س ’آزادیِ اظہار‘ پر اُنکے خیال میں کوئی ’مفاہمت‘ ممکن نہیں |
| تو کیا یہ خدا کی کوئی حجت تھی جو پوری کرائی جارہی تھی؟ | |
| | |
شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”الصَّارِمُ المَسلُول علٰی شَاتِمِ الرَّسُول“ میں بیان کرتے ہیں:
”لاتعداد مسلمانوں نے ،جو کہ ثقہ راوی ہیں اور علم وفقہ سے بہرہ منداور آزمودہ کار، ہم سے بیان کیا کہ شام کے ساحل پر واقع قلعوں اور شہروں کے محاصرے کے دوران ایک زبردست بات وہ متعدد بار آزماچکے ہیں ۔یہ ہمارے اپنے (ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے) زمانے کی بات ہے۔ اہل اسلام ان خطوں میں گوروں کا محاصرہ کئے ہوتے تھے تو اس سلسلہ میں ان (ثقہ عینی شاہدوں) نے ہم سے بیان کیاکہ کسی قلعے یا شہر کا محاصرہ کئے ہوئے ہمیں مہینہ مہینہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر جاتا مگر وہ قلعہ یا وہ شہر فتح ہونے کا نام نہ لیتا۔حتی کہ ہم قلعہ لینے کی آس بھی قریب قریب کھو چکے ہوتے۔ یہاں تک کہ جب وہ لوگ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مرتکب ہوتے اور آپ کی ذات و ناموس کے متعلق کچھ گستاخی کر لیتے تو ان کا مفتوح ہو جانا ہمیں بہت قریب دکھائی دیتا۔ صورت حال یک بیک ہمارے حق میں تبدیل ہونے لگتی اور قلعہ کا زیر ہونا دن دو دن کی بات رہ جاتی۔ پھر ہمیں بھرپور فتح ملتی اور دشمن کا خوب ستیاناس ہوتا۔ ان راویوں کا کہنا ہے کہ یہ بات ہماری اس قدر آزمودہ رہی کہ جب کبھی ہم ان بد بختوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں زبان درازی کرتے سنتے تو اگرچہ اُسے سن کر ہمارا خون کھول رہا ہوتا مگر ہم اُس کو فتح کی بشارت سمجھتے۔
ایسی ہی روایت مجھ سے ثقہ راویوں نے غرب (شمالی افریقہ و اندلس) کی بابت بیان کی کہ وہاں بھی مسلمانوں کو نصاریٰ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آتا رہا ہے“
(الصارم المسلول ص 123، فصل: من تجارب المسلمین فی عصر المؤلف فیمن سب الرسول)
تو کیا زمانہ جو اب ایک نئی کروٹ لے رہا ہے اور یہ امت جو ایک زبردست انداز میں زمین کے اندر اپنا کردار ادا کرنے کی جانب واپس آرہی ہے اور اِس کے اِس واپسی کے راستے میں مجرمینِ ارض روڑے اٹکارہے ہیں بلکہ اِس کی اِس راہ میں جم کر بیٹھے ہیں اور فی الوقت اس کا مقابلہ اسی میدان میں ہے تو کیا اس راستے میں اس امت پر خدا کی نصرت کا وقت خود ہمارے اور ہمارے دشمن کے اندازے سے بڑھ کر قریب آرہا ہے؟
بلا شبہہ دشمن نے خدا کے آخری نبی کی ذات کو، جو کہ وقت کا رسول ہے،ہدف توہین بنا کر خدا کے غضب اور اپنے برے انجام کو ،جس کے آثار ایک وقت سے اس پر منڈلا رہے ہیں ،بڑی جرأت کے ساتھ اور بلند آواز میں دعوت دی ہے اور خدا سے، خصوصاً نبیِ وقت کے ساتھ تعامل کے حوالے سے، جو مانگا جائے خدا وہ ضرور دیتا ہے!
************
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص طبقے کے لئے نہیں جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ”رَحمَةٌ مُهدَاةٌ“ یعنی بنجر انسانیت کے لئے ہدایت کا برستا مینہ۔ بانجھ زمین کے لئے خدا کا لامحدود فضل اور لطف وعنایت کی بے حدو حساب خیرات۔ کوئی چٹیل اور مسام بند زمین اس سے سیراب نہیں ہوسکتی، البتہ باران کی پھوار سے کچھ نہ کچھ خوشگوار تو ضرور ہی ہو سکتی ہے ! اور یہ ماحول کی خوش گواری تو پچھلے چودہ سو برس سے ہی سب اہل زمین کے حصے میں آرہی ہے!
فضیلت اور قدروں کی موت دنیا کے کسی بھی خطے میں مکمل طور پر نہ ہوپائی تو اس کی وجہ یہی تو ہے کہ ایک آدھی دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے جانے اور آپ سے فضیلت اور قدروں کے اسباق لئے جانے کی بازگشت پورے جہان میں گونجتی ہے اور دنیا کو اپنے تحریف شدہ صحیفوں میں اخلاق اور دیانت اور خدا کی تعظیم کے جیسے کیسے سبق تلاش کرنے، اور عدالت و انصاف کے جیسے کیسے دستور گھڑنے کےلئے مہمیز بھی تاریخ کے ان آخری ادوار میں یہیں سے ملی ہے ۔۔۔۔ جس کا اعتراف کرنے پر خدا کا فضل ہے آج کا ہر مورخ مجبور ہے۔۔۔۔
خدا آگاہی کا یہ صاف شفاف ترین چشمہ اور خدا کی تعظیم اور خدا کی بندگی کی یہ خوبصورت اور روشن ترین اور نفیس ترین اور نادر ترین اور کامیاب ترین مثال محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ جہانوں کے لئے خدا کی اس سب سے بڑی رحمت کو بارود کی رمز بنا کر جس بدبخت نے آج پیش کیا ہے اور جو اس رحمت کا بربادی اور تباہی کی علامت کے طور پہ چرچا کرنے پر ہی بضد ہے،وہ خدا سے اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے بھلا کس چیز کا تقاضا کررہا ہے!؟
اَنا عند ظن عبدی بی”میں اپنے بندے کے حق میں وہی کچھ ہوں جیسا وہ میری بابت گمان رکھ لے“!
خدا نے اس سے بڑی رحمت زمین پر کبھی نہیں اتاری اور اس سے بڑھ کر فضل خدا نے اہل زمین پر کبھی نہیں کیا۔جو شقی القلب رحمت کی اس گھٹا میں بھی بم اور گرنیڈ ڈھونڈے بلکہ دنیا سے اپنی اس نکتہ وری پر داد چاہے، اس کے حصے میں خدا کی جانب سے کیا آنا چاہیے؟! الجزاءمن جنس العمل!!!
دنیا کو بم اور آگ کے یہ کھیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کی امت نے دیئے ہیں یا خود انہوں نے اور ان کے آباءنے جو تاریخ کا بدترین اور منظم ترین فساد اٹھانے کے لئے دنیا میں برپا ہوئے؟؟؟
بستے شہروں اور ہنستی بستیوں کو لمحوں کے اندر راکھ کا ڈھیر بنا دینے کی رِیت آخر کس نے چلائی ہے؟
سورج میں اندھیرے کا انکشاف کردینے کی صلاحیت بھی سچ ہے کہ خدا نے دنیا کے روسیاہوں کو وافر دے رکھی ہوتی ہے اور ایسا وتیرہ اختیار کر کے یہ لوگ دراصل یہ بتاتے ہیں کہ خدا کی عادلانہ تقسیم ہوتو روشنی کے منبع سے بھی ان کے حصے میں ظلمت اور سیاہی ہی آنی چاہیے اور یہ کہ بارانِ رحمت کو بھی ان کے حق میں صرف اور صرف عذاب ہی ہونا چاہیے۔
خدا نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بشیر اور نذیر اور سراج منیر اور بیک وقت نبی الرحمۃ اور نبی الملحمۃ (1) بنا کر بھیجا ہے تو کیا ان لوگوں نے یہ تعین کرلیا ہے کہ اس تعلق سے خدا ان کو دے تو کیا دے؟!
*******************
اس ”شگون“ کے ”حقیقت“بننے میں بھی آخر کیا رکاوٹ ہے؟ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ۔
’کارٹون‘ اور ان کے بنانے والے’کارٹون‘تو خیر کیا وقعت رکھتے ہیں البتہ ’رموز‘ کی زبان واقعتا کسی وقت نقارۂ خدا ٹھہرتی ہے اور کسی قوم کے ایک بدبخت کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی جسارت یا اس کے رویے سے ظاہر ہونے والا کوئی گستاخانہ اسلوب جو آفاق میں خبر بن کر پھیل جائے اور جس سے اس کی قوم کے سمجھدار اس کو باز نہ کرپائیں بسااوقات کسی بڑے واقعے کی پیشین گوئی بن جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفۂ دوئم کے عہد میں مسلم امیر الجیش سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنا ایلچی شہنشاہ فارس کے دربار میں بھیجا تو جواب میں فارس نے از راہِ تحقیر مسلم ایلچی کو مٹی کا بھرا ہوا ایک توبڑا اٹھوا دیا کہ وہ اسے ’تحفے‘ کے طور پر اپنے بڑوں کے پاس لے جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جانشینوں کے سامنے پیش کرے۔یہ ایک خاص پروٹوکول کی سطح کا واقعہ تھا اور نظراندازکردیا جانے والا ’عام سا لطیفہ‘ نہ تھا۔سعدؓبن ابی وقاص کا فطین ایلچی بڑی مستعدی کے ساتھ وہ ٹوکرا اٹھا کر چل دیا اور کمال سرعت کے ساتھ واپس مستقر پہنچ کر اپنی قیادت کو خاک کا توبڑا یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ مبارک ہو، اربابِ فارس نے اپنی مٹی آپ کو تحفہ کردی ہے! کچھ ہی دیر بعد دنیا ’رموز‘ کی اس زبان کو حقیقت بنتے دیکھ رہی تھی!
کہا جاتا ہے فارس کے کچھ سمجھدار اپنے طاغوت کی اس حرکت کا، جس سے اس کا مقصد اہل اسلام کی محض تحقیر اور توہین تھا،فوری تدارک کرنے کے لئے مخل ہوئے بھی بلکہ خسرو کو یہ ’بے وقوفی‘ واپس کرلینے میں کامیاب ہوئے بھی ، مگر ’ذرا‘ تاخیر کے ساتھ۔
تب فارس کے ہرکارے مسلم ایلچی کے تعاقب میں خوب دوڑائے گئے کہ کسی صورت بدشگونی کی یہ ’رمز‘ واپس ہو جائے مگر مسلم ایلچی ان سے زیادہ تیز ثابت ہوا اور فارس کو اس کی یہ ’مہنگی بے وقوفی‘ واپس لے لینے کا موقعہ نہ دیا۔
آج کی مغربی تہذیب کے کچھ ترجمانوں نے خدا کے آخری پیغمبر کو اپنی ہرزہ سرائی کا موضوع بناتے ہوئے خدا کی اس بے مثال رحمت میں خود اپنے ہاتھوں اپنے لئے تباہی اور بربادی کی ایک تصویر بنائی ہے۔ اپنے تئیں اس کو بھیانک بنانے کی کوشش کی ہے اور ازراہ تضحیک اِس کو دنیا میں جی بھر کر نشر کیا ہے۔ ان کی قوم کے ان لوگوں کو جو ان سے اِسے واپس لے لینے کے ملتمس ہوئے منہ کی کھانی پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے چند بدبختوں کی آواز میں ہزاروں بدبختوں کی آواز شامل ہوگئی جن میں ہرقسم کے اور ہر سطح کے با اثر طبقے شامل رہے۔ سب نے دیکھا کہ خدا کے سب سے برگزیدہ نبی کے ساتھ اس ٹھٹھے اور مذاق کو ان کے ہاں ایک دوسرے سے بڑھ کر سراہا گیا۔
تو کیا یہ خدا کی کوئی حجت تھی جو ان پر خود ان کے ذریعے پوری کرائی جارہی تھی؟
مسئلہ ایک آدھ شخص کا نہ رہا، جیسا کہ ہمارے یہاں کے بعض وسیع الظرف بات ’رفع دفع‘ کرنے کے لئے ہم ’تیسری دنیا‘ کو سمجھا نے میں کوشاں ہیں۔اِس کو تو ’تہذیب‘ اور آزادیِ اظہار‘ اور قوم کے ’طرزِ حیات‘ کا باقاعدہ مقدمہ بنایا گیا۔ اِس کو ’قومی امتیاز‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔ صلیبی بغض جو ان آخری ادوار میں اپنے اوپر ’ڈپلومیسی‘ کے کئی سارے کوٹ چڑھا چکا ہے اس موقعہ پر چھپائے نہ چھپتا تھا۔ غیرتِ قومی اور حمیتِ جاہلی کے تحت اس کو وہاں کے مؤثر طبقوں کی ایک کثیر تعداد کے ہاں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اکثر خاموش رہنے والے بلکہ اس کو دبے لفظوں میں ’نامناسب‘ کہنے والے بھی نبی ِ اسلام کی اس اہانت پر بغلیں بجاتے رہے۔ اس پر ایک آدھ شخص کیوں، پھر وہ پورا نظریۂ حیات اور اس کے سب علمبردار کیوں نہ ڈوبیں جس کی دہائی دے دے کر اور جس کے احیاء و تحفظ کے نام پر اخبارات کے لاکھوں کروڑوں صفحات اور ٹی وی کی کروڑوں سکرینیں خدا کے سب سے برگزیدہ رسول کی توہین کرتی رہیں؟
مغرب کے سمجھ دار کیا اپنے کچھ روسیاہوں کو یہ بے ہودگی واپس لے لینے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوپائے؟ معاملہ سب کے سامنے ہے اور وقت ہے کہ شاید بلکہ یقیناً گزر گیا ہے۔
یہ تصویر جس پر ایک بے عمل سے بے عمل مسلمان کا خون کھول اٹھتا ہے، اپنے بنانے اور نشر کرنے والوں کے حق میں اور پھر اِس تصویر کی آڑ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھٹھہ کی اس کھلی آزادی دینے والی تہذیب، اور اِس تہذیب کی وکالت کرنے والوں کے حق میں۔۔ یہ تصویر کیا کسی حقیقت کی پیشین گوئی ہے؟ ہم جو غیب کا علم نہیں رکھتے کیا کہہ سکتے ہیں، اور پھر خدا کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا مجاز تو خود اس کا اپنا رسول نہ تھا ، البتہ مانگنے والوں نے خدا سے اس کا عذاب یقینا مانگ لیا ہے۔