عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Monday, April 29,2024 | 1445, شَوّال 19
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Masjidaqsa آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
مسجدِ اقصیٰ کی بابت جاننے کی کئی ایک باتیں
:عنوان

’مسجدِ اقصیٰ‘ اس مقدس مقام کا وہ نام ہے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محکم کلام میں اس مقامِ ذی شان کو موسوم فرمایا ہے

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

مسجدِ اقصیٰ

 
 

کی بابت جاننے کی کئی ایک باتیں

 

 

مسجدِ اقصیٰ کرۂ ارض پر مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ جس تاریخی شہر میں واقع ہے اس کو احادیث کے اندر اور اسلامی تاریخ میں ’بیت المقدس‘ کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے، جبکہ بائبل کی تاریخ میں یہ شہر ’یروشلم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مسجدِ اقصیٰ، قدیمی شہر کے جنوب مشرقی طرف، ایک نہایت وسیع رقبے پر مشتمل احاطہ ہے۔ اس احاطے کے گرد ایک مستطیل شکل کی پر شکوہ فصیل پائی جاتی ہے۔ مسجد کے احاطہ کی وسعت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ اس کا رقبہ 144 دونم (ایک دونم= 1000 میٹر مربع) ہے۔ اس احاطہ میں گنبدِ صخرہ پایا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پائی جاتی ہے، جس کو الجامع القِبْلی یعنی ”قبلہ والی مسجد“ یا ”قبلہ طرف والی مسجد“ بھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ متعدد تاریخی آثار ونشانات ہیں جن کی کل تعداد دو صد تک پہنچتی ہے۔

مسجد اقصی کا یہ پورا احاطہ، شہر کے جس حصہ میں واقع ہے وہ ایک ٹیلہ نما جگہ ہے۔ اس ٹیلہ کا تاریخی نام ’موریا‘ ہے۔ صخرہ مشرفہ (وہ چٹان جہاں اسراءومعراج کی رات رسول اللہ ﷺ کے قدم مبارک لگے تھے)، اس پورے احاطہ کی سب سے بلند جگہ ہے اور مسجد اقصی کے اس احاطہ میں قلب کی حیثیت رکھتی ہے۔

مسجد کی پیمائشیں یوں ہیں: جنوب کی طرف 281 میٹر، شمال کی طرف 310میٹر، مشرق کی طرف 462 میٹر، اور مغرب کی جانب 491 میٹر۔

مسجد کا یہ احاطہ قدیمی شہر کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ مسجد اقصی کی بابت خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کی حدود آج بھی وہی ہیں جہاں جائے نماز کے طور پر پہلے دن اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ یعنی جس طرح مسجد حرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) کی توسیع بار بار ہوتی رہی اور اس باعث ان دونوں مسجدوں کی حدود متعدد بار تبدیل ہوئیں، مسجد اقصی کی حدود میں آج تک تبدیلی نہیں آئی۔

احاطۂ اقصیٰ کے چودہ دروازے ہیں۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے جس وقت یہ مسجد آزاد کرائی، اس کے بعد بعض وجوہات کے پیش نظر مسجد کے کچھ پھاٹک بند کر دیے گئے۔ یہ پھاٹک جو بند کر دیے گئے، کہا جاتا ہے ان کی تعداد چار ہے۔ بعض کے نزدیک ان کی تعداد پانچ بنتی ہے، جوکہ یہ ہیں: مشرقی جانب باب الرحمۃ اور جنوب کی طرف باب المُنْفَرِد، باب المُزْدَوِج اور باب الثُّلاثی۔ البتہ وہ دروازے جو اس وقت تک برقرار ہیں، دس ہیں اور ان کی تفصیل اس طرح ہے: باب المَغَارِبَۃ، اس کو باب النبی بھی بولتے ہیں۔ باب السلسلۃ، اس کو باب داود بھی بولتے ہیں۔ باب المُتَوَضَّأ، جس کو باب الْمَطْہَرَۃ بھی بولتے ہیں۔ باب القطانین۔ باب الحدید۔ باب الناظر۔ باب الغوانمۃ، جس کو باب الخلیل بھی بولتے ہیں۔ یہ سب کے سب دروازے مغربی سمت ہیں۔ جبکہ باب العتم، جسے باب شرف الانبیاءبھی بولتے ہیں، باب حطۃ اور باب الأسباط شمالی سمت میں ہیں۔

مسجد اقصیٰ کے چار مینار ہیں: باب المغاربہ والا مینار، جوکہ جنوب مغربی جانب ہے۔ باب السلسلہ والا مینار جوکہ مغربی سمت باب السلسلہ کے قریب واقع ہے۔ باب الغوانمہ والا مینار جو کہ شمال مغربی سمت اور باب الأسباط والا مینار جو کہ شمالی سمت واقع ہے۔

مسجد اقصیٰ کا نام:

’مسجدِ اقصیٰ‘ اس مقدس مقام کا وہ نام ہے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محکم کلام میں اس مقامِ ذی شان کو موسوم فرمایا ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ  (الاسراء: 1)

”پاک ہے وہ ذات جو لے گیاایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک، کہ جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ اُسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائے، بیشک وہ سننے والا ہے (اور) دیکھنے والا“

اقصیٰ، یعنی بعید تر۔ مراد یہ کہ اسلام کے تین مقدس ترین مقامات میں سے یہ باقی دو کی نسبت بعید تر ہے، کیونکہ مکہ ومدینہ سے فاصلے پر واقع ہے۔ ’اقصیٰ‘ کے لفظ کی یہی تفسیر راجح تر ہے۔

اس مقام کا یہ نام یعنی ’اقصیٰ‘ نزولِ قرآن کے بعد ہی مشہور ہوا ہے۔ قرآن کے اسے یہ نام دینے سے پہلے اس کو مقدس یا  بیت المقدس کہا جاتا تھا۔ ’بیت المقدس‘ کا لفظ احادیث نبوی کے اندر وارد ہوا ہے۔ مثلا مسند احمد کی حدیث جو واقعۂ اسراءکی بابت مذکور ہوئی:

عن أنس بن مالک، أن رسول اللہ  قال:

أتِیتُ بالبراق، وہو دابۃ أبیض فوق الحمار ودون البغل یضع حافرہ عند منتہیٰ طرفہ، فرکبتہ فسار بی حتیٰ أتیت بیت المقدس، فربطت الدابۃ بالحلقۃ التی یربط فیہا الأنبیائ، ثم دخلت فصلیت فیہ رکعتین، ثم خرجت فجاءنی جبریل علیہ السلام ب اِناءمن خمر و اِناءممن لبن فاخترت اللبن، قال جبریل: أصبت الفطرۃ، ثم عرج بنا اِلی السماءالدنیا فاستفتح جبریل۔۔“ الحدیث

روایت انس بن مالکؓ سے، کہا، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:

”میرے پاس براق لایا گیا، جوکہ ایک سفید دراز جانور ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے کچھ چھوٹا۔ وہ اپنا سم اپنے حدنگاہ کے پاس جاکر دھرتا ہے۔ تو میں اس پر سوار ہوا، وہ مجھے لے کر چلا، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچا۔ میں نے اس جانور کو (وہاں) ایک کڑے کے ساتھ باندھا، جس کے ساتھ انبیاء(اپنی سواری کو) باندھا کرتے تھے۔ پھر میں وہاں داخل ہوا اور اس کے اندر دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر میں نکلا۔ تب جبریلؑ میرے پاس ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لایا۔ تو میں نے دودھ لے لیا۔ جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کر لیا۔ پھر مجھے آسمانِ دنیا کی جانب چڑھایا گیا، تو جبریل نے (آسمان کا دروازہ) کھولنے کی استدعا کی....“ (صحیح مسلم)

بیت المقدس کا یہ علاقہ اُس زمانہ میں ایلیاءکے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ یہ سب کے سب نام اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مسلمان، مسجد اقصیٰ کو نہایت مقدس اور بابرکت مقام جانتے ہیں۔ قدیم سے مسجد اقصیٰ کے متعدد نام چلے آتے ہیں، مگر کوئی شک نہیں کہ یہ مقام ہمیشہ سے خدائے واحد کی بندگی کے لئے مختص رہا۔ مسلمان جوکہ آج خدائے واحد کی بندگی کا دم بھرتے ہیں اور خدا کے سب کے سب انبیاءومرسلین پر ایمان ان کے اعتقاد کا حصہ ہے، اور ان میں وہ سب انبیاءبھی آتے ہیں جن کو مسجد اقصیٰ کے ساتھ مجاورت کی خاص نسبت رہی، مثلا ابراہیم ؑ، داودؑ، سلیمانؑ اور عیسیٰؑ وغیرہ.... مسلمان ان انبیاءمیں ہرگز کسی تفریق کے قائل نہیں، لہٰذا آج یہ مسلمان ہی اس پاکیزہ و مقدس مقام پر اصل حق رکھنے والے ہیں۔

یہاں ایک غلط العام کی تصحیح کرتے چلیں۔ بعض لوگ غلطی سے مسجد اقصیٰ کیلئے ’حرم‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس مسجد کیلئے حرم کا لفظ البتہ ہمارے شرعی مصادر سے ثابت نہیں۔ شرعی طور پر ’حرم‘ کے وہ احکامات جو مکہ اور مدینہ ہردو حرم پر لاگو ہوتے ہیں، یہاں پر لاگو نہیں ہوتے۔چنانچہ اسلام میں ’حرمین‘ دو ہی ہیں، مکہ اور مدینہ۔ تیسرا کوئی حرم نہیں۔

مسجد اقصیٰ کا احاطہ:

مسجد اقصیٰ کے احاطہ کا رقبہ 144 دونم (144000میٹر مربع) بنتا ہے۔ جوکہ شہر کی پرانی فصیل کے اندر آنے والے کل رقبہ کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ اس کے سب اضلاع ایک برابر نہیں۔ غربی ضلع 491 میٹر، مشرقی 462 میٹر، شمالی 310 میٹر اور جنوبی 281میٹر۔

جو بھی مسجد اقصی کے احاطہ میں داخل ہوجانے کی سعادت پالے، وہ اس کے اندر جہاں بھی نماز پڑھے، خواہ اس احاطہ کے کسی درخت کے نیچے، یا اس کے اندر تعمیر شدہ متعدد گنبدوں میں سے کسی بھی گنبد تلے، یا اس کی کسی بارہ دری میں، یا گنبدِ صخرہ کے اندر، یا جامع قِبلی کے عین بیچ جا کر، ثواب کا سینکڑوں گنا بڑھ جانا اس کے حق میں بہرحال ثابت ہوجاتا ہے۔

عن أبی ذرؓ، قال: تذاکرنا، ونحن عن رسول اللہ ، أیہما أفضل: أمسجد رسول اللہ أم بیت المقدس؟ فقال رسول اللہ : صلۃ فی مسجدی أفضل من أربع صلوات فیہ، ولنعم المصلیٰ ہو، ولیوشکن أن یکون للرجل مثل شطن فرسہ من الأرض، حیث یریٰ منہ بیت المقدس خیر لہ من الدنیا جمیعا۔ قال: أو قال خیر من الدنیا وما فیہا
( أخرجہ الحاکم وصححہ، ووافقہ الذہبی والألبانی، السلسلۃ الصحیحۃ ج 6 ص 946)

روایت ابو ذرؓ سے، کہا: رسول اللہ ﷺ کے ہاں ہمارے مابین تذکرہ ہوگیا کہ کونسا مقام افضل تر ہے، آیا مسجد نبوی یا بیت المقدس؟ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز (بلحاظ اجر) اُس (بیت المقدس) میں چار نمازوں سے بڑھ کر ہے۔اور کیا خوب ہے وہ جائے نماز۔ عنقریب وقت آئے گا کہ آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی جتنی زمین ہونا کہ جس سے اس کی نظر بیت المقدس تک جا سکے، اس کے لئے پوری دنیا سے افضل ہوگا، کہا: یا پھر یہ لفظ کہے: یہ اس کے لئے دنیا وما فیہا سے افضل ہوگا“۔

مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں امام البانیؒ کی ایک وضاحت کا ذکر کردیا جانا خالی از فائدہ نہ ہوگا: البانیؒ کہتے ہیں مسجد اقصیٰ میں نماز کی فضیلت کی بابت جو صحیح ترین حدیث پائی جاتی ہے وہ یہی ہے (ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث)۔ رہی وہ مشہور حدیث جس میں یہ آتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب پانچ سو گنا ہے (ملاحظہ کیجئے ارواءالغلیل 1130 ، الترغیب والترہیب 757 پر البانی کی تخریج) تو وہ ضعیف ہے۔ چنانچہ ابو ذرؓ کی اس صحیح حدیث کی رو سے جو اوپر بیان ہوئی، بیت المقدس کی نماز اجر میں مسجد نبوی کی نماز کی ایک چوتھائی کو پہنچتی ہے، جوکہ بے شمار صحیح احادیث کی رو سے ایک ہزار نماز ہے۔ ایک ہزار کا چوتھائی ڈھائی سو بنتا ہے۔ لہٰذا درست تر بات یہ ہوئی کہ مسجد اقصیٰ میں نماز عام مسجد میں نماز پر ڈھائی سو گنا فضیلت رکھتی ہے۔

مسجد اقصیٰ وہ دوسری عبادت گاہ ہے جو کرۂ ارض پر تعمیر ہوئی:

عن أبی ذر الغفاری، قال: قلت: یا رسول اللہ، أی مسجد وضع فی الأرض أول؟ قال: ”المسجد الحرام“۔ قال: قلت: ثم أی؟ قال: ”المسجد ال أقصیٰ“۔ قلت: کم کان بینہما؟ قال: ” أربعون سنۃ، ثم أینما أدرکتک الصلۃ فصلہ، فاِن الفضل فیہ۔ (رواہ البخاری)

روایت حضرت ابو ذر غفاریؓ سے، کہا: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! کونسی سجدہ گاہ زمین میں پہلے بنی؟ فرمایا: مسجد الحرام۔ کہا: میں نے عرض کی: اس کے بعد کونسی؟ فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے عرض کی: ان دونوں کے مابین کتنا (وقفہ) رہا؟ فرمایا: چالیس سال، پھر جہاں تمہیں نماز کا وقت آلے تو وہیں پر نماز پڑھ لو، کیونکہ فضلیت اسی میں ہے“۔

جس طرح مسجد الحرام کی بار بار تعمیر ہوتی رہی، مسجد اقصیٰ کی بھی متعدد بار تعمیر ہوئی۔ ابراہیم علیہ السلام نے لگ بھگ دو ہزار سال قبل مسیح اس جگہ کو آباد کیا تھا۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری انکے فرزندوں اسحاق اور پھر یعقوب علیہم السلام نے نبھائی۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام نے لگ بھگ ہزار سال قبل مسیح اس کی تجدیدِ تعمیر کی۔ سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں اس مسجد کی تعمیر کی بابت حدیث آتی ہے:

عن عبد اللہ بن عمرو عن النبی  قال: لما فرغ سلیمان بن داود من بناءبیت المقدس سأل اللہ ثلاثا: حکما یصادف حکمہ، وملکا لاینبغی لأحد من بعدہ، و ألا یأتی ہذا المسجد أحد لا یرید اِلا الصلۃ فیہ اِلا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ“۔ فقال النبی : أما اثنتان فقد أعطیہما، و أرجو أن یکون قد أعطی الثالثۃ (سنن ابن ماجۃ، والنسائی، و أحمد)

روایت عبد اللہ بن عمرو سے، کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی سے تین باتوں کیلئے سوال گو ہوئے: یہ کہ آپؑ کو ایسا فیصلہ کرنا عطا ہو جو خدا کے فیصلے کے موافق ہو، یہ کہ ایسی بادشاہت عطا ہو جس کا آپؑ کے بعد کوئی سزاوار نہ ہو، اور یہ کہ جو شخص بھی اس مسجد میں آئے درحالیکہ نماز کے سوا اس کا کوئی مقصد نہ ہو، تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح ہلکا ہو جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا“۔ نبی ﷺ نے فرمایا: دو چیزیں سلیمان علیہ السلام کو عطا ہوگئیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ تیسری بھی آپؑ کو عطا ہوگئی“۔

اسلامی فتح کے بعد، جوکہ 15ھ بمطابق 636ءکو ہوئی، خلیفہ دوم عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں جامع قِبْلی کی تعمیر کروائی، جوکہ مسجد اقصیٰ کا اصل بنیادی حصہ باور ہوتی ہے۔ اموی عہد میں یہاں گنبدِ صخرہ کی تعمیر ہوئی، اور جامع قبلی (مسجد کا سب سے قدیم حصہ جو قبلہ کی جانب سب سے آگے ہے) کی تعمیر نو بھی ہوئی۔ اموی عہد میں یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا جسکی تکمیل میں تیس سال کا عرصہ صرف ہوا، یعنی 66ھ بمطابق 685ءسے لے کر 96ھ بمطابق 715ءتک۔ تاآنکہ مسجد اقصیٰ کا یہ پورا احاطہ اپنی وہ شکل اختیار کر گیا جو کہ اس وقت تک موجود ہے۔

مسجد اقصیٰ کا تقدس:

اہل اسلام کے ہاں مسجد اقصیٰ کا غیر معمولی تقدس، ابتدائے اسلام ہی سے لے کر ایک معروف حقیقت رہا ہے۔ اس مسئلہ کا مسلمانوں کے عقیدہ سے براہ راست تعلق ہے۔ ہمارے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بقعہ ان بے شمار انبیاءکا قبلہ ہے جو محمد ﷺ سے پہلے رہے۔ خود محمد ﷺ کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانۂ کعبہ سے پہلے آپ اسی طرف کو اپنا روئے مبارک کرکے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے تھے۔

پھر دین اسلام کا ایک خاص رشتہ اس بقعۂ ارض کے ساتھ اس رات وجود میں آیا جسے شب اسراءومعراج کہا جاتا ہے۔ وہ رات جب رسول اللہ ﷺ کو جبریلؑ کی معیت میں مسجد الحرام سے لا کر اس مقام کی ایک شبینہ زیارت کرائی گئی۔ یہاں اس مقام پر کھڑے ہو کر آپ کرۂ ارض پر مبعوث ہونے والے انبیاءکے امام ہوئے، اور سب نے اُس مبارک رات آپ کی اقتداءمیں یہاں پر خدائے واحد کی عبادت کی۔ اس تقریب کے اختتام پر آپ کو آسمان کی بلندیوں کی جانب سفر کرایا گیا، یہاں تک کہ رب العالمین سے ہم کلامی ہوئی اور وہاں سے آپ نمازِ پنجگانہ کا تحفہ لے کر زمین پر لوٹے۔

