سلف ومشاہیر
بازیافت
سلف ومشاہیر
سلطان العلماء
عز الدین بن عبدالسلام
قصہ ایک عالم ِدین کا کہ جس نے بادشاہ نیلام کئے
دوسری قسط
تالیف سلمان العودہ
اُردو استفادہ: حامد کمال الدین
حکمرانوں کیلئے دُعائے خیر کرنا ایک نیک عمل ہے مگر حکمرانوں کو راہِ راست پر لے آنے کیلئے ہیبتِ علم کو بروئے کار لانا ایک خاص مقام ہے جو کہ علمائے سنت کا تاریخی امتیاز رہا ہے۔ آئیے ایک عالم دین کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ مقالہ کے مصنف ہیں شیخ سلمان العودۃ اور مقالہ کا عنوان ہے ”سلطان العلمائ“۔ امید ہے ایک مزیدقسط میں ہم اس کا اُردو استفادہ مکمل کر لیں گے۔
منکرات کے خلاف سرگرم:
امام عز بن عبد السلام منکرات کے خاتمہ کیلئے صرف زبان ہلا دینا کافی نہ جانتے تھے، بلکہ منکرات کے خاتمہ و سدباب کیلئے آپ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ، جہاں تک ہوسکے یہ کام بنفس نفیس کرنے میں یقین رکھتے تھے، جس کا کچھ ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے۔
عز بن عبد السلام کا موقف وزیر فخر الدین کے ساتھ:
منکرات کے خاتمہ کے سلسلہ میں ایک نہایت جراتمندانہ و نمایاں موقف جو امام عز الدین بن عبد السلام کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے:
آپ کے کچھ شاگرد آپ کے پاس آئے اور بیان کیا کہ فلاں مقام پر مصر کے وزیر، جو فخر الدین لقب کرتا تھا، نے ایک طبل خانہ تعمیر کرایا ہے (یعنی ناچ گانے اور رقص و موسیقی اور بے حیائی کا ایک اڈہ)، خاص بات یہ کہ یہ جگہ ایک مسجد کے قریب پڑتی تھی۔ عز بن عبد السلام نے خبر کی تصدیق کی۔ توثیق ہونے پر آپ نے اپنے صاحبزادوں اور کچھ تلامذہ کو ساتھ لیا اور ’طبل خانہ‘ کی طرف چل دیئے۔ شیخ بنفس نفیس کلہاڑا اٹھائے ہوئے تھے اور ’طبل خانہ‘ کو توڑنے میں مصروف۔ کچھ ہی دیر میں آپ کے ساتھ آملنے والے لوگ طبل خانہ کی عمارت کو زمین کے برابر کرچکے تھے۔
کیا معاملہ یہاں ختم ہوگیا؟ نہیں۔ امام عز الدین نے اس کے ساتھ ہی یہ فتویٰ جاری کیا کہ وزیر فخر الدین کی عدالت (یعنی مسلم معاشرے میں اس کا قابل اعتبار وقابل احترام ہونا) ساقط ہوچکی ہے اب نہ اس کی شہادت قبول کی جائے اور نہ اس کا کوئی بیان۔ فتویٰ لوگوں کے مابین نشر کروادیا گیا۔ وقت کے عالم دین کا فتویٰ امت میں ہر طرف پھیل گیااور ہر شخص کو پہنچا دیا گیا۔
فخر الدین کا خیال تھا کہ اس کی عدالت ساقط ہونے کا چرچا زیادہ سے زیادہ چلیں مصر تک ہوگا۔ مگر لوگوں کو یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ عالم اسلام کے دیگر خطوں میں بھی لوگ اس وزیر کی عدالت ساقط کئے بیٹھے ہیں!ہوا یوں کہ مصر کے بادشاہ الملک الصالح نے بغداد میں عباسی خلیفہ المستعصم کے ہاں کسی شخص کے ہاتھ کوئی پیغام بھجوایا، جوکہ زبانی کلامی تھا اور تحریر نہ کیا گیا تھا۔ خلیفہ مستعصم نے اس شخص سے تصدیق کرنا چاہی کہ واقعی یہ پیغام مصر کے بادشاہ نے ہی بھجوایا ہے۔ آدمی نے جواب دیا: بادشاہ سے تو میرا آمنا سامنا نہیں ہوا البتہ بادشاہ کے حوالے سے یہ پیغام مجھے وزیر فخر الدین نے دیا ہے کہ بغداد جاؤں تو یہ پیغام آپ کے گوش گزرا کردوں۔ خلیفہ کہنے لگا: فخر الدین کی عدالت تو عز الدین بن عبد السلام ساقط کرچکے ہیں! یہ کہہ کر خلیفہ نے یہ پیغام وصول کرنے سے انکار کردیا۔
تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ صرف مصر کے لوگ نہیں پوری امت وقت کے اس عالم کے ساتھ کھڑی ہے!
ہم اس واقعہ پر تین پہلوؤں سے غور کریں گے:
1) ایک بات اس واقعے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پوری امت ہی کس طرح علمائے وقت کے ساتھ وابستہ دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کوئی مسئلہ ہے تو وہ علماءکے سامنے لایا جاتا ہے اور علماءسے ہی اس بارے میں کسی مناسب اقدام کی امید کی جاتی ہے۔ کہیں پر کوئی منکر پایا جاتا ہے، کہیں پر فساد کا کوئی اڈہ بن گیا ہے تو لوگ اس کی خبر لے کر وقت کے اس عالم کے پاس آتے ہیں۔ عوام اور علما کے مابین تعلقات اور رابطے کے یہ پل تعمیر ہوئے ہونا بے حد ضروری ہے۔
2) دوسری بات یہ کہ عز بن عبد السلام بعض اوقات منکرات کے خاتمہ کے عمل میں بذات خود شریک ہوتے اور کسی وقت ہاتھ کا استعمال بھی کرتے۔ جوکہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہے: من ر Éیٰ منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، وذلک Éضعف الایمان یعنی: ”تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے تو وہ اسے ہاتھ سے تبدیل کرے، طاقت نہ رکھے تو زبان سے، یہ بھی طاقت نہ ہو تو دل سے، اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے“۔ جبکہ عز بن عبد السلام طاقت رکھتے تھے کہ وہ ہاتھ سے اس منکر کو بدل ڈالیں۔آپ کا منصب اور مرتبہ و مقام آپ کو اس بات کا اہل بناتا تھا کہ وہ یہ کام کر گزریں۔
امام عز بن عبد السلام کا ہاتھ کے استعمال سے اس انداز میں ایک منکر کا خاتمہ کر ڈالنا منکرات کے خاتمہ کے باب میں وہ درست ترین اور معتدل ترین انداز ہے جوکہ آپ کے کرنے کا تھا۔ جبکہ اس باب میں لوگ عموما دو انتہاؤں پر پائے جاتے دیکھے گئے ہیں:
ایک انتہا وہ ہے جس میں کچھ جذباتی اور عجلت پسند طبقے پڑ جاتے ہیں۔یہ لوگ منکرات کو ہاتھ سے ختم کرنے لگتے ہیں جبکہ نہ تو ان کے پاس طاقت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو کوئی ایسا مرتبہ ومقام ہوتا ہے کہ انکا ایسا اقدام کرنا معاشرے کی نظر میں کوئی زبردست حیثیت رکھے۔ تب ایک منکر کے بزورِ دست خاتمہ کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور خود اسی عمل ہی کو نقصان پہنچاتے ہیں، جیسا کہ خاص طور پر آج کے اس دور میں کثیر مسلم ممالک کے اندر یہ دیکھا گیا ہے۔ایک عوامی سے انداز میں کچھ لوگ برائی کو مٹانے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ توڑ پھوڑ، مار دھاڑ، جلاؤ گھیراؤ، محاذ آرائی وغیرہ کے اس عمل سے عموما اس برائی کو اور بھی ترویج مل جاتی ہے جس کو ختم کرنے کیلئے یہ کام کیا گیا ہوتا ہے۔
دوسری انتہا وہ ہے جس میں بہت سے طلبہء علم وفکر اور وہ لوگ جو دعوت اور خیر کے کام میں مصروفِ عمل جانے جاتے ہیں، پڑے ہوتے ہیں۔ یہ جب کوئی برائی دیکھتے ہیں تو وہاں سے سر نیچا کئے لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے گزر جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اگلی بار گزریں تو یہاں سے راستہ بدل کر گزریں۔ لیکن کبھی اس بات کی کوشش نہیں کریں گے کہ اس برائی کو مٹادینے کی بھی کوئی صورت نکالی جائے۔برائی جہاں ہورہی ہے وہاں سے نگاہ پھیر کر گزر جانا یا وہاں سے روپوش ہوجانا اچھا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس برائی کے خاتمے کا حق ادا ہوگیا۔ منکرات کو دیکھ کر انا للہ پڑھنا اچھا ہے، اور یہ اللہ کا ذکر تو بہرحال ہے، مگر اس ’ذکر‘ کے ساتھ ایک ’عمل‘ اور ایک ’موقف‘ بھی شامل کردیا جائے جو کسی منکر کے خاتمہ کی جانب ایک پیشرفت ہو، تو یہ بھی یہ ایک فرض ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں عز بن عبد السلام کا موقف ان دو انتہاؤں کے بیچ ایک صورتِ وسط و اعتدال ہے جوایک منکر کے خاتمہ کیلئے اختیار کی گئی، کیونکہ عز بن عبد السلام ایک حیثیت اور ایک ساکھ رکھتے ہیں جو آپ کو یہ قدرت دیتی ہے کہ وہ ایک برائی کو مٹا ڈالیں۔ چنانچہ اپنی اس قوت سے کام لے کر، جس کو بنانے میں ایک وقت اور ایک محنت صرف ہوئی، آپ ایک منکر کو ہاتھ کے استعمال سے ختم کر ڈالتے ہیں۔
3) جس بات نے امام عز بن عبد السلام کو یہ جراتمندانہ موقف اختیار کرنے میں مدد دی وہ یہ کہ امت سب کی سب آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں جب اس عالمِ ربانی کی طرف سے وقت کے ایک وزیر کی عدالت ساقط کر دی جاتی ہے تو وہ ہر جگہ بے اعتبار ٹھہرتا ہے اور کوئی اس کی تصدیق تک نہیں کرتا۔
چنانچہ امت اگر علما کے گرد مجتمع ہونے لگے اور اپنی ان قیادتوں سے وابستہ ہو جوکہ ان کی قیادت کا جائز طور پر حق رکھتی ہوں تو امت اپنے ان علما اور اپنی ان قیادتوں کے ذریعے قوت پکڑتی ہے اور علما اور قیادتیں امت کے ذریعے مضبوط ہوتے ہیں:
- علما مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ ان کو امت کی تائید حاصل ہو اور لوگ ان کے گردا گرد اکٹھے ہوں تو وہ اعتماد کے ساتھ امر و نہی کرسکتے ہیںاور منکرات کے ازالہ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایک ایسا عالم جو لوگوں کے دلوں میں بستا ہو اس سے محاذ آرائی کرنے والے جانتے ہوں گے کہ اس کا غصے میں آنا ہزاروں لاکھوں کے غصے کو دعوت دینا ہے۔
- امت قوت پکڑتی ہے کیونکہ علما کی پزیرائی کے پیچھے جو بات کارفرما ہے وہ یہ کہ علما نے ہی امت کے مفادات اور مصالح کا درحقیقت دفاع کیا ہوتا ہے، جیسا کہ اگلے مبحث میں بیان کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭
امت کے ہاں عز بن عبد السلام کی حیثیت:
غالبا سب سے نمایاں چیز جو عز بن عبد السلام کی سوانح میں غور کئے جانے کے قابل ہے وہ یہی کہ امت کے ہاں آپ نے کیا حیثیت اختیار کی اور ہر خاص و عام، حتی کہ سلاطین و حکام تک، آپ کی بابت کیا تفکیر رکھتے ہیں۔
عز بن عبد ا لسلام واقعتا معاشرے کے اندر ایک پل بن گئے تھے۔ عوام سے خواص تک اور حاکم سے محکوم تک، سب کے مابین وہ ایک جوڑ کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ حاکم کو عز بن عبد السلام کی ضرورت ہے کیونکہ عز بن عبد السلام کا اس کے ساتھ کھڑا ہونا اس کے لئے ایک بڑا معنیٰ رکھتا ہے اور لوگ بھی اس کو تبھی ملتے ہیں اور اعتبار بھی اس کا تبھی قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ممالیک میں سے جب بھی کوئی حاکم اقتدار سنبھالتا ہے سب سے پہلے عز بن عبد السلام اس کی بیعت کرتے ہیں، ان کے بعد پھر وزراءبیعت کیلئے آگے بڑھتے ہیں اور پھر عام لوگوں کی باری آتی ہے۔ یوں حاکم کو احساس رہتا ہے کہ وہ ایک ایسی قوم کا حکمران ہے جو شہادتِ ان لا الہ الا اﷲ و ان محمدا رسول اﷲ پر قائم ہے اوریہ کہ اس کا یہاں اقتدار رہنا اور اس امت کے اندر پزیرائی پانا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ان کے مالک کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت کے مطابق ان پر حکمرانی کرے اور ان علما کو مطمئن کرے جو اس کے اور قوم کے مابین اعتماد اور تعلق کا ایک مضبوط ذریعہ ہیں۔
چنانچہ مسلم معاشروں کے اندر عالم کی یہ حیثیت ہوتی تھی کہ ایک طرف حاکم کو عالم کی ضرورت کیونکہ عالم ساتھ نہیں تو حاکم کا کام ہی نہیں چلتا بلکہ اس کا کوئی اعتبار ہی قائم نہیں ہوتا۔ دوسری طرف رعایا کو عالم کی ضرورت کیونکہ رعایا کی ضرورتیں، مسائل، آرا اور مواقف حکمرانوں تک پہنچنے کیلئے بڑی حد تک علما ہی کا ذریعہ پاتے اور علما ہی کے ذریعے قوت پکڑتے۔ چنانچہ ’عالم‘ تب اس مقام پر تھا کہ وہ لوگوں اور ان کے حکام و مسؤلین اور افسروں کے مابین تعلق اور مفاہمت قائم رہنے کا ایک بہترین پل ہوتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک عالم ،خصوصا عز بن عبد السلام جیسا ایک عالم، قوم کے مفادات کا دفاع کرانے کا ایک بہترین فورم ہوتا۔ کتنے ہی موقعوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم کوکوئی معاشی چیلنج آتا دکھائی دیاوہاں عز بن عبد السلام کو قوم کے حقوق کیلئے سرگرم پایا گیا۔ ’معاش‘ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ لوگوں کی غمیاں اور خوشیاں اس سے براہِ راست منسلک ہیں۔ معاشی دشواری عوام کو بر انگیخت کرتی ہے اور معاشی بہتری پر لوگ آپ کے ساتھ ہولیتے ہیں، نیک کیا اور بد کیا۔
چنانچہ لوگوں کو ظالمانہ مالی قوانین اور ضابطوں سے نجات دلا کر رکھنا اور ان کے معاشی مصالح کیلئے پریشان اور سرگرم رہنا ایک ایسا عمل تھا جو کبھی عز بن عبد السلام کی توجہ سے غائب نہ ہو پایا۔ جو بن پاتا لوگوں کی مالی مدد کیلئے خود کرتے اور جہاں تک ہو سکتا مقتدر طبقوں میں ان کے حقوق کی جنگ لڑتے:
ذاتی حیثیت میں لوگوں کی مالی اعانت:
یہ تو واضح ہے کہ عز بن عبد السلام کوئی لمبے چوڑے ذرائعِ آمدن نہ رکھتے تھے۔ کوئی خاص مشاہرہ نہ تھا۔ جاگیریں لیتے تھے اور نہ محلات۔ بلکہ جیسا کہ پیچھے ہم دیکھ آئے جب آپ کو مصر چھوڑنا پڑا تو آپ کیلئے دو گدھے حاصل کئے گئے۔ آپ کا کل اثاثہ دو گٹھڑیوں میں آجاتا اور دو گدھوں پہ لادا جاسکتا۔ ا س کے باوجود ایسا نہیں ہوا کہ اس تنگیِ دست کے باوجود لوگوں کی مالی دشواریوں میں آپ لوگوں کے کام نہ آئے ہوں۔
آپ کی سوانح میں ذکر ہوتا ہے کہ ایک بار دمشق میں چیزوں کی قیمتیں بے حد گر گئیں اور ہر طرف مندہ دیکھا جانے لگا۔ یہاں تک کہ باغات تک اتنے سستے ہوگئے کہ تھوڑے پیسوں میں خرید ہوجائیں۔ عز بن عبد السلام کی زوجہ اپنا جو کوئی زیور و جوہر جمع کر رکھا تھا، نکال لائیں اور عز بن عبد السلام سے کہنے لگیں: یہ زیور و جواہرات بیچ کر ہمارے لئے کوئی چھوٹا سا باغ خرید فرمایئے جہاں کبھی موسمِ گرما میں خوب وقت گزرے اور بچوں کا کچھ شغل ہو جایا کرے۔ عز بن عبد السلام نے یہ سونا اور جوہر اٹھایا اور بازار میں اسے فروخت کرکے ابھی رقم لی ہی تھی کہ دیکھا لوگ تنگ دستی کی شکایت کر رہے ہیں۔ سارا مال صدقہ کردیا اور خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے۔ زوجہ گھر آئے شوہر سے پوچھتی ہیں: میرے آقا! کیا باغ خریدا گیا؟ فرماتے ہیں: ہاں خریدا تو گیا مگر جنت میں! بات یہ ہے میں نے لوگوں کو بڑی دشواری میں دیکھا تو وہ روپیہ ان میں ہی تقسیم کردیا۔ زوجہ کہتی ہیں: خدا آپ کو خوب بدلہ دے!
چنانچہ عز بن عبد السلام کی صورت میں قوم ایک ایسے عالم کو دیکھتی ہے جو اپنا مال لٹاتا ہے اور امت کے محتاجوں اور تنگ دستوں کے مشکل وقت میں ان کے کام آتا ہے، چاہے وہ اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر کیوں نہ ہو۔ ایسے عالم کا حق کیوں نہ بنے کہ ساری قوم پھر اس کے پیچھے کھڑی ہوجائے۔
یہ تھا آپ کا اپنی ذاتی حیثیت میں لوگوں کی مالی دشواریوں میں ان کے کام آنا، گو یہ کتنا بھی کم ہو، مگر یہ ایک چیز ہے جو عالم کو عوام کے ساتھ جوڑتی ہے۔ کیونکہ لوگوں کو معلوم ہی ہے کہ ایک عالم کے پاس کتنا مال ہو سکتا ہے۔ تاریخ میں کم ہی کبھی ہوا کہ عالم کے پاس اتنے پیسے ہوں کو وہ لوگوں میں مال لٹا رہا ہو۔ عالم کے پاس لٹانے کیلئے جو چیز ہے وہ ہے ہدایت۔ ہدایت اس معنیٰ میں بھی کہ وہ لوگوں کو بھلی راہ کی نشاندہی کرکے دے اور ہدایت اس معنیٰ میں بھی کہ وہ مشکل مقامات پر ان کی عملی راہنمائی کرے۔
عمومی سطح پر لوگوں کی معاشی خدمت:
عمومی حییثیت میں بھی عز بن عبد السلام لوگوں کے معاشی امور ومفادات کے محافظ تھے۔ آپ غریب طبقوں کے حقوق کی باقاعدہ وکالت کرتے۔ ان پر ظلم ہوجانے کی ہرگز اجازت نہ دیتے اور ان پر زیادتی کی ہر صورت کے آڑے آتے۔ اس کی بھی ایک مثال دیکھئے:
جس وقت حاکمِ مصر (قطز) تاتاریوں کے خلاف عازمِ جنگ ہوا (وہ بھی عز بن عبد السلام ہی کی تحریک پر)، تو اس نے دیکھا کہ سلطنت کا خزانہ اس جنگ کے اخراجات کیلئے کفایت نہیں کرتا لہٰذا اس کے خیال میں کوئی چارہ اس کے سوا نہیں رہ گیا تھا کہ وہ لوگوں کے اموال سے کٹوتیاں کرے۔ تب اس نے علما کو اکٹھا کیا اور کہنے لگا: آپ حضرات کیا رائے دیتے ہیں؟ ہمیں ضرورت پڑ گئی ہے کہ لوگوں کے اموال سے وصولیاں کریں تاکہ لشکر تیار کرسکیں، ہتھیار فراہم کرسکیں اور افواج کو تنخواہیں اور معاوضے ادا ہوں۔ یہ ایسے اخراجات ہیں جن سے کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو پورا عالم اسلام تاراج کرآیا ہے اور عراق تا شام گزر کر ہم تک پہنچ گیا ہے۔ خزانے میں اس وقت جو کچھ ہے وہ ہرگز اس کیلئے کافی نہیں کہ ایک بھاری جیش تیار ہوجائے۔ تب عز بن عبد السلام گویا ہوئے: جتنا مال تمہارے اپنے پاس ہے پہلے اگر وہ لے آؤ، اور تمہارے امراءنے جتنا حرام سونا چاندی اکٹھا کر رکھا ہے وہ لے آؤ، اس کے سکے ڈھلوا لو اور اس سے حاصل ہونے والی اشرفیاں اور درہم خرچ میں لے آؤ اور مجاہد فوج میں لٹادو، پھر اگر یہ سب، لشکر کو کفایت نہ کرے او رضرورت بدستور باقی رہے تو تب لوگوں سے قرض طلب کر لینا۔ البتہ اس سے پہلے ہرگز نہیں۔ تب یوں ہوا کہ سلطان نے اپنا سونا چاندی لاکر امام کے سامنے ڈھیر کردیا اور امراءاپنا اپنا سیم وزر اٹھا لائے ۔ شیخ کی اللہ تعالیٰ نے ہیبت کچھ ایسی رکھی تھی کہ کسی کو انکار کا یارا نہ ہوا۔ یہ مال لایا گیا اور شیخ کی زیر نگرانی جہاد میں خرچ کر دیا گیا۔ آخر اللہ نے مصر کے اس لشکرِ اسلام کو تاتاریوں پر فتح دے دی.. ان تاتاریوں پر جو شکست کا نام تک سننا نہ جانتے تھے!
’دربار‘ کے اندر ایک ’عالم‘ کا یہ ایک ایسا موقف تھا کہ جس کی خبر پوری قوم کو پہنچی، یہاں تک کہ اس کے قصے دور دراز کے ملکوں میں سنے گئے۔ ہر شخص کی زبان پر تھا کہ وہ شخص جس نے آج ان کے اموال کا دفاع کیا تھا اور جس نے عوام الناس کے منہ کا لقمہ ان کے بچوں کیلئے بچا لینے میں ایک ہمدردانہ کردار ادا کیا تھا اور ناحق اس پر سلطان کا ہاتھ نہیں پڑنے دیا وہ ہے ”عز بن عبد السلام“ .. وقت کا ایک عالم جو مسند ِ علم کی حرمت سے واقف ہے!
٭٭٭٭٭٭٭