوال کیا گیا ان کے کتنے کتنے صریح اور ناگفتہ بہ اوصاف مذکور ہوئے۔ میں نے عمداً سوال میں مذکور یہ کلمات من و عن نقل کیے، تاکہ جواب میں ذکر ہونے والی اُس ’’گنجائش‘‘ کا اندازہ ہوجائے جو ایک سیاسی عمل میں علمائے اہل سنت کے ہاں دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے، یہ سب کی سب پارٹیاں صاف صاف اسلام کے منافی ہیں۔ اس کے باوجود فتویٰ کمیٹی کے علماء نے  ان دو حیثیتوں کا فرق کیا ہے: یعنی ایک وہ حیثیت جس میں آپ ایسی ایک پارٹی کو وجود میں لاتے ہیں، اور دوسری وہ حیثیت جس میں آپ ایسی ایک پارٹی میں سیاسی انداز کی شرکت کرتے ہیں؛ ایسا کرنے کی کسی مصلحت کو راجح پاتے ہوئے۔

اب اگر کوئی صاحب اٹھیں اور کہیں کہ فتویٰ کمیٹی نے تو ایسی سب پارٹیاں بنانا جائز کردیا جو اشتراکی ہوں، بائیں بازو کی ہوں، ڈیموکریٹک ہوں یا لبرل ہوں؛ کیونکہ کمیٹی نے اپنے ایک فتویٰ میں ایسی پارٹیوں میں شرکت بشرط مصلحتِ راجحہ کو جائز کہہ دیا ہے... تو یہ اِن فتاویٰ کو پڑھنے اور سمجھنے کا ایک غیرصحتمند اسلوب ہوگا۔

اوپر کے یہ تینوں فتوے لجنۃ دائمہ نے شیخ ابن باز﷫ کی سرکردگی میں صادر کیے۔ ایک فتویٰ میرے پاس ابھی اور ہے جو صرف شیخ کا ہے، یہ فتویٰ کمیٹی کے فورَم سے شائع نہیں ہوا۔ شیخ مرحوم نے یہ فتویٰ کسی زمانے میں مجلۃ لواء الاسلام سے شائع کرایا تھا۔ مجلہ کا یہ شمارہ تو تلاشِ بسیار کے باوجود مجھے نہیں مل پا رہا، تاہم شیخ کا یہی فتویٰ مجھے شیخ مناع القطان﷫ (متوفیٰ 1420ھ) کے ایک مقالہ بہ عنوان ’’معوقات تطبیق الشریعۃ‘‘ میں منقول ہوا مل گیا، جب تک مجھے وہ مجلہ دستیاب نہیں ہوجاتا تب تک میں شیخ مناع القطان  کے الفاظ کے ساتھ ہی شیخ ابن باز کا یہ فتویٰ نقل کرتا ہوں:

ہمارے شیخ فضیلت مآب، عالمِ زاہد شیخ عبدالعزیز بن باز سے پوچھا گیا کہ اسمبلی کی رکنیت کےلیے نامزد ہونے کا کیا حکم ہے، نیز ووٹ بنوانے کا اسلام میں کیا حکم ہے جبکہ آدمی کی نیت یہ ہے کہ وہ اسلام کے کسی داعی کو منتخب کرے گا اور دینداروں کو اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ فضیلت مآب شیخ نے اس کا جواب یوں دیا تھا:

’’نبیﷺ کی حدیث ہے إنما الأعمال بالنيات۔ اس بنا پر اسمبلی میں جانا باعثِ حرج نہیں بشرطیکہ اس سے مقصود حق کےلیے حمایت پیدا کرنا  اور باطل کی موافقت اختیار نہ کرنا ہو، اس وجہ سے کہ ایسا کرنے میں حق کو نصرت ملتی ہے، اور داعیانِ دین کو تائید میسر آتی ہے۔ اسی طرح ووٹ بنوانے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ اس سے مقصود صالح داعیوں کو منتخب کرنا اور حق اور اہل حق کی تائید کرنا ۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے‘‘۔ منقول از مجلۃ لواء الاسلام شمارہ 3 سن 1409ھ 1989ء۔

