عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
سوشل اینی ملز کا باڑا
:عنوان

. ایقاظ ٹائم لائن :کیٹیگری
ادارہ :مصنف


 سوشل اینی ملز social animals  کا باڑا

کہاں ہمارے نبیﷺ کی دی ہوئی ’’جماعۃ المسلمین‘‘ (ایمان والوں کا اکٹھ/ حق پر قائم لوگوں کی وحدت/ آسمانی رسالت پر مجتمع نفوس) اور کہاں ’سوشل اینی ملز social animals ‘کا کوئی باڑا؛ ’جدید ریاست‘۔

’سوشل اینی ملز‘ کا یہ باڑا (ماڈرن سٹیٹ) جس کو سرخاب کا پر لگا کر ہمیں پیش کیا جارہا ہے... ایک ایسی لغو چیز ہے جو اپنی بنیاد کے معاملے میں کسی ایک بھی قاعدے پر کھڑی نہیں ہوتی[i]؛  مگر شان یہ کہ اس پر آپ کو اپنا تن من دھن ہی نہیں اپنی دینی موالات تک وار دینا[ii]  ہوتی ہے!  اس کے لغو  inconsistent    ہونے کا اندازہ اس سے کریں کہ یہ ’باڑا‘ ایک ٹرین کی سواریوں سے کم نفوس اور چند مربع کلومٹر کے اندر بھی ’’مکمل‘‘ ہوسکتا ہے... اور اربوں نفوس، متعدد اقوام اور لاکھوں مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوكر بھی ’’نامکمل‘‘ اور اپنی ’’تکمیل‘‘ کےلیے کوشاں رہ سکتا ہے! اور جہاں باڑے اس قدر مختلف سائز کے ہوں گے وہاں بڑے سائز کا ایک طاقتور باڑا آئے روز اُس حیوانیت کے زیرتحریک جو اِس ’سوشل اینی مل‘ کو متحرک رکھنے والی اصل حقیقی ’قدر‘ ہے، ’جرمِ ضعیفی‘ میں ملوث کسی چھوٹے باڑے میں اودھم مچا سکتا، اُس کے وسائل کو ہزارہا غیرمرئی طریقوں سے ’کش‘ لگا سکتا اور بسا اوقات اس ’رضاکارانہ‘ خدمت پر ’عالمی برادری‘ سے داد پاسکتا ہے!

آپ دیکھتے ہیں، اِس درندے کے ہاتھوں صرف ’’ادیان‘‘ اور ’’ملتیں‘‘ ہی نہیں، طبعی قومیتں (مانند رنگ، لسان، رہن سہن، اقلیم وغیرہ) لخت لخت ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ خاص صورتحال میں ایک ہی زبان اور ایک ہی خون کے لوگوں کو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے تک جانا پڑ سکتا ہے(نیشن سٹیٹ پورا ایک پیکیج اور باقاعدہ ایک ولاء  allegiance   ہے؛ جوکہ کسی واقفِ حال پر مخفی نہیں)۔

