عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Fehm_deen_masdar_2nd آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
فہم کے مراجع۔۔۔؟
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

فہم کے مراجع۔۔۔؟

   

آپ کا فہمِ دین کا مصدر کیا ہے؟

اس کا سیدھا جواب کچھ قابل احترام طبقوں کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ:

’’قرآن اور حدیث‘‘۔

قرآن اور حدیث سے بڑھ کر حق بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ دین بلاشبہ قرآن وحدیث ہی ہے۔ تاہم زیادہ واضح ہونے کیلئے ہم یہ سوال یوں رکھ لیتے ہیں کہ:

’’آپ نے قرآن اور حدیث کو کہاں سے سمجھا ہے؟‘‘

یہ سوال البتہ قابل غور ہے۔

’قرآن اور حدیث تو خود بخود واضح ہیں۔ اس کو ’’کہیں‘‘ سے سمجھنے کا کیا سوال۔۔۔؟‘ یہ ایک اندازِ فکر ہے اور اس کی تہہ میں جانا کئی لحاظ سے ضروری (حاشیہ۱)۔

’’تفسیرِ دین‘‘ کے موضوع پر کیسے کیسے معرکے ہماری تاریخ کے اندر ہوئے ہیں؛ اور کیسے کیسے نقب عین اِس جگہ سے ہمارے گھر میں لگے ہیں (اور لگ رہے ہیں)؟۔۔۔ یہ سب کچھ اگر ہم سے اوجھل نہیں ہے تو اِس سوال کو سرسری لینا بے حد تشویشناک ہو جاتا ہے۔ دین کو سمجھنے کے درست مراجع اختیار کروانا امت کا ایک نہایت حقیقی مسئلہ ہے اور حالیہ صورتحال میں تو یہ ایک خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

فہم کے مستند مراجع کی ضرورت: چند مثالیں

چند مثالیں شاید آپ کو اندازہ کروا دیں کہ ’’فہم کے درست مراجع‘‘ کوئی ایسا غیراہم سوال نہیں:

۔ مثلاً جب کوئی شخص ’’حلول‘‘ کا عقیدہ ثابت کرنے کیلئے حدیث سے یہ الفاظ لے کر آئے:

وما یزال عبدی یتقرب إلیَّ بالنوافل حتیّٰ أحبَّہ، فإذا أحببتہ کنت سمعَہ الذی یسمع بہ، وبصرَہ الذہ یبصر بہ، ویدَہ التی یبطش بہا، ورجلَہ التی یمشی بہا (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب إن حقا علی اللہ أن لا یرفع شیئا من الدنیا إلا وضعہ)

’’میرا بندہ نفلی وظائف کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ میں اُس کو محبوب ٹھہرا لیتا ہوں۔ پھر جب میں اُس کو محبوب ٹھہرا لیتا ہوں تو میں اُس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اُس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھنے کا کام لیتا ہے، اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اُس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘۔

۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اِس طرح کی کسی نص کے تحت اللہ رب العزت کیلئے (معاذ اللہ) بعض نقص کے پیرائے بیان کر جاتے ہیں اور ٹوکنے پر ’ٖحدیث‘ کا حوالہ دینے سے نہیں چوکیں گے، بلکہ الٹا آپ کو کہیں گے کہ آپ تاویل کرتے ہیں:

وما ترددت عن شیءٍ أنا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت وأنا أکرہ مساء تہ (بخاری کا مذکورہ بالا حوالہ)

’’اور میں نہیں متردد ہوتا کسی چیز میں جسے میں کرنے والا ہوتا ہوں جس طرح میں متردد ہوتا ہوں مومن کا نفس (قبض کرنے) میں، کہ اُس کو موت ناپسند ہے اور مجھے اس کو خفا کرنا ناپسند‘‘

۔ اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ’’حلول‘‘ اور نہ جانے کیا کیا گمراہی ثابت کر لیتے ہیں؛ اور آپ کو ایسے آدمی کے ساتھ کئی گھنٹے ’’بحث‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے، پھر بھی بات کم ہی کسی کنارے لگتی ہے، اور آخر میں ایک ’فہم‘ اُس شخص کا ہوتا ہے اور ایک ’فہم‘ آپ کا، البتہ ’’فہم‘‘ کیلئے کوئی اسٹینڈرڈ حوالہ پھر بھی مفقود:

یا ابن آدم مرضتُ فلم تعدنی۔ قال: یا رب کیف أعودک وأنت رب العالمین؟ قال أما علمت أن عبدی فلانا مرض فلم تعدہ أما علمت أنک لو عدتہ لوجدتنی عندہ .... (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب فضل عیادۃ المریض..)

’’اے ابن آدم، میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا: پرودگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، جبکہ تو رب العالمین ہے۔ وہ فرمائے گا: کیا تجھے پتہ نہ چلا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی، کیا تجھے پتہ نہ چلا تھا کہ اگر تو نے اُس کی عیادت کی ہوتی تو تو نے مجھے اسی کے ہاں پایا ہوتا۔ ....‘‘

۔ انسان کو معاذ اللہ خدا کی صورت اور خدا کا پرتو کہنے پر ’دلیل‘ لاتے ہیں:

إذا قاتل أحدکم أخاہ فلیجتنب الوجہ، فإن اللہ خلق آدم علیٰ صورتہ  (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب النہی عن ضرب الوجہ..)

’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے ساتھ لڑ پڑے تو چہرے (پر مارنے) سے بچے، کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے‘‘

۔ کتنے ہی لوگوں کو آپ نے اِس حدیث اور اِس سے ملتی جلتی کچھ دیگر نصوصِ دین کے تحت ’’عقیدۂ جبر‘‘ بیان کرتے ہوئے دیکھا ہو گا:

ثم یکون مضغۃ مثلہ، ثم یبعث إلیہ الملَک فیؤذن بأربع کلمات، فیکتب رزقہ وأجلہ، وعملہ، وشقی أم سعید، ثم ینفخ فیہ الروح۔ فإن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتیٰ لا یکون بینہا وبینہ إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل النار فیدخل النار، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار، حتیٰ ما یکون بینہا وبینہ إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل عمل أہل الجنۃ فیدخلہا (صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب قولہ تعالیٰ: ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین)

’’پھر اُسی طرح (یا اتنی ہی دیر) وہ لوتھڑا بن کر رہتا ہے۔ پھر اس کی طرف فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اس کو اذن دیا جاتا ہے کہ وہ چار باتیں لکھے: اس کا رزق۔ اس کی اجل۔ اس کا عمل اور یہ کہ آیا وہ بد بخت ہو گا یا خوش بخت۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس تم میں سے کوئی شخص عمل کرتا رہتا ہے اہل جنت والے یہاں تک کہ جنت اور اُس کے مابین اتنا ہی فاصلہ رہ جاتا ہے جتنا کہ ایک ہاتھ، تب اُس پر نوشتۂ (تقدیر) غالب آتا ہے اور تب وہ عمل کرنے لگتا ہے اہل دوزخ والے، تب وہ دوزخ میں جا داخل ہوتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی شخص عمل کرتا ہے اہل دوزخ والے، یہاں تک کہ دوزخ اور اُس کے مابین اتنا ہی فاصلہ رہ جاتا ہے جتنا کہ ایک ہاتھ۔ تب اُس پر نوشتہ غالب آتا ہے، تب وہ اہل جنت والے عمل کرنے لگتا ہے، تب وہ جنت میں جا داخل ہوتا ہے۔

۔ اسی طرح یہ آیت:

وَلَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكُواْ (الأنعام: ۱۰۷)

’’اللہ چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے‘‘

۔ اور یہ آیت:

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ (یونس: ۱۰۰)

’’اور نہیں ہے کوئی نفس ایمان لانے کا مگر اللہ کے اِذن سے‘‘۔

۔ اور اِس آیت مبارکہ کا حوالہ دے کر تو آپ نے لوگوں کو کیا کیا اوٹ پٹانگ مفہومات بیان کرتے ہوئے نہ سنا ہو گا۔۔۔:

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاء وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ... (النور: ۳۵)

’’اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا۔ اُس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہو، چراغ فانوس میں ہو، اور وہ فانوس ہو گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ جلایا جاتا ہو زیتون کے ایک ایسے برکت والے پیڑ کے تیل سے جو نہ پورب کا ہو اور نہ پچھم کا، کہ جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو اگرچہ آگ اس کو نہ چھوئے۔ نور پر نور ہے۔ اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے انسانوں کیلئے۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ....‘‘

۔ اِسی طرح یہ آیت:

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (ص: ۷۲)

’’پھر جب میں اُسے (یعنی آدم کو) پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ‘‘

۔ اِسی طرح یہ آیت:

وَهُوَ اللّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهرَكُمْ (الأنعام: ۳)

’’وہی ہے اللہ آسمانوں میں اور زمین میں، جانتا ہے وہ تمہارا سر اور علانیہ‘‘

وغیرہ وغیرہ(حاشیہ۲)

۔ اور ذرا اِس آیت مبارکہ ہی کو ایک نظر دیکھ لیں جس میں محکمات کا بھی ذکر آتا ہے اور متشابہات کا بھی، اور فتنۃ اور تاویل کا بھی، اور زیغ کا بھی، اور الراسخون فی العلم اور اولو الالباب کا بھی۔۔۔ کہ الراسخون فی العلم (جوکہ صحابہؓ اور ان کے طریق پر پائے جانے والے اصحاب علم ہی ہو سکتے ہیں) کی راہ کا پابند ہوئے بغیر، محض اپنی ہی ’اقُول‘ سے آپ اِس آیت کا معنیٰ و مفہوم کس طرح بیان کر کے دیتے ہیں اور اس کی تطبیق کس طرح:

هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ  رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (آل عمران: ۷ ۔۸)

’’وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری۔ اِس میں بعض آیتیں محکم ہیں، اور وہ کتاب کی اصل ہیں، اور دوسری متشابہ ہیں۔ سو جن دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ کتاب کے اُن حصوں کے پیچھے جاتے ہیں جن میں اشتباہ ہے، فتنہ کی طلب میں اور اس کی تاویل کی طلب میں۔ اور نہیں جانتا ان کی تاویل کوئی مگر اللہ۔ اور راسخون فی العلم کہتے ہیں: ہمارا اِس پر ایمان ہے، سب ہمارے پرودگار کے پاس سے ہے۔ اور نہیں بات کو پاتے مگر اولو الالباب۔ ’’اے ہمارے پروردگار! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دیجؤ بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی۔ اور بخش دے ہمیں اپنے پاس سے رحمت۔ بے شک تو بڑا دینے والا ہے‘‘۔

 

*****

 

قرآن اور حدیث دین کا مصدر ہیں؛ بلکہ دین ہیں۔ اور دین کا یہ منبع محکم ہے اور اپنے آپ میں بے انتہا واضح۔ مگر پھر بھی اس کی ’’تفسیر‘‘ اور اس کا ’’بیان‘‘ اور اِس سے ’’استدلال‘‘ اور ’’استنباط‘‘ کرنا ایک باقاعدہ علم ہے اور اس علم کو درست طور پر جاننے اور سمجھنے والے تاریخی طور پر کچھ متعین لوگ۔

اصول فقہ کیوں بنے؟

یعنی۔۔۔ ایسا بہرحال نہیں ہے کہ ’’قرآن و حدیث‘‘ کو جس نے بھی سمجھا، صحیح ہی سمجھا۔ سمجھنے والوں نے کہیں پر قرآن و حدیث کو صحیح سمجھا ہے تو کہیں پر غلطی بھی کھائی ہے۔ کسی نے چھوٹی غلطی کھائی ہے تو کسی نے بہت بڑی غلطی بھی کھائی ہے۔ امت کے جہابذۂ علم نے ’’اصولِ فقہ ‘‘ بے مقصد یا بلا ضرورت وضع نہیں کر دیے، اور جو کہ علم کی ایک باقاعدہ فرع ہے۔ علم کی یہ جو فرع ہے __ یعنی ’’اصول فقہ ومطالعۂ نصوص‘‘ __ وہ کسی اور چیز کو نہیں ’’قرآن و حدیث‘‘ کو سمجھنے کیلئے ہی وجود میں لائی گئی ہے اور ظاہر ہے اِسی وجہ سے وجود میں لائی گئی ہے کہ اِسکے بغیر قرآن و حدیث کو __ علمی و فقہی سطح پر __ سمجھا نہیں جا سکتا۔ کیا یہ عجب ماجرا نہیں کہ قرآن اور حدیث کو درست طور پر سمجھنے کیلئے اتنے بڑے بڑے علماء کو تو ’’اصولِ فقہ و استدلال‘‘ ایسے علومِ آلہ کی ضرورت ہو، اور اِن آلات کے رکھنے اور انکے استعمال کا طریقہ سیکھ چکے ہونے کے باوجود، کسی وقت ان علماء و ائمہ کی سانس پھول جاتی ہو، مگر ہمارے یہ نوجوان پلک جھپکتے میں آپ کو سب حدیثیں سمجھ کر اور سب لاینحل عقدے حل کر کر دکھا دیں! قرآن و حدیث اگر آپ سے آپ سمجھ آ جاتے ہیں (اُس معنیٰ میں جو اِس وقت یہاں کے نو آموز نوجوانوں کو باور کرایا جا رہا ہے، اور جس کے اندر سطحیت حد سے زیادہ ہے) تو ’’اصولِ فقہ‘‘ ایسا ایک باقاعدہ علم وجود ہی میں کیوں لایا گیا۔۔۔؟ ظاہر ہے، ’’اصولِ فقہ‘‘ ایک ضرورت کی چیز تھی نہ کہ کوئی شوقیہ ایجاد۔ پھر اہل علم کے ہاں یہ تک کہا گیا کہ فقہ تو کوئی بھی شخص پڑھ لے اور ایک پڑھی ہوئی اور حفظ کی ہوئی فقہ کو بے شک آگے بھی پہنچا دے، مگر اصولِ فقہ میں عبور پانا اور مسائل میں ’’اصولِ فقہ‘‘ کی تطبیق کر کے دکھانا تو ایک اعلیٰ سطح کا کام ہے اور ایک بلند تر سطح کی فنی استعداد کا ضرورتمند۔

اصول عقیدہ کا تقرر معمولی بات نہیں

پھر قرآن و حدیث کے وہ حصے تو اور بھی اہم ہیں جن سے ’’اصولِ دین‘‘ اخذ ہوتے ہیں اور جن میں سر فہرست: عقیدہ کے مباحث ہیں۔ انکے فہم کا معاملہ اور بھی شدید اور سنگین ہے۔ اور ظاہر ہے، دین کے یہ جوانب بھی فہم اور تفسیر کے انحرافات سے محفوظ نہیں رہے۔ بلکہ یہاں تو بڑوں بڑوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان میں سے بہتوں نے اپنی عاقبت بھی خراب کی ہے، اور اپنے دور کے ترجمانِ حق ائمہ سے اِس پر سر عام نکیریں بھی سنیں۔ پس دین کے اِن اہم تر جوانب کو بیان کرنے کیلئے تو ’’فقہ‘‘ اور ’’اصولِ فقہ‘‘ ایسے مراجع بھی کفایت نہیں کرتے، بلکہ اِس کیلئے آپ کو ’’اصولِ عقیدہ‘‘ کے کچھ خاص مراجع درکار ہوتے ہیں؛ جو کہ امت کے کچھ مستند ترین ائمۂ علم نے سلف کے دور سے چلتے چلے آنے والے ایک معروف طرزِ عمل کی تثبیت اور تدوین کے دوران قلم بند کئے ہوتے ہیں، اور جن کو نظرانداز کرنے والے لوگ عموماً ایسے ایسے گڑھوں میں گرتے دیکھے گئے ہیں کہ کوئی نجات کا فکرمند ہو تو صبح شام ان سے پناہ مانگے۔

پس قرآن و حدیث کا واضح ہونا اِس بات کو لازم نہیں کہ اِنکو سمجھنے کیلئے کچھ درست ترین اور مستند ترین معیارات کی پابندی کو غیرضروری ٹھہرایا جائے۔ اور نہ ہی یہ اِس بات سے متعارض ہے کہ _ تاریخی طور پر _ قرآن و حدیث کو درست طور پر سمجھنے والا ایک خاص متعین طبقہ ہو، اور اِسکو درست طور پر سمجھنے کیلئے اُسی طبقہ سے رجوع کرنا لازم ہو۔

ہر علم کے لئے (الف) کچھ معین معیارات کا پایا جانا اور (ب) کچھ معین رجال کا پایا جانا.. ضروریاتِ عقل سے ہے۔

 

*****

 

پہیہ
دوبارہ ایجاد کرنا!

یوں تو خدا کی یہ کائنات بھی ایک کھلی کتاب ہے۔ ان کو بھی کتاب اللہ میں خدا کی آیات کہا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک واضح کتاب ہے۔ ہر کوئی اس کو پڑھ سکتا اور اس سے فوائد کشید کر سکتا ہے۔ کسی پر بھی پابندی نہیں۔ کتابِ کائنات سے فوائد کشید کرنے کے بے شمار پہلو ہیں۔ کچھ ایمانی ہیں اور کچھ واقعاتی۔ کائنات کو واقعاتی انداز میں پڑھنے کا ایک پہلو ’سائنس‘ کہلاتا ہے۔ ’سائنس‘ کائنات کی بابت کئے گئے انسانی تجربات اور مشاہدات کا نام ہے۔ مگر ’کائنات‘ سے ’سائنس‘ کی کشید کے معاملے میں بھی کیا سب لوگ برابر ہیں؟ کیا سائنس کا علم بے حد واضح ہونے کے باوجود، (بلکہ سائنس کا تو معاملہ ہی دو اور دو چار کی طرح ہے؛ کیونکہ اِس میں اَھواء کو کوئی دخل ہی حاصل نہیں، جیسا کہ تھوڑا آگے چل کر بات آئے گی)، کچھ مخصوص مصادر سے لیا جانا ضروری نہیں؟ بے شک فزیکل سائنس ایک سامنے کی چیز ہے، پھر بھی کیا ’’تجربے‘‘ اور ’’مشاہدے‘‘ کی بابت کچھ خاص متعین اصول اور اسٹینڈرڈز انسانیت کے ہاں ڈیویلپ نہیں ہو چکے؟ سائنس کی وادی میں آکر کیا ہر کسی کو اپنا ’’پہیہ‘‘ ایجاد کرنا ہوتا ہے یا ’پہیے‘ کی بابت پہلے سے چلے آنے والے عمل کو لے کر ہی آگے بڑھانا ضروری ہوتا ہے؟

’’علمِ سائنس‘‘ (جوکہ سامنے کی چیز ہے اور ہر کسی کی دسترس میں ہے) کی بابت بھی آدمی کو کیا کسی تاریخی تسلسل کا حصہ نہیں بننا ہوتا؟ یا پھر اس سے الگ تھلگ رہ کر ہی کائنات کے حقائق کو ’از سر نو‘ دیکھنا اور پرکھنا ہوتا ہے؟ کائنات تو وہی کائنات ہے جو دس ہزار سال پہلے تھی۔ مگر کائنات کو پڑھنے کا عمل ایک تاریخی تسلسل ہے اور اب اسکے کچھ خاص قواعد وضوابط ہیں اور کچھ متعین مراجع، جن سے منقطع رہنا ہرگز کوئی علمی رویہ نہ کہلائے گا۔

ضروری نہیں یہ مثال ’’دین کے علم‘‘ کے معاملہ سے سوفیصد مطابقت رکھتی ہو۔ مگر یہ اس سے سوفیصد معارض بھی نہیں۔ ان دونوں معاملوں کا مشترکہ پہلو ہی دراصل اس مثال سے ہمارا مقصود ہے(حاشیہ۳)۔

 

*****


حواشی

 

(حاشیہ ۱)

ہم سمجھتے ہیں اِس اپروچ کو فہمِ سلف کا ذرا سا ایک ٹچ ملنا باقی ہے؛ البتہ جذبۂ اتباعِ حق اللہ کے فضل سے یہاں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔

 

(حاشیہ ۲)

اِن مثالوں وغیرہ کے سلسلہ میں بعض طبقوں کے یہاں آپ ایک فنکاری دیکھتے ہیں کہ منہجِ سلف کی پابندی کو غیر ضروری جاننے کے باوجود کوئی ایسا خطرناک اعتقاد اُن کے یہاں بالعموم دیکھنے میں نہیں آ رہا ہوتا؛ اور اس بات کو یہ لوگ دلیل کے طور پر بھی پیش کر لیتے ہیں کہ دیکھ لو کام تو منہج سلف کا پابند ہوئے بغیر بھی چلتا ہے! اِس حوالہ سے چند باتیں آئندہ فصل میں آ رہی ہیں۔

 

(حاشیہ ۳)

ہماری اِس بات پر جو ایک سوال عموما اٹھ سکتا ہے، اُس پر کچھ گفتگو فصل ششم کے حاشیہ (۲۰) کے تحت آئے گی۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز