ویران ہوتا اسرائیل
محمد زکریا
اسرائیل سے دیگر ممالک میں جانے والے یہودیوں کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ ان میں سے بیشتر وہ خاندان ہیں جو اسرائیل میں ثواب کی نیت سے نقل مکانی کرکے آئے تھے۔
بین الاقوامی مؤقر جرائد یہودیوں کی اس معکوس نقل مکانی پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ حکومت اسرائیل اور اس کے سیاستدان اس نقل مکانی سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس سے پہلے وہ دُنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ اور ان کے پرزور اصرار اور پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ خاندان فلسطین میں آباد ہوئے تھے۔
گزشتہ یہودیوں کے بین الاقوامی اجتماع کا اہم موضوع یہ رہا کہ کس طرح اسرائیل سے نقل مکانی کے رحجان کو روکا جائے۔ اس اجتماع میں چار ہزار یہودی شریک ہوئے، جن میں امریکہ اور کینیڈا کے یہودیوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔
اخبارات کے مطابق وہ خاندان جن کی ایک نسل اسرائیل میں جوان ہوئی ہے، انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ کیونکہ یہ نوجوان یورپ میں آسودہ زندگی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور وہاں سکونت پذیر ہونے کے جتن کرتے ہیں۔ انہیں ایک طرف امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی پُرآسائش زندگی میں کشش نظر آتی ہے تو دوسری طرف اسرائیل میں اقتصادی تنگی کے علاوہ بڑھتے ہوئے استشہادی حملوں سے خوف لاحق ہے۔
سن ٢٠٠٠ عیسوی میں جہاں امریکہ میں نئی ہزاری کی خوشی میں خوب دھوم مچی ہوئی تھی، اسرائیل سے اسی سال پانچ لاکھ سے زائد یہودی نقل مکانی کر گئے، جس کا بڑا سبب تحریک انتفاضہ کی جہادی کارروائیاں تھیں۔ سن ٣٠٠٢ میں یہ تعداد ساڑھے سات لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔
اسرائیل میں یہودی آبادی کی کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت اسرائیل نے فلسطین میں ہجرت کرنے والے یہودیوں کے لیے شہری سہولتوں میںاضافہ اور دیگر مراعات کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اسرائیل سے نقل مکانی کرنے کے رحجان میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
اسرائیل کے سنجیدہ طبقوں میں ایک اصطلاح فلسطینی آبادی کا بم رائج پا گئی ہے۔ اس اصطلاح کے رائج ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی شماریاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق ٠٢٠٢ءتک اسرائیلی نو آبادیاتی علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد یہودیوں سے بڑھ جائے گی۔ یعنی صرف سترہ برس بعد۔ اسرائیل کے انتہا پسند ابھی سے چیخ رہے ہیں کہ سترہ برس بعد ہم کس علاقے کو اسرائیل کہیں گے۔ اگر اسرائیل میں رہنے والے ہر شہری کو ووٹ کا حق دیا جاتا ہے تو سن ٠٢٠٢ءمیں یہ سارے ووٹ فلسطینی لے جائیں گے اور یہودی محض ایک چھوٹی سی اقلیت رہ جائیں گے۔
مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں سے ایک سروے کیا گیا ہے جس میں ان سے اسرائیل چھوڑنے کی وجہ پوچھی گئی تھی۔ بیشتر لوگوں نے تحریک انتفاضہ کے بڑھتے ہوئے حملوں کو اپنی نقل مکانی کا سبب قرار دیا۔ ایک یہودی عورت کے الفاظ یہ ہیں: ”میں نے اسرائیل میں صہیونیت میں پختہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کی تھی مگر یہاں کی ثقافت میرے لیے بے حد اجنبی ثابت ہوئی اور میں یہاں اپنے آپ کو غیر قوم کا سمجھتی ہوں۔ میری اولاد جوان ہو کر یورپ جا چکی ہے۔ میرا بڑا بیٹا کبھی کبھار یہ کہتا ہے کہ اگر اسرائیل میں حملے رک جائیں اور اقتصادی ترقی ہو جائے تو پھر وہ شاید اسرائیل لوٹنے کے بارے میں سوچ سکے“۔
آسٹریلیا جانے والی ایک دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے جواں سال بیٹوں کو خودکش حملوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گی۔
برطانیہ کا اخبار ”گارڈین“ لکھتا ہے اسرائیل میں رہنے والے بیشتر یہودیوں کے پاس دوہری شہریت ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جب چاہیں اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ملک میں سکونت پذیر ہو سکتے ہیں۔ اخبار کے مطابق مشرقی یورپ کے سفارت خانوں میں ویزا حاصل کرنے والے اسرائیلی یہودیوں کی لمبی قطار دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو اپنے والدین کے آبائی ملکوں کی شہریت چاہتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں روس سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی مقبوضہ فلسطین میں آکر آباد ہو گئے تھے، جس سے فلسطینی آبادی کا توازن بری طرح متاثر ہوا تھا۔ لیکن آج کل روس میں رہنے والے یہودی اپنا رخ جرمنی کی طرف کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلیم یافتہ یہودی اپنے معیار کے مطابق اسرائیل میں ملازمت نہیں پا سکتے۔ اگرچہ انتہا پسند یہودی پورے فلسطین کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عہد کر چکے ہیں مگر فلسطینی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور خوفزدہ یہودیوں کی اسرائیل سے نقل مکانی ایک اور سچائی کو آشکار کرنے والی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