ابو جہل اور ابو لہب دین کو سمجھ سکتا ہے تو مستشرقین اور جدت پسند کیوں نہیں؟ |
نصوصِ شریعت کو امرؤ القیس، نابغہ اور عمرو بن کلثوم وغیرہ کے کلام پر قیاس کرنے والا ایک سطحی ذہن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ قرآن ایسا کلام فصحائے عرب کو سنانے کیلئے ہی اتارا گیا تھا، اور ظاہر ہے جب یہ قرآن عربوں کو سنایا جاتا تھا تو اُس وقت لوگ ’تفاسیر‘ لے کر ساتھ نہیں بیٹھے ہوتے تھے۔ ایک عام عرب کو قرآن سے جو معنیٰ ملتا وہی اس کلام کا ماحصل ہوتا۔ لہٰذا ایک عربی ذوق رکھنے والے شخص کو اِس کلام سے جو سمجھ آتی، اگر وہ ایسا ہی ناقص اور ناکافی فہم تھا تو عربوں کو قرآن پڑھ کر سناتے وقت ہی تفاسیر بھی کھول کر رکھ دی جاتیں!
قرآن اِن حضرات کے خیال میں گویا محض ایک ادبی شہ پارہ ہے نہ کہ ایک کامل، جامع ومفصل شریعت کی کتاب۔۔۔!
ایک عربی ذوق رکھنے والا شخص اِس کلام کو محض سن کر اور اس پر غور کر کے یقیناًہدایت کی راہ پا سکتا ہے، اُس کو مقصد زندگی کا سراغ ملتا ہے، وہ خالق سے ایک بہترین انداز میں متعارف ہو سکتا ہے، وہ بندگی کے بہت سے دلنشیں معانی سے بہرہ یاب ہوتا ہے، وہ جاہلیت کے دیے ہوئے بے شمار تصورات سے برأت و بیزاری کیلئے اپنے اندر ایک تحریک پاتا ہے، آسمان سے اترنے والی شریعت کی اتباع کا سبق ذہن نشین کرتا ہے، اور رسولؐ سے رجوع کرنے اور اُس کے اصحابؓ کے پیچھے صفیں بنانے کا ایک نہایت واضح پیغام وصول کرتا ہے۔ نیز شریعت خداوندی کی بے شمار تفاصیل سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ یقیناًیہ چیزیں ایک عربی ذوق کے مالک شخص کو جس خوبصورت انداز میں اور جس قوتِ تاثیر کے ساتھ قرآن سے ملتی ہیں کہیں سے نہیں ملتیں۔ سننے والے جب اِس کلام کو سنتے تو ان کیلئے اس پر ایمان لانے سے رکا رہنا اور اس کی تاثیر کے خلاف مزاحمت کرنا دشوار ہو جاتا۔ یہ چیز ابو جہل اور ابو لہب کیلئے بھی تھی اور آج کے ایک مستشرق کیلئے بھی ہے۔
تاہم ایک سطح وہ ہے جہاں آدمی اِس قرآن پر باقاعدہ ایمان لے آتا ہے؛ اور جس کے بعد وہ اس نبیؐ کا حلقہ بگوش ہو جاتا ہے اور اپنی مہار اِس نبیؐ کو تھما دیتا ہے۔ یہاں؛ اب اس کیلئے نبیؐ کے الفاظ تو کیا نبیؐ کے اشارے بھی حرفِ آخر ٹھہرتے ہیں۔ نبیؐ کے ہاں جن لوگوں نے پزیرائی پا رکھی ہے اور برسہا برس سے وہ اس کے حلقہ نشین چلے آتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو نبیؐ کے دربار میں نہایت سینئر سمجھے جاتے ہیں اور جن کی بابت نبیؐ کی توثیق پائی جاتی ہے کہ وہ نبیؐ سے شریعت کے اصول و فروع کو نہایت خوب سمجھ چکے ہیں، ایسی ہستیوں کے ’’تعامل‘‘ کی بھی اب اُس شخص کے ہاں ایک خاص حیثیت ٹھہرتی ہے۔ وہ سب باتیں جو قرآن سے ایک مجمل انداز میں اُس کو سمجھ آئی تھیں، اب وہ نبیؐ سے اور نبیؐ کے اعتماد و توثیق یافتہ اصحابؓ سے زیادہ مفصل اور زیادہ دقیق انداز میں ایک بار مزید سمجھتا ہے؛ بلکہ جو کچھ اُس نے سمجھا وہ یہاں سے اُس کی توثیق بھی لیتا ہے۔
پہلی سطح ایک ابتدائی عمل تھا؛ اور وہ عربیِ مبین کی بنا پر ہر کسی کو حاصل ہے۔ دوسری سطح ایک پختہ و توثیق شدہ عمل کا نام ہے؛ اور وہ ’’متبعین باِحسان‘‘ کو حاصل ہوتی ہے۔
ایک فطین آدمی یقیناًایک کلام کو سن کو اس سے بہت کچھ سمجھ سکتا ہے اور بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ پھر بھی اس میں وہ بات نہیں جو اُس صورت میں ہو گی جب وہ فطین آدمی، خود صاحب کلام ہی کے پاس بیٹھ کر، یا اُس کے سندیافتہ شارح سے، اُس کلام کی ایک ایک دلالت اور ایک ایک اشارے کو سمجھ لے، نیز جب وہ اپنی سمجھی ہوئی اشیاء کی اُس سے توثیق بھی کرا لے۔
خاص طور پر جبکہ ہم نے کہا کہ قرآن کوئی محض ادبی شہ پارہ نہیں یہ ایک مفصل شریعت کی کتاب ہے اور اس کی اَن گنت جہتیں ایسی ہیں جو نبی ا کے بیان سے ہی واضح ہوں گی۔پس اِس کو سمجھنے کیلئے منطق، عقلِ عام، لغت اور ادب وغیرہ ایک حد تک ہی کام دیتے ہیں؛ یہ سب چیزیں نبیؐ کے ’’بیان‘‘ سے کفایت بہرحال نہیں کرتیں۔
منطق، لغت اور ادب وغیرہ آپ کو نصوصِ کتاب کا ایک ابتدائی و سرسری وغیرحتمی فہم ہی دے سکتے ہیں اور جوکہ ایک مبتدی کیلئے بہرحال مددگار ثابت ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ اگر وہ خوش قسمت ہو تو اس سے مدد پا کر وہ نبیؐ کی تابعداری اختیار کرنے تک جا سکتا ہے اور جبکہ نبیؐ زمین پر خدا کا متعین کردہ شارح و مبیّنِ قرآن ہیں۔ البتہ اس قرآن کا ایک پختہ تر اور عمیق تر اور مستند تر فہم وہی ہے جو آدمی کو نبیؐ سے اور نبیؐ کی حلقہ بگوش ہستیوں سے ملے۔ وہ ابتدائی فہم جو آدمی کو قرآن سے صرف عربیِ مبین کی مدد سے حاصل ہوتا ہے نہایت خوب ہے، مگر وہ اُس پختہ تر و مستند تر فہم جو نبیؐ اور اُس کے سندیافتہ تلامذہ سے ملتا ہے، پر حَکَم arbiter بننے کیلئے بہرحال نہیں ہے؛ کہ آدمی معاذ اللہ نبیؐ یا آپؐ کے سینئر اصحابؓ کا اپنی ’عربی‘ کی بنیاد پر محاکمہ کرتا پھرے!
’’بیان‘‘ کے کئی درجے ہیں۔ خود قرآن نے اپنے آپ کو ’’بیان‘‘ کہا ہے۔ ہٰذا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ مگر اِس ’’بیان‘‘ کو مزید ’’بیان‘‘ کرنے کا ایک باقاعدہ منصب بھی خود یہ قرآن ہی نبی ا کو تفویض کرتا ہے: وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون (النحل: ۴۴) ’’(اے نبی) ہم نے تجھ پر یہ ذکر نازل فرمایا، تاکہ تو بیان فرما دے لوگوں کے واسطے، وہ (کلام) جو اُن کی طرف نازل کیا گیا، اور تاکہ وہ خود بھی غور کریں‘‘۔
چنانچہ شریعت کا ایک ’’بیان‘‘ وہ ہے جو قرآن ہمیں کر کے دیتا ہے اور وہ قرآن ہی کر کے دے سکتا ہے۔ لیکن ایک ’’بیان‘‘ وہ ہے جو اِس قرآن کی بابت نبیؐ کر کے دیتا ہے اور وہ نبیؐ ہی کے بیان کرنے کا ہے۔ جبکہ یہ موخر الذکر بات بھی، از روئے آیتِ مندرجہ بالا، قرآن ہی سے ثابت ہے۔
ظاہر ہے وہ ’’بیان‘‘ جو صحابہؓ رسول اللہ ا سے حاصل کر کے ہم تک پہنچائیں گے اور اس کو ایک باقاعدہ دستور کی صورت دے کر رکھیں گے __ جبکہ صحابہؓ عربی دانی میں بھی نہایت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں __ وہ اُس ابتدائی و سرسری فہم سے بہت آگے کی چیز ہے جو آج کا کوئی مستشرق یا جدت پسند محض لغت کے اوزاروں سے کام لے کر ہمیں قرآن سے نکال کر دینے کی کوشش کرے گا۔
یعنی وہ اوزار جن کا مستشرقین یا جدت پسندوں کو کچھ بھی زعم ہے۔۔۔، لغت کے وہ سب اوزار رکھنے میں بھی صحابہؓ وتابعینؒ ہمارے آج کے اِن لوگوں سے بہت آگے ہیں، لبتہ اُن کو وہ چیز بھی بدرجۂ تمام حاصل ہے جو اِن کے پاس سرے سے نہیں ہے، یعنی تنزیلِ وحی کی فضاؤں کے اندر زندگی گزارنا اور صاحبِ وحیؐ کی ایک خاص قربت حاصل ہونا، بلکہ صاحب وحی کے ہاتھوں فکری، ذہنی، روحانی و علمی تربیت کے ایک طویل عمل سے گزرنا اور نبیؐ کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنے کے نتیجے میں ہی تفسیر دین کی یہ قابلیت اور جوہر اپنے اندر پیدا کرنا۔ مراد یہ کہ جس چیز کا اِن حضرات کو دعویٰ ہے اُس میں بھی صحابہؓ اِن سے بہت آگے۔ اور جس چیز کا یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے وہ بھی صحابہؓ کے پاس بدرجۂ اتم۔ کیا پھر بھی اِن کے اخذ کردہ معانی ہی صحابہ کے دیے ہوئے معانی اور مفاہیم پر فیصل اور حَکَم ٹھہریں؟!
’’عربی‘‘ کے حوالے سے بھی یہ بات واضح رہنا ضروری ہے کہ رسول اللہا اَفصح العرب ہیں۔ اور صحابہ ث اَقحاح عرب ہیں۔ یہ تاثر کہ ہمارے لاہور ساہیوال کے پنجابی سپیکنگ جدت پسند کم از کم ’عربی‘ کی بنیاد پر ضرور یہ برتہ رکھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ا اور اصحابِ رسول اللہؐ سے ماثور تفسیر و معانی کے جھول نکال نکال کر دکھانے لگیں، ایک مضحکہ خیز امر ہے۔ بلکہ اِسے علاماتِ قیامت میں شمار کیجئے۔ دین اور شریعت کا علم تو ہے ہی صحابہؓ کے پاس، عربی کے اسالیب کی وسعتیں بھی جو صحابہ کو معلوم ہیں (کہ وہ خلاصۃ العرب ہیں)، وہ ہمارے اِن معلقاتِ سبعہ کے رٹے مارنے والوں کو کہاں حاصل ہونے والی ہیں؟
مختصر یہ کہ: جی ہاں یقیناًایک وہ سطح ہے جہاں عتبہ، شیبہ اور ربیعہ کو ایک اعلیٰ عربی ذوق حاصل ہونے کی بدولت قرآن کا بیان سمجھ آتا ہے اور وہ چاہیں تو اس سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ وہ سطح یقیناًنہیں ہے جس کے برتے پر عتبہ، شیبہ اور ربیعہ کسی دن ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ سے جا کر کہیں کہ تمہارے قرآن سمجھنے میں از روئے لسانِ عرب فلاں اور فلاں اورفلاں جھول ہے اور شریعت کے فلاں اور فلاں مسئلہ میں تو __ اصولِ لغت کے اعتبار سے __ تم نے غلطی کی حد ہی کر دی ہے!