عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2010-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
پس چہ باید کرد
:عنوان

فرائضِ دین کی سہ گانہ تقسیم: توحید، عبادت، جہاد

. اصولمنہج :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

Download in PDF Format

  بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الحمد للہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ

  پس چہ باید کرد۔۔۔۔؟  
اداریہ

  أما بعد
اس بار کا اداریہ اُسی سیریز کا حصہ ہوگا جو ’وہ ذہنی تبدیلی جس کی ضرورت ہے‘ کے تحت وقفوں وقفوں سے اداریوں کی صورت ایقاظ میں دی جاتی رہی ہے۔ اس مضمون کو آگے بڑھانا ہمارے اپنے پیش نظر تو تھا ہی، تاہم اس مضمون کے قید تحریر میں لائے جانے کا باعث قارئین کے وقتاً فوقتاً موصول ہونے والے کثیر سوالات بھی بنے ہیں، جو کہ بیشتر ملتے جلتے مضمون کے ہیں ، مگر ہم ان میں سے چند سوال یہاں نقل کریں گے:
(کفر کے ملکی نظام پر روز بروز چھاتے چلے جانے کے متعدد مظاہر ذکر کرنے کے بعد):
”ادھر ہمارے اپنے ہاں ایک شدید کنفیوژن پائی جارہی ہے گویا راستہ ہی کسی طرف کو نہیں جا رہا۔ بلکہ میں تو کہوں گا ایک طرف دھندلاہٹ، بے یقینی اور گو مگو کی کیفیت نے ہمارے ہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو دوسری طرف جنونیت اور انتہا پسندی نے۔ میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کیا سمجھتے ہیں ایک مسلمان کو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ اس موجودہ صورتحال میں خود ہماری ذمہ داری کیا ہے“؟
(مرسل: کامران قریشی - راولپنڈی)
”دین کیلئے کئے جانے والے کام کے کئی ایک طریق کار اس وقت میدان میں ہیں۔ آپ ان میں سے کس کے مؤید ہیں؟ اب ایک چیز ہم آپ کے ہاں ’اصول اہلسنت‘ کے عنوان کے تحت بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس نام کے تحت کام کرنے والے کئی طبقے یہاں پہلے ہی پائے جاتے ہیں اور اس پر کتب بھی بے شمار ہیں۔ کیا یہ واقعتا یہاں کے مسائل کا کوئی ایسا حل ہے جو اب تک نہیں پایا گیا؟
(مرسلہ: ع۔ ح - کراچی)
”میں ایک نوجوان ہوں ۔ زندگی کو اللہ کی منشا کے مطابق گزارنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ مگر میرے دینی فرائض ہیں کیا کیا؟ اس معاملے میں بہت سی باتیں واضح ہیں تو بہت سی غیر واضح۔ اس ابہام کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اتنا کچھ سننے کو ملتا ہے کہ فیصلہ کرنا آسان نہیں، یعنی اتنی متعارض چیزیں اسلام ہی کے نام پر سننے کو ملتی ہیں بلکہ کتاب و سنت ہی کے نام پر۔ اب آپ سے بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں میرے دینی فرائض فی زمانہ کیا ہیں؟
(مرسل: محمد شہباز - وہاڑی)
فرائض ِ دین عمومی طور پر دو اصناف میں منقسم ہوتے ہیں:
الف: ایک انفرادی حیثیت میں انجام دیے جانے والے فرائض: جوکہ اہم تر ہیں اور انسان کی توجہ و ترکیز کے زیادہ حقدار: مانند صلوٰۃ، زکوٰۃ، صیام وغیرہ۔ ان فرائض کی ادائیگی کیلئے بھی ایک اجتماعی شکل پائی ضرور جاتی ہے مگر یہ واضح ہے کہ ’بندے اور خدا کا باہمی رشتہ‘ ہی ان فرائض کی مرکزی ترین حقیقت ہے ۔ ”انفرادی فرائض“ میں ہی رہن سہن اور خانگی حقوق و واجبات بھی آتے ہیں اور لین دین و سماجی تعلقات سے متعلق حقوق و فرائض اور حلال و حرام پر مبنی ”حدود اللہ“ بھی۔

یہ درست ہے کہ دین کے جملہ فرائض اور عبادات باہم مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں، مگر یہ سمجھنا بے حد غلط ہے کہ فرائض و عبادات کی یہ اول الذکر صنف، فرائض کی دوسری صنف (یعنی اجتماعی سرگرمی سے متعلق فرائض) کی خدمت کیلئے ہی دین میں رکھی گئی ہے اور یہ کہ اِن عبادات کی اصل غایت بس یہی ہے کہ یہ انسان کو ایک نہایت اعلیٰ پائے کی ’اجتماعی جدوجہد‘ کیلئے تیار کرے! ایسا سمجھنا ایک نہایت سنگین غلطی ہو گی۔ صلوٰۃ و صوم ایسی عبادات، جوکہ خالق کی تعظیم و تقدیس کے نہایت خوبصورت و متنوع پیرائے ہیں، دین کے اندر فی نفسہ مقصود ہیں۔ ان کی یہی حیثیت مان کر ان کو انجام دینا ہے اور اسی بنیاد پر ان عبادات و فرائض کو اپنی محنت و ریاضت کا میدان بنانا ہے۔
ان فرائض کی انجام دہی کیلئے، جوکہ فرائض کا اہم تر حصہ ہے، ظاہر ہے آدمی کا کسی ’جماعت‘ میں ہونا ضروری ہے اور نہ کسی ’اجتماعی نظم‘ کا حصہ ہونا۔ البتہ ہر شخص سے خدا کا یہ بہت بڑا مطالبہ ہے اور اس کے عمل درآمد پر ہر شخص کا اچھا خاصا وقت اور توجہ روزمرہ بنیاد پر صرف ہونا ضروری ہے۔ ہر شخص ہی کو اس کی انجام دہی کیلئے بہترین سے بہترین صورت پیدا کر نے کیلئے کوشاں ہونا ہے۔ حق یہ ہے کہ ’تعلیم‘ اور ’ارشاد‘ کا تو یہ ایک بہت بڑا موضوع ہونا ہی چاہیے، البتہ جہاں کہیں فرائض کی اِس صنف کو بھی ’تنظیمی‘ لائحہ جات‘ میں شامل کرنے کا تجربہ ہوا ہے ، گو نیک نیتی سے ہی ایسا کیا گیا ہوگا، وہاں اس کے نہایت نقصان دہ بلکہ بھیانک نتائج سامنے آتے دیکھے گئے ہیں۔ ’عبادات‘ اور ’فرائض‘ کا یہ حصہ وجود میں ہی اس لئے آیا ہے کہ ایک انسان کا خدا کے ساتھ براہِ راست معاملہ ہو۔ کوئی زمانہ تھا ان امور میں دخل در معقولات پر ’پیر‘ اور ’شیخ‘ وغیرہ کا حق مانا جاتا تھا اور آج ’شیخ‘ کی جگہ کسی حد تک ’تنظیمی لائحہ جات‘ نے لے لی ہے۔ ہمارا یہ مقصد نہیں کہ فرائض دین کے اس حصہ پر، جوکہ دین کا اہم تر حصہ ہے، ’شیخ‘ یا ’تنظیم‘ کا بہت زیادہ زور صرف نہ ہو، بلکہ ہم تو کہیں گے کہ اِسی پر ہی ان کا سب سے زیادہ زور صرف ہونا چاہیے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روزمرہ تعلیم و ارشاد میں یہی چیز ہمیں سب سے نمایاں اورجلی نظر آتی ہے، البتہ ’شیخ‘ یا ’تنظیم‘ کو اس محاذ پر محنت کا کچھ ایسا منہج دریافت کرنا ہوگا کہ ’مرشد‘ یہاں آخری حد تک روپوش ہو کر رہ جائے اور آدمی کی سب نظر اور توجہ ”خدا“ پر ہی ٹک جائے۔ مقصد یہ کہ ”محنت“ کا یہ ایک بے حد بڑا میدان ہے، سکھانے والے کے حق میں بھی اور سیکھنے والے کے حق میں بھی۔

ایک مبتدی کے حق میں لازم ہے کہ آغاز کے اندر قریب قریب اس کی کل توجہ اسلام کی انہی بنیادوں پر مرکوز کرا رکھی جائے اور ’اجتماعی جدوجہد‘ سے متعلقہ مباحث تو، جب تک ”اَصل ِ دین“ کے معاملہ میں بنیاد مضبوط نہ ہو جائے، اس کے ہاتھ میں نہ ہی تھمائے جائیں۔ (جبکہ یہاں بکثرت دیکھا گیا ہے کہ بنیاد تو ابتدا میں ہی ’اجتماعی جدوجہد‘ کے مقدمات سے رکھی جاتی ہے اور ’عبادات‘ کو زیادہ تر اس جدوجہد کے ’تقاضوں‘ کے طور پر لایا جاتا ہے، جس سے کہ ”دین“ کی ترتیب الٹ ہو جاتی ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نئے آنے والے لوگوں کو ”اسلام“ کا تعارف کرواتے ہوئے بکثرت ”ارکانِ اسلام“ ہی گنوانا اور بسا اوقات اس کے ساتھ ماں باپ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں وغیرہ کے حقوق کی ہی تاکیدیں کرنا، نیز انفرادی زندگی کے بعض بڑے بڑے گناہوں (کبائر) سے بچنے کی ہی تلقین فرمان۔۔ خاص اسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے۔ دین کی اساسی اور موٹی موٹی باتیں وہی ہیں جو ”ما الاِسلام؟“ ایسے پیرایوں میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے آنحضور کے جوابات میں، یا کوئی استفسار ہوئے بغیر بھی آپ کے خطبات اور بیانات میں، بکثرت وارد ہوئیں۔ رہے وہ ’اساسی فرائض‘ جو کسی ایسی حدیث سے ثابت کئے جائیں جو کسی جماعت کو بڑی کوشش اور محنت اور تلاش کے بعد ہی مل پائی ہو، تو باوجود اس کے کہ وہ حدیث اگر اصول حدیث کی رو سے صحیح ہے تو اس کو سر آنکھوں پر ہی رکھا جائے گا، تاہم زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ حدیث ”دین کے اساسی و بنیادی ترین فرائض“ تجویز کرنے کیلئے نہ ہو۔
اسی حقیقت کی ایک جھلکی اگر آپ دیکھنا چاہیں، تو سورۃ البقرۃ کو اول تا آخر پڑھ لینے سے بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ویسے تو دین کے ہر شعبے کی، مگر خاص طور پر فرائض و حقوق کی، جتنی تفصیل سورۃ البقرۃ کے اندر ہے شاید قرآن کی کسی اور سورت میں نہ ہوگی۔ جامعیت میں یہ سورت ایک نہایت خاص مرتبے پر ہے۔ عقیدہ، جدال، تاریخ اور سماجیات ایسے موضوعات پر کچھ دیر اگر بات نہ کریں، (گو قلب و ذہن کی ساخت میں ان موضوعات کو بھی نہایت کلیدی حیثیت حاصل ہے، مگر ان پر گفتگو کرنا ہمارے لئے یہاں ممکن نہیں) اور خاص ”عمل“ کا ہی ایک مختصر خاکہ سورۃ البقرۃ کے موضوعات سے نکالنا چاہیں __ جسے تیار کرتے وقت ہمارا مشورہ ہوگا کہ جتنے کسی نیک عمل یا رویے کے حق میں یا کسی برے عمل یا رویے کی ممانعت پر اس سورت میں آپ مؤکدات emphases دیکھیں اور جتنی اس ایک ہی سورت میں آپ اس چیزکی تکرار ہوتی دیکھیں، اسی کے بقدر اس مطلوبہ عمل یا اس ممنوعہ عمل کو ہائی لائٹ کر تے جائیں __ تو یقینا آپ کو وہ خاکہ دستیاب ہو جائے گا جس سے ظاہر ہو سکے کہ دین کے فرائض اور اعمال کا بلحاظ اہمیت و اولویت ایک بے ساختہ نقشہ کیا ہو سکتا ہے۔
ب: فرائض ِ دین کی دوسری صنف میں وہ امور آتے ہیں جو ”اجتماعی نوعیت“ کے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ فرائض کی یہ قسم ”فرضِ کفایہ“ میں ہی شمار ہو، جوکہ کسی خاص صورت میں ’فرضِ عین‘ کی حیثیت بھی اختیار کر سکتی ہے، گو اس کا ”فرضِ عین“ بن جانا استثنائی صورت میں ہوگا نہ کہ بطورِ اصل۔
فرائض کی اس صنف میں دعوت، احقاقِ حق، نشرِ خیر، تعلیم، ارشاد، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، ردِ بدعات و اَہواء، جہاد،، اِقامتِ حکمِ اسلامی، نفاذِ شریعت، سرکوبی ِ باطل، دفع ِ عدوان، خاتمہء ظلم اور نصرتِ مظلوم اور امت کی ترقی وبہبود کے منصوبے وغیرہ وغیرہ ایسے کثیر امور آتے ہیں۔ یہ فرائض بے حد اہم ہونے کے باوجود ظاہر ہے کہ درجہ و ترتیب میں انفرادی فرائض کے بعد آتے ہیں۔ پھر یہ صلاحیت، استطاعت، دستیاب مواقع اور ماحول میں پائی جانے والی صورت حال وغیر ہ ایسے عوامل کے زیر اثر ایک وقت کی نسبت دوسرے وقت میں، اور ایک شخص کی نسبت دوسرے شخص کے حق میں، خاصے مختلف ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہ فرائض کیونکہ ہیں ہی بنیادی طور پر ”اجتماعی نوعیت“ کے لہٰذا ان فرائض سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ”نظمِ اجتماعی“ کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کی جانا بھی لازمی ہے، جس پر کچھ بات ہونا ابھی باقی ہے۔
ج: البتہ ان ہر دو قسم کے ”فرائض“ سے بھی پہلے ایک چیز ہے، اور جوکہ __ الا ما شاءاللہ __ ہمارے یہاں نظر انداز ہی کر کے رکھی جاتی ہے۔ یہ ہے ”تصورِ دین“ کا درست کیا جانا، یعنی اسلام کی ”عقائدی بنیادوں“ کو صحیح انداز میں سمجھنا، ان کو قلب وذہن میں جاگزیں کرانا، جس کو کہ ”توحید کا علم“ بھی کہا جاتا ہے اور ”اللہ تعالیٰ کی صحیح پہچان“ کر لینا بھی۔ فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ (سورۃ محمد:19”تو پھر علم پاؤ اس حقیقت کا کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ، اور بخشش مانگو اپنے قصور کیلئے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کیلئے“)۔ فَلیَکُن اَوَّلَ مَا تَدعُوہُم اِلَیہِ لَااِلٰہَ اِلَّا اللَّہُ ( پس وہ پہلی بات جس کی جانب تم ان کو بلاؤ یہ ہونی چاہیے کہ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“)۔ اسلام کے اندر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سرگرم ہونے کی کوئی بات ہے تو وہ یہی کہ اللہ تعالیٰ کا صحیح تعارف حاصل کیا جائے اور اس تعارف سے ملحق ارکانِ ایمان کو قلب اور شعور میں نہایت اعلیٰ جگہ دلانے پر محنت کی جائے۔ علاوہ ازیں، اللہ کے مرتبہ و مقام کو جاننے اور ماننے کا عمل مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک غیر اللہ کی عبادت و تعظیم کے خلاف اظہارِ عداوت نہ ہو جائے۔ یہاں سے باطل ہستیوں کا انکار، جو کہ خدا کو چھوڑ کر پوجی جاتی ہوں اور جن کو قرآن کی اصطلاح میں ”طاغوت“ کہا جاتا ہے، اور جن کے خلاف آواز اٹھانا رسولوں کے مشن کا بنیادی ترین حصہ قرار دیا گیا ہے (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ - سورۃ النحل:36”بے شک ہم ہر قوم میں ہی کوئی نہ کوئی رسول بھیج چکے ہیں (یہ دعوت دے کر کہ) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے کنارہ کشی کر لو“)۔۔۔۔ یہاں سے اِن طواغیت کا انکار اللہ کے درست تعارف اور پہچان کے ساتھ ہی ملحق ہو جاتا ہے اور یوں اسلام کے سب عملی فرائض سے پہلے آتا ہے۔ پس علی الاطلاق اسلام کا جو اولین فرض ٹھہرتا ہے وہ یہی کہ آدمی اللہ کی صحیح پہچان کرکے اللہ کے اس مرتبہ اور مقام کا تعین کرے جو اسے اپنے ظاہر وباطن اور اپنے گردو پیش کے اندر دے کر رکھنا ہے، جس میں خود بخود یہ آجاتا ہے کہ آدمی خدا کے ماسوا پوجے جانے والی ہستیوں کی حیثیت کا بھی باقاعدہ ایک تعین کرے اور ان سے اپنی عداوت کو بھی زیادہ سے زیادہ پختہ اور یقینی بنائے۔ اللہ کے ساتھ زندگی بھر کا ایک رشتہ اور تعلق طے کرے اور پھر اس رشتے کو بنیاد بنا کر باقی سب رشتوں کا بھی ایک از سر نو تعین کرے۔ اسی کو علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں ”ولاءو براء“ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض اپنے قلب و ذہن کی ایک تشکیل نو کرنا اور اپنے سب رشتوں ناطوں کا نقشہ ایک از سر نو مرتب کرنا، اور اپنی زندگی کیلئے باقاعدہ ایک جہت طے کرنا، جس کی بنیاد ”کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ“ ہو، دین کا سب سے اساسی اور سب سے پہلا کام ہے۔ باقی سب فرائض، خواہ وہ ’انفرادی فرائض‘ ہوں یا ’اجتماعی جدوجہد سے متعلقہ فرائض‘ اس بنیادی فرض کے بعد ہی آتے ہیں۔
 
یہ سب باتیں (جو یہاں جزء’ج‘ کے تحت ہو رہی ہیں)، دراصل لا الٰہ الا اللہ کے معانی و مفہومات ہی میں آتی ہیں، لہٰذا سادہ ترین لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آدمی اپنے دین کی عمارت اسلام کی بنیاد یعنی ”لا الہ الا اللہ“ سے اٹھائے نہ کہ بعد کی کسی بات سے چاہے اسلام کا وہ کتنا ہی بڑا فرض کیوں نہ ہو۔
مختصراً، اس چیز کو ”کفر بالطاغوت، و ایمان باللہ“ کہیں گے۔ عین اس چیز کو دین کی اساس اور دینی عمل کا آغاز بنانا آپ کے دینی سفر کی پہلی گھاٹی ہو گی۔ یہ چیز فی الوقت یہاں کے رائج دینی مفہومات سے کس قدر مختلف ایک اپروچ ہے، خود بخود عیاں ہے۔ لیکن فکر و عمل کو باقاعدہ ایک ”ساخت“ اور ایک ”جہت“ دینے کے معاملہ میں یہ یہاں کے رائج اسالیب کی نسبت کتنا بڑا شفٹ ہوگا ؟ عقیدہ کی تعلیم اور تلقین کا یہ منہج یہاں کی تحریکی دنیا کو ایک نہایت قوی اساس فراہم کرنے میں کیسا زبردست کردار ادا کرے گا؟ اور خاص اس بنیاد کو پا کر قرآن کے اندر ”ملت ِ ابراہیم“ علیہ السلام سے متعلقہ مضامین سے آشنا ہونا اور إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ   لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ کے مضمون پر مبنی آیات اور صبح و شام کے مسنون اذکارسے اپنے شعور و وجدان کو لبریز کرنا ہماری ’عبادات‘ اور ’ادائے فرائض‘ اور ’جہاد‘ و ’عمل‘ میں کیسی منفرد حقیقت لے آنے کا باعث بنے گا؟ یہ خوشگوار انکشاف اس راہ میں پیر رکھ کر ہی ہوسکے گا۔
اس سلسلہ میں، اگر میں خود اپنے محسوسات کا ایک چھوٹا سا واقعہ بیان نہ کروں کہ یہ کتنا بڑا ”شفٹ“ ہے، تو شاید گفتگو کا مدعا بھی پوری طرح واضح نہ ہو۔۔۔۔
باوجود اس کے کہ اپنی دینی اٹھان یہاں کے ایک روایتی موحد ماحول میں ہوئی، اور پھر یہاں کی تحریکی دنیا سے بھی جلد ہی آشنا ہونے کا موقعہ ملا، پھر بھی یہ بظاہر بہت چھوٹا سا واقعہ ذہن پر ایک حیرت انگیز تاثر اور تاثیر چھوڑ دینے کا سبب بنا اور وہیں سے ”فہم ِ توحید“ کا یہ سرا بھی ہاتھ آیا اور آگے بڑھنے کیلئے کمال کے کچھ نئے افق بھی۔۔
یہ یونیورسٹی کے ابتدائی سالوں کا واقعہ ہے۔ ایک الجزائری، جو پشاور میں عربوں کے قائم کردہ ایک مدرسہ میں استاد تھا، مدرسہ کے امتحانات کے اختتام پر اپنی چھٹیاں گزارنے اپنے کسی دوست کے ہاں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں آکر ٹھہرا، جوکہ ہمارے ساتھ والے کمرے میں رہتا تھا۔ بچوں کے امتحانی پرچے بھی مارکنگ کیلئے چھٹیوں میں وہ اپنے ساتھ ہی اٹھا لایا تھا۔ گپ شپ سے فارغ وقت میں ہاسٹل کے کمرے میں ہی وہ یہ پرچے چیک کرتا۔ اس وقت وہ دوسری جماعت کے پرچے چیک کر رہا تھا جب میں نے یونہی دیکھنے کیلئے، ’پاس‘ ہوجانے والا ایک پرچہ اٹھا لیا۔ یہ ”توحید“ کا پرچہ تھا۔ تقریباً وہ پہلا ہی سوال جس پر میری نظر پڑی، یہ تھا:
ما ہو اَوَّلُ فَر ´ضٍ فَرَضَہُ اللہُ علی ابنِ آدم؟
یعنی: وہ سب سے پہلا فرض جو اللہ نے ابن ِ آدم پر فرض کر رکھا ہے، کیا ہے؟
سوال کوئی اتنا توجہ لینے والا نہیں تھا۔ ہم نے آج تک ’فرائض‘ ہی تو پڑھے تھے! اور اسلامک یونیورسٹی میں آکر تو صبح سے شام تک ہم ’شریعت‘ اور ’فقہ‘ ہی پڑھتے تھے! تو کیا بڑی بات ہے کہ دوسری جماعت کے بچے کو اس ’چھوٹے سے سوال‘ کا جواب ازبر کرا دیا گیا ہو! ہم نے اپنے شیوخ الحدیث بھی دیکھ رکھے تھے اور تحریکی قائدین بھی، مگر اس ’چھوٹے سے سوال‘ کا ”اتنا بڑا جواب“ دوسری جماعت کے اِس بچے سے ہی مل پایا۔ بچے نے اس سوال کے جواب میں لکھا تھا:
اَوَّلُ فرضٍ فرضہ اللہُ علی ابنِ آدم: الکفرُ بالطاغوت والاِیمانُ بِاللّٰہ۔ والدلیلُ قولہ تعالیٰ: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔
یعنی: وہ پہلا فرض جو اللہ نے ابن آدم پر فرض کر رکھا ہے، وہ ہے طاغوت کے ساتھ کفر کرنا اور اللہ کے ساتھ ایمان لانا۔ جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے(سورۃ البقرۃ آیت: 256): ”پس جو کوئی کفر کر لے طاغوت کے ساتھ، اور ایمان لے آئے اللہ کے ساتھ، تو یقینا تھام چکا وہ مضبوط ترین سہارا جو کبھی ٹوٹنے کا ہی نہیں، اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا“
آپ تصور کر سکتے ہیں اتنا بڑا خزینہ ہاتھ لگنے پر کسی شخص کا کیا حال ہوسکتا ہے! قرآن تو ہم بھی پڑھتے رہے تھے، بلکہ حفظ کر رکھا تھا، اور ’ترجمہء قرآن‘ بھی پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے آئے تھے۔ البتہ اب پتہ چلا کہ ”قرآن سے پہلے ایمان سیکھنا“ کسی جویائے حق کی ایک باقاعدہ ضرورت ہے۔ شاید ’اسلامک یونیورسٹی‘ چھوڑ کر مجھے اس ’دوسری جماعت‘ میں داخلہ لے لینا چاہیے تھا بلکہ پہلی میں! الجزائری دوست سے میں نے وہ ’نصاب‘ طلب کیا جو وہ ’دوسری جماعت‘ کو پڑھاتا تھا۔ اس نصاب سے ’آگے‘ کی بات خود اس ’استاد‘ کو بھی تاحال معلوم نہ تھی جوکہ اپنی ’تعلیم‘ مکمل کرنے کیلئے فی الحال اِس مدرسہ میں ملازمت سے ’روزگار‘ پا رہا تھا۔ البتہ جلد ہی معلوم ہو گیا کہ یہ پورا نصاب شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب عبارتوں سے ہو بہو اٹھا کر جمع کیا گیا ہے ، یعنی بنیادی طور پر یہ سب کا سب محمد بن عبد الوہاب  رحمۃ اللہ علیہ کے مختصر رسائل یا ان سے لئے گئے اقتباسات پر ہی مشتمل ہے، خاص طور ان کے وہ چھوٹے چھوٹے رسائل جو انہوں نے عوام کو عقیدہ کی تلقین کی غرض سے تالیف فرمائے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایک رسالہ جہاں جہاں گیا، بشرطیکہ اس کو کوئی اچھا پڑھانے والا مل گیا ہو، وہاں وہاں ”توحید“ کا پودا لگ گیا۔ اور بعض جگہوں پر تو کمال کے نخلستان لہلہانے لگے!
اس میں کیا شک ہے کہ اسلام کے سب اعمال اور فرائض، خواہ وہ کتنی ہی پابندی اور بظاہر کتنے ہی مسنون طریقے سے کیوں نہ ادا کر لئے گئے ہوں، محض ایک جسم ہیں جس میں جان البتہ ”توحید“ کے دم سے پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی تنزیل میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ارشاد میں ایک ’طالب علم وعمل‘ کو بڑا عرصہ ”توحید“ پر ہی ترکیز کروا دی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ، اُس کی وحدانیت، اُس کی صفات۔۔ اور پھر اللہ کے شریکوں اور ہمسروں کا نفی و انکار۔۔ پھر اِسی کی روشنی میں اپنے گرد و پیش کی بابت ایک ’نظر‘ پیدا کرانا، اور اپنی زندگی کی ایک جہت متعین کروانا ”نبوی مدرسہ“ کا ایک ابتدائی سبق ہوتا تھا۔ نہ ’کلامی‘ اندازاور نہ ’تصوفانہ اسلوب‘، ( کہ ہر دو، آدمی کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں بلکہ ماحول سے ہی روپوش کرا دیتے ہیں اور جوکہ اپنے مضمون اور اپنے اسلوب ہر دو پہلو سے ہی قرآنی اور نبوی تعلیم سے آخری حد تک بیگانہ ہیں)۔۔۔۔ خالصتا وحی ِ خداوندی کے مضمون اور اسلوب کو بنیاد بنا کر ، اور سید قطب رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں ’عقیدہ کو حق اور باطل کے مابین ایک ایسے ’زندہ‘ قسم کے معرکہ کے طور پر لیتے ہوئے جو گرد و پیش میں ایک ہلچل پیدا کروا دے‘۔۔۔۔ غرض اِس قرآنی و نبوی اندازِ تعلیم کے ساتھ۔۔ ”عقیدہ“ سے اپنی ایک ’پیدائش ِ نو‘ کروا لینا وہ بنیادی ترین کام ہے جس پر صرف کئے گئے ماہ و سال پھر سب انفرادی و اجتماعی فرائض میں زندگی کی روح پھونک دیتے ہیں۔ ’صلوٰۃ و صیام‘ میں بھی تب ایک اور ہی حقیقت جھلکنے لگتی ہے اور ’دعوت‘ اور ’تحریکی عمل‘ میں بھی!
غرض ”عبادت“ کے محل کی صحیح پہچان ہونا، اور اسی پر آدمی کا ڈیرے ڈال دینا، محبت، خشیت، انابت، رجاء، توکل، خوف، فقر، تسلیم اور انقیاد کے مواد سے بندگی کا ایک قلادہ اپنے لئے تیار کرنا اور طاغوت سے براءت اختیار کر کے اپنے گلے میں پڑے ہوئے اس قلادہ کی اصل معنویت کو آشکارا کرنا اور اسی کے رنگ کو زیادہ سے زیادہ گہرا کرتے چلے جانا۔۔ یہ چیز جسے ’اِخلاصِ دین‘ بھی کہا گیا ہے یعنی ’دین (بندگی و نیاز) کو غیر اللہ سے پھیر کر اللہ کیلئے خالص کر دینا‘ (قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي  فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ- الزمر: 15- 14)۔۔۔۔ سب سے بڑھ کر اگر دین کی اس بنیاد پر محنت کر لی جائے تو ”عمل“ کو نہایت تابناک اور کامیاب جہتیں خود بخود ملنے لگتی ہیں۔
اِس موضوع پر ہماری کتاب ’مسلم ہستی کا احیاء‘ میں بھی کچھ گفتگو ہوئی ہے لہٰذا اس کے بعض اہم جوانب وہیں پر ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

چنانچہ ہمارے پاس اب تین ”فرائض“ یا ”اصنافِ فرائض“ ہو گئے۔ (ان تینوں کیلئے کچھ دیر ہمیں ”فرض“ ہی کا لفظ استعمال کرنے دیجئے):
ایک: انسان کا اپنے ’قلب و ذہن‘ اور ’فکر و نظر‘ کی ساخت اور ’زندگی کی سمت و لائحہء عمل‘ کا تعین اور ’رشتوں‘ کی از سر نو پہچان کرنا اور یوں ’خدا کا مطلوبہ انسان‘ ابتداء وجود میں لے کر آنا، جوکہ سب سے بڑا اور سب سے پہلا فرض ہے، اور جوکہ ’ج‘ کے تحت ابھی بیان ہو۔۔۔۔
دوسرا، خدا کے اِس ’مطلوبہ انسان‘ کا، جوکہ اب وجود میں آ چکا ہے، ’فرد‘ کی حیثیت میں خدا کی ڈیوٹی دینا، جوکہ پہلے فرض کے بعد اہم ترین ہے اور اسی کے اندر اس کو اپنا آپ ہمہ وقتی بنیاد پر جکڑ دینا ہے، اور جوکہ ’الف‘ کے تحت پیچھے بیان ہو۔۔۔۔ اور
تیسرا، اِس انسان کا ’جماعت‘ کی حیثیت میں خدا کی ڈیوٹی کرنا جوکہ ایک نہایت وسیع اور متنوع باب ہے، اورجوکہ ’ب‘ کے تحت پیچھے مذکور ہوا اور جوکہ آئندہ صفحات میں ابھی بیان ہوگا۔
نہایت مثالی صورت تو یہی ہے کہ یہ تینوں اشیاءآپ کو ایک ہی جگہ سے مل جائیں اور راہ نمائی پانے کیلئے آپ اسی سے وابستہ رہیں۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو، خاص طور پر ہمارے اِس آج کے دور میں، تو آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ کونسی چیز اس کو ممکنہ حد تک کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی ہمت کے بقدر ہی تلاش کرے گا اور اس باب میں لوگوں کے مابین تفاوت پایا جانا باعث تعجب نہ ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں البتہ ’مثالیت پسندی‘ ایک حد سے زیادہ ہو جائے تو نقصان دہ ہونے لگتی ہے۔ البتہ نری واقعیت پسندی بھی اچھی نہیں کیونکہ اس سے آگے بڑھنے کی استعداد معطل ہوتے ہوتے بالآخر دم توڑ جاتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جو دستیاب ہو ، یا کچھ محنت اور شد الرحال کرکے دستیاب ہو سکتا ہو، اس کو حقیر نہ جانا جائے اور اس کو پائے بغیر نہ رہا جائے البتہ بہتر کی طلب و جستجو ختم نہ کر دی جائے اور اس راہ میں مزید پیشرفت کا حصول بھی آج نہیں تو کل کیلئے خارج از امکان نہ مان لیا جائے۔
بہرحال تلاش و جستجو اور سعی و محنت کے یہ تین محور ہم نے واضح کر دیے ہیں اور ان کی ترتیب و درجہ بندی بلحاظِ اہمیت و اولویت بھی۔ اب آگے ہر کسی کی محنت ہے اور ہر کسی کی قسمت!
٭٭٭٭٭
تاہم اس سیاق میں جب ہم ’ترتیب و درجہ بندی‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے بھی ہماری مراد واضح ہو جانی چاہیے۔ بلا شبہ قرآن کے نزول میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہم اشیاء کی ایک خاص ترتیب اور موضوعات کی ایک خاص اٹھان دیکھتے ہیں تو عمل اور تربیت کے باب میں اس سے نہایت گہرے دروس اخذ کرتے ہیں۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تو کیا، خود آپ کی زندگی میں ہی جو بعد کے مراحل آئے ان میں ہم دیکھتے ہیں جو تشریعات بھی اب تک اتر آئی تھیں ان کو بیک وقت اور ساتھ ساتھ چلایا گیااور کسی چیز کو بھی کسی شخص کے حق میں ’معطل‘ نہیں کروا دیا گیا۔ مثال کے طور پر مدینہ میں کوئی شخص آج ہی اسلام لے کر آیا ہے تو یہ نہیں کہا گیا کہ فی الحال یہ نماز نہیں پڑھے گا کیونکہ اس نے ابھی ’عقیدہ‘ پورا نہیں پڑھا! نہ کسی ایک بھی شخص کی بابت یہ کہا گیا کہ یہ ابھی کیا جہاد کرے گا ، اس کو تو ابھی نماز پڑھنے کا پتہ نہیں یا یہ کہ اس کو تو ابھی ’سیدھی طرح وضو کرنا‘ نہیں آتا! بیک وقت اس کو ’عقیدہ‘ بھی سیکھنا تھا اور ’وضو‘ کرنا بھی، بلکہ اس سے پہلے ’طہارت‘ کے مسائل بھی، اور نماز بھی، اور ہجرت اور قتال بھی۔ پس یہ واضح رہے کہ جتنی بھی تشریعات دین کے اندر جب ایک بار آچکیں تو اب ان میں کسی ’ترتیبِ زمانی‘ کا فلسفہ لے کر آنا کچھ نہایت خطرناک دروازے ہی کھول دینے کے مترادف ہو گا۔ یہیں سے ان جماعتوں کے منہج کی خطرناکی واضح ہو جاتی ہے جو نبوی زندگی سے دلیل لے کر اپنے آپ کو کسی نہ کسی ’مرحلے‘ کا پابند کر کے بیٹھی ہیں۔
پس یہ واضح رہے کہ ’ترتیب‘ سے ہماری مراد ’ترتیبِ زمانی‘ نہیں۔ ’ترتیب زمانی‘ صرف دورِ نبوت کا خاصہ تھا۔ اب کسی کو سزاوار نہیں کہ وہ ’خود مرکزیت‘ کا شکار ہوکر امت کو شرعی احکام کی کوئی ایسی تفسیر کر کے دے۔ ہاں البتہ ’ترتیب‘ اس معنیٰ میں بالکل درست ہے کہ دین کے اندر اب بھی اہم سے اہم تر کا تعین ہو اور دعوتی عمل میں، خصوصاً تربیتی عمل کے دوران جوکہ ’فرد سازی‘ سے عبارت ہے، توجہ، زور، ترکیز اور تاکید کا ایک موضوع کی نسبت کسی دوسرے موضوع پر زیادہ کر دیا جانا یا اس معاملہ میں زیرِ تربیت افراد کے انفرادی فروق individual differences اور ان کے پس منظر کے اختلاف کا مدنظر رکھا جانا رو بہ عمل آئے۔ ’ترتیب‘ سے یہ مراد لینا بالکل حق ہوگا کہ جب سب تشریعات پائی جائیں اور سب پر عمل کی بھی صلائے عام ہو تو بھی دین کی بنیادوں اور شعبوں کی درجہ بندی آدمی پر آخری حد تک واضح کرائی جائے۔ اور یہ تو اشد ضروری رہے گا کہ اسلام کے موضوعات کی عمومی ترتیب کسی بھی ’مرحلے‘ سے گزرنے کے باعث یا کسی بھی فرض کی ضرورت بڑھ جانے کے باعث ذہنوں کے اندر متاثر نہ ہو جائے۔
یقینا ایسا نہیں ہوا کہ نبوی دعوت کے متاخرہ مراحل میں: مثال کے طور پر ہجرت جب فرض بھی ہو گئی تھی، تو اس وقت اسلامی خطاب پر ’ہجرت‘ ہی اس قدر ’چھا‘ گئی ہو کہ ’ہجرت‘ کے سوا کوئی موضوع ہی امت اسلام کے طول و عرض میں باقی نہ رہ گیا ہو! ٹھیک ہے کچھ آیات قرآن مجید میں ہجرت کے وجوب پر اور اس فرض کے تارک کو وعید سنانے پر اور اس سے متعلقہ کچھ احکام و مسائل کے بیان و ایضاح پر نازل ہوئیں۔ ایسا ہی کچھ ہمیں نبوی بیان کے اندر ملتا ہے۔ مگر ”حقیقتِ اسلام“ کے بیان کی جو ایک عمومی ترتیب اور اس کی جو ایک بے ساختہ و طبعی کیفیت ہوتی ہے ۔۔ ”اسلام“ اور ”ایمان“ کے بیان کی اُس عمومی ترتیب اور طبعی کیفیت کو ’ہجرت‘ کے اِس جان لیوا مرحلہ نے کہاں تک متاثر کیا اور نبوی جماعت کے موضوعات کو ’ہجرت‘ نے کہاں تک ’بدل کر‘ رکھ دیا؟ ہم سب کے سامنے ہے۔ کبھی اگر آپ غور فرمائیں، ایک ایسی انتہائی بے سرو سامانی میں ’ہجرت‘ اس چھوٹی سی جماعت کیلئے اتنا بڑا چیلنج تھا کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ آج تو دَور ہی ’ملازمت‘ اور ’تبادلے‘ اور ’بہتر مواقع کی تلاش‘ پر مبنی شہری زندگی کا ہے جس میں ہمسایہ ہمسائے کا واقف نہیں ہوتا لہٰذا اس چیلنج کا جس سے ’ہجرت‘ کی راہ سے نبوی جماعت کو گزرنا پڑا درست اندازہ کرنا بھی ہمارے لئے بے حد مشکل ہے۔ قبیلے کا قبیلہ نقل مکانی کرلے، اس کا تو ضرور تصور تھا مگر قبیلے سے نکل کر کسی اور دنیا میں جا بسنا ایک ناقابل یقین حد تک عجیب وغریب چیز تھی، جوکہ اب ایمان کا تقاضا بنا دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا سنگین مرحلہ کسی اور جماعت پر گزرا ہوتا تو برس ہا برس تک ’ہجرت‘ اور اس سے متعلقہ موضوعات کے سوا کوئی اور موضوع ہی اس کے یہاں سننے کو نہ ملتا! مگر قربان جائیں نبوی منہجِ تعلیم پر اور آپ کے ہاتھوں تیار ہوئی اس بے مثال جماعت پر کہ اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے باوجود اور ایسے کٹھن مرحلہ سے گزرنے کے باوجود ’ہجرت‘ ایک حد تک ہی ان کے موضوعات میں نمایاں ہوتی ہے، اور اِس حد تک تو ظاہر ہے ہونا بھی چاہیے تھا کہ بہرحال یہ کوئی معمولی واقعہ یا کوئی معمولی مرحلہ نہ تھا، مگر ہم دیکھتے ہیں ”اسلام“ اور ”ایمان“ کے عمومی موضوعات ان کے خطاب پر برابر چھائے رہتے ہیں اور انچ بھر اپنی جگہ نہیں چھوڑتے! یہی ہے ’ترتیب ودرجہ بندی‘ کی بابت وہ اصل درس جو ہمیں ’تربیت‘ اور ’دعوتی خطاب‘ کے باب میں سیرتِ رسول اللہ سے اخذ کرنا ہے!
یہی مثال ’جہاد‘ کی ہے اور یہی دیگر فرائض و مراحل کی۔ نبوی جماعت کی یہی خاصیت ہمیں جلی طور پر نظر آتی ہے کہ نہایت بڑے بڑے اور چیلنج کن و متنوع مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزرلینے کے باوجود اور ہزار ہا میدانوں میں کمال کی سرگرمی و کارکردگی دکھا لینے کے علی الرغم، اس جماعت کا ہر مرحلہ ہمیں ”ایمان“ اور ”توحید“ ہی کا مرحلہ نظر آتا ہے! ”عبادت“ مسلسل اس جماعت کا موضوع رہتا ہے اور ”اللہ“ اس کے ہر نشاط اور ہر عمل کا مرکزی ترین مضمون ٹھہرتا ہے!
یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اس جماعتِ پاک طینت کے اندر ’فرد‘ کی تعمیر اور تشکیل میں ایک ایسا کمال کا مواد استعمال ہوا تھا جو ہر ہر مرحلے اور ہر ہر میدان کے اثرات کے ساتھ کمال کا ’تفاعل‘ بھی کر سکتا تھا البتہ اپنی بنیادی ساخت میں کوئی ذرہ بھر ’تبدیلی‘ اور ’فرق‘ بھی نہ آنے دیتا تھا! حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کا سفر اس جماعت نے برسوں میں طے کیا۔ یعنی اتنا تیز کوئی قافلہ تاریخ میں کبھی چلا ہی نہیں جتنا اِس کارواں نے چل کر دکھایا۔ ایسی تیز رفتاری میں تو کوئی ایک ہی ہچکولہ اس کی ’ترتیبِ ہستی‘ کو کچھ سے کچھ کر کے رکھ دیتا اور اس کے ’اجزائے ترکیبی‘ کو کچھ سے کچھ بنا چھوڑتا مگر اس جماعتِ بے مثال نے ثابت کر دیا کہ وہ کامیابی کیاہوئی کہ ایک تحریک ’چلتے‘ وقت کوئی چیز تھی تو ’پہنچتے‘ وقت کوئی اور ہی چیز!
یہاں دیکھئے کیا ہے، ایک تحریک جس ’شعبے‘ کو ہاتھ ڈالتی ہے صرف وہی ’شعبہ‘ اس کی دعوت میں بولتا ہے اور باقی سب کچھ ’پیچھے‘ چلا جاتا ہے، وہ بھی اگر بالکلیہ ختم نہ ہو کر رہ جائے۔ یہاں تک کہ ’دین‘ کی تعبیر اور تفسیر تک قریب قریب اسی ’شعبہ‘ کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ ایک تحریک کی زندگی میں کوئی نیا موڑ آجائے تو بڑی حد تک اسی کا شور سنتا ہے۔ آج کی تحریکوں پر نظر رکھنے والے اصحاب ضرور ہمارے اس ملاحظہ کے درست ہونے کی گواہی دیں گے۔ یہ صورتحال دراصل اِس بات پر دالّ ہے کہ امورِ دین کے فہم و استیعاب اور ان کی ترتیب اور ترسیخ میں یہاں ایک شدید درجہ کا خلل آچکا ہے، جس کے باعث کوئی بھی چیز کسی بھی وقت اپنے طبعی حجم کی نسبت ’بڑی‘ ہو سکتی ہے اور کوئی بھی چیز کسی بھی لمحے ’چھوٹی‘ کر دی جا سکتی ہے۔ ”حقیقتِ اسلام“ کی بابت یہ ایک ایسی ہر دم بدلتی لرزتی اور ’حالات‘ کے ہاتھوں ہچکولے کھاتی تصویر ہے جس کا کوئی بھروسہ نہیں، آج کچھ نظر آئے تو کل کچھ۔ آج دیکھیں تو سب نوجوان اِدھر کو جا رہے ہوں گے اور اِس کے سوا کچھ ’سننا‘ اور ’سنانا‘ گوارا نہ کریں گے، اور کل دیکھیں تو ’سب قافلے سب راستے‘ اُدھر کو رخ کئے ہوئے ہوں گے اور اُس کے سوا کسی موضوع کو موضوع نہ جانیں گے!
اس میں کیا شک ہے کہ امت کو ہر دور میں، اور خاص طور پر آج کے دور میں تو، ہزاروں اجتماعی منصوبے بیک وقت چلانے کی ضرورت ہے۔ تو اگر ایسا ہونے لگے کہ جس اجتماعی فرض کو کوئی طبقہ یا جماعت ہاتھ ڈالے وہی ”دین“ کا نمایاں ترین (بلکہ لسانِ حال کی رو سے بعض کے ہاں تو ’واحد‘) فرض قرار پائے۔۔ پھر تو کیونکر یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ امت پوری دلجمعی اور ہم آہنگی کے ساتھ اپنی نصرت و ترقی کے ہزاروں منصوبے بیک وقت چلا لے؟
دین کے اندر ’اجتماعی فرائض‘ کے شعبے، جوکہ دراصل فرض ہائے کفایہ ہیں اور امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ’فروضِ کفایہ‘ کا یہ تصور تو کمال کا ایک تصور ہے جوکہ شاید اِسی دین میں پایا جاتا ہے اور ہے ہی اس لئے کہ یہ ایک ”امت“ کو بنائے۔۔ چنانچہ ’اجتماعی فرائض‘ کے یہ شعبے کوئی اس لئے تھوڑی دین میں رکھے گئے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بھڑنے لگیں؟! یہ تو ایک دوسرے کو مکمل کرنے کیلئے ہیں نہ کہ ایک دوسرے کی قیمت پر پنپنے کیلئے! مگر یہ تو تب ہو گا جب ان کو ”شعبے“ مانا جائے نہ کہ ’اصل‘! جب کسی چیز کو ’اصل‘ مان لیا جائے گا پھر تو لازمی بات ہے ”سب“ کو اسی کا رخ کروایا جائے گا اور ’اس‘ ایک کے سوا ہر طرف سے ’پھیرنے‘ کیلئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جائے گا! شعبوں کو ’شعبے‘ ہی رکھنے کیلئے کیا پھر یہ ضروری نہیں کہ سب سے پہلے اُس ”اصل“ کی نشان دہی کر کے دی جائے جس کی طرف ”سب“ کو بلایا جانا ہے؟ اور جس سے سب کے سب ’شعبوں‘ کو پھوٹنا ہے؟ تو پھر کیا سب سے بڑھ کر یہ ناگزیر نہ ہوگا کہ اس ”اصل“ کو نمایاں کرنے پر ہی خوب خوب محنت کر لی جائے اور اسی پر ہی ایک ایسی یکسوئی اور دلجمعی پیدا کروا ئی جائے کہ جس سے ’شعبوں‘ کی یہ جنگ نہ صرف ختم ہو جائے اور ان کے مابین پائی جانے والی اِس حالیہ ’کھینچا تانی‘ سے ہمارے کارکنانِ دین کی نہ صرف جان چھوٹ جائے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد کوئی نہ کوئی ان کو کھینچے پھرتا ہے کہ ’کام‘ یہ نہیں وہ ہے۔۔ بلکہ یہ شعبے ہی کمال ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کو مکمل کرنے لگ جائیں؟ کیونکہ ’شعبے‘ ہیں ہی ایک دوسرے کو مکمل کرنے کیلئے اور اپنے اس تکامل اور اس ترابط کے زور پر ہر زمانے میں اس امت کو ترقی و شوکت کے ثریا پر پہنچا دینے کیلئے۔
کیا آپ اس مبارک دن کا تصور کر سکتے ہیں جب اس دین کی اقامت اور اس امت کی نصرت و رفعت کے نئے سے نئے شعبے اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصوبے اور پروگرام، مختلف و متنوع گروہوں اور جماعتوں کی جانب سے میدان میں آنے لگیں اور امت کے مختلف طبقوں، گروہوں اور تنظیموں کا یہ تنوع اس عمل میں وسعت اور تقویت لے آنے کا ہی باعث بنے؟ یعنی جو چیز ان کو ایک دوسرے سے الجھنے پر آمادہ کر رہی ہے عین اسی قوت کو اس رخ پر لے آیا جائے کہ یہ ایک مجموعی عمل میں وسعت اور شان و شکوہ لے آنے کا ہی ذریعہ بنے؟
حضرات اس کیلئے دو طریقے ہیں جو اختیار کئے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اس وقت آزمایا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ دینی جماعتوں کو وہ جس بھی حالت میں ہیں ’اکٹھا‘ ہوجانے کیلئے بار بار خدا کے واسطے دیے جائیں، اقبال کے شعر اور نظمیں سنائی جائیں، غیرت اور حمیت کو جگا دینے کے جتنے کوئی اسلوب علمِ بلاغت میں پائے جاسکتے ہوں انسانی استعداد کی حد تک وہ سب کے سب اختیار کر لئے جائیں، جن کا لب لباب اگر ہم اپنے الفاظ میں کریں تو یہ کہ اس وقت کی دینی قوتیں جیسے کیسے بھان متی کا ایک کنبہ جوڑیں اور اس کو یوں شیر وشکر کر دکھائیں کہ دنیا کے سب عقلاءدنگ رہ جائیں کہ متناقضات کو اکٹھا کر لینے کا یہ نسخہ آخر کہاں سے دریافت کر لیا گیا!؟ دین اور ملت کے لئے دردِ دل رکھنے والے صالح حضرات کی جانب سے درد بھری یہ اپیل ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے عشروں سے جاری ہے اور حق یہ ہے کہ جن لوگوں سے یہ اپیل اور یہ خطاب ہو رہا ہے وہ بھی کچھ ایسے پتھر دل نہیں کہ ان پر کسی بات کا اثر ہی نہ ہو یا امت کے زخموں کا اور حالات کی نزاکت کا اُن کو کچھ ادراک یا احساس ہی نہ ہو۔ حق تو یہ ہے، ہمارے گمان کی حد تک، کہ یہ اسلامی قیادتیں امت کا درد رکھنے میں ان نیک لوگوں سے کسی صورت کم نہیں جو اِن سے یہاں کی دینی جماعتوں اور تحریکوں کے مابین اتحاد و یکجہتی و ہم آہنگی لے آنے کی درمندانہ اپیلیں کرنے میں اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کرتے ہیں۔ بلکہ بعید نہیں، اور بلکہ اغلب ہے، کہ امت کا درد اور امت کو کامیاب کرانے کا جذبہ جتنا ان قیادتوں میں ہو اتنا ’اتحاد‘ کیلئے دہائیاں دینے والوں میں بھی نہ ہو۔ اور کیا خود ان قیادتوں ہی کی جانب سے اتحاد و یک جہتی و اشتراکِ باہمی کی اپیلیں ایک دوسرے کے نام کوئی کم نشر ہوتی ہیں؟! حتیٰ کہ کبھی آپ پوچھ کر دیکھیں، کوششیں تک ہوئی ہیں اور اس کیلئے زور لگانے میں خود اِن قیادتوں ہی کی جانب سے شاید کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ جڑنا کوئی دن دو دن کیلئے یا کوئی ہنگامی قسم کا ’قومی بحران‘ پار کرنے یا ایک آدھ ’الیکشن‘ گزارنے کیلئے تو ہے نہیں جو اس وقت ہمارے زیر بحث ہے۔ ہماری بحث تو اس مسئلہ کے ایک مستقل اور بنیادی اور دیرپا حل کو دریافت کرنے سے ہے، وگرنہ ایسے ’اتحاد‘ کے نسخے تو آج بھی بہت پائے جاتے ہیں جو ’کچھ دیر‘ چل کر دکھا لینے کی طاقت رکھیں! ایسی شمعیں تو آج بھی جلائی جا سکتی ہیں بلکہ ’خاص خاص موقعوں‘ پر خود ہی جل اٹھتی ہیں جو ایک ساعت بعد بجھ جائیں اور تب ’اندھیرے‘ کا احساس اور بھی بڑھا دیں! ہم تو ایک ایسی ’یکجہتی‘ کا سوال اٹھا رہے ہیں جو ’قائدین کے اکٹھا ہونے‘، اور ان کے ’رابطوں‘ اور ’گفت و شنید‘ اور ان کے ’موڈ اور مزاج‘ وغیرہ ایسی سطح پر نہیں (گو یہ اپنی جگہ ضرور اہم ہے اور آئندہ بھی رہے گا) البتہ ہمارا سوال اور ہماری بحث تو اسلامی طبقوں اور گروہوں اور تنظیموں کے مابین ایک مائنڈ سیٹ mind set ہی ایسا نیا پیدا کر دینے سے ہے جو اِن ”طبقوں“ ہی کو شیر وشکر کر دینے کی بنیاد بنے اور خود ان کی ”ساخت“ ہی میں ایک ایسی طبعی ہم آہنگی لے آئے کہ ان کی اپنی سرگرمی اور نشاط ہی ایک دوسرے کو مکمل کر دینے لگے بلکہ ان کی سرگرمی میں جتنا زیادہ تنوع ہو وہ اتنا ہی ایک دوسرے کے کام کو مکمل کرنے کا آپ سے آپ ذریعہ ہو اور یہ کہ ان کا وجود ہی ایک دوسرے کی ’جگہ لینے‘ کیلئے ہونے والی تگ و دو کی بجائے اُس مربوط عمارت کا نقشہ پیش کرے جس کا ایک حصہ خود بخود دوسرے کو سہارا دیتا ہے۔۔۔۔ یہ کام ’اپیلوں‘ اور ’واسطوں‘ اور ’اتفاق میں برکت‘ اور ’انتشار کے نقصانات گنوانے‘ یا ’لکڑیوں کا گٹھا توڑ کر دکھانے‘ سے بھلا کیونکر ہو سکتا ہے؟!
اس کیلئے دوسرا طریقہ البتہ یہ ہے، اور جس کی جانب بہت کم دھیان دیا گیا ہے، کہ کچھ وقت کیلئے یہ ہائے دہائی موقوف کر کے ان رکاوٹوں ہی کو دور کرنے پر پوری توجہ صرف کر دی جائے جو اس چیز کے عمل میں آجانے کے اندر درحقیقت ایک بڑا مانع ہیں اور جن کے ہوتے ہوئے یہ خواب پورا کرا لینا درفعل ممکن نہیں۔ لازم ہے کہ یہاں ایک باہمت جمعیت ایسی اٹھے جو اس راستے سے کانٹوں کا وہ ڈھیر ہٹا دینے کیلئے رات دن ایک کر دے جس سے یہ راستہ واقعتا اٹا پڑا ہے۔ اور اگر ان کانٹوں کو ہٹاتے ہوئے اس کے ہاتھ کچھ لہو لہان ہوں تو اس عمل کا تقاضا سمجھتے ہوئے وہ اس کو قبول کرے۔ وہ کانٹے جو دیکھ لئے گئے ہوں ان کو ہٹانے والے ہاتھوں کا ان کانٹوں سے زخمی ہونا تکلیف دہ ہے مگر برا نہیں بہ نسبت ان کانٹوں کے جو نظر نہ آنے کے باعث آپ کے پیروں میں لگیں اور اس کی درد آپ کو ’متبادل‘ راستوں کی تلاش پہ آمادہ کرے اور ہر بار آپ کو کسی طویل سرگردانی کے مشن پر روانہ کر دیا کرے!
یہ جمعیت اُن اسباب کو وجود میں لے آنے پر اپنی پوری جان کھپا دے جو یہاں پائے جانے والے اختلاف کو __ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں __ ’تضاد‘ سے ہٹا کر ’تنوع‘ میں بدل دیں۔ یقین کیجئے یہ ایک بہت بڑا شفٹ ہو گا اور اس پر ڈھیروں محنت صرف ہو گی مگر ان شاءاللہ ’راستہ‘ کھل جائے گا اور ’قافلے‘ اس پر چلنے لگیں گے۔ آخر ہمارے پاس ’چلنے والوں‘ کی تو کمی نہیں، مسئلہ تو ’راستہ‘ بنانے کا ہے! چلنے والے اپنے الگ الگ انداز میں چلتے ہیں تو یہی تو وہ چیز ہے جو بطورِ امت ہمیں درکار ہے! کونسا شعبہ ہے جس کی ہمیں ضرورت نہیں؟ چلنے کیلئے وہ سب خطوط ہی تو جو اِس وقت دیکھنے میں آ رہے ہیں ہمیں درکار ہیں! بشرطیکہ وہ ”اساس“ نہایت پختہ کر کے دے دی جائے جو اس ’تنوع‘ کو ’تضاد‘ نہ بننے دے، اور جس پر ابھی ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔
اس ’اختلاف‘ کو اگر آپ سرے سے ہی ختم کرنے بیٹھیں گے کہ سب ایک ہی چھتری تلے آئیں، جیسا کہ اس وقت ہر کسی کا ’دعوتی خطاب‘ یہاں ’دوسروں‘ سے عملاً اسی بات کا تقاضا کر رہا ہے اور لسانِ حال کو دیکھیں تو ہر کوئی اِس انتظار یا اِس امید میں ہے کہ لوگ ’ہمارے‘ ساتھ ملیں تو ’معاملہ‘ آگے بڑھے بلکہ گلہ ہوتا ہے کہ ’بات‘ اس قدر واضح ہونے کے باوجود اللہ کے بندے ’آتے‘ ہی نہیں اور ’غلط جگہ‘ پر ہی زور لگائے جا رہے ہیں!۔۔ تو اول تو یہ ایک انتہائی غیر حقیقی تقاضا اور غیر واقعی اپروچ ہے اور سچ پوچھیں تو کسی کا بھی یہ خواب پورا ہونے کا نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہمارے یہ معزز اصحاب جو اسلامی عمل کو پیش قدمی کروانے کیلئے ایسی اپروچ اختیار کئے بیٹھے ہیں جاگ جائیں اور یہ خواب دیکھنا موقوف کر دیں۔ ثانیاً، یہ تو اسلئے بھی اندریں حالات ایک اَنہونی توقع ہے کہ یہاں کوئی بھی ایسی بھاری بھرکم قیادت فی الوقت موجود نہیں جو سرے سے اتنی بڑی ’چھتری‘ رکھتی ہو کہ باقی سب سائے اُسکے سامنے سمٹ کر رہ جائیں اور جوق در جوق لوگ ایک ہی ہاتھ پر بیعت کرنے لگیں۔ ثالثاً، ’اختلاف‘ اور ’تعددِ طرق‘ کو ختم کر ڈالنا نہ تو شرع کا تقاضا ہے اور نہ عقل کا(1)، لہٰذا اس پر زور ہی کیوں لگایا جائے؟ اور دینی قوتوں کے کام کو آگے بڑھنے کیلئے اس پر موقوف ہی کیوں ٹھہرایا جائے؟ شرع اور عقل کا تقاضا ’تضاد‘ کو ختم کرنا ہے نہ کہ ’اختلاف‘ کو۔ ہاں یہ موخر الذکر مسئلہ ضرور ہمارے زیر بحث آنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭
ہاں یہ البتہ لازم ہے کہ اس اختلاف کو وہ ’اختلاف‘ بھی نہ رہنے دیا جائے جو آج اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔!
یہ ایک شدید قسم کا فکری انتشار ہے اور دین کے اصول اور فروع کو گڈ مڈ کر دینے کی ایک اندوہناک صورت۔ علاوہ ازیں، فکر کی افزائش یہاں بہت بڑی حد تک موقوف ہے۔ کچھ جامد قسم کے قالب ہی اَذہان کو جکڑ کر رکھے ہوئے ہیں۔ حرفِ آخر پر پہنچا ہونے کی ایک اپروچ قریب قریب ہر طبقے میں غالب ہے یا پھر غالب آرہی ہے۔ جس جس چیز پر کسی کا قائد عشروں پہلے پہنچ چکا تھا اس سے آگے کائنات قریب قریب ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے، حالانکہ یہ ایک شدید ابتری کے بعد اٹھ کھڑے ہونے کا دور تھا اور اُس میں ہر کسی نے اپنے اپنے زمانے میں اپنی بہترین صوابدید کے مطابق کوئی نہ کوئی راہ تجویز کرنے کی کوشش کی تھی، اور یقینا ہر کسی کی خدمات کو سراہا ہی جائے گا کہ وہ اگر اس اسلامی عمل کو اُس وقت آگے نہ بڑھاتے تو یہ ہم تک شاید پہنچ ہی نہ پاتا یا۔ جو سفر انہوں نے کیا وہ نہ کیا ہوتا تو وہ آج ہمیں کرنا پڑتا اور شاید ہم اتنا اچھا بھی نہ کر پاتے جتنا اچھا انہوں نے کر دکھایا کہ جس کے باعث ہم فکری طور پر آگے بڑھنے کیلئے پہلے کی نسبت آج زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں، تو فی الواقع یہ سب انہی بزرگوں کے دم سے ہے۔ تاہم انہی قوالب کا اسیر ہو جانا جو اُن بزرگوں نے اپنی محنت اور اجتہاد سے کسی وقت تشکیل دے لئے تھے، اسی پر ایک دوسرے سے الجھنا اور اسی پر رک جانے اور ہر کسی کو روک دینے کی ضد کرنا آج اس جمود کا باعث بن رہا ہے جو ہمیں اپنے مخلص کارکنانِ دین میں اب واضح طور پر نظر آنے بھی لگ گیا ہے اور اگر اب بھی ہم نے افزائشِ فکر کے اس بحران کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی تو کوئی شک نہیں ہم سطحیت کی اس سے بھی بدتر حدوں کو چھونے لگیں گے۔ آج اگر ہم اپنے اِن بزرگوں کے خلاصہء محنت و اجتہاد کو ایسی حیثیت دے لیتے ہیں کہ قیامت تک کیلئے اب اس میں کسی پیشرفت کا امکان مسترد کر دیا جائے تو کیا خیال ہے اگر ہمارے ان بزرگوں نے خود اپنے بزرگوں کو یہی حیثیت دے لی ہوتی اور ان کے فرمائے کو کافی جانتے ہوئے اپنے قلم توڑ لئے ہوتے تو کیا وہ تحریکی سفر ممکن ہوتا جو ہمارے ان بزرگوں کے دم سے ہماری حالیہ تاریخ میں ممکن ہوا؟ ہمارے بزرگوں کے جو بزرگ تھے وہ بھی کوئی معمولی شخصیات تو نہ تھیں! حضرات یہاں تو ہر نسل کو اس عمل میں اپنا حصہ ڈال کر جانا ہے۔ شاید اس بات پر یہاں کی ہر جماعت کا متنبہ ہو جانا ضروری ہے کہ یہاں جس جماعت کی ’بعد کی نسل‘ نے بزرگوں کے کشید کردہ نتائج پر رک جانے کا فیصلہ کر لیا تحریکی عمل کی ٹرین جوکہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس کو لازماً پیچھے چھوڑ جائے گی۔ ماحول میں اس کے شواہد دیکھنا ہوں تو وہ ہرگز کم نہیں۔ یہ جتنی بھی بے رحم ایک حقیقت ہے، مگر لازم ہے کہ اس حقیقت کے ساتھ تصادم کی بجائے تعامل ہی کیا جائے۔
یقینا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی پہلی نسلوں کے عمل کا ایک تسلسل بھی بنیں، مگر اُسی ambitious انداز میں جس انداز میں خود ہماری پہلی نسل نے اپنی پہلی نسلوں کا ایک تسلسل بن کر دکھایا تھا۔ البتہ جہاں اَذہان کچھ جامد قوالب کے ہی اسیر کر رکھے جائیں گے وہاں تحریکی عمل میں پایا جانے والا تنوع اور تعددِ افکار کیونکر ایک مفید اور صحت مند فنامنا بن سکے گا؟ یقین کیجئے خیالات اور افکار کے تنوع کو قبول کرنا اور اس کو خاطر خواہ حد تک مفید بنا دینا ایک خاص درجے کی فکری استعداد چاہتا ہے ورنہ تو ایک چھوٹا سا فرق ہی ایک ناقابل عبور فصیل کھڑی کر دینے لگتا ہے۔
پس سب سے پہلے جو چیز لازم ہے وہ یہ کہ ایک فکری انفجار an explosion of ideology کا عمل جوکہ ایک عرصے سے قریب قریب یہاں موقوف ہے، اور جس کے باعث ڈر ہے کہ ہم کسی کھڑے پانی کا نقشہ نہ پیش کرنے لگیں، ’فکری انفجار‘ کے اس تسلسل کو از سر نو بحال کرانے کے وسیع تر انتظامات عمل میں لائے جائیں۔ کیا آپ نے کبھی غور فرمایا، ایک عرصے سے اسلامی فکر کے موضوع پر یہاں اگر کچھ نیا آرہا ہے تو وہ زیادہ تر عرب دنیا میں ہونے والے کام کے تراجم کی صورت میں آ رہا ہے، یا پھر ہمارے نوجوانوں کو کچھ تازہ فکری غذا food for thought مل رہی ہے تو وہ انگریزی جاننے اور انٹرنٹ دستیاب ہونے کے باعث مغرب میں ہونے والی دینی و فکری پیشرفت ہے جو انہیں کسی نہ کسی طرح پڑھنے کو مل جاتی ہے؟! البتہ اپنے یہاں کوئی نئی چیز کم ہی سامنے آ رہی ہے۔(2) فکری پیداوار کے یہ دونوں مصدر (عربی کا ترجمہ شدہ لٹریچر اور انٹرنٹ سے حاصل ہونے والا فکری مواد)، جہاں اس لحاظ سے امید افزا ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو ہمارے پیدا کردہ اس فکری خلا کے ہوتے ہوئے چلیں کچھ تو میسر آیا، وہاں یہ اس لحاظ سے بے حد تشویشناک ہے کہ وہ خلیج جو ہمارے یہاں سرگرم دینی جماعتوں اور تحریکی و فکری موضوعات پر تحقیق کرنے والے اِن ambitious نوجوانوں کے مابین تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ اب شاید اپنی آخری حدیں پھلانگ جانے والی ہے۔ البتہ نوجوانوں کی ایک دوسری صنف کا معاملہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ ہماری اس عدم اہلیت کے باعث کہ ہم اب مزید کچھ نیا پیدا کر کے نہیں دے رہے اور نہ اپنے ان نوجوانوں میں یہ قابلیت منتقل کرنے پر محنت کر پا رہے ہیں، البتہ ایک باقاعدہ انتظام کر کے ان میں سطحیت ضرور بڑھا رہے ہیں، اور جبکہ جذبہء عمل کو نوجوانوں میں پرورش پانے سے روک دینا ممکن ہی نہیں خصوصاً آج اس وقت جب ہر طرف سے ہم پر بم پڑ رہے ہیں۔۔ اس لئے ہمارے نوجوانوں کی اس صنف کے یہاں، جوکہ تعداد میں اول الذکر کی نسبت بہت زیادہ ہے، ہر جذباتی صدا پر لبیک کہنے کے امکانات اب دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بعید نہیں یہ چیز یہاں ایک بہت بڑا نقصان کروا دینے کا سبب بنے۔۔ یقین کیجئے اُس سے بھی بڑا نقصان جتنا کہ اِس وقت ہو رہا ہے! کیا اس کا الزام بڑی لاپروائی سے ہم ان مخلص نوجوانوں ہی کو دے دیں گے یا الزام کا ایک بہت بڑا حصہ خود ہمیں جائے گا کہ کچھ انتہائی بور کر دینے والے قوالب میں جکڑ دینے کے سوا ہمارے پاس ان کو دینے کیلئے کچھ تھا ہی نہیں؟ یعنی نتیجہ یہ کہ ہمارے زیادہ پڑھے لکھے نوجوان عرب ممالک اور مغرب میں سامنے آنے والی اسلامی فکری مصنوعات کے صارفconsumer بنیں اور ہمیں اس معاملہ میں قابل ترس ہی جانیں، جوکہ نوجوانوں کا ایک گروہ ٹھہرا، جبکہ نوجوانوں کا ایک دوسرا گروہ جسے اب تک سطحیت کا شکار ہونے کیلئے چھوڑ رکھا گیا ہے، تشدد اور انتہا پسندانہ رجحانات کو خوش آمدید جا کہے البتہ نوجوانوں کا یہ فریق بھی ہم سے برگشتہ ہی ہوجائے! بلکہ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو ملکی سیاست میں کچھ زیادہ کھل کر دلچسپی لینا چاہ رہا ہے اور ان ’تکلفات‘ کو برطرف رکھ دینا چاہتا ہے جو ان کے خیال میں ’غیر ضروری طور پر‘ سیاسی دنیا میں آج تک ہمارے پاؤں کی زنجیر بنے رہے ہیں، اس لئے نوجوانوں کا یہ فریق بھی کچھ ’عملی‘ راہوں کیلئے سنجیدہ ہوا چاہتا ہے بلکہ ’متبادل‘ کا سوال بھی ایک اور ہی انداز سے کھڑا کرنے لگ گیا ہے!
حضرات! جاہلیت کے ساتھ ہم نے ستر سال پہلے ایک نظریاتی ٹکر لی تھی، اور اُس کے تیور دیکھ کر جاہلیت کی نگاہ میں اُس کی بقا کا سوال یقینا اٹھ کھڑا ہوا تھا، تو وہ کچھ اس لئے نہیں کہ تب ہم ’تعداد‘ میں بہت زیادہ تھے یا عوامی تائید ہمیں بہت زیادہ حاصل تھی (یہ تو جب آپ کسی چیز پر قائم ہو کر دکھاتے ہیں تو خود بخود آتی ہے)۔ یہ قوت آپ کو اُس وقت بھی ایک ہی چیز سے ملی تھی اور آج بھی ایک ہی چیز سے ملے گی، بلکہ قوت جتنی درکار ہو اتنی ہی آپ یہاں سے لے سکتے ہیں۔ یہ ہے، سید قطب رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں: حق اور باطل کے مابین ایک ایسی کشمکش اٹھانا جس میں کوئی ’درمیانی راہ‘ نہیں ہوتی۔ جتنا آپ اِس لہجہ کو بلند کر لینے کی ہمت رکھیں اتنی ہی قوت آپ کیلئے اِسی کے اندر سے دستیاب ہو گی۔ آپ کو کچھ دیر اس پر ثابت قدم رہ کر دکھانا ہوتا ہے، پھر جلد یا بدیر ہر صاحبِ خیر کا سینہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں کھول دیتا ہے، یہاں کے پاکیزہ نفوس ہی نہیں کائنات کی سب قوتیں آپ کے ساتھ ہو لیتی ہیں حتیٰ کہ فرشتے مدد کو آتے ہیں! (إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ) حق یہ ہے کہ ستر سال پہلے ہم میں ایک زندگی اور جان آتی محسوس ہو رہی تھی تو وہ حق و باطل کی اسی تاریخی داستان کو دہرا دینے کے دم سے جسے بقیہ زمانے کیلئے اب متروک سمجھا جا چکا تھا۔ ہماری تنظیم، ہمارا ڈسپلن سب اِس سے بعد کی بات ہے، بلکہ خود اِسی قوت کے خزانہ سے وجود میں آنے والی ایک چیز۔
آج اللہ کے فضل سے کچھ عرب علماءو مفکرین کی محنت کے دم سے ”توحید“ اور ”اصولِ سنت“ کی ”تحریکی جہتیں“ جس طرح آشکارا کی گئی ہیں، یہاں تک کہ وہ باقاعدہ اب ایک سکول آف تھاٹ ہے اس نے اللہ کی توفیق سے سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور سید قطب رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ کو کمال کی علمی اور اصولی جہتیں دے دی ہیں اور اس کی بہت سی تصویب اور تنقیح کر دی ہے، جس سے آہستہ آہستہ اب یہ عمارت مکمل ہونے جارہی ہے (آج کے تحریکی پس منظر میں اس کو مدرسہء ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ و ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ و ابن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ سے منسجم و ہم آہنگ کر دیا ہے۔ گو یہ ہم آہنگی لانے کیلئے، جزوی طور پر اس میں کچھ ترمیمیں بھی کی ہیں)۔ بہرحال اس میں ادنیٰ شک باقی نہ رہنی چاہیے کہ ہماری کل قوت اسی بات میں پوشیدہ ہے اور رہے گی کہ اسلام اور جاہلیت کے مابین ایک کشمکش ہی ہمارا اصل کیس بنے، جس میں ہمارا ہتھیار: ہمارا عقیدہ، ہمارا نظریہ اور ہمارا فکر ہو؛ جس کا جاہلیت کے پاس کوئی توڑ کبھی پایا ہی نہیں گیا، سوائے یہ کہ وہ ہمیں ’بیچ‘ کی کوئی راہ دکھا دینے میں کامیاب ہو جائے، جس کے نتیجے میں اپنے کیس پر ہماری گرفت کمزور پڑ جانے کے بعد __ جبکہ اپنے اِس کیس میں ہی دراصل ہماری زندگی اور جاہلیت کی موت پوشیدہ تھی __ پھر ہم ’راستہ‘ پوچھتے پھریں اور جاہلیت ہمیں سڑکوں پر پھرتا چھوڑ کر آرام اور سکون سے اپنے ایجنڈے کا از سر نو آغاز کرے، اور ایک ’قصہ‘ تمام ہو جائے!
آج اگر آپ دیکھیں تو اکیسویں صدی کے شروع ہونے کے ساتھ ہی یکلخت ایک نیا سیکولر ایجنڈا پورے زور اور طمطراق کے ساتھ اِس ملک میں لانچ ہوتا آپ کو صاف نظر آتا ہے۔ گویا کسی کا ڈر تھا جو اَب نہیں رہا! خصوصاً آج کے اِس ’آزاد‘ میڈیا کی ٹون کو دیکھیں تو وہ کچھ ایسے نئے مسلمات کو ذہنوں کے اندر پختہ کرنے جا رہا ہے جس میں تھوڑا ہی آگے چلنے کے بعد شاید مغرب کی دین گریزی بھی آپ کو بھول جائے گی۔ این جی اوز کی کارگزاری کو ابھی ایک طرف رکھئے، صرف اس ’میڈیا‘ کے دم سے ہی ایک ’جدید پاکستان‘ کو وجود میں لانے کیلئے یہاں کے معاشرتی خدوخال جس بری طرح سے مسخ کر دیے جانے لگے ہیں، سمجھئے برسوں کا سفر دنوں میں طے ہونے لگا ہے۔ بخدا یہ ہم ہیں جو ہر دن برسوں کے حساب سے لیٹ ہو رہے ہیں۔
یقینا اسلام کا کام پیچھے نہیں چلا گیا ہے۔ اسلام کی قوت بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ لیکن اگر آپ غور کریں، تو اسلامی قیادتوں کے نہ پایا جانے (معذرت کے ساتھ) اور اسلامی ترجمانی میں ایک بے حد بڑا ضعف آجانے کے باعث، اور اسلامی نظریہ کے حق میں فکر کی افزائش کاکام معطل ہو جانے کے باعث، اور ’نظریات‘ کی گولہ باری جو ہمیں پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں نظر آتی ہے رک جانے کے باعث، آج اسلام کیلئے برسر عمل طبقوں کا تیزی سے پھیلتا ہوا کام بڑی حد تک ’زیر زمین‘ جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ یہاں کے داعیانِ سیکولرزم دانشمند ہوں تو ہرگز اِس کو اپنے حق میں اچھا شگون نہ جانیں کہ واہ اب تو کھل کھیلنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ یہ اگر جانیں تو انہیں اور بھی فکر مند ہو جانا چاہیے کہ سطحِ زمین پر انکے سیکولر ایجنڈا کے اس کھل کھیل کے باعث زیر زمین ایک ایسے بڑے زلزلے کی راہ ہموار ہو رہی ہے جو یہاں کا بہت کچھ تہس نہس کر جانے والا ہے۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ امتِ محمد میں کفر کی حکومت ایک نارمل واقعہ بن جائے۔ اِس کا تو یقین رکھیں۔
پس اسلام تو کہیں نہیں گیا ہے۔ اس کی قوت بھی بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ اسلام کے فکری و تحریکی مباحث میں بھی پختگی آئی ہے (’جماعتوں‘ کی سطح پر پیچھے گئی ہے تو ’افراد‘ کی سطح پر آگے بڑھی ہے)۔ لوگوں کے دین کی جانب آنے کی رَو آج بھی یہاں سب سے تیز ہے۔ خود اشرافیہ کے گھروں میں اسلام اپنی یلغار کئے ہوئے ہے۔ پھر کیپٹل ازم کا ہاتھی اب کسی بھی وقت گرنے کو ہے، جس کے باعث اسلام کی مخفی توانائی بے حد بڑھ گئی ہے اور اس کی آہٹ اب ہر کوئی سنتا ہے(3)۔ البتہ ان ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک تصویر بنانا پھر بھی کسی حوصلہ مند قیادت ہی کا کام ہے۔ یہ کام اگر نہیں ہوتا تو یقین کیجئے ایک زلزلہ یہاں بہرحال آیا چاہتا ہے۔ البتہ ہم ایک ایسی ہی جان دار اسلامی تبدیلی کے عمل کو ترجیح دیں گے جو ’زمین دوز‘ ہونے کی بجائے معاشرے کے ہر فورم پر ایک نظریاتی جنگ کی صورت میں لڑی جائے اور جوکہ ایک زوردار فکری ہلچل ہی یہاں ہر سطح پر برپا کر کے رکھے اور معاشرے کے اندر ایمان اور نفاق کی بنیاد پر ایک نظریاتی تقسیم ہی نہ صرف عمل میں لے آئے بلکہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرتے ہوئے اس لکیر کو اتنا گہرا کر دے کہ یہ خدا کی ایک حجت بن جائے۔ یقین کیجئے اسلام کی اتنی بڑی قوت اس وقت وجود میں آ چکی ہے کہ ایک حقیقی تحریک آج اگر اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اس کو چند سال سے زیادہ نہ لگیں گے کہ وہ یہاں ایک بہت بڑے اثاثے کی وارث ہوگی۔
مسئلہ یہ نہیں کہ اپنے لئے یہاں آپ کیا لانگ ٹرم ہدف رکھتے ہیں، خواہ وہ لانگ ٹرم ہدف اسلامی انقلاب ہے یا نفاذِ شریعت یا جہاد یا کچھ اور۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آپ روز مرہ کی بنیاد پر اور معاشرے کے ہر فورم پر حق اور باطل کی ایک نظریاتی جنگ کیونکر چھیڑ سکتے ہیں؟ یہاں کے بہت سے جاہلی تصورات کو، جوکہ اب ایک ’قومی و ملی‘ لبادا بھی اوڑھ چکے ہیں، کیونکر ڈنکے کی چوٹ باطل ٹھہرا سکتے ہیں اور باطل کیلئے کہاں تک آپ ایک نظریاتی چیلنج بن کر دکھاتے ہیں۔ (’باطل‘ محض ’حکومت‘ کے معنیٰ میں نہیں بلکہ اُس معنیٰ میں جو ’حکومت‘ اور ’اپوزیشن‘ تو کیا، یہاں کے ہر باطل ایجنڈا کی حامل قوت کو شامل ہو اور آپ اسے مسلسل چیلنج کر رہے ہوں)۔ نیز، معاشرے کے ایک عام آدمی کے سامنے کیونکر یہ سوال دن میں کئی کئی بار لے کر آسکتے ہیں کہ وہ حق اور باطل کی اس کشمکش میں اپنی طرفداری کا تعین کرے۔ یقین کیجئے اوپر کی سطح پر آپ ایک بے حد جان دار آواز اٹھائیں گے تو تب جاکر ہی نیچے تک اس کی آواز سنی جائے گی اور معاشرے کا ایک عام آدمی اس کو ایمان اور آخرت کے مسئلہ کے طور پر لے پائے گا۔ ’اسلامی انقلاب‘ تو جب آئے گا تب آئے گا اور شریعت بھی جب نافذ ہوگی تب ہو گی البتہ ’اسلام اور جاہلیت‘ کے مابین کشمکش اور اس میں اپنی طرفداری کا تعین تو یہاں چوبیس گھنٹے عام آدمی کے کانوں میں گونجنے والا ایک سوال بنا دیا جانا چاہیے۔ آپ کی اصل قوت یہاں ہے نہ کہ اُس لانگ ٹرم ہدف میں جس تک آپ کو اپنی اِس قوت سے مدد لے کر پہنچنا ہے۔ پس اِس کو تو ایک ایسا سوال بنا دیا جانا چاہیے جس کے ساتھ کوئی اور چیز جڑی ہوئی نہ رہ گئی ہو؛ محض ایک نظریہ، ایک عقیدہ، ایک تہذیب، ایک دین جس کا تعلق ایمان سے ہے، مقصدِ وجود سے ہے، بعثتِ رسل کی غایت سے ہے، خالق کے ساتھ وفاداری سے ہے اور میدانِ حشر میں ہونے والی جوابدہی کے ساتھ ہے، یہاں نہ ’تنظیم‘ کوئی سوال رہ گیا ہو اور نہ روٹی اور مہنگائی اور نہ ووٹ اور نہ سیٹیں اور نہ وعدے۔
تنظیمی عمل ہو مگر پس منظر میں رہ کر۔ جو چیز البتہ آپ کا واجہہ face بنے وہ ایک عقیدہ، ایک نظریہ اور ایک تہذیب ہو۔ لوگ قبول کریں تو اس کو کریں، مخالفت کریں تو اس کی کریں، باعث نزاع ہو تو وہ ہو، اس کشمکش کا عنوان بنے تو وہ بنے۔ ہر ہر جگہ موضوعِ بحث ومباحثہ بنے تو وہ بنے۔ (جس میں اگر آپ کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ آپ کی ایک نہایت غیر معمولی کامیابی ہوگی اور جاہلیت اس پر آخری حد تک سٹپٹا جائے گی، بلکہ اس میں اگر آپ کامیاب ہو جاتے ہیں تو سمجھئے یہ جنگ آپ جیت چکے، کیونکہ باطل صاف صاف جب حق کے مقابلے پر لے آیا جائے تو وہ حق کے مقابلے پر کھڑا رہ ہی نہیں سکتا۔ باطل میں اس کی طاقت ہی نہیں رکھی گئی)۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں ’تنظیم‘ نام کی کوئی چیز آپ کا واجہہ بہرحال نہ بنے۔ جو لوگ عقیدہ کی اس جنگ میں حق کے طرف دار بننے کا فیصلہ کریں، اور اپنی اِس طرفداری میں ایک خاص سطح پر چلے جانے والے معلوم ہوں، خاموشی کے ساتھ ان سے آپ کا ایک تنظیمی اثاثہ خود بخود تشکیل پاتا جائے گا جوکہ آپ کی داخلی سرگرمی کا ایک بے حد بڑا میدان ضرور ہوگا مگر معاشرے کی سطح پر یوں کہ گویا یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں (اور نہ ہی اس کیلئے آوازیں پڑ رہی ہوں)۔ البتہ لوگ آپ کو جانیں تو محض ایک عقیدہ ایک نظریہ اور ایک کیس کے حوالے سے جانیں۔یہ ایک بہت بڑا شفٹ ہو گا کہ ’آپ‘ بہت پیچھے چلے جائیں اور آپ کا تنظیمی چہرہ بھی قریب قریب روپوش ہو جائے اور جو چیز میدان میں دیکھی جارہی ہو اور اس کے سوا کچھ دیکھا ہی نہ جا رہا ہو وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینی حیثیت کا تعین ہو، اللہ یا غیر اللہ کی اطاعت وبندگی کا سوال ہو، مالک الملک کے ساتھ وفاداری یا عدم وفاداری کا امتحان ہو، اور ’ما انزل اللہ‘ کی روشنی میں یہاں کی ہر قدر، ہر ضابطے اور ہر پیشوا کی حیثیت کا جرائءتمندانہ تعین ہو۔
آپ کو جتنی قوت کی ضرورت ہے ، لینا چاہیں، تو یہاں سے آپ کو مل سکتی ہے! ہاں اِس کی ایک قیمت ضرور ہے! ویسے قیمت اِس دنیا میں کس چیز کی نہیں ہے؟!
کیا کوئی یہاں کے سیکولر طبقوں کی اُس روز بے چارگی کا اندازہ کر سکتا ہے، جب ان کو قرآن اور رسول کے ساتھ سیدھا سیدھا میدانِ جنگ میں اتر آنا پڑا؟! ’بیچ‘ کی وہ سب تہیں جو اِس معرکے کی حقیقت کو چھپا رہی ہیں جب کھرچ ڈالی گئیں، اور وہ سب پردے جو اس معرکے کو عنوان ہی اب تک کچھ سے کچھ دے دیتے رہے ہیں جس روز ہٹا دیے گئے، اور ایک ایسی سرزمین پر جس کے ہر ہر چپے پر اذان کی صدا سنی جانے میں ہزار سال سے کوئی تعطل نہیں آیا، ’ما انزل اللہ‘ اور ’سبیل الطاغوت‘ کے مابین آمنے سامنے کا ایک کارزار برپا ہوا؟! حضرات باطل یہاں جس قابل رحم حالت میں ہے وہ تو ہمارے تصور سے بھی باہر ہے۔ یہ تو ہم ہیں جو اَب تک اسے زندگی دیے جا رہے ہیں!
تحریکِ نفاذِ شریعت کے ہم دل و جان سے مؤید ہیں، مگر اس تحریک کی جان جس چیز میں ہو سکتی ہے اس کا نام ’معاشرے کے ہر فورم پر ہونے والی ایک نظریاتی کشمکش‘ ہے، جس کا فی الحال کوئی بڑی سطح کا انتظام ہمیں نظر نہیں آ رہا۔ باطل کے خاتمہ کا عمل جس چیز سے اصل توانائی پاتا ہے وہ ’اقامتِ حجت‘ کا عمل ہے، اِس معنیٰ میں نہیں کہ باطل کو ایک چیز معلوم نہیں جو اُسے معلوم کرا دی جانا ضروری ہے، بلکہ اِس معنیٰ میں کہ باطل، اپنی تمام صورتوں سمیت، آخری حد تک عریاں ہو جانے پر مجبور ہو جائے، اِس حد تک کہ فطرتِ انسانی کو اُس سے اُبکائی آنے لگے اور وہ اس پر حق کی تلوار چل جانے کیلئے چیخ چیخ کر مطالبہ کرنے لگے۔ (وَكَذَلِكَ نفَصِّلُ الآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ )(4) ”حجت“ درحقیقت بیان، جدال اور زمانے کی زبان میں باطل کی سب عصری صورتوں کا نظریاتی ابطال ہے۔ اس پر برصغیر میں کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے تو وہ سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا برپا کردہ تیس اور چالیس اور پچاس کے عشروں کا تحریکی عمل ہے۔ اسلامی تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے مطلوبہ ایندھن آپ کو مل سکتا ہے تو وہ معاشرے کے ہر ہر فورم پر ایک نظریاتی جنگ برپا کر دینے سے ہی مل سکتا ہے۔ بصورت دیگر ’حصولِ ہدف کس طرح؟‘ کے سوال پر آپ کو بے بس اور لاجواب ہونا پڑتا ہے، یہاں تک کہ کبھی آپ کے سامنے ’بندوق‘ سے مدد لینے کا سوال اٹھتا ہے، جس کا نقصان قطعی طور پر اس کے فائدے سے زیادہ ہے (بلکہ یہ اپنے اصل کیس کو ہی ختم کر لینے والی بات ہے)(5)، اور یا پھر ووٹوں اور سیاسی اتحادوں کی مدد سے راستے بنانے کا، جوکہ ’راستہ‘ تو ہوتا ہے مگر آپ کے لئے نہیں!
آپ کا ہدف جتنا بھی آپ کی نگاہ میں اہم ہو، خواہ وہ ’اسلامی انقلاب‘ ہے، یا ’نفاذِ شریعت‘ یا ’جہاد‘۔۔۔۔ اس سے اہم تر بات فی الوقت مرحلے میں یہ ہے کہ آپ کا باقاعدہ کوئی کیس ہو جسے آپ اِس کامیابی سے لڑ رہے ہوں کہ اُسی کو معاشرے کا سب سے بڑا نزاع بنا ڈالیں۔ یہ بات ایک تحریکی عمل کو اٹھان دینے میں بے حد اہم ہے۔ ’مطالبے‘ آپ جتنے مرضی کریں، ’مطالبوں‘ کو کون سنتا ہے؟ ’ہدف‘ آپ جتنے مرضی اور جتنے اچھے سے اچھے رکھیں، یہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے۔ جو چیز آپ کو البتہ ایک ”تحریک“ بنائے گی وہ یہ کہ آپ کا ”کیس“ کیا ہے اور اس کو آپ لڑ کس تن دہی اور فدائیت کے ساتھ اور کس پرتاثیر انداز میں رہے ہیں اور یہ کہ آپ کے اُس کیس کے اندر پورے معاشرے کو بانٹ کر دو فریق بنا دینے کی صلاحیت کتنی ہے؟ یعنی: سب سے پہلے خود آپ کے کیس میں جان کتنی ہے؟ (جس کوکہ ”ایمان“ اور ”توحید“ کے سوا کوئی عنوان دینا ہی نہیں چاہیے، ’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ پڑھیں تو آپ پر یہی بات کھلتی ہے کہ ’رب‘، ’الٰہ‘، ’دین‘ اور ’عبادت‘ کا اصل مفہوم واضح کر دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ خالصتاً اِس کو ”ایمان“ اور ”توحید“ ہی کا مسئلہ بنا دیا جانا ہے، اور اس لحاظ سے جتنی جان آپ کے کیس میں ہے اتنی دنیا کی کسی تحریک کے کیس میں ہو ہی نہیں سکتی، بشرطیکہ آپ واقعتا اس کو اپنا کیس بنا لیتے ہیں) پھر یہ کہ اس کی ترجمانی کس اعلیٰ پائے کی ہے؟ ہر فورم پر اسی کو اصل نزاع کے طور پر منوا لینے میں آپ کہاں تک کامیاب جا رہے ہیں اور معاشرے کے ہر فرد کے سامنے اس کی بابت (یعنی اس کی حمایت یا مخالفت میں) کوئی سنجیدہ موقف اپنا لینے کا سوال کس شدت سے لے آیا گیا ہے؟ اس کیس کو بے جان کر دینے والے عوامل سے آپ کہاں تک چوکنا ہیں؟ اور اس کیس کی کارروائی آپ کے ہاتھوں کیونکر ایسی بنا دی گئی ہے کہ آئندہ مراحل میں اس کے اندر اگر پہلے سے بھی زیادہ شدت لے آئی جاتی ہے، اور ظاہر ہے کہ لائی جائے گی، تو کوئی بھی اسے ایک ’غیر طبعی‘ قسم کی پیش رفت یا ’حیران ہونے کی بات‘ نہ جانے؟
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں نبوی دعوت میں ’قیامِ شریعت‘ یا ’تبدیلیِ نظام‘ کو ”عقیدہ“ کی بنا پر کھڑی کر دی جانے والی ایک (نظریاتی) جنگ کا ہی نتیجہ بنایا گیا۔ سب سے پہلے آپ کا ایک کیس ہی ہوتا ہے، پھر اس کی بنا پر کھڑی کر دی جانے والی ایک نظریاتی جنگ، (ہماری اصطلاح میں ’عقیدہ‘ کی جنگ)، جسے آپ سماج کی سطح پر اپنا کیس لڑنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہاں، پھر اس سے جو توانائی آپ کو حاصل ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں ’سماج‘ کی جتنی زمین باطل کے ہاتھ سے جاتی اور آپ کے ہاتھ میں آتی ہے، اسی کے بقدر آپ کے ’لانگ ٹرم اہداف‘ پورے ہوتے ہیں۔ لوگ آپ کے ساتھ ضرور ملیں گے، اس کی آپ پروا مت کیجئے، یہ امتِ محمد ہے جو خیر سے بھر رکھی گئی ہے۔ صرف اپنا ایک کیس سامنے لائیے، اس کو کچھ دیر لڑ کر دکھا دیجئے، یعنی ”استقامت“ کی شرط پوری کر دیجئے، ’قافلے‘ ان شاءاللہ اتنے بننے لگیں گے کہ شاید سنبھالنا مشکل ہو۔
پس سب سے ناگزیر کوئی چیز ہے تو وہ باطل سے دو بدو عقیدہ کی ایک جنگ ہے، جو اگر کھڑی کر دی جائے تو ایک یہی چیز ہمارے سب دور رس اہداف حاصل کروا دینے کی ضمانت بن سکتی ہے، بلکہ ہے ہی صرف یہ ایک چیز جو ہمارے اہداف پورے کروا سکے؛ یعنی عقیدہ کی جنگ۔ یقین جانئے اس میں وہ مخفی توانائی ہے جو نہ ’بندوق‘ آپ کو پیدا کر کے دے سکتی ہے اور نہ ’ووٹ‘۔
ہاں البتہ اگر آپ اِسے ’عقیدہ کی جنگ‘ ماننے پر ہی تیار نہیں، اور اِسکو ”دین“، ”عبادت“ اور’ ’الٰہ“ کے ساتھ براہ راست متصل مسئلہ بنا دینے کے ہی سرے سے روادار نہیں تو پھر ایک الگ بات ہے اور تب ضرور ہم یہ مان سکتے ہیں کہ آپ کی پیش قدمی کے راستے کچھ اتنے کشادہ نہیں، اگرچہ اتفاقات کے امکان کو کسی بھی وقت ختم نہ ماننا چاہیے!
٭٭٭٭٭
’عقیدہ کی جنگ‘ یہاں ہر مسلمان کا مسئلہ بنایا جانا ہے۔ اور اس کا ’فریق‘ تو یہاں پائے جانے والے ہر انسان کو بنایا جانا ہے۔ ”دین“ کا صحیح تصور، ”عبادت“ کی اصل حقیقت، ”الٰہ“ کا صحیح مفہوم، ”اللہ یا غیر اللہ کی بندگی“ کا وہ نزاع جو رسولوں کی دعوت کا مرکزی نقطہ رہا ہے۔۔ یہ سب موضوعات، نظریات کی اس آنے والی کشمکش کا براہِ راست عنوان ہوں گے۔ ”دین کی جو اصل اور اساس ہے“ اس کو اپنا مقدمہ بنایا جانا یہاں پائے جانے والے ہر تحریکی گروہ، ہر تنظیم، ہر جماعت کے کرنے کا کام ہو گا۔ یہ مسئلہ دین کے فرضِ اول کے ساتھ وابستہ ہے، جس کو ہم مضمون کی ابتدا میں ’ج‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں۔ پس اسی سے ایک عمومی تحریکی دھارا تشکیل دیا جائے گا۔ پھر ’شعبوں‘ میں سے، کوئی تحریک یا جماعت یا تنظیم یا انجمن جس چیز کا بھی انتخاب کرے۔ کوئی تبلیغ کو اپنی سرگرمی کا میدان بنائے، کوئی معاشرے کے اندر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام کو، کوئی حکومتِ الٰہیہ کے قیام کیلئے کی جانے والی جدوجہد کو، کوئی نفاذِ شریعت کو، کوئی دشمنانِ اسلام کے خلاف قتال کو، کوئی تعلیمی شعبے کو، تو کوئی سیاسی شعبے کو، تو کوئی سماجی ترقی اور بہبودِ امت کو یا علیٰ ہذا القیاس اجتماعی فرائض میں سے کسی بھی فرض کو، جو کہ سب کے سب ”فرضِ کفایہ“ کے باب میں آتے ہیں اور ایک مسلمان ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ جس جس شعبے میں پورا اتر سکتا ہو اس کو پورا اترنا ہوگا (جوکہ پیچھے ’ب‘ کے تحت بیان ہوا)، بعد اس کے کہ وہ انفرادی فرائض میں پورا اتر لینے پر زیادہ توجہ دے چکا ہو (جوکہ ’الف‘ کے تحت بیان ہوا) اور جوکہ فرض ہائے کفایہ کی نسبت اہم تر ہے اور حساب کتاب میں بھی مقدم۔
تاہم اگر ”دین کی اصل اور اساس“ سامنے نہیں لائی جاتی تو پھر ’شعبے‘ ہی آپ کیلئے ”دین کی اصل اور اساس“ ہو ٹھہریں گے، لسانِ قال کی رو سے نہیں تو لسانِ حال سے تو ضرور ہی۔ تبلیغ والوں کیلئے ”تبلیغ“ ہی تب ”اصل و اساسِ دین“ ہو رہے گی۔ اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کرنے والے نیک حضرات کیلئے ”حکومتِ الٰہیہ کا قیام“ ہی ”اصل و اساسِ دین“ ہو ٹھہرے گا۔ کسی کے ہاں ”جہاد“ ہی دین کی اصل و اساس ٹھہرے گا تو کسی کے ہاں ”نفاذِ شریعت کیلئے جدوجہد“ ہی، تو کسی کے ہاں ”ازالہء منکرات“ تو کسی کے ہاں ”ردِ بدعات“، تو کسی کے ہاں ”لوگوں کی نمازیں اور کچھ مخصوص اعمال سنت کے مطابق کروانا“ تو کسی کے ہاں ”تعلیم اور مدارس اور تدریسِ کتب“ تو کسی کے ہاں ”خدمتِ خلق“۔ وقِس علیٰ ذٰلک
پھر جب شعبے ہی ’اصل‘ اور ’اساس‘ ہو ٹھہریں گے تو تب اسکو ’تنوع‘ نہیں کہا جائیگا۔ شعبوں کو ”شعبے“ ہی رکھنے کیلئے ضروری ہو گا کہ ”اصل“ کا سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر تعین ہو۔
بنا بریں، ایک ’تضاد‘ کو ’تنوع‘ میں بدل دینے کی ضرورت پیچھے جو بیان ہوئی، محض کوئی ’لفظی‘ قسم کی کارروائی نہیں کہ گویا یہی ایک کمی تھی لہٰذا اب اگر اِس ’نئی اصطلاح‘ کا استعمال ہو تو یہ گنجلک ہمیشہ کیلئے جاتی رہے گی! مسئلہ اتنا ہی معمولی ہوتا تو ہم اُس فریق کی خوش فہمی پر اعتراض ہی نہ کرتے جو آج کے دینی طبقوں کے مابین ”یکجہتی“ آجانے میں، سوائے کچھ مزید اپیلوں اور ’اتحاد و یگانگت‘ ایسے موضوعات پر کچھ دل گیر بیانات کے اور سوائے ’آپس کے مشترکہ نکات کو نمایاں کرنے‘ کی تاکیدات کے، کوئی بڑی کمی اپنے یہاں نہیں دیکھتا۔ بلا شبہ یہاں پائی جانے والی صورتحال شدید طور پر متقاضی ہے کہ یہاں کے تحریکی ذہن کی ایک تشکیل نو ہو۔
اِس ”تبدیلی“ اور اس ”تشکیل نو“ کی اساس ہم کیا تجویز کرتے ہیں؟ اِس کے لئے زیر نظر مضمون کی ابتدا میں بیان کی گئی ”فرائض“ کی سہ گانہ تقسیم ہی ایک نظر دوبار ہ دیکھ لی جائے، خصوصاً جزو (ج)، جوکہ اساس دین کے حوالے سے ذکر ہوا۔ علاوہ ازیں ”ترتیب“ کے حوالے سے ہم نے جو مقدمہ بیان کیا اس کو بھی مزید ایک بار بغور دیکھ لیا جائے۔
٭٭٭٭٭
اپنا ”تصورِ دین“ درست کرنا، بعثتِ انبیاء کی غایت کو ذہن نشین کرنا، اللہ تعالیٰ کی اور اس کے مرتبے اور مقام کی صحیح پہچان کرنا اور اس کے بالمقابل غیر اللہ کی عبادت کا نفی و انکار کرنا کہ جسے کفر بالطاغوت و ایمان باللہ کہا گیا ہے، اور جوکہ اسلام کی اصل اور اساس ہے اور انسانی دنیا کے اندر اسلام کا اصل مقدمہ ہے۔۔۔۔ غرض ”دین کو اللہ کیلئے خالص کرنا“، آدمی کے اپنے حق میں تو ’فرائضِ عین‘ سے بھی پہلے آتا ہے اور ’فرائضِ کفایہ‘ سے بھی پہلے۔ یہ ’فرائضِ عین‘ سے بھی بڑا فرض ہے اور ’فرائضِ کفایہ‘ سے بھی۔ یعنی علی الاطلاق یہ دین کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا فرض ہے۔
البتہ دوسروں کو اس فرض سے عہدہ برآ کرانا، جسے ”توحید کی تعلیم“ دینا کہیں گے یا ”لوگوں کو لا الٰہ الا اللہ سکھانا“، فروضِ کفایہ میں ہی آئے گا اور ’فرضِ کفایہ‘ ہی کے سب اصول اِس پر بھی لاگو ہوں گے۔ البتہ یہ کہا جائے گا کہ فروضِ کفایہ میں سب سے برگزیدہ یہی فرض ہے، اور سب سے بڑھ کر ضروری بھی، خاص طور پر اس وقت تو یہ حد سے بڑھ کر ضروری ہے، کہ یہاں لوگوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تعلیم دی جائے اور ان کو اسلام کی اساس پر واپس لایا جائے۔ اس کو محض ایک ’تحریکی ضرورت‘ سمجھ کر کرنا البتہ اس کی حق تلفی ہو گی۔ ’تحریکی ضرورت‘ سر آنکھوں پر، مگر اس فریضہ کی قدر اور اس کا حق اس سے کہیں بڑا ہے۔ ہم تو اقامتِ نماز کو ’تحریکی ضرورت‘ سمجھ کر کرنے کے قائل نہیں تو کیا توحید خداوندی کی اقامت کو، جوکہ دراصل اقامتِ دین ہے، ایسی کسی بنیاد پر لیں گے؟!
پس اپنی حد تک یہ ہر شخص کا فرض ہو گا، جبکہ گرد و پیش اور معاشرہ کو اِس پہ لایا جانے کے معاملہ میں ”دین کے فرائضِ اجتماعی“ میں سے اہم ترین فرض۔
البتہ، جیسا کہ ’ترتیب‘ کے حوالے سے ہمارے مقدمہ میں واضح کیا گیا، دین کے دیگر اجتماعی فرائض معطل یا موخر بہرحال نہیں ہوں گے۔ امت میں ”جہاد“ کے پراجیکٹ بھی ساتھ ساتھ چلیں گے، کہ ”جہاد“ کو قیامت تک چلنا ہے، نہ کسی ظالم کا ظلم اور نہ کسی عادل کا عدل کبھی بھی اور کسی بھی عہد میں اس فرض کو موقوف کر سکتا ہے۔۔ امت میں اسلامی حکومت کے قیام کی تحریکیں بھی زور و شور سے جاری رکھی جائیں گی۔۔ نفاذِ شریعت کیلئے سرگرم قوتوں کو بھی بھرپور نصرت اور تقویت دی جائے گی۔۔ یہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیلئے اگر کچھ تحریکیں اٹھتی ہیں اور جوکہ ہمارے دیکھنے میں فی الحال نہیں آ رہیں، ان کے بھی ہاتھ خوب خوب مضبوط کئے جائیں گے۔۔ بدعاتِ ضلالہ کے خلاف اگر کچھ حلقے یہاں سرگرم ہوتے ہیں ان کے شانہ بہ شانہ چلنے کی سعی کی جائے گی۔۔ غیر مسلموں یا بے علم و بے عمل مسلمانوں کو اسلام کی تبلیغ اور نشر و شاعت کیلئے جو جماعتیں بر سر عمل ہیں ان کو کامیاب کرانے کے سب امکانات بروئے کار لائے جائیں گے۔۔ ابھی سماجی خدمت کو ہم نے مغرب کی انجیل بردار این جی اوز یا ان کی کاسہ بردار، اسلامی شریعت کے ساتھ بغض رکھنے والی مقامی این جی اوز کیلئے چھوڑ رکھا ہے، اس خانہ کو پر کر نے کیلئے اللہ تعالیٰ یہاں کچھ دینی حلقوں کو توفیق دیتا ہے تو ان کے ساتھ شمولیت اور ان کی پشت کو مضبوط کیا جائے گا۔۔ امت کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری دلانے کا کام ہم نے ابھی تک ’مدرسہء علی گڑھ‘ کا پراجیکٹ مان رکھا ہے اس میدان میں امت کو ترقی دلانے اور دشمن کا دست نگر نہ رہنے دینے کے جذبے کے ساتھ کچھ صالح و حوصلہ مند پروگرام میدان میں آتے ہیں تو ان کی نصرت و اعانت ایک انتہائی اہم فرض کفایہ ہو گا۔۔ دینی مدارس امت کا ایک بہت بڑا شعبہ ہے بلکہ بڑی حد تک ایک بے یار و مددگار شعبہ ہے، اس کو آگے بڑھانے اور بہتر اور مؤثر تر بنانے میں اپنی صلاحیتیں کھپا دینا وقت کا ایک بہت بڑا فرض پورا کردینے کی نہایت اعلیٰ صورت ہے۔۔ ’عصری شعبے‘ میں اعلیٰ معیار کی تعلیم ابھی تک ’مشنری سکولوں‘ اور انہی کی طرز پر چلنے والی یہاں کی سیکولر آرگنائزیشنز کا ’اختصاص‘ مانا گیا ہے، جوکہ ہمارے معاشرے کو ’قیادتیں‘ تیار کرکے دینے میں نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے، بعض اسلامی حلقوں کی جانب سے اس خلا کو پر کرنے کی جو مخلصانہ کوششیں ہوئی ہیں بد قسمتی سے وہ معیار کا کوئی بہت بڑا فرق ابھی تک سامنے نہیں لا سکیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور ایک بہت بڑے حجم کا شعبہ وجود میں لائے جانے کا متقاضی ہے، اس شعبے کو ترقی دلانے میں ”احتسابِ نیت“ کے ساتھ، نہ کہ ’کمرشل‘ بنیادوں پر، اپنی صلاحیتیں کھپا دیجئے، آپ وقت کا ایک بڑا فرض ادا کر لیں گے۔۔ ’میڈیا‘ کی راہ سے ہمیں تباہ و برباد کردینے کے پروگرام جس دھڑا دھڑ انداز میں لائے جا رہے ہیں، اس کے مقابلہ میں اتر آنے کا فرض، ایک بڑے میدان کی صورت، ہمارے با صلاحیت نوجوانوں کی کثیر تعداد کا منتظر ہے۔۔۔۔ غرض شعبے اور میدان گنوانے لگیں، جن میں سے کوئی ایک بھی ’نفل‘ کے زمرے میں نہیں آتا، تو ایک نہایت طویل فہرست بنے گی۔ البتہ یہ ’تنوع‘ ہوگا نہ کہ ’تضاد‘۔ امت کے اندر یہ سب کے سب جاری رکھے جائیں گے۔ امت نے بڑے اچھے اچھے وقت دیکھے ہیں تو بڑے بڑے کڑے وقت بھی دیکھے ہیں۔ خلافت اس سے پہلے بھی کئی بار گری ہے۔ اہل علم نے امت کے کسی ایک منصوبے کو اس وجہ سے موقوف ٹھہرا دینے کا کبھی فتویٰ نہیں دیا ہے۔ ایک میدان کو کھڑا کرنے کیلئے دوسرے میدانوں کو گراتے پھرنا البتہ ایک ایسا منہج ہے، جو شدت کے ساتھ رد ہونا چاہیے۔
اِن اجتماعی فرائض میں ”اہم سے اہم تر“ کی تقسیم یا ترتیب کی بابت ہر شخص کو رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، قابل مذمت بات صرف یہ ہے کہ اپنے تجویز کردہ میدان کے سوا ہر کسی کے اختیار کردہ میدان کو آدمی ناکارہ قرار دے ڈالے۔ ان میں سے کسی ایک میدان کو کسی دوسرے میدان کی نسبت اہم تر ماننا البتہ حرج کی بات نہیں۔
فروضِ کفایہ میں جب کسی چیز کو اہم تر یا حتی کہ اہم ترین کہہ دیا جائے، تو بھی دو حقیقتیں ہمیشہ ہی آدمی کے پیش نظر رہنی چاہییں، خصوصاً آدمی کو اپنے صحیح مصرف کا تعین کرتے وقت انہی کو سامنے رکھنا چاہیے: ایک، انسانی صلاحیتوں کا تنوع، (پس آدمی یہ بھی دیکھے کہ وہ کس کام میں مفید تر ثابت ہوتا ہے)۔ دوسرا، امت کی ضرورتوں کا تنوع۔(6) (کسی ’ایک جماعت‘ کی ضرورت ضرور ایک خاص یا چند قسم کی سرگرمیوں کی ہی متقاضی ہو گی اور اس کو ضرور یہ حق بھی ہوگا کہ وہ امت سے اپنی ضرورت پوری کروانے کیلئے بھر پور آواز لگائے، البتہ ”امت“ کی ضرورت بیک وقت متعدد نوع کی سرگرمیوں کی حاجت مند ہے)۔ پھر ایک تیسری حقیقت بھی اس کے ساتھ ساتھ آدمی کے پیش نظر رہنی چاہیے، اور یہ ہے کسی اجتماعی فرض سے عہدہ برآ ہونے کیلئے آدمی کو دستیاب مواقع۔
یہ چیز __ یعنی ان تینوں عوامل کو بیک وقت پیش نظر رکھنا __ امت کے نوجوانوں کو اپنے (اجتماعی) فرائض کا تعین کرنے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے معاملہ میں یقینی طور پر کچھ نئے افق کھول کر دے سکتی ہے۔ پس یہ سوال کہ ’میرے فرائض کیا بنتے ہیں؟‘ (واضح رہے ہم اجتماعی فرائض کی بات کر رہے ہیں)، یہ سوال اپنا جواب پانے کیلئے جب ان ’تین عوامل‘ کو پیش نظر رکھنے پر انحصار کرے گا، تو (باوجود اس کے کہ کوئی ایک فرض کسی دوسرے فرض کی نسبت اصولی حیثیت میں زیادہ اہم ہو سکتا ہے) عملاً ہر کسی کو اس سوال کا ایک ہی جواب دیا جانا درست نہ ہوگا۔ ان تین عوامل کا اجتماع ہر کسی کے حق میں ایک ہی ڈھب پر نہیں ہو سکتا۔
بنا بریں، کسی ایک شخص کے کرنے کا کام کسی دوسرے کی نسبت مختلف ہو سکتا ہے۔ نہ صرف ایک شخص کی نسبت دوسرے کیلئے فرائض کا تعین مختلف ہو سکتا ہے بلکہ ایک ہی شخص کیلئے حالات مختلف ہو جانے کے باعث یا ماحول میں فرق آجانے کے باعث اس سوال کے جواب میں فرق آ سکتا ہے۔ اس پہلو سے بھی نہ صرف اس بات پر آدمی کی توجہ رہنی چاہیے کہ اجتماعی حوالے سے اِس لمحے اس کے کیا فرض بنتے ہیں بلکہ اِس پر بھی اس کی نگاہ رہنی چاہیے کہ اجتماعی فرائض کے معاملے میں اُس کے ہاں ترقی یا بہتری یا توسیع کے کیا نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں؟ امت کی ضرورتوں کا تعین کرنے والے عوامل نہ صرف متنوع ہیں بلکہ تبدیلیوں سے بھی گزرتے ہیں۔ کچھ نہایت جامد قسم کے قوالب کا اسیر ہو کر بہرحال نہ رہنا چاہیے۔
پھر ایک بار واضح کر دیں، فرائض کے تعین کی بابت یہ گفتگو جو ابھی اوپر ہوئی ’اجتماعی فرائض‘ کے حوالے سے ہے نہ کہ مطلق فرائض کے حوالے سے۔
المختصر۔۔۔۔ فرائض کی سہ گانہ تقسیم، جو مضمون کے بالکل ابتدا میں ذکر ہوئی، پیش نظر رہے، تو:
1) حقیقتِ دین کا علم پانا کسی تنظیمی وابستگی کا مقید نہیں، اور نہ اس کو یہ حیثیت دینی چاہیے۔ اپنے وقت کے نبی سے لی جانے والی اہم ترین چیز کوئی ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے اور اس کا یہی مرتبہ اور مقام ہر دم آدمی کے ذہن میں رہنا ضروری ہے۔
2) پھر، عینی فرائض کی انجام دہی بھی کسی جماعتی نظم پر منحصر نہیں۔ اس کی حیثیت بھی یقینا اس سے بالاتر ہے۔ اس پر محنت بھی اِس کے شایانِ شان اہتمام کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔
چنانچہ یہ ہر دو میدان ایسے ہیں کہ ان کی حیثیت نہ صرف مقدم بلکہ آفاقی رہنی چاہیے۔ کسی معلم اور مربی کی ضرورت بلا شبہ ان ہر دو معاملہ میں ہے، بلکہ سب سے زیادہ ہے، پھر ماحول کی اہمیت بھی اس باب میں مسلم ہے۔ یہ ضرورت کوئی تنظیمی حلقہ پوری کر کے دیتا ہے تو یہ بے حد مستحسن ہے۔ البتہ ان دونوں میدانوں کی ”آفاقی حیثیت“ نظر میں واضح رہنا پھر بھی ضروری ہے۔ آپ کا ’تصورِ دین‘ کیا ہے اور آپ نے عقیدہ کے حقائق کہاں تک اپنے قلب و ذہن میں جاگزیں کر لئے ہیں، اس کا کچھ تعلق کسی ’جماعت‘ یا ’تنظیم‘ یا ’انجمن‘ یا ’ادارے‘ سے نہیں ہونا چاہیے۔ یہی معاملہ عینی فرائض کا ہے۔ کوئی ’دائرہ‘ اپنی ”وابستگی“ کیلئے اس حوالے سے ہو سکتا ہے، بلکہ ہونا چاہیے، تو اس کا نام ”اہل سنت و جماعت“ ہے۔ اس باب میں ہمیں اسی قد کاٹھ کا مسلمان چاہیے۔ اس سے کم پر ہم ہرگز قانع نہ ہوں گے اور نہ اس کو درست سمجھیں گے۔ یہاں ہم سوائے ”سلَف“ کے اور سوائے ”سنت و جماعت“ کے کسی ’ٹھپے‘ کو تسلیم نہ کریں گے۔
یہ بات واضح ہو جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہی وہ بنیاد ہے، جس کو سب مسلمانوں کے مابین مشترک بنایا جانا ہے۔ اس پر زور دے رکھنے سے وہ مستند ومستحکم اساس ہمارے ہاتھ آتی ہے جو ایک ”امت“ کو وجود دیتی ہے اور جو ہمیں ایک ایسی اساس فراہم کرکے دیتی ہے جو ہمارے جملہ نشاط کو ”تنوع“ کا حسن دے تو ’تضاد‘ کے قبح سے بچا کر رکھے۔ اسی پر ترکیز کر رکھنے کے دم سے یہ ممکن ہوگا کہ ”مسلمان“ انسانی دنیا پر اثر انداز ہونے کیلئے ہزارہا صورت اختیار کرے مگر یہ اپنی حقیقت و ماہیت میں وہی اصیل چیز ہو جس نے چودہ سو سال پہلے منصہ وجود پر اپنا ظہور کیا تھا۔
3) صرف ’اجتماعی فرائض‘ رہ جاتے ہیں، جن کو ’کفائی فرائض‘ بھی کہا جاتا ہے، کہ جنکی بابت یہ تین عوامل زیر بحث آئیں گے۔ ’شعبوں‘ یا ’کام کے میدانوں‘ کے حوالے سے ہماری جتنی بات اس مضمون میں ہوئی وہ ’فرائض‘ کی اسی صنف سے متعلق ہے۔ ایک شخص کا ’فرض‘ یا ’کرنے کا کام‘ دوسرے شخص کی نسبت مختلف ہونا اسی صنف کے ساتھ متعلق ہے۔ ہماری بقیہ گفتگو اب اِسی حوالے سے ہے۔
لازم ہے کہ اجتماعی حوالے سے بھی مسلمان اپنے دور کے اندر مالک کے جتنے فرائض پورے کر سکتا ہو کرے۔ اس حوالے سے بھی روزِ حساب کیلئے اپنا جواب تیار کر کے جائے اور انفرادی فرائض مانند نماز و روزہ و حج پر ہی دین کا دائرہ ختم ہوتا ہوا نہ دیکھے۔ اس حقیقت کو جلی کیا جانا آج خاص اس وجہ سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ’سیکولرزم‘ جوکہ دورِ حاضر کا ایک بہت بڑا شرک ہے، نے ”دین“ کو ’مذہب‘ یا ’دھرم‘ نما چیز بنا چھوڑا ہے یعنی ایک ایسی چیز جس کا دائرہ شخصی عبادات ، خانگی امور اور کچھ سماجی ’رسوم‘ اور ’تہواروں‘ تک محدود کر دیا ہے؛ یوں سیکولرزم کے تشکیل کردہ معاشرے میں ’مذہب‘ کا خدا اور ہوتا ہے اور ’نظامِ زندگی‘ کا خدا اور!!! یہیں سے اسلام کے کچھ داعیوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اجتماعی زندگی کی اہمیت بطورِ دین اجاگر کرنے کے کچھ غیر معمولی انتظامات عمل میں لے کر آئیں اور اس پر زمانہ ہائے ماضی کی نسبت کچھ زیادہ اور خصوصی زور دیں، تاکہ مسلم ذہن کے اندر ’مذہب‘ اور ’ریاست‘ کا یہ فرق ختم ہو اور فکرِ مسلم کے اندر ’اجزائے دین‘ کا یہ انفصال باطل ٹھہرے اور اسکا کھویا ہوا توازن بحال ہو۔
فرائض کی اِس صنف سے عہدہ برآ ہونے کیلئے، آپ کو کسی اجتماعی پروگرام کے ساتھ مل کر چلنا ہوتا ہے۔ یہ وہ میدان ہی نہیں جس میں ایک فرد بطورِ فرد کوئی بڑا کمال کر دکھائے گا، بلکہ اس کے بیشتر شعبے ایسے ہیں کہ ایک تنہا فرد کے طور پر آپ کچھ کر ہی نہیں سکتے، چاہے یہ جہاد کا معاملہ ہو، چاہے اسلامی حکومت کے قیام کا، چاہے معیشت کو اسلام کے دائرے میں لانے کی جہد کا یا سیاست کو اسلام کے تابع کرنے کا، چاہے تعلیم کا شعبہ ہو اور چاہے میڈیا کے میدان میں اسلام کیلئے پائے جانے والے چیلنج پر پورا اتر کر دکھانے کا۔ یہاں ڈسپلن کی کوئی نہ کوئی صورت اپنانا لازمی ہے۔
پچھلے حاشیہ میں مذکور ہماری گزارشات واضح رہیں تو: جس حد تک کسی ”اجتماعی محاذ“ پر پورا اترنا آپ پر فرض ٹھہرتا ہو اس کے بقدر اُس محاذ پر سرگرم اہل سنت تنظیموں، جماعتوں، اداروں اور انجمنوں وغیرہ میں سے، آپ کی صوابدید کی حد تک، جو بہترین ہو، اس کے ساتھ مل کر اس محاذ پر پورا اترنے کی کوشش کیجئے۔ ایسے کسی فورم کے ساتھ __ خاص اُس اجتماعی فرض کے حوالے سے، نہ کہ مطلق ”دین“ کے حوالے سے__ آپ وقتی تنسیق و وابستگی رکھتے ہیں یا مستقل، اس فیصلے کا انحصار آپ پر ہے۔ اصل مسئلہ کسی اجتماعی فرض کی بہ اسلوب احسن ادائیگی ہے اور اس کیلئے مطلوب ڈسپلن کو اختیار کرنا۔ جس جگہ پر اور جب تک آپ کی یہ ضرورت بہ احسن اسلوب پوری ہوتی ہو، تب تک اور وہاں پر آپ کا فرض آپ کو پابند کر کے رکھے گا۔ کیونکہ اصل چیز آپ کا فرض ہے جو آپ کو اِس ڈسپلن کا پابند کر دینے کا متقاضی ہوا۔ البتہ جب یہ فرض کسی اور فورم پر زیادہ بہتر پورا ہوتا ہو، یا جس وقت آپ دیکھیں کہ اِس فرض ہی کی بجائے کوئی اور فرض آپ کو زیادہ شدت سے بلانے لگا ہے، جس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں، تو تب آپ کا فرض اپنی بہ احسن اسلوب ادائیگی کیلئے کہیں اور جانے کا تقاضا بھی کر سکتا ہے۔ آپ کی اصل وفاداری اپنے شرعی فرائض کے ساتھ ہے اور وہ کسی وقت محل نظر نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ کسی فورم کے ساتھ آپ کی وفاداری اس فرض کی بہ احسن اسلوب ادائیگی کے تابع ہے۔ اصل یہ ہے کہ جہاں آپ کا فرض آپ کو بلائے وہاں آپ ہوں۔ حلف تک کے معاملہ میں ہمیں اسلام کی تعلیم یہ نظر آتی ہے کہ جس ارادہ یا کام کو انجام دینے پر آدمی نے حلف اٹھا لیا ہوا ہے، مگر اس سے کوئی بہتر ارادہ یا کام بعد میں اس پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ تقویٰ کے قریب تر اور اطاعتِ خداوندی میں اس کی نسبت بڑھ کر ہے، تو وہ حلف کا کفار ہ دے مگر اختیار اسی بہتر کام ہی کو کرے:
”من حلف علیٰ یمینٍ فر اَیٰ غیرہا خیراً منہا، فلیاَت الذی ہو خیر، ولیکفر عن یمینہ“۔ (صحیح مسلم، عن اَبی ہریرۃ، رقم: 4362، کتاب الاَیمان، باب: ندب من حلف علی یمین فر اَی غیرہا خیراً منہا)
”جو کوئی کسی (چیز کے کرنے کی) قسم پر حلف اٹھائے، پھر وہ کسی اور چیز کو اس سے بہتر پائے تو اُسے چاہیے کہ جو بہتر ہے اس کو کرے، اور جو قسم اٹھا چکا اس کا کفارہ دے“
آدمی اگر سمجھتا ہے کہ اُس کو ایک سے زیادہ اجتماعی فرائض کی انجام دہی پر قدرت ہے، مثلاً بیک وقت وہ سمجھتا ہے کہ باہر کسی محاذ پر اسے جہاد بھی کرنا ہے اور اندرونِ ملک حکمِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد سے بھی وابستہ رہنا ہے، یا مثلاً وہ تعلیم کے شعبے میں بھی اپنے فرض سے منسلک رہنا اپنے حق میں ضروری جانتا ہے۔۔۔۔ تو (اسی مثال کو لیتے ہوئے) جتنی دیر وہ جہاد میں لگانا چاہتا ہے تو اتنی دیر کیلئے اسے کسی نہ کسی جہادی نظم کی پابندی کرنا ہو گی اور جتنا وقت وہ اسلامی نظامِ حکم کی بحالی کیلئے ہونے والی جدوجہد میں دینا چاہتا ہے، اتنا وقت، اور خاص ان سرگرمیوں کے معاملہ میں، اُس کو اِس شعبہ کی کسی تحریک کے پروگراموں کا ساتھ نبھانا ہو گا۔ اور جس دوران وہ طالبعلموں کو قال اللہ وقال الرسول کی تعلیم دینے میں سرگرم رہنا چاہتا ہے اس دوران اس کواس تعلیمی منصوبے یا ادارے کے ڈسپلن کی پابندی کرنا ہو گی جس کے فورم سے وہ اس فرض کو انجام دینے کے اعلیٰ تر مواقع پاتا ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس، وہ جتنے شعبوں میں پورا اتر نا چاہے، اس کے لئے اس بات کی گنجائش ہے۔ یہ البتہ واضح ہے کہ اسلام کے سب اجتماعی فرائض پر پورا اترنا، خاص طور آج جب ’تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم‘ والا معاملہ ہے، آدمی کیلئے ممکن ہے اور نہ ضروری۔ آدمی کی جوابدہی بھی اس کے دائرہء استطاعت کے اندر رہتے ہوئے ہو گی۔
’اجتماعی امور کی انجام دہی‘ کا دائرہ ایسا ہے جہاں آپ کو ہزارہا نفوس کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ طبیعتوں اور مزاجوں کا فرق خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ انسانی کمزوریوں سے ، جو ’دوسروں‘ کے ہاں آدمی کو طبعی طور پر ’زیادہ‘ نظر آتی ہیں ، یہاں پیر پیر پر واسطہ پڑتا ہے۔ ’مثالیت پسندی‘ حد سے بڑھی ہو تو یہاں البتہ وہ شدید مہلک ثابت ہوتی ہے۔ آدمی کسی ’ناپسندیدہ امر‘ سے پریشان ہو کر گھر بیٹھ جائے، شیطان کو اس کے سوا اور کیا چاہیے؟ بہت سے ہیروں جیسے نوجوان دیکھے گئے ہیں جو گھر میں اور ’انٹرنٹ‘ پر بیٹھ کر ہی اپنے فرائضِ دینی سے عہدہ برآ ہو جانے کی کسی صورت کے متلاشی ہوتے ہیں! یہاں کسی نہ کسی منجدھار میں اترنا ایک باصلاحیت نوجوان کیلئے آخری حد تک ضروری ہے۔ ’قیادتیں‘ جن کی امت کو ضرورت ہے بیٹھے بٹھائے ’رونما‘ نہ ہو جائیں گی۔ کسی مطلوبہ صورتحال کو وجود میں لانے کیلئے ڈھیروں زور لگتا ہے تو پھر معاملہ ’کچھ‘ ہل کر دیتا ہے۔ ’میں کس قابل ہوں؟‘ ایسی انکساری کسی وقت شیطان کا حملہ بھی ہوسکتا ہے۔ حوصلہ، صبر اور ادائے فرض کا جذبہ ہی ہر دم مد نظر رہیں، اور سب سے بڑھ کر خدا کی توفیق شامل حال ہو، تو آدمی یہاں معاملہ میں کچھ فرق لے کر آ سکتا ہے۔
سب سے بڑھ کر شکایت (7)ہمیں اپنے نوجوانوں کے یہاں پائی جانے والی اس اپروچ سے ہو گی کہ ’میں فلاں جماعت کے ہاں پائے جانے والی فلاں بدعت یا فلاں فکری انحراف یا منہج کی فلاں غلطی کے باعث اس کے ساتھ نہیں چل سکا‘!(8) سبحان اللہ! کس نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ کسی مسلمان جماعت کے یہاں آپ کوئی بدعت دیکھ لیں تو اس کو چھوڑ کر گھر آ بیٹھیں؟! ائمہء سنت آپ کو یہی تو بتاتے ہیں کہ کسی جماعت یا اس کی قیادت کے یہاں کسی بدعت یا کسی فکری انحراف یا کسی دینی کمی کے پائے جانے کے علی الرغم، دین کے اجتماعی فرائض کی انجام دہی کا کام ٹھپ نہیں کر کے رکھ دیا جاتا۔ یہ کہنا بھی منہجِ اہلسنت کو مسخ کر دینے کے مترادف ہو گا کہ ’اگر تو آپ اُس بدعت یا اُس انحراف یا اُس فکری کجی کو ختم کروا سکتے ہیں تب تو آپ کیلئے اس جماعت میں رہنا جائز ہوگا ورنہ آپ کا ان کے ساتھ چلنا ہی سرے سے جائز نہیں‘! کس نے کہہ دیا ہے کہ جائز نہیں؟؟؟حق یہ ہے کہ کسی دینی حلقے کے اندر آپ اگر ایک بدعت یا انحراف کو ختم کروا دینے کی پوزیشن میں ہیں، تب ضرور آپ کیلئے ناجائز ہو گا کہ آپ اس کو ویسا کا ویسا رہنے دیں اور اس کی بابت کچھ کریں ہی نہ، البتہ اگر آپ اِس پوزیشن میں نہیں اور نہ آپ کی کوئی ایسی حیثیت ہے کہ آپ فرمائیں اور لوگ سنیں، تو آپ اِس بات کے مکلف نہیں کہ جس حلقے میں جائیں وہاں ایک شور کھڑا کردیا کریں بغیر یہ دیکھے کہ وہ فرض جس کی انجام دہی کیلئے وہ حلقہ وجود میں لایا گیا ہے اور جس کیلئے آپ اس حلقہ کے اندر تشریف لے گئے ہیں خود اس فرض کا ہی متاثر یا بالکلیہ موقوف ہو جانا آپ کے اُس اِزالہء اَغلاط کے مقابلے میں چھوٹا نقصان ہے یا بڑا؟ (9)
٭٭٭٭٭
عمل کے یہ سب میدان اپنی جگہ، البتہ ایک بہت بڑا فرض اِس وقت یہی ہے کہ ہمت اور عزیمت سے پر، صلاحیتوں سے مالا مال، علمِ شرعی و عصری سے آراستہ اور بصیرت و دور اندیشی سے پیراستہ، حاملِ عقیدہ نوجوانوں کی ایک جمعیت میدان میں اترے اور اس اصل ’پھاٹک‘ کی طرف رخ کرے جو ہمارے اس پورے تحریکی عمل کی راہ روکے کھڑا ہے۔ اس کا کام اس رکے ہوئے قافلے کو راستہ بنا کر دینا ہو، نہ کہ ’قافلے کی تقسیم‘ میں حصہ دار بننا۔ وہ کانٹے جو اس قافلے کی راہ میں بکھرے ہیں، اس کا کام صبر اور حوصلے کے ساتھ اس ایک ایک کانٹے کو چن دینا ہو، کیونکہ اِن کے باعث یہ راستہ خواہ مخواہ ناقابل گزر سمجھ لیا گیا ہے (بلا شبہ ”اصولِ اہلسنت“ سے ان کو وہ ’اوزار‘ مل سکتے ہیں جن سے یہاں کے تحریکی عمل کے راستے کے یہ سب کے سب کانٹے چنے جائیں)۔ ”تربیت“ اس کا سب سے بڑا میدان ہو اور ”علم“ اس کا سب سے بڑا ہتھیار۔ اس کا کام یہاں کے تحریکی عمل کو اُس نظریاتی تبدیلی سے گزارنا ہو جو اس پورے قافلے کو ہی اس کی کھوئی ہوئی زورآور جہتیں واپس دلا دے۔ خالصتاً ایک نظریاتی تبدیلی ہی یہاں پائے جانے والے پورے تحریکی عمل کے اندر برپا کر دینا اس کے پیش نظر ہو جو کہ پھر سے اِسے نہایت موثر جہتوں کا حامل ایک پرجوش و توانا آتش فشاں بنا دینے کی سکت رکھے۔۔ واضح رہے، محض ایک نظریاتی تبدیلی نہ کہ کوئی تنظیمی عمل،(10) کیونکہ ’تنظیمی عمل‘ کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں۔ اس معنیٰ میں، خود یہ سرے سے کوئی ’جماعت‘ نہ ہو، البتہ تمام جماعتوں کے جسم میں ’فکر و نظریہ‘ اور ’علم و عمل‘ بن کر دوڑ جانے والی ایک حقیقت ضرور ہو۔ اور چونکہ یہاں کی تحریکی دنیا کا اصل بحران ایک فکری ونظریاتی بحران ہے نہ کہ کچھ اور، اس لئے اس کی اپنی سرگرمی کا دائرہء کار یہاں کی تحریکی دنیا کے اندر ایک فکری و نظریاتی انقلاب برپا کر دینے سے پرے نہ جاتا ہو۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ، یہ __ یہاں مطلوب بعض اجتماعی فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے__ کچھ عملی ماڈل بنا کر دے، البتہ اپنا فوکَس اس ’ذہنی تبدیلی‘، اِس ’فکری انقلاب‘ اور اس ’تربیتی چیلنج‘ پر ہی بر قرار رکھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کے تحریکی عمل کو کچھ نئے زوردار لہجے درکار ہیں۔ اس کو کچھ نہایت حقیقی جہتیں چاہییں جو ایک طرف معاشرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں تو دوسری طرف باطل کو ان سہاروں سے محروم کر سکتی ہوں جنہیں آج تک وہ ’اسلام‘ سے مستعار لیتا آیا ہے۔ لہٰذا یہ ایک خاص قسم کی فکری اٹھان ہوگی اور ایک خاص انداز کی تربیت۔ اس معنیٰ کے ایک تحریکی عمل کا میدان میں آنا ہماری نظر میں یہاں آخری حد تک ناگزیر ہے۔ زیر نظر مضمون کا ہر حصہ در حقیقت اسی عمل کی ہی کسی نہ کسی جہت سے بحث کرتا ہے۔
اس موضوع پر ہماری گفتگو ابھی جاری ہے۔ اسی دوران، اس موضوع میں دلچسپی لینے والے اصحاب تبادلہء خیال کی ضرورت محسوس کریں، تو اس موضوع کو زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھانے میں یہ بات یقینا ممد ہو گی۔ ہم واقعتا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس پر بہت کھل کر تبادلہء آراءہو۔ اپنے خیالات کھل کر لکھئے۔ ایقاظ کے صفحات آپ کے لئے حاضر ہیں۔ اس موضوع پر تبادلہء خیال کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر، آئندہ شمارہ سارے کا سارا آپ کے مراسلوں کیلئے مختص کر دینا پڑے تو ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے دینے میں ہرگز کوئی تردد مت کیجئے۔
ایقاظ چونکہ ایک سہ ماہی مجلہ ہے، اس لئے ہماری درخواست ہوگی کہ مراسلہ بھیجنے والے حضرات مئی کے آخر تک ہمیں اپنا مراسلہ بھجوا دیں۔ ڈاک کے علاوہ ای میل کا ذریعہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
حواشی
(1) اس سلسلہ میں بہت سی الجھنیں اس نقطے سے جنم لیتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جس طرح صحابہ چلے آج کے جماعتی و قیادتی عمل کیلئے اس سے کس طرح دلیل پکڑی جائے؟ ظاہر ہے یہ ایک طویل موضوع ہے، البتہ یہ تعجب آمیز سوال کرنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جماعتوں کا یہ ’تعددِ طرق‘ قبول کر لیا جاتا اور ’سب ہی کے لائحہء عمل‘ کو جاری رہنے کی بیک وقت سند دے رکھی جاتی؟ یہ سوال اٹھانا اور اس طبعی واقعہ کو قبول نہ کرنا دراصل اس بنیادی فرق کے روپوش ہو جانے کے باعث ہے جس کی بنا پر یہ سوال ہی سرے سے غلط ہو جاتا ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ”امت کی قیادت“ محصور تھی (اور بعد میں خلیفہ تھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ تھا اور پھر اس خلیفہ کا خلیفہ، کہ جس میں ”امت کی قیادت“ متمثل تھی) البتہ آج کسی بھی شخص میں ’امت کی قیادت‘ محصور نہیں، لہٰذا آج کے اس واقعہ کو، جوکہ دورِ نبوت کے واقعہ کی نسبت ایک مختلف واقعہ ہے، یہ ’تعجب‘ کر کے باطل نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ہر جماعت کو اپنی اپنی راہ چلنے دیا جاتا؟! واقعہء بنی قریظہ میں کچھ صحابہ نے عصر کی نماز راستے میں ادا کی (اس بات کو دین کا تقاضا سمجھتے ہوئے) جبکہ صحابہ کے ایک دوسرے گروہ نے وہی عصر کی نماز غروبِ آفتاب کے بھی کہیں بعد جا کر ادا کی (اس بات کو دین کا تقاضا سمجھتے ہوئے ہی).... تو بھلا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس سفر میں اُنکے مابین موجود ہوتے تو کہاں کا یہ ’تعددِ آراء‘ ہوتا اور کہاں کا یہ ’تعددِ طرق‘؟؟؟ صاف بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کرواتے اور سب آپ کے پیچھے نماز پڑھتے چاہے آپ غروب آفتاب سے پہلے پڑھاتے چاہے غروبِ آفتاب کے بعد! چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر موجود ہونے کے باعث جس وقت ”دلائلِ شرعیہ“ سے بات اخذ کرنے کی نوبت آئے گی، اور ”اجتہاد“ کے سب ابواب اس صورتحال پر لاگو ہوں گے، وہ اس صورتحال پر قیاس ہو ہی نہیں سکتی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنفس نفیس تشریف فرما ہونے کے باعث سیدھا سیدھا آپ کی سرکردگی اور آپ کی راہنمائی میں چلا جائے گا اور تب کسی ’تعددِ آراء‘ تو کیا ’آواز‘ اونچی ہوجانے پر ایمان کا خطرہ پڑ جائے گا۔ بنو قریظہ کے خلاف جہادی مہم میں پیش آنے والے اِس واقعہ سے صحابہ کے فہم دین کی یہی تو خوبی سامنے آتی ہے کہ کسی نے بھی اپنی نظر میں دلائلِ شرعیہ کی بنا پر اپنی بات کو صحیح اور ’واضح‘ باور کرتے ہوئے ”خصائصِ نبوت“ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ بنوقریظہ کے موقعہ پر یہ ”تعددِ طرق“ ایک طرف، اور صحابہ کے متاخرہ ادوار میں سامنے آنے والے انحرافات و بدعات کے خلاف صحابہ کا ایک باقاعدہ ”محاذ آرا ہو جانا“ دوسری طرف، اور جو کہ یقیناً ”دلائلِ شرعیہ“ ہی کی بنیاد پر تھا.. ہر دو، کتاب کے آمنے سامنے کے صفحات کی طرح ہمارے سامنے ہیں۔ یہی اصل بات ہے کہ ”دلائلِ شرعیہ“ کی جانب رجوع بھی خوب ہو اور اس کے حدود و آداب کا التزام بھی خوب ہو! (”اصولِ اہلسنت“ ہماری اسی ضرورت کا ہی نام ہے ، یہ پہلے سے موجود ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم کوئی نئی دعوت پیش نہیں کر رہے بلکہ انکے ”اِحیاء“ کی ہی آواز اٹھارہے ہیں)
پس یہ بات ان شاءاللہ بے شمار دلائل کی بنا پر واضح ہے کہ نبوت اور خلافت ہر دو کی غیر موجودگی میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بنیاد ”دین کی اصل و اساس“ کو ہی بنایا جائے گا جو کہ ”توحید“ ہے اور ”اصول سنت“ ہیں اور انہی سے قوت کا وہ آتش فشاں اٹھایا جائے گا (آج کی زبان میں: ’ایک فکری و نظریاتی تہلکہ‘ برپا کرنا an explosion based on ideology and an absolute defiance to the 'status qou' اور اسی سے ’عمل‘ اور ’اقدام‘ کی ندیاں جاری کروا دینا) اور اسی کو امت کے وحدتِ کلمہ اور اس کی صف بندی اور اس کے مختلف طبقوں کے مابین یگانگت و شیرازہ بندی لے آنے کی بنیاد بنایا جائے گا (تعددِ طرق و جماعات کو برقرار رکھتے ہوئے ہی)، جس سے کہ امت کا یہ قافلہ اس کارزارِ زمانہ میں از سر نو جادہ پیما ہو، نہ کہ کسی ’قیادت‘ یا ’جماعت‘ اور اس کے طریقِ کار کو ہی ”نقطہء ترکیز“ focal point یا ”اکٹھ کی بنیاد“ بنایا جائے گا یا ایسے کسی ’اکٹھ‘کے عمل میں آجانے کا انتظار کیا جائے گا۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ باوجود اُس خصوصیت کے جو مکہ کے اندر نبوی جماعت کو حاصل تھی اور اُس کے سوا ظاہر ہے وہ کسی کو حاصل نہیں.. باوجود اُس خصوصیت کے، ’جماعتی مفہومات‘ __ ہمارے علم کی حد تک __ مکہ میں کبھی صحابہ کا موضوع نہیں بنے۔ ہاں جو ”موضوع“ ان کے یہاں مسلسل ایک آتش فشاں اٹھا رہا تھا اور جس پر ان میں آخری حد تک ایک یکسوئی، دلجمعی اور فدائیت پیدا کرائی جا رہی تھی وہ ’عقیدہ‘ تھا۔ حتیٰ کہ ’افکار اور نظریات‘ کی حد تک بھی نہ تو ’غلبہء اسلام‘ اُس نبوی جماعت کے موضوعات پر چھایا نظر آتا ہے اور نہ ’نظام کو تبدیل کر دینے‘ کی صلائے عام! حق یہ ہے کہ ’عقیدہ‘ کے بے ساختہ حقائق ہی اس جماعت کو جنم دے رہے تھے۔ ’عقیدہ‘ ہی انکے موضوعات پر چھایا تھا۔ یہ ’عقیدہ‘ ہی ان کو نئے آدمی لا کر دے رہا تھا، ’عقیدہ‘ ہی ان کے کام کو توسیع دلوا رہا تھا۔ ’عقیدہ‘ ہی ان کے جذبہء عمل کو مہمیز دے رہا تھا اور ’عقیدہ‘ ہی ان کے شیرازہ کو مجتمع رکھے ہوئے تھا،کوئی داخل ہوتا تو بنیادی طور پر ”اِس“ میں داخل ہوتا اور خارج ہوتا تو ”اِس“ سے خارج ہوتا! ’عقیدہ‘ ہی ان کی ولاءوبراءتھا اور ’عقیدہ‘ ہی ان کی ’دعوت‘ اور معاشرے کے اندر ان کا ’کیس‘ جسے وہ بڑی کامیابی سے لڑ رہے تھے۔ ’عقیدہ‘ ہی گرد و پیش کے ساتھ ان کا اصل جھگڑا تھا اور ’عقیدہ‘ ہی جاہلیت کے ساتھ ان کا اصل ’نزاع‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں جو خاص حیثیت تھی وہ خود اس ’عقیدہ‘ کا ہی حصہ ہے اور ’عقیدہ‘ کا یہ جزو ’عقیدہ‘ کے دیگر اجزاءکی طرح آج بھی ہمیں ’اِحیائے جماعت‘ کے معاملہ میں پوری طرح حاصل ہے۔
پس اس معاملہ کی اصل حیثیت تو یہی ہے اور اس میں کوئی خلطِ مبحث چھوڑ دینے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ البتہ اگر یہ اصل موضوع واضح ہو جاتا ہے تو پھر ضرور اس سوال پر سوچا جا سکتا ہے کہ چلیں تب تو اس دعوت کے ساتھ آملنے والوں کو چلانے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادتِ عالیہ موجود تھی، لیکن اب اگر اس مشن پر چلنے والوں کا کوئی قافلہ بنتا ہے تو اس کو ڈسپلن دینے کی بھی تو فی زمانہ کوئی صورت ہونی چاہیے؟ بلا شبہ یہ ایک حقیقی سوال ہے اور وہ لوگ جو دینی کام کیلئے وجود میں آنے والی آج کی ان جماعتوں اور تنظیموں کے وجود ہی کے سرے سے مخالف ہیں __ جسکی ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں __ وہ آج کے اس چیختے سوال کا اپنے پاس ہرگز کوئی جواب نہیں رکھتے بلکہ وہ اس بات سے آخری حد تک لاپروا بھی نظر آتے ہیں کہ اس سوال کا  سرے سے کوئی جواب ہو یا حتی کہ یہ کسی کے بھی پریشان ہونے کی کوئی بات ہو! شاید ان کے خیال میں ’عقیدہ‘ کچھ کلامی بحثوں کا نام ہے اور ’بحثوں‘ کیلئے ’تنظیم‘ اور ’ڈسپلن‘ کی ضرورت ہی آخر کیا ہے!!!؟
بہرحال جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کسی مجموعہء کارکنانِ دین کو منظم رکھنے کیلئے خلافت کی غیر موجودگی میں کیا طریقہ ہو؟ تو اس کا جواب ظاہر ہے اجتہاد سے ہی دیا جائے گا، اور جب اجتہاد ہوگا تو اس میں اختلاف اور تعددِ آراءکی گنجائش بھی مانی جائے گی اور اسی وجہ سے __ جب تک معاملہ اجتہادی دائرے سے باہر نہیں جاتا __ ہر کسی کو اس سوال پر کہ وہ اپنے رفقائے کار کو کس طرز پر منظم رکھنا چاہتا ہے، اپنی اپنی رائے پہ چلنے کیلئے چھوڑ رکھنا ہوگا۔ یعنی خود اپنے لئے تو آپ جو کوئی بھی ڈسپلن کا طریقہ تجویز کریں ضرور اسی پر چلیں، خواہ وہ اِمارت ہو، خواہ اس کا نام آپ بیعت رکھیں، خواہ نظامت یا کچھ اور.. مگر خاص اس مسئلہ کو ’توقیفی‘ مت بنائیں کہ جس کی بنیاد پر آپ کسی ’دوسری جماعت‘ کے طریق عمل کو باقاعدہ ہدفِ تنقید اور ’خلافِ شریعت‘ ٹھہرانے لگیں! کیونکہ ’توقیفی‘ یہ بنے گا ہی تب جب آپ کے ذہن میں وہ خلطِ مبحث باقی ہوگا کہ یہ مسئلہ ”شریعت کا طے کردہ“ ہے نہ کہ اجتہادی۔ (حقیقت یہ ہے کہ بہت سی جماعتوں کے ہاں پائی جانے والی بحثوں کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس باب کو اپنے حق میں تو ’اجتہاد‘ کے نام پر کھولا جاتا ہے مگر دوسروں کے طریق عمل کے حق میں اس کو ’توقیف‘ سے ملتی جلتی کسی بنیاد پر بند کر دیاجاتا ہے!) اسی لئے گزشتہ پیراگراف میں ہم نے عرض کی ہے کہ اس پورے معاملے کی اصل حیثیت ہی واضح ہو جانا اور اس میں پائے جانے والے اس خلط مبحث ہی کا دور کر دیا جانا سب سے پہلے ضروری ہے۔ کیونکہ، بصورتِ دیگر، جب بھی ہم دوسری بحث شروع کریں گے تو اُسی میں پہلی بحث ہو رہی ہو گی!
قریب قریب یہاں کی ہر سنی جماعت اور تنظیم یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ ’الجماعۃ‘ نہیں، کیونکہ احادیث میں وارد ’الجماعۃ‘ کا مفہوم کچھ اور ہے، لہٰذا ’علیکم بالجماعۃ‘ (یعنی ”ایک جماعت رہنا“ یا یہ کہ ”جماعت“ کو لازم پکڑنا“) کی تطبیق بھی اس پر نہیں ہوتی (کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’علیکم بالجماعۃ‘ کہا ہے نہ کہ علیکم بالجماعات!) جبکہ یہ حضرات ان سب ’جماعتوں‘ نہ کہ ’صرف اپنی جماعت‘ کے وجود کو درست سمجھتے ہیں، اور درست بھی یقینا یہی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ خود ہماری تنظیموں کی نگاہ میں: احادیث میں مذکو ’الجماعۃ‘ ہے ہی کسی اور معنیٰ میں۔ جبکہ یہ جماعتیں _ خلافت کی غیر موجودگی میں _ امت کے بعض  اجتماعی منصوبوں کو پروان چڑھانے کے عمل کو منظم رکھنے کی ایک صورت ہیں۔ پس اس مسئلہ کو پیچیدہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس میں پیچیدگی صرف تب آتی ہے (ان جماعتوں کے مؤیدین و مخالفین ہر دو کے ہاں) جب ایک منصوص چیز (علیکم بالجماعۃ) کو ایک اجتہادی چیز (آج کے تنظیمی عمل کا جواز) کے ساتھ خلط کر دیا جاتا ہے۔
غرض یہ موخر الذکر مسئلہ ایک انتظامی مسئلہ ہے، اور اس کو کوئی مجموعہء کارکنانِ دین اپنے مابین جس طرح بھی حل کرتا ہے، جب تک کہ وہ شریعت کی کسی حد سے تجاوز نہیں کر لیتا، وہ اپنے اس باہمی اتفاق نامے یا دستور پر جیسے اور جتنی دیر چلنا چاہے، اسے اس کا پورا حق حاصل ہے: المسلمون علیٰ شروطہم،اِلا شرطاً حرم حلالاً اَو اَحل حراماً(سنن الترمذی: کتاب ”ال اَحکام“ باب ما ذکر فی الصلح بین الناس، عن اَبی ہریرۃ ۔ حدیث رقم: 1352۔ قال ال اَلبانی: صحیح) ”مسلمانوں کو ان کے مابین طے ہو جانے والی باتوں پر رہنے دیا جائے گا، سوائے یہ کہ (وہ کوئی ایسی بات اپنے مابین) طے کر لیں جو کسی حلال کو حرام کر دینے والی ہو یا حرام کو حلال“
(2) مراد ہے ایسا نیا لٹریچر جو فکری و نظریاتی و تربیتی پہلوؤں سے ایک صالح تحریکی عمل کی مسلسل ضرورت ہے۔ کچھ اسٹرٹیجک اسٹدیز پائی گئی ہوں تو اس سے ہمیں انکار نہیں۔ البتہ ’تحریکی دنیا‘ سے باہر اگر مقامی طور پر کچھ نیا آ رہا ہے تو وہ ظاہر ہے ہمارے نوجوانوں کی غرض پوری کرنے والا نہیں، الا یہ کہ ایسے لٹریچر سے فائدہ لینے کیلئے نوجوانوں میں پہلے ایک خاص نظر پیدا کرا دی گئی، اور یہ کام تو یہاں شاید بالکل بھی نہیں ہو رہا۔ کیونکہ ’تحریکی دنیا‘ سے باہر جو ’نیا‘ یہاں سامنے آ رہا ہے، وہ یا تو ’جدیدیت‘ کا رنگ لئے ہوئے ہے جوکہ ہے ہی اس لئے کہ یہاں کے تحریکی عمل کی بچی کھچی رمق بھی ختم کر دی جائے، اور یا پھر یہاں کی یونیورسٹیوں میں تیار کروایا جانے والا ’تحقیقی کام‘ ہے، جس میں کئی ایک صائب فکر مؤلفین کا کام یقینا قابل قدر ہو گا، مگر زیادہ تر یہ ’عقیدہ‘ اور ’منہاج‘ کی کسی بھی قویم اساس کے بغیر تیار کیا گیا کام ہوتا ہے جوکہ عمومی طور پر ابھی تک اس استشراقی ڈھب سے بھی پوری طرح آزاد نہیں ہو سکا ہے، جس کے ہاتھوں یہاں کی یونیورسٹیوں میں پائے جانے والے ’اسلامک اسٹڈیز‘ کے اس فنامنا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
(3) جس کے باعث وقت آگیا ہے کہ اسلامی تحریکیں اب تو ایک ایسا زوردار ایجنڈا لے کر سامنے آئیں کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال ہی نہ ہو، کیپٹل بلاک کے عنقریب سقوط کو سامنے رکھیں تو حق یہ ہے کہ ہم یہاں کے چھوٹے چھوٹے سب اہداف کو بھول جائیں اور ایک نہایت غیر معمولی صورتحال کی تیاری کریں۔ پہلے ہی اس کیلئے ہم بہت لیٹ ہو چکے ہیں۔
(4) (سورۃ الانعام: 55) ”اسی طرح ہم تو اپنی آیات کھول کھول کر بیان کر تے ہیں، اور تاکہ مجرموں کا راستہ فاش ہو کر رہ جائے“۔
اس آیت کے حوالے سے کچھ نہایت مفید و نفیس تحریکی مباحث، سید قطب کے برادرِ خورد محمد قطب کی کتاب ’دعوت کا منہج کیا ہو؟‘ میں ملاحظہ کیجئے۔ اسکے کچھ اقتباس اس شمارہ میں بھی دیے جارہے ہیں۔
(5) اِس مسئلہ کو بھی محمد قطب نے اسی کتاب میں نہایت مدلل طور پر واضح کیا ہے (دیکھئے پچھلا حاشیہ)۔
(6) ’انسانی صلاحیتوں کا تنوع‘ ہے ہی ’امت کی ضرورتوں کے تنوع‘ بالمقابل۔ مثلاً ہو سکتا ہے آپ میں عسکری صلاحیتیں کمال کی ہوں۔ اب امت کے پاس تو آپ کے مناسب حال ایک پراجیکٹ ہے، جس میں آپ اپنی صلاحیتیں کھپا دیں (واضح رہے ہم حالیہ صورتحال میں صرف اور صرف ان محاذوں پر ہی مسلمانوں کی عسکری سرگرمی کو درست سمجھتے ہیں جن پر علمائے اسلام کے جمعِ غفیر کی جانب سے جہاد کا فتوائے عام موجود ہے اور جوکہ اِس وقت صرف اور صرف امت کے بیرونی محاذ ہیں مانند فلسطین بہ مقابلہ یہود، افغانستان بہ مقابلہ امریکی و دیگر تحادی، چیچنیا بہ مقابلہ روس، کشمیر بہ مقابلہ ہندو، صومالیہ بہ مقابلہ ایتھوپیائی یا امریکی قبضہ کار وغیرہ وغیر).. البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص جماعت کے پاس آپ کی عسکری صلاحیتوں کے استعمال کا نہایت خوب مصرف نہ ہو اور اس کا دائرہء عمل کسی فکری یا تحریکی نشاط تک محدود ہو۔ اسی طرح یہ ممکن ہے کہ آپ خاص علمی و فکری صلاحیتیں رکھتے ہوں جبکہ آپ کے سامنے فی الحال جو جماعت ہو اس کے عمل کا دائرہ عسکری امور تک محدود ہو۔ اب یہاں بھی آپ کی صلاحیتوں کیلئے تو امت کے پاس کوئی پراجیکٹ ہوگا اور کہیں نہ کہیں آپ کو ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے پلیٹ فارم مل جائے گا، گو آپ کی ان صلاحیتوں کے حسب حال کوئی پراجیکٹ اس جماعت کے پاس نہ ہو جس سے اس وقت آپ کی وابستگی ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ بیک وقت متنوع صلاحیتیں رکھتے ہیں تو بیک وقت بھی آپ امت کے کئی ایک پروگراموں اور منصوبوں پر سرگرم عمل ہو سکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ جس پروگرام پر اپنی صلاحیتیں صرف کریں اپنی اس سرگرمی کے دوران اس سے متعلقہ ڈسپلن کی پابندی کریں۔ 
پس یہ تو ہرگز ضروری نہیں کہ امت کے جتنے اجتماعی پراجیکٹ چلیں، خواہ جب بھی چلیں وہ ایک ہی ’جماعت‘ کے تحت ہوں۔ جو چیز ضروری ہے اور جس کیلئے کوشش ہونی چاہیے، وہ یہ کہ امت کے یہ سب اجتماعی پراجیکٹ دین کے صحیح فہم اور صحیح تصور کے تحت چلیں، جس کو ہم ’عقیدہ‘ اور ’اصولِ سنت‘ بھی کہتے ہیں۔ پس عقیدہ یعنی تصورِ دین اگر درست ہے یا اس پر محنت ہو رہی ہے تو کچھ حرج نہیں مختلف منظم ٹولے اپنے اپنے انداز سے امت کو درپیش کوئی نہ کوئی رخنہ پر کر رہے ہوں۔
(7) مقصد ایسے متبع حق نوجوانوں پر تنقید نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ مسئلہ ایک بہت بڑے ”ایضاحِ مطالب“ کا متقاضی ہے کیونکہ الجھنیں یہاں شمار سے باہر ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہمارا اصل زور ”اصول اہلسنت“ کے توضیح و بیان پر رہا ہے۔ حق یہ ہے کہ اصول اہلسنت کی سرکردگی میں نہ چلنے والا تحریکی عمل جہاں بہت سے راستے کھولتا ہے وہاں بہت سی الجھنیں بھی اپنے راستے میں آپ ہی پیدا کر لیتا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کا اصل مسئلہ یہ الجھنیں ہیں نہ کہ حوصلے کا فقدان۔
(8) اس سلسلہ میں پائے جانے والے بعض مغالطوں کے ازالہ کیلئے، ہمارا مشورہ ہو گا کہ ہماری ترجمہ کردہ ایک کتاب، جوکہ بنیادی طور پر امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ پر مشتمل ہے، بہ عنوان ”اہلسنت فکر و تحریک“، کا مطالعہ ضرور کر لیا جائے۔
(9) رہ گئی بات کہ اگر آپ کی حیثیت کسی جگہ پر ایسی نہیں کہ آپ جو کہیں لوگ آپ سے سنیں، تو وہاں ایک غلطی یا ایک بدعت کو (جسے ایک آدمی بدعت سمجھ رہا ہے) دیکھ کر کیا چپ رہنا ہی فرض ہے؟.... تو ایک غیر مؤثر شخص کو کسی ماحول میں ازالہء بدعت کے معاملہ میں کیا طریقِ کار اپنانا چاہیے، ”انکار علی المنکر“ کے حوالے سے یہ ایک باقاعدہ باب ہے جس کا علم لینا چاہیے۔ البتہ علم کی کمی کے باعث ’رد بدعت‘ یا ’نشر سنت‘ کے نام پر یہاں کے دینی حلقوں کے اندر ہنگامے کھڑے کر آنے کا ایک فنامنا جو کہیں کہیں دیکھنے کو ملنے لگا ہے اس کا کوئی تعلق دعوتِ عقیدہ کے ساتھ ہے اور نہ منہج اہلسنت کے ساتھ۔ یہ سراسر لاعلمی کا نتیحہ ہے اور ”ردِ بدعت“ کی ایک نہایت سطحی اپروچ۔ بے شمار دلائل اور ائمہء سنت کے اقوال اس بات پر شاہد ہیں، جنکا کچھ بیان ہمارے مجلہ میں ’بدعت کے ساتھ تعامل‘ ایسے موضوعات کے حوالے سے وقتاً فوقتا ہوتا رہتا ہے، گو اس پر زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھنا ابھی باقی ہے۔
(10) ’جماعتوں‘ اور ’تنظیموں‘ کے جواز کا مسئلہ جو پیچھے ذکر ہو چکا، اپنی جگہ، مگر یہ چیز جس کی ہم یہاں تجویز دینے جا رہے ہیں بہرحال کسی بھی معنیٰ میں، خواہ وہ کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو، سرے سے کوئی ’تنظیمی اکائی‘ نہ ہو۔ ”تبدیلی“ کے اِن حاملین کیلئے ضروری ہے کہ یہ صرف اور صرف ایک ”فکری رَو“ کی صورت میں ہی دیکھے جائیں۔ عین اُسی طرح جس طرح عالم اسلام کی تاریخ میں کچھ علمی و فکری تحریکیں امت کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دیتی رہی ہیں، مثال کے طور پر (کچھ فرق کے ساتھ) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی فکری تحریک، اور اس سے کہیں زوردار طور پر امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک۔ جس کے نتیجے میں عالم اسلام میں چلنے والے سب کے سب پراجیکٹس میں خود بخود جان پڑ گئی اور معاملہ آپ سے آپ ایک پٹڑی پر چڑھ آنے لگا۔ آج بھی اگر قلوب اور افکار کی کایا پلٹ دینے والی کوئی تحریک میدان میں قدم رکھتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں یہاں کا حالیہ تحریکی عمل ہی اپنے اِس تمام تر تنوع کے ہوتے ہوئے ایک پائیدار تبدیلی کی بنیاد بن جائے گا اور باطل کی پسپائی اِس کے نتیجے میں یقینی ہو جائے گی۔
Print Article
  فرائض دین
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز