عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 19,2024 | 1445, شَوّال 9
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
اسلامی ریاست کا تصور غیرمسلموں پر ظلم!
:عنوان

. باطلفكرى وسماجى مذاہب :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

اسلامی ریاست کا تصور غیرمسلموں پر ظلم!


’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے زیرعنوان... اسلامیانِ پاکستان نے اپنے اس تاریخی عہد کو آئینی زبان میں قلمبند کیا کہ: زمین کے اِس گوشے میں پائے جانے والے جو کچھ وسائل اور اختیارات ہیں وہ اُس مالکِ کائنات کی عبادت اور ماتحتی میں دیے جاتے ہیں جس نے محمدﷺ کو دستورِحق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور کرۂ ارض کے ایک ایک شخص اور ایک ایک ملک کےلیے قیامت تک آپﷺ کو ہادی اور مطاع ٹھہرایا ہے۔

اس قرارداد کی عبارت میں بہت سی کمیاں یا غلطیاں ہوں گی، جن کی بابت ہم بھی وقتاً فوقتاً کچھ معروضات رکھتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعے عملاً اسلام کو کچھ نہ دیا گیا ہو اور محض یہ ایک رسمی کارروائی کا نام رہ گیا ہو۔ نیز ایک قومی عہد کو سامنے لانے کے اِس طریقِ کار پر بہت کچھ ملاحظات رکھے جا سکتے ہیں۔مگر ان سب باتوں پر گفتگو کا اور مقام ہے۔ یہاں ایک طبقہ اب ایسا سامنے آیا ہے جو اس بات کو ہی اصولاً خلافِ شرع ٹھہراتا ہے کہ اِس خطۂ زمین کے ریاستی معاملات میں شرعِ محمدی کو دستور ٹھہرا دیا جائے۔ اس کے خیال میں یہ یہاں رہنے والے غیرمسلموں کے ساتھ زیادتی ہے، خواہ مسلمان یہاں بھاری اکثریت ہی میں کیوں نہ ہوں، اور خواہ ان غیرمسلموں کے شخصی حقوق کو کتنا ہی محفوظ کیوں نہ کر دیا گیا ہو۔ ان کے نزدیک ’قومی ریاست‘ کا دستور اس سے شدید متاثر ہوجاتا ہے۔ اور اس ظلم کے معاملہ میں ہمیں خدا کے آگے جوابدہ ہونے سے ڈر جانا چاہئے۔  فرماتے ہیں:

ہر شخص جانتا ہے کہ اِس کے لیے نہ کوئی فرمان آسمان سے نازل ہوا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کی طرح یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے، نہ مسلمانوں نے اِس کو فتح کر کے اِس میں رہنے والے غیرمسلموں کو اپنا محکوم بنا لیا ہے اور نہ وہ اُن کے ساتھ کسی معاہدے کے نتیجے میں اِس ریاست کے شہری بنے ہیں۔ وہ صدیوں سے اِسی سرزمین کے باشندے ہیں، جس طرح مسلمان اِس کے باشندے ہیں اور ریاست جس طرح مسلمانوں کی ہے، اُسی طرح اُن کی بھی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اِس اصول پر نہیں ہوئی تھی کہ ایک حصے کے مالک مسلمان اور دوسرے کے ہندو ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ اُن کے محکوم بنا دئیے گئے ہیں، بلکہ اِس اصول پر ہوئی تھی کہ برطانوی ہند کے جن حصوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اُنھیں الگ ملک بنا دیا جائے گا اور ہندوستان کی ریاستوں کے حکمران آزاد ہوں گے کہ چاہیں تو اپنی آزادی برقرار رکھیں اور چاہیں تو ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں، اِس سے قطع نظر کہ اُن کی رعایا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے یا ہندوؤں کی یا کسی دوسرے مذہبی فرقے کی۔ اِس طرح کی ریاست کو اگر اکثریت کے زور پر مسلمان یا مسیحی یا ہندو بنانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ محض تحکم اور استبداد ہو گا، جس کی تائید کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا جس کو اُس کے پروردگار نے حکم دیا ہو کہ وہ ہر حال میں قائم بالقسط رہے گا اور حق کی گواہی دے گا، اگرچہ یہ گواہی اُس کے اپنوں کے خلاف ہی پڑ رہی ہو۔ ریاست پاکستان میں رہنے والے غیرمسلموں کے حق میں یہ گواہی اب ضروری ہے کہ تاریخ کے صفحات پر ثبت کر دی جائے۔

(’’ریاست اور حکومت‘‘۔ روزنامہ جنگ 22 فروری 2015۔  http://goo.gl/fYiX6s)

قراردادِ مقاصد میں کس کا ’حق‘ غصب ہوا؟

ہمارا جواب ان حضرات کےلیے یہ ہے:

اس سے پہلے کہ آپ ایک ’’غصب‘‘ کا سوال اٹھائیں آپ کو وہ ’’حق‘‘ ثابت کر لینا چاہئے جسے کسی ہندو یا عیسائی یا سکھ  کو نہ دے کر آپ کے خیال میں ہم ظلم کربیٹھے۔ ’’ریاستی عمل‘‘ میں محمدﷺ پر ایمان نہ رکھنے والے ایک شخص کو برابر کا حصہ دار نہ رکھنا اُس کے جس ’حق‘ کا غصب ہے اور وہ ’حق‘ جہاں سے واجب ہوا،اس کا تعین پہلے ضروری ہے۔

دورِحاضر میں جس چیز کو آپ ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں وہ بنیادی طور پر زمین کے وسائل اور اختیارات میں تصرف کرنے کا نام ہے۔ یعنی یہآپ اپنی ذات میں ایک جبر ہے۔ بےشک یہ ایک ناگزیر جبر ہے۔ عمرانی ضرورت ہے۔  مگر انسانی اموال و ارواح میں یہ تصرف کسی دلیل کا بھی محتاج ہے۔ بغیر دلیل یہ دھونس اور ظلم ہوگا؛ اور دلیل ہو تو یہی جبر عدل کہلائے گا۔ ہمارے اسلامی تصور میں: انسانی اموال و ارواح کےلیے قانون اور ضابطے بنانے کا ’حق‘ رکھنا درحقیقت ایک انسان کو خدا بنا دیتا ہے؛ خواہ یہ ’’انسان‘‘ فرد ہو یا جماعت۔ ہاں وہ اپنی ذاتی اشیاء میں جیسے مرضی تصرف کرے، کوئی اسے اس حق سے محروم کرنے والا نہیں۔ مگر خدا کے بندوں کےلیے ہی وہ حق اور ناحق کے پیمانے صادر کرنے لگے؛ ان کے باہمی حقوق وفرائض کا تعین خاص اپنی نظر اور صوابدید سے کرے، خدا کے بندوں کےلیے زمین پر رہنے کے قانون اور ضابطے بنائے اور ان کےلیے سزائیں تجویز کرے... یہ اگر کسی کا ’حق‘ ہے تو اس پر ہمارے ان بھائیوں کو دلیل لانا ہوگی۔ آخر کہیں تو آیا ہو گا کہ خدا نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو کسی پر یہ حق دے رکھا ہوا ہے! یہ ’’جبر‘‘ اپنے حق ہونے کےلیے لامحالہ کسی سند کا محتاج رہے گا۔ اگر تو یہ خدا کے وضع کردہ دائرہ کا پابند ہے، (جوکہ اُس کی شریعت سے ہی معلوم ہو سکتا ہے) تو اس کے آگے ہمارا سر یقیناً خم ہے۔ ورنہ یہ پوچھنے کا حق ہمیں ہے کہ انسانی زندگیوں میں تصرف کرنے کا ’حق‘ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے۔[1] 

پس ’’ریاست‘‘ کے نام سے ایک چیز پر ہمارے ماڈرنسٹ جب ہمیں کسی کا ’حق‘ جتاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا یہ ’حق‘ نہ دینے پر ہمیں ظلم کا موردِ الزام ٹھہراتے ہیں... اس کا یہ ’حق‘ ثابت کرنے پر ان حضرات کے پاس دلیل کیا ہوتی ہے؟  بلکہ انسانی زندگیوں میں تصرف کا یہ ’حق‘ روئے زمین کے کسی بھی انسان کےلیے ثابت کہاں سے ہوتا ہے؟

کافر یا مسلمان کا زمین پر ’’فرد‘‘ کے طور پر جو حق ہے وہ تو ہمیں معلوم ہے۔ شریعت سے ثابت ہے۔ اس معنىٰ میں کہ وہ زمین کے اتنے مرلے یا اتنے بیگھے یا اتنے مربعے کا ’مالک‘ ہے۔[1] اُس کا یہ حق اگر کسی نے چھینا ہے تو صاف ظلم کیا ہے۔ کافر بھی ہو تو وہ قطعۂ زمین اور اس میں جو کچھ ہے اس کی شرعی ملکیت ہے... اور بطورِ ’’فرد‘‘ وہ اس میں تصرف کا پورا حق رکھتا ہے۔ البتہ یہ بات کہ بطورِ ’’جماعت‘‘ (as a collective entity)  وہ زمین کے ’’وسائل اور اختیارات‘‘ کا بھی مالک ہے، اس کی کیا دلیل ہے آپ کے پاس؟

زمین کے یہ ’’وسائل اور اختیارات‘‘ بھی دنیا کے اندر کسی ’ملکیت‘  کا نام ہو گیا ہے، اور اس پر لوگوں کا ہندو یا عیسائی یا سکھ کے طور پر ’حق‘ بھی ہوگیا ہے، اس بات کی سند خدا نے کہاں اتاری ہے؟

’ریاست‘ تو  __  جیسا کہ ہم نے عرض کیا  __  زمین کے وسائل اور اختیارات کے اندر تصرف ہے نہ کہ ’فرد‘ کے طور پر زمین کے کچھ بیگھوں یا کچھ مربعوں کا ’مالک‘ ہونا۔ حیرت کی بات ہے یہاں آپ کو ’فرد‘ بھول جاتا ہے اور ایک ’اجتماعی ہستی‘ (collective entity) کے طور پر آپ اُس کو وہ حق دے ڈالتے ہیں۔ آخر کس دلیل سے؟ اقول ما قال الناس!؟ (اسی وجہ سے کہا گیا کہ اکثر عقول کےلیے اپنے دور کے دیے ہوئے سانچوں سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا، اس کےلیے آدمی کو بہت زیادہ ٹھیٹ ذہن ہونا پڑتا ہے، جس کو یہاں کا ارتقائی جدت پسند ’جمود‘ کا نام دے گا؛ یہ وجہ ہے کہ کئی ایک اہل علم نے دورِ غلامی کے ’اجتہادات‘ سے خدا کی پناہ مانگی ہے)۔

یہاں...؛ ایک ایک مذہب کی ’اجتماعی حیثیت‘ زمینی اختیارات کے مالک کے طور پر کہاں سے آ گئی؟ اس کی تو کوئی دلیل نہیں دی گئی، اور نہ دی جاسکتی ہے۔ البتہ زمین کے ان وسائل اور اختیارات کو شرعِ آسمانی (آئینِ محمدی) کا پابند ٹھہرا دینے والوں کے خلاف ’ظلم ظلم‘ کا شور بےپناہ الاپ دیا گیا! اور یہ ’ظلم‘ ہو جانے پر ’کونوا قوامین بالقسط‘ کے حوالے۔ قربان جائیں اس پرہیزگاری پر! پہلے وہ حق بھی تو ثابت کرلیں جو ’چھین‘ لیا گیا ہے!

زمین کے وسائل اور اختیارات پر ’حق‘ کسی کا نہیں ہے برادرم۔ نہ مسلمان کا نہ کافر کا۔ نہ

جس چیز کو دورِحاضر میں آپ ’ریاست‘ کہتے ہیں، دراصل وہ زمین کے وسائل اور اختیارات کے اندر تصرف ہے نہ کہ ’فرد‘ کے طور پر زمین کے کچھ بیگھوں یا کچھ مربعوں کا ’مالک‘ ہونا۔

اقلیت کا نہ اکثریت کا۔ نہ جمہور کا نہ غیر جمہور کا۔ کوئی اگر کہتا ہے کہ یہ فلاں کا حق ہے تو وہ اس بات کی دلیل دے۔ خدا کی زمین پر اِس اجتماعی جبر اور تصرف کا حق خدا کی جانب سے اتاری ہوئی سند سے ہی ملے گا؛ آپ وہ دکھائیں تو بات ہے۔ ہاں ’’فرد‘‘ کے طور پر کچھ بیگھے زمین کا ’مالک‘ بننا ہر کسی کا حق ہے، خواہ وہ کافر ہے یا مسلمان؛ جس میں اپنے درست یا غلط تصرف کا حساب اُسے خدا کے ہاں جاکر دینا ہے ہمیں نہیں؛ ہم ایسے ہر (فردی) حق کا احترام کرتے ہیں اور اس کی پاسبانی کو اپنا اجتماعی فریضہ جانتے ہیں۔ البتہ ’’جماعت‘‘ کے طور پر اُس کا زمین کے اختیارات اور وسائل کا مالک ہونے کی دلیل چاہئے، اور یہی پوائنٹ ہمارے اور آپ کے مابین موضعِ نزاع ہے:

زمین کے وسائل اور اختیارات پر تصرف کا  کسی کو بطور ہندو یا بطور عیسائی یا بطور سکھ ’حق‘ ہونا؟ حتیٰ کہ کسی بھی حیثیت میں کوئی اس کا ’مالک‘ ہو، اس کی دلیل؟

’’غصب‘‘ کا سوال ظاہر ہے ’’مالک‘‘ کا تعین ہونے کے بعد آئے گا۔

 آپ کو معلوم ہے ’’ریاست‘‘ کے زیرعنوان ’’زمین کے یہ اختیارات‘‘ انسانی اموال، دِماء اور فُروج تک[2] میں ’’تصرف‘‘ ہے۔ حتی کہ اپنی قلمرو میں (بذریعہ تعلیم و ابلاغ) انسانی عقول کی ساخت کرنے اور کائنات کی بنیادی ترین حقیقتوں کو ایک خاص نظر سے دکھانے کا ’حق‘ رکھنا سٹیٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ یعنی عقول تک کسی کی ’جاگیر‘ ہو جاتی ہیں۔ ماڈرن سٹیٹ اس کو given کے طور پر لیتی ہے۔ روسو نے اِس ’اختیار‘ کی دلیل دینے کی ایسی ایسی بھونڈی کوشش کی ہے کہ آدمی کو اس خرد پر تعجب ہونے لگتا ہے جو انسان کو خدائی کے منصب پر بٹھانے کےلیے ’درکار‘ ہے۔ ’’زمین کا مالک و متصرف‘‘ ہونے کے اس دعوىٰ پر کوئی روسو کا ہم خیال ہے تو بھی ہم مسلمانوں کو اس کا پابند کرنے کےلیے اُس کو خدا کی جانب سے اتاری گئی کوئی سند ہی لا کر دینا پڑے گی۔ صاف بات ہے زمین کے یہ وسائل اور اختیارات کسی کے نہیں ہیں۔ یہ خدا کی چیز ہے۔ خدا نے کسی کو تفویض نہیں کر دی ہوئی ہے۔ یہ چیز جس کا مالک یہاں کا کوئی انسان نہیں ہے... اِس کو تو خدا کے نام اور خدا کی مرضی (شریعت) کے بغیر ہاتھ لگانا بھی ہمارے نزدیک ظلم ہے (کیونکہ یہ انسانوں پر جبر سے عبارت ہے؛ جو خدا کی اجازت کے بغیر نہ اکثریت کو روا ہے اور نہ اقلیت کو)۔ ہاں خدا کے نام اور خدا کی مرضی سے ان وسائل اور اختیارات کو اہل زمین کی دنیوی و اخروی منفعت کا ذریعہ بنانا خدا کی عبادت کی ایک صورت ہے؛ اور مسلمان خدا کی آخری اور اس وقت کی واحد آسمانی شریعت کا امین ہونے کے حوالے سے، اور محض اِس حیثیت میں  __ حسبِ قدرت  __  اس عبادت کا مکلف۔ پس اس چیز کا ’’عبادت‘‘ اور ’’امانت‘‘ (ذمہ داری) ہونا تو یقیناً ہمیں سمجھ آتا ہے۔ ’حق‘ البتہ یہ کسی کا نہیں ہے؛ لہٰذا اس کو کسی سے ’چھیننے‘ کا کیا سوال؟

قراردادِ مقاصد کی یہ شق کم از کم اس جہت سے نہایت موزوں ہے: یہ خدا کی امانت ہے اور اپنے استعمال کے معاملہ میں خدا کے بخشے ہوئے اختیارات کی پابند۔ (’خدا کے بخشے ہوئے اختیارات‘ کی بجائے ’خدا کے نازل کردہ احکام‘ کا لفظ گو ہماری نظر میں مناسب تر تھا)۔

بیسویں صدی کے عالمی بت کدہ میں توحید کی ایک ایسی خوبصورت آواز! خدا کروٹ کروٹ آرام دے ان نفوس کو جنہوں نے خدا کی زمین کے ایک بقعے کے ماتھے پر بڑی محنت اور جدوجہد سے یہ تحریر درج کر ڈالی، اور ان کی کوتاہیاں معاف فرمائے۔ اور خدا ہدایت دے ان نفوس کو جو اس تحریر کو کھرچنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔

زمین کے یہ سب وسائل اور اختیارات کسی انسان کی جاگیر نہ رہیں؛ نہ مسلمان نہ ہندو کوئی ان اختیارات کا مالک نہ ہو... ایسی عدل کی بات پر بتائیے کسی کو کیا اعتراض ہے؟

*****

یہاں سے؛ بارِ ثبوت burden of proof  فریقِ مخالف پر ہو گیا ہے: خدا نے انسانی زندگیوں میں تصرف کا حق کسی انسان کو کہاں دیا ہے؟ کوئی دلیل ہو تو پیش کیجئے۔

*****

اِس نقطۂ نظر کے اصحاب یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ مدینہ کی جس مثال سے آپ لوگ دلیل پکڑتے ہیں وہاں تو رسول اللہﷺ کو حاکم بنانے والا خود رب العالمین ہے۔ آپ کی حاکمانہ حیثیت یہاں کس چیز سے ثابت ہوئی؟  ہم کہتے ہیں، یہاں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ حکمران کے اختیار کا کیا طریقہ ہے، یہ سوال یہاں پر غیرمتعلقہ ہے، گو فقہاء نے بڑی وضاحت سے یہ بات کر رکھی ہے کہ امت اپنا حکمران چننے کی واحد مجاز ہستی ہے۔  یہاں مسئلۂ زیربحث البتہ اس سے کہیں بڑا ہے:

رسول اللہﷺ کو ’’حکمران‘‘ کے طور پر آسمان سے جو سند حاصل ہوئی وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص ہے۔

البتہ اسلام کو انسانی معاشروں کےلیے دستور ٹھہرائے جانے کی جو سند آسمان سے ملی وہ اسلام کے ساتھ خاص ہے۔

وہ اپنی جگہ ایک حقیقت۔ یہ اپنی جگہ۔

ان دونوں باتوں کو ایک دوسرے سے خلط نہ کرنا چاہئے۔

*****

Double Bracket: انسانی اموال و ارواح کےلیے قانون اور ضابطے بنانے کا ’حق‘ رکھنا درحقیقت ایک انسان کو خدا بنا دیتا ہے؛ یہ ’’انسان‘‘ خواہ فرد ہو یا جماعت۔ اقلیت یا اکثریت۔ کوئی اپنی ذاتی اشیاء میں جیسے مرضی تصرف کرے، اسے اس حق سے واقعتاً محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر خدا کے بندوں کےلیے وہ حق اور ناحق کے پیمانے صادر کرے اور ان کے باہمی حقوق وفرائض کا تعین خاص اپنی نظر اور صوابدید سے کرے، خدا کے بندوں کےلیے زمین پر رہنے کے قانون اور ضابطے بنائے... یہ اگر کسی کا ’’حق‘‘ ہے تو اس پر دلیل چاہئے



Rectangle: Rounded Corners: ’’ریاست‘‘ کا مطلب ہے: ’’زمین کے اختیارات‘‘ (انسانی اموال، دِماء اور فُروج تک) میں ’’تصرف‘‘۔ حتی کہ اپنی قلمرو میں (بذریعہ تعلیم و ابلاغ) انسانی عقول کی ساخت کرنے اور کائنات کی بنیادی ترین حقیقتوں کو ایک خاص نظر سے دکھانے کا ’حق‘ رکھنا سٹیٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ یعنی عقول تک کسی کی ’جاگیر‘ ہو جاتی ہیں۔ ماڈرن سٹیٹ اس کو given   کے طور پر لیتی ہے۔ جبکہ مسلمان اس کی دلیل پوچھتا ہے۔ خصوصاً ہمارے یہ اسلامی ہیومن اسٹ بتائیں: اُس کا یہ حق کہاں سے ثابت ہے۔

[1]    ’’ریاست‘‘ درحقیقت ’’جبر‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔ دیکھئے اس شمارہ کے مضامین: ’’ریاست: جبر یا دھونس؟‘‘۔ نیز ’’گواہ چست‘‘۔ نیز ’’علیکم بالجماعۃ‘‘۔ نیز ’’اسلامی ماڈرنسٹ کسی ایک بنیاد پر تو ہوں‘‘۔



[1]    ’’ملکیتِ زمین‘‘ کی بحث چونکہ یہاں ہمارے پیش نظر نہیں، لہٰذا اس سے اختلاف رکھنے والے حضرات ہمارے ان الفاظ کو فی الحال یوں پڑھ لیں: ایک مخصوص شخص کا ایک مخصوص قطعۂ زمین میں انتفاع اور تصرف کا ’’مالک‘‘ ہونا جس میں اس کی خرید و فروخت تک آجاتی ہے۔

[2]    ’دماء‘‘ میں تصرف:  مثال:  ریاست  جرم کا تعین کرے گی اور ریاست ہی اس پر سزا کا تعین کرے گی، جس میں اُس انسان کی جان لے لینا بھی آتا ہے۔ آدمی نے بےشک کوئی جرم کر لیا ہو، ’’اسلامی ریاست‘‘ اس کی جان لے گی تو ’’خدا کے حکم‘‘ (شریعت) کی رُو سے۔ یہ حضرات بتائیں یہ ایک ’مطلق ریاست‘ کو  کس دلیل سے اُس آدمی کی جان لینے کا مجاز بنائیں گے؟

’’فروج‘‘ میں تصرف:  ریاست ہم جنس شادی کو جائز ٹھہرا سکتی ہے۔ دو شادیوں کی ممانعت اور اس پر سزا دے سکتی ہے۔ ایک شرعاً بالغ شخص پر نکاح ممنوع ٹھہراسکتی اور اس پر سزا دے سکتی ہے۔ وغیرہ

ہمارے ان بھائیوں کو ثابت کرنا ہے کہ خدا نے کسی مخلوق کو یہ حق کہاں دیا ہے؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز