عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
مُسَلّمات کی ضرورت
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

مُسَلّمات کی ضرورت

   

قوموں کی زندگی میں، اور انسانی معاشروں کے اندر، کچھ معاملات کو نبیڑے اور ہمیشہ کیلئے طے کردیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ بات سماجی امور کے معاملہ میں بھی سچ ہے، طبعی علوم کے معاملہ میں بھی، فکری امور کے بارہ میں بھی، اور قومی وسیاسی بنیادوں کی بابت بھی۔

مسلّمات کا پایا جانا قوموں کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں اگر کہیں کوئی جھول پایا جانے کا امکان ہے تو وہ اس لئے کہ قوموں اور معاشروں میں جن باتوں پراتفاق کر لیا جاتا ہے ان میں سے کسی ایک کی بنیاد بسا اوقات کسی ٹھوس علمی ثبوت کے بغیر رکھ لی گئی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض سماجی مسلّمات یک لخت غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور قوم کی زندگی میں ایک بنی بنائی عمارت اس کے باعث دھڑام سے گر جاتی ہے اور تب وہ ایک بڑے بحران میں جا پڑتی ہے(حاشیہ ۱)۔ مگر اس خطرے اور احتمال کے باوجود قوموں اورمعاشروں کی زندگی میں مسلّمات کے پائے جانے کی ضرورت اصولاً ختم نہیں ہو جاتی(حاشیہ۲)۔ کیونکہ اس کے بغیر کسی انسانی اکٹھ کا مل کر آگے بڑھنا اور اس راستے میں ان کے مابین نسلوں تک یکسوئی اور ہم آہنگی پائی جانا ممکن نہیں۔ ہاں کچھ ضروری ہے تو وہ یہ کہ مسلّمات پوری طرح ٹھوک بجا کراور ٹھوس علمی بنیادوں پر قائم کئے گئے ہوں۔جس کی ہمارے دین میں حیرت انگیز تاکید ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً (الاسراء: ۳۶)

’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقیناًآنکھ، کان اور دِل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے‘‘۔

اِس لحاظ سے؛ دیگر قوموں کا معاملہ ایک مخمصے میں جا پڑتا ہے۔ البتہ اس امت کو جو مسلمات حاصل ہیں وہ منفرد ترین ہیں۔ بلکہ یوں کہئے کہ وہ صحیح معنوں میں ’’مسلمات‘‘ ہیں ، یعنی ان میں اضطراب کا آجانا کسی وقت ممکن نہیں؛ یہ ہماری اجتماعی زندگی میں مضبوط ترین عمارت اٹھا دینے کی یقینی ضمانت ہوسکتے ہیں(حاشیہ۲)۔

عام خیال اِس وقت یہ پایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کو یہ ’’مسلمات‘‘ صرف ’’مصادرِ دین‘‘ ہی کی بابت حاصل ہیں، یعنی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہؐ۔ البتہ ان مصادر کے ’’فہم وتفسیر‘‘ کی بابت لوگ جیسے مرضی سر پٹخیں اور جیسے مرضی دست وگریباں رہیں، اس معاملہ میں کوئی معیار اور کوئی معتمد علیہ صورت اس امت کو پہلے دن سے تیار کر کے نہیں دی گئی! یہ ایک بے حد بڑی غلط فہمی ہے جو دین اسلام کی بابت عام کی گئی ہے اور اِس کا ازالہ حد سے بڑھ کر ضروری۔ ہمارے برصغیر کی فکری و تحریکی دنیا اس وقت جس آشوب ناک صورت میں گرفتا رہے اُس کی تہہ میں کچھ ایسا ہی ذہن کام کر رہا ہے۔

اِس حوالہ سے، شروع فصول میں ہم کچھ اصولی گفتگو کر چکے۔ ’’بے قابو مجمع‘‘ کی ایک تصویر دیکھ لینے کے بعد، اِس کے چند مزید جوانب کا بیان مفید ہو سکتا ہے:

بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ ہمارے لئے ہدایت کا منبع ہے، اور اس کے مُسَلَّمہ ہونے میں، سوائے کچھ ہلاکت میں پڑنے والے فرقوں کے، کسی کو کوئی کلام نہیں۔ اس پر مزید وقت صرف کرنا بھی ضروری نہیں۔ البتہ ہماری ضرورت صرف یہیں تک نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایک آدمی کتاب اللہ یا سنت رسول اللہؐ سے استدلال کرنے میں دانستہ یا نادانستہ ایک غلط طرز عمل اپنا لے اور کہیں سے کہیں جا پہنچے؟ یا پھر اس بات کی کوئی ضمانت اتار دی گئی ہے کہ قرآن وحدیث ہر آدمی کو ہر حال میں درست ہی سمجھ آئے گا اور کوئی شخص بھی دین کو اس کے اس مصدر سے سمجھنے میں ہرگز کوئی ٹھوکرنہیں کھائے گا؟

دین ایک متعین حقیقت

کیا اِس اُمت کا وقت اور وسائل اس بات کے متحمل ہیں کہ ہر شخص اور ہر مکتبِ فکر یہاں اٹھے تو دین کی ایک ازسرنو تعبیر کرے.. اور تب کسی دوسرے شخص یا مکتبِ فکر یا حتی کہ پوری اُمت کیلئے اس کی تصحیح یا اس کا رد کرنے کی مصروفیت نکل آئے! نہ ایک ’نئی تحقیق‘ کو چھوڑا جا سکے کہ کیا معلوم ’’پہلوں‘‘ کی کتنی بڑی بڑی غلطیاں ہوں جو اِس ’نئی تحقیق‘ نے منکشف کر دی ہوں.. اور نہ اس کو فوری طور پر لیا جا سکے کہ کیا معلوم چند ہی سال میں خود اس کے اندر کتنے بڑے بڑے جھول نکل آئیں اور پکڑنے والے اس کی کیسی کیسی جہالتیں پکڑ لائیں؛ اور اتباعِ سنت کا عمل اِس پورے عرصے کے دوران (جس کی مدت کا تعین کوئی نہیں کر سکتا) یا تو معلق رہے اور یا پھر ’اللہ توکل‘ پر کام چلتا رہے کہ دیکھتے ہیں کب کسی چیز کے اندر کوئی غلطی نکل آتی ہے اور کب کسی چیز کو ’’متروکات‘‘ کی فہرست میں داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔۔۔ یعنی ’ایڈہاک بیس‘ پر اصولِ سنت کا تعین! جونہی پتہ چلا کہ یہ بھی ٹیڑھا ہے، اُس کو چھوڑ کسی اور طرف کو رخ کر لیا!

مزید برآں، ہر وہ شخص جو کسی دوسرے کی پکڑ کرنے کیلئے آگے بڑھے ایک نیا شخص پھر اس کی پکڑ کرنے کو اُٹھ کھڑا ہو اور ’گیند چھیننے‘ کا یہ کھیل فہم دین کے نام پرکھیلا جائے، جیساکہ صدی بھر سے ہمارے برصغیر میں ہو بھی رہا ہے!؟

یا پھر ’’مصادرِ شریعت‘‘ ہی کی طرح ’’مصادرِ فہم‘‘ کے معاملہ میں بھی اس امت کو کفایت کردی گئی ہے اور یہ مؤخر الذکر مسئلہ بھی اس کی تاریخ میں ’’مسلمات‘‘ کے زمرے میں آتا ہے؟

حق یہ ہے کہ اصول اہلسنت کی رو سے ہر دو امر میں ہمیں کفایت کردی گئی ہے.. اور ’’سرگردانی‘‘ کی تو اس امت کے پاس گنجائش ہی نہیں۔

آپ بہت ذہین اور نابغۂ وقت ہیں، محنت اور مطالعہ بھی خوب کرتے ہیں، کیا یہ اس بات کیلئے بہت کافی ہے کہ آپ دین کی ایک تفسیر نو کے مشن پر نکل کھڑے ہوں اور اپنے ساتھ اُمت کے ایک خاصے بڑے طبقے کو بھی مصروف کرلیں؟حتیٰ کہ ہر ذہین آدمی یہی کام کرے؛ یوں روز اس امت کے چلنے کو ایک نیا راستہ سامنے لایا جائے، یعنی کوئی حتمی چیز اس باب میں یہاں کبھی پائی ہی نہ جائے!؟

امام مالکؒ کے پاس ایک شخص آیا اور دِین کے کچھ بنیادی اُمور میں آپ کو بحث وگفتگو کی دعوت دی (آپ اندازہ کر سکتے ہیں امام مالکؒ کے ساتھ ماتھا لگانے والا شخص کوئی کم علم یا معمولی قابلیت کا آدمی نہ ہوگا) امام مالکؒ کو اس کا کہنا تھا: ’’آؤ بات کرتے ہیں؛ میں جیتوں تو تم میرے ہم خیال ہوجاؤ اور تم جیتو تو میں تمہارا ہم خیال ہو جاؤں‘‘۔

’’اور اگر کوئی تیسرا شخص ہم دونوں کو خاموش کرا دے؟‘‘ امام مالکؒ نے اس تجویز پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا۔

’’تو ہم اس کی بات تسلیم کر لیں گے‘‘۔ اُس شخص کا جواب تھا۔

بظاہر دیکھئے تو اس شخص کی بات سے بڑی ہی انصاف پسندی اور حق پرستی جھلکتی ہے! ہو سکتا ہے وہ شخص اخلاص ہی سے یہ بات کہہ رہا ہو۔ بظاہر خاصی اصولی پیش کش ہے! مگر امام مالکؒ اس کا جو جواب دیتے ہیں حقیقت یہ ہے وہ آپ ایسے ائمۂ سلف کا ہی حصہ ہے، فرمایا:

’’تو کیا جب بھی کوئی نیا شخص میدان میں آئے اور پہلے والے سے بڑھ کر دلیل دے لینے کی مہارت دِکھائے تو ہم اپنا دین اور راستہ تبدیل کر لیا کریں؟ سنو، میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے۔ تمہیں اپنا دِین تاحال معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو‘‘۔(حاشیہ۳)

یہ ہیں ہمارے ائمہ!

أولٰئک آبائی فجئنی بمثلھم !!!

امام مالکؒ کے اس جواب میں اہلسنت کا تقریباً سارے کا سارا منہج تلقِّی پوشیدہ ہے۔ ’دین‘ محض ذہانت کا کارنامہ نہیں۔ ’دین‘ کوئی ’دلائل‘ دے لینے کا نام بھی نہیں۔ یہ کوئی ’خوردبینی‘ عمل بھی نہیں۔ ایسا ہوتا تو خدا کی یہ سیدھی سادی مخلوق تو ماری ہی جاتی۔ ایک کثیر خلقت جو بیچاری تلاشِ روزگار میں صبح سے شام کر دینے پر مجبور ہے تب اس کی ہلاکت یقینی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دین ’فلسفہ‘ نہیں گو فکرِ اعتزال کی یہی کوشش رہی ہے کہ دِین کو ذہانت اور فطانت کا کمال ٹھہرا دیا جائے جس کی رو سے __ فلسفی افکار ہی کی طرح __ ہر نیا ذہین پرانوں کی بہت سی باتوں کو ’دلیل‘ کے زور پر غلط ثابت کردے اورپھر کوئی اور ذہین اُٹھے تو اس کی دلیل کو بے دلیل کردے ۔۔۔ یوں کسی معاملے کا حتمی فیصلہ قیامت تک نہ ہو!

یقیناًان لوگوں کا فیصلہ قیامت ہی کو ہونے والا ہے!

حق یہ ہے کہ ’’دین‘‘ کا تعین ایک بہت ہی سادہ عمل ہے۔ ’’دین‘‘ ایک متعین حقیقت ہے جس کا کہ نزول بھی عمل میں آچکا ہے اور جو زمین پر سمجھی بھی جا چکی ہے۔ بیان بھی ہو چکی ہے۔ روئے عمل بھی آچکی ہے۔ نقل بھی ہو گئی ہے اور روایت بھی۔ ہزاروں لاکھوں کی خلقت __ جس میں ہر اہلیت کے لوگ شامل تھے __ برس ہا برس تک اس کا فکری، نظری، عملی، روحانی اور ایمانی مشاہدہ بھی کرتی رہی اور زندگی کے اندر اس کا عملی اور واقعاتی مظاہرہ بھی۔ پھر ان کے اس فکری مشاہدہ اور عملی مظاہرہ کے عین حق ہونے کی شہادت اس حقیقت کے نازل کرنے والے نے خود بھی دے دی ہے (وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ)(۵) اور جس پر یہ حقیقت نازل ہوئی اس نے بھی اس کی توثیق کر دی (ما أنا علیہ وأصحابي)(۶)۔ پس اب اس حقیقت کی تلاش، تفکیر کے صغریٰ وکبریٰ میں نہیں بلکہ اُس انسانی مجموعےؓ کے علم وعمل کے ذخیروں میں کی جائے گی اور اسی کے زیر تعلیم اور زیرتربیت رہنے والے ’’تابعین‘‘ کے ہاں ڈھونڈی جائے گی، جن کی شاگردی کی جانب امام مالکؒ کا اشارہ ہے کہ ’’میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے، تمہیں اپنا دین تاحال معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو‘‘۔

دِین کا فہم کسی ادھیڑ بن کا نام نہیں۔ مسلمات کا پایا جانا، کہ جس سے ایک قوم صرف آگے سے آگے بڑھے؛ اس کی زندگی میں ایک ہی قدم بار بار اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے، ایک شرعی ضرورت ہے اور ایک انسانی حقیقت۔ قوموں کی زندگی میں اور نسلوں کا تسلسل برقرار رہنے کیلئے اس سے ہرگز کوئی مفر نہیں۔ پھر امت(۴) ہونے کیلئے تو آپ کے ہاں مسلمات کا پایا جانا آپ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔۔۔

ایک ایسی زمین جس پر آپ پورے اعتماد کے ساتھ اور قدم جما کر نہ چل سکیں ایک بڑے قافلہ کی گزرگاہ بننے کیلئے بے کار ہے۔

اس اُمت کو ایک ’’بڑا قافلہ‘‘ بنا رکھنے کا انتظام ہمارے دِین میں پہلے دِن سے کردیا گیا ہے۔ یہ دین محض افراد کے ’تحقیقات‘ کا موضوع بننے اور ہر ہر فرد کو اس کی اپنی خوردبین سے نظر آنے کیلئے نہیں اترا۔ یہ لاکھوں کروڑوں خلقت کو بیک وقت اور نسل درنسل چلانے اور ایک بہترین جہت دینے اور دیے رکھنے کیلئے آیا ہے۔ ملکوں کے ملک اور قوموں کی قومیں اس سے جہت پاتے ہیں۔ اس دِین پر سات براعظم اکٹھے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس کے فہم کی بابت عین اس بنیاد پر آجایا جائے جس سے اس اُمت کے سلف ہم کو روشناس کرا گئے ہیں۔

’’منہجِ سلف‘‘ اور ’’اصولِ اہلسنت‘‘ __ اس دِین کے فہم کی بابت __کچھ ایسے ہی مسلمات کا نام ہے۔

*****

پس مسلمات کا پایا جانا تو کسی مجمع کے ’’اُمت‘‘ بننے اور بنے رہنے کیلئے ناگزیر ہے خواہ وہ دُنیا کا کوئی گروہ ہو۔ البتہ جہاں تک اِس امتِ بیضاء کا تعلق ہے تو اس کیلئے ’کوئی سے بھی‘ مسلمات کام نہیں دیں گے۔ لہٰذا جن مسلمات کی بات ہم کرتے ہیں یہ وہی ’’مسلمات‘‘ ہیں جو اُس وقت سے ہیں جب سے یہ اُمت وجود میں آئی۔ رہے وہ ’مسلمات‘ جو آج ازسرنو قائم کئے یا متعارف کرائے جائیں گے اور لوگوں کو اُن پر چلانے کیلئے ورق سیاہ کئے جائیں گے تو یہ ’نئے مسلمات‘ نئے اندازکے مریل قافلے ہی تشکیل دیں تو دیں یہ اُس ’’اصل قافلہ‘‘ کی تشکیل میں کام نہ دیں گے جو قرونِ اولیٰ کی یادگار ہے۔ جبکہ ہمیں کسی بات سے غرض ہے تو وہ یہی ہے؛ یعنی وہی دورِ سلف سے چلا آنے والا ’’کارواں‘‘ جو ہمارے دلوں میں بستا ہے اور جس کا وزن تاریخ آج بھی محسوس کرتی ہے۔ رہے محدثاتِ اُمور تو انہوں نے ہمیں اِس دُنیا میں فائدہ دِیا ہے اور نہ آخرت میں دینے والے ہیں۔

مگر صورتحال عملاً آج کیا ہے؟ ایک بڑے تعلیمیافتہ طبقے کا یہ حال ہے کہ جس قدر کوئی نیا خیال ظاہر کیا گیا ہو وہ ان کو اتنا ہی مسحور کرتا ہے۔ پرانی روش سے جتنا ہٹ کر بات کی جائے وہ اُن کو اتنی ہی زیادہ ’مبنی بر تحقیق‘ معلوم ہوتی ہے۔ تحقیق دراصل ایک ’نئی اپج‘ کا نام بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ اب کوئی ٹھوس بنیاد، فہم دِین کے معاملہ میں، بیشتر پڑھے لکھوں کے ہاں سرے سے ناپید ہو چلی ہے۔ ایک ’بحث‘ ہے جو کسی بھی موضوع پر ہر وقت شروع کی جا سکتی ہے!


حواشی:

 

حاشیہ (۱)

یہی وجہ ہے کہ یہاں کے من آزاد طبقے ’’امت‘‘ کو ہی اب ایک فرضی اور وہمی چیز قرار دینے لگے ہیں! سچ بھی ہے، سنت و ائمۂ سنت کی ہی جب کوئی حیثیت نہ رہی تو پھر جو مرضی کہہ دیجئے! سنت سے ہٹنا خود بخود آدمی کو نشان عبرت بنادیتا ہے۔ انکی ’اگلی نسل‘ اب یہاں تک پہنچ کھڑی ہوئی ہے کہ مسلمان عورت ہندو مرد سے شادی کرلے تو بس وہ سماجی طور پر ’نامناسب‘ ہوسکتا ہے البتہ شرعی طور پر ممنوع نہیں، کیونکہ اِنکے ’مصادر‘ ان کو یہی بتاتے ہیں کہ قیامت تک کیلئے اب کسی کو ’مشرک‘ کہا جا سکتا اور نہ ’مشرک‘ والے احکام دیے جاسکتے ہیں!

 

حاشیہ (۲)

نقلِ ثابت، و عقلِ راسخ

یہی چیز اِس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو سچے اور قابل اعتماد مسلمات درکار ہیں تو لازم ہے کہ اُس کیلئے آسمان سے ’’شرائع‘‘ اتریں۔ ورنہ وہ اِس مخمصے dilemma سے کبھی باہر نہیں آ سکتا:۔ ایک طرف وہ ’’مسلمات‘‘ کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا؛ تاکہ اُس کے ہاں نت نئی بولیاں نہ سنی جائیں۔ دوسری طرف وہ ’’حقائق‘‘ سے آنکھیں بھی نہیں چرا سکتا؛ کہ جو بھی ہو جائے وہ کسی نو منکشف حقیقت کے آگے محض اِس وجہ سے ہٹ دھرم بنا رہے گا کہ اُس کے آباؤ اجداد نے کسی وقت اُس کیلئے کچھ ’مسلمات‘ ٹھہرا دیے تھے! اور یہ تو ظاہر ہے انسان کیلئے ممکن نہیں کہ اُس نے سب کچھ پہلے سے دیکھ رکھا ہو اور تب اپنے معاشرے کیلئے کچھ ’’مسلمات‘‘ اختیار کئے ہوں۔

البتہ جب آپ ایک مستند وحی اور اُس کے ثقہ فہم کو اختیار کر لیتے ہیں تو آپ کو اپنی انفرادی و اجتماعی ضرورت کے وہ ’’مسلمات‘‘ مل جاتے ہیں جن کی ’تصحیح‘ کی ضرورت اور ان میں ردو بدل کا امکان باقی نہ رہے، سوائے یہ کہ (اور وہ بھی ایک خاص دائرہ میں) کسی نئی شریعت کے نزول یا کسی نئی امت کے برپا ہونے کے باعث زمین پر کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہو گئی ہوں (اور جس کا دروازہ اب ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ہے)۔ چنانچہ قرآن جس وقت ’باپ دادا‘ کی راہ پر اڑنے والوں کو سرزنش کرتا ہے تو وہ اِس وجہ سے نہیں کہ ایک ’پیچھے سے چلے آئے راستے‘ کی وہ سرے سے پیروی ہی کیوں کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ (أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَ یَعْقِلُونَ شَیْْئاً وَلاَ یَہْتَدُون)، یعنی نہ اھتداء (جو کہ شریعت کو پانا ہے) اور نہ عقل جو کہ (شریعت کو سمجھنا ہے)۔ جبکہ اہل ایمان اپنے اِس اھتداء (حصولِ وحی) اور اپنے اِس عقل (فہمِ وحی) دونوں کی توثیق نبی سے لیتے ہیں، اور وہاں سے اِس سلسلہ کو آگے چلاتے ہیں۔ چنانچہ (وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ أَصْحَابِ السَّعِیْرِ ۔ الملک:۱۰ ’’وہ کہیں گے کاش اگر ہم نے سنا ہوتا یا سمجھا ہوتا تو ہم اہل دوزخ میں نہ ہوتے‘‘) کے تحت قرطبی ابن عباس کا قول لاتے ہیں: (قال ابن عباس: لو کنا نسمع الہدیٰ أو نعقلہ ’’کاش کہیں ہم ہدیٰ کو سن لیتے یا سمجھ لیتے‘‘ )۔ سورۃ الملک کی اِسی آیت کے تحت شیخ سفر الحوالی لکھتے ہیں: نجات کی ضمانت ایک سمعِ ہدایت ہے (سمع جس کو اصطلاحِ اہل سنت میں ’’نقل‘‘ بھی کہتے ہیں) اور دوسری عقلِ ہدایت۔ (عقلِ ہدایت، یعنی ہدایت کی سمجھ جو صاحبِ ہدایتؐ کے ہاں معتبر ہو)۔ یہاں کسی فرقہ کو ’’سمع‘‘ صحیح حاصل نہیں (آپ حیران رہ جاتے ہیں سب کے سب دخیرہ ہائے سنت محدثین ہی کے ہاں پائے گئے اور انہی کی محنت سے محفوظ ہوئے جبکہ دیگر فرقے یہ تمام تر عرصہ اپنے اپنے ’’عقلیات‘‘ اور امام ابن ابی العز کے الفاظ میں ’’جھلیات‘‘ کے اندر مگن رہے)، اور کسی کو ’’عقل‘‘ (یعنی سمجھ) صحیح حاصل نہیں۔ یہاں اللہ نے علمائے اہل سنت پر بدرجۂ اتم فضل کیا، جن کے پاس ’’سمع‘‘ وہ جو نبیؐ سے حاصل ہوئی اور ’’عقل‘‘ (یعنی سمجھ) وہ جو صحابہؓ سے ماثور ہوئی۔

 

حاشیہ (۳)

یعنی یہ انسان کی ایک مجبوری ہے کہ اس کو اپنے معاشروں کو بہرحال کسی ڈگر پر ڈالنا ہوتا ہے اور اپنے تعلیمی وسماجی وسیاسی ومعاشی وتہذیبی و ’مذہبی‘ سیٹ اپ کو کوئی بنیاد اور کوئی جہت دے کر رکھنا ہوتی ہے۔ وہ اس پر ضد نہ کرے تو مرتا ہے (کیونکہ اس کے بغیر ’’معاشرہ‘‘ نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہتی) اور اگر ضد کرے تو مرتا ہے (کیونکہ حقائق اس کی جہالت کا منہ چڑانے کیلئے آ موجود ہوتے ہیں)؛ اور یہاں سے غیر نبوی معاشرے ایک مسلسل تخریب، اکھاڑ پچھاڑ، انقلابات، اور ’’تھیسز و اینٹی تھیسز‘‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ لوگ اس کو ’’ارتقاء‘‘ سمجھتے ہیں مگر یہ انسان کی شقاوت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے؛ کہ یہ جزا ہے اُن لوگوں کی جو ’’اتَّخَذُوا آیَاتِیْ وَرُسُلِیْ ہُزُواً‘‘ کے مرتکب ہوئے اور ’’فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقَی‘‘ کا مصداق۔ اِس کا حل ’’ایمان‘‘ ہے اور ’’مہتدون‘‘ و ’’أنعمت علیہم‘‘ کے چلے ہوئے راستے کا اتباع، مگر یہ قسمت والوں کو ملتا ہے اور اس کا زیادہ تعلق ’ذہانت‘ اور ’انتھروپالوجی‘ کے ساتھ نہیں رہنے دیا جاتا بلکہ ’’اِنابت‘‘ اور ’’فروتنی‘‘ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ قُلْ إِنَّ اللّہَ یُضِلُّ مَن یَشَاءُ وَیَہْدِیْ إِلَیْْہِ مَنْ أَنَاب ۔(الرعد: ۲۷)

پس یہاں پر سب سے بڑا چیلنج اور سب سے بڑا سوال ایک نبوی معاشرے (یعنی نبی کے قائم کردہ معاشرے) کا تحفظ ہو جاتا ہے؛ کیونکہ صحیح معنیٰ میں اگر کہیں پر ’’مسلمات‘‘ پائے جا سکتے ہیں تو وہ ایسے ہی معاشرے کے اندر۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اِن معاشروں کے اصل محافظ (ائمہ اہل سنت) اپنی توجہ کا بہت بڑا حصہ اِن معاشروں کو انکے اصل پہ قائم رکھنے پر لگا دیتے ہیں اور اپنی توجہ کا باقی ماندہ حصہ اس پر مرکوز کر دیتے ہیں کہ یہ معاشرے ’باہر‘ کی جانب متوجہ نہ ہوں نیز یہ کہ ’باہر‘ سے درانداز ہونے والی اشیاء کا قلع قمع کیا جاتا رہے ۔ لوگ ائمہ سنت کو اتنی شدید تاکیدیں کرتا دیکھتے ہیں تو کسی وقت یہ تک کہنے لگتے ہیں کہ ان کا دماغ چل گیا ہے ہردم ایک ہی بات زبانوں پر سنی جاتی ہے؛ لیکن وہ لوگ جو اس اصل راز سے واقف ہوتے ہیں کہ ’’آسمان کی امانت‘‘ پر ہاتھ کی گرفت چھوٹنے سے مسلم معاشرے کن تباہیوں میں جا کر گرتے ہیں اور کیسی کیسی درماندگی لے کر آتے ہیں صرف وہی اِس بات کی داد دے سکتے ہیں کہ:

اتبعوا ولا تبتدعوا، فقد کُفِیْتُمْ

’’اتباع کرو نہ کہ ابتداع۔ دیکھو، تمہیں کفایت کر دی گئی ہے‘‘

اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ’’آسمان کی امانت پر گرفت کا ڈھیلا پڑنا‘‘ وحی کے الفاظ اور نصوص کے معاملہ میں بھی ہو سکتا ہے، (اور جوکہ اِس امت کی بابت اصل ڈرنے کی بات نہیں) اور ان کے درست و مستند معانی اور مفاہیم کے معاملہ میں بھی (اور جوکہ اصل پریشان ہونے کی بات ہے)۔

انسانی معاشروں کو ’’مسلمات‘‘ کی جو احتیاج لاحق ہے، اسکے حوالے سے یہاں اور پچھلے حاشیہ میں جو گزارشات ہوئیں، انکو فصل نہم میں ذکر ہونے والے حاشیہ ۱۹ و حاشیہ ۲۰ سے متصل کر کے دیکھا جائے تو ’’نبوتوں‘‘ اور ’’اصحاب‘‘ اور ’’امتوں‘‘ کی بابت کچھ مفید مطالب سامنے آ جاتے ہیں۔

 

حاشیہ (۴)

امام مالک کا یہ واقعہ کثرت کے ساتھ کتبِ سنت میں مذکور ہوتا ہے، بعید نہیں امام مالک کے ساتھ اس طرح کے واقعات ایک سے زیادہ مرتبہ پیش آئے ہوں۔ اِس مضمون کا واقعہ امام آجریؒ نے کتاب الشریعۃ، ابن بطہؒ نے الابانۃ الکبریٰ، اور ابن عبد البرؒ نے الانتقاء میں ذکر کیا ہے۔

(۵) ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا۔۔۔‘‘ (التوبۃ:۱۰۰)

(۶) ’’وہ چیز جس پر میں (رسول ا) ہوں اور میرے اصحابؓ ہیں‘‘ (الترمذی، دیکھئے یہ کتاب ص ۱۴۳)

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز