عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 27,2024 | 1445, شَوّال 17
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2009-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
الف: استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
 
الف: استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!

 
حامد کمال الدین

   
عالم اسلام کے بیشتر خطوں پر براجمان غیر اللہ کی حاکمیت پر مبنی نظام ہائے سلطنت جس چیز کا ایک تاریخی وعملی تسلسل ہیں وہ ہے استعمار کا ہمارے اِن شہروں اور ملکوں پر ظالمانہ و مجرمانہ تسلط۔ بے شک اِس صورتحال کو ممکن بنا دینے کے پیچھے ہماری ہی مجرمانہ غفلت کارفرما رہی تھی، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ ہماری اِس غفلت و کوتاہی اور اپنے دین سے ہماری اِس دوری کا فائدہ اٹھا کر ہمارے دشمنوں نے ہم پر قابو پایا تو اپنی ہزار ہزار سالہ حسرتیں پوری کرنے کی ٹھانی۔ ہماری توہین و تذلیل اور ہمارے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ، انہوں نے ہم پر اپنی مرضی کے نظام مسلط کئے اور ہماری آسمانی شریعت کو معطل ٹھہرا کر اُس کے بالکل متوازی ایک قانون، ایک نظام اور روا و نا روا (حلال و حرام) کا پورا ایک کوڈ ہم پر لاگو ٹھہرایا۔ یہ نظام اور یہ قانون رب العالمین کی باقاعدہ ہم سری کرتا تھا اور آسمان سے اترے ہوئے فیصلوں کے ساتھ صاف صاف متصادم تھا۔

پھر جب اُن کے اپنے ہی مابین لڑی جانے والی دو عالمی جنگوں کے نتیجہ میں وہ ہم پر براہ راست حکمران نہ رہ پائے تو وہ بڑی کامیابی کے ساتھ ایک ایسا عالمی انتظام عمل میں لے کر آئے کہ اُن کا وہی نظام اور وہی قانون جو رب العالمین کی باقاعدہ ہم سری کرتا تھا اور آسمان سے اترے ہوئے فیصلوں کے ساتھ صاف صاف متصادم تھا، یہیں کے کچھ مقامی عناصر کے ذریعے اپنی اُسی کافرانہ شان سے ہم پر مسلط و برقرار رہے۔
یہ ’مقامی عناصر‘ ہمیشہ استعمار کے کچھ خاص معتمد عناصر رہے ہیں اور استعمار کے چھوڑے ہوئے اُس کافرانہ ترکہ کے تحفظ و پاسبانی کے معاملہ میں اپنے آپ کو عموماً ’شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار‘ ثابت کرتے رہے ہیں۔ استعمار اور دینِ استعمار کے ساتھ اپنے تعلق، وفاداری، کاسہ لیسی، اور استعمار کے در کی غلامی اختیار کر رکھنے میں، اور پل پل پر اُسی کی جانب رجوع، اُسی سے سب کے سب سبق لینے اور بات بات پر اُسی سے ہدایت لینے کے معاملہ میں، یہ طبقہ کچھ ایسی امتیازی خصوصیات کا مالک رہا ہے اور قریب قریب یہاں کا ہر باخبر شخص اِس کی شہادت دے سکتا ہے کہ اِس مراعات یافتہ طبقہ پر اِس امتِ مرحومہ کا ایک عام فرد قیاس ہی نہیں ہو سکتا، بے شک وہ ’عام فرد‘ اپنے دامن میں ویسے کتنی ہی خطائیں کیوں نہ رکھتا ہو۔
عالم اسلام پر حاوی اِس ’قبضہ گروپ‘ نے، استعمار کی تاحال جاری مدد سے، جس زبردست انداز میں ہمارے یہاں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں اور اِس کے ہاتھ جس قدر دراز و دور رَس ہیں، وہ اب آپ سے آپ عیاں ہے۔
یہ ’نیا انتظام‘ ایک کمال کا انتظام تھا۔ ایک ایسی قوم جو بیچاری پہلے ہی اپنی کم علمی وبدنظمی و پسماندگی سے مار کھا رہی تھی اور شعور کی کمی کے باعث ہزار ہا انداز میں دشمن کے ہاتھوں اپنے دین اور اپنی دنیا کا استحصال کروا رہی تھی، اِس کرسی پر پرایوں کی بجائے ’اپنوں‘ کو پاکر، لازم تھا کہ اب تو اور بھی بڑے دام میں آتی اور پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر اپنے استحصال کو ممکن ہونے دیتی، خصوصاً جبکہ اِس نظام کی بہت سی کارروائی اب ’تلاوتِ کلام پاک‘ کے آغاز کے ساتھ بھی ہونے لگی تھی! صرف اِس قوم کے پسماندہ و کم تعلیم یافتہ طبقوں ہی کی کیا بات، ہمارے بہت سے چارہ گر بڑی دیر تک اِس کی ’تلاوتِ کلام پاک‘کی تاب نہ لا پائے تھے بلکہ شاید اب بھی ہمارے بہت سے فضلاءاِس کے ساتھ کسی ’بد ظنی‘ کے متحمل نہیں۔ جاہلیت نے عالم اسلام کے ساتھ ایسا مکر صدیوں میں کبھی نہ چلا ہو گا، کہ جسے دیکھ کر ہمیں بے ساختہ یہ قرآنی الفاظ یاد آ جاتے ہیں:وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ ( اِبراہیم: 46)۔ یعنی ایک ایسا مکر جس سے پہاڑ ہل کر رہ جائیں! کیسے کیسے دیوہیکل تعلیمی، ابلاغی، سماجی و ثقافتی منصوبے اور کیسے کیسے تحقیقاتی و اطلاعاتی و شماریاتی ادارے اور پراجیکٹ، اور کیسے کیسے تھنک ٹینک اور ذہین ترین دماغوں کے بڑے بڑے گودام اور وسائل کی ہزار ہا اقسام ہیں اور کتنے ٹریلین کے بجٹ، جو عالم اسلام کے ’ایک اوسط فرد‘ کے گلے میں پڑی ہوئی رسی کو برابر بٹا دینے میں لگے ہیں کہ کہیں یہ ڈھیلی ہو کر اس کو اِس کی گرفت سے نکل جانے کی گنجائش فراہم نہ کر دے۔
عالم اسلام میں استعمار کا منظورِ نظر یہ ٹولہ جو ہمارے یہاں استعمار کے ہراول کا کام دے رہا ہے، بلا شبہ کچھ ایسی ’امتیازی خصوصیات‘(1) رکھتا ہے کہ اس کو قوم کے پسے ہوئے اور ظلم اور جہالت اور افلاس کے مارے ہوئے دیگر طبقوں سے الگ کر کے دیکھنے میں کوئی عقلی مانع ہے اور نہ شرعی قباحت۔ یہ گھاگ خرانٹ ٹولہ جوکہ عالم اسلام میں کفر کے ایجنڈا کو کامیاب کرانے کیلئے اپنی تمام تر خدمات اربابِ استعمار کے حضور پیش کر کے رکھتا ہے اور اس کے عوض یہاں کے سیاہ و سفید کا مالک بن رہنے کا اندھا اختیار پاتا ہے، بلا شبہ اسی بات کی کمائی کھاتا ہے کہ وہ یہاں کی مقامی آبادی کی ایک معتد بہ تعداد کو کچھ گمراہ کن ہتھکنڈے استعمال کر کے، کبھی قوم کا واسطہ تو کبھی ’قرآن‘ کا واسطہ دے کر، کبھی ترقی کے خواب دکھا کر تو کبھی ’روٹی‘ کی آس لگوا کر، ان کو اپنے ساتھ چلا کر دکھائے۔ پھر جس طریقے سے اِس کے پیش کردہ نظامِ بار برداری میں انگریز کے فکری ترکے کو اسلام کے ’شرعی مواد‘ میں گوندھ دیا گیا ہے جبکہ جاہلیت کا یہ وہ حربہ ہے جس نے ہماری کئی ایک دینی قیادتوں کو شیشے میں اتار لینے کی حد تک کامیابی پا کر دکھائی ہے؛ وہ اپنی جگہ الگ متقاضی ہے کہ اِس دام میں آنے والے خواہ عوام ہوں اور خواہ ہمارے وہ اسلام پسند جن کی غلبۂ اسلام کے ایجنڈا سے وابستگی اور وفاداری ہماری نظر میں ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے، ان سب کو اِس نظام کی اصل حقیقت سے خبردار تو زیادہ سے زیادہ کیا جائے لیکن جاہلیت کے تن پر پہنی ہوئی اسلام کی قبا سے دھوکہ کھا جانے کے باعث (کہ جو جاہلیت کا ایک ایسا مکر تھا کہ اِس سے پہاڑ ہل کر رہ جائیں) اپنے اِن دونوں طبقوں {(1)- اس نظام کی بابت خوش فہمی کا شکار عوام اور (2)- اسلامی گروپوں} کی بابت رائے رکھنے میں بہرحال استعمار کے اس منظورِ نظر ٹولے کی نسبت ایک مختلف اور نرم تر اسلوب اپنایا جائے اور ان ہر دو کے ساتھ اپنی اسلامی محبت و وابستگی کو بھی باقاعدہ طور پر برقرار رکھا جائے۔ ہمارے وہ اہل علم، جنہیں خدا کے فضل سے ”فقہِ تحریک“ میں خاص توفیق اور دانش نصیب ہوئی ہے، یہ بات ذہن نشین کرانے پر نہایت زور دیتے ہیں کہ جاہلیت گو اپنی یہ پوری کوشش کرے گی اور ہمیں بھی کچھ ایسی بے ساختہ غلطیوں کی جانب دھکیلے گی (اور اب ہم دیکھ رہے ہیں ایسی کچھ غلطیاں یہاں کے جذباتی نوجوانوں کی جانب سے واقعتا ہونے بھی لگی ہیں) مگر ہمارے لئے بہر حال یہ درست نہ ہو گا کہ جاہلیت کو اُس کے فائدے کیلئے ہم اپنی جانب سے کچھ ایسی غلطیاں کر کے دیں کہ جاہلیت کے ساتھ ہمارے اِس معرکہ میں بیچ کے یہ دونوں طبقے ہماری بجائے جاہلیت ہی کے طرفدار بننے کیلئے اپنے پاس زیادہ سے زیادہ وجوہات رکھیں۔ یہاں عوام اور اسلامی گروپوں کو اِس نظامِ کفر اور اِس کے سرغنوں سے برگشتہ کرنے کی ایک ایسی اپروچ اختیار کی جانی چاہیے کہ اِن کے راستے اِس نظام اور اس کے کارپردازوں کے راستوں سے زیادہ سے زیادہ جدا ہونے لگیں، ہماری کوشش کم از کم یہی ہو۔۔ بجائے اِس کے کہ کوئی ایسی اپروچ اختیار کی جائے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں یہاں کے عوامی و اسلامی حلقوں کو اِس نظام اور اس کے کار پردازوں کے ساتھ ایک ہی مورچے میں اپنے خلاف اکٹھا کر کے آئیں!!! جاہلیت کے اصل سرغنوں کو یہاں زیادہ سے زیادہ برہنہ اور زیادہ سے زیادہ تنہا کر دینا، اور حق کی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ موثر اور باطل کے خلاف زیادہ سے زیادہ یکجا کروانا، جبکہ یہاں پائے جانے والے ’عام شخص‘ کو ممکنہ حد تک باطل سے بیزار اور حق کا ہم نوا بنانا، اور اگر وہ حق کا ہم نوا نہیں بنتا تو بھی اس بات کو ممکنہ حد تک یقینی بنانا کہ اُس کو ایسے اسباب پیدا کر کے نہ دیے جائیں جو اُس کو حق کی مخالف صف میں لے جا کھڑا کریں اور یوں ہماری اپنی ہی اِن نادانستہ کوششوں سے جاہلیت کو ہمارے خلاف اِس معرکہ کے اندر مفت میں بے تحاشا جنود ہاتھ آئیں ، یہ اُس حکمتِ عملی کا لب لباب ہے جو یہاں توحید کے داعیوں کو اپنا کر چلنا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ یہ ایک مشکل، غیر معمولی نزاکت کا حامل اور دانائی کا متقاضی عمل ہے اور اِس پر ہمیں ہرگز اِدھر اُدھر کا کوئی ’نکتہ‘ اٹھا کر جذباتی نہیں کیا جا سکتا کہ جس کے زیرِ تحریک ہم اپنا اصل ہدف چھوڑ کر کسی ایسی سمت کا رخ کریں جدھر کو جانا ہمیں فائدہ تو ذرہ بھر دینے کا نہیں البتہ اُدھر گڑھے اتنے بڑے بڑے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک ہی میں گرے تو ہم گم ہو کر رہ جائیں۔۔۔۔ اوپر سے مٹی ڈالنے والے البتہ یہاں بہتیرے ہیں!
البتہ یہ معرکہ (’معرکہ‘ کا لفظ ایک وسیع معنیٰ میں نہ کہ بمعنیٰ ’خروج‘، جیسا کہ کچھ لوگ اِس کو یہ معنیٰ پہنانے پر ہی مصر نظر آتے ہیں، جبکہ ہم اِس کو اپنی تحریروں کے اندر ایک وسیع معنیٰ میں لیتے ہیں)۔۔۔۔ یہ معرکہ جس میں ہمیں بیچ کے طبقوں کو اپنا طرفدار بنانے اور بصورت دیگر جاہلیت کا طرفدار نہ رہنے دینے کا چیلنج درپیش ہے۔۔ ہمارا یہ معرکہ وجود میں ہی آنے کا نہیں جب تک ہم اپنے اُس اصل ہدف کا تعین نہیں کر لیتے جو یہاں جاہلیت کا علم اٹھا کر کھڑا ہے۔ یعنی ایسا بہرحال نہیں کہ ہم لوگوں کو بیچ سے ہٹاتے ہٹاتے ہر کسی کو ہی سامنے سے ہٹا دیں اور عملاً کوئی انسانی فریق ہی ہمارے سامنے نہ ہو جس سے ہمیں یہ جنگ لڑنی ہے سوائے کچھ abstract اشیاءکے، مانند ’نظام‘، ’قانون‘ اور ’طرزِ حیات‘ وغیرہ جبکہ ہم ’نظام‘ اور ’قانون‘ اور ’طرزِ حیات‘ کے سرغنوں اور کارپردازوں کو اِس جنگ سے الگ کر چکے ہوں(2)! ایسی جنگ تو قیامت تک وجود میں آنے والی نہیں جو ’مجرد اشیاء‘ کے خلاف لڑی جا رہی ہو، سوائے مفروضات و فلسفہ جات کی دنیا کے اندر ہی۔ بلکہ ایسی جنگ کی تو کوئی ابتدائی ترین شکل بھی بننے والی نہیں جس میں ’فریقِ مخالف‘ محض کچھ ’مجرد اشیاء‘ ہوں! یہاں آپ کو اپنے مد مقابل نظریات و افکار و اَنظمہ بھی درکار ہیں تاکہ حق اور باطل کے مابین تدافع کی وہ اصل کہانی وجود میں آئے، مگر ساتھ میں اُن باطل نظریات وافکار و اَنظمہ کا علم اٹھا رکھنے والی گوشت پوست کی مالک کچھ مخلوقات بھی آپ کو نظر آنی چاہئیں تاکہ یہ تدافع کسی وہمی معرکہ تک محدود نہ رہے۔ افکار اور اشخاص کا ایک مقام پر مجتمع ہونا ایک حقیقی معرکہ کو جنم دینے کیلئے باطل کے معسکر میں بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ حق کے معسکر میں۔ نہ حق نے کبھی مجرد رہ کر میدان جیتا ہے اور نہ باطل کبھی مجرد رہ کر پچھاڑا گیا ہے۔ ہر دو کی نمائندگی کو اور ہر دو کی پہچان بننے کو یہاں انسان در کار ہیں۔ پس کچھ انسانی چہرے باطل کے حوالے سے بھی نظر میں آنا اور نظر میں رہنا ضروری ہے اور حق کے حوالے سے بھی۔ کسی ایک جانب پایا جانے والا خلل بھی اِس جلیل القدر معرکہ کے وجود میں آنے کے اندر مانع ہو جاتا ہے۔ باطل کے کیمپ میں پائے جانے والے ’انسانی عنصر‘ سے صرفِ نظر کر رکھنے کا منہج ایک غیر حقیقی منہج کہلائے گا اور اِس صورت میں باطل کے ساتھ کسی حقیقی کشمکش کی شروعات بھی ناپید رہیں گی چاہے ’نظری‘ طور پر اُس باطل کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کیلئے اہل حق کو کتنا ہی ’منظم‘ کیوں نہ کر لیا گیا ہو۔ معسکرِ باطل کا تعین ہونے کے معاملہ میں ’مجرد‘ abstract اور ’مجسم‘ concrete کا یہ اجتماع اور اِس مسئلہ کو دیکھنے کی بابت یہ توازن اپنے نوجوانوں کی ’نظر‘ کی تربیت کیلئے بہر حال مطلوب ہے اور ہماری اِس وقت کی ایک بہت بڑی تحریکی ضرورت۔
’مجرد‘ پر ہی کل زور دے رکھنے کا ایک منہج ہمارے کچھ قابل احترام حلقوں کے یہاں اگر پزیرائی پا کر رکھتا ہے۔۔ تو ہمارے نزدیک یہ منہج کسی عملی تو کیا کسی فکری اور نظریاتی معرکے کو بھی جنم دینے سے آخری حد تک قاصر رہے گا اور وہ خاص فضا جو حق اور باطل کے آمنے سامنے آنے سے بالکل ابتدا ہی کے اندر وجود پانے لگتی ہے اور بعد کے معاملہ کے آگے بڑھنے کیلئے ایک بنیاد فراہم کرتی ہے، یہاں بڑی حد تک عنقا رہے گی۔ معاشرے کے اندر ایک ہلچل پیدا کر دینے کیلئے دعوت کا ’ہزاروں افراد‘ پر مشتمل ہونا ضروری نہیں بلکہ اِس کا انحصار جس بات پر ہے وہ ہے ’دعوت کا مضمون‘ اور ’داعی کے اسلوب اور تیور‘۔ (دعوت کا مضمون عموماً ایک سا رہتا ہے، البتہ داعی کے اسلوب اور تیور مراحل اور موقع مناسبت کے لحاظ سے تبدیلی پزیر ہوتے ہیں)۔ بسا اوقات یہ کام، یعنی دعوت کے نتیجے میں ایک ہلچل پیدا کر دی جانا (جو کہ دعوت کے اولین مراحل میں سے ہے اور ایک نہایت اہم مرحلہ ہے) چند افراد کے ہاتھوں انجام پا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ کام ہزاروں افراد سے بھی نہیں ہوتا۔ باطل کو تو ہمیشہ ایک ’رد عمل‘ ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ ’عمل‘۔ ’عمل‘ تو ہمیشہ دعوت کی جانب سے سامنے آنا ہوتا ہے اور اسی سے یہ سلسلہ آگے سے آگے بڑھتا ہے۔ پس عمل اور ردِعمل کا یہ سارا سلسلہ دعوت کی ایک درست ترین ابتدا پر ہی انحصار کرتا ہے؛ ایک درست ترین ابتدا جس کے اہم اہم جوانب میں سے کوئی ایک جانب بھی چھوٹ نہ گئی ہو۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں باطل کے خلاف اٹھائی گئی دعوت میں محض ’مجرد‘ پر زور دے دیا جانا دعوت کا ایک ابتدائی خلل ہے کیونکہ اِس میں ’انسانی‘ پہلو قریب قریب مفقود ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دعوت ایک فلسفہ اور ایک لیکچر بن کر رہ جاتی ہے۔ اِس منہج میں البتہ اگر یہ درستی کر لی جاتی ہے اور اِس میں اگر وہ توازن پیدا کر لیا جاتا ہے جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا۔۔۔۔ تو یہ چیز ان شاءاللہ اِس میں ایک غیر معمولی قوت اور تاثیر لے آسکتی ہے اور تب ایک passive resistance بھی بلکہ ایک passive resistance ہی اللہ کے فضل سے کمال کے کچھ نتائج برآمد کر کے دکھا سکتی ہے۔
غرض یہ نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے دَور اور خطہ کے اندر پائے جانے والے کفر ہی نہیں اُس کفر کے سرغنوں اور اُس کے عَلم بردار طواغیت سے بھی بری و بیزار ہو کر دکھائیں۔ آپ کی جنگ نظریات کے ساتھ بھی ہو اور اُن نظریات کا ’وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ‘ (النور:11) کا مصداق ٹھہرنے والے انسانوں کے ساتھ بھی۔ یا تو آپ کے گرد وپیش میں کفر اور شرک کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور آپ کو خوش قسمتی سے یہاں خلافت راشدہ یا کم از کم بھی ’اموی‘ اور ’عباسی‘ ایسی کوئی اجتماعی صورتحال میسر ہے۔۔ البتہ اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدائے رب العالمین کے خلاف یہاں پر پائی جانے والی بغاوت، کفر اور شرک کے درجہ کو پہنچتی ہے،اور جوکہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال ہے، تو اس صورت میں خدائے رب العالمین کے خلاف ہونے والی اس بغاوت کا کوئی انسانی سر پیر بھی آپ کو نظر آنا چاہیے۔ اِس پر حکم لگانے میں پوری احتیاط سے کام لیجئے، اور بے شک ’اشخاص‘ کو معیَّن (nominate) کر کے سرے سے کوئی حکم نہ لگائیے (کیونکہ اشخاص کو معین کر کے حکم لگانا ضروری بہر حال نہیں)، مگر وہ ’انسانی سر پیر‘ جو اِس عمل کے پیچھے کار فرما ہو، اُس کا حکمِ عام بیان کرنے کی ضرورت بہر حال رہے گی کہ اِس فعل کے مرتکب لوگوں کو شریعت میں کہا کیا جاتا ہے: وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدۃ: 44) قرآن مجید کی ایک بے انتہا واضح آیت ہے اور یقینا کسی مقصد کیلئے اتاری گئی ہے۔ معاملے کو اتنا ’گول‘ بہرحال نہیں کیا جا سکتا کہ اِس کی زد محض کچھ مجرد اشیاء پر پڑے اور ’انسانوں‘ کو کسی وعید کا محل ہی نہ رہنے دیا جائے! اور پھر سوال تو یہ ہے کہ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ کے قرآنی الفاظ ”انسانوں“ کو موضوعِ بحث بناتے ہیں یا ’محض کسی نظام‘ کو؟ مَن کا لفظ عربی کے اندر مخلوقِ عاقل کیلئے استعمال ہوتا ہے یا ’مجرد اشیاء‘ کیلئے؟
پس اگر آپ باطل کے خلاف ایک زندہ اور جیتی جاگتی دعوت کھڑی کر دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ’دعوت‘ کو نرا ایک ’فلسفہ‘ نہیں رہنے دینا چاہتے۔۔۔۔ تو ایک ’نظام‘ کے ساتھ کچھ ’انسان‘ بہر حال آئیں گے۔ ہاں یہ ایک معقول بات ہے کہ آپ اِس دائرہ کو بہت زیادہ نہ پھیلائیں اور اپنی جانب سے اس کو ائمۃ الکفر اور رؤوس الفساد تک ہی محدود رکھیں(3)، خصوصاً ایک کلمہ گو معاشرہ میں۔ دیگر طبقے بیچ میں آئیں تو ہی اُن سے کچھ سروکار رکھیں اور تب بھی کوشش کی حد تک کوئی ایسا دانشمندانہ راستہ اختیار کریں کہ بیچ کے لوگ ’فوکس‘ میں بہرحال نہ آنے پائیں۔ خود اپنا اصل فوکس مترفین کے اُسی ٹولے پر رکھیں جس کے ہاتھ میں معاملات کی زمام کار ہے اور جوکہ اِس فتنہ اور فساد اور مالک کے خلاف بغاوت کا اصل روحِ رواں ہے۔ اِس راہِ عزیمت میں کامیابی کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھنے کی کلید یہی ہے کہ جو لوگ معاشرے کے اندر خدا کی بغاوت کا باقاعدہ علم اٹھا کر کھڑے ہیں ، آپ کی ضرباتِ حق کا اصل ہدف معاشرے کا وہی عنصر رہے ۔ اس کے سوا کچھ ہے بھی تو اس کو پس منظر میں جانے دیں۔ اس کو چھوڑ کر کسی ایسے ہدف کے پیچھے پڑنے سے متنبہ رہیں جو آپ کے عمل کی ترکیز کو ختم کرا کے رکھ دے گا، اگرچہ لاکھ مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ ایسے کچھ ’متبادل‘ اہداف آپ کے سامنے لائے جائیں۔
یہ ’متبادل اہداف‘ عموماً دو ہی ہیں جن کے تعاقب کی پھر آگے ان گنت صورتیں اختیار کی یا کروائی جاتی ہیں: ایک ہدف ہے یہاں کا ’عام آدمی‘ اور دوسرا ہدف ہے یہاں کی ’دینی قوتیں‘ اور ’اسلامی شخصیتیں‘۔ یہاں، جاہلیت آگے بڑھ بڑھ کر آپ کو لقمہ دے گی کہ اِن ہر دو کو پکڑ لیں اور کسی صورت نہ چھوڑیں اور یہ کہ جتنا آپ رگیدسکتے ہیں اِن ہی دو کو رگیدیں تا کہ جاہلی قیادتیں یہاں بڑے آرام سے رہیں اور ہو سکے تو آپ کی اِس سرگرمیِ بے کار سے محظوظ بھی ہوں (جاہلی میڈیا میں یہ ٹون بھی آپ بخوبی ملاحظہ کر سکتے ہیں)۔ آپ اِن ہر دو کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں اور یہ آپ کے، اِس سے بڑھ کر بھی کیا جاہلیت کو یہاں سے کچھ چاہیے؟ ’سامنے کا ہدف‘ چھوڑ کر آپ کچھ جانبی قسم کے اہداف ہی کے ساتھ الجھ کر رہ جائیں اور ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے (’عامۃ الناس‘ اور ’دینی طبقوں‘ کی تکفیر یا تضلیل کے حوالے سے) آپ کسی خطرناک گڑھے میں جا گریں یا کسی بیابان میں جا گم ہوں، جاہلیت کو یہ چیز اگر آپ خود اپنے ہاتھ سے پیش کریں تو کیا شک ہے کہ آپ ایسے داعی اُس کیلئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
یقینا کچھ جماعتوں نے یہاں پر قائم کفر اور فساد کے سرغنوں کا پیچھا چھوڑ کر ’متبادل‘ کے طور پر سامنے لائے جانے والے بعض راستوں کا تعاقب کیا بھی _ جبکہ ایسی کسی جماعت کو کبھی کسی اعلیٰ سطح کی بھاری بھرکم علمی شخصیت کی حمایت کسی ایسے ’متبادل راستے‘ پر چل پڑنے کے معاملہ میں حاصل نہیں رہی _، کسی نے عوام (موجودہ مسلم معاشروں) کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کی راہ اختیار کی اور انکا ’شرعی حکم‘ متعین کرنے پر ورق سیاہ کئے، یہاں کے عام سنتری اور ایک ادنیٰ درجہ کے سرکاری ملازم تک کو کافر اور مرتد کہا۔۔۔۔ تو کسی نے اسلامی جماعتوں کیخلاف ’جدوجہد‘ کا راستہ اختیار کیا اور ہر ہر جماعت کا کچا چٹھہ تیار کر کے اپنی فائلوں میں لگایا اور اپنے ایک ایک نوجوان کو یہ فائلیں تھما کر ’دعوت‘ کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کیلئے معاشرے میں اتارا جہاں وہ کسی کے پیچھے نماز چھوڑتا ہے، تو کسی کو سلام کا جواب نہ دے کر ’سنت‘ پر عمل پیرا ہو کر دکھاتا ہے، کسی عالم کی تکفیر تو کسی داعی کی تضلیل، کسی کی پگڑی تو کسی کا دامن، زندوں کو چھوڑ مُردوں تک کا تعاقب۔۔۔۔ لیکن یہ دین کی کوئی خدمت تھی اور نہ اِن نوجوانوں کے اپنے ہی کسی فائدہ کا کام۔ باطل کو بھی اِسکا کیا نقصان؟! اُسکی بلا سے سبھی تحریکیں اِسی کام پر لگ جائیں اور پچھلے چودہ سو سال کے گڑے مردے اکھاڑ ڈالیں، اُسکو اور کیا چاہیے؟!! کوئی تو کام ایسا ہو کہ اُسکا وقت یہاں آرام سے گزرے اور اُسکے منصوبے کسی مزاحمت کے بغیر پایۂ تکمیل کو پہنچیں!!!
مختصر یہ کہ۔۔۔۔ ہم پر دو صدیوں سے مسلط غیر اللہ کی خدائی پر مبنی نظاموں کا یہاں قائم و جاری رہنا ہماری نظر میں جس حقیقت کا مرہون منت ہے وہ ہے: استعمار کو عالم اسلام کے اندر ایک ایسے ایمان فروش ٹولے کا میسر رہنا جو ہمارے مابین استعمار کے دین اور استعمار کے مفادات کا تحفظ کرنے کے معاملہ میں استعمار کو ہر قسم کی نصرت دینے اور استعمار سے ہر قسم کی نصرت لینے کی روش پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم رہا ہے اور اِس وتیرہ میں وہ ہر ہر حد تک چلا جانے کی ان گنت مثالیں پیش کر چکا ہے۔ استعمار کے ترکے میں پائے اور اس کی جانب سے مسلسل بخشیش میں ملتے رہنے والے اَسباب و اَوزار کی بدولت یہ طبقہ بے پناہ وسائل کا مالک ہے اور ایک غربت، افلاس، جہالت اور پسماندگی کی ماری ہوئی قوم کو اپنے مقاصد کے تابع رکھنے کے نہایت عمدہ طریقے اور اعلیٰ و ترقی یافتہ حربے آزماتا ہے۔ رہی سہی کسر پھر یہ ’آزادی‘ کے نقاروں کے ساتھ اپنے آپ کو ’مسلم حکمران‘ کے طور پر پیش کر کے پوری کرتا ہے، جس کی ’اطاعت‘ اور ’فرماں برداری‘ کے وجوب پر یہاں کا ٹی وی اور ریڈیو کسی کسی وقت ہمیں آیات اور احادیث بھی پڑھ کر سناتا ہے! شرعی نصوص کے حوالے سے اِس کی خوش الحانی یہاں کے بہت سے عوامی ہی نہیں اسلامی حلقوں کے بھی دل موہ لیتی رہی ہے، جس کے باعث یہ عوامی اور اسلامی حلقے اِس کو اُس نظر سے نہیں دیکھ پاتے جس نظر سے اللہ کا شکر ہے کہ اب ہمارے وہ نوجوان دیکھ لینے لگے ہیں جنہیں عقیدہ کا فہم پانے کے معاملہ میں محمد بن عبد الوہابؒ اور سید قطبؒ کے مدرسہ تک رسائی ہونے لگی ہے۔۔ عالم اسلام کے دو ’بدنام ترین‘ نام جو معاصر جاہلیت کے دل پر صبح شام کچوکے لگاتے ہیں اور آج کے تحریکی عمل پر جن کے اثرات کو مٹانے اور جو اثرات مٹ نہ سکیں اُن کو نہایت بھدا کر کے دکھانے کیلئے مرجئہ کی ایک فوج ظفر موج صبح شام مصروفِ عمل ہے۔۔۔۔
واللہ غالب علیٰ اَمرہ۔۔۔۔!!!

اداریہ میں اس سے بعد کے اجزاء

بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!

ب

اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں

ج

 مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!

د

حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں  تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟

ھ

ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!

و
اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔

ز
اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء

کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم

 

 

 

(1) حق یہ ہے کہ عالم اسلام پر مسلط مترفین کے اِس ٹولے کو خصوصی نظر سے دیکھنے کے ایک نہیں بیشمار پہلو ہیں اور اب تو یہ بات کچھ ایسی باعث تعجب بھی نہیں رہی ہے۔ روز بروز معاملہ واضح تر ہوتا جا رہا ہے۔
پوری قوم ہی اِس ضمیر و ایمان فروش ٹولے کے ہاتھوں مسلسل رلائی جا رہی ہے اور اب تو اِس کی دَین سے بموں کی بارش سہہ رہی ہے۔ ہر کوئی اِس کے شکنجے میں جکڑا ہوا مسلسل کراہ رہا ہے۔ اور اب۔۔۔۔ عالم اسلام کی یہ آہ فغاں مسلسل بلند ہونے لگی ہے۔ بہت سے پردے ہٹ گئے ہیں۔ ’چہرے‘ اپنی اصل حقیقت کے ساتھ اچھی خاصی پہچان میں آنے لگے ہیں۔ خوش امیدی کے بہت سے پرت اتر چکے ہیں، جوکہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ رفتہ رفتہ اب عالم اسلام میں اس سے صرف اور صرف ’نجات‘ پانے کا سوال ہی سب سے زیادہ توجہ لینے لگا ہے، جوکہ نہایت امید افزا بات ہے۔ مسلم دنیا میں اس سے ’چھٹکارے‘ کی دہائی آسمانوں تک جا پہنچنے والی ہے اور اِس کو کالی سیاہ رات باور کرنے پر امت میں اچھی خاصی یکسوئی پائی جانے لگی ہے۔ حیرت صرف اِس پر ہے کہ امت کے ہزار ہا مسائل کو برطرف رکھتے ہوئے، استعمار کے جا نشیں اِس ٹولے کو ایمان کے سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہی، کچھ طبقوں کی ترجیحات میں سر فہرست نظر آتا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ اِس کے فعل کی شناعت بیان کرنے اور اِس کے طرزِ عمل کا شرعی حکم بیان کرنے والوں کی مذمت بھی ’وقت کی ایک نہایت اہم سرگرمی‘ ہے!
(2) ہمارا مقصد یہاں اُس نقطۂ نظر پر بات کرنا ہے جس کا کہنا ہے کہ آپ صرف اور صرف یہاں کے ’طاغوتی نظام‘ کے خلاف بات کریں بغیر اِس کے کہ آپ ان ’انسانوں‘ پر بات کریں اور ان کا کوئی شرعی حکم بیان کریں جن کا عمل ہی در حقیقت اِس نظام کو ’طاغوت‘ کا وصف عطا کرتا ہے۔
سبھی جانتے ہیں ’نظام‘ ایک ایسی مخلوق ہے جو ’جمادات‘ میں بھی نہیں ’مجرد‘ اشیاءمیں آتی ہے۔ ’نظام‘ نہ ’مکلف‘ مخلوقات کے زمرے میں آتا ہے؛ نہ اِس کا حساب اور نہ اِس کو عذاب اور نہ یہ کسی وعد اور وعید کا مخاطب۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کا مخاطب ”زندہ مخلوقات“ رہی ہیں۔ 
ہمارے یہ قابل احترام حضرات جو اپنے اس نقطۂ نظر پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں اور ’انسانوں‘ کو موضوعِ بحث بنانے کے شدید مخالف ہیں لیکن ’طاغوت کے خلاف جدو جہد‘ کا تصور بہرحال قرآن سے ہی لیتے ہیں.... ہمارے یہ واجب الاحترام حضرات قرآن کی کونسی آیت میں ’نظام‘ کا ذکر پاتے ہیں؟ انبیاءکی ساری زندگی باطل ’نظام‘ کے خلاف جدوجہد میں گزری تو ’نظام‘ سے ملتا جلتا کوئی لفظ آخر قرآن میں اور انبیاءکے صحیفوں میں اور کتب سیرت میں بھی تو ملنا چاہیے! اِس کے برعکس، ہم دیکھتے ہیں علمائے عقیدہ قرآن میں وارد لفظ ”طاغوت“ کی تفسیر کرتے ہیں تو اس میں وہ کچھ ’ذی نفس‘ مخلوقات کا ہی ذکر کرتے ہیں: مثلا: شیطان جو خدا کو چھوڑ کر اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے، حاکم جائر جو خدائے رب العالمین کے قانون کی بجائے اپنا قانون چلاتا ہے، عدل کی مسند پر بیٹھنے والا وہ ظالم جو خدا کے نازل کردہ احکام کی بجائے کسی اور شریعت کی رو سے فیصلے کرتا ہے، وہ شخص حو علم غیب کا دعوی کرتا ہے، اور وہ پیشوا جس کی عبادت ہو (یعنی اس کو سجدہ و رکوع ہو اور اُس سے دعاءو استغاثہ ہو) تو وہ اس پر راضی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
قرآن اور قصص انبیاءکو دیکھیں تو.... یہاں تو سب کچھ ”زندہ اور مکلف ہستیوں“ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ محض کچھ abstract اشیاءکے خلاف جدوجہد کے فلسفے تو لگتا ہے خاصا بعد میں جا کر سامنے آئے ہیں، بلکہ ’رواداری‘ کے اِس دور کا ہی خاصہ نظر آتے ہیں۔ واللہ اعلم
(3) اور وہ بھی زیادہ تر اشخاص کو معیَّن (nominate) کئے بغیر ہی، اور کفر کے سرغنوں اور گمراہی کے علم برداروں کا حکمِ عام بیان کرنے تک محدود رہتے ہوئے ہی.... جیسا کہ یہ بات پیچھے گزر چکی ہے، اور یہ بات ہمارے جنوری کے اداریہ میں بھی قدرے وضاحت سے ہوئی ہے اور ابھی آگے چل کر بھی قدرے تفصیل سے ہو گی۔
’حکمِ عام‘ (کسی وقت ہم اِسے حکمِ مطلق بھی کہتے ہیں) سے مراد ہے کہ کسی فعل یا رویے یا منصب کا عمومی حکم بیان کرنا، بغیر یہ تعیین کئے کہ فلاں اور فلاں شخص پر یہ حکم لاگو ہو چکا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ”فلاں کام کرنے والا شخص شریعت میں طاغوت کہلاتا ہے“۔ حکم عام کو دعوت میں اختیار کرنے کا اسلوب نہ تو غلط ہے اور نہ ضرر رساں، بلکہ دعوت کو واقع کے ساتھ جوڑنے کیلئے باقاعدہ طور پر مطلوب ہے۔
 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز