عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 27,2024 | 1445, شَوّال 17
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
شرکِ اطاعت
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

شرکِ اطاعت

امام محمد بن سلیمان تمیمیؒ اپنے متن میں لکھتے ہیں:

(شرکِ اکبر کی) تیسری قسم ہے: اطاعت میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔

اس کے شرک ہونے کی دلیل قرآن کی اس آیت سے ملتی ہے:

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبہ: ٣١)

''انہوں نے اپنے علماء اور دریشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انکو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں''۔

اس آیت کی تفسیر، جس میں کوئی شبہ یا اشکال کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ ان علماء اور نیک بندوں کو پکار کر یا ان سے دُعا کرکے ان کو الٰہ نہ بنایا جاتا تھا بلکہ بات صرف اتنی تھی کہ ان کی اطاعت کی جاتی تھی جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت عدیؓ بن حاتم کے سامنے خود اس کی تفسیر کی جب انہوں نے آپؐ سے دریافت کیا کہ ہم تو ان کی عبادت نہ کرتے تھے تب آپﷺ نے فرمایا کہ ان کی عبادت دراصل یہ تھی کہ باطل میں ان کی اطاعت کی جاتی تھی۔

شرح

'عبادت' کا تصور اسلام میں بہت وسیع ہے۔ اور بہت واضح ہے۔ عبادت کا لفظ اسلام میں صرف 'پوجا پاٹ' پر صادق نہیں آتا۔ عبادت محض نذر نیاز اور چڑھاوا نہیں۔ عبادت صرف منتیں ماننے یا ماتھے ٹیکنے کا نام نہیں۔ سجدہ ورکوع اور طواف وذبیحہ وغیرہ عبادت کی ایک صورت ضرور ہے اور اسی لیے یہ رب العالمین کےلیے مخصوص ہے؛ مگر عبادت ایک بہت وسیع حقیقت ہے۔ اسلام نے عبادت کا جو مفہوم دیا ہے اُس میں بلاشبہ اطاعت بھی آتی ہے، گو آج کے دور میں بہت سے مذہبی وغیرمذہبی طبقے عبادت کا یہ مفہوم متروک کروادینے پر پورا زور صرف کررہے ہیں۔

رب العالمین کے مقابلے میں کسی کی بات یا کسی کا حکم تسلیم کرنا اور اس كو برحق جاننا دراصل اس ہستی کی عبادت ہے۔ معبود صرف وہی نہیں ہوتا جس کو آپ حاجت روا یا مشکل کشا مانیں؛ بلکہ جس ہستی کی آپ مطلق اطاعت کا دم بھرتے ہوں یوں کہ خدا کے ہاں سے اتری ہوئی کسی بالاتر سند سے مطلق آزاد وہ آپ کا مطاع وپیشوا ہو اور آپ اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرتے ہوں تو دراصل وہ آپ کا رب اور معبود ہے چاہے آپ اس کے لیے 'رب' یا 'خدا' یا 'معبود' ایسے الفاظ استعمال نہ بھی کرتے ہوں اور چاہے اپنے اس فعل کو آپ 'عبادت' نہ کہتے ہوں۔

'عبادت' کے بارے میں یہ غلط فہمی جو آج مسلمانوں کی کثیر تعداد کو ہو چکی ہے عین یہی غلط فہمی صحابیِ رسول عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم کو بھی لاحق ہوئی تھی جب وہ رسول اللہﷺ کے پاس اسلام قبول کرنے آئے تھے:

عَنۡ عَدِيٍّ بۡنِ حَاتِمٍ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّؐ یَقۡرَأُ ھٰذِہِ الآیۃَ (اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ) الآیۃ، فَقُلۡتُ لہٗ: إنَّا لَسۡنَا نَعۡبُدُھُمۡ قَالَ: ألَیۡسَ یُحَرِّمُوۡنَ مَا أحَلَّ اﷲُ فَتُحَرِّمُوۡنَہٗ، وَیُحِلُّوۡنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ فَتُحِلُّوۡنَہٗ؟ فَقُلۡتُ: بَلیٰ، قَالَ: ’’فَتِلۡکَ عِبَادَتُہُمۡ‘‘ (رواہ احمد والترمذی وحَسَّنہ)

''عدی بن حاتم (طائی)سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (سورہ توبہ کی) یہ آیت (٣١) پڑھتے سنا ''انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے'' (عدی کہتے ہیں) تو میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: جب وہ خدا کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے تو تم اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور جب وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال کر لیتے ہیں تو تم ان کوحلال نہیں ٹھہراتے؟ میں نے کہا: یہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر یہی تو ان کی عبادت ہے''۔

چنانچہ کسی کو حلال اور حرام کا تعین کرنے کا حق دینا دراصل اس کو خدا بنانا ہے اور اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرنا درحقیقت اس کی عبادت کرنا۔ انسان کا انسان پر خدا بن بیٹھنا دراصل یہی ہے۔ وَلا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضاً أرۡبَاباً مِّنۡ دُوۡنِ اﷲِ (آل عمران:٦٤) یہ وہ دعوت تھی جس کو ازروئے قرآن رسول اللہﷺ اہل کتاب کو دینے پر مامور تھے یعنی ''ہم ایک دوسرے کو اپنا خدا نہ بنا لیں'' جبکہ ظاہر ہے اہل کتاب اس انداز سے اپنے بڑوں کی عبادت نہ کرتے تھے جو بادیٔ النظر عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم طائی نے سمجھا (یعنی پوجاپاٹ)۔ انسانوں کے ایک دوسرے پر خدا بن بیٹھنے سے یہاں مراد یہ ہے کہ کوئی انسان دوسرے پر اپنا حکم چلائے اور یہ کہ سب کے سب اطاعت وبندگی کی صورت میں ایک خدائے رب العالمین کی عبادت نہ کریں۔

اس آیت اور حدیث کے ضمن میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

''ابو البختری کہتے ہیں: وہ (اہل کتاب) ان (احبار ورُہبان) کے حضور میں کھڑے ہو کر کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس انداز سے (یعنی پوجاپاٹ کے معنیٰ میں) تو اگر وہ ان کو اپنی عبادت کا حکم دیتے بھی تو وہ تسلیم نہ کرتے۔ البتہ وہ ان کے لیے حکم صادر کرتے تھے یوں کہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو حرام کرتے اور حرام کو حلال، اور اس میں وہ ان کی اطاعت کرتے تھے؛ اور یہی ان کا رب بننا تھا۔

ربیع بن انسؒ کہتے ہیں میں نے امام ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ (ایک عظیم تابعی) سے دریافت کیا: یہ بنی اسرائیل میں (انسانوں کا) رب بننا کیا تھا؟ ابوالعالیہ نے فرمایا: یہ رب بننا یہ تھا کہ انہوں نے خدا کی کتاب میں اپنے لئے اوامر اور نواہی کو پایا تو کہنے لگے ہم اپنے احبار سے آگے نہیں گزریں گے لہٰذا وہ ہمیں جس بات پر لگائیں ہم لگ جائیں گے اور جس بات سے روکیں ہم رک جائیں گے۔ تب وہ انسانوں سے ہی احکام لینے لگے اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے یہ واضح کردیا کہ ان کا اپنے احبار کی عبادت کرنا دراصل ان کا حرام کو حلال کر لینا تھا اور حلال کو حرام۔ نہ کہ وہ ان کے روبرو نماز پڑھتے تھے یا ان کے لیے روزہ رکھتے یا خدا کو چھوڑ کر ان کو پکارتے تھے (ایسا نہیں تھا)۔ سو یہ ہوئی رجال کی عبادت۔ اور دوسری اموال کی عبادت تھی۔ اسی بات کو نبیﷺ نے بیان فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں یہ واضح کردیا کہ یہ شرک ہے۔

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبۃ: ٣١)

''انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور اسی طرح مسیح بن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں''۔

چنانچہ یہ ہے وہ ظلم جو خدا کے اس فرمان میں بطور مفہوم مراد ہے:

احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ (الصافات: ٢٢، ٢٣)

''گھیر لاؤ سب ظالموں اور ان کے ہمراہیوں اور ان معبودوں کو جن کی وہ خدا کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے۔ ان سب کو (جمع کرکے) پھر انہیں دوزخ کی راہ دکھاؤ''۔

پس یہ اور وہ جو ان کو اس بات کا حکم دیتے تھے، سب کے سب عذاب پائیں گے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی:

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (الانبیاء: ٩٨)

''بے شک تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنم کا ایندھن ہیں۔ تم سب دوزخ میں جانے والے ہو''۔

اس آیت کی زد سے صرف وہی شخص بچے گا جو اپنی عبادت کئے جانے کو یا خدا کی معصیت میں اپنی اطاعت کئے جانے کو ناپسند کرتا تھا۔ ایسے شخص کے لیے البتہ سَبَقَتۡ لَھُم مِّنَّا الۡحُسۡنیٰ کے الفاظ میں بچاؤ کی ضمانت ہے۔ مثلاً مسیح ؑیا عزیرؑ وغیرہ فأولئِکَ عَنْھا مُبْعَدُونَ

رہا وہ شخص جو اس بات پر راضی ہو کہ اس کی عبادت ہو اور خدا کی معصیت میں اس کی اطاعت ہو، تو وہ یقینا وعید کا مستحق ہے، بے شک اس نے لوگوں کو اس بات کے لیے نہ بھی کہا ہو۔ اب اگر اس نے خود ہی لوگوں کو یہ کہا ہو تو پھر سوچئے! اس کا کیا حشر ہو؟؟ یہی حکم ان کا ہوگا جو لوگوں کو غیر اللہ کی عبادت وبندگی کا حکم دیں۔

(ایسوں ہی کے بارے میں) خدا کا ارشاد ہے:

وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاء لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ (غافر: ٤٧، ٤٨)

''اور وہ وقت جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے۔ دُنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے ''ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچا لو گے؟'' وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے: ''ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں، اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے''۔

(ملاحظہ ہو مجموع فتاوی ابن تیمیہ، ج ٧، ص ٢١۔ ٢٣)

تھیوکریسی کے شرک سے

ڈیموکریسی کے شرک تک

یہودی اور عیسائی معاشروں میں 'مذہبی طبقہ' کا یہ حق کہ وہ لوگوں کے معاملاتِ زندگی میں جائز اور ناجائز کا تعین کریں، ایک تاریخی واقعہ بھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایک عرصۂ دراز تک مغرب کے عیسائی معاشروں میں کلیسا کو حکم وقانون کے معاملے میں اندھے اختیارات حاصل تھے۔ پوپ اور پادری جو کہہ دیں وہی حرف آخر تھا۔ وہ جس بات کو چاہیں روا کر دیں اور جس بات کو چاہیں ناروا۔ مذہبی طبقے کے اس آئینی اختیار کو یورپ کی تاریخ میں تھیو کریسی Theocracy یا حُکْمُ رِجالِ الدِّین کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخِ انسانی کا ایک بدترین شرک تھا جس نے یورپ کے ایک عام انسان کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ قرآن نے بہت پہلے اسکا بطلان کردیا تھا(۱)(ملاحظہ فرمائیے سورۃ توبہ کا مذکورہ بالا مقام) مگر مغربی جہالت بہت صدیوں تک اس سے خلاصی پانے کی متحمل نہ ہوئی۔

تاآنکہ وہ وقت آیا جب اس کے خلاف یورپ میں ایک طوفان ابل پڑا۔ یہ تھیوکریسی کے شرک کے خلاف یورپی معاشروں میں تاریخ کا ایک یادگار ردعمل تھا۔ مگر چونکہ یہ کوئی 'عمل' نہ تھا بلکہ محض 'ردعمل' تھا لہٰذا ایک شرک کو ہٹا کر دوسرا شرک لایا گیا۔ اب 'کلیسا' Church کا اختیار ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ 'ریاست' State کا اختیار تسلیم کیا گیا۔ انسانی زندگی میں جائز وناجائز کے پیمانے صادر کرنے کا اختیار اب پوپ پادریوں کے بجائے ریاست کی مقننہ یا نمائندگانِ عوام کو منتقل ہو گیا۔ تھیوکریسی کی جگہ اب ڈیموکریسی کا شرک آیا۔ البتہ اس سے فرق یہ پڑا کہ اطاعت کا شرک اب 'مذہبی' کی بجائے 'غیر مذہبی' رنگ پکڑ گیا۔ اب 'شرک اور توحید' بہتوں کے نزدیک چونکہ ایک 'مذہبی' مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے لہٰذا اس شرک کو شرک کہنا لوگوں کو حتی کہ کثیر مسلمانوں کو خاصا اوپرا لگا!

آج کے جدید معاشرے اور جدید ریاستیں بڑی حد تک مغرب کے نقشے پر ہی بنائی گئی ہیں، چاہے وہ عالم اسلام میں ہوں یا کہیں اور۔ جدید معاشروں کی بابت جن مفتیانِ کرام کی نظر سے یہ بات روپوش ہے وہ اس دور میں دراصل نہیں رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اطاعت کا مسئلہ آج بڑی حد تک 'آئین' اور 'قانون' اور 'ریاست' اور 'جمہور' اور 'میڈیا' سے منسلک ہے۔ معاشرے کے اہم تر معاملات کے اندر 'مذہبی' تقدس کو 'آئینی' اور 'قانونی' تقدس سے بدل دیا گیا ہے۔ 'قانون کا تقدس' آج ہر ہر شخص کی زبان پر ہے اور اس پر کسی کو اپنی عاقبت کی فکر نہیں ہوتی۔

پس اس حقیقت میں ذرہ بھر شک نہیں، 'قانون' کا شرک دراصل 'اطاعت' ہی کا شرک ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ اطاعت کے شرک کی اور بڑی صورتیں ہیں۔

غیر اللہ کا قانون چلانا اور تسلیم کرنا شرکِ اطاعت کا ایک اہم موضوع ہے۔ انسانوں کے خود ساختہ قوانین کے کفر کی بابت اس دور کے ایک بڑے عالم، مفتیِ عرب شیخ محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف آل الشیخ کے مشہور رسالہ ''تحکیم القوانین'' سے ایک اقتباس دینا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے:

''ناممکن ہے کہ شریعت کے ماسوا قانون چلانے والے کو اللہ کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو۔ لازماً وہ کافر ہے چاہے وہ کفر عملی کی بنا پر کافر ہو، چاہے کفر اعتقادی کی بنا پر۔ اور جو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول اس آیت کی تفسیر میں بروایت طاؤس وغیرہ وارد ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حاکم بغیر ما انزل اﷲ کفر کا مرتکب تو ہوتا ہے چاہے یہ وہ اعتقادی کفر ہو جو ملت سے خارج کر دیتا ہے اور چاہے وہ عملی کفر ہو جو ملت سے خارج نہیں کرتا۔ جہاں تک پہلی قسم یعنی کفر اعتقادی کا تعلق ہے تو اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں:

کفر اعتقادی کی پہلی صورت:

یہ کہ حاکم بغیر ما انزل اﷲ اس بات کا انکار کرے کہ اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہی برحق ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کا بھی یہی مفہوم ہے، اسی مفہوم کو امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے، اور وہ یہ کہ کوئی شخص اللہ کے نازل کردہ شریعت کے ایک حکم کا سرے سے انکار ہی کر دے، اس مسئلے پر اہل علم میں کوئی بھی نزاع نہیں۔ چنانچہ اہل علم کے ہاں متفق علیہ اصول ہے کہ جو شخص اصولِ دین میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے، یا حتی کہ فروعِ دین میں سے بھی کسی اجماعی مسئلہ کا انکار کر دیتا ہے، یا رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے کسی ایک حرف کا بھی انکار کر دیتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے اور اس کا کفر وہ ہے جس سے وہ ملت سے خارج ہو جائے۔

کفر اعتقادی کی دوسری صورت:

یہ کہ وہ شخص جو اللہ کی شریعت کے ماسوا قانون چلاتا ہے اس بات کا انکار تو نہ کرے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم وقانون ہی برحق ہے، مگر یہ اعتقاد رکھے کہ رسولﷺ کے ماسوا کسی کا حکم وقانون رسول ﷺکے حکم وقانون سے بہتر یامکمل تر یا لوگوں کے معاملات ومسائل اور وقت کی ضروریات پوری کرنے کے لحاظ سے مناسب اور جامع تر ہے۔ خواہ وہ (شریعت کے ماسوا قانون کو شریعت سے بہتر) مطلق طور پر سمجھے یا جدید حالات اور دور حاضر کے نئے مسائل کے حوالے سے، ایسے شخص کے بارے میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ کافر ہے کیونکہ یہ مخلوق کے بنائے ہوئے احکام کو جو محض ذہن وفکر کی پراگندگی ہے خدائے دانا وقابل صد ستائش پر ترجیح دیتا ہے۔ زمانہ کتنا بھی تبدیل ہوجائے اور حالات واقعات میں کتنا بھی ارتقاء آجائے اللہ اور رسولﷺ کا حکم فی ذاتہ تبدیل نہیں ہوتا، جبکہ انسانی زندگی کا کسی دور میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی ایسا نہیں جس کا بہترین حل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ میں موجود نہ ہو، خواہ نص ظاہری کی صورت میں ہو یا استنباط کی صورت میں یا کسی اور شکل میں، یہ الگ بات کہ کوئی اس کا علم پالیتا ہے اور کوئی نہیں پاتا...

کفر اعتقادی کی تیسری صورت:

کہ وہ یہ تو اعتقاد نہ رکھے کہ کوئی اور قانون اللہ اور رسولﷺ کی شریعت سے بہتر ہے، البتہ یہ اعتقاد رکھے کہ وہ اور شریعت یکساں ہیں۔ کفرِ اعتقادی کی پچھلی دونوں صورتوں کی طرح یہ شخص بھی کافر ہے اور ملت سے خارج۔ کیونکہ یہ اپنے اس اعتقاد کی رو سے مخلوق اور خالق کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے اور اللہ کے اس فرمان سے تعارض اور عناد کا مرتکب ہوتا ہے کہ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ کہ ''اس کی مثل کوئی چیز نہیں'' بلکہ وہ ان اور آیات سے بھی عناد برتتا ہے جن سے اللہ رب العزت کا کمالِ حکمت میں یکتا ہونا اور مخلوق کی مماثلت سے مبرا ہونا ثابت ہے خواہ اس کا اپنی ذات میں یکتا ہونا ہو یا صفات میں یا افعال میں ہو یا مخلوق کے معاملات ومسائل کے فیصلے کرنے میں۔

کفر اعتقادی کی چوتھی صورت:

کہ وہ یہ اعتقاد تو نہ رکھے کہ کوئی دوسرا قانون اللہ اور رسولﷺ کی شریعت سے بہتر ہے حتی کہ یہ اعتقاد بھی نہ رکھے کہ یہ دونوں یکساں ہیں البتہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ اور رسولﷺ کی شریعت کے برخلاف قانون چلانے کی گنجائش ہے۔ اس کا بھی وہی حکم ہے جو پچھلی تینوں صورتوں کا ہے۔ کیونکہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کر دینا جائز ہے جبکہ اس کا حرام ہونا دین کی صحیح اور صریح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے۔

کفر اعتقادی کی پانچویں صورت:

جو کہ کفر اعتقادی کی باقی سب صورتوں سے زیادہ سنگین اور زیادہ عام ہے اور جو کہ شریعت سے تصادم اور شرعی قوانین کو نظر انداز کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے اور جو کہ اللہ اور رسولﷺ سے مقابلہ کرنے اور شرعی قوانین کی ہمسری کرنے میں سب سے نمایاں ہے۔ شرعی نظامِ عدل کے بالکل متوازی اس کی اپنی قانون سازی، اپنی تحقیق وآرائ، اپنے اصول، اپنے فروع، اپنے قانونی قیاس، اپنے استنباطات، اپنے استدلالات، اپنا نفاذ، اپنے دلائل، اپنے مراجع اور اپنے وثائق اور کتب ہیں۔ چنانچہ جس طرح شرعی عدالتوں کے قانونی مراجع اور علمی حوالے اور وثائق ہوتے ہیں جن کا سب کے سب کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہوتا ہے، اسی طرح ان عدالتوں کے بھی اپنے قانونی مراجع اور اپنے علمی حوالے اور وثائق ہیں جن کا، سب کے سب کا، ماخذ 'قانون' ہے جو کہ مختلف شریعتوں اور متعدد قانونی نظاموں کا ایک ملغوبہ ہے مثلاً فرانسیسی قانون، امریکی قانون، برطانوی قانون اور شریعت سے منسوب بعض جدت پسند بدعتیوں کے مذاہب وافکار وغیرہ۔

ایسی عدالتیں کثیر مسلم ملکوں میں آج باقاعدہ دستیاب حالت میں اپنے دروازے کھول کر بیٹھی ہیں؛ اور یہاں لوگوں کے جمگھٹے لگے ہیں۔ یہاں براجمان فیصلہ کنندگان کتاب اور سنت کے احکام کے برخلاف فیصلے کرنے میں لگے ہیں ۔ اپنے اُسی قانون کی رو سے فیصلے کرتے ہیں، اُسی کا لوگوں کو پابند کرتے ہیں، اُسی پر ان کو برقرار رکھتے ہیں، اور اُسی کو ان کیلئے حتمی ٹھہراتے ہیں... تو پھر اِس کفر سے اوپر کونسا کفر رہ جاتا ہے؟ کلمہ ’محمد رسول اللہ‘ کے ساتھ اِس تصادم سے بڑھ کر آخر کونسا تصادم رہ جاتا ہے؟

کفر اعتقادی کی چھٹی صورت:

وہ روایتی رسوم جنہیں قبائلی سردار اور علاقائی جرگوں کے بڑے اپنے فیصلوں کی بنیاد بناتے ہیں جو کہ آباء واجداد سے چلی آئی روایات اور رسومات ہوتی ہیں جنہیں یہ لوگ علاقائی یا قبائلی رواج بھی کہتے ہیں۔

رہی کفر کی دوسری قسم:

جس کا ایک حاکم بغیر ماانزل اﷲ شخص مرتکب ہو سکتا ہے تو یہ وہ قسم ہے جو انسان کو ملت سے خارج نہیں کرتی۔ پیچھے یہ بات گزر چکی کہ آیت وَمَن لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الۡکَافِرُوۡنَ ''جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں'' کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے جو تفسیر کی ہے اس میں کفر کی یہی قسم آتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ کفردون کفر یعنی ''کفر ہے مگر بڑے کفر سے کمتر قسم کا کفر ہے''۔ اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول لیس بالکفر الذی تذهبون إليه ''یہ وہ کفر نہیں جو تم مراد لیتے ہو''...... تو وہ یہی ہے کہ قاضی اپنی کسی خواہشِ نفس کی بنا پر کسی مقدمے میں اللہ کی شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کر دے جبکہ اس کا اعتقاد بدستور یہی رہے کہ حق تو اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہی ہے اور یہ تسلیم بھی کرے کہ اُس نے غلط کیا ہے اور حق سے پہلو تہی کر بیٹھا ہے۔ چنانچہ اس فعل کی بنا پر وہ جس کفر کا مرتکب ہوتا ہے گو وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا، پھر بھی اس کا یہ گناہ ایک عظیم ترین معصیت ہے اور زنا، شراب نوشی، چوری اور جھوٹی قسم اٹھانے ایسے کبائر سے زیادہ بڑا گناہ۔ کیونکہ ایک ایسی نافرمانی جسے اللہ اپنی کتاب میں کفر کہہ دے کسی بھی ایسی نافرمانی سے سنگین تر ہے جسے اللہ نے کفر نہیں کہا۔

اللہ سے دُعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس بات پر مجتمع کر دے کہ وہ برضا وتسلیم کتاب اللہ سے اپنے فیصلے کروائیں۔ وہی کارساز مطلق ہے اور وہی اس بات پر قادر''۔

(ترجمہ از رسالہ تحکیم القوانین مولفہ مفتی محمد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ)

الغرض اطاعت عبادت کا حصہ ہے۔ اللہ احکم الحاکمین کی بات کے بالمقابل غیر اللہ کا حکم وفیصلہ یا قانون ماننا احکم الحاکمین کے ساتھ شرک ہے۔

وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (الانعام: ١٢١)

''اگر تم نے ان کی بات تسلیم کی تو یقیناً تم مشرک ہو''۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ  (الشوری: ٢١)

''کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر) رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام اور ضابطے مقرر کردیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں؟''۔

أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ(الاعراف: ٥٤)

''خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے، بابرکت ہوا اللہ رب العالمین''۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا(النساء: ۶۰)

''اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے''۔

بنا بریں...:

1. وہ باطنی فرقے مشرک قرار پاتے ہیں جو اپنے 'ائمۂ معصومین' کےلیے تحلیل اور تحریم کا مطلق حق مانتے ہیں۔

2. اسی طرح ان لوگوں کا شرک لازم آتا ہے جو 'طریقت' کو 'شریعت' پر مقدم کرتے ہوئے حلال وحرام کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی بجائے اپنے پیروں اور درویشوں سے لیتے ہیں۔ بلکہ وہ لوگ تو جو یہ کہیں کہ شریعت عام لوگوں کے لیے ہے نہ کہ 'پہنچے ہوئے' اور معرفت یافتہ لوگوں کے لیے، بدترین انداز کے مشرک ہیں۔ ان کے کفر پر کچھ بات پیچھے ہم رسالہ نواقض الاسلام کی شرح میں کر آئے ہیں۔

3. یہی حکم آج کے اس ماڈرن شرک کا ہے۔ 'پارلیمنٹ' یا 'نمائندگانِ عوام' یا 'مقننہ' ایسے نام کی حامل کسی ہستی کو یہ حق ہونا کہ وہ انسانوں کی زندگی کے سیاسی، معاشی، فوجداری، دیوانی اور بین الاقوامی امور میں ضابطے اور قانون صادر کرے، بغیر اس بات کے کہ شریعت سے متصادم ان کی ہر بات آپ سے آپ باطل اور کالعدم ٹھہرے، تو یہ بھی اللہ رب العالمین کے ساتھ شرک ہے اور دراصل ان ہستیوں کی عبادت ہے۔ غرض کسی کو اپنا مطاع وپیشوا ٹھہرانا، بایں طور کہ اُسکے فرمائے ہوئے کو ما انزل اللہ کے تابع نہ رکھا گیا ہو، چاہے وہ محدود 'مذہبی' معنی میں ہو یا 'سیاسی' اور 'قانونی' معنی میں، دراصل اسکو معبود بنانا ہے۔

قرآن پڑھنے کے بعد اس میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کہ اللہ کے قانون پر چلنا اللہ کی عبادت ہے اور غیر اللہ کے قانون پر چلنا غیر اللہ کی بندگی۔

’نفس کی اطاعت‘ شرک کب بنتی ہے؟

برصغیر کے فکری رجحانات صوفیت کے زیرِاثر رہے ہیں۔ یہاں کے قرآنی حلقات تک اس کی چھاپ سے محفوظ نہیں۔ یہاں شرک کا مفہوم یوں گول کرایا جاتا ہے کہ اس کی کوئی ’نوک‘ باقی نہ رہے ! دروسِ قرآن کے اِن حلقوں میں نہ صرف شرکِ اکبر کا بیان مفقود ہے بلکہ وہ چیز جو شرکِ اصغر تک نہیں بنتی وہ ’’شرک‘‘ کی مطلق تفسیر کے طور پر پیش کی جارہی ہوتی ہے!

شرک کی یہ تفسیر جو ’نفس‘ کے گرد گھومتی ہے شرک کو کوئی ’’زمین دوز‘‘ چیز بنادیتی ہے البتہ برسرزمین اِس کی کچھ حقیقت نہیں رہ جاتی!

چنانچہ شرک کا یہ سارا موضوع اتنی سی بات میں بھگتا دیا جاتا ہے کہ : ’بھائی اس سے مراد ہے خدا کے حکم کے مقابلے پر اپنے نفس کی ماننا‘!

اب ظاہر ہے ’خدا کے حکم کے مقابلے پر اپنے نفس کی ماننا‘ تو ایک مسلمان سے بھی ہوجاتا ہے۔ گناہ جب بھی ہوتا ہے خدا کے حکم کے مقابلے پر اپنے نفس کی مان کر ہی ہوتا ہے۔ جبکہ عقیدۂ اہلسنت اِس معاملہ میں صریح ہے کہ: آدمی کبیرہ گناہوں کا رَسیا ہو تو بھی مشرک بہرحال نہیں ہوتا۔

قرآن کے بعض مقامات پر بلاشبہ ’’خواہش کو معبود بنانے‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔ مگر اس کا مطلب کیا ہے؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شرکِ اکبر کے حوالے سے طبری اور ابن کثیر ایسے مستند مصادر سے ان قرآنی مقامات کی تفسیر ملخص کردی جائے:

أفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (الجاثیہ: 23)

’’کیا تو نے اُس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنی چاہت (یا اپنے چاہے) کو اپنا الٰہ ٹھہرالیا؟ اور اللہ نے اس کو باوجود سمجھ بوجھ کے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی نگاہ پر پردہ ڈال دیا ہے۔ سو ایسے شخص کو بعد خدا کے (گمراہ کردینے کے) کون ہدایت کرے؟ کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟‘‘

ابن جریر طبریؒ:

 مفسرین کے ایک فریق کا کہنا ہے: یہ وہ شخص ہے جو خواہش کی بنیاد پر اپنا دین اختیار کرتا ہے۔ نرا منچلا جو نہ اللہ پر ایمان رکھے، نہ اللہ کے حرام ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہرائے اور نہ اللہ کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حلال۔ اس کا دین وہی جو اس کے جی میں آئے اور یہ اسی کا پیرو۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں: یہ وہ کافر ہے جو خدا کی نازل کردہ ہدایت سے بےنیاز، اور بغیر کسی (آسمانی) دلیل کے، اپنا دین اختیار کرتا ہے۔

 مفسرین کے دوسرے فریق کا کہنا ہے: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ کہ یہ شخص اپنی من مرضی سے جس چیز کو چاہے اپنا معبود ٹھہراتا ہے۔ سعید بن جبیرؒ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: قریش لوگ عزیٰ کو پوجتے۔ جس کےلیے وہ ایک سفید پتھر رکھتے، کچھ دیر اسے پوجتے رہتے پھر جب اس سے بہتر کوئی پتھر نظر آتا تو وہ پہلے کو پھینک دیتے اور نئے پتھر کو پوجنے لگتے۔

ابن کثیر:

یعنی یہ اپنی خواہش کا مامور ہے؛ اپنی عقل سے جس چیز کو خوب جانے اسی کو اختیار کرلےگا، اور جس چیز کو ناخوب جانے ترک کردے گا۔ مالکؒ سے اس کی یہ تفسیر مروی ہے: ہر وہ چیز جو اس کے دل میں آئے یہ اُسے پوجنے لگتا ہے۔

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان:43)

’’کیا دیکھی تم نے اس شخص کی حالت جس نے اپنی چاہت (یا چاہے) کو اپنا الٰہ بنالیا ہے۔ سو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے؟‘‘

ابن کثیر:

یعنی جو بھی چیز اس کی عقل میں خوب معلوم ہوگی اور اس کے من کو بھائےگی، وہی اس کا دین اور مذہب بن جائے گی۔

شیخ صالح المنجد اپنے ایک فتویٰ میں اس پورے مسئلہ کو یوں ملخص کرتے ہیں:

’’خواہش کی پیروی‘‘ کوئی ایک ہی درجہ نہیں۔ اس کی کوئی صورت کفر یا شرکِ اکبر بنے گی، کوئی صورت کبیرہ گناہ بنے گی، اور کوئی صورت صغیرہ گناہ:

• چنانچہ اگر آدمی اپنی خواہش کی پیروی میں یہاں تک چلا گیا ہو کہ وہ رسولؐ کی تکذیب کرنے لگا، یا اس کا استہزاء کرنے لگا، یا اس سے اعراض کرنے لگا –اور جوکہ سورۂ فرقان اور سورۂ جاثیہ کی ان آیات کے سیاق سے واضح ہے – تو یہ شخص مشرک ہوگا بمعنیٰ شرکِ اکبر۔ یہی حکم ہر اس شخص کا ہوگا جو خواہشِ نفس کی پیروی میں کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جو ازروئے دلائلِ شرعیہ شرک اکبر یا کفر اکبر بنتا ہے، جیسے مردوں کو پکارنا، یا دین کے کسی معلوم امر کا انکار کرنا، یا ترکِ نماز(۲) ، یا زنا اور شراب وغیرہ کو حلال جاننا۔

• اور اگر خواہش نفس کی پیروی میں وہ شرک اصغر ایسا کام کرے جیسے غیراللہ کی قسم کھانا یا عبادت میں ریاکاری کرنا... تو وہ شرکِ اصغر کا مرتکب ہے۔

• اور اگر خواہش کی پیروی میں وہ بدعتِ غیر مکفرہ کرے تو وہ بدعتی ہے۔

• اور اگر خواہش کی پیروی میں وہ کبیرہ گناہ کرے جیسے زنا یا شراب خوری، تاہم وہ اس کو حلال نہیں سمجھتا، تو وہ فاسق ہے۔

• اور اگر خواہش کی پیروی میں وہ صغیرہ گناہ کرے تو وہ محض گناہگار ہے، فاسق نہیں۔

پس واضح ہوا، خواہش کی پیروی مختلف درجات رکھتی ہے۔ لہٰذا یہ کہہ دینا کہ خواہش کی پیروی کرنا مطلق طور پر کفر ہے، درست نہیں۔

http://islamqa.info/ar/ref/145466

_________

(۱)ہمارے ہاں جہالت کا یہ حال ہے کہ جب ’پارلیمنٹ کی حاکمیت‘ کا رد کیا جاتا ہے تو ہمارے پڑھے لکھے طنزیہ سوال کرنے لگتے ہیں تو کیا تم تھیوکریسی لے کر آنا چاہتے ہو؟ گویا ان کے پاس عین وہی چناؤ Choice ہیں جو مَغۡضُوب عَلَیۡہِم وَالضَّالِّیۡنَ کے معاشروں کو درپیش رہے ہیں۔ یا تھیوکریسی کا شرک یا ڈیموکریسی کا شرک۔ یہ اس معاشرے کی فکری قیادت کا حال ہے جس کو صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کا سبق دیا گیا ہے! صراطِ مستقیم ان کو بہرحال دکھائی نہیں دیتا۔ یا ایک طرح کی گمراہی اور یا پھر دوسری طرح کی!!

(۲)ترکِ نماز حنابلہ کے نزدیک کفر اکبر میں آتا ہے، اس لیے شیخ صالح المنجد کے بیان میں یہ مثال ذکر ہوئی

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز