عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, May 6,2024 | 1445, شَوّال 26
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
تحریک اسلامی کے فکری خد وخال
:عنوان

:کیٹیگری
امام ابن الجوزی :مصنف

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

 

تحریک اسلامی کے فکری خد وخال

 

عمار ابراہیم

 

پچھلے شمارے میں ہم نے ’تحریک اسلامی‘ کی وہ چار فکری بنیادیں ملاحظہ کیں جو اسلام کے معاشرتی تہذیبی اور سیاسی کردار کو برصغیر میں پھر سے زندہ کرنے کیلئے آ ج سے ساٹھ سال پہلے کے ایک داعی ہمدرد نے تجویز کی تھیں آگے چلنے سے پہلے ان کا اختصار سے دوبارہ ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

١۔دین کی تجدید اور اقامت کا یہ عمل محض افراد کا کام نہیں اب یہ ایک زوردار تحریک کی صورت میں برپا ہونا چاہیے۔

٢۔یہ تحریک ایک عالمی عقیدہ اورآفاقی اصول لے کر اٹھے جو دنیا بھر کے انسانوں کو خطاب کرے۔ گو نئی بھرتی سے پہلے اس میں موجود ہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مقابلے میں اولیت دی جائے مگر اس تحریک کا مقصد بہر حال موجودہ مسلمانوں کا غلبہ نہ ہو۔

٣۔اس عمل کے لیے موجودہ مسلمانوں کو کار آمد بنانے کی خاطر مسلمان طبقوں کی بھر پور اصلاح کی جائے اور ان میں پائے جانے والے نقائص کی ہمدردانہ نشاندہی اور انکے سدباب کی مخلصانہ سعی کی جائے۔

٤۔جب تک نئے یا پرانے مسلمانوں کی ایک کافی اور معتدبہ تعداد معاشرتی تبدیلی کے اس وسیع تر عمل کے لیے تیار نہیں کرلی جاتی تب تک اس بات کی پر زور کوشش کی جائے کہ فی الوقت مسلمانوں کی توانائیاں فضول اور وقتی قسم کی سرگرمیوں، سیاسی محاذ آرائی، فروعی تنازعات اور قومی و وطنی تحریکوں میں ضائع ہونے سے بچائی جاتی رہیں ۔

تحریکی عمل کے یہ چاروں مطالب ایک جامع قسم کی تبدیلی لانے کےلئے بہترین بنیاد اور بہترین منہج ہیں ۔ تاہم مطالب کی ضروری وضاحت کردینا لازم ہے ۔ آئیندہ کچھ مضامین ہم انہی بنیادوں کی وضاحت کے لیے مخصوص کریں گے اس سلسلے میں ہم مولا نا مودودی کے ترجمان القرآن کے انہی مذکورہ مضامین سے ضروری مدد لیں گے جو ١٩٤١ میں ”مسلمانان ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش “اور بعد ازاں "تحریک آزادی ہند اور مسلمان "کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے ۔ مولانا کے اقتباسات کے ساتھ ساتھ ہم کہیں کہیں ضروری تبصرہ اور جائزہ بھی لیتے رہیں گے ۔ اور اہم نتائج بھی اخذ کرتے چلیں گے ۔ بوقت ضرورت قابل تنبیہ امور کی نشاندہی بھی کریں گے اسکے علاوہ مولانا کی گفتگو کو اس وقت اور آج کی صورت حال میں موازنہ کے حوالے سے واقعاتی رخ دینے کے لیے انکی عبارتوں کے دوران ہی مختصر انداز میں اپنے ملاحظات ذکر کریں گے ۔ ایسے مقامات پر بریکٹ استعمال کی جائیگی اور آخر میں لفظ “ایقاظ"مذکور ہوگا۔ جہاں کوئی عبارت حذف ہو وہاں تین نقطے (۔۔۔) درج ہونگے۔

تحریک کا مفہوم:

موجودہ انسانی معاشروں کو اسلام کے نقشہ پر تبدیل کردینے کا عمل واقعتا عظیم الشان تحریک کا متقاضی ہے البتہ ’تحریک‘ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ کوئی” تنظیم“ کا ہم معنی و مترادف لفظ ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان معاشروں کو آسمانی ہدایت کے نقشہ پر تبدیل کرنا اس وقت ایک بہت بڑی تحریک کے کرنے کا کا م ہے تو گویا اسکا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ایک عدد تنظیم کے قیام کی تجویز دے ، یا کسی پہلے سے موجود” تنظیم“ میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں ۔حقیقت میں ایسا نہیں ”تحریک“ کسی ایسی جماعت کے ہم معنی نہیں جسے سنتے ہی آپکے ذہن میں ایک صدر و سیکرٹری جنرل یا امیر و نائب امیروغیرہ کا تاثر ابھرنے لگے، لفظ تحریک سے دراصل جو مراد لی جاتی ہے اور جو کہ خصوصاً ہماری مراد ہے اور آئیندہ رہے گی وہ یہ کہ: کچھ نظریات ، عقائد اور اصولوں کو انسانی زندگی کے فکری او ر عملی میدانوں میں قائم کرنے کی پیہم کوشش اور مسلسل انتھک جد و جہد جو ان اصولوں کے حامل انسان باہم ملکر شعوری اور رضاکارانہ طور پر کریں ایسے انسان کوئی ایک منظم مجموعہ ہوں یا ایسے متعدد مجموعات ۔ ایک طبقہ ہوں یا مختلف طبقوں کے لوگ۔ ایک علاقے یا خطے سے ہوں یا مختلف خطوں میں بستے ہوں۔ کوئی ایک لقب رکھتے ہوں یا متعدد القاب آپس میں چاہے متعارف نہ ہوں متآلف ضرور ہوں اور مختلف نسبتو ں کے باوجود باہم متعاون ہوں اس ”جماعت“ یا ”تحریک“ کے افراد اور گروہ اپنا نہیں بلکہ اپنے نظریات او ر عقائد کا تعارف کرائیں۔ لوگوں کو’ اپنی‘ طرف نہیں بلکہ اپنے اصولوں کی دعوت دیں اور اپنے نام کی بجائے اپنے عقائد اور اصول پیش کریں ”تحریک“ کا یہ تصور ایک شرعی حقیقت بھی ہے اور تاریخی و عمرانی واقعہ بھی ۔ قرآن میں ”تحریک“ کا یہ مفہوم تلاش کریں تو ہمیں لفظ ’امت‘ کی صورت میں ملتا ہے بلکہ اسے زیادہ دقیق معنی پہنانے کے لیے” امت کے اند ر ایک امت“ کی صورت میں بھی ملتا ہے۔

من اھل الکتاب امہ قائمہ یتلون ایات اﷲ انا ءاللیل و ھم یسجدون ۔ یومنون باﷲ والیوم الاخرو یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و یسارعون فی الخیرات اولئک من الصالحین۔(آل عمر ان۔١١٣۔١١٤)

’اہل کتاب میں سے (ایک امت ) کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو راہراست پر قائم ہیں راتو ں کو اﷲ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اﷲ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔ یہ صالح لوگ ہیں“

یعنی اہل کتاب جو خود ایک امت ہیں انکے اندر (خصوصاً زوال کے دور میں) ایک اور’ امت‘ ہے جن کی کچھ مشترک صفات ہیں اور ایک متفقہ مشن ۔ صفات کیا ہیں ؟ حق پر ثابت قدم رہنا ۔ راتوں کو اٹھ کر اﷲ کی آیات تلاوت کرنا اور اسکے حضور سجدوں میں پڑے رہنا۔ اﷲ کے ساتھ محبت اور ایمان کا رشتہ استوار رکھنا اور یوم آخرت کا خوف اور تمنا و امید رکھنا اور مشن ہے امربالمعروف اور نہی عن المنکر۔

ظاہر ہے یہ” امت کے اندر ایک صالح تر امت“ کا تصور ہے جو کسی ایک شخص یا کمیٹی کی قیادت پر مجتمع پارٹی کے تصور سے کوئی میل نہیں رکھتا۔ پھر واقعہ بھی یہی ہے کہ قرآن مجید نے اس آیت میں اہل کتاب کے جن صالح لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کوئی اس معنی کی’ پارٹی‘ نہ تھی۔

پھر قرآن مجید کا حکم ہے کہ ۔ اس امت خیر کے اندر بھی ایک اور امت ہونی چاہیے۔

ولتکن منکم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ہم المفلحون۔(آل عمران۔١٠٤)

”تم میں کچھ لوگ (ایک امت) تو ایسے ضرورہی ہونے چاہئیں جونیکی کی طرف بلائیں بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“۔

”امت کے اند ر ایک صالح تر امت“ کا وجود اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس ”جماعت“ یا” تحریک“ کا باقی لوگوں سے کوئی بہتر امتیاز ہو۔ مگر یہ امتیاز بھی ہماری صوابدید پر چھوڑنہیں دیا گیا امت کے اندر یہ امتیاز کسی لیبل یا سٹیکر یا برانڈ یا قیادت کی بنیاد پر ہوتو ایک جاہلی امتیاز ہوگا۔ البتہ قرآن جس امتیاز کا حکم دیتا ہے و ہ ہے صرف اور صرف ”کچھ صفات (ایمان و عمل صالح) اور ایک مشترکہ مشن (یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر)“ تب فلاح پانا (نہ کہ دنیا میں محض انقلاب لانا) ایک ایسی تحریک کا صلہ و انعام بھی ہے اور منزل مقصود بھی۔(واولئک ہم الفلحون)۔

اس سلسلہءمضامین کے لیے ”تحریک اسلامی کے فکری خدوخال“ کا جو عنوان چنا گیا ہے ضروری تھا کہ اسمیں لفظ ”تحریک“ یا” جماعت“ سے ہماری مراد واضح ہوجائے۔ آئیندہ مضامین میں بھی چونکہ اس لفظ کا بکثرت استعمال رہے گا اس لیے یہ وضاحت آئندہ بھی کام دے سکے گی۔

ایک اصولی تحریک:

اسلامی تحریک کی دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک اصولی تحریک ہونی چاہئے´۔

جب ہم کہتے ہیں کہ آج کے ان معاشروں میں ایک "اصولی تحریک"برپا کرنے کی ضرورت ہے جو انبیاءکے نقش قدم پر چلتی ہو تو ’اصولی تحریک‘ سے بھی ہماری مراد واضح ہونی چاہیے۔!

انسانی معاشروں کو سرتا پیر تبدیل کرنے کی ایک زور دار اور پیہم جدو جہد اگر "تحریک"کہلاتی ہے تو”اصولی تحریک“ یہ ہوگی کہ تبدیلی کا یہ عمل ایک خاص عقیدہ یا نظریہ یا فکر اور نظام حیات پر مبنی ہو ۔ یعنی ایک ایسی تحریک جسکا اول و آخر ہدف اصول اور عقائد ہوں اور ان اصول و عقائد کی بنیاد پر وہ انسانی زندگی کا دھارا تبدیل کردینے کے درپے ہو۔

اس تعریف کی روسے ایک "اصولی تحریک"کے کچھ خصائص ہمارے سامنے آتے ہیں۔

١۔ایک "اصولی تحریک " میں افراد کی صرف اتنی اہمیت ہوگی کہ وہ ان اصول و عقائد کی خدمت کریں او ر معاشرے کے اندر انکی ترویج اور قیام کے عمل میں کام آئیں۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی اور مفادات تک اس مقصد کے لیے کھپادیں۔

جبکہ ایک ”غیر اصولی تحریک“ میں اصل اہمیت افراد یا ’قوم‘ کی ہوتی ہے۔ اصول اور نظریات اگر کوئی اہمیت رکھتے ہیں تو یہ ’قوم‘ کے مقاصد اور مفادات کو پورا کریں قوم کی ضرورت کے پیش نظر اصول اور عقائد بآسانی نظر انداز بھی ہوسکتے ہوں اور معرض التوامیں بھی جاسکتے ہوں۔

٢۔ایک اصولی تحریک کے پیش نظر کبھی کسی ’قوم‘ یا ’ملک‘ کی مادی ترقی یا فوجی برتری نہیں ہوا کرتی اسے جس چیز کی برتری سے غرض ہوتی ہے وہ ہے اسکے اصول و عقائد اور اسکا نظام زندگی۔ کسی خطہ یا قوم کی ترقی و برتری اس کے لیے درخورا عتنا ہوسکتی ہے تو صرف اس صورت میں، جب اس خطہ یا اس قوم کے اندر وہ اصول و عقائد اور طرز زندگی قائم ہو جس پر یہ (تحریک) ایمان رکھتی ہو۔

٣۔اسکے پیش نظر چونکہ افراد یا اقوام یا ممالک کی ترقی و برتری نہیں بلکہ اصول اور عقائد کی ترویج و اقامت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ایک آفاقی اور عالمی جماعت ہوا کرتی ہے ایک قوم کو دوسری قوم یا ایک ملک کو دوسرے ملک پر بالادست کرنے کی بجائے اسکا مشن یہ ہوتا ہے کہ سب اقوام اور جماعت پر وہ اپنے اصول اور نظریات کو بالادست کردے ۔پھر جب بات نظریات اور طرز زندگی کو بالادستی دلانے کی ہوتو ایک ’اصولی جماعت‘ کی تگ و دو کسی خاص نسل یا خطے کے لیے نہیں پوری انسانیت کے لیے ہوتی ہے۔

٤۔ایک اصولی تحریک کو’ کامیابی‘ نظر آئے یا نہ وہ بہرحال دنیا میں اپنے ہی اصول منوانے پر سارا زور صرف کرتی ہے اور اپنے اصولوں پر مبنی نظام حیات قائم کرنے پر ہی اصرار کرتی ہے دنیا میں جو بھی رسول آیا اس نے معاشرے کو مکمل طور پر تبدیل ہوجانے کا پروگرام دیا اسکے سامنے اپنی مکمل اطاعت اختیار کرلینے کا مطالبہ رکھا۔ پھر ساری زندگی اس مطالبے سے ایک انچ بھی ہٹنے کا نام نہیں لیا ۔ اہل ایمان بھی اپنی تو نہیں مگر اپنے رسول کی کچھ ایسی ہی اطاعت کا مطالبہ رکھتے ہیں اور اسی کو منوانے پرسارا زور صرف کردیتے ہیں۔

انی لکم رسول امین فاتقواﷲ و اطیعون(الشعراء)

بہر حال اس تحریک کے اصول تسلیم کئے جائیں یا نہ مگر وہ اپنے پیروکاروں کو کسی اور نظام کا حصہ بن جانے کی اجازت نہیں دیتی نہ ہی کسی درمیانی حل کی تجویز کو قبول کرتی ہے۔

ودوالوتدھن فیدھنون(القلم۔٩) -- ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار۔(الھود ۔١١٣)

”اور ظالموں کی طرف جھکاؤ نہ رکھنا ورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی“۔

موجودہ زمانے میں کمیونزم ایک ملحد تحریک رہی ہے گو اسکے اصول کا فرانہ تھے مگر بہر حال یہ اس دور میں کسی نہ کسی حد تک ایک اصول پرست تحریک سمجھی جاتی رہی چنانچہ ایک کمیونسٹ کے لیے اس بات کا تصور بھی ممکن نہیں کہ وہ سرمایہ داری نظام میں فٹ ہو یا جاگیر داری نظام کا حصہ بنے۔مگر اپنے ہاں کیاہے؟ الہٰی ہدایت رکھنے کا دعویٰ کرنے والی جماعت یا اسکے افراد کسی غیر الہی ہدایت پر مبنی نظام میں بخوشی فٹ ہوجاتے ہو ں یاکسی غیر الہی ہدایت پر قائم معاشرے کے مقاصد برضاو رغبت پورا کررہے ہوں۔ تو کسی کےلئے بھی یہ اچھنبے کی بات نہیں! ۔ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ آج ان سب لوگوں کے ہاں اسلام کوئی ”اصولی تحریک“ نہیں جو اپنا ایک نظام اور طرز زندگی رکھتا ہو اوراپنے سے متصادم نظام کے ساتھ صلح جوئی اور پرامن بقائے باہمی کا امکان قطعی طور پررد کردیتا ہو۔ اس پر طرفہ یہ کہ آج بے شمار مسلمان اس بات پر فخر کررہے ہیں کہ کمیونزم کی وفات کے بعد اب دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ’اصولی نظریہ‘ رہ گیا ہے ۔ ان حضرات کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ ایک ’اصولی نظریہ‘ اور ’اصولی جماعت‘ دراصل ہوتی کیا ہے اور وہ خود کہاں تک اسلام کی اصول پسندی کا بھرم رکھتے ہیں۔

مسلم قومیت کی بدعت:

آیئے ان اصولی مفہومات کی روشنی میں اپنے معاشرے کا ایک جائزہ لیں دعوت انبیاءکا مطالعہ کریں تو اﷲ تعالی سے تعلق پید ا کرلینے کے بعد اگر کسی اجتماعی فرض کا کوئی نقشہ آپکے قلب و ذہن میں بنتا ہے تو وہ ایک ’اصولی تحریک‘ کا قیام ہی کہلاسکتا ہے مگر واقعاتی دنیا میں آئیں تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں کہ وہی اسلام جو عقیدہ اور عمل کا مجموعہ ہے اور جو موروثی فضیلت یا علاقائی برتری اور نسلی بالا دستی کا سب سے بڑا مخالف اور اسکی میزان میں اتباع حق کے سامنے قومی مفاد کوئی وزن ہی نہیںرکھتا ۔۔۔آج وہ اسلام خود ایک ’قوم‘ بنادیاگیا ہے عقیدہ و عمل کی کوئی شرط رکھے بغیر ایک وراثت کی طرح نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ اور ایسی نسل کی ترقی ہی اسلام کی ترقی کہلاتی ہے مسلمان نام کی اس نسل کو دوسری اقوام پر فتح دلانا اب اسلام کی فتح ہے ۔ جو اسلام پوری انسانی زندگی کو اپنے نقشے پر بدل دینے کے مطالبے پر بضدر ہا تھا اور باطل سے دست و گریباں رہنا دنیا میں اسکا امتیاز ہوا کرتا تھا اب نہ صرف وہ باطل نظاموں کے زیر سایہ ہنسی خوشی بس لیتا ہے بلکہ ان شرکیہ نظاموں کی خدمت و ترقی کی غرض سے اپنے پیروکاروں کو ان سے صلح جوئی اور وفاداری کے سبق بھی دینے لگا ہے۔

اسلام کے معنی و مفہوم میں اسقدر بڑی حیرت انگیز تبدیلی جو بجا طور پر تاریخ اسلام کی چند بڑی بدعات اور عظیم ترین انحرافات میں سے ایک کہلا سکتی ہے ’مسلم قومیت‘ کے نام سے منسوب ہوئی ۔ یہی بدعت آگے چل کر وطنیت ، علاقائیت اور جمہوریت وغیرہ ایسی گمراہیو ں کو جنم دیتی رہی ہے اسی نے پچھلے سوسال کے عرصے میں مسلم خون کی بھینٹ لی ہے اور آئیندہ بھی نظر آتا ہے کہ اس گمراہی کا علاج نہ کیا گیا تو اسلام کی راہ میں جو کچھ دیا جائے گا وہ ا سی کو وصول ہوتا رہے گا۔ قومیت کا یہ بت توڑنا اس لیے آسان نہیں کہ اس نے عبائے اسلام باقاعدہ زیب تن کررکھی ہے مگر فرزندان اسلام کو اﷲ وحد ہ لاشریک کے آگے جھکانے کے لیے اس بدعت ضلالت کا پردہ چاک کردینا بہر حال ضروری ہے اور اس دور کا ایک بہت بڑا فریضہ ۔

ویسے تو امت اسلام کسی دور میں بھی خیر سے یکسر محروم نہیں رہی مگر برصغیر میں قومیت کے اس بت کے خلاف ایک منظم اور مسلسل آواز آج سے ساٹھ ستر برس قبل اٹھائی گئی ہمارے علم میں اس بدعت ضلالت کے خلاف اس سے بہتر اور اسقدر واضح آواز برصغیر کی تاریخ میں نہیں سنی گئی

مسلمان کے نام سے جو یہ قوم اس وقت موجود ہے وہ خود بھی اس حقیقت کو بھول گئی ہے اور اسکے طرز عمل نے دنیا کو بھی یہ بات بھلا دی ہے کہ اسلام اصل میں ایک تحریک کا نام ہے جو دنیا میں ایک مقصداور کچھ اصول لے کر اٹھی تھی اور مسلمان کا لفظ اس جماعت کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ جو اس تحریک کی پیروی اور اسکی علمبرداری کے لیے بنائی گئی تھی، تحریک گم ہوگئی اسکا مقصد فراموش کردیا گیا ۔ اسکے اصولوں کو ایک ایک کرکے توڑا گیا۔ اور اسکا نام اپنی تمام معنویت کھو دینے کے بعد اب محض ایک نسلی و معاشرتی قومیت کے نام کی حیثیت سے استعمال کیا جارہا ہے حد یہ ہے کہ ان مواقع پر بھی بے تکلف استعمال کیا جاتارہا ہے جہاں اسلام کا مقصد پامال ہوتا ہے ، جہاں اسکے اصول توڑے جاتے ہیں جہاں اسلام کے بجائے غیر اسلام ہوتا ہے

بازاروں میں جائیے ، ”مسلمان رنڈیاں“ آپ کو کوٹھوں پر بیٹھی نظر آئیں گی اور ”مسلمان زانی“ گشت لگاتے ملیں گے جیل خانوں کا معائنہ کیجئے ”مسلمان چوروں“، ”مسلمان ڈاکوؤں“ اور ”مسلمان بدمعاشوں“ سے آپکا تعارف ہوگا ۔ دفتروں اور عدالتوں کے چکر لگایئے رشوت خوری، جھوٹی شہادت ، جعل ، فریب ، ظلم اور ہر قسم کے اخلاقی جرائم کے ساتھ آپ لفظ ’مسلمان‘ کا جوڑ لگا ہوا پائیں گے سوسائٹی میں پھریئے کہیں آپ کی ملاقات ”مسلمان شرابیو ں“ سے ہوگی ، کہیں آپ کو ”مسلمان قمارباز“ ملیں گے۔ کہیں ”مسلمان سازندوں“ اور ”مسلمان گویوں“ اور ”مسلمان بھانڈوں“ سے آپ دوچار ہونگے “۔

اب اس کام کے لیے ’مسلم ریاست‘ کا ایک باقاعدہ ادارہ پاکستان فلم انڈسٹری یا بالی وڈ کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ اور ”مسلم ملک وقوم“ کےلئے ان فنکاروں کی شبانہ روز خدمات کے صلے میں ریاست انکو سرکاری سطح پر ایوارڈ دینے کا انتظام بھی وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہے (ایقاظ)

بھلا غور تو کیجئے یہ لفظ ”مسلمان“ کتنا ذلیل کردیا گیا ہے اور کن کن صفات کے ساتھ جمع ہورہا ہے ۔ مسلمان اورزانی! مسلمان اور شرابی ! مسلمان او ر قمار باز! مسلمان اور رشوت خور! اگر وہ سب کچھ جو ایک کافر کرسکتا ہے وہی ایک مسلمان بھی کرنے لگے تو پھر مسلمان کے وجود کی دنیا میں حاجت ہی کیا ہے اسلام تو نام ہی اس تحریک کا تھا جو دنیا سے ساری بد اخلاقیوں کو مٹانے کے لیے اٹھی تھی اس نے مسلمان کے نام سے ان چیدہ آدمیوں کی جماعت بنائی تھی جو خودبلند ترین اخلاق کے حامل ہوں او ر اصلاح اخلاق کے علمبردار بنیں ۔ اس نے اپنی جماعت میں ہاتھ کاٹنے کی ، پتھر مارمار کر ہلاک کردینے کی، کوڑے برسا برسا کر کھال اڑا دینے کی ، حتی کہ سولی پر چڑھا دینے کی ہولناک سزائیں اسی لیے تو مقرر کی تھیں کہ جو جماعت دنیا میں سے زنا کو مٹانے اٹھی ہے خود اسمیں کوئی زانی نہ پایا جائے جس کاکام شراب کا استیصال ہے وہ خود شراب خوروں کے وجود سے خالی ہو۔ جسے چوری اور ڈاکہ کا خاتمہ کرنا ہے خود اسمیں کوئی چور اور ڈاکو نہ ہو۔{غزوہ ہند اور غلبہ پاکستان کے متمنی حضرات متوجہ ہوں}(ایقاظ)

اسکا تو مقصد ہی یہ تھا کہ جنہیں دنیاکی اصلاح کرنی ہے وہ دنیا بھر سے زیادہ نیک سیر ت ، عالی مرتبہ اور باوقار لوگ ہوں اسی لیے قمار بازی ، جعل سازی اور رشوت خوری تو درکنار اس نے تو اتنا بھی گوارہ نہ کیا کہ کوئی مسلمان سازندہ اور گویا ہو۔ کیونکہ مصلحین اخلاق کے مرتبہ سے یہ بھی گری ہوئی چیز ہے جس اسلام نے ایسی سخت قیود اور اتنے شدید ڈسپلن کے ساتھ اپنی تحریک اٹھائی تھی اور جس نے اپنی جماعت میں چھانٹ چھانٹ کر بلند ترین کیریکٹر کے آدمیوں کو بھرتی کیا تھا اسکی رسوائی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ رنڈی اوربھڑوے اور چور اور زانی تک کے ساتھ لفظ ’مسلمان‘ کا جوڑ لگ جائے ۔ کیا اسقدر ذلیل اور رسوا ہوجانے کے بعد بھی ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کی یہ وقعت باقی رہ سکتی ہے کہ سر اسکے آگے عقیدت سے جھک جائیں اور آنکھیں اسکے لیے فرش راہ بنیں؟ جو شخص بازار بازار اور گلی گلی خوار ہورہا ہو کیا کبھی اسکے لیے بھی آپ نے کسی کو ادب سے کھڑے ہوتے دیکھا ہے؟

یہ تو بہت ذلیل طبقہ کی مثال تھی اس سے اونچے تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت اور زیادہ افسوس ناک ہے۔ یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ایک نسلی قومیت کا نام ہے اور جو شخص مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہو ا ہے وہ بہر حال مسلمان ہے خواہ عقیدہ و مسلک اور طرز زندگی کے اعتبار سے وہ اسلام کے ساتھ کوئی دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا ہو ۔ سوسائٹی میں آپ چلیں پھریں تو آپ کو ہر جگہ عجیب و غریب قسم کے ’مسلمانوں‘ سے سابقہ پیش آئے گا۔ کہیں کوئی صاحب علانیہ خدا اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اسلام پر پھبتیاں کس رہے ہیں مگر ہیں پھر بھی ’مسلمان‘ ہی۔ ایک دوسرے صاحب خدا اور رسالت اور آخرت کے قطعی منکر ہیں اور کسی مادہ پرستانہ مسلک پر پورا ایمان رکھتے ہیں مگر ان کے ’مسلمان‘ ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ایک تیسرے صاحب سو د کھاتے ہیں اور زکواہ کا نام تک نہیں لیتے مگر ہیں یہ بھی ’مسلمان‘ ہی ۔

یہ اسوقت کی بات ہے جب ہند میں مسلمانوں کو ایک ریاست میسر نہیں تھی اور سود خوری مسلمانوں کا ذاتی اور انفرادی فعل تھا اب خیر سے اس کام کے لیے قوم اپنے باقاعدہ آئینی اور قانونی ادارے رکھتی ہے(ایقاظ)

ایک او ر بزرگ بیو ی اور بیٹی کو میم صاحبہ یا شریمتی جی بنائے ہوئے سینما لیے جارہے ہیں ۔ یاکسی رقص و سرور کی محفل میں صاحب زادی سے وائلن بجوارہے ہیں مگر آپ کے ساتھ بھی لفظ ’مسلمان‘ بدستور چپکا ہوا ہے۔ )اب پوری قوم اپنے پیار ے دیس کے ٹی وی سکرین پر اپنی بیٹیوں کا فن ملاحظہ کرلیتی ہے ((ایقاظ)

ایک دوسرے ذات شریف نماز، روز ، حج ، زکواہ، تمام فرائض سے مستثنیٰ ہیں شراب زنا ، رشوت ، جوا اور ایسی سب چیزیں انکے لیے جائز ہوچکی ہیں حلال و حرام کی تمیز سے نہ صرف خالی الذہن ہیں بلکہ اپنی زندگی کے کسی معاملہ میں بھی ان کو یہ معلوم کرنے کی پرواہ نہیں ہوتی کہ خدا کاقانون اس بارے میں کیا کہتا ہے خیالات ، اقوال اور اعمال میںان کے اور ایک کافرا ور مشرک کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ۔ مگر ان کا شمار بھی ’مسلمانوں‘ ہی میں ہوتا ہے ۔ غرض اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں گے تو اس میں آپکو بھانت بھانت کا ’مسلمان‘ نظر آئے گا مسلمان کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کرسکیں گے۔ یہ ایک چڑیا گھر ہے جس میں چیل، کوے، گدھ، بٹیر، تیتراورہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں اور ان میں سے ہرایک ’چڑیا‘ ہے کیونکہ چڑیا گھر میں ہے۔

پھر لطف یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام سے انحراف کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلک ان کا نظریہ اب یہ ہوگیا ہے کہ ’مسلمان‘ جو کچھ بھی کرے وہ ’اسلامی‘ ہے حتی کہ اگر وہ اسلام سے بغاوت بھی کرے تو وہ اسلامی بغاوت ہے یہ بینک کھولیں تو اسکا نام ’اسلامی بینک‘ ہوگا ۔ (کبھی یہ ایک ناشدنی مذاق تھا۔۔۔ مگر اب یہ حقیت ہے (ایقاظ) یہ انشورنس کمپنی قائم کریں تو وہ ’اسلامی انشورنس کمپنی‘ ہوگی۔ یہ جاہلیت کی تعلیم کا ادارہ کھولیں تو وہ ’مسلم یونیورسٹی‘ ، ’اسلامیہ کالج‘ یا ’اسلامیہ سکول‘ ہو گا انکی کافرانہ ریاست کو ’اسلامی ریاست‘ کے نام سے موسوم کیا جائے گا، اسوقت دنیا میں ایسی اسلامی ریاستوں کی تعداد ٥٥تک پہنچتی ہے اﷲ کرے زور حریت اور زیادہ(ایقاظ)

ان کے فرعون اور نمرود ، ’اسلامی بادشاہوں‘ کے نام سے یاد کئے جائیں گے ان کی جاہلانہ زندگی ’اسلامی تہذیب و تمدن‘ قراردی جائے گی۔

انکی موسیقی ، مصوری او ر بت تراشی کو ’اسلامی آرٹ‘ کے معزز لقب سے ملقب کیا جائے گا انکے زندقے اور اوہام لا طائل کو ’اسلامی فلسفہ‘ کہا جائےگا۔ حتی کہ یہ سوشلسٹ بھی ہوجائیں گے تو ’مسلم سوشلسٹ‘ کے نام سے پکارے جائیں گے ان سارے ناموںسے آپ آشنا ہوچکے ہیں اب صرف کسر باقی ہے کہ ’اسلامی شراب خانے‘ ، ’اسلامی قحبہ خانے‘ اور ’اسلامی قمار خانے‘ جیسی اصطلاحو ں سے بھی آپکا تعارف شروع ہوجائے ۔ مسلمانوں کے اس طرز عمل نے اسلام کے لفظ کو اتنا بے معنی کردیا ہے کہ ایک کافرانہ چیز کو ’اسلامی کفر‘ یا ’اسلامی معصیت‘ کے نام سے موسوم کرنے میں اب کسی کے تناقض فی الاصطلاح (كنٹراڈكشن ان ٹرمز)کا شبہ تک نہیں ہوتا ۔ حالانکہ اگر کسی دکان پر آپ ’سبزی خوروں کی دکان گوشت‘ یا ”ولایتی سودیشی بھنڈار“ کا بو رڈ لگا دیکھیں یاکسی عمارت کا نام ”موحدین کا بت خانہ“ سنیں تو شاید آپ سے ہنسی ضبط نہ ہوسکے گی ۔

جب افراد کی ذہنیتوں کا یہ حال ہے تو قومی اور قومی پالیسی کا اس تناقض سے متاثر نہ ہونا امر محال ہے آج مسلمانوں کے اخباروں اور رسالوں میں ، مسلمانوں کے جلسوں اور انجمنوں میں مسلمان پڑھے لکھے طبقہ میں آپ ہر طرف کس چیز کی پکار سنتے ہیں ؟ بس یہی ناکہ سرکاری ملازمتوں میں ہمیں جگہیں ملیں ۔ غیر الہی نظام حکومت کو چلانے کے لیے جسقدر پرزے درکار ہیں ان میں سے کم از کم اپنے پرزے ہم پر مشتمل ہوں شریعت ساز مجلسوں(ليجسليٹوز) کی نشستوں میں کم ازکم اتنا تناسب ہمار اہو” من لم یحکم بما انزل اﷲ“ میں کم سے کم اتنے فی صدی ہم بھی ہوں” والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت “میں غالب حصہ ہمار ا ہی رہے اسی کی ساری چیخ و پکار ہے ۔ اسی کا نام اسلامی مفاد ہے اسی محور پر مسلمانوں کی قومی سیاست گھوم رہی ہے یہی گروہ عملاً اس وقت مسلم قوم کی پالیسی کو کنٹرول کررہا ہے حالانکہ ان چیزوں کو نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اس کی عین ضد ہیں ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر اسلام ایک تحریک کی حیثیت سے زندہ ہوتا تو کیا اسکا نقطہ نظر یہی ہوتا؟ کیا کوئی اجتماعی اصلاح کی تحریک اور کوئی ایسی جماعت جو خود اپنے اصول پر دنیا میں حکومت قائم کرنے کا داعیہ رکھتی ہو کسی دوسرے اصول کی حکومت میں اپنے پیروؤں کو کل پرزے بننے کی اجازت دیتی ہے ؟ کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ اشتراکیوں نے بینک آف انگلینڈ کے نظام میں اشتراکی مفاد کا سوال اٹھایا ہو یا فاشسٹ گرانڈ کونسل میں اپنی نمائندگی کے مسئلہ پر اشتراکیت کی بقا و فنا کا انحصار رکھاہو؟ اگر آج روسی کمیونسٹ پارٹی کا کوئی ممبر نازی حکومت کا وفادار خادم بن جائے تو کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اسے پارٹی میں رہنے دیا جائے گا ؟ اور اگر کہیں وہ نازی آرمی میں داخل ہوکر نازیت کو سر بلند کرنے کی کوشش کرے تو کیا آپ اسکی جان کی سلامتی کی بھی امید کرسکتے ہیں ؟ مگر یہاں آپ کیا دیکھ رہے ہیں اسلام جس روٹی کو زبان پر رکھنے کی اجازت بھی شاید انتہائی اضطرار کی حالت میں دیتا اور جس کو حلق سے اتارنے کے لیے(غیر باغ ولا عاد) کی شرط لگاتا اور پھر تاکید کرتا کہ جس طرح سخت بھوک کی حالت میں جان بچانے کے لیے سور کھایا جاسکتا ہے اسی طرح بس یہ روٹی بھی بقدر سد رمق کھالو۔ یہاں اس روٹی کو نہ صرف یہ کہ ھنیئاً مریئاً کرکے پورے انسباط کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ بلکہ اسی پر کفر اور اسلام کے معرکے سر ہوتے ہیں اور اسی کو اسلامی مفاد کا مرکزی نقطہ قرار دیا جاتاہے۔ اس کے بعد تعجب نہ کیجئے اگر ایک اخلاقی و اجتماعی مسلک کی حیثیت سے اسلام کے دعوائے حکمرانی کو سن کردنیا مذاق اڑانے لگے کیونکہ اسلام کی نمائندگی کرنے والوں نے خود اس کے وقار کو اور اسکے دعوے کو اپنے معبود شکم کے چرنوں میں بھینٹ چڑھادیا ہے۔

(ماخوذ از ترجمان القران نومبر 1939)


Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز