عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2009-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
و: ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم

 
و: ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!

 
حامد کمال الدین

   
’انتہا پسندی‘ ایک انسانی واقعہ ہے۔ جس اچھے سے اچھے مشن کی آپ نشان دہی کر دیں گے، اُسی پر کچھ دیر بعد آپ کچھ لوگوں کو شدت اور انتہا پسندی کی راہ اختیار کرتا دیکھیں گے۔ البتہ اِس کا سد باب کرنے کی صورت یہ نہیں ہو گی کہ یہ معاملہ دیکھ کر آپ اپنے اُس ’مشن اسٹیٹمنٹ‘ میں تبدیلی لے کر آئیں تاکہ انتہا پسندی کا خاتمہ ہو! چاہے کوئی مداہنت کی راہ اختیار کرنے جا رہا ہو اور چاہے کوئی شدت اپنانے جا رہا ہو، آپ کو عین وہی بات کہنا ہوتی ہے جس کو آپ حق سمجھتے ہیں؛ ہاں اِس صورتحال کو بھانپ کر آپ کو اپنے بیان میں کچھ اضافی پیرائے ضرور شامل کرنا ہوتے ہیں تا کہ اُس موضوع پر جس کو آپ بیان کرنا چاہ رہے ہیں افراط اور تفریط کے طلبگار آپ کے یہاں سے اپنی مطلوبہ چیز کم سے کم دستیاب پائیں۔ بلکہ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپ کے یہاں سے وہ آپ کے مطلب کی چیز لے کر جائیں؛ نہ کہ اپنی ضرورت کی ’شاپنگ‘ کر جایا کریں۔ البتہ اِس بات کی کوشش ہی ہو سکتی ہے، ضمانت بہرحال نہیں دی جا سکتی !
ہمیں اپنے اس مضمون پر جو تبصرے موصول ہوئے ان میں ایسے بھی تھے جن کی رو سے ہم نے ’مداہنت‘ کی ہے، اور ایسے بھی تھے جن میں کہا گیا کہ ہم نے ’انتہا پسندی‘ کو ہوا دی ہے! کسی کے خیال میں اِس سے ’شدت پسند‘ تقویت پائیں گے اور کسی کے خیال میں اِس سے اُن طبقوں کو ایک گونہ تحفظ فراہم ہوتا ہے جو ’باطل کے ساتھ مصالحت‘ کی راہ پر گامزن ہیں۔ حق یہ ہے کہ ’مداہنت‘ بھی ایک ’انتہا‘ ہے اور ’شدت‘ بھی۔ یہ سب چیزیں ’نِسبی‘ و ’اضافی‘ relative ہیں، جن میں دیکھنے کی اصل چیز ’مصدرِ اشارہ‘ referring point ہی ہوا کرتا ہے، جو کہ ہمارے لئے ”اصولِ سنت“ ہی ہوسکتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اصولِ سنت اور اصولِ سلف کا نام لے کر ہی تو ہر کوئی اپنی بات ثابت کرتا ہے۔ یہاں ہم عرض کریں گے کہ خدا را چند باتوں کا خیال ضرور رکھیں:
1- اصولِ سنت اور اصول سلف کا کوئی حوالہ کسی دعویٰ کے اثبات پر آیا سرے سے دیا بھی گیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہاں کئی طبقے ہیں جن کے ہاں بات بات پر سنت اور سلف کے حوالے دیے جانا ’تعجب‘ کی نگاہ سے دیکھی جانے والی چیز ہے۔ اور شاید کچھ طبقے تو ایسے ہوں جن کے ہاں ’سنت‘ کا مفہوم ہی سرے سے کچھ اور ہو۔ پھر کچھ طبقے ایسے ہیں جن کے ہاں ’سلف‘ کا تصور آخری صدیوں ہی کے کچھ رجال کے گرد گھومتا ہو اور ’حوالے‘ دینے کی وہ باقاعدہ اپروچ جس میں ’عقیدت‘ اور ’وابستگی‘ کی ایک کیفیت جھلکتی ہے اور ان کو ’امام‘ یا ’اکابر‘ ماننے کا ایک شعوری رنگ ملتا ہے وہ زمانۂ آخر ہی کے کچھ اصحاب تک محدود ہو۔ البتہ بات بات پر قرونِ اولیٰ کے بزرگوں کا حوالہ دینا یا اُن ائمۂ علم کا جو بات بات پر قرونِ اولیٰ کے بزرگوں کا حوالہ دینے کیلئے معروف ہیں، اِن طبقوں کے ہاں ایک اوپری قسم کی ہی چیز نظر آئے۔ پھر، یہاں کچھ طبقے ایسے ہیں جن کا ہر فرد یہ کہے گا کہ قرآن و حدیث کو میں از خود سمجھوں گا، کسی کا فہم میرے لئے حجت نہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک ایسے ہوں گے جنہیں جب آپ بتائیں گے کہ اِس مسئلہ کو احمد بن حنبلؒ یا مالکؒ، شافعیؒ، ابو حنیفہؒ یا حسن بصریؒ، زہری، قتادہؒ، مجاہدؒ اور عمر بن عبد العزیزؒ وغیرہم نے یوں سمجھا یا بیان کیا ہے، یا حتیٰ کہ عبد اللہ بن مسعودؓ، عبد اللہ بن عباسؓ یا عبد اللہ بن عمرؓ وغیرہمؓ نے اِس کی بابت یہ کہا ہے تو شاید آپ کو ایک مختصر و ’مسکت‘ جواب ملے ’کیوں، یہ نبی تھے‘؟!
2- اصولِ سنت و سلف کا حوالہ کسی دعویٰ کے اثبات پر اگر دیا گیا ہے، تو بھی ، وہ شخص جو اِس سے استدلال کر رہا ہے، اصولِ سنت و اصولِ سلف سے بطورِ مدرسہ اُسکی وابستگی کیسی ہے؟
آپ جانتے ہیں یہ ایک باقاعدہ مدرسہ ہے اور اِس کا ایک تسلسل ہے۔ جو شخص اِس مدرسہ سے ہی وابستہ نہیں اور قدیم یا جدید میں اِس مدرسہ کے مانے ہوئے رجال (مستند اہل علم) ہی کو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتا اور اس مدرسہ کے رجال بھی تاحال اُس کو کسی خاطر میں نہیں لاتے، وہ شخص اِس مدرسہ کی رو سے ہمیں اپنے ’اجتہادات‘ بھی پیش فرمانے کی زحمت نہ کرے۔ ہمارا خیال ہے ہر مدرسہ ہی اپنے حوالہ سے استدلال کیا جانے کی بابت کچھ اِس طرح کی شروط اور تقاضے رکھتا ہے۔ یہاں کے محدَث innovatedمدارس بھی اِس معاملہ میں ایسا ہی کرتے ہیں بلکہ کوئی ان کے بڑوں کی رمزوں کو جاننے اور اُن کی عبارات کے اشارے پانے کا دعویٰ کرے تو اُس پر اچھا خاصا احتجاج کرتے ہیں کہ ہمارے مدرسہ کی چیزوں کو خود ہمارے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
چنانچہ آپ کو دیکھنا ہو گا: اتباعِ سنت و سلف کا یہ جو مدرسہ ہے، اِس کے حوالے سے ایک استدلال کو سامنے لانے والا شخص اِس مدرسہ کے رجال کو کیا حیثیت دیتا ہے اور اِس کے رجال خود اِس شخص کو کیا حیثیت دیتے ہیں۔ اپنے زمانہ میں یہ شخص اِس مدرسہ کے سب یا بیشتر رجال کو ہی اگر کسی خاطر میں نہ لاتا ہو، اور وہ بھی اِس کے رسوخِ علم یا اِس کے توازنِ فکر یا مدرسہ سے اِس کی علمی وابستگی کی بابت کوئی ایسی شہادت نہ دیتے ہوں جو باقاعدہ طور پر ہمارے علم میں آگئی ہو، تو ایسے شخص سے ہماری یہی درخواست ہو گی کہ اِس مدرسہ کے حوالہ سے وہ ہمیں اپنی ’اَقول‘ نہ سنائے۔ پھر اگر وہ اِس مدرسہ ہی کے رجال کو اُن کی مسندِ علمی سے فارغ کر دینے کا راستہ اختیار کرتا ہے؛ ان میں سے کسی کی ’تبدیع‘ کرتا ہے تو کسی کی ’تضلیل‘ تو کسی کی ’تکفیر‘، کسی کو ’مرجئی‘ ٹھہراتا ہے تو کسی کو ’خارجی‘ تو کسی کو ’جہمی‘، کسی کی ’عدالت‘ ساقط کرتا ہے تو کسی کو ’فتویٰ دینے کیلئے نا اہل‘ بتاتا ہے۔۔ تب تو وہ اپنی بابت ہمیں اور بھی بڑی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ ہم اُسے اُس مسند پر بٹھانے سے شدید متنبہ رہیں جس پر وقت کے اہل علم نے اُس کو نہیں بٹھایا، بلکہ ہو سکے تو اُس کو وہاں سے اٹھا بھی دیں۔۔ اور مسلم معاشروں کے اندر ’فتویٰ جات‘ کو مذاق نہ بننے دیں۔
3- اِس کے بعد ’اختصاص‘ کا مسئلہ آتا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ علم کا کوئی ایک ہی شعبہ نہیں، اور یہ بھی کہ علم کے ہر شعبہ میں طاق ہونا ہر کسی کا بس نہیں۔ ہر میدان کے شہسوار یہاں کم ہی ملتے ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ ایک عالم اپنے خاص شعبہ میں تو اپنا ثانی نہ رکھتا ہو جبکہ کسی اور شعبہ میں اُس کی اختیار کردہ رائے ایک ’طالبعلمانہ‘ رائے ہو کیونکہ ایک طالبعلم بھی کسی نہ کسی رائے کو اختیار تو بہر حال کرتا ہے۔ بنا بریں، زیادہ توجہ کے قابل ایک عالم کی وہ رائے ہو گی جو اُس کے اپنے شعبہ میں ہو، کیونکہ اِسی کو پیشہ ورانہ رائے کہا جائے گا۔ اختصاص کا اعتبار کرنے سے بہرحال کوئی مفر نہیں۔ لہٰذا یہ بات بھی درست نہ ہوگی کہ ایک عالم کو کسی ایک مقام پر ہم نے اگر عالم تسلیم کر لیا ہے تو اب اُس کو مطلق طور پر ہر ہر شعبہ میں ہی حوالہ ٹھہرایا جائے، الا یہ کہ واقعتا وہ ہر شعبہ ہی کا مردِ میدان ہو۔ اب جس موضوع میں ہم ہیں، اس حوالہ سے ’اصولِ فِرَق‘ اور ’علمِ تحریک‘ کے متخصص علماءکو سب سے زیادہ وزن دیا جائے گا۔ ہمارے ملک میں ’فرقوں‘ کو جاننے کے حوالے سے کچھ متخصص اہل علم پائے جاتے ہیں تو زیادہ تر ان کا اختصاص انہی فرقوں سے متعلق ہے جن کے خلاف یہاں برصغیر میں کام کی خاص ضرورت محسوس کی گئی، مثلاً رافضہ، باطنیہ، حلولی صوفیہ، قبوریہ، نیچری، قادیانی، پرویزی اور کچھ دیگر منکرین حدیث وغیرہ وغیرہ۔ اِن فرقوں پر اچھی نظر رکھنے والے یقینا یہاں خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ ’اصولِ فِرَق‘ ایک خاص روایتی علم ہے اور اِس پر سند مانے جانے والے اہل علم آپ کو زیادہ تر جزیرۂ عرب ہی میں ملیں گے۔ پھر جہاں تک ’حکم‘ لگانے کا تعلق ہے، تو اس کیلئے اہل سنت کے ہاں ’اصول التعامل مع المبتدع‘ کے حوالے سے باقاعدہ ایک علم اور منہج پایا جاتا ہے اور کچھ اہل علم اِس میدان میں خاص نظر رکھتے ہیں، کوشش کی حد تک اِس باب میں انہی کی تلاش ہونی چاہیے۔ اِسکے ساتھ ساتھ، کئی ایک جہتیں اِسکے اندر ’جدید دور‘ کو جاننے کے حوالے سے شامل ہو جاتی ہیں۔ جدید معاشرے، جدید نظام، جدید افکار، ماڈرن ٹرینڈز، نئی گمراہیاں اور نئے فکری چیلنج۔۔ اسلامی حوالے سے اِس پر ایک نہایت گہری نظر ہونا، یہ بھی اب باقاعدہ ایک علم ہے۔ ’اصولِ فِرَق‘ اور ’اصولِ تعامل‘ کے ساتھ ساتھ کسی کو اگر اِس آخر الذکر چیز سے بھی کچھ حظ نصیب ہوا ہے وہ تو اور بھی بڑھ کر حق رکھتا ہے کہ طلبِ علم و ارشاد کے معاملہ میں سب سے زیادہ اُسی کی جانب رخ کیا جائے اور اُسی کی آراءکو وزن دیا جائے۔
آج سے تین چار عشرے پیشتر، مصر سے اخوانی پس منظر کی حامل کچھ تحریکی شخصیات کے سعودی عرب ہجرت کر جانے کے نتیجہ میں، جزیرۂ عرب کے علمی حلقوں کے اندر ’قدیم‘ اور ’جدید‘ کو یکجا ہونے کے کچھ نئے مواقع اور نئی جہتیں نصیب ہوئی ہیں اور جدید تاریخ میں کمال کا یہ ایک واقعہ ہو گیا ہے۔ جیسی ٹھیٹ سلفیت سعودی عرب میں پائی جاتی تھی، کہیں نہ پائی جاتی تھی۔ جدید حالات اور جدید نظاموں اور جدید افکار کی بابت جس قدر ایڈوانس انداز میں سوچنا اور دیکھنا بالعموم مصر کی اسلامی تحریک کو نصیب ہوا ہے، شاید کسی کو اِس سے پہلے نصیب نہیں ہوا۔ شاید کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ہو کہ سعودی جامعات کے کئی ایک ’خاموش گوشے‘ اِس حوالے سے ’مجمع البحرین‘ بننے جا رہے تھے! آج اللہ کا فضل ہے کہ جزیرۂ عرب میں ایسے افراد کی پوری ایک کھیپ سامنے آنے لگی ہے جو نہ صرف قدیم اور جدید کی بہت سی گتھیاں سلجھا لینے پر قدرت رکھیں، بلکہ علمِ تحریک میں وہ ہمارے طالبعلموں کو بھی بہت سی راہنمائی دے سکیں۔
مختصر یہ کہ اہل علم کی آراءکو جانچتے وقت ’اختصاص‘ کو بھی اُس کا مطلوبہ وزن دیا جائے۔
4- مذکورۃ الصدر تینوں باتوں کا خیال رکھ لیا گیا ہے، تویقینا آپ ایک صحیح پٹڑی پر چڑھ آئے ہیں۔ اب اگر آپ کو کسی تعددِ آراءکا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ ’شاذ‘ قسم کے اقول اور ’تفردات‘ اہل علم کے ہاں بھی آپ کو مل سکتے ہیں۔ مگر یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ہر ہر شعبۂ علم میں ایک طالبعلم کو اِس کا سامنا بہرحال ہوتا ہے۔ اِس مسئلہ کے ساتھ قدیم سے جس طرح نمٹا گیا ہے وہی معاملہ آپ کو یہاں بھی کرنا ہوگا۔
واضح رہے، یہ ہم نے اپنے اُن قارئین کے اشکال پر بات کی ہے جو اپنی پریشانی ظاہر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اصولِ سنت‘ اور ’اصولِ سلف‘ کا نام لے کر ہی تو یہاں ہر شخص اپنی بات کرتا ہے‘۔ پس جن اصحاب کی پریشانی صرف یہیں تک ہے ان کے فائدہ کیلئے تو ہم وہ چار نکات ہی عرض کر سکتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔ ’اتباعِ سنت و سلف‘ باقاعدہ ایک مدرسہ ہے اور اس کا اپنا ایک تسلسل ہے اور اپنے کچھ معیارات۔ ہاں رہ گئی بات کہ اِن موضوعات پر ’اصولِ سنت‘ و ’اصولِ سلف‘ کا سوال ہی سرے سے کیوں اٹھایا جائے، تو اِس کا جواب ظاہر ہے یہاں نہیں دیا گیا۔ گو اِس کا جواب ہم نے اپنے کتابچہ ’آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟‘ میں دینے کی کچھ کوشش ضرور کی ہے۔
اپنے پچھلے مضمون میں بھی ہم نے اِس جانب توجہ دلانے سے غفلت نہیں برتی کہ: کچھ افکار کہ انتہا پسندی کی جانب مائل ہیں یہاں کی فکری سرزمین پر دھیرے دھیرے پیش قدمی کئے آتے ہیں، جبکہ یہ وقت کے اہل علم کی علمی تائید سے محروم ہیں۔۔۔۔
یہ افکار اتنا ہی نہیں کہ وقت کے معروف علمائے سنت پر اپنا علمی وفکری انحصار نہیں کرتے بلکہ یہ اُن کی علمی حیثیت کو مشکوک بھی ٹھہرا رہے ہیں۔ نیم عالم شخصیات، خواہ وہ کتبِ اہلسنت کے کتنے ہی حوالے کیوں نہ دے لیں، دین کے نہایت اہم اور وقت کے نازک ترین مسائل پر مرجع تسلیم نہیں کی جا سکتیں۔ وقت کے باطل نظاموں پر ہو سکتا ہے ہم انکی کچھ باتوں کو اِس لئے قابل اعتناءسمجھ لیں، کہ اِس کی توثیق بالعموم علمائے سنت سے بھی مل جاتی ہے، مگر ان کا وقت کے علمائے سنت پر ہی طعن و تشنیع کرنے لگ جانا، بلکہ اپنے آپ کو اِس حیثیت میں پیش کرنا کہ علماءسمیت یہ سب کا ’فیصلہ‘ کر سکتے ہیں، یہ بات ہمیں اِن سے اور اِن کے لٹریچر سے شدید حد تک متنبہ رکھنے کیلئے کافی ہونی چاہیے۔ اپنے مضمون کے تقریباً ابتدا میں ہی (ص 15 تا 23 کے پورے مقطع میں) اِس کی جانب ہم نے کچھ نہایت واضح اشارے کئے تھے؛ جن کے ہوتے ہوئے، ہمارا خیال ہے، ہماری گفتگو پر اٹھائے جانے والے بعض اشکالات بنتے نہیں تھے۔ اِس پر مزید کچھ لکھنے کی بجائے، ہماری درخواست ہوگی کہ ہمارے مضمون کے اُسی مقطع (ص 15 تا 23) کو دوبارہ دیکھ لیا جائے، خصوصا اُس کے یہ پیرے :
”ہرگز درست نہیں کہ اپنے یہاں ہم ایسے لٹریچر کو عام ہونے دیں جو کسی نامعلوم سمت سے آرہا ہو؛ یعنی جس کے لکھنے والے نہ تو وقت کے معروف اہل علم کے اقوال اور فتاویٰ کے پابند ہوں اور نہ اُن اہل علم کے کہنے میں رہتے ہوں۔
اور یہ بات تو خاص طور پر متنبہ رہنے کی ہے کہ ایسے لٹریچر کی اپنے یہاں ہرگز پزیرائی نہ کی جائے جس کے لکھنے والے وقت کے معروف علمائے سنت پر طعن وتشنیع کرتے ہوں اور اُن کی بابت نوجوانوں کا ایسا تاثر بنائیں کہ وہ (یعنی وقت کے معروف علمائے سنت) امت کی راہنمائی کیلئے نااہل ہیں لہٰذا امت کے نوجوان اب اِن (لٹریچر نویسوں) ہی کی راہنمائی قبول کر لیں!
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 16)
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر یہ ’لکھاری‘ ہی ان نوجوانوں کی نظر میں ’علماء‘ ٹھہرتے ہیں اور یہی ان کیلئے ’مفتی‘ اور یہی ’سب کچھ‘۔ پھر یہی جس کو کافر کہہ دیں وہ اِن نوجوانوں کی نگاہ میں کافر اور جس کو گمراہ کہہ دیں وہ گمراہ! اور جس کی بابت ’توقف‘ اختیار کریں اُس خوش قسمت کی بابت ’توقف‘ کر جانا ہی ’صحیح موقف‘ مانا جائے گا! یہاں تک کہ علماء تک کو ’عذر دینے‘ یا ’نہ دینے‘ کا فیصلہ اِنہی کے ہاتھوں میں آجاتا ہے!۔۔۔۔ ’حتی اِذا لم یبق عالما، اتخذ الناس رؤوساً جہالاً، فسئلوا، ف اَفتوا بغیر علم، فضلوا و اَضلوا“
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 17)
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ نئی نئی دعوتیں جو ہمارے برصغیر میں اِس وقت قدم رکھ رہی ہیں اُن کی بابت ایک بصیرت پیدا کرائی جائے۔۔۔۔، یعنی:
اگر تو اِن دعوتوں کی پشت پر وقت کے معروف علمائے سنت پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔ پھر تو نہ صرف اِن کی پزیرائی کرائی جائے بلکہ یہ امید رکھی جائے کہ یہ ہمارے اُس بحران کو حل کر دینے میں بھی مددگار ہوں گی جس نے عرصہ سے ہمیں ایک بند گلی پر پہنچا رکھا ہے۔ اور بلاشبہ ایسی کئی تحریکی پیشرفتیں بالفعل آج پائی جاتی ہیں جو علمائے جزیرۃ العرب کے زیر تحریک پروان چڑھ رہی ہیں اور کمال کی سلفی وعصری جہتوں کو مجتمع رکھے ہوئے ہیں اور جن کو اپنے یہاں لے کر آنے میں ان شاءاللہ بہت بڑی خیر ہے۔
البتہ اگر ان دعوتوں کی پشت پر وقت کے معروف علمائے سنت نہیں پائے جاتے ۔۔۔۔اور بلاشبہ کئی ایک دعوتیں ایسی ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تو ایسی دعوتوں سے خبردار ہی رہا جائے۔ یقین کیجئے یہ ہمارے برصغیر کے اِس بحران کو بے اندازہ بڑھا دیں گی۔
ضروری نہیں اِن شدت پسند رجحانات کو کوئی خاص نام یا عنوان دیا جائے مگر ان سے متنبہ رہنا بہر حال لازم ہے۔ ان رجحانات میں ’جماعتِ تکفیر‘ سے متاثر ہونے کا عنصر بھی، کہیں پر کم اور کہیں پر زیادہ، پایا جانا خارج از امکان نہیں۔
(ایقاظ کا مذکورہ اداریہ، جنوری 2009ء، ص 22- 21)
اِس انتہا پسند اندازِ فکر کی جانب اشارہ کیلئے اِس سے بڑھ کر کیا اسلوب اختیار کیا جائے؟
اداریہ میں اس سے بعد کے اجزاء

اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔

ز
 

اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء

کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم

 
 استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!

الف

بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!

ب

اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں

ج

 مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!

د

حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں  تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟

ھ

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز