عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 18,2024 | 1445, شَوّال 8
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-12 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
بےبسی کے احکام.. اور اہل نفاق کا نقب
:عنوان

عمل اور پیش قدمی میں البتہ جو آپ کے بس میں ہو وہ کر لینے کی اپروچ اختیار کی جائے؛ اور ’پورے‘ کو لینے کی ضد میں ’جو مل سکتا ہے‘ اس کو رد کر دینے والی اپروچ سے دُور رہا جائے۔

. اداریہ :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

بےبسی کے احکام... اور اہل نفاق کا نقب

 

گرمجوشی کی بات نہیں۔ ایقاظ کے قا رئین جانتے ہیں، ایسے مواقع ہمارے ہاں اگر ایک غیرمعمولی اہمیت پاتے ہیں تو اس کا باعث کچھ ناگزیر تحریکی مباحث کو واضح کرنا ہوتا ہے۔  ہاں یہ وجہ ہوتی ہے کہ وہ بہت سارے اشکالات جو ہماری کسی ایک تحریر پر اٹھ کھڑے ہوئے، ان میں سے ایک ایک کا ازالہ ایک ایک مضمون کا باعث بن جائے۔

پس واضح ہو،  ترکی میں رجب اردگان کی جیت ہمارے لیے ایک بےحد فرحت افزا خبر ضرور ہے۔ مگر یہ واقعہ بجائےخود اس بات کا موجب نہیں کہ اس پر ہم روزانہ دو دو تین تین مضمون لکھیں!  اس کی وجہ درحقیقت وہی جو اوپر بیان ہوئی: اپنے تحریکی نوجوانوں کی کچھ الجھنوں کا ازالہ البتہ ایقاظ کی ایک بےحد بڑی ترجیح ہے۔

ترکی کے انتخابی نتائج پر ہمارا ایک مضمون آیا بعنوان’’اردگان کی جیت پر خوش ہونا حرام؟!‘‘۔ اس میں ایک پیرا تھا:

اگر آپ علم اور علماء سے منسلک ہیں... تومعروضی صورتحال کا نظر میں رہنا  ان سب مباحث میں جانے کےلیے ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔بہت کچھ ایکدی ہوئی صورتحال میں ناجائز ہو گا تو ایک دوسری دی ہوئی صورتحال میں جائز اور شاید واجب بھی ٹھہرے۔ پس یہ ہرگز ضروری نہیں کہ رجب اردگان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے والے علماء اور داعی اپنے اِس عمل سے ایک نظام کو درست ہونے کا بھی سرٹیفکیٹ دے رہے ہوں۔ البتہ اگر آپ ایسے آزاد مرد علماء اور داعیوں کی بابت جاننا چاہیں جو ترکی میں اسلامی سیکٹر کی حالیہ پیش قدمی پر نہایت کھل کر اظہارِ مسرت کرتے ہیں اور یہاں اس کی کامیابی کےلیے خوب خوب دعاگو ہیں... تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ ایسے علماء اور داعیانِ عقیدہ کی تعداد عالم اسلام میں شمار سے باہر ہے۔

پس کسی جگہ یا زمانے کی معروضی صورتحال وہاں کے تحریکی مباحث کو طے کرنے میں ایک مرکزی حیثیت رکھنے والا سوال ہے۔

اس پر ہمیں ایک اعتراض موصول ہواhttps://goo.gl/8PUlMH:

اس ساری بحث کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جب ہم کچھ کریں تو اسے جواز اباحت دیا جائے اور جب کوئی دوسرا کچھ کرے تو اسے حرمت کا فتویٰ دینا بھی ہمارے اختیار میں رہے۔             (شعیب محمد)

اس دور کے کچھ بڑے بڑے بحرانات میں یہ بات آتی ہے کہ اسلامی فقہ کے معروف حوالے لوگوں کےلیے باعث تعجب ہو گئے اور بآسانی چیلنج ہونے لگے ہیں۔ جس کے باعث علم اور فقہ سے وابستہ ایک شخص یہاں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے؛ بلسانِ یعقوبؑ ’’إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ‘‘۔ اس کی اصل وجہ یہ کہ یہاں کے کچھ انارکسٹ رجحانات نے عامی کو اکثر شرعی علوم پر ایک طرح کا حَکَم judge بنا  دیا ہے، اور اِس جج کو لگتا ہے کہ وہ ایک دقیق سے دقیق علمی مسئلہ میں پوچھ سکتا ہے یہ کیسے؟ بلکہ اس بنیاد پر ایک علمی بات کو اڑا کر رکھ دے سکتا ہے کہ یہ دلیل اس کو مطمئن نہیں کر سکی! زیادہ لوگ دلیل کے اسی مفہوم سے واقف ہیں کہ بس وہ کوئی ایک نص ہو گی جس کا ترجمہ دیکھا اور بات ختم! حالانکہ دلائل کی ایک وہ قسم ہے جنہیں اصول یا کلیات کہا جاتا ہے۔ یہاں طالبعلم ایک علمی پراسیس سے گزرتا ہے، جس سے وہ کچھ اصولی قواعد حاصل کرتا ہےاور پھر استدلال کے وقت ان کو دلیل کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ریاضیات میں طالبعلم کو جمع تفریق اور ضرب تقسیم وغیرہ ایسی سادہ  اشیاء سے گزار کر آگے کچھ پیچیدہ قواعد تک لے جایا جاتا ہے۔ وہ قواعد درحقیقت پیچیدہ نہیں ہوتے اگر اس’’پراسیس‘‘ سے آدمی گزر لیا ہوجو کچھ مرحلہ وار بنیادوں سے اٹھایا گیا ہوتا ہے۔ ورنہ یہاں کی سب باتیں اس کے سر اوپر سے گزرتی ہیں۔  چنانچہ میٹرک کی ریاضیات پڑھنے کی اجازت اصولاً اسی شخص کےلیے ہے جو پہلی دوسری کی ریاضیات اچھی طرح پڑھ چکا ہو، ورنہ قدم قدم پر وہ پڑھانے والے کے ناک میں دم کرے گا اور ایک ایک بات پر معترض ہو گا کہ یہ کیسے؟ درحالیکہ اپنے اس اعتراض میں سچا بھی ہو گا کہ یہ بات تو اس کی سمجھ سے بالاتر ہے!

فقہ[1] بھی کچھ اشیاء کو عین شروع میں پڑھا کر آگے گزر جاتی ہے۔ اگلے مراحل میں اس کےلیے ان ابتدائی اشیاء کا محض حوالہ کافی ہوتا ہے۔ لیکن فقہ پر جج بننے والا ایک عامی (خصوصاً ہمارے برصغیر میں)  خود کو یہاں ابو حنیفہؒ اور مالکؒ  تک کا گریبان پکڑنے کا مجاز پاتا ہے کہ یہ کیسے؟! بلکہ زیادہ لوگ تو ہمارے ہاں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ فقہ ہے ہی کوئی ڈھکوسلہ؛ دلیل تو وہ ہوتی ہے جو چینل پر بیٹھ کر یا ایک انشائیہ اخباری کالم کے اندر ہی سب کو سمجھ آ سکے۔ اس کے نتیجے میں اب بازار میں باقاعدہ ایسے آسان مکتبِ فکر آگئے  جو غیرعلماء (اور وہ بھی کچھ مخصوص اشیاء کیطلب رکھنے والے غیرعلماء) میں تو ہاٹ کیک کی طرح چلنے لگے جبکہ علمائےامت ان کو پہچان کر دینے کے نہیں!

قیامت کی نشانیاں ہیں۔[2]

اب ہم اپنے متعلقہ موضوع پر آتے ہیں۔

مسئلہ متعلقہ کو سمجھنے کےلیے آپ کو ایک فقہی قاعدہ جاننا ہوتا ہے:  الضُّرُوۡرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدَرِھَا  یعنی ’’بےبسی کے احکام کو ان کی حد تک رکھا جاتا ہے‘‘۔

بلکہ بےبسی کے احکام (ضُرُورَات) کے علاوہ بھی استثنائی احوال سے متعلقہ کچھ ابواب ہمارے اِس موضوع سے ملحق ہیں، جو ایک مسئلہ کو اس کی معمول کی حالت سے مختلف حکم دیتے ہوں، جیسے سَدُّ الذَّرَائِع کا قاعدہ وغیرہ۔ مگر زیادہ واضح رہنے کےلیے، ہم اپنی گفتگو کو ’’بےبسی کے احکام‘‘ تک محدود رکھیں گے۔

ان سب ابواب میں فقہاء کو یہ بات یقینی بنانی ہوتی ہے کہ احکام کا معمول سے نکل کر استثناء کی طرف جانا ایک دائرہ کے اندر رہے؛ یعنی نہ تو معاملہ اس قدر چوپٹ کھول دیا جائے کہ ہر چیز ہی استثنائی احوال میں فٹ کر دی جانے لگے اور شریعت ایک کھلواڑ بن کر رہ جائے، اور نہ اس قدر تنگ کہ ضُرُورَات  اور استثناء ایک غیرمتصوَّر چیز ہو کر رہ جائیں۔ یعنی وسط جس کا تعین فقیہ کرے گا۔

بےبسی کے احکام

اسلام کے سب اوامر اور نواہی قدرت یعنی بس چلنے کے ساتھ مشروط ہیں۔ شریعت میں ’’حرج‘‘ کو ہم سے رفع کر دیا گیا ہے اور ہر چیز یہاں امکان اور استطاعت کے دائرہ کے اندر مطلوب ہے؛ جس پر شریعت سے بےشمار دلائل اور شواہد موجود ہیں۔

البتہ ’’قدرت‘‘، ’’استطاعت‘‘ اور ’’عجز‘‘ اور ’’بےبسی‘‘ اپنے لغوی معنی میں واضح ہونے کے باوجود کچھ ایسی اشیاء ہیں جن میں ایک عابدِ جاہل معاملے کو اس قدر تنگ کر سکتا ہے کہ شریعت کا ان حوالوں سے چھوٹ دینا ہی بےمعنیٰ ہو کر رہ جائے، جبکہ ایک نفاق طینت خواہش پرست آدمی  شریعت کی قیود سے جان چھڑانے کےلیے اسی کو ہر جگہ دلیل بنا سکتا ہے۔ چنانچہ فقہاء کے ہاں یہ دو کلیات ایک ساتھ آئیں: الضُّرُورَاتُ تُبِیۡحُ الۡمَحۡظُوۡرَاتِ’’بےبسی کے احوال شریعت کے ممنوعات کو مباح کر دیتے ہیں‘‘۔ اور الضُّرُوۡرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدَرِھَا یعنی ’’بےبسی کے احکام کو ان کی حد تک رکھا جاتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے ہمارا موضوع یہاں دوسرا کلیہ ہے، یعنی بےبسی کے احوال کو ان کی حد تک رکھنا اور اس میں افراط یا تفریط نہ آنے دینا۔

اب اس کی کچھ مثالیں:

o   نماز کےلیے وضوء یا بعض حالات میں غسل فرض ہے۔ لیکن پانی نہ ملنے کی صورت میں وضوء یا غسل کی فرضیت چلی جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک بہت ہی آسان چیز تیمم آ جاتا ہے۔  لیکن یہ ’’پانی نہ ملنا‘‘ (فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً) کیا مطلب رکھتا ہے؟ ایک آدمی پانچ میل دور پانی کو بھی دستیاب سمجھتا اور اس پر وضوء کو واجب اور وضوء نہ کرنے کو موجبِ دوزخ ٹھہراتا ہے جبکہ ایک دوسرا آدمی پانی کو چند قدم دور پاتے ہوئے تیمم پر جا اترتا ہے۔ بےشک فقہائے شریعت کی اپنی تقدیرات بھی یہاں تھوڑی تھوڑی مختلف ہو سکتی ہیں، مگر وہ اپنے مجموعی معنیٰ میں اُس ’’حد‘‘ کا تعین ضرور کر دیتی ہیں  جو قرآن کی مخاطب اولین جماعت (علمائے صحابہ) کے ہاں بالعموم سمجھا گیا ہوگا۔  لہٰذا نہ تو وضوء کے پانی کےلیے آدمی کو میلوں چلوانا درست رہے گا اور نہ اس کےلیے چند قدم اٹھانے کی زحمت کو ’’شرعی حرج‘‘ قرار دے کر معاملہ چوپٹ کھولنے دیا جائے گا۔

o   پھر مرض یا اندیشۂ مرض کے تحت بھی وضوء یا غسل کی فرضیت موقوف کروا دی اور تیمم کی رخصت دے دی جاتی ہے۔  مگر اِس مرض کی حد کیا ہے۔ یہاں بھی؛ ایک سختی مائل آدمی اچھے خاصے مرض یا اندیشۂ مرض کو خاطر میں لانے پر آمادہ نہ ہو گا جبکہ ایک تحلّل پسند آدمی چھوٹی چھوٹی بات پر  رخصت لا نکالے گا۔ یہاں تک کہ معمولی سردی کو وہ ’’حرج‘‘ کے کھاتے میں ڈال لے گا اور بیٹھے بیٹھے تیمم کر کے بستر میں نماز پڑھ ڈالنے کو کافی قرار دے گا (باوجود اس کے کہ معاملہ ایک خاص سنگینی تک پہنچا ہو توبیٹھےبیٹھے تیمم کرکے بستر میں نماز پڑھ لینا اصولاً غلط بھی نہیں ہے!)۔ جبکہ معاملے کو ’’دائرہ‘‘ میں رکھنے والے کچھ مخصوص واقفِ شریعت لوگ ہوں گے۔

o   اِسی طرح ’’عدم قدرت‘‘ نماز میں قیام کے فرض کو ساقط کر دیتی ہے۔ مسجد پہنچ کر باجماعت نماز ادا کرنے سے آدمی کو استثناء دلوا دیتی ہے۔ مرض یا اندیشۂ مرض آدمی کو روزہ سے وقتی یا دائمی چھوٹ دلوا سکتا ہے۔ بےشمار قسم مجبوریاں آدمی کو فریضۂ جہاد سے استثناء دلوا دیتی ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس؛ سب’’عدم قدرت‘‘ کے باب سے۔ غرض اسی طرح کے امور جن کو شریعت میں ’’عذر‘‘ کہا جاتا ہے؛ جس کا تعین کرنا البتہ ایک مخصوص اہلیت کا متقاضی رہے گا۔ یہاں؛  قیام، یا مسجد پہنچنے، یا روزہ یا جہاد کرنے وغیرہ پر ’’قدرت یا عدم قدرت‘‘  کا تعین نہ تو ایک تحلّل پسند پر چھوڑا جا سکتا ہے جو شریعت میں ہر خواہش پرست کی خواہش پوری کروائے اور نہ ایک شدت پسند پر چھوڑا جا سکتا ہے جو شریعت پر چلنے والوں کی زندگی ہی اجیرن کر ڈالے۔ ایک مشاق معترض یہاں بلاشبہ یہ اعتراض کر سکتا اور کچھ مخصوص طبقوں سے اس پر داد سمیٹ سکتا ہے کہ: اس کا مطلب ہوا کہ جب ہم کچھ کریں تو اسے جوازِ اباحت دیا جائے اور جب کوئی دوسرا کچھ کرے تو اسے حرمت کا فتویٰ دینا بھی ہمارے اختیار میں رہے!

o   ایسے بہت سے معاملات میں، آپ نے گھروں کے اندر دیکھا ہوگا کہ بچے یا کچھ مبتدی جو شرعی ذمہ داری اور اخروی جوابدہی کے معاملہ میں ابھی کسی سطح پر نہیں ہوتے، بات بےبات رخصت لے رہے ہوتے ہیں جبکہ گھر کے بڑے، جنہوں نے معاملے کی ایک عمومی حد کو اہل علم سے سمجھ رکھا ہوتا ہے، صرف وقت پر ان کو رخصت دیتے ہیں اور اس کے غلط استعمال سے ان کو جابجا روکتے ہیں۔ صرف شریعت کا مسئلہ نہیں کامن سینس بھی یہی کہتی ہے۔ طب ہو، صحت ہو، روزمرہ کے امور ہوں، ہر جگہ یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔ گھر میں کتنے ہی معاملات میں آپ بچوں کو یہ کہتے سنیں گے کہ اماں خود تو فلاں چیز کھاتی ہیں اور ہمیں روکتی ہیں! یا ابا بھائی کو فلاں کام کی اجازت دیتے ہیں مجھے نہیں چھوڑتے! معصوم بچے کی یہ بات اماں یا ابا کے ہنس کر گزار دینے کی ہوتی ہے۔ لیکن بڑے سے ایسا سننا ان کو مبتلائےتشویش کرتا ہے!

o   اضطرار (جس کا مطلب ہی بےبسی ہے) کی کوئی حالت ایسی ہوتی ہے کہ مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے۔ اور کوئی حالت ایسی کہ جھوٹ بولنا، غیبت کر لینا، مَردوں کےلیے سونے یا ریشم کا استعمال وغیرہ بہت سی اشیاء جائز ٹھہرا دی جاتی ہیں۔ احناف کے ہاں عندالضرورۃ تداوی بالحرام (حرام اشیاء کو، جب کوئی اور چارہ نہ ہو، علاج کےلیے استعمال کر لینا) اسی باب سے جائز ہے، گو جمہور ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لیکن اِس پورے باب میں ’’اضطرار‘‘ کا تعین  ایک فقہی اہلیت چاہتا ہے۔ یہاں؛ کسی معمولی سے حرج کو ہی آپ شرعی اضطرار کہہ دیں گے اور معاملے کو ایک کھلواڑ بنا دیں گے؟ یا موت کا اچھا خاصا خطرہ لے آنے کو بھی اضطرار تک نہ پہنچنے والی چیز کہتے چلے جائیں گے اور یوں دیندار ہونے کو مصیبت کا دوسرا نام بنا دیں گے؟ یہ سب معاملہ ایک نااہل یا ایک نئی اپج نکالنے والے آدمی کے سپرد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اِس معاملے کی سب نزاکت ہے ہی اس بات میں کہ یہاں عجز (بےبسی) کا تعین کرنے والا کون ہے۔

o   حج کے سفر میں خطرات درپیش ہوں تو ایک پورے خطہ کے لوگوں سے حج کی فرضیت موقوف ٹھہرا دی جاتی ہے۔ ’’خوف‘‘ سنگینی کی ایک خاص حد کو پہنچے تو بلاشبہ ایک شرعی عذر ہے۔ مگر  اس کا تعین بھی نہ تو ان عافیت پسندوں پر چھوڑا جائے گا جو ایک چھوٹی سی بات پر حنیفیت کے اِس شعار کو موت کی نیند سلا دیں اور نہ اُن مہم جوؤں پر جو لوگوں کی جانیں  او رآبروئیں خطرے میں ڈال دیں۔ برصغیر میں یہ واقعہ عملاً پیش آ چکا ہے جب کچھ  سہل پسند طبیعتوں نے فتویٰ دے ڈالا کہ ہند سے جانے والے حجاج کو پیش آمدہ خطرات کے باعث حج اب ان سے موقوف ہوا؛ اللہ اللہ خیر شاءاللہ۔ یہاں تک کہ قریب تھا ملت کا یہ شعار اِس پورے خطے میں مٹ کر رہ جائے۔ اس موقع پر سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھی علماء اٹھے اور کہا کہ خدا کے بندو بیٹھے بٹھائے فتوے دینے کی بجائے ذرا آگے بڑھ کر اگر ایک اجتماعی بندوبست کیا جائے تو یہ خطرہ ایسا نہیں جس پر قابو نہ پایا جا سکے۔ اِنہوں نےرضاکار مجاہدوں کی ایک مختصر سپاہ مہیا کی اور ایک بحری جہاز کروا کر ہند میں اس اسلامی شعار کا احیاء کروایا اور الحمد للہ کسی کو کوئی خطرہ پیش نہ آیا۔ غرض ’’استطاعت‘‘ ایک ایسی چیز ہے جو اصولاًایک عذر ہونے کے باوجود عملاً اچھاخاصا افراط یا تفریط کی نذر ہو سکتی یا کروائی جا سکتی ہے۔ اور یہاں؛ شریعت کے مقصود سے واقف فقہاء اور ان کے جاری کردہ معیارات standards  اور کنونشنزconventions  آپ کی ضرورت ہوتے ہیں۔ ہاں جدت پسندی novelty  کا دروازہ کھولنا چاہیں تو اس کی کوئی حد نہیں، خواہ جس طرف کو چل دیں۔

*****

اوپر ’’استطاعت‘‘ اور ’’قدرت‘‘ کا مبحث بیان ہوا۔ ’’عدم قدرت‘‘ کے وقت شریعت میں ضُرُورَات یعنی بےبسی کے احکام لاگو ہوتے ہیں، جن میں ایک نہایت اہم بات بےبسی کے احکام کو ’’ان کی حد میں رکھنا‘‘ اور کسی ’’افراط‘‘ یا’’تفریط‘‘ کی طرف نہ جانے دینا ہے۔ اس بحث میں ہممعترض کی اس بات کا اصولی رد کر آئے ہیں کہ امت کے ایک مخصوص طبقے اور اس کے معیارات standards اور روایات conventions  کو کیوں یہ حیثیت دی جائے  کہ ایک صحیح شرعی اصول کی تطبیق کے اندر پائے جانے والے عملی افراط اور تفریط کا تعین کرے اور معاملے کو ایک پیچھے سے چلی آتی ڈگر پر قائم رکھے۔ یہ ہے وہ بات جسے ہم نے ایک معروضی صورتحال کا اعتبار کرنا کہا ہے، یا جس کی بابت ہم نے کہا کہ ایک دی ہوئی صورتحال given situation   میں ایک چیز منع ہو گی تو ایک دوسری دی ہوئی صورتحال given situation  میں وہی چیز جائز یا حتیٰ کہ واجب ہو سکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے فقہاء ’’حالات کے اختلاف کے ساتھ فتویٰ کا مختلف ہونا‘‘ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے، شریعت نہیں بدلتی مگر فتویٰ بدلتا ہے۔ مگر، جیساکہ ہم نے کہا، اس باب میں سب سے اہم چیز ذمہ داری، خداخوفی اور مدرسۂ صحابہ کی فقہ و فقہاء کے ڈسکورس میں رہتے ہوئے ایک باقاعدہ سندِاہلیتcertification  رکھنا ہے۔ مختصراً، ثقہ علماء۔ ورنہ یہی معاملہ اصولاً بےحد درست ہونے کے باوجود عملاً یا تو کسی کھلواڑ کا ذریعہ بنے گا یا لوگوں کی زندگی کو مصیبت میں ڈال آنے کا۔ اس اصولی قاعدہ سے کوئی مفر نہیں۔ [3]

امام ثوری کا یہ قول اس حوالہ سے علماء کے ہاں ایک مقولہ کی حیثیت رکھتا ہے:

"إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَنَا الرُّخْصَةُ مِنْ ثِقَةٍ، فَأَمَّا التَّشْدِيدُ فَيُحْسِنُهُ كُلُّ أَحَدٍ ".(جامع بیان العلم وفضله، لابن عبد البر، 1: 784. http://goo.gl/iia8Ylhttp://goo.gl/iia8Yl)

علم ہمارے ہاں اصل میں یہ ہے کہ ایک ثقہ عالم کوئی رخصت دے، ورنہ سختی کر لینا تو ہر کسی کو آتا ہے۔

اب ہم کچھ تحریکی مباحث کی طرف آتے ہیں۔

تحریکی مسائل.. اور ’’فقدانِ قدرت‘‘ یا ’’قفدانِ علم‘‘ایسے بعض فقہی ابواب

o   لوگوں کو جہالت (لاعلمی) کا عذر دینا دین کا ایک ثابت اصول ہے۔ جس کا مطلب ہے: جو معاملہ ایک علم رکھنے والے شخص یا ماحول یا معاشرے کے ساتھ ہو گا وہ ایک ایسے شخص یا ماحول یا معاشرے کے ساتھ نہ ہو گا جہاں علم کا فقدان ہے۔

o   لوگوں کو تعلیم دینے (ان کی جہالت دور کرنے) میں تدریج (مرحلہ واریت) ایک مسلّمہ اصول ہے۔

o   معاشروں کو شعور دینے میں انفرادی فروق individual differences  کا اعتبار کرنا بھی اور بطورِ مجموعی معاشرے کی حالت کا اعتبار کرنا بھی، اور پھر اسی اعتبار سے ان کے سامنے دین کے تقاضے رکھنا... دین کا ایک معلوم طریق ہے۔

o   لوگوں کو دین کی طرف لاتے ہوئے صرف اتنا بوجھ اٹھوانا جتنا وہ اٹھا سکتے ہوں، اور اس سے زیادہ بوجھ اس وقت تک نہ اٹھوانا جب تک وہ اس کو اٹھانے کی پوزیشن میں نہ لے آئے جائیں، خواہ اس کو جتنا ہی وقت لگے... دین میں ایک معلوم قاعدہ ہے۔ لوگوں کے دین کی طرف آنے کو ایک مصیبت اور عذاب بنا دینا دین کی بےحد غلط ترجمانی ہے۔ غرض لوگوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے بوجھ اٹھوانا، اور خدا کی عبادت کے اِس پورے عمل کو آخر تک ایک خوشگوار عمل ہی رکھنا دین کے بڑے قواعد میں سے ایک ہے۔

ان سب اشیاء کی تفصیل میں جانے کا یہ مقام نہیں۔

ان سب حوالوں سے... ظاہر ہے نہ تمام معاشرے ایک سے ہوں گے۔ اور نہ تمام ادوار ایک سے۔ یہاں تک کہ ایک ہی معاشرے سے کسی ایک وقت میں جو تقاضا ہو گا وہ کسی دوسرے وقت میں شاید نہ ہو۔  ایک ہی معاشرے کو کسی ایک وقت جو چھوٹ دی جا رہی ہو گی وہ کسی دوسرے وقت ہو سکتا ہے اسے حاصل نہ رہے۔ دین سے آگاہ مربیوں، معلموں، راہ نماؤں، منتظمین، سیاستدانوں، منصوبہ سازوں، سپہ سالاروں سب کو اس فرق کا اندازہ رکھنا ہوتا ہے اور قوم کو مسلسل تھوڑے سے زیادہ اور خوب سے خوب تر کی طرف لے کر بڑھنا ہوتا ہے؛ اور یہی چیز خدا کے راستے میں ان کی کارکردگی کو جانچنے کا صحیح معیار۔ ہمارا دین خدا کے فضل سے اِس معاملہ میں بےحد آسان، عملی اور واضح ہے۔

اصل ہدف ہے ایک معاشرے کو  مطلق خدا کی اطاعت کی طرف لے کر بڑھنا۔ ہاں درمیان کی گھاٹیوں کا لحاظ کرنا اپنی جگہ۔

درمیانی گھاٹیوں کے حوالے سے.. معاشرے معاشرے کا فرق، یا دَور دَور کا فرق... اس پر یہی ایک حدیث ملاحظہ فرمالیجیے، جو حضرت حذیفہ سے مروی ہوئی:

وَتَبْقَى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ، يَقُولُونَ: أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَنَحْنُ نَقُولُهَا " فَقَالَ لَهُ صِلَةُ: مَا تُغْنِي عَنْهُمْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ، وَلَا صِيَامٌ، وَلَا نُسُكٌ، وَلَا صَدَقَةٌ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ، ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا، كُلَّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَالَ: «يَا صِلَةُ، تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ» ثَلَاثًا

(سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني رقم 87، ج 1 ص 171، عن ابن ماجة والحاكم، وقال الألبانی: صححه الحاكم، والذهبي، وكذا ابن تيمية، والعسقلاني، والبوصيري. انظر ج 7 ص 127 من السلسلة الصحيحة)

اور لوگوں میں سے کچھ ہی طبقے رہ جائیں گے، کوئی بوڑھے اور بوڑھیاں جو کہیں گے: ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الٰہ الا اللہ پر پایا تھا، سو ہم بھی یہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ تب صلہ (حذیفہ کا ایک شاگرد) ان سے کہنے لگا: لا الٰہ الا اللہ (پڑھنا) ان کو کیا فائدہ دے گا جبکہ وہ یہ جانتے (تک) نہ ہوں کہ نماز کیا ہے یا روزہ یا قربانی یا زکات کیا ہے؟ حذیفہ نے اسے جواب دینے سے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ تو اس نے وہ (سوال) تین بار دہرایا۔ تینوں بار حذیفہ﷜ ان سے خاموشی اختیار کیے رہے۔ پھر جب اس نے تیسری بار پوچھا تو حذیفہ اس کی جانب گویا ہوئے: اے صلہ! یہ کلمہ (پڑھنا) ان کو آگ سے بچا لے گا۔ تین بار کہا۔[4]

اندازہ کر لیجئے کہاں صحابہ کا معاشرہ جس میں دین کے سب اعمال کرلینے والے بھی جب صرف ایک غزوہ (تبوک) سے بلاعذر پیچھے رہ جاتے ہیں تو پورا مدینہ ان سے پچاس روز بول چال بند رکھتا ہے... اور کہاں حدیثِ حذیفہؓ میں مذکور یہ معاشرہ جس میں محض لاالٰہ الا اللہ پڑھنا ان کو کفایت کر جاتا ہے۔ اسے کہیں گے دو حالتوں کا تفاوت۔

دورِحاضر میں کمیونسٹ اقتدار تلے پون صدی گزار آنے والے کسی ملک، یا کمالسٹ ترکی میں پون صدی بِتا آنے والے ایک معاشرہ کو دین کی جانب لائے جانے کے حوالے سے لوگوں کو جو رعایت ملے گی وہ اگر حدیثِ حذیفہؓ میں وارد معاشرے جیسی نہیں تو اس کے کچھ نہ کچھ قریب ضرور ہو گی! یہاں تو اذان کی بحالی ایک بڑی پیش رفت گنی جائے گی (جس کی پاداش میں وہاں کا ایک باقاعدہ وزیراعظم عدنان مندریس پھانسی چڑھا دیا گیا تھا)۔ پس کسی وقت جہالت پر عذر دینے کے باب سے، تو کسی وقت وہاں کی فکری الجھنوں (شبہات و اشکالات) کا اعتبار کرنے کے باب سے، تو کسی وقت عدم استطاعت ماننے کے باب سے، تو کسی وقت ایک آدمی کی حسنات اور دین کی خاطر اس کے اقدامات اور قربانیوں کا پلڑا اس کی کسی غلطی یا زیادتی کے مقابلے پر بھاری پاتے ہوئے، ترکی یا (سابقہ) یوگوسلاویا ایسے معاشرے کے کسی شخص، یا تنظیم، یا قیادت کو ا س کی کسی (اصولاً) سنگین غلطی یا زیادتی کے باوجود ایک وسیع تر معنیٰ میں قابل ستائش مانا جا سکتا ہے۔ شرعاً اس میں کوئی مانع نہیں۔

بہت لوگوں نے بتایا کہ بوسنیا اور کوسووا (سابقہ یوگوسلاویا) میں انہیں جن مقامی مجاہدین اور دین کےلیے سرگرم جن مسلم خاندانوں کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا،ان کے احوال دیکھ کر وہ متعجب ہوتے رہے کہ دین سے محبت کرنےاور اس کےلیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے لوگ بھی سماجی طور پر دین سے اس قدر ناواقف اور شرعی زندگی سے اس قدر دُور ہو سکتے ہیں! کہتے ہیں: ہمارے سینئر ہمیں بار بار متنبہ کیا کرتے تھے کہ یہ لوگ سرتا سر ایک غیراسلامی ماحول میں رہ کر آئے ہیں، ان کو ہر بات آہستہ آہستہ اور نرم روی کے ساتھ سکھائی جانا ہے اور انہیں یکلخت پریشان نہیں کرنا ہے۔ غرضماحول اور معاشرے ایسی بھاری بھرکم چیز ایک پوائنٹ سے اٹھا کر ایک دوسرے پوائنٹ تک پہنچا دی جانا ایک وقت طلب اور محنت طلب بلکہ جان لیوا کام ہے، جس کے راتوں رات انجام پانے کی توقع رکھنا شرعی حقائق کے بھی خلاف ہے اور عمرانی حقائق کے بھی۔

چنانچہ ایسے ماحول میں اگر ایک شخص یا جماعت کو ہم مجموعی طور پر دین سے مخلص پاتے ہیں اور اُس کا رخ اُس کے عمومی عمل کے اعتبار سے اللہ اور رسولؐ کی سمت ہی دیکھتے  ہیں تو اُس کی قدر اور تعریف کرتے اور دین دشمنوں کے مقابلے پر اُس کی کامیابی و پیش قدمی پر اظہارِ خوشی کرتے ہیں۔[5] گو ایک دوسری سطح پر ہم اس کے تصورِ دین میں کئی ایک جھول کی نشاندہی بھی کر سکتے ہوں، یا اس کے عمل کی بعض بڑی بڑی کوتاہیوں یا زیادتیوں کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہو۔ جبکہ ان باتوں کا تو اِس موقع پر ذکر ہی کیا جو کسی مرحلہ واریت کی دلیل سے خود ہمارے نزدیک اسے (ایک بڑے عرصے تک) چھوٹ دینے کی متقاضی ہوں۔ (جن میں ترکی کے دستور کو ایک بڑے عرصے تک ہاتھ نہ لگانا بھی آتا ہے؛ خود ہم اس کو یہی مشورہ دیں گے؛ کیونکہ اندریں حالات یہ ممکن تو ہے ہی نہیں البتہ ایسی کوشش کرنے سے فی الحال جو ہاتھ میں ہے اس کا چلا جانا یقینی ہے۔ ایک مجبوری جتنی دیر تک مجبوری ہے، شرعاً اس کا اعتبار رہے گا) [6]۔ گو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترکی ایسا ایک دستور باعتبارِ اصل بھی صحیح ہو۔   ایک استثنائی حکم اپنے اصل کو ختم کرنے کا موجب بہرحال نہیں ہوتا۔  اصل اپنی جگہ رہتا ہے۔ اور استثناء کبھی اصل نہیں بنتی؛ چاہے کسی استثنائی صورتحال سے گزرنے والے ایک شخص یا معاشرے کو ایسا وہم ہی کیوں نہ ہو جائے۔[7]

پیش ازیں اپنے ایک طویل مضمون ’’پیراڈائم شفٹ، اپنے پختہ تر مراحل میں‘‘ (شائع جنوری 2013) میں ہم نے تحریکی عمل میں درکار توازن کی یہ صورت بیان کی ہے کہ:

o   تصور اور نظریے میں تو آدمی سے ہر وقت ہر حالت میں کامل اسلام مطلوب ہے۔ یہاں کوئی مفاہمت، کوئی رفوکاری اور کوئی بیچ کی راہ نہ ہونی چاہئے۔  اسلام کی کوئی ایک بھی بات یہاں پر چھوٹنی نہ چاہئے۔ اہل کفر کی مصنوعات کا کوئی ٹانکہ یہاں آپ کے اسلام کے ساتھ نہ لگا ہونا چاہئے۔ یعنی ایک خالص کھرا اسلام جو زمانے کے شرک کو للکارتا اور کفر کی ملتوں سے کھلی بیزاری کرتا ہو۔ (یہاں کسی مسلمان کو عذر بالجہل  دینا اور بات ہے۔ اس کا کیموفلاج کرنا بھی بقدرضرورت قبول ہو سکتا ہے۔ لیکن تصور اور اعتقاد میں فی ذاتہٖ گزارہ یا کومپرومائز کی اپروچ شدت سے ردّ کی جائے گی)۔ یہاں؛ ایک انچ پیچھے ہٹنے کا روادار نہیں ہوا جائے گا۔ (دوسری جانب آپ دشمن کو دیکھتے ہیں، وہ بھی اذہان کو مسخ کرنے پر ہی اِس وقت عالم اسلام کے اندر پورا زور لگا چکا ہے)۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ آپ کی اصل قوت اور عمل کےلیے آپ کا اصل محرک و داعیہ آپ کا اعتقاد ہی ہے؛ لہٰذا اس کا خالص اور قوی رہنا ضروری ہے۔

o   عمل اور پیش قدمی میں البتہ جو آپ کے بس میں ہو وہ کر لینے کی اپروچ اختیار کی جائے؛ اور پورے کو لینے کی ضد میں جو مل سکتا ہے اس کو رد کر دینے والی اپروچ سے دُور رہا جائے۔ جو مل سکتا ہے (مصالح و مفاسد کے درست موازنہ کا پابند رہتے ہوئے) اس کو لیا جائے[i] اور جو فی الحال نہیں مل سکتا اس کےلیے مرحلہ وار حسبِ استطاعت (اورماحول کے حساب سے قابلِ عمل) تگ و دو کی جائے۔ یہاں آئیڈیلزم پر اصرار کرنا تحریکوں کو میدان سے باہر اور ایک یوٹوپیا میں گم کروا دینے کا موجب ہوتا ہے۔

مختصراً:

o   اعتقاد میں کاملیت۔

اور

o   عمل میں واقعیت۔

اس موضوع پر علامہ عبد الرحمن البراک﷿ نے نصف عشرہ  پیشتر اہل مصر کےلیے ایک فتویٰ جاری کیا تھا، جو مصر کے اُس نئے مجوزہ دستور سے متعلق شیخ سے طلب کیا گیا تھا جس میں دیگر کئی اسلامی ممالک کی طرح کچھ اسلامی دفعات بھی شامل تھیں اور کچھ خلافِ اسلام دفعات بھی۔ علامہ﷿ کا یہ فتویٰ فقہِ اہل سنت کی تطبیق میں ایک شاہکار حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری خواہش ہے کسی وقت ہم اس کے اردو استفادہ کے ساتھ ساتھ اس کے بعض اجزاء کو کھولیں۔ جس سے معلوم ہو گا کہ ہماری اسلامی فقہ کا ڈائنامزم کیسا زبردست ہے۔ یہ فتویٰ بنیادی طور پر انہی خطوط کو تقویت دیتا ہے جو ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ کے زیرعنوان ہمارے محولہ بالا مضمون میں بیان ہوا۔

*****

یہ تاصیل (rooting of the subject)  سامنے رہے تو ظاہر ہے اس اعتراض کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ:

ترکی اور بوسنیا و کوسووا کےلیے یہ سب نرمیاں۔ آخر دورِ حاضر کا مصر، پاکستان اور سعودی عرب بھی کوئی صحابہؓ کا معاشرہ تو نہیں کہ یہاں کےلیے ہمارے پاس کٹھن راستے ہی رہ گئے ہوں! یا سرے سے کوئی راستہ نہ رہ گیا ہو! یہاں کےلیے کوئی آسان راہ کیوں تجویز نہیں کی جا سکتی؟

بلاشبہ کی جا سکتی ہے۔ بلکہ ضروری ہے۔  ہم یہ قاعدہ بیان کر آئے ہیں کہ: اعتقاد پورے اسلام کا۔ اور عمل جو بس میں ہو۔ یہ قاعدہ ہر ملک میں لاگو ہو گا۔ ہم نے جو بات واضح کی ہے وہ یہ کہ ہر ملک کی معروضی صورتحال کو سامنے رکھ کر وہاں اسلامی پیش قدمی کےلیے راہِ عمل تجویز ہو گی۔  وہ ملک جہاں بچےبچے کی زبان پر پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ ہو، اور جس کے دستور میں جلی حروف کے اندر لکھا ہو کہ یہاں کوئی قانون شرعِ محمدی سے متصادم نہیں بنے گا اور اگر کوئی پہلے سے ہے تو وہ شرعِ محمدی کی مطابقت میں لایا جائے گا... اور جوکہ نام نہاد سیکولرزم/لبرلزم کی جڑ بنیاد سے اکھیڑ ڈالنے کے مترادف ہے...  وہاں اسلامی سیکٹر کو ترکی ایسی بیچارگی دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم نے تو اِس مضمون میں اس بات کا اصولی رد کیا ہے کہ:

سعودی عرب یا پاکستان ایسے ملکوں میں اسلام اسلام کرنے والے جو آج ترکی میں اردگان کی جیت پر شادیانے بجا رہے ہیں، کیا اپنے ملک کےلیے پسند کریں گے کہ اردگان ایسا ایک شخص یہاں سیکولر دستور چلائے اور ترکی ایسی سیکولر آزادیوں اور ویسے ہی مغربی مظاہر کا اجراء یہاں پر کر ڈالے؟ باہر اردگان کےلیے تو تم خوشیاں کر رہے ہو اور جو سیکولر نظام وہ ترکی میں چلا رہا ہے، اسے تم اپنے ملک کےلیے مسترد کر رہے ہو!

اس کا جواب ہم دے چکے۔ اور اس پر وارد اعتراض کا ازالہ بھی کر چکے۔

ہاں پاکستان کے دستور میں بہت سے جھول بھی بلاشبہ ایسے ہیں جو مذکورہ بالا شق (کوئی قانون خلافِ اسلام نہ بنے گا) کو کسی حد تک غیرمؤثر کرتی ہے۔ (جن کے ازالہ و تدارک کےلیے ہماری انہی قابل قدر جماعتوں نے جو 73ء کا آئین پاس کروانے میں سرگرم رہی تھیں بعدازاں شریعت بل کے زیرعنوان ایک آئینی ترمیم کےلیے بھی کوشاں رہیں؛ جو اس بات پر دلیل ہے کہ آئین اپنے اس مدلول کو ادا کرنے میں کہیں نہ کہیں ناکام یا غیرموثر ضرور ہے؛ ورنہ شریعت بل کی ضرورت نہ ہوتی)۔ یا کچھ اور آئینی یا سیاسی موانع جو آج اسلام کو ملک کا دستور بننے نہیں دے رہے۔ ایسے تمام موانع کے ساتھ بلاشبہ وہ حکمتِ عملی اپنائی جا سکتی ہے جو اردگان کی جماعت ترکی کے دستور کے ساتھ اپنائے ہوئے ہے۔ (علامہ عبد الرحمن البراک﷿ کے فتویٰ کا بنیادی طور پر یہی مضمون ہے)۔  یوں عمل و پیش قدمی کی بابت ہمارا قاعدۂ استطاعت ہر ملک کی بابت ایک ہی رہا؛ فرق آیا تو محض اس کی مطبقہ صورت میں۔

 



[1]    ’’فقہ‘‘ یعنی شریعت کا ایک مربوط و منظم systematic   علم جو اہل شریعت کے ہاں معروف و مسلّم چلا آتا ہے۔

[2]    دیکھئے ہمارا مضمون: ’’قیامت کی نشانیاں: علمائے سلف کو چھوڑ کر بونوں سے علم لیا جانا‘‘۔

[3]    ہمیں معلوم ہے معترض ذہن یہاں یہ سوال اٹھائے گا کہ پھر وہ کونسے علماء ہیں جن کے نام آپ یہ قرعہ نکالیں گےکہ وہ اس ذمہ داری، خداخوفی اور مدرسۂ صحابہ کی فقہ و فقہاء کے ڈسکورس کے اندر رہتے ہوئے ایک باقاعدہ سندِ اہلیت رکھنے سے متصف ہیں؟

ہم کہیں گے: چیزوں کو گڈمڈ کرنا درست نہیں۔ یہاں مسئلہ زیربحث آپ کا یہ اعتراض ہے کہ کسی مخصوص (علمی) طبقہ کو یہ حیثیت کیوں ہو کہ کہیں وہ ایک بات کی شرعاً اجازت دے تو کہیں اُسی بات سے ممانعت کرے؟  ا س کا جواب امید ہے ہم نے دے دیا ہے۔  اب یہ ایک اصولی بات طے ہو گئی کہ جو لوگ آپ کے نزدیک ثقہ علماء ہیں وہی یہ طے کریں گے کہ ’’اصل‘‘ سے ’’استثناء‘‘ کی طرف خروج کے معاملہ میں آیا کوئی افراط یا تفریط تو نہیں ہو رہی؟ اور یہ کہ یہ معاملہ کیس ٹو کیس case to case  ہی دیکھا جائے گا۔ اور یہ کہ مختلف کیسزcases  میں ان کا اجتہاد مختلف ہو سکتا ہے۔ یہاں آپ کا اعتراض ساقط ہوا۔ رہ گیا یہ کہ ثقہ علماء آپ کن کو کہتے ہیں؟ تو اس کا جواب بہت سادہ ہے: خود آپ کیا ہیں؟ اہل سنت؟ تو آپ کے علماء اہل سنت۔ اہل بدعت؟ تو آپ کے علماء اہل بدعت۔ اگر آپ کہیں میں نہ یہ ہوں نہ وہ تو آپ کے علماء بھی اسی قبیل سے ہوں گے۔   علماء آپ کے ضرور ہوں گے جن کی ثقاہت آپ مانتے ہوں۔ یہاں یہ بات ہوئی ہے کہ اصولاً یہ مسئلہ ان کی جانب لوٹانے کا ہے۔ اور اگر وہ کوئی بڑی تعداد ہے (جیساکہ ہمارے نزدیک ہے؛ یعنی عالم اسلام میں مذاہبِ اربعہ کے وہ سب علماء جو مسلکی لڑائیوں بھڑائیوں سے دُور اور ظالم حکمرانوں کی کاسہ لیسی سے بچے ہوئے ہیں) تو ایسے اجتماعی معاملات میں ان (علماء) کی مین سٹریم main stream  کو دیکھ لیا جائے۔ کسی ایک آدھ ہستی میں جتنا پھنسیں گے خراب ہوں گے۔

[4]    اسی حدیث کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے ابن تیمیہؒ کہتےہیں:

وَكَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ قَدْ يَنْشَأُ فِي الْأَمْكِنَةِ وَالْأَزْمِنَةِ الَّذِي يَنْدَرِسُ فِيهَا كَثِيرٌ مِنْ عُلُومِ النُّبُوَّاتِ حَتَّى لَا يَبْقَى مَنْ يُبَلِّغُ مَا بَعَثَ اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ فَلَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا يَبْعَثُ اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ وَلَا يَكُونُ هُنَاكَ مَنْ يُبَلِّغُهُ ذَلِكَ وَمِثْلُ هَذَا لَا يَكْفُرُ؛ وَلِهَذَا اتَّفَقَ الْأَئِمَّةُ عَلَى أَنَّ مَنْ نَشَأَ بِبَادِيَةٍ بَعِيدَةٍ عَنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْإِيمَانِ وَكَانَ حَدِيثَ الْعَهْدِ بِالْإِسْلَامِ فَأَنْكَرَ شَيْئًا مِنْ هَذِهِ الْأَحْكَامِ الظَّاهِرَةِ الْمُتَوَاتِرَةِ فَإِنَّهُ لَا يُحْكَمُ بِكُفْرِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ؛ وَلِهَذَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ {يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَعْرِفُونَ فِيهِ صَلَاةً وَلَا زَكَاةً وَلَا صَوْمًا وَلَا حَجًّا إلَّا الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ الْكَبِيرَةُ يَقُولُ أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا وَهُمْ يَقُولُونَ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَهُمْ لَا يَدْرُونَ صَلَاةً وَلَا زَكَاةً وَلَا حَجًّا. فَقَالَ: وَلَا صَوْمَ يُنْجِيهِمْ مِنْ النَّارِ}                                                    (مجموع الفتاوی ج 11، ص 407، 408)

بہت سے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو ایسے خطوں یا ایسے زمانوں میں پلے بڑھےجہاں نبوتوں سے ملنے والے علوم اور آگہی کا ایک بڑا حصہ مٹا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ وہاں ایسے لوگ باقی نہ رہے جو انہیں کتاب اور حکمت کی وہ بات پہنچائیں جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے۔ چنانچہ یہ ایسی بہت سی باتوں کو نہ جانتے ہوں جن کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے اور نہ وہاں پر ایسے لوگ پائے گئے ہوں جو انہیں یہ باتیں پہنچائیں۔ ایسا آدمی کفر کا مرتکب نہ ہوگا۔ چنانچہ ائمہ کا اتفاق ہے کہ جو شخص کسی ایسے مضافات میں پلا بڑھا  جو علم اور ایمان کے رجال سے دُور واقع ہےاور اسے اسلام میں آئے زیادہ وقت نہیں ہوا ہے تو ایسا شخص اگر اسلام کے معلوم متواتر احکام میں سے بھی کسی چیز کا انکار کر بیٹھے تو اس پر کفر کا حکم نہ لگایا جائے گا تاوقتیکہ اسے وہ بات معلوم نہ ہوجائے جس کے ساتھ رسول کی بعثت ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب انہیں نماز کا پتہ نہ ہو گا۔ زکاۃ ، روزہ، حج کسی بات کا پتہ نہ ہو گا۔ سوائے کوئی بوڑھے بوڑھیاں جو کہیں گے: ہم نے اپنے بڑوں کو یہ لا الٰہ الا اللہ پڑھتے ہوئے پایا تھا، جبکہ انہیں پتہ ہی نہ ہوگا کہ نماز یا زکاۃ یا حج یا روزہ کیا ہے۔  فرمایا: یہ بھی ان کو دوزخ سے چھڑوائے گا۔

[5]    ترکی کےلیے ’’تحریکِ اسلامی‘‘ ہم اس کو اِسی معنیٰ میں کہتے ہیں۔ وہاں کے اعتبار سے وہ بلاشبہ لوگوں کو اسلامی تبدیلی کی طرف لے کر بڑھ رہی ہے، خواہ کچھ دیگر امور میں اس کے ہاں آپ کو کیسے ہی نظریاتی جھول کیوں نہ دکھائی دیں۔

[6]    شریعت اِس دوران اس سے جو چیز طلب کرے گی وہ ہے: اس مجبوری کے ازالہ کےلیے ایک سنجیدہ کوشش۔ حالات کو شریعت کی حکمرانی کےلیے ہموار کرنے کی ایک مسلسل سعی۔ ہاں ایسی کوئی سنجیدہ کوشش ا س کے ہاں دُوردُور نظر نہ آتی ہو، تو اہل شریعت کا منہ بند کرنے کےلیے مجبوری کا یہی رونا نفاق کا ایک کھلا مظہر ہو گا۔ فَتَنَبَّہۡ

[7]    رجب اردگان کے ساتھ ایک واقعہ ایسا پیش آ چکا ہے جو اغلباً اسی بات کا غماز ہے۔ ہمارے عالمی تحریکی حلقے اور ورلڈ ویو world view  رکھنے والے ہمارے علمائےشریعت ترکی میں رجب اردگان کی جماعت کو ترکی کی مجموعی صورتحال میں اسلامی ایجنڈا کےلیے موثر وفائدہ مند پاتے ہوئے اس کےلیے بھرپور کلمۂ خیر بولتے آئے ہیں۔  ترکی کو سیکولر دستور سے نکالنے کا تقاضا اِس وقت کرنا ہمارے یہ مفکرین و علماء درست ہی نہیں سمجھتے چاہے کوئی برسراقتدار جماعت وہاں سو فیصد دین کی عارف کیوں نہ ہو،کجا یہ کہ خود اس جماعت کے بہت سے مفہومات ابھی ٹھیک کرائے جانا باقی ہو، اور اِس حوالے سے معاملہ اور بھی وقت دینے کا متقاضی ہو۔  پس رجب اردگان اور اس کی جماعت کو اگر سراہا گیا ہے تو وہ ترکی کی ایک دی ہوئی صورتحال a given situation  کے اندر سراہا گیا ہے۔  یہ صاحب خود نہ کوئی عالم دین ہیں اور نہ مفکر۔ ایک اچھے اسلام پسند ہیں اور ایک منصوبہ ساز محنتی و دیانتدار لیڈر؛ یعنی عالم اسلام کی نایاب ترین سوغات! مگر یہ اپنے ایک بار کے دورۂ مصر میں وہاں کی تحریکِ اسلامی کو بھی اپنی ترکی کی کامیابی دکھا کر سیکولر دستور کو ہاں کر دینے کا مشورہ دے آئے!  اس پر مصر کی دیگر اسلامی جماعتوں نے تو  جو موقف اختیار کیا سو کیا،  خود الاخوان المسلمون اور اس کی مصری ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے نائب صدر عصام العریان نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔  نیز اخوان کے مکتب الارشاد کے باقاعدہ ترجمان محمود الغزلان، اور مصر کے ایک نامور اخوانی راہنما صبحی صالح نے اردگان کی اس تجویز کو مصر کےلیے شدید طور پر نامقعول اور قابل رد ٹھہرایا۔ (دیکھئے http://goo.gl/sVJjH9) دیگر ممالک کے علماء و مفکرین نے بھی  اس کو قابل تصحیح گردانتے ہوئے ایک بےمحل بات قرار دیا۔ غرض ایک خاص دائرہ میں قابل تعریف جاننے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک شخصیت کو عالم یا مفکر کے طور پر لیں جبکہ وہ علم یا فکر یا عقیدہ کے رجال میں نہ آتی ہو۔ حتیٰ کہ اس معاملہ میں اس پر تنقید بھی ایک حد تک ہی ہو گی کیونکہ تنقید ایسے امور میں بنیادی طور پر ایک علمی و فکری شخصیت پر کی جاتی ہے۔ اس کی بابت صرف اتنا کہا جائے گا کہ ایک بات جو اس کا میدان نہیں اسے اس پر نظریات پیش کرنے اور ایک غیرضروری نزاع کھڑا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔



[i]    یہاں کچھ اعتراضات آئے تھے جن پر ہم نے ان مضامین کے اندر قلم اٹھایا ہے:

1.        درمیانی مرحلے کے بعض احکام۔ شائع اپریل 2013

2.        ہمارے مضمون ’’درمیانی مرحلے کے بعض احکام‘‘ کے حوالے سے۔ شائع جولائی 2013

3.       واقعۂ یوسفؑ کے حوالے سے ابن تیمیہؒ کی تقریر۔ شائع جولائی 2013

4.        شریعت، بغیر مرضیِ عوام۔ شائع اپریل 2014

5.        جمہوریت کو اسلامیانے میں رکاوٹیں۔ شائع اپریل 2014

6.        غیرشرعی نظام کو چلانے اور اس کے اندر شرکت کرنے میں فرق ہے۔ شائع اپریل 2014

اس پورے سلسلۂ مضامین کو کسی وقت کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
شرکِ ’’ہیومن ازم‘‘ کی یلغار.. اور امت کا طائفہ منصورہ
اصول- عقيدہ
اداریہ-
حامد كمال الدين
شرکِ ’’ہیومن ازم‘‘ کی یلغار..  اور امت کا طائفہ منصورہ حالات کو سرسری انداز میں پڑھنا... واقعات م۔۔۔
تصورِ دین کی سلامتی آج کا سب سے بڑا چیلنج
اداریہ-
اصول- منہج
تنقیحات-
حامد كمال الدين
                   بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ، والصل۔۔۔
تحریکی عمل کو جو پختگی درکار ہے
اداریہ-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ہمارے مضمون ’’درمیانی مرحلے کے بعض احکام‘‘ اور اس سے چل نکلنے والے سلسلۂ کلام پر تنقید، احتجاج اور تبصروں ک۔۔۔
جب برصغیر کے احناف اور اہلحدیث ایک جماعت تھے
اداریہ-
حامد كمال الدين
                   بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ، وا۔۔۔
ایقاظ اِس آگ کو بجھانے کیلئے آواز اٹھاتا چلا آ رہا ہے
اداریہ-
حامد كمال الدين
یہ جنگ جہاد کی ہمدرد قوتوں کو نشانہ بنانے اور اسلامی بیداری کا پھل کچا تڑوا دینےکیلئے ہمارے ۔۔۔
لبرلزم : آزادی مگر کس سے؟
اداریہ-
حامد كمال الدين
حریتِ فکر یا حریتِ کفر؟ 5 پیچھے بیان ہو چکا، لبرلزم کی تعریفات میں جانا ایک نصابی عمل academic work&nb۔۔۔
لبرلزم... ایک عالمی اژدہا
اداریہ-
حامد كمال الدين
حریتِ فکر یا حریتِ کفر؟ 3 اس پر ہم اگلی کسی نشست میں بات کریں گے کہ علمی طور پر ’’لبرلزم‘‘ ایک بےحد م۔۔۔
لبرلزم سارا برا نہیں!
اداریہ-
حامد كمال الدين
حریتِ فکر یا حریتِ کفر؟ 2 کسی عقیدے یا نظریے کو ہمیشہ اس کی کلیت totality  کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ی۔۔۔
حریتِ فکر.. یا حریتِ کفر؟
اداریہ-
حامد كمال الدين
بسم اللہ الرحمن الرحیم. الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ أمَّا بَعْدُ سال 2016ء کے دوران ہمارا۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز