[د] یہ
’’اختلاف‘‘ جو تاقیامت ہے، اور جس کی بنیاد پر ’’انسانیت‘‘
دنیا میں بھی تقسیم ہوتی ہے اور آخرت میں بھی، اور جوکہ شرائع کا ایک مرکزی ترین
نقطہ ہے، یہ ’’اختلاف‘‘ ہی دنیا میں ’’دیار‘‘ اور ’’مقابر‘‘ کی تفریق تک جاتا ہے۔
اِس ’’اختلاف‘‘ کی بعض آئینی جہتوں پر ہم اگلی فصل کی تعلیقات میں روشنی ڈالیں گے۔
دلائلِ شرعیہ اس مسئلہ پر البتہ بےحد واضح ہیں کہ اِس تمام تر مسئلہ کی بنیاد
’’ایمان بالغیب‘‘ ہے؛ یعنی ’’رسول‘‘ کا اعتبار اور اس کے لائے ہوئے آئین
(’’کتاب‘‘) کا قبول کرنا۔ یہ تقسیم ہمارے سامنے کچھ اس طرح آتی ہے:
’’کتاب‘‘ جوکہ آئینِ خداوندی
ہے، پر ایمان:
1.
اخروی
طور پر باعثِ نجات ہے:
أ)
کامل ہو تو قطعی طور پر باعثِ نجات
ب)
ہرگز نہ ہو تو قطعی طور پر موجبِ ہلاکت، اِسی عدمِ ایمان کا نام
’’کفر‘‘ ہے۔
ج) ناقص ہو
تو خدا کی مشیئت سے معلق، چاہے تو معاف فرما دے اور چاہے تو وقتی سزا دے کر خلاصی
کردے؛ البتہ آخرکار نجات یقینی ہے (’’ایمان‘‘ ایسی ہی ایک عظیم چیز ہے)۔ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا
مُسْلِمِين ’’بہت آرزوئیں کریں گے
کافر کاش مسلمان ہوتے‘‘۔
2.
دنیوی
طور پر ’’اہلِ جماعت‘‘ میں شامل ٹھہرانے کا موجب ہے:
د)
زندگی زندگی؛ ’’مسلمین‘‘
والے حقوق اور ’’مسلمین‘‘ والے فرائض۔ باطن میں وہ منافق ہے یا نہیں، اس کا حساب
خدا کے ذمے۔ اگر اُسکا ظاہر ’’ایمان‘‘ ہے تو ہمارے اُس پر ’’مسلم‘‘ کا حکم لگانے
کےلیے یہ بہت کافی ہے۔
ه)
فوت ہونے پر ’’مسلمین‘‘ کے
قبرستان میں دفن ہوگا؛ جس پر قیامت تک گزرنے والے مومن سلام بھیجتے اور ان کےلیے
استغفار کرتے ہیں۔
اِس ’’ایمان‘‘ کی ضد ایک تو
’’کفر‘‘ ہے۔ پس جس آدمی کا ظاہر ’’کفر‘‘ ہو:
3.
اخروی
طور پر:
و)
اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے
ز)
ہاں خدا کے علم میں وہ
کافر نہ ہو، تو وہ جہنمی نہ ہوگا (جس طرح ہم ’’جماعۃِ مسلمین‘‘ میں موجود غیر مسلم
کے باطن کا کھوج نہیں لگاتے، کیونکہ ہمیں صرف دنیوی حکم لگانا ہے، اور اس کا
معاملہ خدا کے علم پر چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح ’’کافر ٹولوں‘‘ میں موجود غیرکافر کے
باطن کا کھوج نہیں لگاتے۔ مگر اس کی ملت
بہرحال جہنم کا راستہ ہے۔
4.
دنیوی
طور پر :
ح) وہ کافر
ہے۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں نہیں بلکہ ’’اہل اختلاف‘‘ (مِنَ الْمُشْرِكِينَ
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا) میں
ہے۔ فوت ہونے پر کفار کے قبرستان میں دفن ہوگا، چاہے دنیا میں وہ نابالغ یا پاگل
کیوں نہ تھا (جس کی ایک واضح دلالت ہے اور وہ یہ کہ دنیوی احکام میں ان کا معاملہ
کفار جیسا ہوگا۔ دنیا میں جو شخص ’’کتاب‘‘ اور ’’رسول‘‘ پر ایمان نہیں لایا وہ
بہرحال ’’ہم میں سے‘‘ شمار نہ ہوگا۔ یہیں
سے علماء کے ہاں یہ قاعدہ مقرر ٹھہرا کہ ضروری نہیں دنیا میں ہم جس پر ’’مسلم‘‘ کا
حکم لگانے کے پابند ہیں وہ آخرت میں بھی ’’مسلم‘‘ نکلے، اسی طرح دنیا میں ہم جس پر
’’کافر‘‘ کا حکم لگانے کے پابند ہیں وہ آخرت میں بھی ’’کافر‘‘ نکلے)۔
کافر غیر حربی کے ساتھ حسنِ سلوک ہمارا دین ہے
ط) البتہ
’’کفار‘‘ آگے دو قسم کے ہیں:
i.
غیر حربی: یعنی وہ کفار جو ’’جماعتِ مسلمہ‘‘ کے ساتھ جنگ
نہیں کرتے۔ (ذمی، معاہد، مستأمن وغیرہ اسی ’’غیر حربی‘‘ قسم میں آتے ہیں)۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا۔ (ان کے
’’کافر‘‘ ہونے پر ان کا حساب ہم نے نہیں خدا نے کرنا ہے)۔ انصاف کا برتاؤ کیا جائے
گا۔ لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ
يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ
تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ
مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ
يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 8) ’’ جن لوگوں نے تم سے
دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ
بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ سورۃ النساء میں (غیر حربی) کافروں کے ساتھ میل
جول اور رہن سہن رکھنے کی اجازت ملتی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہماری کتاب اور نبیؐ کی
حرمت قائم رہے: وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي
الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ
بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ
إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي
جَهَنَّمَ جَمِيعًا (النساء:
140) ’’اللہ اِس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو
کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ا ن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں
نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو
تم بھی انہی کی طرح ہو یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ
جمع کرنے والا ہے‘‘۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر وہ ہماری شریعت کی سماجی
حرمتوں کو پامال کرنے والے نہ ہوں، تو ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا، میل جول رکھنا
شریعت میں منع نہیں۔ یعنی بہت سے سماجی تعلقات (غیرحربی) کافروں کے ساتھ مسلمانوں
کے برقرار رہیں گے۔ بلکہ( سورۃ المائدۃ:5 میں) مسلمان مردوں کےلیے کفار کی ایک خاص قسم ’’اہل
کتاب‘‘ کی عورتوں کو اپنے نکاح میں لانا جائز کیا گیا ہے۔ غیر حربی کفار کے ساتھ
زیادتی اور بدسلوکی (جس کا تعین ہماری شریعت کی روشنی میں ہی کیا جائے گا) ہمارے
دین میں نہیں۔اُن میں سے وہ
خاص لوگ جو ’’جماعتِ مسلمہ‘‘ کی پناہ میں آجائیں اور مسلمان ان کو امان دے چکے ہوں
ان کے جان و مال کو نقصان پہنچانا ’’جماعت‘‘ اور اسکے ’’آئین‘‘ کے حق میں سنگین
گناہ تصور ہوتا ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ قَتَلَ
نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ
مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا» (البخاری: 6914) ’’جو شخص کسی
معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا اور جنت وہ جگہ ہے جس کی خوشبو
چالیس سال کے فاصلے سے آجاتی ہے‘‘۔ جبکہ ترمذی (رقم 1403) میں الفاظ آتے ہیں: «أَلَا مَنْ قَتَلَ
نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَقَدْ أَخْفَرَ
بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ» ’’خبردار!
جس نے کسی معاہد نفس کا خون کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل تھا، اس نے
خدا کا ذمہ پامال کرڈالا، پس وہ جنت کی خوشبو پانے والا نہیں‘‘۔
ii.
حربی: یعنی وہ کافر جو ہمارے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔
ان کے ساتھ ہماری جنگ ہے۔ ان کے ساتھ ہر قسم کا ناطہ توڑ لینے کا حکم ہے اور ان کے
ساتھ دوستی رکھنا حرام اور درحقیقت اللہ اور رسول کے ساتھ غداری۔ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ
قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى
إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ
الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 8) ’’ خدا ان ہی لوگوں
کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی
اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو
لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں‘‘۔
ایمان کی ایک اور ضد ’’فسق‘‘
ہے۔ فسق کی آگے دو قسمیں ہیں:
5.
فسقِ عملی: یعنی فرائض کا ترک اور محرمات کا ارتکاب۔ یہ اگر
’’کفر‘‘ تک نہ پہنچے (جس کا پیچھے ذکر ہوچکا) تو ایمان کو بالکلیہ زائل نہیں کرتا؛
ایمان کو ناقص اور داغدار کرتا ہے۔ ایسا شخص:
ي)
اخروی
طور پر: ’’تحت المشیئۃ‘‘ ہے، یعنی خدا چاہے تو اُس کے
گناہ پر پکڑلے اور چاہے تو بغیر عذاب جنت میں داخل کردے؛ کیونکہ ’’ایمان بالغیب‘‘
موجود بہرحال تھا، زائل نہ ہوا تھا۔
ك)
دنیوی
طور پر: ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں بدستور شامل ہے۔ ہاں کچھ سزا یا سرزنش کا
مستوجب ہوسکتا ہے۔
6.
فسقِ اعتقادی: یعنی اعتقادات کے اندر انحراف، تاویل یا ٹیڑھ اختیار
کرنا۔ فسقِ اعتقادی کا مشہور تر نام ’’بدعت‘‘ یا ’’ابتداع‘‘ ہے اور اس کا مرتکب
’’بدعتی‘‘ یا ’’مبتدع‘‘۔’’فسقِ اعتقادی‘‘ یا ’’بدعت‘‘ اگر ’’کفر‘‘ تک نہ پہنچے (جس
کا پیچھے ذکر ہوچکا) تو وہ ایمان کو بالکلیہ زائل نہیں کرتی۔ ایسا شخص (فسقِ عملی
ہی کی طرح):
ل) اخروی طور پر: ’’تحت المشیئۃ‘‘ ہے، اور
م)
دنیوی
طور پر: ’’جماعۃ المسلمین‘‘ میں شامل ہے۔ ہاں کچھ سزا
یا سرزنش کا مستوجب ہوسکتا ہے۔