معوقات تطبیق الشریعۃ، ص 166

شیخ ابن باز (اللہ ان کی قبر کو بقعۂ رحمت بنائے) کے اور بھی کئی فتاویٰ ہیں جن میں غیرشرعی سیاسی نظاموں کے اندر شرکت کرنا جائز قرار دیا گیا جبکہ یہ مصلحتِ راجحہ کا تقاضا ہو۔ یہ فتاویٰ بھی انہی فقہی قاعدوں پر انحصار کرتے ہیں جو پیچھے مذکور فتاویٰ کے اندر بیان ہوئے یعنی حیثیتِ اِنشاء اور حیثیتِ مشارکہ کے مابین فرق کرنا اور حالتِ اختیار اور حالتِ اضطرار کے حکم کو الگ الگ رکھنا۔

ج:         فقیہِ عصر شیخ ابن عثیمین کا موقف:

میں نے نوٹ کیا ہے، وقت کے خلافِ شریعت نظاموں کے اندر سیاسی طور پر کردار رکھنے اور اثرانداز ہونے کے معاملہ میں سب سے زیادہ حوصلہ افزائی شیخ ابن عثیمین﷫ (متوفیٰ 1421ھ) کے ہاں پائی جاتی ہے۔ شیخ کے متعدد فتاویٰ کو دیکھنے سے یہی بات محسوس ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک فتویٰ شیخ اور ان کے طلبہ کے مابین گفتگو پر مبنی ہے جو ربیع الاول 1420ھ میں واقع ہوئی۔ قاری سے میری درخواست ہوگی کہ وہ ذرا دِقت کے ساتھ غور کرے کہ سوال کس قسم کی صورتحال کی بابت کیا گیا ہے، جس پر شیخ پورے وثوق کے ساتھ شرکت کے جواز کا فتویٰ دے رہے ہیں۔ بلکہ یہ بھی دیکھنے کی چیز ہے کہ شیخ اس کو جواز تک ہی نہیں نہیں رہنے دیتے بلکہ وجوب تک لےجاتے ہیں۔ اقتباس کی طوالت پر میں پیشگی معذرت خواہ ہوں:

سوال: جنابِ شیخ! کویت کے حالیہ انتخابات کی بابت کیا شرعی حکم ہے؟ واضح رہے کہ وہ لوگ جو اب تک ان میں شامل ہوتے رہے ہیں ان کی اکثریت اپنے دین کے معاملہ میں فتنوں کا شکار ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ضمنی انتخابات کے اندر شرکت کا کیا حکم ہے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں ان میں شریک ہونا واجب ہے۔ لازم ہے کہ اس کےلیے ہم ایسے لوگوں کی ذمہ داری لگائیں جن میں ہم خیر پاتے ہیں۔ کیونکہ اگر اہل خیر سستی دکھانے لگے تو پھر ان کی جگہ لینے کےلیے کون آگے آئے گا؟ اہل شر! کوئی اگر یہ کہے کہ ہمیں بس ایک ہی (اچھا) آدمی ملا ہے، باقی پوری اسمبلی تو اور طرح کے لوگوں سے بھری ہوئی ہے، تو ہم کہیں گے: یہ ایک بھی برا نہیں، اسی ایک میں اللہ اگر برکت ڈال دے، اور یہ اکیلا یہاں پر حق کی زبان بولتا رہے تو اس کی بھی کچھ نہ کچھ تاثیر تو لازماً ہوگی۔ مگر ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم خدا کے ساتھ سچے نہیں ہیں۔ ہم مادی ’ریکوائرمنٹس‘ پر تو خوب خوب توجہ دیتے ہیں، لیکن اللہ کی بات ڈنکے کی چوٹ بیان کرنے کے وقت بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ موسیٰ﷣ کی بابت آپ کیا کہیں گے جب فرعون آپؑ کو کہتا ہے کہ وہ تمام جادوگروں کے مقابلے پر کھڑے ہوکر دکھائیں۔ موسیٰ﷣ نہ صرف چیلنج قبول کرتے ہیں بلکہ اس کےلیے جو وقت مقرر کرتے ہیں وہ دن چڑھے کا وقت ہے اور وہ بھی اُن کے قومی جشن کا دن۔ اندازہ کرلیجئے، جشن کا دن، یعنی اُن کی عید کا دن، اور دن کی وہ گھڑی جب پوری خلقت اکٹھی ہوجاتی ہو۔ کھلے میدان کے اندر۔ یہاں لوگوں کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ اور موسیٰ﷣ کیسی للکار کے ساتھ اُن سب کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى ’’شامت کے مارو! نہ جھوٹ گھڑو اللہ پر، ورنہ وہ عذاب سے تم کو فنا کرڈالے گا، وہ نامراد ہے جو خدا پر جھوٹ گھڑے‘‘۔ ایک مختصر سی بات جو پورے مجمعے پر بم بن کر گری۔ ایسی وثوق کی بات کہ وہ اندر سے ہل کر رہ گئے۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ  یعنی یہاں ان کے مابین جھگڑا پھوٹ کھڑا ہوا۔ فَتَنَازَعُوا میں  فَ ترتیب کا فائدہ دیتی ہے، نیز تعقیب اور سببیت کا فائدہ دیتی ہے۔  یعنی موسیٰ﷣ نے یہ ایک ایسی بات کہی کہ ان کے مابین پھوٹ پڑ گئی۔  (قرآن میں جگہ جگہ تنازع یعنی پھوٹ پڑنے کو فشل یعنی بزدلی سے جوڑا گیا ہے) یعنی ان کے دل کھوکھلے کر ڈالے۔ اندازہ کرلیں یہ ایک ہی تو شخص ہے جو کلمۂ حق کو اس زور سے میدان میں لے آیا ہے کہ سامنے پوری ایک قوم ہے اور قوم بھی ایسی جس کاسربراہ تاریخ کا سب سے سرکش انسان ہے، مگر حق کی اِس ایک للکار کے آگے پوری قوم کی گھگی بندھ گئی ہے! تو میں کہتا ہوں فرض کریں پارلیمنٹ میں اہل حق کی ایک تھوڑی سی ہی تعداد پہنچ پاتی ہے، یہ بھی بہت ہے، مگر ضروری یہ ہے کہ یہ تھوڑے سے لوگ خدا کے وفادار ہو کر دکھائیں۔ خدا کے ساتھ اپنا سچا ہونا ثابت کریں۔ اب آپ کا یہ کہنا کہ پارلیمنٹ میں جانا جائز نہیں، فاسقوں کی مجلس میں شریک ہونا صحیح نہیں، ان کے ساتھ بیٹھنا درست نہیں... تو کیا ہم نے یہ کہا ہے کہ ہم اُن کی ہاں میں ہاں ملانے کےلیے ان کے پارلیمنٹ میں بیٹھیں گے۔ ہم وہاں بیٹھیں گے وہاں پر حق کی بات اٹھانے کےلیے۔ ہمارے اہل علم میں سے بعض بھائیوں کا کہنا ہے کہ اس میں شرکت جائز نہیں اس لیے کہ یہ جو سیدھی راہ پر چلنے والا شخص ہے اس کو وہاں ایک منحرف شخص کی صحبت میں بیٹھنا ہوگا۔ میں کہتا ہوں یہ سیدھی راہ پر چلنے والا آدمی اُس منحرف شخص کی صحبت میں بیٹھے گا، خود منحرف ہونے کےلیے یا اُس کو سیدھا کرنے کےلیے؟ سیدھا ٹیڑھے کو سیدھا کرنے کےلیے ہے یا ٹیڑھا سیدھے کو ٹیڑھا کرنے کےلیے؟! سیدھے کو چاہئیے کہ وہ ٹیڑھے کو سیدھا کرے اِس بار نہیں تو اگلی بار، استقامت اختیار کرکے رہے، ڈٹ کر رہے۔

سوال:         اچھا تو بائی الیکشنز؟ جنابِ شیخ؟

جواب:             سب ایک ہی ہے۔ ایک ہی حکم ہے ان کا۔ جس شخص میں خیر پاؤ اس کو نامزد کرو، اور اللہ پر بھروسہ کرو۔                    (لقاء الباب المفتوح: ل 211)

شیخ ابن عثیمین﷫ کا یہ فتویٰ صرف کویتی ڈیموکریسی تک نہیں رہا بلکہ امریکی ڈیموکریسی کے بارے میں بھی ان کا یہی فتویٰ رہا۔ ڈاکٹر احمد القاضی نے شیخ کے ساتھ اپنے سوال جواب مدون کیے ہیں اپنی مشہور تالیف ’’ثمرات التدوین‘‘ میں، جس میں  بیان ہوا:

میں نے شیخ﷫ سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی بابت دریافت کیا: کیا یہ ان انتخابات میں شرکت کریں جو امریکہ میں منعقد ہوتے ہیں، کسی ایسے امیدوار کو جیت دلوانے کےلیے جو مسلم مفادات کی حمایت کرے گا۔ شیخ نے کسی تردد کے بغیر موافقت میں جواب دیا۔                                                    (ثمرات التدوین: م 593)

تو یہاں پر... اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سبحان اللہ شیخ ابن عثیمینؒ   تو  جمہوریت قائم کرنے کو جائز کہتے ہیں خواہ وہ امریکی سسٹم پر ہو خواہ کویتی سسٹم پر، کیونکہ انہوں نے اس میں شرکت کے جواز کا فتویٰ دے ڈالا ہے... تو ایسے شخص کی بات جواب دینے کے قابل نہیں۔ کیونکہ عقلاء مقامِ اختیار اور مقامِ اضطرار کے مابین فرق کرتے ہیں۔ مقامِ انشاء کو مقامِ مشارکہ سے علیحدہ کرتے ہیں، یعنی ایک نظام کو وجود میں لانا اور چیز ہے اور ایک پہلے سے چلے آتے نظام میں مصلحتِ راجحہ کی بنا پر سیاسی نوعیت کی شرکت کرنا اور چیز۔

اب باوجود اس کے کہ ان دو باتوں کا فرق اس قدر واضح ہے... پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ اس موضوع پر بحث کرنے والےاکثر لوگ یہاں خلط پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ بعض علمائے توحید کے اُن فتاویٰ کو بنیاد بنا کر جن میں وہ کسی حالتِ اضطرار و عجز میں ایک غیرشرعی نظام میں سیاسی شرکت کو جائز قرار دیتے ہیں، یوں استنباط کرنا شروع کردیتے ہیں گویا اس سے ایک غیر شرعی نظام کو ابتداء سے وجود میں لانا ہی جائز ہوگیا ہے، یعنی حالتِ اختیار واقتدار میں بھی اس غیرشرعی نظام کو درست ثابت کرنے چل دیتے ہیں!

بہرحال... یہ ہے قاعدہ عامہ جو سیاسۃ شرعیہ کے اس موضوع سے متعلق ہے۔ یعنی مقامِ انشاء اور مقامِ مشارکہ کے مابین فرق کرنا۔ مقامِ اختیار و اقتدار کے مابین اور مقامِ اضطرار کے مابین تمییز کرنا۔

اب یہاں وہ سوال، جو بعض لوگ  اس موضوع پر اکثر اٹھاتے ہیں:

جو شخص ایک غیر شرعی نظام کے اندر سیاسی شرکت کرے گا، وہاں وہ جن شرعی امور کو ترک کرے گا اور ان پر عمل نہیں کرے گا، کیا وہ اس پر گناہگار ہوگا؟

اس سوال کا جواب ابن تیمیہ﷫ نے اپنی کتاب ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ کے آخر میں دے رکھا ہے:

فمن وُليِّ ولاية يقصد بها طاعة الله، وإقامة ما يمكنه من دينه ومصالح المسلمين، وأقام فيها ما يمكنه من الواجبات، واجتناب ما يمكنه من المحرمات؛ لا يؤاخذ بما يعجز عنه، فإن تولية الأبرار خير للأمة من تولية الفجار، ومن كان عاجزا عن إقامة الدين بالسلطان والجهاد، ففعل ما يقدر عليه، من النصيحة بقلبه، والدعاء للأمة، ومحبة الخير، وفعل ما يقدر عليه من الخير؛ لم يكلف ما يعجز عنه (السیاسۃ الشرعیۃ ص 133)

پس جو شخص کسی ایسے عہدہ پر فائز ہو، جس کے ذریعے اس کا اپنا مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کی اطاعت انجام دے گا اور جتنا اُس کے بس میں ہوا اتنا وہ خدا کے دین کی اقامت اور مسلمانوں کے مصالح کو قائم کرے گا، اور خدا کی حرام کردہ اشیاء سے وہ جتنا بچ سکے اتنا بچے گا، تو ایسا شخص اُن معاملات میں قابل مواخذہ نہ ہوگا جو اس کے بس سے باہر ہیں۔ کیونکہ نیکوکاروں کو عہدوں پر فائز کروانا امت کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ ان عہدوں پر بدکاروں کو رکھا جائے۔ جو شخص اپنے اقتدار اور جہاد کے دوران دین کی اقامت سے عاجز رہا اور بس اُنہی اشیاء کی انجام دہی تک محدود رہا جو اس کی مقدرت میں ہیں، مانند دل سے  مسلمانوں کےلیے مخلص رہنا، امت کےلیے دعاگو رہنا، خیر کےلیے دل میں تڑپ رکھنا، اور خیر کے جتنے امور انجام دے سکتا ہو ان کو انجام دیتے رہنا... تو ایسا شخص اُن اشیاء کا مکلف ہی نہیں ہے جن کو  انجام دینے سے وہ عاجز ہے۔

کتاب ’’مفاتيح السياسة الشرعية‘‘، مؤلفہ الشیخ إبراہیم السکران۔

فصل: ’’النظام السیاسی غیر المشروع: الإنشاء والمشارکۃ‘‘۔ 

http://majles.alukah.net/t93622/

http://www.saaid.net/book/open.php?cat=83&book=9129 



[1]   یہاں پر ہمارے بعض اصحاب یہ جواب دیتے ہیں کہ ہجرتِ حبشہ کے وقت ابھی شریعت کے کونسے ایسے احکام نازل ہوئے تھے جو نجاشی کی بابت یہ سوال اٹھایا جائے کہ اُس نے شریعت نافذ کیوں نہ کی؟ تاہم نبیﷺ کا صلحِ حدیبیہ کے بعد بادشاہوں کو اسلام کی دعوت پر مبنی مکتوب روانہ فرمانا، اور ان وقائع میں نجاشی کا اعلانِ ایمان یہ گنجائش نہیں چھوڑتا کہ احکامِ شریعت نازل نہ ہوئے ہونے کا عذر کیا جائے۔  یقیناً صلح حدیبیہ تک شریعت کا بہت بڑا حصہ نازل ہوچکا تھا۔      (مترجم)

[2]   عمر بن عبدالعزیز﷫ کا اموی سیٹ اپ میں شامل ہونا صرف ’’خلافت‘‘ کے منصب پر فائز ہونے سے شروع نہیں ہوتا (کہ جب انہوں نے لوگوں کو یہ اختیار تک دے ڈالا کہ اگر وہ چاہیں تو ان کی بیعت نہ کریں)۔ بلکہ عمر بن عبدالعزیز کا اقتدار میں آنا اس سے بہت پہلے سے ہے؛ خلیفہ بننے سے پہلے خاصا عرصہ وہ امویوں کے گورنر رہے تھے اور ’’حسبِ امکان‘‘ عدل قائم کرکے رہے تھے۔ چنانچہ عمرؒ  کا  عہدۂ خلافت تک پہنچنا دراصل اُس حسنِ کارکردگی کا نتیجہ تھا جب وہ اس ظالم نظام کے تحت گورنر بن کر رہے اور اپنی اعلیٰ صلاحیتیوں اور اپنے تقویٰ و انصاف کےلیے مشہور اور معروف ہوچکے تھے۔ یہ خلافت کسی ’حجرے‘ میں بیٹھے شخص کو بہرحال نہیں ملی تھی!    (مترجم)

[3]   ’’عام علمائے اہل سنت‘‘ جزیرۂ عرب کے عرف میں؛ کیونکہ مؤلف جزیرۂ عرب سے ہیں اور جزیرۂ عرب کےلیے لکھ رہے ہیں۔                                                        (مترجم)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
فرد اور نظام کا ڈائلیکٹ، ایک اہم تنقیح
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل، ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز