بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلوة والسلام علی رسول اللہ
اَما بعد
پیش لفظ
چند برس پیشتر، سہ ماہی ایقاظ میں ’اداریوں‘ کی صورت، ہم نے ”تبدیلی“ کے کچھ بنیادی موضوعات پر قلم اٹھانے کا ارادہ باندھا تھا، جس پر کہ مختلف پہلوؤں سے اب تک عمل جاری ہے اور خدا کو منظور رہا تو یہ سلسلہ ابھی چلتا بھی رہے گا۔۔۔۔
”تبدیلی“ کے ان موضوعات میں ایک اہم اور بنیادی مضمون، فہمِ دین کے معاملہ میں مرجعیت اور کسوٹی کا تعین ہے جس پر کہ ذہنوں میں یکسوئی پیدا کی جانا، آپ اتفاق کریں گے، بے حد ضروری ہے بلکہ اس حوالے سے اپنے ماحول میں سرگردانی حد سے بڑھ کر پائی جاتی ہے۔
اس مضمون کے ایضاح کیلئے دو اداریے قلمبند کئے گئے تھے: ایک، ”آپ نے دین کہاں سے سمجھاہے؟“ اور دوسرا، ”آپ کے فہمِ دین کا مصدر کیا ہے؟“ ان دوطویل مضامین کو کچھ مزید اضافوں اور ایک ترتیب نو کے ساتھ اب ایک کتابچے کی شکل میں سامنے لایا جارہا ہے، جس سے امید ہے قاری اس موضوع کو زیادہ دِقتِ نظر اور ترکیزِ توجہ کے ساتھ دیکھنے اور اس کے کچھ اہم جوانب پہ مزید غور و خوض کرنے میں مدد پائے گا۔ تاثرات اور ملاحظات کیلئے ہم ہمیشہ ہی چشم براہ ہیں۔ اس موضوع پر سوالات کا پیدا ہونا ایک خوش آئند بات ہوگی، جن پر گفتگو کیلئے ہم ”ایقاظ“ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حسب توفیق حاضر رہیں گے۔ لہٰذا جو اصحاب اس بحث کو مثبت انداز میں مزید آگے بڑھانا چاہیں، ہم ان کے ساتھ چلنے کیلئے بشرطِ استطاعت کوشاں رہیں گے۔
اس موضوع کی جو کئی ایک جہتیں ہیں وہ آپ کتابچہ کے اندر ہی ملاحظہ فرما لیں گے۔ یہاں ہم یہ واضح کردینا چاہیں گے کہ ہمارا یہ سارا تحریری سلسلہ دراصل ایک ایسے ”تحریکی عمل“ کی راہ ہموار کرنے کیلئے ہے جس کے کچھ بے حد زور دار امکانات، ہم سمجھتے ہیں، ہمارے بر صغیر کی اسلامی دنیا کے اندر بڑی دیر سے کروٹ لے رہے ہیں اور جس کے راستے کی چند بے تکی رکاوٹیں ہٹا دی جانا ہمارے خیال میں اس عمل کو ایک زبردست راہ پر ڈال دینے کی مؤثر امکانی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ”تحریکی عمل“ یہاں کن طبقوں کے ملنے سے برپا ہوگا اور اس کی صورت کیونکر نکھر سکتی ہے اور اس میں زور کیونکر لایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے کئی پہلو ہیں، جن کو ہم ”تبدیلی کے موضوعات“ کا نام دیتے ہیں، اور جن میں سے ایک پہلو آپ ہمارے اس کتابچے میں زیر بحث پائیں گے۔
”تبدیلی“ کے ان موضوعات کو ہم ”جہاد کی سمت“ کے زیر عنوان، سلسلہ وار کتابچوں کی صورت لانے کا ارادہ رکھتے تھے __ ’جہاد‘ اپنے اس وسیع تر معنیٰ میں جو اللہ کی مدد سے یہاں ایک صالح و بنیادی تبدیلی کی اساس بنے گا اور اندرونی وبیرونی محاذوں پر باطل کے ساتھ یہاں وہ چومکھی لڑے گا جو ایک بڑی سطح پر عرصہ سے اپنے یہاں موقوف ہے اور وقت ہے کہ شدت سے اس کا منتظر! __ ہمارے ’اداریوں‘ کا یہ سلسلہ بنیادی طور پر اسی ”سمت“ کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے، اور بالآخر یہ سلسلہ اسی نام سے شائع ہوگا (انشاءاللہ)۔ البتہ اس کی وہ ترتیب جو ہمارے پیش نظر ہے اس سے ہٹ کر ، کچھ قارئین کے اصرار پر، یہ مضمون فی الحال اسی علیٰحدہ عنوان سے شائع کیا جارہا ہے۔
اب چونکہ یہ سب تحریری محنت، یہاں مطلوب ”تحریکی عمل“ کو ایک علمی اور فکری بنیاد فراہم کرنے کیلئے ہورہی ہے۔۔۔۔ اور یہ سب لکھنا لکھانا ہمارے لئے مجرد انداز کی کوئی ’فکری‘ اور ’فلسفی‘ وقت گزاری نہیں، ہم بہرحال اپنی یہ ناچیز محنت مسلم ہند کے اندر ”جہادِ کبیر“ کا راستہ صاف کرنے کے اس مبارک عمل میں اپنا حقیر سا ایک حصہ ڈالنے کی نیت سے ہی انجام دے رہے ہیں۔۔۔۔
لہٰذا ’فہمِ شریعت‘ اور ’فقہِ دین‘ کے حوالے سے آپ ہمارے یہاں کچھ ’تحریکی موضوعات‘ کا تذکرہ بھی ساتھ ساتھ پائیں گے۔
’فہم‘ اور ’استدلال‘ ایسے فقہی موضوعات جن حضرات کے زیر مطالعہ رہے ہوں ان کیلئے ہوسکتا ہے ہمارا ان ’تحریکی‘ جہتوں کو بھی ساتھ لے کر بیٹھ جانا کچھ معمول سے ہٹ کر ہو، بلکہ بعید نہیں عجیب ہو! مگر ہم چونکہ اپنا ایک متعین ہدف رکھتے ہیں اور ’تحریکی‘ سمت میں ہی اذہان کے اندر ایک یکسوئی لانے کیلئے یہ تحریری کام سامنے لایا جارہا ہے بلکہ ہمارے لئے یہ چیز ”ترجیحات“ کا درجہ رکھتی ہے۔۔۔۔ لہٰذا اس پہلو کا تذکرہ و اعادہ ہمارے ہاں اگر آپ کو بکثرت ملے اور آپ کی نظر میں کتابچہ کے ’عنوان‘ سے یہ بات مطابقت نہ رکھے، تو اپنی پسند اور موافقت کے معاملہ میں تو یقینا آپ آزاد ہوں گے، البتہ ہم ملتمس ہوں گے کہ ہماری یہ وضاحت بھی ساتھ میں پیش نظر رکھی جائے۔
اللہم اَرِنا الحقَّ حقاً وارزقنا اتباعہ، و اَرِنا الباطلَ باطلاً وارزقنا اجتنابہ، وصلی اللہ علی النبی وآلہ
حامد کمال الدین