خود قرآن نے اس واقعۂ عظیم کا ذکر کیا اور ایک پوری سورت اسی واقعہ کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس آیت کا ذکر پیچھے ابھی گزرا ہے۔ سورۂ اسراءکی اس آیت کے اندر اس بات کا خاص ذکر کیا گیا کہ ”الذی بارکنا حولہ“ یعنی ہم نے اس کا اردگرد بابرکت کردیا۔ اس آیت سے واضح ہے کہ اسکے اردگرد اللہ نے ایک خاص برکت رکھی ہے، تو پھر اس مسجد کی برکت کا کیا اندازہ !؟ ”الذی بارکنا حولہ“ کے ان الفاظ سے ہی مسلمانوں کے ہاں اس مسجد کی قدر ومنزلت متعین ہوجاتی ہے۔ پس اقصیٰ برکت کا ایک منبع ہے جوکہ اپنے چہار سمت کو بابرکت بناتی ہے۔

مسجد اقصیٰ دین اسلام میں، زمین کے اندر وہ تیسرا مقدس مقام ہے جس کی جانب رختِ سفر باندھنا بجائے خود عبادت ہے۔ مسجد اقصیٰ کا یہ مقام نبی ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

لا تشد الرحال اِلا اِلیٰ ثلاثۃ مساجد: المسجد الحرام، ومسجدی ہذا، والمسجد الأقصیٰ

”کجاوے ہرگز نہ کسے جائیں مگر تین مساجد کی سمت ہی: مسجد الحرام، میری یہ مسجد اور مسجدِ اقصیٰ“۔

ایک حدیث میں جس کی سند میں گو کچھ کلام ہے، البتہ محدث ابن عدیؒ نے ایک گونہ اس کا استحسان کیا ہے، فتنوں کے زمانہ میں اس علاقہ کا رخ کرنے کی فضیلت آتی ہے۔ یہ ذو الاصابع جہنیؓ سے مروی ہے، کہا:

میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم آپ کے بعد زندہ رہنے کی ابتلا پائیں، تو آپ ہمیں کہاں کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”بیت المقدس کو اختیار کرو، کہ شاید تمہاری وہاں کچھ ذریت پلتی رہے جن کا وہاں کی مجلسوں میں صبح شام کا آنا جانا ہوا کرے“

(ذخیر الحفاظ 3 / 1707 محدث ابن القیسرانی نے اس کی سند کو قابل قبول جانا ہے۔ محدث ابن رجبؒ نے عثمان بن عطاءخراسانی کی وجہ سے اس کو ضعیف کہا ہے۔ رسائل ابن رجب 3 / 286 - ماخوذ از ”تیسیر الوصول اِلی احادیث الرسول“)

غرض یہ آیات و احادیث، اور دیگر کثیر دلائل شریعت ثابت کرتے ہیں کہ اس خطۂ ارض کو اسلام اور امت اسلام کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے اور ایک نہایت قوی رشتہ۔ یہاں کی زیارت کو عبادت جاننا اور یہاں پائی جانے والی برکت کو حق جاننا دین اسلام کے اندر صحیح دلائل سے ثابت ہے۔ ہمارے اعتقاد کی رو سے یہ مسجد بھی بابرکت ہے اور وہ سرزمین جس میں یہ پائی جاتی ہے وہ بھی بابرکت ہے۔

مسجد اقصیٰ کے اہم اہم گوشے:

جیسا کہ پیچھے بیان ہوا، مسجد اقصیٰ کا احاطہ متعدد عمارتوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ اس میں بہت سے تاریخی آثار و نشانات ہیں جن کی تعداد دو سو تک پہنچتی ہے، جن میں متعدد نماز گاہیں آتی ہیں، قبہ جات، بارہ دریاں، محرابیں، کئی ایک منبر اور چبوترے، مینار یعنی اذان گاہیں، کنویں وغیرہ پر مشتمل متعدد تاریخی آثار۔
اب ہم یہاں ان میں سے کچھ اہم اہم گوشوں کا تذکرہ کریں گے:

گنبد صخرہ :

گنبدِ صخرہ ایک نہایت خوبصورت ہشت کونہ عمارت ہے۔ اس عمارت پر ایک عظیم الشان سنہری گنبد پورے احاطہ میں سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔گنبد صخرہ کی عمارت اس پورے احاطہ میں قلب کی حیثیت رکھتی ہے۔ نقشہ کے لحاظ سے بھی یہ اس کے عین وسط میں تھوڑا سا بائیں جانب واقع ہے۔ گنبدِ صخرہ اسلامی معماری یادگاروں کے اندر نہایت قدیم اور نہایت مرکزی وعظیم آثار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

گنبدِ صخرہ یا ”قبۃ الصخرۃ“ کا یہ نام کیوں پڑا؟ صخرہ عربی کے اندر ایک بڑے پتھر یا چٹان کو کہا جاتا ہے۔ یہاں وہ چٹان ہے جہاں سے، راجح تر قول کی رو سے، سید المرسلین ﷺ معراج کے سفر کیلئے آسمان کی جانب چڑھے تھے۔ کیونکہ اس پورے مقدس احاطہ میں یہ چٹان ہی سب سے بلند نقطہ ہے۔ بعد ازاں اس چٹان پر، جس کو صخرہ مشرفہ کہا جاتا ہے، ایک عظیم الشان گنبد نما عمارت بنا دی گئی۔ اب آج کل گنبدِ صخرہ کا یہ ہال مسجد اقصیٰ میں آنے والی عورتوں کے لئے نماز گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

’صخرہ‘ ہوا میں معلق چٹان نہیں، جیسا کہ کچھ سنی سنائی بے بنیاد باتوں کی وجہ سے عوام الناس میں مشہور ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ اس مضبوط چٹان کے نیچے کچھ جگہ کھوکھلی ہے، یوں یہ جگہ زیریں جانب سے ایک ’غار نما‘ نقشہ پیش کرتی ہے۔

جامع قِبْلی:

جامع قِبْلی مسجد اقصیٰ کی جنوبی جانب کی عمارت ہے۔ مسجد کا یہ حصہ ہی پورے احاطہ میں قبلہ (مکہ) کی جانب سب سے پہلے آتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام جامع قِبلی پڑ گیا ہے۔ یہ ایک بڑی عمارت ہے۔ اس پر سرمئی رنگ کا ایک گنبد ہے۔ یہ جامع قِبْلی ہی پورے احاطۂ مسجد کے اندر اصل نماز گاہ ہے۔ اسی کے اندر امام خطبہ دینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے، اور یہیں سے نمار کرائی جاتی ہے۔ یہی وہ اصل ہال ہے جس میں مردپانچ وقتہ نماز ادا کرتے ہیں۔

یہ مسجد، یعنی جامع قِبْلی، عین اس جگہ تعمیر ہوئی ہے جہاں خلیفۂ دوئم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس کے سال ( 15ھ) نماز ادا کی تھی۔ اس کی تعمیر نو کے سلسلہ میں یہاں ایک عظیم الشان عمارت کا سنگ بنیاد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے رکھاتھا۔ مگر اس کی تکمیل اس کے بیٹے خلیفہ ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں ہوئی۔

مصلائے مروانی:

مصلائے مروانی، یا مروانی نماز گاہ، مسجد اقصیٰ کے زیرین حصہ میں واقع نماز گاہ ہے، جوکہ جنوب مشرقی سمت میں واقع ہے۔

اَقصائے قدیم:

یہ جامع قِبلی کے زیریں حصہ میں واقع ہے۔ اس جگہ کی تعمیر امویوں کے ہاتھوں ہوئی، جس کا مقصد مسجد کے اگلے حصہ تک ایک شاہی گزرگاہ کا انتظام کرنا تھا تاکہ اموی محلات کی جانب سے، جوکہ اقصیٰ کی حدود کے باہر جنوبی سمت تھے، سے مسجد تک پہنچنے کے لئے یہ گوشہ استعمال میں آئے۔

مسجدِ براق: یہ دیوارِ براق کے پاس واقع ہے۔

ان مقامات کے علاوہ احاطہ میں مندرج ذیل قابل ذکر ہیں:

- متعدد سبیلیں، کنویں اور نشست گاہیں جوکہ اقصیٰ کے گردا گرد پھیلے ہیں۔

- المدرسۃ الأشرفیہ، اس کے علاوہ بھی اقصیٰ مبارک کے اردگرد متعدد مدارس ہیں۔

تعمیرِ اَقصیٰ کی تاریخ:

اس مشہورِ عام مفروضے کے برعکس کہ مسجد اقصی کی تعمیر عبد الملک بن مروان کے ہاتھوں ہوئی، مسجد اقصیٰ کرۂ ارض کی ایک نہایت قدیم نماز گاہ ہے۔ عبد المک بن مروان نے گنبد صخرہ تعمیر کیا نہ کہ مسجد کی بنا رکھی۔ جہاں تک مسجد اقصیٰ کا تعلق ہے تو ہم جانتے ہیں یہ قبلۂ اول رہ چکی ہے۔ کرۂ ارض پر خانۂ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ یہی ہے، جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

مسجد اقصیٰ کی بنا کس نے رکھی؟ راجح تر یہی ہے کہ سب سے پہلے شخص، جنہوں نے اس کی تعمیر کی، آدم علیہ السلام ہیں۔ اس رائے کی رو سے، آدم علیہ السلام نے بیت الحرام کی بنیادیں رکھنے کے چالیس سال بعد اس دوسرے خانۂ خدا کی بنیادیں رکھیں، اور ایسا بہ امر خداوندی ہوا۔ نہ یہاں کوئی کلیسا تعمیر ہوا تھا اور نہ کوئی ’ہیکل‘ اور ’ٹمپل‘۔پھر اس سے ایک مدت دراز بعد خلیل خدا ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت ہوئی جو کفر خانۂ عراق کو خیرباد کہہ کر اس جانب نقل مکاں ہوئے۔ یہ واقعہ کوئی اٹھارہ سو تا دو ہزار سال قبل مسیحؑ کا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام نے بیت الحرام کی بنیادیں از سر نو اٹھائیں اور اسے بنفس نفیس آباد کیا اور پھر اپنے فرزند اسماعیل علیہ السلام کو اس کی آبادی پر مامور کیا۔ بعد ازاں آپ کے دوسرے فرزند اسحاق علیہ السلام اور پھر ان کے فرزند ارجمند یعقوب علیہ السلام خطۂ اقصیٰ کی آبادی پر مامور ہوئے۔ پھر سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں کوئی ہزار سال قبل مسیحؑ مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو ہوئی۔ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح اسلامی کے بعد، جوکہ سن 15 ھ بمطابق 636 ءکا واقعہ ہے، جامع قِبْلی کی تعمیر ہوئی، جوکہ مسجد اقصی کا پیشینی حصہ ہے۔ پھر دولت اموی کے عہد میں گنبدِ صخرہ کی تعمیر ہوئی اور اس کے ساتھ جامع قِبْلی کی تعمیر نو بھی۔ اموی دور کے اس تعمیری منصوبے نے اپنے تکمیل کو پہنچنے میں تیس سال لگائے، یعنی 66 ھ بمطابق 685 ءسے لے کر 96 ھ بمطابق 715 ءتک۔ تب سے اب تک مسجد اقصیٰ اسی نقشے پر قائم ہے۔



کتابچہ کی دیگر فصول

مسجد اقصیٰ ہر مسلمان کا مسئلہ1
مسجدِ اقصیٰ کی بابت جاننے کی کئی ایک باتیں2
مسجد اقصیٰ پر یہودی چیرہ دستیاں مختصر تاریخی جائزہ3
بیت المقدس.. مسلم جسد کا اٹوٹ حصہ4
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز