عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2016-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
"تکفیر" اور "عدم تیسیر" کا یہ ڈسکورس
:عنوان

یہ شدت پسند ڈسکورس آپ کی توبہ کروا کر چھوڑے گا: قادیانیوں کی تکفیر تک سے انگریر، ہندو اور صیہونی کے خلاف ہونے والے جہاد تک سے نیز شریعت اور خلافت ایسے الفاظ کو خودکش بمبار کا ہم معنى بنا کر چھوڑے گا

. باطل :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

"تکفیر" اور "عدم تیسیر"

کا یہ ڈسکورس ظلم بھی ہے اور جہالت بھی

مضامین

تکفیر کی بات ہے تو یہ ظالم قادیانیوں کی تکفیر تک سے لوگوں کو بِدکا کر رہیں گے۔ کیونکہ ان شدت پسند حرکتوں کے نتیجے میں،دین میں جو جائز تکفیر ہے اس پر ہی بطورِ اصول سوالیہ نشان اٹھ آئیں گے، اور وہ ’جوابی بیانیہ‘ بروقت آٹپکے گا جس سے قادیانی بھی خدانخواستہ ’مسلم مسالک‘ میں سے ایک مسلک گنا جائے گا۔

جہاد کی بات ہے تو یہ انگریز کے خلاف ہوتے رہنے والے جہاد سے بھی آپ کی توبہ کروائیں گے، روس کے خلاف ہوتے رہنے والے جہاد سے بھی، اور ہندو اور صیہونی کے خلاف ہوتے چلے آنے والے جہاد سے بھی۔ اور آئندہ کےلیے استعمار کا راستہ صاف!

اسلامی اصطلاحات کی بات ہے تو یہ ’’حاکمیتِ خداوندی‘‘، ’’شریعت‘‘، ’’خلافت‘‘ وغیرہ ایسے سب الفا ظ کو ’خودکُش بمبار‘ کا ہی ہم معنیٰ بنا  کر چھوڑیں گے۔ یعنی ان لفظوں کا منہ پر آنا ہی خطرے کی علامت۔ واقعتاً ایسا کر بھی دیا گیا ہے۔ دیندارو! اس کے بغیر تم یہ الفاظ کب ترک کرنے والے تھے؟!

غرض وہ سب باتیں جو انگریز اور اس کے منظورِ نظر ٹولے کو عالم اسلام میں چُبھتی تھیں، مسلمانوں کو ان سے توبہ کروا دینے کا ایک نرالا طریقہ دریافت ہوا ہے: پہلے شدت پسند ’’سرپھرا بیانیہ‘‘... اور اس سے جب آپ ادھ موئے ہو چکیں تو پھر جدت پسند ’’جوابی بیانیہ‘‘۔  اور کلاسیکل اسلام کا دھڑن تختہ!

آپ غور فرمائیے تو  تکفیر اور عدم تیسیر کی یہ شدت پسند تحریک  بھی دراصل اسلام کے کلاسیکل علم و علماء کے خلاف ایک بغاوت ہےاور ’جوابی بیانیہ‘ والی یہ جدت پسند تحریک بھی۔  درحقیقت یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اور اب تو مجھے یہ بھی بعید نظر نہیں آتا کہ ان دونوں کا ’مصدرِ الہام‘ بھی کوئی ایک ہی ڈیسک ہو۔

لوگوں کو اسلام سے خارج ٹھہرانا مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیشہ سے ایک نازک مسئلہ کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ عموماً؛ امت میں جتنا کوئی سنگین اور نازک مسئلہ پایا گیا اتنا ہی اس کی بابت زیادہ اونچی سطح کے علماء کی جانب رخ کیا جاتا رہا۔ اس پر زیادہ گہری نظر رکھنے والوں کی آراء طلب کی گئیں اور ایک زیادہ اونچی سطح  پر علمی رائے پکانے کی کوشش کی گئی۔ غرض جتنا کوئی نازک مسئلہ، اتنا اونچی سطح کے فقہاء اور اتنا اونچی سطح کا اجتہاد۔ ’’تکفیر‘‘ کا یہ مسئلہ جو آج ہماری چوپالوں اور چیٹ روموں میں پھرتا ہے، بلاشبہ حق رکھتا تھا کہ اس کے ساتھ بھی یہی علمی معاملہ کیا جاتا۔ پھر جب اس کے ساتھ خون مباح کرنے کا رجحان بھی تیزی کے ساتھ بڑھا تو مسئلہ کی نزاکت دوچند ہوگئی۔

پھر اس کے ساتھ ایک اور جہت بھی شامل ہوجاتی ہے۔ ہمارے بعض اہل علم نے پچھلے کچھ عشروں کی پیشرفت کا بغور ملاحظہ کرنے کے بعد جو کچھ نتائج کشید کیے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ مسلم نوجوان میں ’’تکفیر‘‘ کے رجحانات عام ہونےکے پیچھے دشمنانِ اسلام کی کچھ انجنئرنگ بھی ہوتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے مصر کی جیلوں میں یہ پودا جس محنت سے کاشت کروایا گیا اس کے ڈانڈے بہت پیچھے تک جاتے ہیں۔ خدانخواستہ، مقصد یہ نہیں کہ اس فکر کے سب حاملین کسی کے پروردہ ہیں۔ بلکہ مقصد یہ کہ ہمارے ہاں فکری رجحانات کی ساخت کرنے میں ہمارے گھر کے بھیدیوں نے کچھ خاصے دُوررَس کام بھی انجام دیے ہیں۔ یہاں ایک ایسا ایندھن ایجاد میں آ چکا ہے کہ وہ کسی بھی باریک اَن دیکھی ’تِیلی‘ لگنے سے جل اٹھتا ہے اور ہمارے وجود کے کچھ صالح ترین حصوں کو کو خاکستر کر جاتا ہے۔

کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ ’’تکفیر‘‘ اگر ان نازک مسائل میں سے ہے جن کےلیے ایک اعلیٰ سطحی اجتہاد درکار ہے تو آخر کس نے روکا تھا کہ امت میں اعلیٰ سطح کے علمی طبقے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ آخر انہوں نے کیوں اس پر امت کو کوئی راہنمائی نہیں دی؟ تاہم معاملہ یہ ہے کہ امت میں بڑی سطح کے علماء اول روز سے تکفیر کے ان رجحانات کو غیرعلمی اور ناپختہ قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ بےشک تکفیر کی جانب مائل حلقوں میں نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا رہا کہ: امت کے دامن میں آج کوئی بڑے علماء نہیں پائے جاتے ، سوائے ’طاغوت کے خدمت گزار علماء‘ کے، لہٰذا علماء اگر کچھ رہ گئے  ہیں تو وہ ’ہمارے‘ ہی چند لوگ ہیں... مگر حق یہ ہے کہ ایسے علماء کی تعداد کوئی کم نہیں جو امت کے اندر اپنی سو فیصد آزاد رائے کے مالک ہیں اور بسا اوقات اپنی اس آزاد رائے کی مہنگی قیمت بھی دیتے ہیں۔ ایسے علماء نے بھی ’’تکفیر‘‘ کے اِن رجحانات کو علمی احاطے میں قبول نہیں کیا۔[1]  لیکن یہاں ’مواقف‘ اور ’بدیہی امور‘ پہلے سے طے تھے۔ ’علماء‘ وہ ٹھہریں گے جو اِن ’علمی مواقف‘ اور اِن ’بدیہی اشیاء‘ سے کم از کم  آگاہ تو ہوں اور ان کے مؤید بھی ہوں، اور وہ دو چار ہی ہیں؛ باقی وہ لوگ جو اِن ’علمی وبدیہی‘ اشیاء کو سمجھتے تک نہیں، یا سمجھتے ہیں مگر ’کتمانِ حق‘ سے کام لیتے ہیں، انہیں ’عالم‘ کیسے مانیں! لہٰذا جب دنیا میں ’عالم‘ رہے ہی نہیں ہیں سوائے ان ایک آدھ آدمیوں کے  جو ’ہمارے‘ مؤید ہیں، تو آخر جائیں کس کے پاس؟!

چنانچہ علماء کے اور اِن مائل بہ تکفیر نوجوانوں کے مابین فاصلہ  بڑھتا چلا گیا اور یہاں ’’تکفیر‘‘ کی پیچیدہ تر اور ترقی یافتہ تر صورتیں سامنے آنے لگیں۔ جیساکہ ہم نے کہا: ’’تکفیر‘‘ کے ساتھ ’’خون مباح کرلینے‘‘ کا معاملہ بھی خاصی حد تک نتھی ہی چلا آ رہا تھا۔ آخر یہ مسئلہ بڑھتا بڑھتا اور پیچ در پیچ اس سطح تک چلا گیا کہ علمائے دین اور جہاد کےلیے کام کرنے والی بہت سی جماعتیں تک ’’تکفیر‘‘ کے دائرے میں آنے لگیں۔ ہجرتیں کرنے والے، خدا کے راستے میں تکلیفیں جھیلنے اور قربانیاں دینے والے، شہادتوں کے متلاشی بھی رفتہ رفتہ اس زمرے میں آنے لگے جسے موت کے گھاٹ اتار کر اور زمین کو اس کے وجود سے پاک کرکے خدا کا تقرب حاصل کیا جائے!  فحسبنا اللہ ونعم الوکیل

اگر یہ درست ہے کہ کچھ بڑے جھٹکے سمجھداروں کو سوچنے اور امور کا جائزہ لینے پر آمادہ کرتے ہیں... تو امید کرنی چاہئے، خود ان طبقوں میں مخلصین کی ایک تعداد آج کسی لمحۂ فکریہ  پر پہنچ کر کھڑی ہو گی۔

*****

اِس امر کی نشاندہی کرتے چلیں کہ تکفیر کے بعض مسائل جب تک علمی (اکادیمی) آراء[2] کے دائرے میں رہیں اور ’’فتویٰ‘‘ کی زبان میں نہ ڈھلیں تب تک معاملہ یہ خطرناک صورت نہیں دھارتا، اور اس انداز کا کلام اپنے اپنے دور کے فتنوں کی بابت اہل علم میں ہمیشہ ہوتا رہا۔ دورِحاضر کے ایک بڑے فکری نام سید قطب﷫ کی تحریروں میں ہمارے اِس عہد کے بعض مسائل کو کفر سے جوڑا گیا ہےتو وہ بھی ’’فتویٰ‘‘ کی زبان میں نہ تھا اور اِس وقت جاری لوگوں کو ’’مرتد‘‘ ٹھہرانے والی اپروچ سے بالکل ہٹ کر تھا۔ چنانچہ علماء کے ہاں ایک بڑی سطح پر اگر وہ اسلوب ’’قبول‘‘ نہیں ہوا تو بھی  یہ کہنا چاہئے کہ وہ ’’ہضم‘‘ ضرور ہوا۔  یہ ایک واقعہ ہے کہ ابن باز﷫ جیسی شخصیات نے  سیدقطب کےلیے نہایت محبت کے جذبات ظاہر کیے، جبکہ ایسا نہیں کہ سیدقطب کی تحریریں ابن باز کی نظر سے گزری نہ ہوں۔  بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سیدقطب پر ’تنقید‘ کی وہ ضرورت بھی ابن باز کے حلقے میں شاید اس وقت محسوس کی گئی جب ’سیدقطب‘ کے حوالے دینے والی شدت پسندی کی ایک رَو نوجوانوں میں سر اٹھانے لگی۔ ہم چاہیں گے کہ  اس ایک ہی مثال سے آپ  اُس اصل چیز کا کچھ اندازہ فرمانے کی کوشش کریں جو علمی حلقوں میں قبول ہوتی چلی آئی ہے۔ سید نے اپنی ان تحریروں سے ایک چیز کی شناعت سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی ہے مگر ’حکم‘ لگانے اور ’فتاویٰ‘ صادر کرنے کی جانب خود ہی کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ وہ اِس رخ پر آئے ہی نہیں ہیں۔ نہ وہ اس میدان کے تھے۔ وہ ایک علمی دائرے میں، یا پھر احساس دلانے والے اسلوب میں ایک چیز کی سنگینی محسوس کراتے رہے ہیں؛ اور اس سے ایک بڑا طبقہ متاثر ہوا۔ سیدقطب کے اِن افکار کو جانتےبوجھتے ہوئے، علماء حتیٰ کہ ابن باز ایسا ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ رکھنے والا عالم سید کےلیے اعلیٰ ترین کلمات کہتا ہے۔ یہاں تک کہ ابن باز جوکہ محض ایک عہدیدار نہیں جزیرۂ عرب کا ایک عظیم مدرسہ ہے، اپنے نوجوانوں کو یہ کتابیں پڑھنے کےلیے تجویز کرتا ہے۔ اور حق تو یہ ہے کہ سید کے ’’مدرسہ‘‘ کو حجاز میں باقاعدہ لا کر بٹھاتا ہے؛ سید کی بابت کسی سادگی اور لاعلمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ازراہِ محبت و تعلق خاطر، جو کچھ نہ کچھ اختلاف ہونے کے باوجود ان مدارس کے مابین چلتا ہے؛ اور جوکہ ایک بےحد صحتمند فنامنا  ہے گو اَب حالیہ رجحانات اس کو ختم کروا دینے کے درپے ہیں۔[3] البانی﷫ جوکہ پورا ایک مدرسہ ہے، سید کےلیے بہترین کلمات بولتا اور اس کی کتابیں اپنے  حلقے کے لوگوں کےلیے گاہے گاہے پڑھ لینا تجویز کرتا ہے۔  اور ان دونوں کے علاوہ علمائے کبار کی ایک بڑی تعداد۔ کیا ان واقعات کی آپ کوئی دلالت دیکھ رہے ہیں؟  کیا علمی حلقوں میں کوئی قربت اور الفت برقرار پا رہے ہیں...؟

تاآنکہ سیدقطب کے ان مباحث کو ’’علمی آراء‘‘ کے دائرہ سے اٹھا کر ’’فتاویٰ‘‘ کی شیلف میں دھر دیا جاتا ہے، اور اس کے بعد معاملہ بالکل ایک اور رخ اختیار کرجاتا ہے!

چنانچہ ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کی بحثیں سیدقطب سے پہلے احمد شاکر﷫ نے کی ہیں۔ سیدقطب کے بعد سفر الحوالیحفظہ اللہ نے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ابن باز﷫ سے پہلے اِسی سرکاری کرسی پر بیٹھنے والا ایک مردِ صالح جسے مفتی محمد ابراہیم﷫ کہا جاتا ہے، اور جس کے رسائل ہمارے مائل بہ شدت حلقوں کے کم از کم ایک حصے میں ضرور حوالہ کے طور پر لیے جاتے ہیں... بلادِ حرمین کا یہ مردِ صالح اور اپنے دور کا ایک عظیم عالم اِسی ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کے موضوع پر کمال گفتگو کرتا ہے... مگر یہ سب لوگ اپنے دور کے فتنوں پر اِس ’’علمی گرفت‘‘ اور اس ’’اصولی سرزنش‘‘ کو ’’فتویٰ‘‘ میں کنورٹ convert   نہیں  کرتے اور ساتھ میں ’’خون‘‘ مباح کرنے کی وہ نہ رکنے والی چابی نہیں گھماتے جو پورے کے پورے انتظامی اداروں، افواج اور محکموں اور نہ جانے کن کن شعبوں کو اپنی زد میں لیتی چلی جاتی ہے۔ یہ کام اُن لوگوں کے ہاتھوں ہوتا ہے جو اِن علمی حلقوں میں کسی علمی حوالے سے ذکر ہی نہیں ہوتے!

جہاں تک افراد کو معیّن کرکے ’’مرتد،  خارج از اسلام‘‘  قرار دینے کا منہج چلائے  بغیر’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کی شناعت بیان کرنا ہے... تو حق یہ ہے کہ خود مدرسۂ حجاز و نجد  اس میں کسی سے پیچھے نہیں۔ صرف ماضی میں نہیں؛ آج بھی۔ چند سال پیشتر کی بات ہے سعودی عرب میں سرکاری فتویٰ کمیٹی  کے باقاعدہ دستخط کے ساتھ مسمیٰ خالد العنبری کی ایک کتاب بین کروائی گئی جو ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کو کفر قرار دینے کےلیے دل کے اعتقاد کی شرط لگاتی تھی؛ جس کی وجہ سے ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘بھی عام گناہوں جیسا ایک گناہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ کتاب پر مفتیانِ نجد کے اعتراض کا چوتھا پوائنٹ تھا:

دعواه إجماع أهل السنة على عدم كفر من حكم بغـير ما أنزل الله في التـشـريع الـعـام إلا بالاستـحلال القلبي كسائر المعاصي التي دون الكفر . وهذا محض افتراء على أهل السنة ، منشؤه الجهل أو سوء القصد نسأل الله السلامة والعافية[4]

مؤلف کا یہ دعویٰ کرنا کہ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ  قانون عام میں اللہ کی شریعت کے بغیر حکم چلانے والا کفر کا مرتکب نہیں تاوقتیکہ وہ اس عمل کو دل سے جائز نہ سمجھتا ہو، جیسا کہ ان عام گناہ کے کاموں کے معاملہ میں ہے جو کفر تک نہیں پہنچتے۔ حالانکہ یہ اہل سنت پر نرا بہتان ہے؛ جوکہ جہالت کا شاخسانہ ہے یا بدنیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے عافیت بخشے۔

ہمیں معلوم ہے؛ حکمِ معیّن میں ’تاخیر‘ پر تعجب کرنے والا ذہن یہاں سوال اٹھائے گا...:  مسئلہ جب اتنا واضح ہے تو پھر دیر کیسی! کیا باقی ہے جو اتنے سارے لوگوں کو مرتد کہنے میں تاخیر ہو رہی ہے؟!

مگر سوال یہ بھی ہے کہ فتویٰ کمیٹی کو آخر شوق کیا ہے ایسا فتویٰ دینے کا؟ وہ ایک ایسی کتاب کو بین کروانا چاہ رہی ہے جو ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ کو ’’کفر‘‘ سے کم کرکے عام گناہ کے درجے پر لے آنا چاہتی ہے۔  ایسی کتاب اگر چھپتی رہےتو کیا اس پر وقت کے حکمرانوں کو اعتراض ہوگا!؟ کیا مثلاً حکمران طبقوں نے فتویٰ کمیٹی کو مجبور کیا ہوگا کہ وہ اس کتاب کو بین کرنے کا فتویٰ دے!؟ کمیٹی کے علماء کی بابت آپ جو بھی رائے رکھیں، کم از کم وہ اتنا تو جانتے ہیں کہ ایک ایسا فتویٰ دینے سے (جس پر ان کو ظاہر ہے کسی نے مجبور نہیں کیا) وہ آپ ہی اپنے لیے بہت سارے سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ اگر واقعتاً یہ کوئی علمی بات ہے کہ ’’حکمِ مطلق‘‘ اور ’’حکمِ معیّن‘‘ کے مابین اتنا فاصلہ (gap)  رہنا درست ہی نہیں... تو علماء پھر یہ حکمِ مطلق بھی کیوں بیان کرتے ہیں جب تک کہ وہ ’’افراد‘‘ پر حکم لگانے کا باقاعدہ کوئی سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے!؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ’ہم‘ ہی غلط ہوں؟ حکمِ مطلق اہل علم کے ہاں عین اِسی طرح بیان کیا جاتا ہو جس طرح کہ صورتِ مذکورہ میں ہوا...  جبکہ حکمِ معیّن کی جانب صرف خاص (بلکہ بہت خاص) صورتوں میں ہی رخ کیا جاتا ہو؟ خاص استثنائی صورتوں کے بغیر، حکمِ عام بیان کرتے چلے جانے سے ہی __  اہل علم کے ہاں __  دین کے کچھ مقاصد پورے کیے جاتے ہوں؟[5]

چنانچہ حکم بغیر ما انزل اللہ وغیرہ سے متعلق ’’علمی آراء‘‘ رکھنا کسی کے ہاں بھی[6]  اُس ’’تکفیر‘‘ میں نہیں آتا جواِس وقت ایک بحران کی صورت ہمارے عمل پسند طبقے کو نگلتا جا رہا ہے بلکہ جو دین کےلیے سرگرم جماعتوں کے مابین ایک نہ بجھنے والی آگ بھڑکانے کے قریب ہے (دشمن کا اگلا حربہ خدانخواستہ یہی ہے)۔ بلاشبہ وہ علمی آراء اور مواقف جو مدرسۂ قطب یا مدرسۂ نجد وغیرہ کے ہاں بیان ہو رہے تھے، اپنی جگہ درکار تھے اور معاشرے میں ایک بہت اعلیٰ سطح پر اذہان کو متاثر بھی کر رہے تھے۔ خاص طور پر جب سے ہمارا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ دین میں ایک غیرمعمولی رغبت ظاہر کرنے لگا ہے اور جب سے یہاں پر مغربی نظاموں اور فلسفوں کا فسوں ٹوٹا ہے۔ تاہم مغربی نظاموں سے بددل ہوکر آنے والے ہمارے پڑھےلکھے دماغوں کو ’’اسلام‘‘ کی بابت اپنے اشکالات دور کرنےاور اسلامی موضوعات میں گہرا جانے کےلیے ابھی کچھ وقت چاہئے تھا۔  مگر ’’تکفیر‘‘ کے حالیہ رجحانات اور ان سے پیدا ہونے والے فکری بحرانات نے نہ صرف ان سوالات کو بےطرح الجھا دیا ہے بلکہ وہ علمی مناہج بھی جو اِن جدید اذہان کو کامیابی کے ساتھ متاثر کر رہے تھے اب ان کو خطاب کرنے میں کچھ اضافی مسائل کا سامنا کرنے لگے ہیں۔

پس ’’حکم بغیر ما انزل اللہ‘‘ وغیرہ ایسے ابواب میں بیان ہونے والے وہ علمی مواقف تو جو مدرسہ مودودی و سیدقطب یا مدرسہ حجاز و نجد وغیرہ کے ہاں پائے گئے –  کم از کم جب تک ’’تکفیر‘‘ کے یہ عشرے شروع نہیں ہوئے تھے     اپنے ایک انداز سے معاشرے کے اعلیٰ طبقوں کو متاثر کر رہے تھے اور مغربی پیراڈائم کو یہاں کے علمی حلقوں کے اندر ایک اعلیٰ سطح کی مزاحمت دینے میں کامیابی بھی پا رہے تھے۔ لہٰذا ہمارا مسئلہ اُس حکمِ مطلق والی اپروچ کے ساتھ نہیں۔

یہاں ہمارا مسئلہ اس نئی رَو کے ساتھ ہے جو:

ý      لوگوں کو معیّن کرکے ’’کافر  مرتد‘‘ کہنے کی ایک باقاعدہ تحریک کی صورت برپا ہے۔ جس کے باعث علمی حلقوں تک کےلیے آج یہ مشکل ہوگیا ہے کہ یہ اپنے وہ علمی مباحث اُسی معمول کے ساتھ بیان کریں جو اس سے پہلے تھا (کہ اُس وقت ایک چیز کے غلط استعمال کا اس قدر امکان نہیں بڑھا تھا۔ البتہ اب تو یہ شاید ’فتنہ کے وقت اسلحہ بیچنے‘ کے مترادف ہوگیا ہو)۔

ý      ساتھ میں ’خون‘ مباح کرنے کا عمل جڑا ہے۔

ý      اور اس تمام پروسیجر کے عمل پانے کےلیے اپنے اعتماد کے چند ایسے لوگ کافی ہیں جنہیں ’علماء‘ باور کرلیا گیا ہو۔ اِس آخری چیز نے سمجھداروں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔  آخر کیا مشکل ہے کہ ہر نیا گروپ اپنے اعتماد کے چند علمی نام پیش کردے اور امت کے زیادہ سے زیادہ طبقوں کا خون مباح کرنے لگے؟ لامحالہ؛ یہاں جو مسائل ’’امت‘‘ کی سطح کے ہیں – خلافت کی غیرموجودگی میں –   ان کی بابت ’’فتویٰ‘‘ کےلیے ’’امت‘‘ کی سطح کے کچھ سٹینڈرڈ رکھنا  ضروری تھا۔ ورنہ یقینی ہے کہ چند ناپختہ ذہن پوری امت کو ایک نہ ختم ہونے والی خونریزی ایسے کسی بھی معاملہ میں الجھا سکتے ہیں جسے روکنے کی کوئی دلیل آپ اس لیے اپنے پاس نہ رکھیں گے کہ یہ اصول پہلے سے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آپ اپنے اعتماد کے کسی ایک آدھ بندے کو عالم سمجھتے ہوئے یا خود کو اس پوزیشن میں پاتے ہوئے ’’تکفیر‘‘ اور ’’خون‘‘ کے معاملات نمٹا دیا کریں اور امت میں باقی علماء کو غیرموجود تصور کرلیا کریں!

یہ ایک بڑی ہی خطرناک سمت تھی جس کےلیے زمین پختہ کرائی جاتی رہی... اور ناصحین کے انتباہات بھی شاید سنے ان سنے ہوتے رہے۔

پھر اس کے ساتھ ... امت کے فقہی کنونشنز کو چٹکیوں میں اڑا دینے کی روش۔

خاص طور پر ہمارے فقہاء کا منہج تیسیر۔ (فقہ میں معاملات کو آسانی کے رخ پر چلانا)

آپ ایک بات کے قائل نہیں تو بھی شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ لیکن دوسرے اگر متقدمین فقہاء میں سے جمہور کی آراء پر چلتے ہیں جبکہ معاصر فقہاء  کے جمہور بھی اسی رائے پر ہوں تو اس کو ایک معتبر علمی رائے ہونے کی چھوٹ تو کم از کم دیں! اور اس کو ’دلیل‘ سے اڑا کر رکھ دینے کا وہ اسلوب تو اختیار نہ کریں جو جمہور فقہاء کی رائے پر چلنے والوں کو ’’باطل پرست‘‘ رنگ میں پیش کرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں ’’اخف الضررین‘‘ اور ’’مصالح و مفاسد کا موازنہ‘‘ کچھ علمی طریق استدلال ہیں خاص طور پر جب وہ علماء کے ہاتھوں انجام پا رہے ہوں۔  کافر سے استعانت کا مسئلہ ایک علمی موقف ہےاور روس کے خلاف جہاد کے وقت سے امت کے چوٹی کے علماء کے ہاں رو بہ عمل ہے۔ غرض اسی طرح کی کچھ دوسری مثالیں۔ جن میں آپ ایک بات سے متفق نہیں تو بھی مخالف کو اجتہادی روش پر ہونے کی حیثیت دیں۔ مگر یہاں زیادہ تر ان کو ’باطل پرستوں‘ کی صف میں ہی کھڑا کر کے دیکھا گیا، الاماشاءاللہ۔

*****

اس فکر کے رجال اپنے اخلاص، محنت اور قربانیوں کےلیے یقیناً لائقِ احترام ہیں۔ تاہم اگر ان اشیاء کو علمی حوالوں سے  دیکھا جائے، تو خود یہ افکار اور اِس کے رجال... عین ابتداء میں جہاں سے نمودار ہو کر آئے وہ کسی معروف فقہی مدرسہ کا تسلسل نہیں تھا۔ بےشک یہ ڈسکورس  اپنی بعض بنیادیں ابن تیمیہ کے مدرسہ میں دیکھ رہا تھا۔  لیکن جیساکہ ہم اپنے اداریہ میں اس طرف نشاندہی کر آئے ہیں؛ ہر مدرسہ اپنے یہاں ’’سخت‘‘ اور ’’نرم‘‘ کا پورا ایک پیکیج رکھتا ہے اور وہ اپنی اُس ’’کلیت‘‘ کے ساتھ ہی ایک مدرسہ ہوتا ہے۔ تاہم اگر آپ اس کی کسی ایک خاص جہت پر ترکیز کر لیں تو باوجود اس کے کہ اس کے حوالے دینے میں آپ غلطی نہیں کر رہے ہوتے مگر اس کی ایک کلی تصویر پیش کرنے میں آپ بےحد غلط ہوتے ہیں۔  یہ ملاحظہ قوی طور پر آپ کو یہاں بھی پیش آتا ہے۔ ابن تیمیہ کا ’’منہجِ تیسیر ‘‘ خصوصاً مصالح کا اعتبار، مثالیت سے دور رہنے اور واقعیت کو اختیار کر رکھنے، ایک بری سے بری سماجی صورتحال کے گھمسان میں جا اترنے، اس کے اندر جا کر اصلاح کرنےاور ’عزلت و علیحدگی‘ کی نفسیات کو شدید رد کرنے ایسی اشیاء کو ’’ابن تیمیہ کے منہج‘‘ سے نکال دیں تو  اس منہج کا دوسرا پہلو (عقائدی شدت و صلابت) خودبخود اپنا وہ نسبت تناسب کھو دیتا ہے جو اس کی ایک مجموعی ہیئت برقرار رکھے ہوئے تھا... یا پھر وہ ’’ابن تیمیہ کے منہج‘‘ کو کوئی اور منہج بنادیتا ہے! جس کی بہرحال یہ کوئی واحد صورت نہیں؛ آج بہت سے ’اور مناہج‘ اپنے آپ کو ’ابن تیمیہ کے منہج‘ کے طور پر ہی پیش کر رہے ہیں۔

ستم بالائے ستم.. ’’تکفیر‘‘[7]، اس کی بنیاد پر ’’مسلم ملکوں کے اندر قتال‘‘ اور ’’فقہی عدم تیسیر‘‘ کی یہ روش سب سے زیادہ ابن تیمیہ کے مدرسہ میں اپنے جڑیں رکھنے کا دعویدار ہے۔ اس کے بعد یہ ڈسکورس شاید کچھ اور اہل سنت مدارس میں بھی اپنی بنیادیں دیکھنے لگا ہے، مثال کے طور پر برصغیر کے اکابر دیوبند۔  مگر یہاں بھی ہمارے خیال میں ایک مدرسہ کی ’’کلیت‘‘ اس بات کی مؤید نہ ہوگی۔ اوراصل چیز ’’کلیت‘‘ ہے۔ برصغیر کے اکابر دیوبند یا اکابر اہلحدیث نے انگریزی سرکار کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کے جو تاریخ ساز کارنامے انجام دیے اور بلاشبہ کاتبِ تاریخ کے سامنے ’’مسلم ہند‘‘ کو سرخرو رکھا... تو وہ جہاد کا وہی روایتی تصور ہےجس کی ایک جھلک ہمیں اپنے اِس دور میں ملتی ہے تو وہ عبداللہ عزام مع قائدینِ افغان جہاد (قائدین افغان جہاد کی بعض شخصیات بعد ازاں امریکی حملہ آور کی جھولی میں جا گریں، تو یہاں البتہ وہ اکابر دیوبند کی راہ پر نہ رہیں؛ ان کے ہاتھ سے استقامت کا سرا یقیناً چھوٹ گیا)، ملا عمر اور ان کے رفقائےکار جو کافر امریکی حملہ آور کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں اور تحریکِ حماس ودیگر فلسطینی مجاہد تنظیمیں جو کافر یہودی قبضہ کار کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں، یا کشمیر میں ہندو کافر کے خلاف جہاد کرنے والی جماعتیں،  وغیرہ۔

واضح کردیں، افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ روسی حملہ آوروں کے خلاف، یا ملا عمر کے شانہ بشانہ امریکی حملہ آوروں کے خلاف جس بھی مسلمان نے جہاد کیا وہ اپنے عمل میں اس حد تک لائقِ ستائش ہی قرار پائے گا۔ کچھ غلط ہے تو وہ یہ کہ اگر کسی نے بعدازاں عالم اسلام کے داخلی محاذ پر جنگ اٹھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ البتہ ایک تباہ کن چیز ہے خواہ اس کا کرنے والا کوئی ہو۔ اس کے نتائج اِس وقت ہم عالم اسلام میں بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ صرف پورے کے پورے معاصر جہاد پر انگلی اٹھ جانے کی نوبت پیدا ہو گئی ہے بلکہ عالم اسلام کا پورا مزاحمتی عمل ہی اڑا کر رکھ دیا جانے لگا ہے۔ نیز عالم اسلام میں باطل کو رد کرنے والے تمام افکار اور تحریکیں تخریب کاری کے ساتھ جوڑی جانے لگی ہیں۔ جس سے ’مفاہمتی اسلام‘ والی جدت پسند آوازوں کی چاندی ہو گئی ہے۔

اس وجہ سے ہم بےحد زور دیں گے: جہاد کا صرف اور صرف روایتی ڈسکورس۔

برصغیر کے اکابر دیوبند یا اکابر اہلحدیث کا جہادی ڈسکورس، جسے ہم فی زمانہ سب سے بڑھ کر عبد اللہ عزام، ملا عمر اور احمد یاسین و محمد الضیف وغیرہ ایسے راہنماؤں کے ہاں پاتے ہیں، اسے ہم ’’روایتی‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ...:

1.                       ایک تو یہ اس کافر کے خلاف ہے جسے سیدھاسیدھا کافر کہنے میں امت کا کوئی نزاع نہیں، نہ تعمیم (عمومی قاعدہ بیان کرنے) میں اور نہ تعیین (ان میں سے ایک ایک کو معیّن کرکے کافر کہنے) میں۔ (جبکہ ایک ایسے دور میں جب امت کو اپنے روایتی مسلّمات پر کھڑا رہنا ہی دشوار ہو رہا ہو، ’’تکفیر‘‘ سے متعلق کچھ نئے چیپٹر پڑھانا اور پھر اس بنیاد پر ساتھ ہی اس کو ’’جہاد‘‘ کا ایک چیپٹر بھی کھول دینا اسے لامتناہی الجھنوں میں جھونکنے کے مترادف ہوگا)۔ جبکہ اکابر دیوبند و اہلحدیث اور ان کی راہ پر چلنے والی حالیہ جہادی تحریکوں کی اس بات کو ہم نہایت استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ امت کو اس کے پرانے روایتی مسلّمات کی بنیاد پر ہی ’’عمل‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کا ایک نقشہ دے رہے ہیں اور کسی نئی بحث میں نہیں لگا رہے۔

2.                       دوسرا، ان کے ہاں وہ روایتی فقہی تیسیر بھی برقرار ہے جو سیاسۃ شرعیۃ میں ازحد ضروری رہتی ہے، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب امت لخت لخت ہو اور جب ’’اضطرار‘‘ کی صورتحال ہمارے پہلے کسی بھی دور سے بڑھ کر ہو۔ چنانچہ ایک کافر کے مقابلے پر دوسرے کافر سے مدد یا تعاون لینے میں ان (دیوبندی و اہلحدیث) بزرگوں کے ہاں وہ سوالات کبھی نہیں اٹھے جو ہمارا حالیہ شدت پسند ڈسکورس اٹھا رہا ہے۔ مثلاً انگریز کے خلاف برسرِ جہاد اکابر دیوبند و اہل حدیث کو اس بابت کبھی اشکال نہیں آیا کہ اس قابض و متمکن انگریز دشمن کے خلاف جرمنوں سے مدد لینے کے امکانات تلاش کیے جائیں۔[8] یہاں تک کہ ہر دو (دیوبند و اہلحدیث)[9]  کی بعض شخصیات کا اڈولف ہٹلر کے ساتھ ملاقات کرکے آنا  اور یہاں سے انگریز کے خلاف مسلم ہند میں کوئی بڑی تبدیلی اٹھانے کی اسکیمیں بنانا تاریخ کا حصہ ہے۔ یہی چیز ہمیں عبداللہ عزامؒ کے ہاں نظر آتی ہے جو اُس جہاد کے حق میں مراکش تا یمن اور ترکی تا انڈونیشیا مسلم نوجوان کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوئے جو اس سات جماعتی اتحاد کی قیادت میں ہورہا تھا جسے سوویت یونین کے خلاف پورے مغربی بلاک کی حمایت حاصل تھی۔ اسی جہاد کی کوکھ سے ملا عمر کی تحریک جہاد پیدا ہوئی جس نے آج تک اپنے اُس جہاد پر استدراک نہیں کیا جو سوویت یونین کے خلاف لڑا گیا۔ اسی طرح حماس کے ہاں ایران سے کچھ مدد لےلینے میں وہ اشکال سرے سے کھڑا ہی نہیں ہوا جو ہمارے اِس شدت پسند ڈسکورس میں کفر اسلام کے فیصلے کر ڈالنے کی بنیاد ہے!

غرض یہ (شدت پسند ڈسکورس) ایک طرزِ فکر ہی بالکل اور ہے جو ان سب معاملات میں فوراً آپ کو ’’تکفیر‘‘ یا ’’تفسیق‘‘ کے سوال پر لے آتا ہے۔ اچھےاچھے نوجوان بیچارے یہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ میں فلاں کو رحمہ اللہ کہوں  یا ’احتیاط‘ افضل ہے!

ہمارے نزدیک اِس پورے ڈسکورس کو  ایک مراجعہ سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست راہ پہ آجائے تو اس میں امت کی تعمیر کےلیے بےحد پوٹینشل ہے۔ اخلاص غیرمعمولی ہے۔ قربانیوں کا کوئی حد وحساب نہیں ہے۔ تاہم اس کو مدارس اہل سنت کی مین سٹریم کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں کہ انحطاط کے ان ادوار میں:

ý      ’’ایمان‘‘، ’’عبادت‘‘ اور ’’جہاد‘‘ وغیرہ کے انہی ابواب اور مباحث تک محدود رہا جائے جنہیں اہل سنت کے کچھ بڑے بڑے مدارس کے ہاں پوری طرح اون own   کیا جاتا ہے، بغیر اس کے کہ اِن مدارس کی بعض اشیاء کو اپنے ہاں پائے جانے مباحث سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہو؛ جس سے لامحالہ کچھ نئی بحثوں کا  آغاز ہو؛ اور ان بحوث کااِس وقت کی مغلوب، مصروف اور الجھی اور بکھری ہوئی صورتحال میں خواص بھی حق ادا نہ کر پاتے ہوں؛ کجا یہ کہ عوام کو ان بحوث میں الجھایا جائے۔ عوام کو تو (کسی قسم کی بحثوں اور اختلافات میں الجھائے بغیر) آج  کبار علماء کے پیچھے چلا لیا جائے تو  بڑی بات ہےاور ان شاء اللہ خیر کا ایک بہت بڑا موجب۔ (ان حرکتوں کے باعث، اور کچھ دیگر عوامل کے تحت، ’’عوام‘‘ تو سرے سے دینی طبقوں سے دُور ہو چکے)۔ معلوم نہیں کس برتے پر یہاں ہر نیا طبقہ ایک ’سولو فلائٹ‘ لینے کی راہ چل پڑتا ہے۔

ý      اُن فقہی کنونشنز کو نہ چھیڑا جائے، کم از کم عوام کی سطح پر نہ ہلایا جائے، جو اِن مانے ہوئے  established  سنی مدارس کے ہاں معروف یا معمول بہٖ چلے آتے ہیں۔ تاکہ وہ یکسوئی کم از کم باقی رہے جسے انحطاط کے اِس وقت برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

اِن معاشروں کی قسمت بدلنے کےلیے ہمیں ایک ایسے منہج کی ضرورت ہے جو کسی خطے کے سنی عوام کو کم سے کم تبدیلیوں سے گزار کر  وہاں پر معاملے کی بساط الٹ دے۔



[1]    اور یہ وہ علماء ہیں جو جہادِ افغانستان کے پیچھے کھڑے رہے۔ جہاد فلسطین کےحق میں امت کو جگاتے رہے۔ چیچنیا، بوسنیا، کوسوا، کشمیر مسلمانوں کے ہر زخم  کو محسوس کرتے اور کراتے رہے! خلیج میں امریکی بوٹ لگنے پر بلندترین آواز میں بولتے رہے۔ وغیرہ

[2]    ’’علمی آراء‘‘ سے مراد مجرد نظری بحثیں نہیں۔ مراد یہ ہے کہ: معیّن افراد کو مرتد قرار دینے کا سلسلہ ہمیں ان اہل علم کے یہاں شروع ہوا نظر نہیں آتا۔ ورنہ یہ تو طےشدہ امر ہے کہ ایک بات کو ’’فتویٰ‘‘ کی زبان سے دور رہتے ہوئے جب ’’عموم‘‘ کے انداز میں کیا جائے تو  وہ بھی سرزنش اور زجر و توبیخ کا ایک نہایت مؤثر معنیٰ دے رہا ہوتا ہے؛ بلکہ وہ فائدہ قولِ بلیغ کا یہ اسلوب اختیار کرنے سے ہی ملتا ہے۔ ( ادھر بعض حضرات کا خیال کہ جب تک آپ معیّن کرکے افراد کو مرتد نہ کہیں تب تک  عمومیات کے اسلوب میں گفتگو کا فائدہ ہی کیا!)

[3]   ان رجحانات کی سطحیت کا تو یہ حال ہے کہ کوئی ایک کلمۂ خیر کسی کےلیے کہہ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اُس کے ’ہم خیال‘ ہوئے! اور کوئی ایک تنقید کا جملہ لکھ دینے کا معنیٰ یہ کہ آپ اُس کے ’شدید مخالف‘ ہوتے ہیں! اس کے بعد مسلمانوں کے مابین کیا علمی باتیں ہوں اور کیا خیراندیشی! سب کچھ اِس نئے کلچر کے ہاتھوں ختم ہونے کو ہے۔ شاید ایک ہی چیز باقی رہ جائے اور وہ جارج بش کا اصول: یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف، تیسرا کوئی خانہ یہاں آپ کی سہولت کےلیے رکھا نہیں گیا ہے!

[4]   فتویٰ کی عبارت اس ویب سائٹ سے دیکھی جا سکتی ہے:  http://goo.gl/XCk7ey 

[5]   کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ شریعت میں ’’حکمِ معیّن‘‘ نہیں ہے۔تاہم حکمِ مطلق لگانے سے حکمِ معین کا لازم آنا ہر حال میں ضروری نہیں۔

[6]   سوائے چند ارجائی طبقوں کےجواحمد شاکر اور مفتی محمد ابراہیم کے طرزِ فکر کو بھی ’’تکفیر‘‘ کے کھاتے میں ڈالنے پر مُصر نظر آئیں گے۔

[7]   جس کی صورت اوپر بیان ہوئی۔ اس کو کسی مطلق معنیٰ میں نہ لیا جائے۔

[8]   تدبیری طور پر یہ بات کہاں تک صائب تھی، یہ بحث الگ ہے۔ یہاں مقصود مسئلہ کی شرعی جہت ہے، جو ان بزرگوں میں سے کسی کے ہاں محل اشکال نہ تھی۔

[9]   دیوبند سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن﷫ اور اہلحدیث سے مولانا فضل الٰہی وزیرآبادی﷫۔ دونوں کا آزادیِ ہند کے سلسلہ میں ہٹلر سے رابطے ہونا تاریخ میں مذکور ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات
تنقیحات-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رواداری کی رَو… اہلسنت میں "علی مولا علی مولا" کروانے کے رجحانات حامد کمال الدین رواداری کی ایک م۔۔۔
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں
بازيافت- تاريخ
بازيافت- سيرت
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
ہجری، مصطفوی… گرچہ بت "ہوں" جماعت کی آستینوں میں! حامد کمال الدین ہجرتِ مصطفیﷺ کا 1443و۔۔۔
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
لبرل معاشروں میں "ریپ" ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی حامد کمال الدین بنتِ حوّا کی ع۔۔۔
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے
احوال- وقائع
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مدفن کی بےحرمتی کا افسوسناک واقعہ اغلباً صحیح ہے حامد کمال الد۔۔۔
"المورد".. ایک متوازی دین
باطل- فرقے
ديگر
حامد كمال الدين
"المورد".. ایک متوازی دین حامد کمال الدین اصحاب المورد کے ہاں "کتاب" سے اگر عین وہ مراد نہیں۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز