عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
گواہ چُست!
:عنوان

. ایقاظ ٹائم لائن :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

Text Box: 1

گواہ چُست!

لفظ ’’خلافت‘‘ سے الرجک ہمارے ’جدید ریاست‘ کے ’اسلامی مؤیدین‘  عجیب تضادات کا شکار ہیں: حمایت ’جدید ریاست‘ کی اور دلیل ’نسل، زبان اور رہن سہن‘ کی! حالانکہ خود ’جدید ریاست‘ اپنے وجود کےلیے ایسی کسی بنیاد کی قائل نہیں!

’ماڈرن سٹیٹ‘:

ý         ایک طرف انسانی اَموال  properties،  دِماء lives، فروج (آبروؤں)، اَخلاق  morals  اور اَقدار  values  وغیرہ میں مطلق تصرف کے حق کا دعویٰ رکھتی ہے۔ نیز اپنی قلمرو میں پائے جانے والی اولادِ آدم پر اپنی اطاعت   obedience   اور وفاداری  allegiance  کو باقاعدہ فرض ٹھہراتی ہے۔ نیز تعلیم اور ابلاغ کے منبر پر جلوہ افروز؛ لوگوں کےلیے خیر و شر کے پیمانے صادر کرتی اور درست و نادرست کا تعین فرماتی ہے۔ وہ کس چیز کو خوب جانیں اور کس چیز کو ناخوب، یعنی دماغوں کے سانچے تشکیل دینا وہ اپنا اختصاص مانتی ہے۔ یعنی واضح خدائی۔

ý         تو دوسری طرف وہ اِس بات کا کوئی جواب اپنے پاس نہیں رکھتی  کہ خدا کے اتنے بندوں اور خدا کی اتنی زمین کو اس نے جو خاص اپنی قلمرو ’ڈیکلیئر‘ declare   کیا ہے، اس حدبندی کی بنیاد کیا ہے؟ ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے اپنے مفسر اِس تقسیمِ بنی آدم پر کوئی ایک بھی قاعدہ اور اصول بیان کر کے نہیں دیتے }کہ کہاں سے لےکر کہاں تک کے عباداللہ کس (تشکیلی) ریاست کی جاگیر ہوں{:

à     یہ محض ہمارے ’’المورد‘‘ وغیرہ ایسے مؤیدینِ ماڈرن سٹیٹ کا حسنِ ظن ہے[i]  کہ اس کی بنیاد کوئی نسلی یا اقلیمی اکائیاں ہوتی ہوں گی (یا ہونی چاہئیں!)۔ فلسفۂ نیشن سٹیٹ کے اپنے مصادر اس بات کی تائید نہیں کرتے۔ نسلی یا اقلیمی اکائیوں کا تو یہ ’ماڈرن سٹیٹ‘ یا ’نیشن سٹیٹ‘ باقاعدہ قتل کرتی ہے، (یہ بات ہم گزشتہ فصل میں دیکھ آئے ہیں)۔

à     اور اگر اس کا جواب یہ ہے کہ: دراصل یہ ایک خاص خطہ کے لوگوں کی منشا will of the people ہے  جو اس بات کا فیصلہ کر دیتی ہے، تو اِس مفروضہ کا بوداپن ہم اِس فصل میں تھوڑا آگے چل کر ثابت کریں گے۔

ý         ’جدید ریاست‘ کے اپنے مصادر اس کی کوئی توجیہ نہیں دیتے۔ یا شاید اس کی ضرورت نہیں پاتے! یا شاید اس سے ’’پوچھنے‘‘ والے ابھی نہیں پائے گئے!

البتہ ’جدید ریاست‘ کے اسلامی مؤیدین خاص اپنے پاس سے اس کی کچھ توجیہات دیتے ہیں، جو نہ تو ’جدید ریاست‘ کے ترجمانوں کے ہاں تسلیم ہیں اور نہ عام اہل اسلام کے ہاں درخورِاعتناء اور نہ دنیا میں کہیں پر رائج۔

*****

ہم یہ مان آئے ہیں، ’’ریاست‘‘ ایک جبر ہے جو ناگزیر ہے۔ کسی کو اصولاً اِس سے اختلاف بھی نہیں ہے۔  البتہ ہم کہتے ہیں: ’’جبر‘‘ انسانی اجتماع کی ’’ضرورت‘‘ بےشک ہے لیکن ’’دلیل‘‘ نہیں ہے۔ یہ خود اپنی ذات میں حجت نہیں ہے۔ اِس کو ’’دلیل‘‘ خارج سے لانا پڑے گی؛ ورنہ اِس کا نام ’’جبر‘‘ نہیں بلکہ ’دھونس‘ ہے۔

اِدھر معاملہ کیا ہے... ’جدید ریاست‘ سے آپ اس کے حدود اربعہ کی بنیاد اور جواز پوچھیں تو آپ پر کھلتا ہے کہ کوئی اصول اور دلیل یہ اپنے حدود اربعہ کے ثبوت پر نہیں رکھتی سوائے سٹیٹس کو status quo  کے...؛ یعنی زور۔

 یہ تو ہمارے اسلام پسندوں کا نرا وہم یا آرزو ہے کہ ماڈرن سٹیٹ کسی لسانی یا ثقافتی وحدت کی بنیاد پر ہوتی ہوگی! ان کے اس وہم کو جھٹلانے پر ماڈرن سٹیٹ کے اپنے مصادر اور وقائع بےحد واضح ہیں۔ لسانی یا ثقافتی وحدتوں کو ماڈرن سٹیٹ کی بنیاد بننے کے ساتھ کچھ علاقہ نہیں۔ ہاں لسانی اور ثقافتی اشیاء ماڈرن سٹیٹ کا نتیجہ ضرور ہوسکتی ہیں۔ اور وہ تو کسی بھی جبر کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً آج امریکہ کو اگر آپ کسی طاقتور خلافتِ اسلامی کے تابع کردیں تو سو سال بعد امریکہ کا بہت سا کلچر تبدیل اور وہاں پر فرفر عربی بولتی نسلیں آپ ہم سے لے لیں! پس لسانی اور ثقافتی وحدتیں تو بیچاری ماڈرن سٹیٹ کے ’’متاثرین‘‘ victims میں آتی ہیں۔ یہ اس کا ’’نتیجہ‘‘ ضرور ہو سکتی ہیں؛ مگر یہ اس کی ’’بنیاد‘‘ کب ہیں؟ حق یہ ہے کہ بنی آدم کی تقسیم اور ان کی اطاعتوں اور وفاداریوں کی بندربانٹ یہاں کسی اصول پر مبنی نہیں ہے۔

 تو پھر ’جدید ریاست‘ بنی نوعِ انسان کو کس بنیاد پر تقسیم کرتی ہے؟  وہ کہتے ہیں: اس کی مرضی۔  آپ میں زور ہے تو آپ کرلیں، بشرطیکہ ’عالمی برادری‘ اس کو ’تسلیم‘ کرلے (اصل کہانی یہاں ہے؛ یعنی ’عالمی برادری‘ جو اپنے کچھ داداگیروں کی تحویل میں آپ کےلیے اپنے بحری بیڑے، ڈیزی کٹر اور اپنے  بی ففٹی ٹو بمبار طیارے لیے بیٹھی ہے اور اس کے اشارے سمجھ نہ آنے کی صورت میں یہ عالمی لٹھ فی الفور آپ کو ’دلیل‘ سمجھا دیتی ہے!)۔ یعنی اصل دلیل ایک ہی ہوئی: زور۔ جس میں زور ہے وہ نسلِ آدم کے بیس ٹکڑے کرے یا بیس ٹکڑوں کو ایک کرلے۔اِس ’’سٹیٹس کو‘‘ کے علاوہ یہاں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ اب ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور ’’اِمارۃ المؤمنین‘‘ (خلافت) کے خلاف بھی ’’دلیل‘‘ تو صرف یہی ایک ہے؛ یعنی لٹھ۔ جس دن ہم یہ ’’دلیل‘‘ لے آئے ، یعنی زور (مِنۡ قُوّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الخَیلِ تُرھِبُون بہٖ عدوَّ اللہِ و عدوَّکُم) اُس دن نسلِ آدم کو حق (محمدﷺ پر ایمان) کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں ان شاء اللہ کوئی بھی مانع نہ ہوگا۔ چنانچہ ہماری ’’الجماعۃ‘‘ کے خلاف اور ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے حق میں ’’دلیل‘‘ تواس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ’اسلامی‘دلیلیں دینے والے حضرات یہاں پر کیا کریں؟ یہ بھی یہی دلیل دیں؟! ’لسان‘ اور ’رہن سہن‘ والی دلیل کے باطل ہونے کا ذکر پیچھے ہوچکا، خود ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے مصادر ہی اسے تسلیم نہیں کرتے۔  تو پھر اب یہ’’ریاست‘‘ کی بنیاد کیا بتائیں گے؟

ہمیں معلوم ہے، ’جدید ریاست‘ کے اصل وضع کنندگان کی طرف سے ہمیں بتایا جائے گا کہ اس کی بنیاد کسی جگہ کے ’’انسانوں کی مشیئت‘‘ will of the people   ہوتی ہے۔ لیکن ہماری گفتگو یہاں پر جدید ریاست کے ’اسلامی‘ حمایتیوں کے ساتھ ہے (یعنی جو لوگ ہمارے ایمانی Godly paradigm   کو مغرب کے الحادی  Godless paradigm   کے ساتھ خلط کرتے اور ان دونوں کے مابین جوڑ لگانے کی محنت کرتے ہیں)... یہ تو صحیح ہے کہ ’’ریاست‘‘ کی بنیاد مغرب کے نزدیک ’’انسانوں کی مشیئت‘‘ ہے ؛ کیونکہ اُن کے عقیدے کی رو سے انسان ہی زمین پر خدا ہے اور ’خدا‘  کا فرمایا ہوا خود دلیل ہوتا ہے خدا سے دلیل نہیں پوچھی جاتی۔  مگر ہمارا سوال ’اسلامی‘ جدت پسندوں سے یہ ہے کہ: یہ طے کرنے کی کیا بنیاد ہے کہ اِس جگہ سے لے کر  اُس جگہ تک کے انسانوں کی مشیئت ایک ریاست بنائے گی اور وہاں سے وہاں تک کے انسانوں کی مشیئت ایک الگ ریاست؟ اِس کی کیا دلیل ہوگی کہ یہاں سے وہاں تک پائے جانے والے انسانوں کی مطاع یہ ریاست ہے اور وہاں سے وہاں تک کے بنی آدم کی اطاعت اور وفاداری پر حق رکھنے والی وہ ریاست؟ یعنی ہر اکائی کے اکائی ہونے کی کیا کوئی بنیاد اور اصول ہے؟

اگر وہ کہیں کہ اس کی دلیل بھی انسانوں کی مشیئت ہی ہے... تو ہمارا سوال ہے: تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک علاقے کے لوگوں کی مشیئت چلتی ہے جبکہ دوسرے علاقے کے لوگوں کی ’مشیئت‘ ان کے منہ پر دے ماری جاتی ہے؟

مثلاً... کشمیر، تامل ناڈو، خالصتان اور آسام کے لوگوں کی ’مشیئت‘ کیوں ان کو خودمختار ریاست نہیں بناتی؟ ابھی آپ نے ہمیں ’’اصول‘‘ ہی تو  بتایا ہے کہ کسی خطے کے لوگوں کی مشیئت will of the people  اس کو ایک ریاستی اکائی بنا دیتی...اور دوسری اکائیوں سے علیحدہ ٹھہرا دیتی ہے!!؟

فلسطین اور چیچنیا کے لوگوں کی مشیئت؟

اراکان اور روہنگیا کے لوگوں کی مشیئت؟

آئرلینڈ کے لوگ کیوں اپنی ’مشیئت‘ کو اپنی بندوقوں پر لٹکا کر اتنی دیر پھرتے رہے؟

یعنی کیا ان خطوں کا ’سائز‘ اتنا چھوٹا ہے کہ یہ ایک خودمختار ریاست کے لیے ’کوالیفائی‘ qualify  نہیں کرتے؟؟؟ (ظاہر ہے ان سے بہت چھوٹے سائز کے ملک اس دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جوکہ ’جدید ریاست‘ کی تمام شرائط پوری کرتے ہیں)۔

کیا آپ جانتے ہیں اس یو۔این برادری (UN Community) کا ایک آزاد و خودمختار ملک  مناکو Monaco صرف تین میل لمبا، صرف  ڈیڑھ میل چوڑا اور صرف 32 ہزار آبادی[ii]  پر مشتمل ہے؟ یعنی ایک چھوٹے قصبے کے سائز کا ملک بھی اِس دنیا میں ’چلتا‘ ہے۔ تو کیا جب بھی اتنی سی آبادی کے لوگ اکٹھے ہوکر (اکثریتِ رائے سے) اپنی ’مشیئت‘ ظاہر کردیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک ’آزاد ریاست‘ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی اس ’مشیئت‘ کا احترام کیا جائے گا؟

کیا اِس مناکو Monaco  سے پانچ پانچ سو  (500) گنا بڑے ’بھارتی‘ خطوں سے پوچھ لیا جائے کہ ان کی ’مشیئت‘ کیا ہے؟ اور کیا ایسے ہر ہر خطے کی will of the people  کے نتیجے میں یہاں کئی سو ریاستیں بنتی ہیں تو بن جائیں؟

تو پھر کیا اصول ہوا کہ کہاں سے کہاں تک کے لوگوں کی مشئیت فیصل ہوگی اور کہاں سے کہاں تک کے لوگوں کی مشیئت کو محض زبان پر لے آنا ہی ایک گردن زدنی وناقابل معافی جرم ہوگا؟

مزید برآں...

یا تو چلیں یہی ’اصول‘ ہو کہ اب جیسے بھی زمین کی تقسیم ہوگئی سو ہوگئی، آئندہ کےلیے بند۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔  ابھی بھی یہاں کچھ فائل کھلیں گے اور کچھ بالکل نہیں کھلیں گے؛ باوجودیکہ جتنے فائل اس دفتر میں جمع ہوں گے will of the people   کی عرضی ہر کسی کے ساتھ ہی نتھی ہوگی! لبِ لباب یہ کہ ’ریاستی اکائی‘ یہاں کسی بھی دلیل پر نہیں ہوتی۔ یہ ایک دھکا ہے، جس میں ہمت ہے وہ چلا لے؛ نہ صرف ماضی میں بلکہ آئندہ بھی!

ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور اُن کی ’یو این کمیونٹی‘ کے مابین کیا بھلا کوئی موازنہ ہے؟!

(زیرتالیف ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘، فصل ’’ریاست ایک جبر یا دھونس؟ جماعۃ المسلمین بموازنہ ماڈرن سٹیٹ‘‘ شائع ایقاظ، اپریل 2014)



[i]   دیکھئے المورد کی ذمہ دار شخصیت کا بیان: ایقاظ، اپریل 2014

[ii]   طرفہ یہ کہ بتیس ہزار انسانوں پر مشتمل یہ ’’نیشن‘‘ متعدد ’قوموں‘ پر مشتمل ہے: ریاست کے اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے مناکو کے عوام 32% فرنچ ہیں، 19% مونیگاسک اور 20% اطالوی!

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں
تنقیحات-
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں عرصہ ہوا، ہمارے ایک فیس بک پوسٹر میں استاذ سید قطبؒ کے لیے مصر کے مع۔۔۔
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ ایقاظ ڈیسک یہ صاحب[1]  خود اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ یہ طلبِ عل۔۔۔
معجزے کی سائنسی تشریح
ایقاظ ٹائم لائن-
ذيشان وڑائچ
معجزے کی سائنسی تشریح!              &nbs۔۔۔
جدت پسند: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانے کی کوشش! دنیوی اور اخروی احکام کے خلط سے ’دلیل‘ پکڑنا
ایقاظ ٹائم لائن-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
جدت پسند حضرات کی پریشانی: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانا! دنیوی اور اخروی احکام کے۔۔۔
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟ مدیر ایقاظ اِس مضمون سے متعلق یہ واضح کر دیا جائے: ہمارا مقصد معاشرت۔۔۔
حوثی زیدی نہیں ہیں
ایقاظ ٹائم لائن-
شیخ ناصر القفاری
حوثی زیدی نہیں ہیں تحریر: ناصر بن عبد اللہ القفاری اردو استفادہ: عبد اللہ آدم بعض لوگ ۔۔۔
مسلم ملکوں میں تخریب کاری، استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
مسلم ملکوں میں تخریب کاری استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا ایقاظ کے فائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہ۔۔۔
’اَعراب‘ والا دین یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
’اَعراب والا‘ دین... یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟  عَنْ بُرَيدَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُو۔۔۔
ایمان، ہجرت اور جہاد والا دین
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
               ایمان، ہجرت اور جہاد والادین إ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز