عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Muslim_Hasti آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دین کے حقائق میں رسوخ
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

’فرد‘ پر محنت کا اولین محور:

 

دین کے حقائق میں رسوخ

 

 

یہ حقائق کیا ہیں جن سے اسلام کی ابتدا ہوتی ہے اور جو کہ مستحبات سے پہلے، بلکہ فرائض سے بھی پہلے، مطلوب ہیں اور جن پر محنت کی جانا سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے ضروری ہے؟

اللہ کی پہچان، اللہ کی تعظیم اور توحید کا صحیح تصور،بندگی کا مطلب اور الوہیت کا مفہوم۔ بندگی کے مفہوم کی وسعت اور گہرائی۔ اللہ کی عظیم صفات کا ___ بشری حدود میں رہتے ہوئے___ حتی الوسع علم اور معرفت۔ ربوبیت کی حقیقت جاننا۔ الوہیت کا مفہوم سمجھنا۔ ان سب پہلوؤں سے اللہ کی وحدانیت اور یکتائی اور کبریائی کا بار بار اعتراف کرنا اور کروانا۔ ان سب پہلوؤں سے اللہ کے ساتھ شریک کئے جانے والوں کی نفی وانکار اور ماحول وگردو پیش میں ان کے لئے روا رکھی جانے والی عبادت وبندگی کا مسلسل اور پورے زور سے انکار۔ ان ہستیوں کیلئے روا رکھی جانے والی عبادت وبندگی کی سب انواع اور سب نظریاتی اور عملی صورتوں کا ایک زندہ اور واقعاتی انداز سے بطلان کرنا.... انکا ایک محسوس کروا دینے والے انداز سے بطلان کرنا اور ان سے اپنی دشمنی اور بیزاری کا ممکنہ حد تک اظہار کرنا اور غیر اللہ کی عبادت وبندگی کے خاتمہ پر دل وجان سے مصر نظر آنا۔

یہ اللہ پر ایمان ہے.... ایمان، جو کہ اسلام کی بنیاد اور ابتداءہے، کی ابتداءاللہ کی پہچان اور اللہ کے حقوق جاننے سے ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایمان کی ابتدا بھی اسی سے ہوتی ہے اور ایمان کی انتہا بھی اسی پر ہوتی ہے۔ اعمال بس درمیان میں آتے ہیں ۔ یہ ایک بہت ہی منفرد حقیقت ہے۔ جن اعمال کو ایمان جنم دیتا ہے وہ آگے پھر ایمان ہی کو جنم دیتے ہیں ۔ ایمان کے بیج سے جو عمل پیدا ہوتا ہے وہ پھر ایمان ہی کے پھل دیتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر ایک بہترین انداز میں چل نکلتا ہے:

وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ (1)

اسی کے ایک آیت بعد پھر یہ آیت آتی ہے اور جس کو کہ امام بخاری باب العلم قبل القول والعمل کا عنوان بناتے ہیں :

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ(2)

ایمان کا علم ہر چیز سے پہلے ہے۔ یہاں سے عابرِ سبیل ہو کر گزرنا ہرگز درست نہیں ۔ اس کو ’سمجھی سمجھائی‘ چیز جاننا دین کی ہر بات کو بے جان کر دینا ہے۔ ’اللہ پر ایمان‘ وہ زبردست حقیقت ہے جس پر اسلام کی، حتی کہ باقی ایمانیات کی، تمام تر بنا استوار ہوتی ہے۔ ایمان کی بنیاد پختہ کرنے سے مراد:

- ایمان کے حقائق پر یقین پیدا کرنا بھی ہے

- اور ان حقائق کا علم لینا اور ان کا فہم پانا بھی

- اور ان کی حدود اور قیود کو جاننا بھی

- دین کے ان حقائق کو عمل کی بنیاد اور تحریک کا موضوع بنانا بھی۔

- حتیٰ کہ ایمان کے نواقض (جن چیزوں سے ایمان چلا جاتا ہے) جاننا بھی ”ایمان پر محنت“ یا ”ایمان کی بنیاد پختہ“ کرنے میں آتا ہے۔

ارکانِ ایمان، بیان کرنے میں چھ ہیں اور ان چھ کے چھ پر ایمان رکھنا ضروری ہے، مگر دراصل یہ اللہ پر ایمان کی ہی ایک تفصیل ہیں ....

فرشتوں پر ایمان دراصل اس کی عظمت وکبریائی کا ہی ایک عظیم الشان پہلو ہے۔ آسمانوں کے اوپر ہر دم ہونے والی اللہ کی حمد اور تسبیح جس میں کوئی ایک لمحے کا بھی وقفہ نہیں آنے پاتا۔ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان پاکیزہ روحانی مخلوقات جن کی ماہیت جاننا بھی انسان کے بس سے باہر ہے۔ آسمان کے ہر ہر چپے پر رکوع وسجود اور قیام میں کھڑے فرشتوں کے بوجھ سے آسمان کا چرچرانا۔ کائنات کی وسعتوں اور پہنائیوں میں اللہ کی عظمت کے کبھی نہ رکنے والے تذکرے۔ عرش کے پائے تھامے ہوئے دعاؤں اور التجاؤں میں لگے ہوئے فرشتے اور اس کے گرد فرشتوں کے پرے کہ پاکیزگی اور لطافت جن کا بنیادی وصف ہے۔ بیت المعمور میں سجدے کا شرف پانے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرتے فرشتے۔ چاق وچوبند، کائنات کے ہر طرف اللہ کی ڈیوٹیاں کرتے فرشتے.... یہ دراصل اللہ کی الوہیت، اللہ کی وحدانیت اور کبریائی اور اس کے مطاعِ مطلق اور فرماں روائے ہستی ہونے کا ایک خوبصورت اور عظیم الشان پہلو ہی تو ہے۔

پھر اس کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان اس کی رحمت اور اس کے حقِ بندگی واطاعت کا اعتراف ہی تو ہے۔ اس رحیم اور کریم کے ہاں سے کتابوں کا نزول اور رسولوں کی بعثت، کائنات کے اس حقیر اور ناقابل ذکر گوشے میں بسنے والی خاکی مخلوق سے اس کا التفات ہی تو ہے کہ اُس نے اِس بے چارہ انسان کو اپنی پہچان کرائے بغیر نہ رہنے دیا اور اپنا نام لئے اور اپنی بندگی کا موقعہ دیئے بغیر نہ مرنے دیا۔ کتابوں اور رسولوں پر ایمان اس اعتراف کی دلیل ہی تو ہے کہ انسان ہدایت کا سدا محتاج ہے اور یہ کہ اس مقصد کے لئے اللہ نے اپنے کلمات کو محض اپنے فضل اور عنایت سے ہرملک اور ہر رنگ اور ہر نسل کے انسان تک پہنچانے کا ایک اعلیٰ اور معیاری بندوبست کیا اور پھر ان اعلیٰ کلمات کے سمجھانے کو اور ان کا عملی سبق پڑھانے کو ہر دور کے بہترین، اعلیٰ ترین اور بے لوث ترین انسانوں کو پیغمبر بنا کر اس فرض پر متعین کیا اور یہ کہ اللہ کے ان کلمات سے اور اسکے متعین کردہ ان خدائی رہنماؤں سے آدمی کو بندگی کے باقاعدہ آداب سیکھنا اور زندگی کی اعلیٰ قدروں کی پہچان کرنا ہے۔ یوں کتابوں اور رسولوں کا موضوع بھی اللہ کی ذات ہے اور یکتا اسی کی پرستش اور اسی کی عبادت اور پھر اس کی اس عبادت اور پرستش کے آداب پر مشتمل عملی تفصیل جس کو شریعت کہا جاتا ہے۔

پھر یوم آخرت دراصل اس سے ملاقات کا دن ہے۔ یوم آخرت پر ایمان اس کی رحمت اور اس کے عدل اور اس کے روبرو مکافات عمل ہونے کی شہادت دینا ہے۔ یوم آخرت پر ایمان اس دنیا میں اس کی رعایا بن کر رہنا ہے اور اس کے قانون اور اس کی حدوں کی پاسداری پر آمادگی۔ یوم آخرت پر ایمان اس کی چاہت کااظہار ہے اور اس کے خوف کا اقرار۔ یوم آخرت اس امید کا نام ہے جسے بندوں کو اپنے مالک سے اور اس مملکت کے فیاض اور مہربان اور عادل فرماں روا سے وابستہ رکھنے کا حکم ہے اور جو کہ صرف اسی ذات کے شایان شان ہے۔ یوم آخرت پر ایمان اللہ کے، ظاہر وباطن کی خبر رکھنے پر قادر ہونے کی شہادت ہے اور اس ذرے ذرے کو میزان میں تول لینے والی ذات کے آگے دیندار اور جواب دہ ہونے کا اعتراف۔ یوم آخرت کا موضوع بھی یوں اللہ کی ہی ذات ہے۔یوم آخرت پر ایمان اسی بات کا اقرار ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ دیکھا جانے والا ہے کہ اس کی بندگی کیسی ہوئی اور زندگی کا مقصد کیونکر پورا ہوا۔

پھر تقدیرپر ایمان تو ہے ہی اس کی قدرتوں اور اس کی حکمتوں کا اعتراف اور اس کے مطلق ومحیط علم کا اقرار اور اس کے فیصلوں کے، ہر حال میں ، حق ہونے کی بندگانہ شہادت اور اس کے ہر کام سے راضی برضا رہنے کا عہد۔ تقدیر پر ایمان تو ہے ہی واقعات سے بے خوف اور ناامید ہو جانا اور صرف ایک واقعات کو وجود میں لانے والی ذات سے ہی تمام تر خوف اور تمام تر امید وابستہ کر لینا۔ تقدیر پر ایمان کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ کائنات میں اور انسانی دنیا میں خدائی سنتوں کامطالعہ کیاجائے، ان کو اندھی اور بے رحم قوتوں کی کارستانی نہیں بلکہ ایک بامعنی اور مبنی بر حکمت پیغام سمجھ کر ان سے اسباق لئے جائیں ۔ ان میں اسباب اور مسببات کا ایک مربوط اور باقاعدہ رشتہ تلاش کیا جائے۔ اسباب اور مسببات میں قائم رشتوں کو بھی اللہ کی مشیٔت کا تقاضا سمجھ کر ان کا احترام کیا جائے اور حق کے مقاصد کیلئے اس کا نام لے کر اسباب کو بروئے کار لانا اس کی منشا کی پیروی اور اس کی عبادت سمجھا جائے مگر اس پر بھی اس کی مطلق مشیئت کو بالاتر جانا جائے جو کہ اسباب اور مسببات میں پائے جانے والے رشتوں کی خالق ہے نہ کہ ان کی پابند۔ لہٰذا اس کے پیدا کردہ سب ممکنہ اسباب اختیار کر لینے کے بعد سب سہارا اس کی مطلق مشیئت پر اور سب امید اس کے مطلق فضل پر لگا رکھی جائے جو کسی حد اور کسی قید کی پابند نہیں .... کہ وہ ذات اپنی مرضی اور حکمت اور علم سے جو چاہتی ہے سو کرتی ہے۔

یوں تقدیر کا موضوع بھی اللہ کی ذات ہے اور اس کی رضا پہ راضی رہنا جو کہ بندگی کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔

دراصل ارکان ایمان کی صورت میں آدمی مختلف پہلوؤں سے، اور نہایت خوبصورت پہلوؤں سے، اسی اللہ پر اپنے ایمان کی توثیق اور توکید کرتا ہے جس کو وہ ’ایمان کے رکن اول‘ میں جان آیا ہے۔ ہر رکنِ ایمان دراصل اسی ذات کی کبریائی، اسی کی عظمت، ربوبیت اور الوہیت میں اسی کی یکتائی کا کسی نہ کسی پہلو سے بیان ہے۔ گو ہر رکنِ ایمان اپنے اندر بے پناہ تفصیل رکھتا ہے اور اس کی وضاحت اپنی جگہ طویل بھی ہو جاتی ہے مگر دراصل یہ اپنی مجموعی حیثیت میں اللہ کی ذات کا ہی ایک تعارف اور اس سے وفاداری کا ہی ایک اقرار بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارکانِ ایمان بیشتر ضمیرِ اضافت کے ساتھ بیان ہوتے ہیں اور یہ ضمیر (ہ) اس کے نام ___لفظ جلالت___ کی طرف لوٹتی ہے۔ یعنی ’اُس‘ کے فرشتے .... ’اُس‘ کی کتابیں .... ’اُس‘ کے رسول....

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرۃ: 285)

”ایمان لائے رسول اللہ ﷺ اس ہدایت پر جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوئی۔ اور مومن بھی ایمان لائے اسی ہدایت پر۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابو ں پر، اس کے رسولوں پر۔ ”ہم نہیں تفریق کرتے اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں بھی“ اور گویا ہوئے: ”ہم نے سنا اور مان لیا۔ مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے“۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا  (النساء: 136)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ اور جس نے کفر کیا اللہ سے، اس کے فرشتوں سے، اس کی کتابوں سے، اس کے رسولوں سے اور روز آخرت سے تو وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا ہے“۔
مختلف اندازمیں قرآن کے اندر آخرت اور تقدیر کو ایمان کے رکنِ اول سے ہی جوڑا اور برآمد کیا جاتا ہے گویا آخرت ہے ہی اللہ سے ملاقات اور تقدیر محض اس کا فیصلہ:

مَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ (3)

فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (4)

من اَحب لقاءاللہ اَحب اللہ لقاءہ (حدیث) (5)

وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا (6)

ارکانِ ایمان درحقیقت اللہ پر ایمان ہی کا تتمہ ہیں ۔ خود اس کی ذات کے سوا کوئی رکنِ ایمان بھی مستقل بالذات نہیں ۔ مگر یہ سب کے سب ارکانِ ایمان ہی آدمی کے مسلمان ہونے کی بنیاد ہیں ۔ ان میں سے کسی کے بغیر بھی آدمی مسلمان نہیں ۔ کسی ایک پر ایمان نہ لانا اللہ پر ایمان نہ لانا ہو گا۔ یہ اگر اللہ پر ایمان کا تکملہ اور تتمہ بھی ہیں تو کسی معمولی ذات کا نہیں اللہ رب العالمین پر ایمان کا تکملہ اور تتمہ ہیں ۔ یوں سمجھیے اللہ پران سب پہلوؤں سے ایمان لانا مسلمان ہونے کیلئے مطلوب ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی بھی پہلو سے ایمان نہ رکھا جائے تو ایمان معتبر نہیں ۔

رسول اللہ ﷺ ہمیں اللہ کے ننانوے نام بتاتے ہیں ۔ ہر نام اس کی ایک عظیم صفت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ دراصل اس ایک ذات کو ننانوے پہلوؤں یا ننانوے جہتوں سے جاننا ہے۔ پھر اس کے علاوہ کئی نام اور کئی صفات اس کے الگ سے قرآن میں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں وارد ہوئے ہیں ۔ یہ دراصل اس کو بے شمار اور ان گنت پہلوؤں سے پہچاننا ہے۔ ہر پہلو اپنے اندر ایک لامحدود وسعت رکھتا ہے۔ انسان کو اپنے ظرف اور ہمت کے مطابق اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے ان کا علم لینا ہے اور مزید کیلئے اس سے دعا کرنی ہے۔

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طہ: 114)

”پس بالا وبرتر ہے اللہ، پادشاہ حقیقی۔ اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر“۔

وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا

یہ ابھی صرف اللہ کے اسماءاور صفات کا معاملہ ہے۔ اس کی ربوبیت اور الوہیت کے خاص حقائق ابھی الگ پڑے ہیں ۔ جنہیں انسان کوا پنی استطاعت کی حد تک جاننا اور سمجھنا ہے۔ پھر اس ربوبیت اور الوھیت کا غیر اللہ سے انکار کرنا ہے اوراس انکار کی حقیقت اور تقاضوں کو جاننا سمجھا ہے۔ لا الہ الا اللہ کے مفہوم کو پانا ہے جس پر ابتدائے وحی میں بہت ہی محنت کرائی گئی۔ لا الہ الا اللہ کا، زندگی میں اور زندگی کے جملہ معاملات اور تعلقات اور سب رشتوں میں ، رتبہ متعین کرنا ہے۔ لا الہ الا اللہ کو معاشرے سے ربط دینا ہے اور معاشرے کو لا الہ الا اللہ کی میزان میں تولنا ہے۔ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر اپنی زندگی کا انفرادی، اجتماعی اور تحریکی لائحۂ عمل مرتب کرنا ہے۔

ایک اور چیز کی طرف بھی توجہ فرمائیے۔ قرآن کا ایک خاصا بڑا حصہ قصص پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل لا الہ الا اللہ کی بنیاد پہ تاریخ کا مطالعہ ہے۔ قرآن کا ہر قاری خودبخود تاریخ کا طالب علم ہوتا ہے مگر وہ تاریخ کے مطالعے کا ایک زبردست منہج بھی پاس رکھتا ہے۔ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کس بنیاد پر کیا جانا ہے جبکہ وہ یہ جان چکا ہو کہ قرآن کو کس طرح پڑھنا ہے۔ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبوں کے عروج اور زوال کے پیچھے کیا تلاش کیا جانا ہے۔ وہ قرآن سے روزانہ یہ سیکھتا ہے کہ ماضی اور حال کا مشاہدہ کیونکر کرنا ہے۔ ایک طرف تہذیبوں کی ترقی اور چکا چوند کو کس نگاہ سے جانچنا ہے اور دوسری طرف تباہ شدہ بستیوں اور مٹی میں دفن اوندھی پڑی تہذیبوں کو کس نظر سے دیکھنا ہے۔ وہ نظر کیونکر پانی ہے جو عیاشیوں اور سرمستیوں کے شور میں اور فلک بوس عمارتوں کے پس پردہ اوندھی پڑی ہوئی بستیاں دیکھ سکے اور اوندھی پڑی ہوئی سنسان بستیوں میں تہذیبوں اور ترقیوں کا شور سن سکے۔

قرآن سے یہ نظر لے کر اسکو پھر اپنی دنیا میں اترنا ہوتا ہے۔ یہ ایک عبرت نظر شخص ہوتا ہے۔ ’اخبار‘ سے اس کو ایک خاص سروکار ہوتا ہے۔ کسی داد طلب واقعے کو یہ داد دیئے بغیر نہیں گزرتا۔ کسی اہم واقعے سے یہ لاتعلق نہیں رہتا۔ کسی سبق آمیز واقعے کو یہ سبق لئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ نہ یہ ماضی کو قصۂ پارینہ جانتا ہے نہ یہ حال کو حرف آخر سمجھتا ہے اورنہ مستقبل کو دھونس اور طاقت کا کھیل۔ یہ ماضی میں حال کی تصویر دیکھ سکتا ہے اور حال میں مستقبل کا چہرہ پڑھ سکتا ہے۔ یہ واقعات کو ایک گہرا ربط دے سکتا ہے۔ یہ سب وقائع میں اللہ کی حکمت اور اس کے دستِ اختیار کو کارفرما دیکھتا ہے اور عاقبت کو ہر حال میں اور صرف اور صرف اہلِ تقوی کے حق میں پاتا ہے۔

دُنیا کی وسعت اس کی نگاہ میں آخرت کی کشادگی کے آگے سمٹنے لگتی ہے۔ یہ دنیاکو اس کے پورے قد کاٹھ کے ساتھ دیکھنے پر قدرت رکھتا ہے، کہ گوشہ نشینی اس کا مسلک نہیں ، مگراللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کی بدولت یہ دنیا کا بونا پن بھی ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں اس کو ایک وقتی سامان دکھائی دیتی ہیں ۔ نہ ان نعمتوں اور آسائشوں کو پا کر گویا یہ دل کی مراد پاتا ہے اور نہ ان نعمتوں اور آسائشوں کے کھونے سے اس کا دل نکل نکل جاتا ہے۔

لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ  (7)

یہ دنیا کو اس کی آسائشوں اور سختیوں سمیت بس لمحۂ گزراں دیکھتا ہے اور اس ’لمحے‘ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے یہاں اپنا کام نمٹانے کی فکر کرتا ہے اور اللہ سے ان آسائشوں کا سوالی ہوتا اور ان سختیوں سے پناہ مانگتا ہے جو کہیں جانے والی نہیں ۔

یہ طاغوتوں کو یہاں تخت سے چمٹادیکھ کر اور سرکشوں کو یہاں کبر ونخوت سے براجمان پا کر خندہ زن ہو سکتا ہے۔ یہ عبرت نگاہ ان تختوں اور کرسیوں پر ان سے پہلوں کو اب بھی بیٹھا دیکھ سکتا ہے اور ان کے بعد ان کرسیوں پر باریاں لینے والوں کا تصور ابھی سے کر سکتا ہے۔ یہ ان سب آنے جانے والی مخلوقات کے ممکنہ انجام کو چشم خیال میں رکھتا ہے اور اس کو محض دل کی تسلی نہیں بلکہ ایمانی حقائق کی بنیاد پر حتمی اور حق جانتا ہے۔

ایک ایسی ہی شخصیت دین کے حقائق پر محنت سے جنم لیتی ہے!

یہ ابھی ہم نے بہت ہی اختصار سے ارکانِ ایمان کی جانب کچھ اشارات کئے ہیں .... ارکانِ ایمان یعنی اللہ ذوالجلال پر کن کن پہلوؤں سے ایمان لانا ہے اور پھر ان ایمانی حقائق کو زندگی اور معاشرے سے کس طرح جوڑنا ہے اور یہ کہ ایمان کے ان حقائق کو دل میں اتار کر معاشرے میں کیونکر اترنا ہے۔ ارکانِ ایمان، جو کہ چھ ہیں ، دراصل اسلام کے بہت ہی بنیادی حقائق ہیں ۔ ان کی تفصیل اپنی جگہ طویل ہے اور صرف جاننے اور ماننے اور دل میں بسانے سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر دین کے اور بہت حقائق ہیں جو دین کی اساسیات میں بیان ہوتے ہیں ۔ دین کے یہ حقائق یا تو ارکان ایمان ہی کے ذیل میں کسی نہ کسی حوالے سے درج ہوتے ہیں یا پھر کبھی الگ سے بھی بیان ہوتے ہیں ۔ ان سب حقائق کو ازبر کرنے پر محنت کرنا اپنے دین اور اپنی عبادت کی بنیاد کو پختہ کرنا ہے اور اسلام کو اس کا مطلوب فرد پیدا کرکے دینا بھی۔

شہادتین کی بابت چند باتیں کہنا ابھی باقی ہے۔

شہادت کا مضمون گو ایک لحاظ سے ارکانِ ایمان کے ذیل میں بھی آسکتا ہے مگر اس کی اپنی الگ حیثیت کہیں زیادہ واضح ہے۔ شہادت مستقل بالذات انداز میں بیان ہوتی ہے اور ارکان اسلام میں اس کا سب سے بڑھ کر مرتبہ ہے۔ یہ شہادت دینا کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، ارکان ایمان میں نہیں ارکان اسلام میں آتی ہے بلکہ ارکان اسلام میں یہ پہلا رکن اسلام ہے۔ اس کا معاملہ بقیہ ارکان اسلام سے بے حد مختلف ہے۔ یہی وہ رکن ہے جو اسلام میں داخل ہونے کیلئے اصل دروازہ اور دعوتِ اسلام کا اصل عنوان ہے۔

باقی ارکان اسلام مانند نماز وروزہ گو ٹھہر کر اور مرحلہ بہ مرحلہ نازل کئے گئے مگر پہلا رکن اسلام چونکہ اسلام کی اصل حقیقت ہے اس لئے یہ سب سے پہلے نازل ہوا۔ یہ اسلام کی جان ہے اور اس کے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں ۔ اس کی اس حیثیت کو جاننا اور سمجھنا پھر اس کی مراد اور مفہوم پانے کیلئے اپنے قلب وذہن اور شعور و وجدان میں زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کرنا تاکہ عبادت کے سب افعال اس حقیقت کا اظہار بن جائیں اور اسی لا الہ الا اللہ کا مزہ دینے لگیں ، ازحد ضروری ہے۔ یہ لا الہ الا اللہ کی سرزمین پر اور لا الہ الا اللہ کی فضا میں عبادت کے افعال کاشت کرنا ہے۔پودے کو سب کچھ زمین سے اور فضا سے ہی ملتا ہے لہٰذا بہت کچھ محنت اعمال سے پہلے اسی بنیاد کو بنانے اور سنوارنے پر کی جاناہے۔ اسلام کا مطلوب فرد اور اسلام کی مطلوب شخصیت اسی سے نمودار ہوگی۔

لا الہ الا اللہ کو نفس انسانی میں اترنے کیلئے تین پہلوؤں سے جان لیا جانا ضروری ہے:

1) اللہ کا تعارف، تاکہ معلوم ہو کہ الا اللہ کہتے ہوئے کس ذات کیلئے عبادت کا اثبات کر رہے ہیں اور کس کی خاطر ہر کسی سے عبادت کی نفی ہو رہی ہے۔

2) الہ کا مفہوم، جس میں خدائی کے سب معانی آتے ہیں اور جس میں عبادت اور بندگی کی حقیقت بھی آتی ہے۔

3) نفی اور اثبات کی حقیقت، جو کہ لا اور الا کے الفاظ سے وجود میں آتی ہے اور جس پر کہ اس کلمہ کی معنویت کا سارا انحصار ہے۔

اس کلمہ کے یہ تینوں پہلو اس قدر مربوط اور لازم وملزوم ہیں کہ ان کا الگ الگ ہونا ممکن ہی نہیں ۔ یہ تینوں پہلو بیک وقت نگاہ میں رہیں تو اس کلمہ کی حقیقت سامنے آتی ہے۔

ان تینوں میں سے پہلی بات، یعنی اللہ کا تعارف پانے کے موضوع پر، چند باتیں ارکان ایمان کے ضمن میں ابھی پیچھے ہم کر آئے ہیں ۔ رہ گئی دوسری اور تیسری بات تو لا الہ الا اللہ کے حوالے سے اس پر چند کلمات کہنا ابھی باقی ہے:

عبادت جس کی، لا الہ الا اللہ کہتے وقت، مسلمان ہر ہستی اور ہر ذات سے نفی کرتا ہے اور محض ایک ہستی کیلئے جس کا اثبات کرتا ہے، تین طرح سے پائی جاتی ہے:

عبادت کے وہ افعال جو محض دل میں وجود پاتے ہیں ، اور جن کو قلبی عبادات کہا جاتا ہے، یہی عبادت کا بڑا حصہ ہیں اور یہی عبادت کا اہم ترین حصہ۔ یہی دراصل عبادت کا دل ہے۔ محبت، چاہت، گرویدگی، ڈر، خشیت، رغبت، انابت، خوف، امید، توکل، بھروسہ، تسلیم، رضا، صبر، شکر، طلب، طمع، اخلاص.... سب عبادت کے افعال ہیں ۔ ان سب کو اللہ کیلئے خاص کر دینا ایک محنت طلب کام ہے اور ان سب کا غیر اللہ سے پھیر دیا جانا حد درجہ مطلوب۔

پھر جوارح کی عبادت ہے جن کو عملی عبادات کہا جاتا ہے۔ دعا، التجاء، استعانت، حاجت روائی کی فریاد، سجدہ، رکوع، طواف، نذر، قربانی، تعظیم، سپاس، تقدیس، تسبیح، حمد، ستائش.... سب عبادت ہیں ۔ یہ صرف اللہ کیلئے کئے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ اور جس قدر ہو سکے اور جتنے اخلاص سے ممکن ہو کئے جائیں گے۔ ان پر غیر اللہ کے ہر حق کی کھلی کھلی اور واضح انداز میں نفی کی جائے گی اور اگر ان میں سے کوئی بھی کام کوئی شخص غیر اللہ کیلئے کرے تو اس کو مشرک اور اس کے فعل کو صاف صاف باطل کہا جائے گا۔ ان افعال میں سے ذرہ بھر کا غیر اللہ کیلئے ہو جانا__ ملک میں اور دنیا میں __ سب سے بڑا اور سب سے گھناؤنا جرم سمجھا جائے گا اور اس کی جس قدر ہو سکے مذمت کی جائے گی۔

پھر معاشرتی عبادات ہیں ۔ عائلی زندگی سے لے کر سماجی اور معاشی اور سیاسی زندگی کے ضابطے و قوانین اللہ کی شریعت سے لینا اور ان سب معاملات میں ’ہدایت‘ اللہ سے لینا اللہ کی عبادت ہے اور غیر اللہ سے لینا غیر اللہ کی عبادت۔ لا الہ الا اللہ کا اطلاق یہاں بھی اسی طرح ہوتا ہے جس طرح دعا اور سجدے اور طواف پر ہوتا ہے۔

لا الہ الا اللہ دراصل انسانی وجود کو اور انسانی زندگی کو ان سب پہلوؤں سے اللہ وحدہ لاشریک کے آگے جھکانا ہے اور انسانی وجود اور انسانی زندگی کو ان سب پہلوؤں سے غیر اللہ کی بندگی سے بیزار کرنا اور غیر اللہ کا کفر کرانا۔ انسان کی کل ہستی کا، ان سب پہلوؤں سے، اللہ وحدہ لاشریک کی جانب اور صرف اسی کی جانب رخ کروا دینا لا الہ الا اللہ کا واضح ترین مطلب ہے:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (الروم: 32۔30)

”تو پھر تم یک سو ہو کر اپنا رخ دین اور بندگی کی (اس موحدانہ) سمت میں جما دو۔ (یہ) اللہ کی اس فطرت (پہ قائم ہونا ہے) جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ (قائم ہوجاؤ اس بات پر) اللہ کی طرف رخ انابت رکھتے ہوئے، اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم کرو اور نہ ہوجاؤ نہ ان مشرکوں میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے“۔

یوں لا الہ الا اللہ کا اقرار دراصل انسان کی ہستی کو ایک جہت دینا ہے۔ یہ انسان کی ہستی کو عین اللہ کی سمت میں سیدھا کر دینا ہے۔ لا الہ الا اللہ انسانی وجود کا رخ اور انسانی نشاط کی جہت بن جاتا ہے۔ جس طرح قبلہ رخ ہوئے بغیر نماز نہیں اسی طرح توحید رخ ہوئے بغیر زندگی عبادت نہیں بنتی۔

پھر نفی واثبات شہادت کا نہایت اہم پہلو ہے۔ اس کے بغیر عبادت کا کوئی تصور نہیں ۔ نفی کے بغیر اثبات اللہ کے شایان شان نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کلمہ میں نفی اثبات پر مقدم کر دی گئی ہے۔ اثبات کا سب لطف نفی کے بعد ہے۔ چنانچہ باطل کو مسترد کرنا لا الہ الا اللہ کا ایک بڑا موضوع ہے۔ شرک سے عداوت لا الہ الا اللہ کی حقیقت کا جزولانیفک ہے۔ ’کلمہ پر محنت‘ محض اللہ کی چاہت اور طلب نہیں یہ بیک وقت باطل سے عداوت اور طاغوت سے بیزاری بھی ہے۔ اللہ کی چاہت جس قدر مرضی ہو اللہ کو چاہنا اور اللہ کو پانا آپ کی اپنی شروط پر نہیں ۔ اُس کو خود اُسی کی شروط پر چاہا اور پایا جا سکتا ہے۔ اور اُس نے اپنی چاہت کیلئے غیروں سے بیزار ہونے اور غیروں کی عبادت ہو تو اس کو صاف صاف باطل کہنے اور اس کے خلاف سرگرم ہو جانے کی شرط لگا دی ہے اور اپنے رسولوں کی زبان پر اپنی اس شرط کو بہت ہی واضح کر دیا ہے بلکہ خود ’کلمہ‘ کا ہی اس کو ایک حصہ بنا دیا ہے:

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ  (البقرۃ: 256)

”دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط وگمراہ خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے (عروۂ وثقیٰ) ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ، اور اللہ (جس کا اس نے سہارا لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے“۔
چنانچہ لا الہ الا اللہ کسی بات کا پرجزم اقرار ہے تو کسی بات کا کھلا کھلا انکار بھی ہے۔ یہ غیر اللہ کی عبادت کی ___ملک اور معاشرہ میں ___ رائج جتنی شکلیں اور صورتیں ہیں ان سب کا ایک غیر مبہم انکار اور بسا اوقات تو نام لے لے کر بطلان ہے۔ یہ اللہ کی بندگی قبول کرلینا ہی نہیں بلکہ لات اور عزیٰ کا پرزور اور مدلل اور مسلسل رد بھی ہے۔ اس کلمہ کی اپنی حرمت کا تقاضا نہ ہوتا تو ہم یہ کہنے کی کبھی جرأت نہ کرتے کہ جو شخص ’کلمہ‘ کے اس (نفی واثبات والے) مفہوم کو ابھی نہیں سمجھا وہ ’کلمے‘ کو ابھی نہیں جان پایا۔

وہ ’مسلم شخصیت‘ جس کو آج ہمیں اپنے نوجوانوں میں برآمد کرنا ہے یہ وہ شخصیت نہیں جس کا کوئی ایک حصہ مرا ہوا ہو۔ لا الہ الا اللہ کو، نفی واثبات، اپنے دونوں پہلوؤں سے اس شخصیت میں بولنا ہے اور اپنے زمانے سے مخاطب ہونا ہے۔ یہ دنیا جو عرصہ ہوا اب جاہلیت کی اسیر ہے یقینا اس مسلم شخصیت کو، جو لا الہ الا اللہ کی جامعیت رکھتی ہو، دیکھنے کا حق رکھتی ہے۔

’محمد رسول اللہ‘ پھر ایک اور حقیقت ہے جو دین کے اہم ترین حقائق میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ یہ شہادت کا جزو دوئم ہے مگر ایک لحاظ سے یہ دین کی اہم ترین حقیقت ہے۔ اللہ کی سب صفات، ایمان کے سب حقائق، اسلام کے سب فرائض، برزخ وآخرت کے سب احوال اور اھوال.... غیب کی سب خبریں جن کو جانناہمارے بس میں ہے ہمیں محمد ﷺ کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں ۔ پورے دین کی حقانیت کا انحصار اس ایک جلیل القدر شخصیت کی سچائی پر ہے۔ سب اہل زمین کا آسمانوں سے رشتہ اسی ایک شخصیت کے ناطے سے جڑتا ہے۔ گویا ایک شخصیت ہے جو اتنا بھاری بوجھ تھام کر کھڑی ہے۔ اللہ کی جانب سے ایک ایک لفظ کی ذمہ داری، ایک ایک بات پورے ضبط اور دقت سے پہنچا دینے کی ذمہ داری، کرۂ ارض پہ بسنے والے ہر ہر شخص کو سمجھ آسکنے والی بات کرنے کی ذمہ داری، کھرب ہا کھرب انسانوں کی عبادت کے درست ہونے کی ذمہ داری.... سارا بوجھ ایک ہی شخصیت اٹھائے ہوئے ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ ’محمد رسول اللہ‘ کا اقرار کرتے وقت ہم اتنے بڑے بڑے حقائق اور اسکے علاوہ بہت کچھ کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں !

اس لحاظ سے یہ شخصیت، یعنی محمدﷺ، ایک مومن کیلئے دُنیا کی اگلی پچھلی اور موجود سب شخصیات سے یکسر مختلف اور جدا ہے۔ اس شخصیت کے ایک ایک لمحے کا ادراک عبادت ہے۔ پھر یہ ایک ایسی جامع صفات اور ہمہ گیر شخصیت ہے کہ جس کا احاطہ تو کیا اندازہ ہونا بھی مشکل ہے۔ اس شخصیت کو اس کے مختلف پہلوؤں سے دیکھنا اور دیکھتے رہنا، چاہنا اور چاہتے رہنا، اور اس پردل وجان سے فداہونا، اور اس پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنا ایمان ہے۔ اس ہستی کو جاننا دین کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اس کو بغور ملاحظہ کرنا، اس سے تعارف پانے کی کوشش میں زندگی کا ایک حصہ صرف کرنا، اس کی صحبت کی سب ممکنہ صورتیں اختیار کرنا.... سب دین ہے۔ اس کی رسالت کے دلائل اور شواہد جاننا، اس کی صداقت اور حقانیت کو اس کے مختلف علمی، شعوری، منطقی اور وجدانی پہلوؤں سے جاننا اور ماننا ایمان کی اساس ہے۔ اس کی رسالت اور اس کے مشن کا لب لباب جاننا ہر فرض سے پہلا فرض ہے۔ دین کے حقائق میں سرفہرست یہی بات ہونی چاہئے کہ محمد ﷺ کس چیزکے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں اور دُنیا سے محمد ﷺ کا کیا مطالبہ ہے۔ اس ہستی کی بعثت کا مقصد، اس کی حکمت، اس کی غایت، اس کی ضرورت، اس کی معنویت، تاریخ میں اس کامقام، زمانے کو اس کی احتیاج، انسانیت کی اس کے بغیر درماندگی اور بدبختی.... سب ایمان کے موضوعات ہیں ۔

یہ سب موضوعات جب اس مسلم شخصیت کی تشکیل کریں گے اور جب مسلم فرد ان سب حقائق کا عکاس ہو گا اور یوں اپنے نبی کو اپنے زمانے کاموضوع بنائے گا تو زمانہ اور معاشرہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی محسوس کرے گا۔

پھر جس طریقے سے اللہ کی بھیجی ہوئی اس برگزیدہ شخصیت نے اپنے مشن کا آغاز کیا، جس طرح اور جس انداز میں اور جس ترتیب سے اور جس خوبصورتی سے اور جس صبر وہمت سے اپنے مشن کو پیش کیا، جس جس طرح اس کو آگے بڑھایا، جیسے جیسے اس راستے میں وقت جھیلے، جو جو مرحلے سر کئے اور جس طرح اس مشن کو سرے چڑھایا اور پھر جوکام اپنے پیچھے ہوتا رہنے کیلئے چھوڑا.... یہ بھی وہ سب حقائق ہیں جن کو ایک مسلم فرد کے قلب وذہن میں گہرا اتر کر، اور اس مسلم فرد کی بہت ساری توجہ اور وقت لے کر، پھر اپنے دورکے واقعات سے تفاعل اختیار کرنا ہے۔

رسول اللہ ﷺ دُنیا میں کس چیز کو گرانے اور ختم کرانے آئے ہیں اور کس چیز کو اٹھانے اور قائم کرانے آئے ہیں ، اس سوال کا جواب دے لینا یوں سمجھیے دین کی تمام تر حقیقت پا لینا ہے۔ اس سوال کا جواب کچھ الفاظ یاد کر لینے یا سنا لینے سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ تو سمجھیے پوری عمر کی کمائی ہو گی.... کہ مسئلہ الفاظ سے بڑا ہے۔ یہ تو جہان کے برگزیدہ ترین حقائق کو ایک دل میں مجتمع کرنا ہے۔

محمد ﷺ کی شخصیت کے سب جوانب کو حتی الوسع جاننے کی ہر انسان کو اپنی زندگی میں ایک باقاعدہ کوشش کرنی ہے اور باقاعدہ اپنے آپ سے سوال کرنا ہے کہ کون کونسے لعل و جوہر یہاں سے اس کے ہاتھ لگے۔ یہ خاص اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمیں اپنے دور میں بھی دراصل ’شخصیت‘ کو پیدا کرنے اور معاشرے میں لے کر آنے کا ہی چیلنج درپیش ہے۔ ہمیں بھی نبی کی صورت میں اللہ نے سب سے پہلے شخصیت ہی سے متعارف کرایا۔ ایک ایسی شخصیت جو قرآن کی مجسم حقیقت تھی۔ بقول عائشہؓ: کان خلقہ القرآن! لہٰذا اب اس شخصیت کا پرتو بننے کی ہی کوشش ہمیں کرنی ہے۔

نبی ﷺ کی شخصیت کا پرتو بننے کی کوشش.... اور ظاہر ہے کہ کوشش ہی ہو سکتی ہے اور کوشش ہی کا حکم ہے ورنہ اتنی بڑی شخصیت آپ کی ذات بابرکات کے سوا کہاں سما سکتی ہے.... مگر ہمارے یہاں ایک بڑا مسئلہ اس شخصیت کو پورا نہ دیکھنا ہے۔ ’سیرت‘ یا ’حدیث‘ میں عموماً ہماری نظر چند ظواہر پر جاتی ہے اور ہم اسی کو ’سنت‘ کا کل مفہوم جان بیٹھتے ہیں ۔ محض ’عقیدت‘ سے رسول کی شخصیت ذہنوں میں بڑی نہیں ہو سکتی۔ اس شخصیت کو اپنے زمانے میں لانا جس طریقے سے ممکن ہے وہ ہے آپ کی شخصیت کے بڑے بڑے جوانب کو اور ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ جوانب کو اپنے تصورِ دین کی بنیاد بنانا۔

پھر اس ہستی ﷺ کا تعارف اور اس کے مشن کا ادراک اس کے تربیت یافتہ صحابہؓ اور اس کے رفقائے کار کو جانے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ بلکہ خیر القرون کی شاگردی اختیار کئے بغیر ممکن نہیں ۔ قرونِ ثلاثہ جنہیں دورِ سلف بھی کہا جاتا ہے، اور جو کہ تاریخ عالم پر اس برگزیدہ ہستی ﷺ کے واضح ترین نشانات انگشت کا درجہ رکھتے ہیں ، کو بعد کے ادوار کی نسبت کیا کیاامتیاز حاصل ہے.... صحابہ وتابعین واتباع تابعین کا فہم اور عقیدہ اور منہج عمل، کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ سے ان کا تمسک، اور پھر فتنوں کے آڑے آنے اور بدعات واھواءوانحرافات کی بیخ کنی کرنے میں ان کا بعد والوں کی نسبت منفرد ہونا اور شدید ہونا اور دو ٹوک ہونا، ایمان اور اتباع کے معاملہ میں آنے والی نسلوں کیلئے ان کا خوبصورت ترین مثال ہونا، اور تہذیبی قدروں اور سماجی رویوں تک میں ان کا اسوہ اور نمونہ ہونا.... یہ سب وہ حقائق ہیں جو اپنے اس دور کے اندر اسلام کے مطلوب ذہن اور مطلوب فرد کی صورت گری میں کلیدی حیثیت رکھیں گے اورجن کے بغیر ’مسلم شخصیت‘ کی وہ تصویر مکمل نہ ہو گی جو اس آنے والی تبدیلی کیلئے ناگزیر ہے۔

پھرمسلم امت کے عروج وزوال کا گراف نظر میں کرنا.... فتنوں کی تاریخ جاننا.... عقیدہ وعمل کی بدعات اس امت میں کیسے آئیں ، کیونکر پھیلیں ، بدعات کے ہاتھوں امت کی تاریخ میں کیا کیا گل کھلے، آدمی کو یہ سب کچھ معلوم ہونا.... بدعات کی درجہ بندی اور ان میں بد سے بد تر کے تعین کا پیمانہ جاننا.... بدعتی رحجانات کا سامناکرنے کے معاملے میں اہلسنت کی فقہ جاننا.... اہل بدعت سے محتلف حالات اور مختلف صورتوں میں تعامل اوربرتاؤ اختیار کئے جانے کی بابت سلف کا منہج جاننا.... امت کے مختلف طبقے بیرونی موثرات سے کیونکر اثر لیتے رہے، اس سے متعلق فکری اور واقعاتی اور عملی اور عمرانی حقائق سے آگاہ ہونا اور اس کی بابت ائمۂ سلف کے طرز عمل سے باخبر ہونا....

علاوہ ازیں عیش پسندی، تن آسانی، مہزومیت اور پھر فسق وفجور کے ہاتھوں مسلم معاشروں کی حالت بگڑنے کے متعلق خدائی سنتوں اور تاریخی وقوعوں سے واقفیت پانا.... اور قوموں کو ناکارہ اور تباہ کر دینے والی سماجی بیماریوں اور پسماندگی ومفلوک الحالی سے دوچار کر دینے والے معاشرتی رویوں کی بابت عمرانی حقائق سے خبردار ہونا....

علاوہ ازیں امت اسلام کے دشمنوں کی تاریخ سے زیادہ سے زیادہ آگاہی رکھنا اور اس دشمن کی فطرت اور مزاج سے واقفیت پانا اور اس کی سنگینی کا اندازہ رکھنا....

پھر خود اپنے دور کے فتنوں ، اپنے دور کی بدعات، اپنے دور کے انحرافات، اپنے دور کی گمراہیوں اور ضلالتوں ، اپنے دور کی گمراہیوں کے سرغنوں ، اور اپنے دور کے اسلام دشمنوں اور ان کی دشمنی کی نوعیت اور فطورت اور ان کے ہتھکنڈوں کی حقیقت سے آگاہ ہونا....

پھر اپنے دور کی جاہلیت کو اس کی حقیقت کے ساتھ دیکھنے کی صلاحیت پانا، پرانے دور کے بتوں کانصابی انداز میں تذکرہ کرتے رہنے کی بجائے اپنے دور میں اللہ کے ساتھ ہونے والے شرک کی سب صورتوں اور شکلوں اور مظاہروں سے واقفیت پانا، باطل کو ہر بھیس اور ہر چولے میں صاف پہچان لینے کی صلاحیت پانا اوراپنے دور کے اچھے اور برے پہلوؤں سے بیک وقت آگاہ ہونا....

یہ سب کچھ اس مطلوبہ ذہن اور اس مطلوبہ شخصیت کی صورت گری میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے جو تبدیلی کے مطلوبہ عمل کیلئے شدید ناگزیر ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ’تبدیلی‘ یہی ہے۔

٭٭٭٭٭

(1) سورہ محمد، آیت 17 ”وہ جنہوں نے ہدایت پائی، اللہ پھر ان کو اور سے اور ہدایت دیتا ہے اور انہیں بچ بچ کر رہنے (کا سلیقہ) عطا کرتا ہے“۔

(2) سورہ محمد، آیت 19 ”اس بات (کی حقیقت) جان لو کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ، اور معافی مانگو قصور پر اپنے لئے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کیلئے بھی“۔

(3) العنکبوت:  5”وہ جو اللہ سے ملنے کی امید اور یقین رکھتا ہے، تو اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت بس آنے ہی والا ہے“۔

(4) الکہف: 110 ”تو پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو تو اسے چاہیے اچھے عمل کرلے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے“

(5) صحیح ابن حبان، عن عبادۃ بن الصامت: ”جو اللہ سے ملاقات کو پسند کرے اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے“

(6) الاحزاب: 38”اور اللہ کا حکم تو ایک قطعی طے شدہ فیصلہ (تقدیر) ہوتا ہے“۔

(7) الحدید: 23”تاکہ ایسا نہ ہو کہ کچھ تمہارے ہاتھ سے چلا جائے تو اس پر رنج ہی کرتے رہو اور جب وہ تمہیں (دنیا میں ) کچھ دے تو اس پر اتراتے ہی رہو“

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز