عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, April 23,2024 | 1445, شَوّال 13
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Gard_Nahi آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
یہ گرد نہیں بیٹھے گی!
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

یہ گرد نہیں بیٹھے گی!

 
   

کبھی مغرب کے محض کچھ ’مستشرقین‘ ہی پائے جاتے تھے جو ’علم‘ اور ’تحقیق‘ کے نام پر قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنا صدیوں کا کینہ اُگلتے اور اپنے زہر بجھے نشتر جی بھر کر چلاتے، مگر اُن کی تنہائی کے دن گئے، یہاں اب اُن کے ’راز داں‘ مغربی دانشوروں اور مفکروں کی ایک فوجِ ظفر موج ہے جس کو ’پوری توجہ‘ دینا شاید آج ہمارے بس سے بھی باہر ہو۔۔

کبھی مغرب کی توپ بردار فوجوں اور وردی میں ملبوس کمانڈروں کو ہی امتِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ’مقدس جنگ‘ کی مہم تفویض تھی۔ اِن کی توپوں اور فوجوں اور طیاروں کا کام اب بھی جاری ہے مگر یہاں اب ’صلیب کی جنگ‘ کے لئے صبح شام پریشان رہنے والے مغرب کے پارلیمنٹرینز اور بیوروکریٹس کی ایک ناقابل اندازہ تعداد موجود ہے۔ ایسے ایسے تھنک ٹینک بٹھا دیے گئے جو دینِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو روئے زمین سے مٹا دینے کیلئے ہزار ہزار سالہ منصوبے اپنی دراز میں رکھ کر بیٹھے ہوں گے۔ ہزارہا جہتوں سے یہ اِس جنگ کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم ہوں گے۔

کبھی مغرب کے پوپ، پادری اور مشنری ہی ہوتے تھے جو ہمارے ہاتھ سے قرآن چھڑوا دینے کے خواب دیکھتے۔۔ مگر اب مغرب کی انجیل بردار این جی اوز بھی کہ جن کی آج کوئی حد ہے اور نہ حساب، عین اُسی مشن پر ہیں۔۔۔۔

کبھی مغرب کے چیدہ چیدہ خواص ہی میدان میں تھے۔۔ اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کا دنیا بھر میں گونجتا اور دھاڑتا ہوا میڈیا ہے۔۔۔۔ اور ہمیں ’فرنچائز‘ بنا کر نگلنے کیلئے بے چین مغرب کے دیوہیکل ملٹی نیشنلز، جو اپنے بھاری بھرکم چندوں میں کسی ایک بھی دشمنِ اسلام کا حصہ رکھنا نہیں بھولتے۔۔

قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ بغض جو کبھی وہاں کے چند زبان دراز پادریوں اور گنے چنے مستشرقوں سے چلا تھااب ٹی وی چینلوں اور سینما سکرینوں سے کہیں آگے گزر چکا ہے۔۔

غرض مغرب کی تنظیمیں، انجمنیں، ادارے، شخصیات، ڈپلومیٹ، سرکاری و نجی ہرکارے، جن کے اعصاب پر ’دینِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیش قدمی‘ سوار ہے۔۔۔ سبھی، اپنا اپنا ’فرض‘ اور اپنا اپنا ”بغض“ لئے، ہمارے سامنے ایک ایک کر کے بے نقاب ہو رہے ہیں۔۔۔۔

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ(1)، زبانوں اور قلموں کی نوک پر جو کچھ آچکا، قرآن اور نبیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے خاکوں اور فلموں میں جو کچھ سامنے لایا جا چکا اور اپنے اس ’آزادیِ اظہار‘ کی جس دھڑلے کے ساتھ وکالت ہو چکی۔۔ ان کا یہ بغض جو پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہا ہے، یہ اُس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو سینوں میں چھپا ہے۔سمجھئے ایک برتن ہے جو لبا لب بھرا ہے، کبھی کچھ چھلک جاتا ہے تو ہمارا غم وغصہ مظاہروں اور احتجاجوں کی صورت دھار لیتا ہے اور جونہی اُس کا ’چھلکنا‘ کسی حد تک قابو میں لے آیا جاتا ہے ہم مطمئن ہو کر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو اُس بغض کا اندازہ رکھتے ہیں جو اِس ’برتن کے اندر‘ مسلسل کھول رہا ہے اور باہر آنے کے لئے کچھ ’محفوظ ترین‘، ’موثر ترین‘ اور ’نہایت دور مار راستوں‘ کا بڑی شدت کے ساتھ متلاشی ہے۔ اور بلکہ کیا بعید ایسے بہت سے ’محفوظ ترین‘، ’موثر ترین‘ اور ’دور مار‘ راستے ہمارے دائیں بائیں سرگرمِ عمل ہوں، بلکہ تو ہمارے ہی بہت سے وسائل اور ہمارے ہی بہت سے افراد اور بہت سے اداروں اور ہمارے ہی نہایت اعلیٰ دماغوں کو کام میں لا رہے ہوں۔۔۔۔!

حقیقتِ حال سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اِن کے وہ لوگ جو اپنا بغض چھپا کر نہیں رکھ سکتے وہ اِن کے جلد باز قسم کے لوگ ہیں اور جوکہ اِن کی اکثریت نہیں۔ پس اِن فلموں اور موویوں اور اخباروں میں اپنے بغض کے ساتھ نمایاں ہونے والے لوگ دراصل تو اپنے پیچھے ایک خطرناک حقیقت کا پتہ دے رہے ہیں!

واضح نظر آرہا ہے کہ شیاطینِ مغرب قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماتھا لگانے کا کوئی خاص تہیہ کر چکے ہیں۔ طریقوں طریقوں سے یہ اِس کوشش میں ہیں کہ اِس امت کی کتاب اور اِس کے رسول کو یہ جدید انسان کی نظر میں معیوب اور ناقابل التفات ثابت کر کے دکھا دیں اور ’امنِ عالم‘ کیلئے ایک بڑا خطرہ۔ اِن کی پوری کوشش ہے کہ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بابت یہی ’اِمیج‘ عالمی رائے عامہ کے اندر گہرے سے گہرا کر دیں۔چاند پر تھوکنے والا عبرت کا نشان ضرور بنتا ہے۔ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبانیں کھولنے والے آج کے یہ شیاطین بھی ذلت ورسوائی سے ہی دامن بھر کر جا رہے ہیں۔ خود اِن کے یہ گھٹیا ہتھکنڈے ہی اس بات کا سبب بن رہے ہیں کہ اِن کے اپنے معاشروں میں ہدایت کے متلاشی طبقے اللہ کی آخری کتاب اور اس کے آخری رسول کی جانب پہلے سے بھی بڑھ کر رخ کرنے لگیں اور جبکہ ہم مسلمان اپنے قرآن اور اپنے نبی کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت میں اور بھی پختہ ہو جائیں!

ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ اس بھنبھناہٹ کے پیچھے جو ہمیں مغرب کی ان حرکتوں کے اندر صاف محسوس ہورہی ہے محض کچھ کارٹونسٹ یا کچھ اخباری منشی ہیں۔ حق یہ ہے کہ اِس کے پیچھے ان کے بڑے بڑے دماغ ہیں جو اسلام کی اس پیش قدمی کے ہاتھوں جو قلوب اور عقول کی دنیا میں ہو رہی ہے روہانسے ہو چکے ہیں، اور جنہیں اس سے نمٹنے کیلئے اتنی ڈھیر ساری ’دانش‘ کے باوجود آج کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سچ ہے، وقت کے نبی کے ساتھ ٹکر لے رکھنا عقل وہوش کی خوبیوں کو ہی آدمی کیلئے وبال جان بنا دیتا ہے!

وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ۔فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (النمل:۰۵-۱۵) ”انہوں نے ایک چال چلی، اور ہم نے ایک چال چلی کہ جس کی ان کو خبر بھی نہ ہوئی۔ تو دیکھ لو پھر اُن کی چال کا کیا انجام رہا، یہ کہ ہم نے اُن کو اور ان کی قوم سب کو برباد کر ڈالا“۔

ایسی ہی توہین آمیز حرکات، بار بار، یہ لوگ اب قرآن کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اِس پر اِن کے ہاں باقاعدہ فلمیں آنے لگی ہیں۔۔۔۔ قرآن میں جہاد سے متعلق آیات کی نشاندہی کر کر کے بھی دراصل یہ لوگ یہی ’ثابت‘ کرنے کی کوشش میں ہیں کہ شریعتِ اسلامی کے مصادر __معاذ اللہ __ ’دہشت گردی‘ کی تعلیمات سے پُر ہیں!

سارے جتن اس لئے کہ کسی طرح ان کی پڑھی لکھی اقوام، ’دین‘ کی تلاش میں ’قرآن‘ اور ’محمد‘ کے پاس نہ پھٹکنے پائیں، بلکہ ’قرآن‘ اور ’محمد‘ کا نام ہی سن لیں تو بدک کر بھاگ کھڑی ہوں! ’کلیسا‘ کے خلاف بغاوت کی ان آخری صدیوں کے دوران، اپنے پڑھے لکھوں کی نظر میں ’بائبل‘ کو ڈھکوسلہ تو یہ خود ہی ثابت کر چکے۔ بہ الفاظِ دیگر، ایک آسمانی ہدایت کیلئے اپنی اقوام کے یہاں یہ آپ ہی اپنی توقع سے بھی کہیں بڑھ کر ایک ’خلا‘ پیدا کر چکے۔ پس آج جب قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تعلیمات اُن معاشروں کے در پر دستک دے رہی ہیں اور ذہنوں کے عرصوں سے بند کواڑ وہاں کھلنے لگے ہیں۔۔ تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ’کفار کے سرداروں‘ کی پریشانی آج نہایت دیدنی ہے!

معاملہ اس قدر دلچسپ ہوگیا ہے کہ آج اِن کے لئے نہ تو بائبل کی جانب واپسی ممکن ہے اور نہ ہی قرآن کے راستے میں اَڑ کر بیٹھ رہنا آسان!!!

مگر ’قرآن‘ اور ’محمد‘ سے ان کے پریشان ہونے کی اور بھی بے شمار ’وجوہات‘ ہیں۔۔۔۔!

جہاں یہ حقیقت ہے کہ ایک مسلمان کیلئے سب سے بلند مرتبت اور ہدایت کا حقیقی مصدر اللہ کی کتاب اور اس کا رسول ہے، وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن وانس کے جملہ شیاطین کو سب سے بڑھ کر تکلیف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول سے ہی ہوتی ہے۔ پوری انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں جھونک دینے کیلئے بے چین شیطانوں کی راہ میں آج کوئی رکاوٹ ہے تو بس یہی۔ ”وارثانِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم “ کے سوا پوری دنیا رام ہو چکی، کم از ’مقابلے‘ پر آنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ ان کے ساتھ نظریات کی گولہ باری میں سوائے اسلام کے کوئی دین اور کوئی اخلاقی فلسفہ آج ’میدان‘ میں کھڑا نہیں رہ گیا۔۔۔۔

کتاب اللہ اور رسول اللہ سے اُن کا بغض یقینا اس سے کہیں گہرا ہے، مگر دنیا میں حالیہ بدامنی اور خون خرابے کو دینِ اسلام کے کچھ پاکیزہ ترین عنوانات کے ساتھ نتھی کر کے وہ اِس مار پر بھی ہیں کہ دنیا میں اپنی خباثت کیلئے بہت سا راستہ صاف کر لیں۔ دین اسلام کے اِن پاکیزہ ترین عنوانات میں سرفہرست ایک اللہ کی آخری کتاب ہے اور دوسرا اللہ کا آخری رسول۔ جہاں قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی صدیوں تک ماتھا لگا رکھنے والے اِن کے مستشرق اپنا پورا زور صرف کر لینے کے بعد آخر ہار چکے، اور قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اُن کے معاشروں میں پزیرائی پا رہے ہیں، وہاں اب ان کے صحافتی یاوہ گو اور الیکٹرانک میڈیا کے نیچ درجہ بدزبان، قرآن اور محمد کے مقابلے میں اپنی اقوام کی ڈوبتی نیا ’پار‘ لگانے کیلئے میدان میں اترے ہیں۔۔!

اپنے گھروں کی پریشانی الگ، اور ’تیسری دنیا‘ کو ہاتھ سے نکلتا دیکھنے کی اذیت الگ! مسلم اقوام اپنے گھروں کی آپ مالک بنیں اور تین صدیوں سے منہ کو جو حرام لگ چکا ہے مسلم بیداری کے سبب اس کا جاری رہنا اب خطرے میں پڑ جائے، کیا سردارانِ کفر اس کو بڑے آرام سے سہہ جائیں؟!

آج کے یہ ابو لہب اور ابو جہل امتِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو از سر نو اٹھتا دیکھ کر حواس باختہ ہیں اور سیدھے سیدھے قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور دشنام طرازی پر اتر آئے ہیں۔بارودی خاکے عام کرکے، اور فلم ’فتنہ‘ وغیرہ میں قرآن و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’ (معاذ اللہ) دہشت گردی کا اصل منبع‘ کہہ کہہ کر گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ عالم اسلام میں بڑھتا ہوا یہ جو جذبہ ء جہاد ہے، اور جوکہ اُن کی نظر میں ’امن عالم کیلئے خطرہ‘ ہے، اِس کے پیچھے اُن کا اپنا برپا کیا ہوا فساد اور اُن کا اپنا روا کردہ عالمی استحصال نہیں بلکہ اِس کے پیچھے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جہادی تعلیمات ہیں جو مسلمانوں کو ’بلا وجہ‘ ہتھیار اٹھانے کے سبق دیے جا رہی ہیں۔۔۔۔!

قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر (معاذ اللہ) ’عالمی نقضِ امن‘ کا الزام تھوپ کر، اور میڈیا کے زور پر اِس کا چرچا کرکے، دراصل وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آج کی اِس کشیدہ صورت حال کا ذمہ دار نہ تو اُن کا اپنا پیدا کردہ عالمی عدم توازن ہے اور نہ اُن کی وہ استعماری ہوس اور وہ قبضہ جاتی مہم جو مسلم ’کالونیوں‘ کو تین صدیوں سے مسلسل روند رہی ہے اور جوکہ درحقیقت اُن کی اپنی توسیع پسندانہ ذہنیت، اُن کی اپنی دَر انداز خصلت اور دنیا کے سب وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے بے چین اُن کی اپنی دجالی سرشت کا ہی ایک طبعی و لازمی نتیجہ ہے اور جس کے باعث تین صدیوں سے یہ دنیا عالمی جنگوں کا اکھاڑا بننے اور بارود کی بارش کا مسلسل نظارہ کرنے پر مجبور کر رکھی گئی ہے!

شیاطین ایک تیر سے کئی شکار کر لینے کی چال پر ہیں۔ اپنی اقوام کی نگاہ میں امن عالم کے رکھوالے نظر آنے کیلئے، یہ اپنے ہی پیدا کردہ اس خون خرابے کی ذمہ داری نہ صرف آج کے ’جہادیوں‘ کو بلکہ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہی کو اٹھوا دینا چاہتے ہیں، تاکہ ’نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری‘۔ دنیا جب بھی اس خون خرابے کی شکایت کرے تو دنیا کی نظر اِن کے اپنے ظلم و استحصال کی بجائے یہاں کے کچھ سر پھرے ’جہادیوں‘ کی جانب چلی جایا کرے اور پھر وہ محض آج کے اِن ’جہادیوں‘ پر بھی نہ رکے بلکہ سیدھی قرآن اور رسول اللہ تک پہنچے اور یوں اس خون خرابے کا ’گہرا‘ اور ’دیر پا حل‘ وہ ’جہادیوں‘ کے خاتمہ میں نہیں بلکہ ’قرآن اور محمد پر ایمان‘ کا خاتمہ کردیا جانے میں ہی تلاش کرنے لگے(2)۔ نہ یہ لوگ خون خرابہ رکنے دیں (کیونکہ اِس کے پیچھے یہ خود ہیں اور اِن کی دجالی ہوس ہے) اور نہ دنیا ان عالمی مصائب کی جڑ __ معاذ اللہ __ قرآن اور محمد‘ کے سوا کہیں اور ڈھونڈے! یوں فساد بھی یہ مچائیں اور اس کی ذمہ داری بھی دینِ اسلام کے پاکیزہ ترین ناموں کو اٹھوائیں۔ امت اسلام مار بھی کھائے اور اس ماردھاڑ کی ذمہ داری بھی معاذ اللہ اس کی کتاب اور اس کے نبی پر ڈال رکھی جائے!

وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ

یہ محض چال بھی نہیں، انکا یہ بے حد وحساب کینہ و بغض واقعتاً محض ’جہادیوں‘ کے ساتھ نہیں بلکہ اصل میں تو وہ دینِ اسلام اور نبی ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔مگر۔۔۔۔ سبحان اللہ! کچھ ہوا ہے تو یہ کہ ایک حقیقت آپ سے آپ عیاں ہو گئی ہے۔ ’جہادیوں‘ کو امت اسلام کو یہ بتانے پر بہت محنت نہیں کرنا پڑی کہ ان کا سامنا آج کس دشمن سے ہے۔ جبکہ اُن کی اپنی اقوام کے ہاں بلکہ پوری دنیا میں ’قرآن اور محمد ‘ پہلے سے کہیں بڑھ کر مجالس کا موضوعِ سخن بنے۔ اَن گنت زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآنی نسخے اور سیرت کی کتابیں دھڑا دھڑ بکیں اور لوگوں کو یہ جاننے کیلئے کچھ اضافی اسباب ہاتھ آئے کہ ’قرآن‘ کیا عظیم الشان آسمانی دستاویز ہے اور ’محمدصلی اللہ علیہ وسلم کون ذاتِ بابرکات؟!۔۔۔۔ جبکہ ان بدبختوں کے اپنے حصے میں صرف ذلت آرہی ہے اور ایک عنقریب شکست (انشاءاللہ)

٭٭٭٭٭

یہ اظہر من الشمس ہے کہ وہ چیز جسے یہ لوگ ’دہشت گردی‘ کے نام سے ذکر کرتے ہیں وہ تین صدیوں سے عالم اسلام پر روا رکھے گئے ظلم کا ایک نہایت ناقابل ذکر جواب ہے۔ جس چیز کو یہ لوگ ’دہشت گردی‘ کہتے ہیں اور اس کے ’ڈانڈے‘ تلاش کرنے کے دعوے کے تحت ان کے بدزبان ہماری کتاب اور ہمارے نبی تک پہنچتے ہیں، درحقیقت تو اس کے ڈانڈے اس ظلم اور ’عالمی داداگیری‘ کی طرف جاتے ہیں جسے یہ ہم پر روا رکھے ہوئے ہیں اور اسی میں ابھی اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور جس کا جواب دینے والے، ایک مظلوم قوم کے اندر لازماً پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ان بدبختوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے چاہا عالم اسلام کے ان مٹھی بھر ’مزاحمت کاروں‘ کے ساتھ ساتھ، لگے ہاتھوں، ’قرآن‘ اور ’اسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ کا بھی ’دہشت گردی‘ کے نام پر گھونٹ بھر جائیں اور یوں یہ قصہ ہی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ ان پلید زبانوں کو کیا معلوم کہ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا ان شاءاللہ ان کو کتنا مہنگا پڑنے والا ہے۔ان کے وہ لوگ جو بہت کھل کر ہمارے اِن مقدس ناموں کے سر آتے ہیں محدود تعداد میں ہوں گے، مگر ان کے وہ لوگ جو گھما پھرا کر ہمارے اِن مقدسات پر مسلسل کیچڑ اچھال رہے ہیں بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کی ساری سعی یہ ’ثابت‘ کرنے کیلئے ہو رہی ہے کہ ’دہشت گردی‘ (جوکہ دہشت گردی نہیں درحقیقت عالم اسلام کی جانب سے ظلم کے جواب کی تاحال ایک نہایت ضعیف کوشش ہے) کے خاتمہ کیلئے پہاڑوں اور جنگلوں میں ’جہادیوں‘ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر کیوں ہلکان ہو رہے ہو، تمہارا اصل مسئلہ اور تمہارے اس مجوزہ ’عالم نو‘ کی راہ میں اصل رکاوٹ تو وہ ”تعلیمات“ ہیں جہاں سے عالم اسلام کا عملیت پسند عنصر سب کی سب غذا پاتا ہے ! لہٰذا کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے ان ”تعلیمات“ ہی کا کچھ کرو جو عالم اسلام میں زندگی دوڑا دینے کا باعث بنتی ہیں۔ چنانچہ ہزارہا طریقوں سے اب یہ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہدف جنگ بنا چکے ہیں۔ کئی ایک مسلم ملکوں میں آج یہ نوبت آنے کو ہے کہ قرآن کی کچھ مخصوص آیات وہاں کے عوامی فورموں پر پڑھنا تک (معاذ اللہ) معیوب سمجھا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ایک خاصا قابل ذکر حصہ وہاں کے نصابوں تک سے خارج کر دیا جائے، کیونکہ ’دنیا کے بڑوں‘ کو قرآن اور نبوی تعلیمات کے وہ حصے پسند نہیں! ہمارے بہت سے دماغوں کو بیش قیمت سکالرشپ دی جاتی ہیں کہ وہ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پھیلائے گئے شکوک کو ’علم‘ اور ’تحقیق‘ کی زبان دیں اور مغربی ثقافت کے معیاروں پر اہل کتاب کے صحیفوں اور نبیوں کا تو نہیں البتہ قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا محاکمہ کریں۔ اور کچھ کو جھانسہ دیا جاتا ہے کہ وہ اِن تعلیمات کو مغربی معیاروں کے ’مطابق‘ ثابت کرنے کی کوشش کریں! طریقوں طریقوں سے نہ صرف عالم اسلام بلکہ مغرب میں پائے جانے والے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اِس پوزیشن میں لایا جا رہا ہے کہ وہ قرآنی ونبوی تعلیمات کے ایک حصے کی بابت معاذ اللہ ایک قسم کی شرم ساری محسوس کریں اور اس کی ایسی توجیہات کریں جس سے ان قرآنی و نبوی تعلیمات کے معاملہ میں ’معذرت خواہانہ‘ رویے یہاں کے عام مسلمانوں میں خوب خوب پروان چڑھیں۔ فی الواقع اُن کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو اس طریقے سے مصادرِ اسلام کی جڑیں کاٹنے کے منصوبے چلا رہا ہے۔ اُن کے وہ بدزبان جو کھل کر ہی قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طعنے دینے چل پڑتے ہیں اِس کہانی کو مکمل کرنے کا محض چھوٹا سا ایک کردار ہیں۔ اُن کے بڑے بڑے کردار تو وہ نہیں جو سامنے ہیں۔ مسلمان اپنی کتاب اور اپنے نبی کے حق میں اب نہ اٹھیں گے تو کب اٹھیں گے؟

نہایت واضح کیا جانا چاہیے کہ یہ گرد جو ہم میدان میں دیکھ رہے ہیں اور جوکہ بہرحال اِنہی کے ہاتھوں اٹھائی گئی ہے، اب اتنی آسانی سے بیٹھنے والی نہیں۔۔۔۔

آئے روز ان کا کوئی نہ کوئی ابو جہل قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر آوازے کسنے لگتا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی ابن اخطل کا ’کالم‘ آیا ہوتا ہے۔ روز کسی نہ کسی کعب بن اشرف کی زبان کھلتی ہے۔ روز کوئی نہ کوئی نضر بن الحارث قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر فلمیں ریلیز کر رہا ہوتا ہے۔ روز کوئی نہ کوئی عقبہ ابن ابی معیط ٹی وی چینلوں پر بیٹھا منہ بنا رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور اِس وتیرہ میں اب برابر اضافہ ہورہا ہے۔صاف بات ہے کہ امتِ اسلام کی نظر میں اپنی کتاب اور اپنے نبی کی ناموس کے سوال پر آخری ترین حد تک چلے جانا ایک ایسا عمل ہے جس سے بڑھ کر کوئی چیز اس کی چودہ سو سالہ تاریخ میں باعث شرف نہیں رہی اور اِن دو مقدس ناموں کی عظمت پر اپنا سب کچھ وار دینا اِس کو اپنے در و دیوار، اپنے سب قومی وملکی مفادات، حتیٰ کہ اپنے جگر گوشوں اور اپنی عزت و آبرو سے بڑھ کر عزیز ہے۔پس یہ ’آزادیِ اظہار‘ جس سے مغرب آج دستبردار ہونے پر تیار نہیں اور جس کا سہارا لے کر، بلکہ جس کے ثبوت کے طور پر، مغرب کے اوباش قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تک چلے جانا اپنا ’حق‘ جانتے ہیں اور مغرب بدستور ایسی ’آزادی‘ کو اپنی تہذیب کا ایک ’امتیازی وصف‘ گردانتا ہے اور جوکہ امتِ اسلام کیلئے ایک ایسا سوال ہے جو کسی بھی مفاہمت سے بالاتر ہے اور جوکہ اِس امت کے لئے ’زندگی موت‘ کا مسئلہ ہے۔۔۔۔

واضح کر دیا جانا چاہیے: یہ نام نہاد ’آزادیِ اظہار‘ کرہ ء ارض کی دو امتوں کے مابین آج ایک ایسی جنگ کی گرد اٹھا رہا ہے جو اپنی کوکھ میں پوری دنیا کے خدوخال بدل دینے کے مضمرات رکھتی ہے۔۔ اور جس کی بابت وہ خود شاہد ہیں کہ پہل اُن کی جانب سے ہوئی ہے۔۔۔۔ ایک طرف تمہارا یہ ’آزادیِ اظہار‘ ہے جس سے دستبردار ہونا تم اپنے اصولوں کی موت جانتے ہو، تو دوسری طرف ”ناموسِ کتاب و رسولِ رب العالمین“ ہے جس سے دستبردار ہونا ہم امت ِ اسلام اپنے حق میں موت سے بدتر جانتے ہیں۔کیا یہ دھرتی اتنے بڑے تصادم کی متحمل ہے؟ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ ہمارے مقدسات کی بابت تم اپنے اوباشوں کی زبان کو لگام دے کر رکھتے اور ہمارے دین، ہمارے عقیدے اور ہمارے تہذیبی و تعلیمی خدوخال کو ’تیسری دنیا‘ سمجھ کر ان میں ٹانگ اڑانے سے باز رہتے؟

دانشمندی کا تقاضا تو یہی تھا کہ اِس ’گلوبل ولیج‘ میں، جس کا کوئی ایک چوتھائی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر جان دیتا ہے، ناموسِ رسالت کو ایک عالمی قدر کے طور پر لیا جاتا اور ’آزادیِ اظہار‘ کو جہاں اور بہت سی ’قدروں‘ کی نکیل ڈال رکھی گئی ہے وہاں اِس عالمی قدر کا بھی پابند کر دیا جاتا، تاکہ اس ’عالمی بستی‘ میں وہ ’بقائے باہمی‘ جس کا ڈھنڈورا سب سے زیادہ اُنہی کی جانب سے پیٹا جاتا ہے، بالفعل ممکن ہوتی۔ لیکن اگر اُن کا خیال ہے کہ اِس بستی میں ہر کسی کو اُنہی کی شروط پر رہنا ہے، اور اگر اُن کا پیش کردہ نقشہ ایک ایسی بستی کا نقشہ ہے جس میں خدا کے نبیوں اور خدا کی کتابوں کی ناموس سلامت نہیں، خصوصاً جہاں امام البشرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی ضمانت نہیں۔۔۔۔ تو پھر ایسی بستی میں ڈیڑھ ارب باشندے یقیناً ایسے پائے جاتے ہیں جنہیں اِس بستی میں جینے سے بڑھ کر یہاں اپنی کتاب اور اپنے نبی کی ناموس پر مرنا عزیز ہوگا۔ تب ایسی ’بستی‘ میں ’امن‘ کے خواب دیکھنے سے بڑھ کر کوئی فریب خوردگی ہوسکتی ہے اور نہ اپنی اِن یکطرفہ شروط پر اس میں ’امن‘ اور ’بقائے باہمی‘ کی صدائیں بلند کرتے چلے جانے سے بڑھ کر مکاری اور شیطنت کی کوئی قسم۔شیاطینِ مغرب کا یہ خبیث وتیرہ جو اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اب آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے یقینا اِس سے پہلے بھی سامنے آتا رہا ہے مگر پچھلے چند سال سے ایک خاص شیطنت کے ساتھ اِس کیلئے جو فضا بنائی جا رہی ہے اس سے ’گلوبل ولیج‘ میں پائی جانے والی قوموں اور قبیلوں کے مابین ’بقائے باہمی‘ co-existence کے سوال کی نہایت خوفناک جہتیں یقینا سامنے آچکی ہیں۔ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ہمارے نبی کی حرمت و ناموس پر یہ حملہ اُن کی جانب سے ہوا تو تبھی یہ گرد میدان میں اٹھی ہے۔محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت جو اپنی نصوص میں مستند، ثبوت میں قطعی، معانی میں واضح اور تاثیر میں دور رس ہے اور مسائلِ دنیا و آخرت کا نہایت خوب حل دیتی ہے۔۔۔۔ اپنی لائی ہوئی اِس ہدایت کی صورت میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اِس امت کی قیادت فرما رہے ہیں۔ اِس ’گلوبل ولیج‘ میں یہ امت قدم رکھے گی تو آپ کی ہی سرکردگی میں۔ کبھی ایسا نہ ہوگا کہ یہ امت اپنی کسی پیش قدمی اور جادہ پیمائی کے وقت یہ بھول جانے کی روادار ہو: ’سالارِ کارواں ہے میر حجاز اپنا‘!!!

’کارواں‘ کا یہ ”سالار“ ابدی اور دائمی ہے۔ اِسی کے پیچھے تو ہمیں آخرت میں صفیں بنانی ہیں۔۔۔۔!!! صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم

وہ ہم میں سے کوئی بدبخت ہی ہوگا جو اُن کی تجویز کردہ کسی دنیا میں اپنے نبی کا دامن پکڑے بغیر جانے کا روادار ہو۔ کوئی یقین کرے نہ کرے، اس امت کی پرداخت ہی ایسی ہوئی ہے کہ ایسے شخص کے تو اپنے گھر والے اُس پر لعنت بھیجے بغیر نہ رہیں گے، قیامت کی روسیاہی تو ابھی بعد کی بات ہے!

جو کوئی بھی ایک ایسی ’جدید دنیا‘ کے خواب دیکھتا ہے جس میں اِس امت کو اپنی کتاب اور اپنے نبی کو چھوڑ کر آنا ہوگا یا زیادہ سے زیادہ اپنی کتاب اور اپنے نبی سے ایک ’واجبی‘ سا تعلق رکھنا ہوگا وہ یقینا احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ خدا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے کو پتھر پر لکیر ماننا اور اس کے ایک ایک لفظ کا وہی چودہ صدیاں پرانا اسٹیٹس برقرار رکھنا اِس امت کو اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز ہے۔ اور تو اور، وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس روح کو زندہ کرنے کی صدائیں ہی آج یہاں مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہیں۔ہماری کتاب اور ہمارے نبی کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھڑوا کر یہ ہمیں گلے لگا لینے تک کیلئے تیار ہیں! بخدا، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گناہگار سے گناہگار امتی سے پوچھ کر دیکھ لو، اِس شرط پر وہ ان بدبختوں کے گلے لگنا تو کیا، آیا وہ ان کا منہ دیکھنے کا بھی روادار ہے؟؟؟

مسئلہ زیادہ سے زیادہ کچھ لاعلمی اور جہالت کا ہوسکتا ہے بلکہ ہے، جس کا مداوا ہونا بے شک ضروری ہے، البتہ کسی ایک بھی امتی کی اپنے نبی سے وفاداری خدا کے فضل سے محل نظر نہیں ہو سکتی۔اُن کے تھنک ٹینکس کو پڑھ کر دیکھ لیجئے، ہماری کتاب اور ہمارے نبی کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھڑوا دینا آج وہ اپنی بقا کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں، یعنی اپنی زندگی کسی کی موت میں دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اپنے نبی کا دامن ہر صورت میں پکڑ کر رکھنا دنیا کے اس کارزار کا مسئلہ ہو یا آخرت میں پار لگنے کا، ہمارے لئے تو یہ ہمیشہ سے بقا کا مسئلہ ہے۔اُن کی’بقا‘ کا یہ سوال جو آج خود ان کی جانب سے پورے زور کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے اگر سادہ لفظوں میں رکھا جائے تو یوں ہوگا کہ: یا اِس دنیا میں اپنے اغراض و مقاصد سمیت ’وہ‘ رہیں گے اور یا پھر ڈیڑھ ارب انسانوں کو حکم دینے کی حیثیت رکھنے والا ”اسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم“!

اُن کا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماتھا لگانے کی کوشش تو ہے ہی ان کی بدبختی، البتہ ہماری خوش قسمتی کہ اپنی بقا کے اِس سوال کا عنوان محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین سے ہماری وابستگی ہے، یعنی ایک ایسی چیز کے ساتھ ہماری وابستگی جس کا قیامت تک رہنا یقینی ہے!

نہ اتنے سادہ ہم ہیں اور نہ اتنا چالاک ہونے کا زعم وہ رکھیں، کہ سمجھا ہی نہ جا سکے کہ ان کی جانب سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو کیوں آج موضوع بحث بنایا جا رہا ہے؟! اصل میں تو (معاذ اللہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حیثیت کا گھونٹ بھرنا مقصود ہے جو آپ کو آج بھی زمین میں ایک بھر پور کردار دلواتی ہے۔ اصل میں تو اُن کیلئے آپ کی وہ حیثیت تکلیف دہ ہے جو زمین کی ایک چوتھائی آبادی کو، جوکہ چند عشروں میں نصف ہوسکتی ہے، زندگی کے ہر ہر شعبے میں باقاعدہ ایک جہت دیتی ہے اور یہ ایک ایسی صالح جہت ہے جو زمین کی اِس چوتھائی آبادی کو ’خدا رخ‘ کروا دیتی ہے۔ اصل مسئلہ پس اہل زمین کو رخ اور جہت دینے کا ہے، جس کا عنوان آج ”ناموسِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم“ ہے۔ اگر یہی بات ہے تو بخدا وہ نہایت صحیح جگہ پہنچے ہیں!!! اور تو اور خود ہمارے ’بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم‘ لے چلنے کا یقینی ذریعہ بننے والے ہیں!!!

کوئی بھی معرکہ آسان نہیں ہوتا، نہ یہ معرکہ آسان ہوگا، مگر یہ معرکہ جس کی گرد اُن کی جانب سے اٹھائی گئی ہے اِس میں اگر ہم پیٹھ نہیں دکھاتے تو یہ ہمیں زندگی ہی دے کر جانے والا ہے کیونکہ اِس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ”ہدیِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم“ کو قیامت تک زندہ رہنا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام رکھ کر ہم کبھی مار کھانے والے نہیں! سب جانتے ہیں اِس معرکہ میں پہل اُن کی جانب سے ہوئی ہے، البتہ ہمارے ڈٹ جانے کے نتیجے میں اِس کے بطن سے ایک ایسی روشنی برآمد ہونے والی ہے جو ’دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے‘! اِس کی گرد بیٹھنے کے ساتھ ہی __ ان شاءاللہ __ دنیا اُس سورج کو نصف النہار پہ دیکھے گی جس کی روشنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حاسد کی آنکھیں چندھیا کر رکھ دے۔۔۔۔ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ !!!

ہر اُس ”امتی“ کو نوید ہو جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کو جہان کا موضوع بنا دینے کیلئے آج اپنا تن من دھن لگا دے اور تاریخ کے اِس نہایت اہم موڑ پر آپ کے دین کا عَلَم بلند سے بلند کرنے کیلئے اپنا آرام اور چین قربان کر لے اور اپنی محبت کا ثبوت دے کر ان ”امتیوں“ میں اپنا نام لکھوانے کی سعی کرے جن کی بابت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا تھا:

مِن اَشَدِّ اُمَّتِی لِی حُبّاًنَاس   یَکُو ´نُو نَ بعدِی، یوَدُّ اَحَدُہم لَو رَآنِی بِاَہلِہ وِمَالِہ۔ (صحیح مسلم، عن اَبی ہریرۃ، رقم:7323)

”میرے ساتھ شدید ترین محبت رکھنے والے میرے کچھ امتی ایسے ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ایک ایک کی یہ تمنا ہو گی کہ اپنا سب اہل و مال دے کر بھی اُس کو مجھے ایک نظر دیکھ لینا نصیب ہو جائے“!!!

نیز جن خوش قسمتوں کی بابت آپ نے یہ مسرور کن بات فرمائی، بلکہ اِن خوش قسمتوں کے بالمقابل کچھ بدبختوں کی نشان دہی بھی کر دی:

ودِدتُ اَنا قد ر اَینا اِخواننا“۔ قالوا: اَولسنا اِخوانک یا رسول اللہ؟ قال: ” اَنتم اَصحابی، و اِخواننا الذین لم یاَتوا بعد“۔ فقالوا: کیف تعرف من لم ی اَت بعد من اَمتک یا رسول اللہ؟ فقال: ” اَر اَیت لو اَن رجلا لہ خیل غُرّ  محجلة بین ظہری خیل دہم بہم اَلا یعرف خیلہ“؟ قالوا: بلیٰ یا رسول اللہ۔ قال: ”ف اِنہم یاَتون غراً محجلین من الوضوئ، و اَنا فرطہم علی الحوض۔ اَلا لَیُذَادَنَّ رجال  عن حوضی کما یُذَادُ البعیرُ الضالُ، اَنادیہم اَلا ہلم، فیقال اِنہم قد بدلوا بعدک، فاَقول: سحقا سحقا۔ (صحیح مسلم، عن اَبی ہریرة، رقم: ۳۶۸)

”مجھے تمنا ہوئی کہ کہیں ہم اپنے بھائیوں کو بھی دیکھ سکتے“!!! صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ فرمایا: ”تم میرے ساتھی ہو، ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے“!!! صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! آپ کے وہ امتی جو ابھی آئے ہی نہیں آپ اُن کو پہچان کیسے لیں گے؟ فرمایا: ”کیا خیال ہے کسی آدمی کے گھوڑے ایسے ہوں جن کے سم اورپیشانیاں اجلی سفید ہوں وہ انہیں ان گھوڑوں میں سے صاف نہ پہچان لے گا جن کا سارا جسم کالا مٹیالا ہو“؟ صحابہ نے عرض کی: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول! فرمایا: ”تو وہ یوں آئیں گے کہ وضو کے اثر سے ان کے اعضاءچمک رہے ہوں گے اور میں ان سے پہلے حوض پر (ان کے استقبال کیلئے) موجود ہوں گا۔ خبردار! ایسے لوگ بھی ہوں گے جو میرے اس حوض سے دھتکارے جائیں گے جس طرح اِدھر اُدھر سے آیا ہوا کوئی اونٹ دھتکار دیا جاتا ہے۔ میں ان کو پکاروں گا ’آگے آ ؤ آگے‘! تو کہا جائے گا یہ وہ ہیں جو آپ کی راہ پر نہ رہے تھے۔ تب میں کہوں گا: ”دفع ہوجا ؤ دفع“

سبحان اللہ! کوئی آج اِس دست مبارک سے جام لطف وسعادت پانے کی سعی کر رہا ہے اور کوئی اس کے در سے دھتکارےجانے کا بندوبست کرنے میں مصروف!!! اف، خدایا! کیا اس بدقسمتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حشر کے میدان میں چل چل کر پیاس سے بلکتا کوئی شخص رسالت مآب کے پاس پہنچے اوراُس کو اس ہستی کے دہن مبارک سے اپنے لئے جو پہلا لفظ سننے کو ملے وہ سُحقاً سُحقاً ہو، یعنی ”دفع، نابکار، دفع“!!!

افسوس اُس ’امتی‘ پر جو اپنے نبی کے دشمن کے ہاں عزت و آبرو کی تلاش میں سرگرداں پھرے! حیف ایسے ’ایمان‘ پر جو نبی اور اس کی شریعت کی جانب آدمی کی پیٹھ کرادے اور نبی کے مخالفوں اور ان کی راہوں سے ہی آدمی کو کل امیدیں لگوا دے!

تف ہے ’اسلام‘ کے دعویدار اُن لبوں اور اُس زبان پر جسے شاتمِ رسول کو تحفظ دینے والے کسی ظالم کے ساتھ تبادلہ ء خیر سگالی نصیب ہو! اُن ہاتھوں پر جنہیں کسی دشمنِ رسول کے ساتھ گرمجوش مصافحہ ’عطا‘ ہو! ان بازو ؤں پر جو ’معانقہ‘ کیلئے کسی پلید جثے کے گرد حمائل ہوں! اس ’ڈپلومیسی‘ پر جس کا بریف کیس حرمتِ رسول پر مفاہمت کے عوض سے ہی بھر سکتا ہو۔۔۔۔!

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ

”اُس دن، جب کچھ چہروں پر نور برسے گا تو کچھ پر کلنک“!!!

خدایا! یہ کیسا دن ہوگا کہ نہ جس کا ”نور“ کہیں جانے والا ہو گا اور نہ جس کی ”کالک“!

 


(1)  سورة آل عمران: آیت ۱۱۸ ”بغض ان کے مونہوں سے ہی چھلک پڑا ہے، ابھی جو اُن کے سینے چھپائے پھرتے ہیں وہ کہیں بڑھ کر ہے“

(2)  یہی وجہ ہے کہ مغرب کے بہت سے اسٹریٹجسٹ اپنے افسرانِ بالا کو تکرار و اصرار کے ساتھ یہ مشورے دے رہے ہیں کہ اِس جنگ کا محور War On Terror سے شفٹ کر کے War On Extremism کر دیں اور ان کو بار بار ’متنبہ‘ کر رہے ہیں کہ وہ ’جڑوں‘ کو چھوڑ کر خوامخواہ ’شاخوں‘ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ اسی وجہ سے War On Terror میں ابھی تک کچھ ان کے ہاتھ نہیں آیا....! ’جڑوں‘سے ان کی کیا مراد ہے؟ یہ ہے اسلامی نصوص کو بلا تاویل اور بلا تحریف ان کے حقیقی معنوں کے ساتھ لینے والے رجحانات جو عالم اسلام میں روز بروز مضبوط ہو رہے ہیں، اور جس کو یہ لوگ extremism یعنی ’انتہا پسندی‘ کے عنوان سے ذکر کر کرتے ہیں۔

چنانچہ مغرب میں اگر کوئی دن اور جان رہی تو اب اگلے مرحلے میں شاید آپ دیکھیں گے، کہ یہ جنگ عالم اسلام کے ’مسلح طبقوں‘ سے بڑھ کر ان طبقوں کے خلاف ہو جائے گی جو قرآنی و نبوی تعلیمات کو من وعن ماننے پر مشتمل ’نظریات‘ رکھنے والے ہوں۔ گو ایک طریقے سے یہ جنگ اب بھی لڑی جا رہی ہے مگر تب یہ علی الاعلان اور ’قراردادیں‘ پاس کر کے لڑی جائے گی۔ آنے والے دن ایسا بہت کچھ لے کر آسکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز