عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دورِحاضر کا زندقہ: محمدﷺ پرایمان کو نجات کا واحد آپش نہ ماننا
:عنوان

اس سے پہلے شاید ’سیکولرزم‘ کی یہ جہت آپ کے علم میں نہ آئی ہو۔ مگر اب آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ’سیکولرزم‘ نام کی یہ بلا آپ کے عقائدی پیراڈائم میں کہاں کہاں تک نقب لگا رہی ہے

. اداریہ :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

 دورِ حاضر کا زندقہ

محمدﷺ پر ایمان کو نجات کا واحد آپشن نہ ماننا

 

انٹرنیٹ پر ہمیں تبصرہ کےلیے ایک عبارت بھیجی گئی (https://goo.gl/6N6s80 ) جس کے پہلے دو پیرے شاید آپ کی توجہ لیے بغیر نہ رہیں:

پہلے تو ہمیں سیکولرازم کا صحیح مطلب طے کرنا چاہیے۔یہ بات درست ہے کہ اگر اسے مذہب دشمن سمجھاجائے تو پھر تو ترقی یافتہ مغربی ممالک میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ پر پابندی ہوتی۔جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

منو بھائی اسلام کو سب سے بڑا سیکولر مذہب کہتے ہیں کیونکہ اس میں دوسرے مذاہب عیسائیت و یہودیت کے پیغمبروں اور کتابوں کو ماننا بھی مسلم پر لازم ہے جب کہ باقی کسی بھی مذہب ایسا نہیں ہے۔

اس سے پہلے شاید ’سیکولرزم‘ کی یہ جہت آپ کے علم میں نہ آئی ہو۔ مگر اب آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ’سیکولرزم‘ نام کی یہ بلا آپ کے عقائدی پیراڈائم میں کہاں کہاں تک نقب لگا رہی ہے۔ اور وہ جو کسی وقت آپ کا خیال تھا کہ یہ ایک بھلا مانس نظریہ ہمارے ’مذہبی‘ معاملات میں کسی قسم کا دخل نہ دینے پر یقین رکھتا ہے،آپ کو اس پر نظرثانی کی کس قدر ضرورت ہے۔ حق یہ ہےکہ اِس بلا کے ہزاروں رنگ ہیں اور ذہنوں پر اِس کے اثرانداز ہونے کی ہزاروں سطحیں۔ اِس مضمون میں ہم جو دیکھ رہے ہیں، بلاشبہ یہ بھی اِس جدید عقیدے کا ایک رنگ اور ذہنوں پر عمل کرنے کی ایک سطح ہے۔ اور دراصل یہ پورا ایک پیکیج: الحاد۔

مذکورہ بالا عبارت پر ہمارا مختصر تبصرہ تھا (https://goo.gl/E9PqFw ):

مجھے معلوم نہیں منو بھائی نے ایسا کہا یا نہیں۔ جھوٹ سچ، راوی کا اپنا ذمہ۔ لیکن اگر ایسا ہے، یا کسی اور نے بھی اِس مضمون کا اظہارِ خیال فرمایا ہے، تو اسے دانشوروں کے لطائف میں درج کرنا چاہئے۔ یہ ایک بہت اچھی مثال ہو گی کہ آج کیسے کیسے لوگ اسلام پر عطائیت quackery کی مشق فرما رہے ہیں۔

مولوی اِن حضرات کے سیکولرزم پر رائے زنی کرے تو ناواقف۔ ’بھائی پہلے سیکولرزم کا پتہ تو کر آؤ کہ وہ ہے کیا، پھر اس کے بارے میں کچھ بولنا‘۔ اور تم لوگوں کو ہرگز کوئی ضرورت نہیں کہ ’’اسلام‘‘ پر بات کرنے سے پہلے یہ پتہ کر لو کہ ’’اسلام‘‘ ہے کیا، تم اس پر بےتکان بول سکتے ہو!!!

بلکہ اعتراض یہاں تک کہ اسلام پر مولوی کا اجارہ ہی کیوں ہے، ہر کوئی اس کی تشریح کیوں نہیں کر سکتا؟!!!

یعنی مولوی تمہارے سیکولرزم کی تشریح تو بیچارہ کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ یہ اس کا دین نہیں تمہارا دین ہے اور اپنے دین پر اتھارٹی تم خود ہو۔ مولوی بیچارہ اسلام کی تشریح بھی نہیں کر سکتا، وہ بھی منوں بھائی ہی کر کے دیں گے! اسلام پر اتھارٹی بھی اب یہی سیکولرزم کے داعی ہوں گے!!!

اور کمال ہی تو کر دیا اسلام کو سمجھنے میں:

اسلام میں ’دوسرے مذاہب عیسائیت و یہودیت کے پیغمبروں اور کتابوں کو ماننا بھی مسلم پر لازم ہے

یعنی موسی اور عیسی علیہما السلام یا ان پر نازل ہونے والی (اصلی) تورات اور انجیل پر ایمان مسلمان اس حیثیت میں لاتا ہے کہ وہ ’دوسرے مذاہب کے پیغمبر اور کتابیں‘ ہیں نہ کہ اپنے اپنے دور میں دینِ اسلام ہی کے مستند پیغمبر اور کتابیں!!!

بہت خوب!

دوسرے مذاہب‘ میں تو سکھ مت بھی آتا ہے برادرم۔ کیا گرو نانک اور گرنتھ پر ایمان بھی مسلمان پر اسی طرح واجب ہے جس طرح موسیؑ اور عیسیؑ اور (اصلی) تورات و انجیل پر؟؟؟!

ظاہر ہے موسی اور علیہما السلام اور ان پر خدا کے ہاں سے نازل ہونے والی (اصلی) تورات اور انجیل پر ایمان رکھے بغیر مسلمان مسلمان نہیں۔

کیا یہی حیثیت گرونانک اور اس کی گرنتھ کی بھی ہے؟ کیا پتہ منوں بھائی کے ہاں یہ بھی مسلمان کے حق میں ارکانِ ایمان کے اندر شامل ہو؛ اور اس کے بغیر مسلمان مسلمان نہ ہو!

اصول اگر وہی ہے جو ان صاحب نے اختیار کیا تو پھر کیا شک ہے کہ گرونانک کو بھی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ موسی اور عیسی علیہما السلام ایسے خدا کے برگزیدہ پیغمبروں کے درجے میں رکھنا پڑے گا!

موسی اور عیسی علیہما السلام ’دوسرے مذاہب‘ کے پیغمبر!

تف ہے ایسی جہالت پر!

معذرت خواہ ہوں، اس تحریفِ اسلام پر مجھے اس سے نرم تر لفظ کوئی نہیں مل پایا۔

بعد ازاں، اِسی بحث کے ضمن میں ہمیں یہ سوال موصول ہوا:

ایک آدمی پہلے کہتا ہے: قرآن میں آیا ہے (سورۃ البقرۃ 62 کی آیت کے حوالہ سے) کہ ایک بھلے کام کرنے والا آدمی خواہ مسلمان ہے، خواہ یہودی، خواہ عیسائی، خواہ صابئ، بس خدا اور اگلے کسی جہان کو مانتا ہو تو قیامت کے روز اس کی بخشش ہو جانے والی ہے۔ پھر جب اس سے پوچھا جاتا ہے: کیا نبیﷺ کے مبعوث ہو جانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی جو شخص آپﷺ پر ایمان نہیں لاتا اور یہودی یا عیسائی یا صابئ ہی رہتا ہے، قیامت کے روز اس کی بخشش ہو جانے والی ہے؟ اور اس پر اسے سورۃ البینۃ کی آیت سنائی جاتی ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ... تو وہ کہتا ہے: یہ تو تب ہے جب وہ دل سے تو جانتے ہوں محمدﷺ سچے رسول ہیں مگر تکبر کی وجہ سے رسول کے ساتھ دشمنی کریں، یہ کفر ہوتا ہے۔

اس مسئلہ کو آپ کیسے سلجھاتے ہیں؟

ہمارا جواب:

اس سوال کے دو حصے ہیں:

1. ایک: نبیِ خاتم المرسلینﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لانے والے کسی بھی یہودی یا عیسائی یا صابئ کا کافر اور مستوجبِ دوزخ ہونا۔

2.  دوسرا: اس کفر کرنے کا معنیٰ و مراد۔

سوال کے اِن دونوں حصوں پر ہم الگ الگ گفتگو کریں گے:

محمد پر ایمان نہ لانا.. صاف موجبِ دوزخ

جدید فتنے اگر پوری طرح آپ کے سامنے ہيں تو اس آدمی کو سلیم الفطرت جانئے جو آپ کے اٹھائے ہوئے اِس سوال پر جھینپ ضرور جاتا ہے؛ اور یہ کہنے کا حوصلہ نہیں پاتا کہ خاتم الرسل محمدﷺ کی بعثت ہو جانے کے بعد، اور آپﷺ کا سن کر، کرۂ ارض کا جو شخص یہودی اور عیسائی ہی رہتا ہے اسے قرآن کی جانب سے نجات کی باقاعدہ ضمانت حاصل ہے  اور سورۃ البقرۃ (آیت 62) میں وارد وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کی بشارتِ اخروی کے اندر اس کا پورا حصہ ہے!

ورنہ اس فکرِ جدید کو پھیلانے والے تو دیدہ دلیری سے یہ کہتے ملیں گے کہ: جی ہاں نبیﷺ کا سن کر بھی جو یہودی یا عیسائی آپﷺ پر ایمان نہیں لاتا، اُس کو نجات کی ضمانت خود قرآن مجید دیتا ہے لہٰذا آپ کون ہوتے ہیں اسے جہنم کی وعید سنانے والے؟! اور اس پر حوالہ اسی سورۃ البقرۃ کی آیت سے دیں گے! یہ تو رہے تقاربِ ادیان کے داعی اور دجالی گلوبلزم کے خدمتگار، جس سے بڑی گمراہی اِس دور میں شاید ہی کوئی ہو۔

البتہ جہاں تک ’تکبر‘ وغیرہ کی شرط لگانے والے ہمارے اِن حضرات کا تعلق ہے... تو یہ محض ایک سنگین تناقض self-contradiction   کا شکار ہیں۔ یعنی ایک طرف مانتے ہیں کہ نبیﷺ کی بعثت ہوجانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی جو یہودی یا عیسائی آپﷺ پر ایمان نہیں لاتا وہ ہے تو صاف جہنم کی وعید ہی کا مخاطب۔ جبھی تو آپ کے سورۃ البینۃ کی آیت سنانے پر اِن صاحب نے اس بات کا اصولی اقرار کیا کہ نبیﷺ پر ایک یہودی یا عیسائی کا جانتے بوجھتے ہوئے ایمان نہ لانا ہے تو واقعتاً ابدی جہنم ہی کا موجب (بس شرط یہ ہے کہ وہ ایسا ازراہِ تکبر کرتا ہو!)۔دوسری طرف یہ حضرات سورۃ البقرۃ والی آیت کی رُو سے ایک یہودی یا عیسائی کے حق میں خدا اور آخرت کو مان رکھنے اور اچھے اعمال کر لینے کو ’’کافی‘‘ بھی قرار دے رہے ہیں، بلکہ اس نظریہ کی پُرزور تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں، کیونکہ یہ شرط پوری کر لینے والے کو اِن کے خیال میں آیت کے اندر (محمدﷺ پر ایمان نہ لانے کے باوجود!!!) لَاخَوفٌ عَلَیۡھِمۡ وَلَا ھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ کی بشارت سنا رکھی گئی ہے۔

بھئی اگر ’خدا‘ اور ’اگلے کسی جہان‘ کو مان رکھنے اور ’بھلے اعمال‘ کرلینے والے ایک یہودی یا عیسائی کو کچھ مزید (محمدﷺ کی رسالت) مانے بغیر ہی نجات کی ضمانت ہے (یعنی اگر آیت البقرۃ سے فی الواقع یہ مقصود ہے) ... تو اُس ’مزید‘ کا کفر کر بیٹھنے والے کو (سورۃالبینۃ وغیرہ میں) جہنم کی وعید ہی سرے سے کیوں؟ اور اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ اُس ’اضافی چیز‘ (محمدﷺ کی رسالت) کا کفر کرنے والے کو ابدی جہنم کی وعید قرآن میں باقاعدہ سنا رکھی گئی ہے (جیسا کہ سورۃ البینۃ میں مذکور ہوا)... تو وہ سرے سے ’اضافی‘ کیسے؟ وہ نجات کےلیے ’’باقاعدہ مطلوب‘‘ کیسے نہیں؟

یہ ہے ان حضرات کا تناقض۔

یعنی تھوڑی دیر کےلیے مان لیتے ہیں کہ ’’کفر‘‘ وہ ہوتا ہے جو از راہِ تکبر کیا جائے۔ مگر یہ بحث تو ’’کفر‘‘ کا معنیٰ متعین کرنے میں ہوئی نا۔ محمدﷺ کے ساتھ کفر کرنے کو موجبِ جہنم تو آپ نے تسلیم کر لیا! اور ایک اصولی مسئلہ تو ہمارے آپ کے مابین طے ہوا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمدﷺ پر ایمان لانا یعنی مسلمان ہونا کرۂ ارض پر بسنے والے ہر اُس یہودی اور عیسائی پر جس نے محمدﷺ کا سن رکھا ہو  (خود آپ کے نزدیک) فرض ہے۔ اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والا ایسا ہر یہودی اور عیسائی (خود آپ کے نزدیک) دائمی جہنم کا مستوجب۔

پس ہمارے اور اہل کتاب کے مابین پائی جانے والی مشترکات commonalities  تو خود آپ کے نزدیک کافی نہ ہوئیں جب تک کہ وہ وقت کے نبی – محمدﷺ –   پر اترنے والی ایک ایک بات پر ایمان نہ لے آئیں؛ ورنہ صاف جہنم۔

البتہ اگر آپ کے نزدیک محمدﷺ کی بعثت ہوجانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی ایک یہودی اور عیسائی کو ’’خدا‘‘ اور کسی ’’اگلے جہان‘‘ کو مان رکھنا اور ’’بھلے کام‘‘ کر لینا نجات کےلیے بہت کافی ہے (از روئے آیت البقرۃ!!!) یعنی محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر بھی اُس کی جنت کھری ہے... تو پھر محمدﷺ کو نہ ماننے پر (سورۃالبینۃ وغیرہ ایسے قرآنی مقامات کی بنا پر) آپ اُس کےلیے سرے سے پریشان ہی کیوں ہوتے ہیں؟؟؟ جب محمدﷺ کو نہ مانے بغیر (معاذاللہ) اُس کا گزارہ ہوتا ہے اور جنت اُس کی کھری ہے(آپ کے بقول آیت البقرۃ کی رُو سے!!!) تو اب اُس کے حق میں محمدﷺ کو نہ ماننے کی صورت میں ’’کفر‘‘ کا سوال ہی کیوں باقی رہ گیا ہے؟

غرض ’’کفر‘‘ کی تعریف آپ کے نزدیک کیا ہے اور ہمارے نزدیک کیا، یہ تو ہم بعد میں دیکھیں گے، ہم پوچھتے ہیں محمدﷺ کو رد کرنا سرے سے ’’کفر‘‘ اور ’’مستوجبِ جہنم‘‘ ہے ہی کیوں، جبکہ جنت اس کی محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر ہی کھری ہے (اس منحرف فہم کی رُو سے جو آپ آیت البقرۃ سے لیتے ہیں)؟!!

چنانچہ سب سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ ان حضرات کے تناقض ہی کی نشاندہی کریں اور پھر انہیں اس سے نکل آنے کی دعوت دیں۔ اس تناقض سے نکل کر:

ö    یاتو یہ اُس دجالی عقیدہ پر چلے جائیں جو محمدﷺ پر ایمان کو ناگزیر قرار نہیں دیتا اور سورۃ البینہ وغیرہ ایسے ان مقامات کو سرے سے خاطر میں نہیں لاتا۔ اُس کے قول کی رُو سے محمدﷺ کا پیروکار ہونا ہے ہی دنیا میں محض ایک آپشنل optional  چیز (اس کے خیال میں، آیت البقرۃ کی رُو سے آدمی کو پورا آپشن ہے کہ یہودی رہے، یا عیسائی، یا صابئ)! اس دجالی عقیدہ پر چلے جانے کی صورت میں یہ حضرات قرآن کے ان سب محکم مقامات کا کوئی جواب نہ دے پائیں گے جن میں محمدﷺ اور آپﷺ کی لائی ہوئی ہدایت پر ایمان لانے کو کرۂ ارض کے ایک ایک یہودی اور عیسائی اور یہاں کے ہر ہر شخص کے حق میں ناگزیر ٹھہرایا گیا ہے۔ مانند:

§      قرآن کا یہ صریح اعلان: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿الاعراف: ١٥٨﴾ "اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف پیغمبر ہوں اس خدا کا جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے،پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اورپیروی اختیار کرو اِس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"۔

§      یا  جیسے خود سورۃ البقرۃ کا ہی بنی اسرائیل کو باقاعدہ مخاطب کر کے صاف صاف یہ فرمانا: وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ ﴿البقرة: ٤١﴾  "اور ایمان لاؤ میری اس تنزیل پر جو تمہارے پاس پہلے سے موجود (صحیفوں) کی تصدیق میں ہے۔ اور سب سے پہلے تم ہی اس کےکافر نہ بن جاؤ

§     یا  وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ.  بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿البقرة: ٩٠﴾  "اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجو د تھی، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آ گئی، جسے وہ پہچان بھی گئے تو، یہ اس سے کفر کر گئے خدا کی لعنت ایسے کافروں پر۔ کیسا برا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کے ساتھ صرف اِس ضد کی بنا پر کفر کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا! لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت آمیز سزا مقرر ہے"۔

§     یا قرآن مجید کا نبیﷺ کی بابت واضح طور پر یہ کہنا: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.  قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ﴿آل عمران:٣٢﴾  "اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، "اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو پیروی اختیار کرو میری، تب ہی اللہ تمہیں پسند فرمائے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ ہے بڑا معاف کرنے والا اور رحیم۔ اُن سے کہو کہ "اطاعت قبول کر لو اللہ کی اور اِس رسول کی"۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً اللہ ایسے کافروں کو پسند فرمانے والا نہیں"۔

§     یا قرآن مجید کا یہ واضح خطاب: یَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿النساء: ٤٧﴾  "اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھیایمان لے آؤ ہماری اِس تنزیل پر جو اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی۔ (ایمان لے آؤ اِس پر) قبل اس کے کہ ہم چہر ے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کو ہم نے لعنت زدہ کیا تھا، اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے"۔

§     یا قرآن کا یہ نہایت دوٹوک بیان: إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًاأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ  ﴿النساء: ١٥٠  "جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں، اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے، اور جو بیچ کی کوئی راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ سب پکے کافر ہیں"۔

§     یا قرآن کا یہ مقام: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖفَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿المائدۃ: ١٩﴾  "اے اہل کتاب! ہمارا یہ رسولایسے وقت تمہارے پاس آیا ہے اور دین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا سو دیکھو! اب وہ بشارت دینے اور ڈرانے والا آ گیا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے"۔

§     یا قرآنِ مجید کا یہ بیان: الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴿الاعراف: ١٥٧﴾ "(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہےوہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ پس وہ جو اِس پر ایمان لائیں اور اِس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اِس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں

§     یا قرآنِ مجید کا یہ واضح مقام جس کا آپ نے بھی حوالہ دیا: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَـٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ﴿البینۃ٦﴾ "وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا خواہ اہل کتاب خواہ مشرکین، وہ یقیناً جہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے، یہ لوگ بد ترین خلائق ہیں"۔ 

§     وغیرہ وغیرہ۔ یہ محض چند مقامات قرآن سے ہم نے بیان کیے ہیں جو یہود اور نصاریٰ کو قرآن اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے کی صورت میں دائمی عذاب کی وعید سناتے ہیں۔

§     نیز نبیﷺ کی صرف یہ ایک حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ»(صحیح مسلم رقم الحدیث 240۔ کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمدﷺ إلی جمیع الناس ونسخ الملل بملتہ)  ’’ابوہریرہ سے روایت ہے، کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، اس دور کے لوگوں میں سے کوئی یہودی اور کوئی عیسائی جو میرا سن لےاور پھر اس چیز پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ایمان نہ لائے، وہ ضرور اہل دوزخ میں سے ہوگا‘‘۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب: اس بات پر ایمان رکھنے کا بیان کہ ہمارے نبی محمدﷺ کی رسالت تمام انسانوں کی طرف ہے اور یہ کہ آپﷺ کی ملت  سے تمام پہلی ملتیں منسوخ ہو چکیں)۔

·     مذکورہ بالا حدیث میں نوٹ کیا جائے: محمدﷺ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہ لانے (یعنی اس کا یقین نہ کرنے) کو ہی موجبِ دوزخ ٹھہرایا گیا ہے۔

ö    اور یا پھر اس تناقض سے نکل کر یہ امت کے اس معروف عقیدے پر لوٹ آئیں جو کرۂ ارض کے ہر اس یہودی اور عیسائی کو جس نے محمدﷺ کا سن رکھا ہے مگر وہ آپﷺ پہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں دوزخ کی ان وعیدوں کا مستوجب ٹھہراتا ہے جو ابھی اوپر ذکر ہوئیں... یہاں؛ اِنہیں قرآن سے نکالے جانے والے اِسمتشابہ کو کہ (البقرۃ 62 میں) بظاہر محمدﷺ کی رسالت پر ایمان کے بغیر بھی نجات کا عندیہ نظر آتا ہے، قرآن کے ان محکم مقامات کی طرف لوٹانا ہو گا جن میں محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والے کو دوزخ کی واضح دوٹوک وعید سنا دی گئی ہے، اور جن میں سے چند (آیات) ابھی اوپر ہم ذکر کر چکے۔

پس اِس تناقض کو اِنہیں کسی ایک کروٹ بٹھانا ہو گا:

ö    یا یہ میدان کے اُس پار چلے جائیں؛ اور محمدﷺ کی بعثت ہو جانے کے بعد آپﷺ پر ایمان کو آپشنلoptional   ٹھہرا دیں (اور اس صورت میں محمدﷺ پر ایمان کو ناگزیر ٹھہرانے اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والے کو ابدی جہنم کی وعید سنانے والی نصوص کی تکذیب یا تاویل کریں)۔

ö    یا یہ اِدھر ہماری طرف آ جائیں؛ اور محمدﷺ کی بعثت ہو جانے کے بعد آپﷺ کا سن رکھنے والے ہر یہودی و عیسائی ودیگر پر محمدﷺ کا پیروکار ہونے کو ناگزیر ٹھہرائیں؛ اور اس کو محکم مانتے ہوئے آیت البقرۃ سے نکالے جانے اس متشابہ کو اسی محکم ہی کی طرف لوٹائیں۔

متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانا یہ ہوتا ہے کہ: ایک محکم مدلول تو بہرحال اور کسی قیمت پر ساقط نہ ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ متشابہ کے صرف وہ احتمالات مانے جائیں جو محکم سے متعارض نہ ہوں۔ البتہ اس کے وہ احتمالات جو محکم سے متعارض ہوں خودبخود ساقط ہو جائیں (ورنہ محکم کو ساقط ماننا پڑے گا)۔

اس تعارض سے  ان کے نکل آنے کی:

ö    اگر تو پہلی صورت ہے... یعنی یہ محمدﷺ پر ایمان کو کرۂ ارض کے کسی بھی باشندے کے حق میں ناگزیر نہیں بلکہ ’آپشنل‘ optional   ٹھہرا دیتے ہیں... تو یہ قرآنی محکمات کا صاف کفر کرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن نے اپنے آپ کو اور اپنے لے کر آنے والی ہستی (محمدﷺ) کو جس حیثیت میں پیش کیا ہے وہ یہ کہ اس پر ایمان نہ لانا صاف دوزخ کا موجب ہے۔قرآن کے اِس محکم کو کسی متشابہ کی بنا پر متنازعہ ٹھہرانا قرآن کے ساتھ صریح تصادم ہے۔

ö    اور اگر دوسری صورت ہے... یعنی یہ محمدﷺ پر ایمان کو کرۂ ارض کے ہر یہودی، عیسائی اور صابئ کے حق میں ناگزیر ہی ٹھہراتے ہیں... تو پھر یہ اصولاً درست پٹڑی پر چڑھ آتے ہیں۔  تب ہمارے اور ان کے مابین مسئلہ صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ محمدﷺ پر ’’ایمان‘‘ لانے کا کیا مطلب ہے اور محمدﷺ کے ساتھ ’’کفر‘‘ ہو جانے کا کیا معنی؟

پس اگر یہ اصولی بات ہمارے اور ان کے مابین سرے لگ چکی؛ اور انہوں نے تسلیم کر لیا کہ کرۂ ارض پر بسنے والا کوئی یہودی، عیسائی اور صابئ جب تک محمدﷺ پر ایمان نہیں لاتا اس وقت تک وہ دائمی دوزخ کی قرآنی وعید سے باہر نہیں... تو پھر ہم آگے چلتے ہیں۔

*****

ایمان اور کفر کو ’دل کے فعل‘ میں محصور کرنا:

قرآنی استعمال میں یہ دو لفظ ’’ایمان‘‘ اور ’’کفر‘‘ ایک دوسرے کے مقابلے پر استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ایمان نہ لانے کی حالت کو ہی ’’کفر‘‘ کہا جاتا ہے؛ اور کفر سے نکل آنے کی حالت کو ہی ’’ایمان‘‘۔

چونکہ ’’ایمان نہ لانے‘‘ کو ہی قرآنِ مجید میں ’’کفر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے لہٰذا علمائے عقیدہ نے کفر کو اس کی کسی ایک صورت میں محصور نہیں ٹھہرایا بلکہ دلائل کی بنیاد پر کفر کی چار صورتیں بیان کی ہیں:

1. کفرِ استکبار۔ یعنی حق (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات) کے آگے تکبر کرنا۔

2.  کفرِ جحود۔ یعنی (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات کو) ساده رد کر دینا۔

3.  کفرِ شک۔ یعنی (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات میں) شک کرنا۔ (جی ہاں یہ بھی کفر ہی کی ایک صورت ہے)۔

4.  کفرِ اعراض۔ (رُوگردانی)۔ یعنی (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات کو) توجہ دینے کا ہی سرے سے روادار نہ ہونا۔

اب ہم معزز معترض سے پوچھتے ہیں: ’’کفر‘‘ کا یہ جو معنیٰ آپ نے بیان فرمایا ہے: یعنی دل میں تو وہ اس کو سچ مان گیا ہو (جسے جاننے کا ہمارے پاس ظاہر ہے کوئی ذریعہ نہیں ہے) لیکن از راہِ تکبر وہ اس سے تصادم ہی پر آمادہ ہو... اگر تھوڑی دیر کےلیے ہم یہ مان لیں کہ ’’کفر‘‘ کا صرف یہی ایک مطلب ہے... تو کیا آپ اسے صرف رسالتِ محمدی کے معاملہ میں ہی لاگو کریں گے یا دیگر ارکانِ ایمان کی بابت بھی ’’کفر‘‘ کا یہی معنیٰ لاگو فرمائیں گے؟

اگر تمام ارکانِ ایمان کے معاملہ میں ہی آپ ’’کفر‘‘ کا یہ معنیٰ لاگو کریں گےجیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ یہ تو تب ہے جب وہ دل سے تو جانتے ہوں محمدﷺ سچے رسول ہیں بس از راہِ تکبر آپﷺ سے دشمنی کریں‘‘... کیونکہ لفظِ کفر کا آپ بس یہی ایک معنیٰ جانتے ہیں... تو اللہ کے ساتھ ’’کفر‘‘ بھی تو پھر اسی وقت معتبر ہونا چاہئے جب ’’وہ دل سے جانتا ہو کہ اللہ ہے‘‘ لیکن محض تکبر سے اللہ کے ساتھ دشمنی کرے!!! لہٰذا ایک ملحد کو بھی جو (بیچارہ!!!) کسی وجہ سے ’’دل سے یقین نہیں کر پایا کہ اللہ ہے‘‘  جنت کی خوشخبری دے دیجئے! (براہِ کرم یہاں کوئی اور بحث مت چھیڑیے؛ یہاں صرف ’’کفر‘‘ کا معنیٰ ہمارے زیرِبحث ہے)۔ دوسرا ایک ملحد جو ’’دل سے نہیں جانتا کہ قیامت ہے‘‘ اس کو بھی بخشش کی نوید سنا دیجئے۔ کیونکہ ’’کفر‘‘ کی تعریف آپ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ’’دل سے ایک بات جان گیا ہو اور بس از راہِ تکبر ہی وہ اس سے تصادم کرے‘‘۔ تب اکیلا ’’رسالتِ محمدی پر ایمان‘‘ ہی کیوں آپ کے اس اصول کی بھینٹ چڑھے، جبکہ رسالتِ محمدی کے دلائل اور شواہد اللہ کے فضل سے روئےزمین پر کسی بھی نبی کی رسالت کے دلائل و شواہد سے بڑھ کر ہیں۔ ایسے آدمی کو تو پھر اس سے کہیں بڑھ کر چھوٹ ملنی چاہئے جو مثلاً موسی علیہ السلام کی رسالت پر مطمئن نہیں یا جو مثلاً عیسی علیہ السلام کی رسالت پر مطمئن نہیں۔ یا جو مثلاً نوح علیہ السلام کی رسالت پر مطمئن نہیں۔ یا جو شخص یومِ آخرت پر مطمئن نہیں۔ اصول تو پھر یہ ہونا چاہئے کہ آدمی ایمانیات کی جس بھی چیز پر ’غیرمطمئن‘ ہو جائے وہ اس کے حق میں موجبِ کفر نہ ہو۔ مثلاً ایک آدمی کہے کہ بھئی میں تو ملائکہ کے وجود پر مطمئن نہیں، یا دوسرا کہے کہ میں تو کسی بھی رسالت پر مطمئن نہیں، اور تیسرا کہے کہ میں تو اس کائنات کو پیدا کرنے والی کسی ہستی پر ہی سرے سے مطمئن نہیں... تو یہ تینوں آدمی آپ کے بیان کردہ اس اصول کی رُو سے ’’کفر‘‘ کے مرتکب نہیں ہیں! ان سبھی کو نجات اور بخشش کی خوش خبری دیجئے!

حق یہ ہے اسلامی تاریخ میں ایک گمراہ فرقہ گزرا ہے، جہمیہ۔ یہ اس کا فلسفہ ہے کہ ’’کفر‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے مباحث کو ’دل سے جاننے‘ کے مسئلہ میں محصور کیا جائے۔ (جہمیہ کو بھی ’قرآن و حدیث‘ سے شاید وہی دلیلیں بھائی ہوں جو آپ کو بھا سکی ہیں!)۔  لہٰذا آپ کے معترض کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ سب گھوڑے جو یہ حضرات ’تحقیق‘ کے نام پر آج دوڑا رہے ہیں امت کی تاریخ میں بہت پہلے اور بڑی ’کامیابی‘ کے ساتھ دوڑائے جاچکے ہیں اور ان پر سواری کر کے امت کے کچھ ٹولے گمراہی کے کچھ بڑے بڑے گڑھوں میں گر بھی چکے ہیں۔ (تشابھت قلوبھم!!!)۔ سلامتی مطلوب ہے تو دین کے بنیادی امور (عقیدہ وغیرہ ایسے امہات المسائل) کی بابت سلف صالحین کے طریقے پر رہئے اور فہمِ نصوص میں ان کے راستے سے ہٹ کر کوئی نئی اپج اختیار کرنے سے بچئے۔ تسلی رکھئے، خوارج، جہمیہ، قدریہ اور معتزلہ وغیرہ بھی کچھ چھوٹے دماغ نہ تھے۔ وہ بہت بہت مخلص بھی تھے، بڑے بڑے محنتی اور نکتہ رس بھی، اور ’دلائل‘ کی بحث میں بہت بہت سنجیدہ بھی۔ بس صرف ایک چیز مفقود  تھی اور وہ ہے مدرسۂ صحابہ کی پابندی، باقی ان کے پاس سب کچھ تھا، بلکہ آپ سے کچھ زیادہ ہی ہوگا۔  مگر مدرسۂ صحابہ سے آزاد، ’دلیل‘ کے تعاقب میں وہ بڑی بڑی سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کیسے کیسے گڑھوں میں جا گرتے رہے، افکار کی تاریخ پڑھنے والے پر یہ بات اوجھل نہیں۔ ان میں سے جس جس نے اپنی بربادی کےلیے کسی گڑھے کا چناؤ کیا، اغلب یہ ہے وہ اسے ’بربادی کا گڑھا‘ جان کر اس میں نہیں کودا ہوگا! آگے آپ کی مرضی۔

یہ وجہ ہے کہ ہم اس پر زور دیتے ہیں فہمِ نصوص کے معاملہ میں امت کے معروف عقائد اور مسلمات کی تعلیم سب سے پہلے لیں اور اپنا تصورِ دین پیچھے سے چلے آتے دستور پر ہی استوار کریں۔ ’پہیے کی ایجادِ نو‘ کی کوشش ویسے تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی ایک فضول بات جانی جاتی ہے، البتہ دین میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں۔

عبداللہ بن مسعود کی مشہور نصیحتعلیکم بالأمر العتیق ’’قدیمی ٹکسالی طریق پر رہو‘‘۔

*****

ہمارے جواب کے اِس دوسرے حصے  کا خلاصہ یہ کہ:

’دل سے جاننے‘ کی یہ جہمیہ والی شرط عائد کرنے لگے تو اس کی زد میں پھر تمام رسالتیں اور سب ارکانِ ایمان ہی آ جائیں گے؟ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تو یہ معاملہ پھر نہیں رکے گا۔ لہٰذا ’’کفر‘‘ کا مطلب اگر وہی جہمیہ والا ہے تو پھر اللہ کا نام لے کر اس کااطلاق سب غیبیات پر ہی کر دیجئے۔ معاملہ از حد آسان ہو جائے گا!

البتہ علمائے کتاب و سنت نے قرآنِ مجید ہی سے کفر کی چار اقسام بیان کر کے دی ہیں (آپ کی بیان کردہ "کفرِ استکبار" ان چار میں سے صرف ایک قسم ہے)۔ جبکہ ان میں سے ایک قسم کفرِ شک ہے اور ایک قسم کفرِ اعراض۔ یعنی کسی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک بھی ہو تو وہ کافر ہے۔ ’’شک‘‘ ظاہر ہے تبھی ہو گا جب وہ دل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نہ مانتا ہو! اور اگر شک کرنا آپ کے نزدیک کفر نہیں ہے (بلکہ کفر آپ کے نزدیک صرف یہ ہے کہ آدمی کو یقین ہو اور پھر وہ دشمنی پر اتر آئے) تو اس قاعدہ کا اطلاق پھر صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کیوں؟ ایسے کتنے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کو اللہ پر ہی شک ہے (نعوذ باللہ)۔ اب ان لوگوں کے دل میں جا کر تو ہم نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ کے وجود پر دل سے یقین رکھتے ہیں مگر تکبر کی وجہ سے اسے ماننے اور اس کے آگے جھکنے پر آمادہ نہیں۔ ایک بڑی تعداد تو ضرور ہی ایسی ہو گی جو اپنے اِس ’’شک‘‘ کے دعویٰ میں سچے ہوں۔ لہٰذا اس اصول کی سان پر سارے ارکانِ ایمان کو کیوں نہ رکھ دیں۔ نتیجتاً؛ خدا کو نہ ماننے والے ان  سب ملحدوں اور ماں اور بیوی کی تمیز ختم کر رکھنے کے داعی ان تمام زنادقہ کی بھی بخشش کی امید رکھیں جو انبیاء کی بتائی ہوئی غیبیات پر کسی وجہ سے ’دل سے‘ مطمئن نہیں ہو پائے!

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
شرکِ ’’ہیومن ازم‘‘ کی یلغار.. اور امت کا طائفہ منصورہ
اصول- عقيدہ
اداریہ-
حامد كمال الدين
شرکِ ’’ہیومن ازم‘‘ کی یلغار..  اور امت کا طائفہ منصورہ حالات کو سرسری انداز میں پڑھنا... واقعات م۔۔۔
تصورِ دین کی سلامتی آج کا سب سے بڑا چیلنج
اداریہ-
اصول- منہج
تنقیحات-
حامد كمال الدين
                   بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ، والصل۔۔۔
تحریکی عمل کو جو پختگی درکار ہے
اداریہ-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ہمارے مضمون ’’درمیانی مرحلے کے بعض احکام‘‘ اور اس سے چل نکلنے والے سلسلۂ کلام پر تنقید، احتجاج اور تبصروں ک۔۔۔
جب برصغیر کے احناف اور اہلحدیث ایک جماعت تھے
اداریہ-
حامد كمال الدين
                   بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ، وا۔۔۔
ایقاظ اِس آگ کو بجھانے کیلئے آواز اٹھاتا چلا آ رہا ہے
اداریہ-
حامد كمال الدين
یہ جنگ جہاد کی ہمدرد قوتوں کو نشانہ بنانے اور اسلامی بیداری کا پھل کچا تڑوا دینےکیلئے ہمارے ۔۔۔
لبرلزم : آزادی مگر کس سے؟
اداریہ-
حامد كمال الدين
حریتِ فکر یا حریتِ کفر؟ 5 پیچھے بیان ہو چکا، لبرلزم کی تعریفات میں جانا ایک نصابی عمل academic work&nb۔۔۔
لبرلزم... ایک عالمی اژدہا
اداریہ-
حامد كمال الدين
حریتِ فکر یا حریتِ کفر؟ 3 اس پر ہم اگلی کسی نشست میں بات کریں گے کہ علمی طور پر ’’لبرلزم‘‘ ایک بےحد م۔۔۔
لبرلزم سارا برا نہیں!
اداریہ-
حامد كمال الدين
حریتِ فکر یا حریتِ کفر؟ 2 کسی عقیدے یا نظریے کو ہمیشہ اس کی کلیت totality  کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ی۔۔۔
حریتِ فکر.. یا حریتِ کفر؟
اداریہ-
حامد كمال الدين
بسم اللہ الرحمن الرحیم. الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ أمَّا بَعْدُ سال 2016ء کے دوران ہمارا۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز