مسلمانو! | |
| کیا بائیکاٹ بھی نہیں؟؟؟! | |
ایک یہی سوچ آدمی کو شرمندہ کر دینے کیلئے کافی ہے کہ آخر میرے ہی زمانے میں میرے نبی کی ناموس پر تابڑ توڑ حملے کیوں ہونے لگے ہیں اور کیوں دنیا اِس پر شیر ہو گئی ہے؟ آخر میرے ہی زمانے میں شاتمین رسول دنیا میں اس قدر کیوں دندنانے لگے ہیں اور ان کا کوئی بھی علاج کرنے سے امت اس قدر عاجز اور بے بس کیوں دیکھی جا رہی ہے کہ ایسی لاچاری اس امت کو پوری تاریخ میں کبھی لاحق ہی نہ ہوئی تھی؟ اپنے نبی کے حق میں ایسے دشنام یہ امت اِس سے پہلے بھلا کب سنتی تھی؟ ہم میں سے بہت اچھے لوگ یقینا وہی ہوں گے جنہوں نے اِس پر بھرپور آواز اٹھائی اور سراپا احتجاج ہوئے، کیونکہ اور تو کوئی اپنے نبی کے حق میں یہ بھی نہیں کر سکا....! لیکن یہ احتجاج، جوکہ بے حد ضروری تھا، ہے تو بے بسی کا ہی ایک ثبوت! ورنہ نبی کا حق صرف اتنا ہی تو نہیں! ہم میں کچھ جان ہوتی تو کیا نبی کو گالی دینے والوں کے خلاف صرف ’احتجاج‘ ہی کرتے؟
یہ ایک سوچ ہی آدمی کو شرمسار کردینے کیلئے کافی ہے کہ آج میرے جیسے امتی دنیا میں ہوئے تو نبی کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے معاملہ میں ہم پر یہ وقت آیا۔ امت آخر افراد ہی سے تو بنتی ہے۔ جب کبھی اِس کے آگے براعظم تھراتے تھے تب بھی یہ کچھ ’افراد‘ ہی سے بنی ہوتی تھی، جوکہ تعداد میں ہم سے بہرحال کم تھے، اور آج اگر یہ دنیا کے ہر بدمعاش کیلئے لقمۂ تر بنی ہوئی ہے، اپنے درو دیوار اور اپنی عصمتوں پر ہی دشمن کے حملوں کو بے بس ہوکر نہیں دیکھتی ، اپنے نبی کی ناموس پر ہونے والوں حملوں پر بھی صرف ’آواز‘ اٹھا سکتی ہے اور وہ بھی کسی حد تک ہی.... تو آج بھی یہ امت کچھ ’افراد‘ ہی سے تشکیل پاتی ہے، جوکہ میرے جیسے افراد ہیں!
بخدا، ایک یہی سوچ ہی آدمی کو پانی پانی کر دینے کیلئے بہت کافی تھی، کہ میں ہوا تو یہ دن دیکھنے کو ملے کہ اپنی مقدس سے مقدس چیز کیلئے گالی کھا کر بھی خاموش بیٹھ رہنے یا زیادہ سے زیادہ ’واویلا‘ کر لینے کے سوا ہم کچھ کرنے کا سوچ تک نہیں سکتے! زندہ قومیں صرف گالیاں کھانے اور بم سہنے کیلئے تو نہیں ہوتیں....! مگر ایسے ’امتی‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جو اِس پر ’لاچاری‘ اور ’بے بسی‘ محسوس تک نہ کر سکے؟ جو یہ جاننے کیلئے بھی پریشان نہ ہو کہ نبی کی حرمت وناموس کے سوال پر جو ”سب کچھ“ کر دینا اپنے بس میں نہیں، اور جس پر اتھاہ ندامت اور افسوس ہونا ہر امتی پر نبی کا کم از کم حق ہے، تو بھی وہ ’کچھ نہ کچھ‘ جو اپنے نبی کی خاطر میرے کر لینے کا ہے آخر وہ کیا ہے؟
بے شک اِس معاملہ میں ایک عام مسلمان کے فرائض کی فہرست طویل ہے۔ ”امت“ اگر اِس چیز سے عبارت ہے کہ ’وہ کس قسم کے افراد کا مجموعہ ہے؟‘ تو فرد کے جملہ فرائض کا نقشہ بس یہیں سے تشکیل پا جاتا ہے۔ وہ ”بنیانِ مرصوص“ جو ہم سے قرآن کا مطالبہ ہے ایک خاص قسم کی ’خشت‘ چاہتا ہے اور ایک خاص انداز کی ’چنائی‘۔ جب تک ہر فرد اس امت کو خود اپنی صورت میں اور ’خشت ہائے دیگر‘ سے اپنے جڑنے کی صورت میں ایک ”قوت“ فراہم کر کے نہیں دیتا تب تک بے بسی اورلاچاری کی یہ حالیہ صورت کہیں جانے والی نہیں۔
پس وہ فہرست تو بہرحال طویل ہے جو اِس صورتحال کو بدل دینے کیلئے مطلوبہ فرائض کا ایک وسیع تر نقشہ دکھا سکے، اور اس کا ذکر تو ہم یہاں کر بھی نہیں رہے، لہٰذا کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اِس معاملہ میں ’احتجاج‘ اور ’بائیکاٹ‘ ہی وہ کل دو فرض ہیں جو ہم کسی کو اِس باب میں تجویز کر کے دے سکتے ہیں۔ البتہ ہم تو اِس وقت یہ سوال اٹھانا چاہ رہے ہیں کہ کوئی شخص اپنے نبی کیلئے (معاذ اللہ) گالی سن کر احتجاج کرنے تک کا روادار نہیں ہوتا، چیخ تک نہیں پڑتا، دشمن کو ذرہ بھر نقصان پہنچانے اور ذرہ بھر سبق سکھانے کا خیال تک اسے نہیں آتا، وہ شخص اپنے نبی اور اپنی امت کے کس کام کا؟
حضرات! کیا ایسے وقت میں جب ہمارے دین اور ہمارے نبی کے نام پر ہمیں گالیاں پڑ رہی ہوں، ایک ’نہایت معمول کی زندگی‘ گزار لینا ہی ’امتی‘ ہونے کی علامت ہے؟ اپنے نبی کے دشمن کو ’بزنس‘ دے دے کر خوشحال کرنا اور اسکی دولت اور تونگری میں اضافہ کرنا ہی کیا نبی کے دشمن کا وہ حق ہے جو ہمارے گلی محلوں سے وہ بے تحاشا وصول کرتا پھر رہا ہو؟.... اِسلئے نہیں کہ معاذ اللہ امت کو اپنے نبی کی پروا نہیں بلکہ اسلئے کہ امت کے ایک بڑے طبقے میں آج یہ شعور مفقود ہے کہ معیشت اِس دور کا کس قدر ایک بھاری ہتھیار ہے اور اسکو کس کاری انداز میں برتا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ قومیں لڑے بغیر محض اِس ہتھیار کے نہایت مؤثر اور مسلسل استعمال کے نتیجے میں دشمن کے گھٹنے ٹکوا دیتی ہیں۔
ہمارے بس میں کچھ اور نہیں، ہم میں سے بیشتر کے ہاتھ میں، بلکہ ہر کسی کی دسترس میں ایک یہی معاشی ہتھیار ہے، جوکہ نہایت گہری اور دور رس مار رکھتا ہے، تو کیا ہم اپنے نبی کے دشمن کے خلاف یہ ایک ہتھیار برتنے میں بھی بے دلی اور کم ہمتی دکھائیں؟ محض اس لئے کہ ہم میں سے کسی کو ڈنمارک کے خشک دودھ کی چائے پئے بغیر ’مزہ‘ نہیں آتا، تو کسی کا توس اسکینڈینیویا کے پنیر سے نہ چپڑا جائے تو اس کا ’ناشتہ‘ ادھورا رہ جاتا ہے ،اور کسی کو ڈینش چاکلیٹ نہ ملے تو اس کا ’سرور‘ نامکمل رہتا ہے؟ اور کسی کو اپنے ٹیلی فون میں دشمن کی سم کے سوا کوئی اور سم اچھی نہیں لگتی؟ کتنے ہیں جو دشمن کی ’پیٹنٹ‘ کمپنی کی تیار کردہ بوتل نہ پئیں تو کھانے کے بعد وہ اپنے مطلب کی ’ڈکار‘ سے محروم رہتے ہیں! روزمرہ استعمال کی پراڈکٹس پر دشمن کا لیبل نہ ہو تو درخور اعتنا نہیں ہوتیں! حضرات! کیا ’امتیوں‘ کی ایسی قسم بھی ہم سے پہلے کبھی دیکھنے میں آئی تھی؟؟؟
بخدا یہ ایک موقعہ تھا اور ہے کہ نبی کے حق میں ہم اگر غیرت مند بن کر دکھائیں تو یہیں سے اپنی ملی وقومی زندگی میں بھی ہم اپنے لئے خود داری اور خود انحصاری کی ایک زور دار جہت برآمد کر لیں اور اس کشکول کو توڑ دینے کیلئے، جس نے سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی ہمیں بھکاری بنا رکھا ہے، اپنی صفوں میں خودبخود ایک داعیہ اور قوت ارادی پیدا ہوتی دیکھیں۔ نبی کے حق میں بولنے اور نبی کیلئے دشمن سے بگڑ کر دکھانے کا یہ ایک خدائی انعام ہوتا جو ہماری دنیا بھی سنوار جاتا اور آخرت بھی۔ مگر یہ بات افسوس کے ساتھ کہی جائے گی کہ ہماری اسلامی قیادتیں اس پروگرام کو جو عالم اسلام میں عزت نفس اور خود انحصاری کی ایک نئی لہر دوڑا سکتا تھا خاطر خواہ حد تک اپنے ایجنڈے پر نہیں لا پائیں، یوں اس موضوع پر ایک بھرپور تحریک تاحال نہ اٹھائی جاسکی۔ اب بھی وقت نہیں گیا، بلکہ آنے والے دنوں میں شاید یہ گرد ابھی اور اٹھنے والی ہے، کہ اس معرکے میں نبرد آزما ہونے کیلئے جس قدر ہتھیار امت کو اٹھوائے جاسکتے ہوں اٹھوا دیے جائیں۔
معاشی ہتھیار کو کفار اپنے ناجائز مقاصد کیلئے برتتے ہیں تو اہل اسلام اس کو مقاصدِ حق کیلئے کیوں نہیں برت سکتے؟ اس کو ظلم کیلئے برتنے والا گناہ کرتا ہے تو اس کو دفع ظلم اور مقاصدِ خیر کو بروئے کار لانے کیلئے برتنا باعث ثواب بھی تو ہوگا!
امت اسلام میں اس سنت حسنہ کا اجراءشاید صحابیٔ رسول ثمامہ ابن اثالؓ کے حصے میں آتا ہو۔ یہ بنی حنیفہ کے سردار تھے۔ ایک زرخیز خطہ ہونے کے ناطے ان کا علاقہ یمامہ ہی قریش مکہ کیلئے غلہ کی فراہمی کا مصدر تھا۔ ثمامہؓ مدینہ میں اسلام لائے اور عمرہ کیلئے مکہ گئے، تو قریش نے انہیں طعنہ دیا: کیا بے دین ہوگئے ہو؟ جواب دیا: نہیں، بے دین نہیں ہوا، بلکہ محمدﷺ کا ساتھی بن کر مسلمان ہوا ہوں، بخدا اب جب تک محمدﷺ ہی اذن نہ دیں تب تک تمہیں یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا۔ (یہ واقعہ صحیحین میں مذکور ہے)
یوسف علیہ السلام نے اپنے سگے بھائی کو حاصل کرنے کیلئے اپنے ان سوتیلے بھائیوں کو جو ان پر ظلم کر چکے تھے، یہ کہا تھا کہ اگر وہ ان کے بھائی کو لا کر نہ دیں تو ہرگز کوئی اناج ان کو نہ دیا جائے گا، تاآنکہ وہ اسے یوسف علیہ السلام کے پاس لے کر آنے پر مجبور ہوئے۔ (دیکھئے سورہ یوسف: آیت 60-59)
برادرانِ یوسف ؑ تو تھے بھی مسلمان موحد، یوسف علیہ السلام کا مقصد صرف اپنے بھائی کو منگوانا تھا۔ پھر کفار ومشرکین کو ان کی خباثت اور شرارت سے باز کروانا ہو تو یہ ضروری کیوں نہ ہوگا کہ ہم انہیں اپنے یہاں سے ایک دھیلہ فائدہ پہنچانے کے روادار نہ ہوں؟ نبیﷺ کیلئے اظہار حمیت میں یہ کیوں لازم نہ ہوگا کہ بجائے اس کے کہ ہم ان کی معیشت کو اپنے خون پسینے کی کمائی سے فربہ کریں، ان کی معیشت کو اپنے یہاں سے دیوالیہ کر کے بھیجیں؟ ’پیسہ‘ ہی تو ہے جس کی زبان یہ سمجھتے ہیں!
سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو کمال انداز میں سراہا ہے اور ان کے ایک ایک اقدام پر اُن کیلئے ’عملِ صالح‘ لکھے جانے کی نوید دی ہے جو اللہ و رسول کے ساتھ برسرجنگ کفار کو زک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے:
بِأَنَّهُمْ لاَ يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلاَ نَصَبٌ وَلاَ مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَطَؤُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلاَ يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلاً إِلاَّ كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌٍ (التوبۃ: 120)
”اس لئے کہ ان کو جو بھی پیاس یا تکلیف یا فقر وفاقہ اللہ کی راہ میں پہنچے، اور وہ جس بھی زمین کو روندیں کہ جس سے کفار کو غیظ پہنچے، اور وہ دشمن کو جو بھی زک پہنچائیں، تو اس کے بدلے میں ان کیلئے ایک عمل صالح لکھ دیا جاتا ہے“
واقعۂ صلح حدیبیہ سے کشید ہونے والے فوائد کے ضمن میں امام ابن قیمؒ ذکر کرتے ہیں: انہی (فوائد) میں اس بات کا استحباب آتا ہے کہ خدا کے دشمنوں کو غیظ پہنچایا جائے، چنانچہ نبیﷺ نے عمرۂ حدیبیہ کیلئے لائے گئے قربانی کے اونٹوں میں ابو جہل کا (بدر کے غنائم میں پایا ہوا) وہ اونٹ بھی چڑھاوے میں دیا جو اپنی چاندی کی نکیل سے صاف پہچان میں آتا، جس سے آپ کا مقصد کفار کو غیظ پہنچانا تھا۔ (زاد المعاد: 3: 301)
علاوہ ازیں نبیﷺ نے فرما رکھا ہے: جاہدوا المشرکین باَموالکم واَیدیکم واَلسنتکم (النسائی: ۵۴۰۳، صححہ الالبانی) ”مشرکین سے جہاد کرو، اپنے مالوں کے ساتھ،اپنے ہاتھوں کے ساتھ، اپنی زبانوں کے ساتھ“
کئی اچھے اچھے دینداروں کو یہ ’دلیل‘ دیتے سنا گیا ہے کہ یہ ’بوتلیں‘ اور یہ ’چاکلیٹ‘ دشمن سے نہ لیں تو کیا پھر طیارے اور ٹیکنالوجی بھی اس سے لینا بند کر دیں گے؟! یہ حضرات اگر ’ضروریات‘ (necessities)، ’حاجیات‘ (needs) اور ’تحسینیات‘ (perfections) کی اُس سہ گانہ تقسیم سے واقف ہوتے جو علمائے مقاصدِ شریعت کے ہاں پائی جاتی ہے تو ’پیک ملک‘ اور ’چاکلیٹوں‘ کا قیاس ’طیاروں‘ اور ’ٹیکنالوجی‘ پر نہ کرتے۔ ایک چیز کے بغیر صبر کر لینا ہمارے لئے بے حد فائدے کا اور ہمارے دشمن کے حق میں بے حد نقصان دہ ہے، وہ اُس چیز پر قیاس کیونکر ہو سکتی ہے جس کے بغیر ہم نقصان میں رہتے ہوں اور دشمن سراسر فائدے میں؟ ایک چیز جس کے بغیر زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہو کیا اس چیز کے برابر ہوسکتی ہے جس کی حیثیت منہ کے ذائقے سے بڑھ کر کچھ بھی نہ ہو؟
یہ بھی کہا گیا کہ دیکھا، مسلمانوں نے ڈنمارک کا بائیکاٹ کیا تو دیگر مغربی ممالک نے اس کی مدد کی حامی بھرلی، تو پھر ہمیں اس بائیکاٹ کا کیا فائدہ ہوا؟ حضرات ہم یہی تو چاہتے ہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک ملک دیوالیہ ہوکر اپنے برادر ملکوں کے ہاں بھیک مانگتا پھرے کہ پتہ چلے امتِ محمد کسی کو کنگال کر سکتی ہے!
یہ کہنا بھی کوئی وزن نہیں رکھتا کہ ڈنمارک کے ساتھ ہی اٹلی، ہالینڈ اور نہ جانے کون کونسے ملک کود پڑے ہیں تو پھر کیا سب کا بائیکاٹ کریں گے؟ بلاشبہ ہم تو سب کے بائیکاٹ کا کہیں گے، لیکن قوم کی صفیں بنوانا آج اس دورِ ابتری میں اگر آسان نہیں تو اس معاملہ میں مرحلہ واریت بری نہیں۔ کہا جاتا ہے ریوڑ میں کسی ایک ہرن پر جب شیر کی نظر ٹک جاتی ہے تو پھر دوسرے ہرن چاہے آس پاس پھرتے رہیں وہ اس ایک ہرن کو بہرحال نہیں چھوڑتا۔ ایک تو، یہ شیر کی شان کے خلاف ہے اور دوسرا، اگر وہ ہر ہرن کے پیچھے بھاگنا شروع کردے تو کسی ایک کو بھی نہ ’پکڑ‘ سکے!