|
| کلمۂ لا الٰہ الا اللہ میں | |
| نفی کا اِثبات پر مقدم ہونا اسکا مفہوم متعین کرنے میں نہایت اہم ہے۔ | |
کلمہ کے اندر جب تک نفی اور اثبات کا علم حاصل نہ کیا گیا اور نفی اور اثبات کا یہ علم جب تک اسی ترتیب سے نہ لیا گیا جس ترتیب سے یہ کلمہ میں بیان ہوا ہے، یعنی نفی پہلے اور اثبات بعد میں؛ تب تک کلمہ کا علم ناقص اور نامکمل رہے گا۔ ’نفی‘ کے اندر جو چیز باقاعدہ طور پر مطلوب ہے وہ ہے غیر اللہ کی عبادت اور پوجا وپرستش کی سب رائج اشکال کا ذہن میں واضح ہونا اور واضح کر دیا جانا اور پھر ان کو جان کر اور محسوس کرا کر ان کا انکار کرنا۔ جتنا نقص یہاں یعنی اس ”نفی“ کے معاملہ میں رہ جائے گاا اتنا ہی یہ نقص آگے چل کر نمایاں تر ہوگا اور اتنی ہی دین کی محنت بے ثمر بھی ہوگی۔ لہٰذا معلموں، مربیوں اور داعیوں کا کام ہے کہ یہاں کسی ابہام اور غموض کا چھوڑ دیا جانا ہرگز کسی مصلحت کا تقاضا نہ جانیں۔
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا معنیٰ واضح ہو جانے سے بڑھ کر دین کی کوئی مصلحت نہیں۔ اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا معنیٰ غیر واضح رہ جانے سے بڑھ کر کوئی مفسدت نہیں۔ دین کا سب سے بڑا نقصان کوئی ہو سکتا ہے تو وہ یہی کہ کسی فرد یا معاشرے پر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا مفہوم ہی واضح نہ ہو۔
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت کا بیان ہی ناقص اور نامکمل چھوڑ دیا جائے .... خود لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفہوم کے اندر ہی ابہام رہنے دیا جائے تو آخر یہ دین کی کونسی ’مصلحت‘ یا ’حکمت‘ ہو سکتی ہے؟ کونسی مصلحت ہے جو دین کا اتنا بڑا نقصان کر دینے کیلئے ”شرعی دلیل“ ٹھہرتی ہو؟
’کلمہ پر محنت‘ بے انتہا اہم کام ہے۔ مگر یہ محنت کلمہ کی حقیقت کا علم پانے سے شروع ہونی چاہیے۔ نہایت ضروری ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت انبیاءہی کے انداز میں بیانگ دہل بیان کی جائے اور ایک فرد کو پوری بصیرت کے ساتھ اس کلمہ کی حقیقت معلوم کروائی جائے کہ یہ کلمہ اُس سے اور پھر اس کی وساطت اس کے معاشرے بلکہ پوری دنیا سے کہتا کیا ہے۔ جس جس چیز پر اس لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی زد پڑتی ہے ذہن کی دُنیا میں اس کو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی زد میں لانا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا علم لینے کا ہی باقاعدہ حصہ سمجھا جائے۔ ہاں، غیر اللہ کی پوجا پاٹ کا صاف صاف انکار کرنے سے لوگ آپ کی مخالفت پر آمادہ ہوتے ہیں تو عین اسی بات پر لوگ انبیاءکی جان کے بھی دشمن ہوئے تھے۔ یہ تو اِس ”کلمہ“ کا صلہ ہے جو آخرت میں ان شاءاللہ آپ کے درجات بلند کروائے گا اور دنیا میں آپ کی دعوت کو ”حنیفاً و ما کان من المشرکین“ والا رخ دے گا۔ یہ تو انبیاءکا ورثہ ہے۔ ابراہیم ؑ کی ملت ہے۔ موحدین کا سرمایہ ہے۔ اس کو بخوشی قبول کیاجائے البتہ شرک کے معاملہ میں بات کو ’طرح دے جانا‘ ہرگز ہرگز گوارا نہ کیا جائے۔
اللہ سے لو لگانے اور اُس کی عبادت وبندگی اور گرویدگی کی بات کرنے میں یقینا ایک چاشنی ہے اور یہ چاشنی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفہوم میں لازماً آتی ہے۔ مگر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفہوم میں اللہ سے لو لگانے کی یہ چاشنی محسوس کرانا جس قدر ضروری ہے، اور یقینا ضروری ہے، اسی قدر ضروری یہ ہے کہ غیر اللہ کی پرستش ونیاز سے انکار میں جو ایک تلخی پائی جاتی ہے اور طاغوت کی بندگی کی نفی ومذمت میں جو ایک کڑواہٹ ہے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفہوم میں اس تلخی اور اس کڑواہٹ کو بھی صاف محسوس کرایا جائے۔ البتہ یہ کہ خدا کی چاہت وپرستش کی مٹھاس تو پائی جائے مگر عبادتِ غیر اللہ کی رائج اشکال کے انکار کی کڑواہٹ آپ کی دعوت میں عنقا ہو، تو اسکو کلمہ کی محنت نہیں کہا جا سکتا۔ حق یہ ہے کہ اس کو’کلمہ کی محنت‘ تو کجا ’کلمہ کی دعوت‘ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ’کلمہ کا مفہوم‘ ہی نہیں بنتا، ’دعوت‘ تو بعد کی بات ہے۔ کیونکہ اس میں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا نصف جزو بلکہ یوں کہیے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا اولین جزو ہی مفقود ہے .... اور یہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا ناقص بیان ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ اگر محض کوئی لفظ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے تو اس حقیقت کا پورا بیان ہونا اور پورا ہی بتایا اور سنا جانا مطلوب ہے اور آج اپنے اس زمانے کی ایک بڑی ضرورت۔