یعنی ایک جانب یہ حال کہ ایک طبعی قومیت (جیسے پٹھان، یا کرد، یا پنجابی، یا بلوچ، یا ازبک وغیرہ) کئی کئی باڑوں میں ٹھونسی جا سکتی ہے یہاں تک کہ ان کی یہ تقسیم ’’قطعِ ارحام‘‘ کا موجب ہوسکتی ہے تو دوسری جانب یہ حال کہ ایک ایک باڑا کئی کئی طبعی قومیتوں پر مشتمل ہوسکتا ہے! (بنابریں؛ یہ ایک پشتون کو ’’آرڈر‘‘ کر سکتا ہے کہ آئندہ سے ’ازبک‘ تمہاری قوم ہیں جبکہ وہ ’’پشتون‘‘ جو کسی دوسرے باڑے میں ڈال دیے گئے ہرگز تمہاری قوم نہیں! کیوں؟ آخر خون کے رشتے؟ نہیں، بس آرڈر! ایک ’’کرد‘‘ پر یہ فرض کرسکتا ہے کہ وہ ایک ’فارسی‘ کو اپنی قوم جبکہ ’سرحد پار‘ بسنے والے ایک ’’کرد‘‘ کو غیرقوم مانے! پوری بےدردی کے ساتھ یہ ایک ’’تاجک‘‘ کو پاس بیٹھے تاجکوں سے کاٹ دے اور اس کو حکم دے کہ اُن چند گز دور بیٹھے (’سرحد پار‘) تاجکوں کو تو نہیں البتہ اِن سینکڑوں میل دور بیٹھے (ملکی) پشتونوں کو اپنی ’’قوم‘‘ قرار دے![iii]   جی ہاں ’’قوم‘‘ جوکہ محض کوئی ’انتظامی‘ بندوبست بھی نہیں بلکہ ’’ولاء‘‘ (وفاداری) اور ’’شناخت‘‘ کی واحد معتبر بنیاد ٹھہری ہے! آخر کس بنیاد پر؟ کتنا جغرافیائی فاصلہ ہو تو آپ کا اپنا خون آپ کےلیے ’غیرقوم‘ ہوجاتا ہے  اور کسی دوسری نسل کا آدمی آپ کی ’قوم‘ ہوجاتا ہے؟ تاکہ اُس ’فاصلے‘  کا اطلاق پھر ہم دنیا کی ہر ریاست پر کریں؟ (اگر بات ’جغرافیائی‘ فاصلے کی ہے، اور اگر ’نسل‘ یا ’زبان‘ یا ’اقلیم‘ کی ہے تو آپ دیکھ چکے کہ وہ یہاں کوئی بنیاد اور کوئی  اصول ہی نہیں ہے)۔ کوئی منضبط قاعدہ؟ جی نہیں۔ نرا دھکہ؛ ’بس ہم نے کہہ دیا اور آپ کو ماننا ہے‘؛ ’البتہ آپ کی ’’شناخت‘‘ اور ’’وفاداری‘‘ کی سب سے معتبر بنیاد یہ ہے جو ہم آپ کو دے رہے ہیں‘؛ اِس دور میں ہر انسان کو یہی یونیفارم پہننی ہے! آخر کس بنیاد پر ایک آدمی ’جدید ریاست‘ پر فدا ہو؟ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں، یہ اوٹ پٹانگ (ماڈرن سٹیٹ) جو نرسری سے پڑھائی جانا شروع ہوتی اور ہائر کلاسز تک چلتی  اور بقیہ عمر ایک ’عقیدے‘ کے طور پر رَٹوائی جاتی ہے...اس کو ’بدیہیات‘ میں داخل کروانے کےلیے اتنی بڑی تعلیمی وابلاغی مشینری نہ ہو تو یہ ’فلسفہ‘ دنیا میں لطیفے کے طور پر سنا جائے!

اس لحاظ سے ہم اِن جدید باڑوں کو جوکہ ایک نہایت مصنوعی چیز ہے، اُن طبعی قومیتوں سے بالکل الگ ایک چیز دیکھتے ہیں جو تاریخ میں ایک قدرتی عمل کی صورت ہمیں پورے تسلسل کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ طبعی قومیتیں وہ ’قبیلے‘، ’لسانیں‘ اور ’قدرتی اقالیم‘ وغیرہ ہیں جو بےشک کسی وقت انسانوں کو بانٹنے کی ایک بنیاد  بن جاتی ہیں، اور اگرچہ آسمانی شرائع نے بعض پہلوؤں سے انہیں مذموم بھی ٹھہرایا ہے، }یہ اس وقت جب یہ باقاعدہ ’’عصبیتیں‘‘ بن جائیں؛ ’’الجماعۃ‘‘ (ایک نبی کے وابستگان) کو منقسم کرنے کا موجب بنیں اور اتباعِ حق اور عدل و انصاف کے آڑے آئیں{  تاہم کئی ایک پہلو سے شرائع نے ’قبائل‘، ’لسانوں‘ اور ’اقالیم‘ وغیرہ ایسی ان تقسیمات کا اعتبار بھی کیا اور انہیں تعارف کی ’’جائز بنیاد‘‘ بھی ٹھہرایا  ہے۔

(اقتباس ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘، فصل ’’آسمانی شریعت نہ کہ سوشل کونٹریکٹ‘‘شائع ایقاظ، جنوری 2014)

قبائل، شعوب (شاخوں) اور اقالیم (طبعی خطوں) کا لحاظ اور علاقائی رہن سہن کا تحفظ نہ صرف ہماری شریعت بلکہ ہماری اسلامی تاریخ کا بھی ایک قابل ذکر امتیاز ہے۔

البتہ داعیانِ ’نیشن سٹیٹ‘ کو کیا سوجھی، جس چیز (طبعی رشتوں اور علاقائی رہن سہن) کو قتل کرتے کرتے آج یہ ناپید کردینے کے قریب ہیں اُس کے تحفظ کا واسطہ دے کر یہ اپنی اس بےرحم ’ماڈرن سٹیٹ‘ کے کیس کو ثابت اور ہماری ’’خلافت‘‘ کو ناثابت کرنے لگے! یہ ایک الٹی گنگا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ لسانی اور علاقائی اشیاء کو تحفظ دینے کے مسئلہ پر ہم دفاعی پوزیشن پر جائیں یا اس سے لاتعلق نظر آئیں۔ اللہ کا شکر ہے اس میدان میں بھی ہمارا ہی پلڑا بھاری ہے؛ بلکہ فریقِ مخالف اِسی ایک پوائنٹ پر ہم سے مات کھا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف انسانیت بلکہ انسانی رشتوں اور انسانی جذبوں کے بھی قاتل ہیں؛ البتہ دجل میں ان کا جواب نہیں۔

طبعی رشتے، علاقائی رنگ، زبانوں کا تنوع (اخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ)... اور ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘؛ یہ ایک دوسرے کےلیے ہی تو بنے ہیں! اِس تعددِ اجناس کے بغیر ’’الجماعۃ‘‘ کا کیا لطف؟! یہ تو ایک عالمی کمیونٹی ہے اور روئے زمین پر ’’مل کر‘‘ خدا کی عبادت کرتی ہے؛ اس کو رنگوں اور زبانوں کا اختلاف کیا کہے گا؛ یہی تو اس کی خوبصورتی ہے!

طبعی رشتوں اور قدرتی جذبوں کو اسلام کس طرح اپنی آغوش فراہم کرتا اور ان کو گزند پہنچانے سے کس شدید حد تک گریز کرتا ہے، ہماری ’’الجماعۃ‘‘ کی تاریخ ان خوبصورت حقیقتوں سے لبریز ہے۔

ہماری یہ خلافت سوا ہزار سال تک قائم رہی، خلافت کے کمزور پڑجانے کے بڑے بڑے طویل عرصوں کے دوران ہماری اسلامی امارتیں رہیں(جو بالعموم خلافت سے ایک انتساب رکھتی تھیں)۔ یہ اسلامی امارتیں الگ الگ ’’انتظامی اکائیاں‘‘ ضرور تھیں جو اکثر ’خودمختار‘ بھی ہوتی تھیں، اس کے باوجو آج کی ’نیشن سٹیٹ‘ کے برعکس وہ وہاں بسنے والے انسانوں کے حق میں ’’تشخص‘‘، ’’وابستگی‘‘، ’’تقسیمِ بنی آدم‘‘ اور ’’شناخت‘‘ کے کسی فلسفے پر قائم نہ تھیں۔  جہاں تک ’’تشخص‘‘، ’’وابستگی‘‘، ’’تقسیمِ بنی آدم‘‘ اور ’’شناخت‘‘  کا تعلق ہے تو  __  ’’دارالاسلام‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ کا فرق برقرار ہونے کے باعث  __    اِن الگ الگ انتظامی اکائیوں کے باوجود ’’الجماعۃ‘‘ کا وہ عمومی معنیٰ ہی یہاں پر  برقرار تھا۔ (علاوہ اس بات کے کہ یہ امارتیں ایک مجموعی معنیٰ میں محمدﷺ کی شریعت کے علاوہ کسی قانون سے واقف نہ تھیں)۔

البتہ نہ خلافت میں، اور نہ  ان اسلامی امارتوں کے عہد میں...  کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے قوموں کو بانٹا اور قبیلوں کو کاٹا ہو۔ (اِس ’ماڈرن سٹیٹ‘ والے فنامنا کی طرح) کبھی ہم نے کُردوں کو کُردوں سے کاٹا ہو اور وہ بیچارے اپنی خونی وحدت کے واسطے دے دے کر پوری دنیا میں خوار ہوتے پھر رہے ہوں۔ کبھی ہم نے بربروں کو بربروں سے کاٹ کر ان کو پانچ الگ الگ رنگوں کے ’پاسپورٹ‘ تھمائے ہوں۔ پشتون کو پشتون سے، بلوچ کو بلوچ سے، ترک کو ترک سے، بنگالی کو بنگالی سے، بہاری کو بہاری سے،عرب کو عرب اور حبشی کو حبشی سے الگ کرکے ان کے مابین ’سرحدیں‘ کھڑی کی ہوں۔ }فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ  أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (محمد: 22، 23) ’’تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رشتے کاٹ ڈالو؟ یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت کی ہے پھرانہیں بہرا اوراندھا بھی کر دیا ہے‘‘{۔ یہ سب کنبے، قبیلے، قومیں، برادریاں، زبانیں، کلچر ہماری خلافت اور ہماری اسلامی امارتوں کے سائے میں پوری آزادی سے پنپتے رہے ہیں۔

’’رشتوں‘‘ کو جوڑنا اِس دین کے بڑے بڑے اسباق میں آتا ہے؛ اور مسلمانوں نے ہمیشہ اس کی پاسداری کی ہے۔ لوگوں کے طبعی میلانات، فطری امنگوں اور قدرتی جذبوں کی قدر جتنی ہمارے دین میں ہے اتنی کہیں نہیں ہے۔

 صحابہؓ نے آدھی دنیا فتح کی، چاہتے تو ’’سنت‘‘ کے نام پر (جیساکہ آج کچھ نادان لوگ کرنے میں لگے ہیں) بڑے آرام سے لوگوں کے علاقائی لباس، رواج، بولیاں، رہن سہن سب تبدیل کروادیتے، ان کی علاقائی شناخت ختم کروادیتے، اور ان کو ایک ہی ’’مدینہ‘‘ کے کلچر پر لے آتے! مگر صحابہؓ نے ان اقوام کو اِن رنگ برنگ موسموں، کلچروں، بولیوں اور لہجوں کا خوب لطف لینے دیا اور زندگی کو کسی بوریت اور یکسانیت کی جانب ہرگز نہ دھکیلا۔ صرف ایک ’’عربی زبان کے حیرت انگیز پھیلاؤ‘‘ کو آپ اس قاعدہ سے مستثنیٰ کرسکتے ہیں لیکن جن لوگوں کو قرآن سے لطف لینا آتا ہے وہ گواہی دیں گے کہ اِن اقوام کو اِس لطفِ عظیم سے محروم رکھنا ایک بڑا ظلم ہوتا۔

حضرات...! صرف ڈیڑھ سو سال پہلے کی حالت پر نگاہ ڈال لیں؛ کہ جب ’ماڈرن سٹیٹ‘ نام کی یہ بلا ہمارے صحن میں نہیں اتری تھی اور ہماری خلافت اور اسلامی امارتوں کے باقیات ہی اِن خطوں کے اندر برقرار، نیز زمین کی ’’طبعی تقسیم‘‘ ابھی جوں کی توں تھی۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں کی زبانیں یہاں اپنی زرخیزی کو پوری طرح برقرار رکھے ہوئے تھیں۔ علاقائی شاعری عروج پر تھی۔ ہر نسل کے لوگ اپنی نسل سے جڑے ہوئے تھے؛ ایک خون کو ’کاٹنے‘، اس کا شیرازہ بکھیرنے اور اس کے مابین ’سرحدیں‘ کھڑی کرنے والی کوئی غیرانسانی قوت یہاں نہ تھی۔ ’’انسان‘‘ روئے زمین پر آزادی سے چلتا پھرتا تھا۔  محبتیں قائم؛ مروتیں باقی تھی۔ ہر علاقے اور ہر خطے کے اتنے اتنے مختلف کھیل، اتنی اتنی مختلف دلچسپیاں، اتنی اتنی مختلف عادات، رسوم، معمولات کہ زندگی رنگوں کے تنوع سے بھری ہوئی تھی۔ یہ تھی ہماری طبعی دنیا۔

البتہ یہ نیا درندہ (’ماڈرن سٹیٹ‘) اُس خاص عالمی ایجنڈا کو رو بہ عمل لانے کا ذریعہ تھا جس کے پیچھے ایک مخصوص عالمی ٹولہ ہے۔ وہ فری ماسونک freemasonic   ٹولہ جو اسلام ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی صدیوں کا بغض پالے ہوئے تھا؛ (صدیوں کا دھتکارا ہوا یہودی) جو اپنی منافقت کا پردہ اتار دے تو ’’انسان‘‘ کو ہنستا برداشت نہ کرسکے۔ یہاں؛ نسلی رشتوں اور طبعی وحدتوں کو جس کند چھری سے ذبح کیا گیا آج وہ سب کے سامنے ہے؛ اور میرا خیال ہے ’’سو سال‘‘ اپنے نتائج دکھانے کو خردمندوں کےلیے بہت کافی ہے! ’’دین‘‘ تو خیر بہت عظیم شےء ہے اور اس سے بڑھ کر ’’شناخت‘‘ تو بھلا کیا ہوسکتی ہے، لیکن اِس ماڈرن درندے نے تو ’’انسان‘‘ کی کوئی بھی شناخت باقی نہ رہنے دی۔  دین کے بعد کوئی شناخت ہوسکتی ہے تو وہ لوگوں کے اَنساب اور قبائل اور شعوب (شاخیں) ہیں۔  ان کو بھی پوری بےدردی سے کچل ڈالا گیا۔  ایک ایک قبیلے اور ایک ایک طبعی قوم کو کئی کئی ’ماڈرن‘ ڈربوں میں ڈال دیا گیا اور آئے روز اِن ’ڈربوں‘ میں ردوبدل ہوتا رہا۔ انسان کی پہچان کےلیے کیا بچا؟ اس کا وہ ڈربہ!؟

 اب اِس ڈربے کا حال دیکھ لیجئے۔ ’’دین‘‘ تو ایک عظیم چیز ہے؛ اس کو بدلنے کا تو خیر کیا سوال۔ قوم (طبعی معنیٰ کی قوم) ،  قبیلہ  اور نسب کبھی بدلا ہی نہیں جاسکتا (نبیﷺ نے نسب بدلنے والے پر لعنت فرمائی ہے؛ ’’اَنساب‘‘ کا تحفظ مقاصدِ شریعت میں آتا ہے)۔  البتہ ’ڈربہ‘ ایک لمحے میں بدلا جاسکتا ہے! کیا اس کو ’’شناخت‘‘ کہیں گے جو انسان کے شایانِ شان ہو؟ اندازہ تو کیجئے: کسی بند کمرے میں دو مشتبہ کرداروں (two culprits بھٹو اور مجیب) کے دستخط ایک لمحے کے اندر کروڑوں انسانوں کی ’’شناخت‘‘ بدل دیں؟! ایسی ناپائیدار اور ناقابلِ بھروسہ چیز؛ جو کسی ظالم کی ایک جنبشِ قلم کی مار ہو؟؟! جس کو کسی بھی عالمی مافیا کی پھونک چند سالوں کی محنت سے راکھ کی طرح اڑا دے؟! جس کو کسی سے جوڑنے اور کسی سے توڑنے کےلیے آئے روز ’پلان‘ بنتے پھریں؟؟! ’’شناخت‘‘ کے طور پر یہودی نے ہم سے ہمارا ’’دین‘‘ چھڑوا دیا (کہ بھلا یہ بھی کوئی پہچان ہوتی ہے؟!) ’’خون‘‘ اور ’’نسل‘‘ کو تتربتر کردیا۔ اور  ایسی ایک پہچان دے دی  جس کا پیپر کرنسی کی طرح کوئی اعتبار نہیں؛ لمحوں میں یہ کہیں سے کہیں چلی جائے! اور اِن ہردو کے ’فیصلے‘ کہیں اور ہوں!

یہ ہوا ’’شناخت‘‘ کا مسئلہ۔

رہ گئی زبانیں اور کلچر... تو ہر شخص جانتا ہے اکثر علاقائی زبانیں آج موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں؛ بلکہ علاقائی ہی نہیں ا ِس مُفسد فی الارض کے ہاتھوں یہاں کی قومی زبانیں ناپید ہونے لگیں اور اُس اصل ’’جماعۃ‘‘ (global community)  کی زبان ہی یہاں ہر طرف چھانے لگی جو درحقیقت اس پیکیج کی روحِ رواں ہے! جیساکہ ہم نے کہا ’ماڈرن سٹیٹ‘ دراصل ایک خاص کلچر کی نمائندہ تھی؛ یہ خود کچھ نہیں اصل میں تو یہ زمین میں کسی خاص ابلیسی ’جماعۃ‘ کی تشکیل کرنے کےلیے ہے۔  اس تہذیب کا سب سے بڑا ہتھیار البتہ منافقت ہے؛ یعنی دکھانا کچھ اور کرنا کچھ اور (hidden agenda)! کیونکہ اس میں مسلم فاتحین والا عدل ہی نہیں جرأت اور صاف گوئی بھی مفقود ہے۔ یہ وہ ملت ہے جو ریڈ انڈینز کو کچل دینے کے بعد ہر سال ان کو ’مرغِ رومی‘ (turkey) کا تحفہ دیتی ہے! خاندان کو ریزہ ریزہ کردینے کے بعد ’مدر ڈے‘ اور ’فادر ڈے‘ کا انعقاد کرواتی ہے! اپنے بھاری بھرکم ابلاغی و تعلیمی امکانات کو کام میں لاتے ہوئے علاقائی رہن سہن اور رسم و رواج کو تہس نہس کردینے کے بعد ’لوک کلچرز‘ کے اجڑ جانے کے بین کرتی ہے۔ اَنساب، قبائل اور اقوام کو ملیامیٹ کردینے کے بعد  لوگوں کو ’’خلافت‘‘ سے ڈراتی ہے کہ اگر یہ قائم ہوگئی تو تمہاری ’’علاقائی شناخت‘‘ کا کیا بنے گا! اپنی دیوہیکل ملٹی نیشنلز کھڑی کردینے کے بعد ’آزادانہ تجارت‘ اور ’فری اکانومی‘ کے راگ الاپتی ہے!

واقفانِ حال آپ کو بتائیں گے کہ اِس وقت جتنی ’نیشن سٹیٹس‘ دنیا میں ہیں سب کے ’کانسٹی ٹیوشن‘ قریب قریب ایک دوسرے کا چربہ ہیں۔ معیشتیں ایک دوسرے کی نقل۔ سیاسی نظام ایک دوسرے کا چربہ۔ تعلیمی نظام ایک دوسرے کی مکھی پر مکھی۔ میڈیا ایک سے کورَس۔ غرض قوموں کی قومیں ایک سی ڈرِل کررہی ہیں۔ انسانی تنوع کو یہاں پوری بےرحمی سے قتل کیا جارہا ہے۔

’’شناخت‘‘ ہی ختم ہوگئی تو پھر باقی کیا رہنا تھا؟ اب ایک ایک چیز پر بین کرنے کا فائدہ؟

اِس درندے کے ہاتھوں  لوگوں کے علاقائی کھیل تک ختم ہوگئے۔ آپ کا ہر بچہ اب کرکٹ کا بیٹ پکڑے نظر آئے گا! ’اپنی آبائی چیزوں‘ کے اب اِس کو ’درس‘ ہی دیے جاسکتے ہیں یا اس پر آہیں ہی بھری جاسکتی ہیں! ’’دین‘‘ نہیں بچا تو باقی کیا بچے گا؟! ہر ہر معنےٰ میں آپ اِسکے ہاتھوں موت پائیں گے۔  ’’اچکن‘‘ پہنے ہوئے بازاروں میں چلتا پھرتا آدمی آج قریب قریب آپکو مسخرہ لگے گا! یہ اُس لباس کا حال ہے جو پورے برعظیم کا معززترین لباس تھا! رہ گئے علاقائی لباس، تو وہ صرف لوک میلوں اور نمائشوں میں دیکھنے کی چیز ہو گئے۔ یعنی ایک سو سال کے اندر اندر، آپکے دیکھتے دیکھتے، آپکی ثقافت کو انہوں نے میوزیم میں چن دیا۔  اپنی سو سال پرانی وضع قطع کے لحاظ سے آج آپ ایک عجائب گھر ہیں؛ اپنے آپ کو وہاں ڈھونڈیے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے میں آپکے ذوق بدل دیے۔  آپ کے بچوں کا من پسند مشروب آج ’کوک‘ اور ’پیپسی‘ اور من پسند کھانا ’پزا ہٹ‘ اور ’میکڈانلڈ‘ میں پایا جاتا ہے! آپ کی کوئی ایک چیز بچی ہو تو بتائیے! اِس کو کہیں گے فَرَّ مِنَ الۡمَـــطَـرِ وَقَــامَ تَحْـتَ الْمِـــيْـزَابِ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا‘‘!

ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ اور اُن کی ’یو این کمیونٹی‘ کے مابین بھلا کوئی موازنہ ہے؟!

 (’’خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘: ’’نسلی اکائیاں اور علاقائی رہن سہن: جماعۃ المسلمین بموازنہ ماڈرن سٹیٹ‘‘ ایقاظ، اپریل 2014)



[i]   کہیں ایک ارب انسان ایک ’قوم‘ ہوسکتے ہیں (مانند بھارت) بلکہ اپنے ’چھنے ہوئے‘ حصوں (مانند آزاد کشمیر وغیرہ!!!) کو اپنے ساتھ ملانے کےلیے ’کوشاں‘ ہوسکتے ہیں، تو کہیں (مناکو) صرف بتیس ہزار انسان ہی ایک مکمل ’قوم‘ ہوسکتے ہیں۔

[ii]   ریاست کو ’حق‘ ہے کہ آپ کو حکم دے کہ کسی اپنی ہی ہم مذہب قوم کے خلاف جنگ پر نکلو!

[iii]  ’’دین‘‘ کو تو یہ حیثیت دینے پر آمادہ نہیں مگر ’سٹیٹ‘ کی یہ حیثیت ہے کہ یہ دو بھائیوں کو پھاڑ دے اور ایک ہی خون کے مابین ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ’غیرقوم‘ ہونے کی خلیج ڈال دے۔

(اس پر مزید دیکھئے: ہماری کتاب، فصل: ’’نسلی اکائیوں اور علاقائی رہن سہن کا تحفظ، جماعۃ المسلمین بموازنہ ماڈرن سٹیٹ‘‘)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں
تنقیحات-
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
سید قطب کی تحریریں فقہی کھپت کےلیے نہیں عرصہ ہوا، ہمارے ایک فیس بک پوسٹر میں استاذ سید قطبؒ کے لیے مصر کے مع۔۔۔
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ
ایقاظ ٹائم لائن-
حامد كمال الدين
شیخ ابن بازؒ کی گواہی بابت سید قطبؒ ایقاظ ڈیسک یہ صاحب[1]  خود اپنا واقعہ سنا رہے ہیں کہ یہ طلبِ عل۔۔۔
معجزے کی سائنسی تشریح
ایقاظ ٹائم لائن-
ذيشان وڑائچ
معجزے کی سائنسی تشریح!              &nbs۔۔۔
جدت پسند: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانے کی کوشش! دنیوی اور اخروی احکام کے خلط سے ’دلیل‘ پکڑنا
ایقاظ ٹائم لائن-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
جدت پسند حضرات کی پریشانی: مرزا قادیانی کو ایک ’مسلم گروہ کا امام‘ منوانا! دنیوی اور اخروی احکام کے۔۔۔
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
طارق جمیل نے کیا برا کیا ہے؟ مدیر ایقاظ اِس مضمون سے متعلق یہ واضح کر دیا جائے: ہمارا مقصد معاشرت۔۔۔
حوثی زیدی نہیں ہیں
ایقاظ ٹائم لائن-
شیخ ناصر القفاری
حوثی زیدی نہیں ہیں تحریر: ناصر بن عبد اللہ القفاری اردو استفادہ: عبد اللہ آدم بعض لوگ ۔۔۔
مسلم ملکوں میں تخریب کاری، استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
مسلم ملکوں میں تخریب کاری استعماری قوتوں کا ایک ہتھکنڈا ایقاظ کے فائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہ۔۔۔
’اَعراب‘ والا دین یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
’اَعراب والا‘ دین... یا ’ہجرت و نصرت‘ والا؟  عَنْ بُرَيدَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: كَانَ رَسُو۔۔۔
ایمان، ہجرت اور جہاد والا دین
ایقاظ ٹائم لائن-
ادارہ
               ایمان، ہجرت اور جہاد والادین إ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز