عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Gard_Nahi آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
حرفِ آغاز: یہ گرد کیونکر اٹھی
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

  

حرفِ آغاز

 

یہ گرد کیونکر اٹھی؟

 

 

 

اقوام کی آویزش کوئی آج کی کہانی نہیں۔ جب سے دنیا بنی قومیں، معاشرے، امتیں زمین میں اپنے اپنے پیر جمانے اور ایک دوسرے کے پیر اکھاڑنے کی کوشش کرتی ہی آئی ہیں۔ نبوتوں نے کچھ کیا تو وہ یہ کہ انسانی فطرت کو ایک صحیح تر اور صالح تر جہت سے آشنا کرایا۔ پس قوموں کی اِس آویزش میں جب بھی انبیاء کی دی ہوئی جہتیں اور غایتیں بولنے لگیں، یہ آویزش تو تب بھی نہ رکی، اور نہ یہ رکنے والی کوئی چیز ہے، البتہ اِس نے ایک اور ہی خوبصورت رخ دھارا، یعنی: ایک جانب آسمانی قدریں اور خدا آشنائی :: تو دوسری جانب زمینی قدریں اور انسانی ہوس پرستی۔

علاوہ ازیں، زمین کا ایک اپنا سفر ہے اور اب تو وہ ایک خاص ہی مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے؛ جہاں آج اِس کے ’جغرافیہ دان‘ انکشاف کرتے ہیں کہ براعظموں کے مابین فاصلہ ’انچوں‘ کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔۔ وہاں ’عمرانیات‘ کے ماہرین براعظموں کے اِن فاصلوں کو ’صدیوں‘ کے حساب سے سمٹتا دیکھ رہے ہیں!

انسانی آویزش کی یہ کہانی پس آج ایک خاص شان اختیار کر گئی ہے۔ اور جو لوگ اِس کے پیچھے صرف ’تیل کے کنویں‘ اور ’کوئلے کی کانیں‘ہی دیکھ سکتے ہیں، باوجود اِس کے کہ ان کی نگاہ انہیں دھوکہ نہیں دے رہی، پھر بھی وہ اپنی اِس کوتاہ نظری کے باعث افق پر ابھرنے والی ’پوری تصویر‘ نہیں دیکھ رہے۔۔۔۔!

زمین پر رہنے والی مخلوقات زمین کے مسائل سے کبھی لاتعلق نہیں رہ سکتیں۔ آسمانی قدریں بھی زمین اور زمینی ضروریات سے رشتہ توڑ لینے کا سبق نہیں دیتیں۔ لہٰذا حق اور باطل کی کشاکش جب قوموں اور امتوں کی سطح پر آتی ہے تو اُس کی بہت سی ’زمینی‘ جہتیں بھی برقرار ہی رہتی ہیں۔ یہیں سے بہت سے سطح بینوں کو یہ کشمکش محض ’وسائل‘ اور ’معدنیات‘ کی جنگ نظر آتی ہے تو کچھ کوتاہ بینوں کو زمین کی ایک جنگ میں آسمان کا رنگ تلاش کرنا دشوار لگنے لگتا ہے۔۔۔

بہت سوں کیلئے یہ دشوار ہوگیا ہے کہ حق اور باطل کی اِس کشمکش کو وہ قوموں اور امتوں کی سطح پر جا کر دیکھ سکیں۔ اِن کے وہ محدود سے پیمانے جو ’افراد‘ کو بھی مشکل سے کفایت کریں (حق یہ ہے کہ ’افراد‘ کی سطح پر بھی اِن کے ’مثالی تصورات‘ میں بہت سی انسانی حقیقتیں اوجھل اور بہت سی واقعاتی جہتیں عنقا ہوتی ہیں) یہ اپنے وہی خردہ پیمانے لئے قوموں اور امتوں کے امور ماپنے چل پڑتے ہیں۔ تب کسی وقت یہ متمنی ہوتے ہیں کہ اقوام کی سرکشی وطغیانی کے آگے پوری کی پوری امتِ اسلام ’مدر ٹریسا‘کی سی تصویر بنی رہے اور اِسی کو ہمارے یہ ’داعیانِ اخلاق‘ اسلام کی ’اصل روح‘ کے قریب ترین باور کرتے ہیں، تو کسی وقت یہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سوانح میں ”غزوہ“ کا مطلب ’دعوتی سفر‘ اور ”جزیہ“ کا معنیٰ ’زرِ نگہداری‘ کرنے پر مصر دیکھے جاتے ہیں!

آسمانی قدریں زمین کے ہنگاموں کو ختم کرانے نہیں بلکہ انہیں ایک صالح جہت دینے آئی ہیں۔ نیز یہ اِس کشمکش کے ایک فریق کو اُن صالح ضوابط کا پابند کرنے آئی ہیں جنہیں اختیار کر کے یہ اپنے جائز انسانی مطالب کی تکمیل کا تو پورا پورا موقعہ پائے اور اپنے سب انسانی رویے اور جائز رد عمل سامنے لانے میں بھی ہرگز کوئی دقت نہ پائے، البتہ یہ اُن آسمانی ضوابط کا پابند رہ کر عند اللہ وعند الناس ’ظلم‘ اور ’زیادتی‘ کے دائرے میں آنے سے بھی بچا رہے۔ پھر اگر ہوسکے، اور صورتحال بھی متقاضی ہو، تو خاص اپنے حق سے (نہ کہ اپنے رب اور اپنے نبی کے حق سے) دستبردار ہوکر، فریقِ دیگر پر احسان کرے اور اپنی اخلاقی برتری دکھائے۔

مگر سب سے اہم، حق اور باطل کا وہ تدافُع (ایک دوسرے کے قدم اکھاڑنے کیلئے ہونے والی تگ ودو) ہی ہے، جس کے دوران زیرِ بحث آجانے والے یہ موضوعات (جوکہ ’ردِ عمل‘ سے متعلق ہیں) ایک جملۂ معترضہ اور ایک فرعی مبحث ہی کی حیثیت رکھیں گے۔ اور ہم بھی اِن فرعی مباحث کے حوالے سے کسی نوک جھوک میں پڑنا اپنے وقت کا صحیح مصرف نہ جانیں گے۔ اصل مسئلہ حق اور باطل کا تدافع ہے، جوکہ زمین کی سب سے سچی کہانی ہے۔

زمین کی اِس پوری کہانی میں، جوکہ آج ایک خاص شان اختیار کر جانے والی ہے، چونکہ اصل رنگ اُس وقت آتا ہے جب میدان کے ایک طرف انبیاء کی دی ہوئی جہتیں اور غایتیں آجائیں بلکہ زیادہ سے زیادہ نمایاں ہو جائیں، جبکہ اِس کہانی کو بے معنیٰ رکھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ انبیاء کو اِس کشمکش کا ’فریق‘ نہ بننے دیا جائے، لہٰذ۔۔ تاریخ کے اِس نازک ترین موڑ پر شیاطین آج انبیاء کے وارثوں کو پھر سے ’کارزارِ زمین‘ میں اترتا دیکھ رہے ہیں تو اُن کی بدحواسی اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔۔۔۔

حق یہ ہے کہ آج یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں اِس معاملے کی ایک نہایت طبعی جہت ہے۔ مسئلہ پریشانی کا ہے اور نہ تعجب کا۔۔۔۔!!!

ہوا یہ تھا کہ اِس کہانی میں بظاہر ایک نہایت وقتی سا تعطل آگیا تھا، جب یہ امت ایک بڑی سطح پر خوابِ غفلت میں جا پڑی تھی، تو شیاطین اِس زمین ہی کی بابت اور اِس پر ہمیشہ سے چلی آنے والی ایک نہایت برگزیدہ کہانی کی بابت۔۔ اپنے ہی کچھ مفروضے گھڑ چکے تھے۔ نہ صرف اپنے کچھ مفروضے گھڑ چکے تھے بلکہ زمین کی پوری تاریخ کو ایک ناپسندیدہ ورق کی طرح پھاڑ کر وہ یہاں اپنے کچھ نہایت دیرینہ خوابوں کی تعبیر کرنے چل پڑے تھے۔ داستانِ زمین کا اصل عنوان ”ہدایت روبہ روئے ضلالت“ ہی رہے گا، مگر ایک ’تعطل‘ نما دور سے دھوکہ کھاکر، کہ تاریخِ عالم کا ایک عظیم فتنہ تھا، یہ زمین کی سچی ترین داستان کو بقیہ زمانے کیلئے متروک بلکہ ’اساطیر الاولین‘ ٹھہرا چکے تھے!!! بلکہ اپنے تئیں یہ اُسے ’مقبرۂ تاریخ‘ میں دفن کر کے، خداکی کائنات میں پائے جانے والے اِس متنفس سیارچے کی حرکت و عمل کیلئے اپنے ہی خیال سے کچھ جہتیں بھی ’طے‘ کر چکے تھے۔ اِن کے فتنہ کیلئے، پوری دنیا اِنہی کے خطوط پر جہت پانے کیلئے رام بھی ہو چکی تھی اور کوئی بڑی رکاوٹ اِن کی راہ میں اب باقی نہ رہ گئی تھی، یہاں تک کہ ’ نقشۂ اقوام‘ آخری حد تک ’فائنل‘ کیا جا چکا تھا۔۔ بلکہ The End Of History کے بگل بجا دیے گئے تھے(1)، (حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَآ !!!)(2)۔۔۔۔ کہ کیا دیکھتے ہیں وہی لوگ جو ’زمین‘ کا رشتہ ’آسمان‘ سے جوڑ رکھتے رہے تھے، وہی لوگ وہی چہرے پھر میدان میں پیر دھر چکے ہیں اور اُسی کہانی کی نہ صرف کچھ ’بقیہ اقساط‘ بلکہ اس کے سب ’بھولے ہوئے حصے‘ بھی پھر سے منظر عام پر آ جانے والے ہیں!!!!!

سب، ہکا بکا ، دیکھ رہے ہیں:۔۔۔۔ ”اسلام آرہا ہے“!!!!!

خدایا! تو کیا ایک آسمانی امت (جو آج سب نبیوں کی وارث ہے)۔۔ اور اِس آسمانی امت کی ”میعاد“۔۔ ابھی پوری طرح باقی ہے؟!! تو کیا یہ امت صرف سوئی تھی، مری نہیں تھی؟!! ’بموں‘ سے یہ مرتی نہیں جاگ جاتی ہے؟!! خدایا! تو کیا یہ امکان باقی ہے کہ ابھی پھر ہم زمین پر آسمان کے حوالے دیے جاتے سنیں؟!! مسائلِ انسانیت میں سے ایک ایک کی عقدہ کشائی کیلئے ایک روشن بیّن (مہیمن)(3)’شریعت‘ کو بولتا پائیں اور زمینی فلسفے اُس کے سامنے شرما کر رہ جائیں؟!! کیا پھر وہ دن چڑھ سکتا ہے جس کے آفتاب تلے اِن کے شبینہ قمقموں کی چکاچوند جاتی رہے؟!! خدایا! تو کیا ’آسمان بہ مقابلہ زمین‘ کا دور ابھی تمام نہیں ہوا؟؟؟؟!!

’آسمانی دور‘ کو تو کب سے یہ اپنے تئیں موت کی نیند سلا چکے تھے!!!

مگر اِنکے متلاشیانِ حق پر اب کھلا کہ وہ تو ایک منسوخ شریعت تھی جسکی کتاب بھی اب موثوق نہ رہ گئی تھی، اور جسکے تو ’جملہ حقوق‘ ہی بڑی دیر ہوئی انکے پوپوں اور پادریوں نے اپنے نام کرا رکھے تھے، اور یوں وہ تو ’زمین‘ کا اپنا ہی اندھیرا تھا اور آسمان کے نام پر تو نرا ایک بہتان۔۔ البتہ وہ آفتاب جو پورے جہان کو روشنی دینے کیلئے رکھا گیا ہے اور جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ہے (وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا )(4) اُس کو کون بجھا سکتا ہے؟؟؟!!! اُس سے ماتھا لگانا تو ہے ہی بالفعل سورج کو چراغ دکھانا، خواہ کسی کو اپنے فکر وفلسفہ پہ کتنا ہی ناز ہو! یہ وہ آفتاب ہے کہ قیامت تک اِس کی روشنی ماند پڑنے والی نہیں البتہ اِس کو ماند کردینے کی حسرتیں پالنے والے ضرور ماند ہو کر تاریخ کا کوڑا بن جاتے رہے ہیں! خدا کا یہ سورج آج سب براعظموں کو روشن کرنے لگا ہے اور زمین گویا اِس کے سامنے چپٹی ہو چکی ہے اور اس میں کوئی بھی بل شاید اب باقی نہ رہ پائے گا! وہ ہمارے یہاں اِس کو بجھانے آئے تھے اور بیشک ضرور اُن کے پراگندہ افکار کا دھواں ہمارے اور ”سورج“ کے مابین حائل ہوجانے کیلئے بڑی دیر کوشاں رہا بلکہ اب بھی اُسی کی سیاہی ہر طرف چھائی ہے، مگر اِس امت کو قرآن پڑھانے والوں اور ”قال اللہ وقال الرسول“ کے مخصوص سریلے نغمے چھیڑ دینے والوں کے دم سے اب یہ دھواں چھٹ جانے لگا ہے۔۔۔۔ اور اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ ”سورج“ کی روشنی اُن کے اپنے تاریک گھروں تک پہنچنے لگی ہے!!!

وہ تاریخ ساز نغمہ جو اُس دن یثرب کی زبان پر تھا جب دو اونٹنی سوار ثنیۃ الوداع سے اس کے افق پر طلوع ہو رہے تھے، اور جس پر کائنات کی حرکتِ نبض گویا تھم کر رہ گئی تھی۔۔ یثرب کا وہی نغمہ آج دھرتی کے سب براعظم مل کر گانے لگے ہیں۔ وہی ہلچل جو اُس مبارک دن یثرب کے درون اور بیرون ہو رہی تھی اُسی کی سرسراہٹ آج پوری زمین پر ہے: کہیں دل خوشی سے اچھل رہے ہیں ، تو کہیں ’بنو قریظہ‘ و ’بنو قینقاع‘ و ’بنو نضیر‘ کے محلوں میں سراسیمگی ہے اور ’خیبر‘ میں کھسر پھسر جاری ہے، تو کہیں ’اَحزاب‘ بے قابو ہو رہے ہیں، تو کئی ’عبد اللہ بن اُبی‘ جمائیاں لے رہے ہیں!!!

۔۔۔۔ اور کہیں ’فضائے بدر‘ کی تیاریاں ہیں!!!!!

زمین اپنی کھوئی ہوئی شناخت ایک بار پھر پالینے والی ہے!انسانیت خدا کے در پر ایک بار پھر آ کھڑی ہونے والی ہے۔ دھرتی کا رشتہ بقیہ جہان سے پھر بحال ہوجانے والا ہے۔ آسمانی شریعت کو اُس کا مقام پھر ملنے والا ہے۔ ایمان و کفر کی حدیں دھرتی پر انسان کی کھینچی ہوئی لکیروں کو پھر مٹا ڈالنے والی ہیں۔۔۔۔!!!

یہ مبارک تبدیلی جو دھیرے دھیرے رونما ہو نے لگی ہے مگر دیکھنے والے اِس کو بڑی دور سے دیکھ لینے لگے ہیں اور’پہچاننے‘ والے اِس کو بہت خوب پہچان رہے ہیں، اور بہت سے ابلیس اِس ’خطرے‘ کو بھانپتے ہوئے ’دار الندوۃ‘ کال کر چکے ہیں۔۔ یہ تبدیلی ایک نہایت حقیقی تبدیلی ہے اور کوئی شک نہیں کہ پورا جہان اِس کی زد میں ہے۔ یہ عمل جس منبع سے اپنی سب غذا پا رہا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی ہوئی کتاب ہے یا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی چھوڑی ہوئی سنت۔ پس نہایت غیر طبعی ہوتا اگر شیاطین کا ہدف محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذاتِ گرامی نہ ہوتی۔ اُن کی اصل دشمنی آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی چھوڑی ہوئی سنت سے ہی ہو سکتی تھی اور یا پھر اُن تاریخی مصادر سے اور پھر وقت کے اُن زندہ طبقوں سے جو حق کے متلاشیوں کو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ٹھیک ٹھیک مقتضا بتا سکتے ہیں۔

پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ شیاطین کی یہ جنگ عالم ِ نسان کے ماضی، حال و مستقبل ہر تین سے وابستہ ہے۔ سب آسمانی قدریں، سب حقائق، سب صحیفے آج امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی پشت پر ہیں۔ باطل کی سب قوتیں اپنی بقاء و کامیابی اِسی ایک نام کو مٹا دینے سے وابستہ کر چکی ہیں۔ وہ ’تھوڑا بہت‘ جو اُن کی زبانوں یا اُن کی ’سکرینوں‘ پر آجاتا ہے اپنے پیچھے ’بہت کچھ‘ کا پتہ دیتا ہے۔ جو شخص اِس کو ’اِکا دکا واقعے‘ کے طور پر لیتا ہے وہ آج کی دنیا کا ایک نہایت بے خبر شخص ہے۔

یہ گرد جو میدان میں ہم دیکھ رہے ہیں محض کسی ایک آدھ واقعہ کی اٹھائی ہوئی نہیں۔ یہ ایک نہایت حقیقی معرکہ کی خبر دے رہی ہے۔ البتہ شرپسندوں نے پچھلے چند سالوں سے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین پر مبنی جو وتیرہ اختیار کر لیا ہے وہ اِس میں غیر معمولی شدت لے آنے کا باعث ضرور بنا ہے۔ ہم نہ اِسکے پس منظر سے غافل ہیں اور نہ اِسکے پیشِ منظر سے، البتہ ہم امتِ اسلام کے حق میں اِسکے اندر ایک نہایت خوب شگون بھی پاتے ہیں۔ کتاب کی عین ابتدا میں دیا گیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اقتباس اِسی معنیٰ پر دلالت کیلئے ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والے آج کے شیاطینِ مغرب ہمارے لئے آخری حد تک ناقابل برداشت ہیں، پھر بھی یہ بات ہمیں باغ باغ کر جاتی ہے کہ حق کی پیش قدمی کے پیچھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات آج ہمارے زمانے میں بھی روپوش نہیں۔۔ یعنی آج ہمارے عہد میں حق اور باطل کے مابین صف آرائی ہے تو بھی:

سالارِ کارواں ہے میر حجاز اپنا

اِس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا

حق کی نصرت ایک کثیر جہتی موضوع ہے۔ یہاں ہماری ترکیز اِس کی ایک خاص جہت پر ہے اور وہ ہے ”سالارِ کارواں“ کی ناموس کو زمانے کا موضوع بنانا۔ اِسی سے متصل کچھ ایسے موضوعات ہیں جو نبوتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے حوالے سے اپنے اِس زمانے میں ایک خاص لب ولہجہ اختیار کر جانے کے ضرورتمند ہیں، اِن کو بھی ہم نے شاملِ مضمون رکھنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں کے اردو خواں حلقوں میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم ، حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور ناموسِ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی انجمنوں، جماعتوں اور اداروں، نیز باطل ادیان وافکار کے بطلان سے وابستہ طبقوں کے کاز کو تقویت پہنچانے میں، ہماری یہ تحریر اگر کسی بھی طرح ممد ثابت ہوتی ہے تو ہمارے لئے اِس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی سعادت نہ ہوگی۔

اور آخرت میں تو۔۔ صاحبِ شفاعت صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق میں بولا ہوا ایک لفظ بھی اگر، قبولیت پا کر، نامۂ اعمال میں دیکھنے کو مل جائے۔۔ تو قسمت کے کیا کہنے!!!

حامد کمال الدین

ربیع الاول 1430ھ

 


 

(1) امریکہ کے ایک نہایت شہرت یافتہ دانشورفرانسس فوکویاما Francis Fukuyama کی شہرہ آفاق تصنیف: The End Of History And The Last Man جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ سرد جنگ کا اختتام محض ایک دور کا اختتام نہیں بلکہ انسانی ارتقاءکا ہی نقطۂ اختتام ہے۔ ’لبرل ڈیموکریسی‘ کی صورت میں انسانیت کو جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچ چکی اور جو پانا تھا وہ پا چکی۔ اب کوئی چھوٹی موٹی ترمیمات ہوں تو ہوں مگر کسی بڑی سطح پر انسان کے اِس عمرانی سفر میں اب آگے کچھ نہیں!
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑا بول تھا جو اپنے ایک چوٹی کے دانشور کی زبان سے مغرب اپنی اِس نہایت وقتی جیت کے نشے میں بول بیٹھا تھا۔ اِس کے ساتھ ہی سیموئیل ہنٹگٹن کی 'Clash Of Civilizations' کا ڈول ڈال دیا گیا!

(2) سورۃ یونس: 24 حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَآ أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ”یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگھار لے لیا اور نہایت بن سنور گئی، زمین والوں نے خیال کر لیا کہ وہ ان کے ہاتھ کی ہے، کہ ہمارا حکم آ پہنچا خواہ دن کو اور خواہ رات کو، تب ہم نے اُس کو چٹیل بنا کر رکھ دیا، گویا یہ کل یہاں تھی ہی نہیں۔ ایسے ہی بیان کرتے ہیں ہم آیات کو کھول کھول کر، واسطے سوچ والوں کے“

(3) سورۃ المائدۃ:48 وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ِ ” اور اے نبی! ہم نے اتاری تیری جانب یہ کتاب، حق کے ساتھ، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور اُس پر محافظ اور گواہ بن کر رہنے والی“

(4) سورۃ الاحزاب: 46، 45 يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا  وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ”اے نبی! یقینا ہم نے تجھے شاہد، بشارتیں دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ کی طرف بلانے والا، اُس کے حکم سے، اور روشن کر دینے والا سورج“

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز