کلمہ کی ”شروط“ اور چیز ہیں اور کلمہ کے ”تقاضے“ اور چیز | |
| | |
کلمہ کی ”شروط“ pre-conditionsا ور کلمہ کے ”تقاضوں“ compultions کا فرق جان لیا جانا ایک ضروری امر ہے۔ اس فرق کے روپوش ہونے سے ’خارجیت‘ اور ’رجاء‘ کی صورت میں افراط اور تفریط کی بعض صورتیں بھی بر آمد ہوتی ہیں:
لوگوں کو جب کلمہ کی ”شروط“ بتائی جاتی ہیں تو وہ ’کلمہ کی ان شرطوں‘ کو’کلمہ کے تقاضوں‘ کے ہم معنیٰ جان لیتے ہیں۔ چونکہ ایک کثیر تعداد ”شروط“ کو ’تقاضوں‘ کے معنی میں ہی لے بیٹھتی ہے اس لئے وہ کسی داعیِ توحید سے یہ سن کر کہ ”شروطِ لا الہ الا اللہ پوری نہ ہوں تو آدمی کا کلمہ گو ہونا کوئی اعتبار ہی نہیں رکھتا“، اور جوکہ بالکل برحق ہے، کچھ لوگوں کو تعجب ہونے لگتا ہے۔ اگر وہ ”شروط“ اور ”تقاضوں“ کا فرق جان لیں تو شاید اِس پر تعجب نہ کریں۔
جہاں تک کلمہ کے ”تقاضوں“ کا تعلق ہے تو وہ تو بے شمار ہیں اور بلحاظِ اہمیت درجہ بدرجہ تقسیم ہوتے ہیں۔ کلمہ کے ”تقاضے“ تو چھ یا سات نہیں ہیں۔ کلمہ کے ”تقاضوں“ کو پورا کرنے میں تو مومن کو زندگی بتا دینا ہوتی ہے؛ کہیں پر وہ پورا اترتا ہے اور کہیں پر ناکام بھی رہتا ہے۔ ہر شخص کو ہی ”کلمہ کے تقاضوں“ پر محنت کرنا ہوتی ہے.... مگر ”کلمہ کی شرطیں“ اس سے ایک مختلف چیز ہیں۔
کسی چیز کی ’شروط‘ وہ چیز ہیں جن پر اُس چیز کا وجود ہی موقوف ہو۔ یعنی ان کے پورا ہوئے بغیر اُس چیز کا وجود ہی تسلیم نہ کیا جائے گا۔ البتہ اُس کے ’تقاضوں‘ کی نوبت تب آتی ہے جب اُس کا وجود ایک بار معتبر مان لیا جائے۔ چنانچہ اس امر کی ترتیب یوں ہوگی کہ پہلے لا الہ الا اللہ کی شرطیں پوری ہوں گی تو آدمی کا ’کلمہ گو‘ ہونا معتبر ہوگا۔ پھر جب شہادتین یعنی آدمی کا کلمہ گو ہونا معتبر ہوگا تو اُس کے بعد لا الہ الا اللہ کے تقاضے پورے کرنے پر محنت کروائی جائے گی۔
لا الہ الا اللہ کے تقاضے بے شمار ہیں۔ لا الہ الا اللہ کے فکری و نظریاتی تقاضے ہیں۔ شعوری و وجدانی تقاضے ہیں۔ عملی تقاضے ہیں۔ انفرادی تقاضے الگ ہیں، اجتماعی تقاضے الگ۔ ان میں سے کچھ تقاضے، فرائض کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ، مستحبات کا۔ حتیٰ کہ خود فرائض میں درجہ بندی ہے۔ پھر مستحبات میں درجہ بدرجہ تقسیم ہے۔ محرمات و مکروہات سے اجتناب بھی لا الہ الا اللہ کے تقاضوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔ محرمات میں کبائر اور صغائر کی تقسیم الگ ہے۔ غرض دین کے جتنے مطالبے ہیں ان سب پر عمل پیرا ہونا لا الہ الا اللہ کے تقاضوں ہی میں آتا ہے۔ یقینا دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں جن کے ترک سے آدمی کا کفر بھی لازم آتا ہے جبکہ کچھ تقاضے ایسے ہیں جن کے ترک سے محض فسق لازم آتا ہے اور کچھ کے ترک سے محض بلندیِ درجات میں کمی آتی ہے..
مگر لا الہ الا اللہ کی ’شروط‘ بالکل ایک اور چیز ہیں۔ ’شروط‘ کو ’تقاضوں‘ کے ساتھ خلط کردینا ہرگز درست نہیں۔
دین کے بقیہ امور (جوکہ لا الٰہ الا اللہ کے تقاضاجات ہیں) پر محنت بھی بہت ضروری ہے، مگر شروطِ لا الہ الا اللہ پر محنت اس سے کہیں پہلے اور کہیں بڑھ کر ضروری ہے۔ بلکہ دین کے باقی امور پر محنت کا فائدہ مند ہونا ہی اس بات پر منحصر ہے کہ کلمہ کی شروط صحیح طریقے سے ادا کر لی گئی ہو۔
****************
یقینا کسی وقت اہل علم کے بیان میں ایسی عبارتیں آتی ہیں، خصوصاً ”انقیاد“ کے مباحث کے تحت، جن سے لا الٰہ الا اللہ کی شروط اور تقاضوں کے مابین ایک گونہ قربت نظر آتی ہے، مگر اِس سے ان دونوں کو خلط کر دینا درست نہیں۔ علمائے اہل سنت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اِس بات کا قائل ہو کہ: دین کا کوئی ایک بھی تقاضا رہ جانے سے آدمی کا ”کلمہ گو“ ہونا غیر معتبر ہو جاتا ہے۔ ہاں دین کے کسی تقاضے کو چھوڑ دینا ”نواقض اسلام“ میں آتا ہو تو اور بات ہے۔ البتہ علمائے اہل سنت اِس بارے میں نہایت واضح ہیں کہ شروط لا الٰہ الا اللہ میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری ہونے سے رہ جائے تو آدمی کا کلمہ گو ہونا معتبر نہیں رہتا، جیسا کہ آئندہ فصل میں آپ شیخ عبد العزیز الراجحی کے ایک جواب میں بھی ملاحظہ کریں گے۔
بنا بریں، لا الٰہ الا اللہ کی چھٹی اور ساتویں شرط کے حوالے یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:
’انقیاد‘ اور ’تسلیم‘ دونوں یہاں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شروط کے طور پر بیان ہوئے ہیں (دیکھئے: لا الٰہ الا اللہ کی چھٹی اور ساتویں شرط)۔ اس سے ظاہر ہے یہ مراد نہیں کہ انسان پہلے ظاہر وباطن میں دین کے تمام احکام پر عمل پیرا ہو تو پھر جا کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی یہ دو شرطیں (انقیاد اور تسلیم) اس کے حق کے میں پوری ہوں اور تب تک آدمی کی کلمہ گوئی کا اعتبار ہی معلق رہے یعنی آدمی اس وقت تک مسلمان ہی شمار نہ ہو!
دین کے تمام کے تمام احکام پر عمل پیرا ہونا یقینا مطلوب ہے مگر ایسا عملاً ہونے لگنا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضے کے طور پر مطلوب ہے نہ کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شرط کے طور پر۔ جہاں تک تقاضوں کا تعلق ہے تو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے بعض تقاضوں کے ترک کے باوجود آدمی مسلمان شمار ہوگا البتہ جہاں تک شروط کی بات ہے تو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو اس کلمہ کا اقرار سرے سے معتبر نہ ہوگا۔ یعنی شرط کے ترک سے آدمی مسلمان ہی شمار نہ ہوگا۔
چنانچہ دین کے احکام پر بالفعل عملدرآمد کرکے دکھانا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضوں میں آتا ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شرط کے طور پر انقیاد اور تسلیم سے مراد یہ ہے کہ آدمی ظاہراً اور باطناً اس پر آمادہ ہو اور مجسم اطاعت ہو۔
’اعمال‘ کرنا تو دراصل لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کا تقاضا ہی ہے نہ کہ شرط۔ البتہ اعمال کرنے کیلئے ظاہراً اور باطناً ایک آمادگی اور استعداد کا پایا جانا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کی بہرحال شرط ہے۔
یعنی کلمہ پڑھتے ہوئے اگر آدمی کے ذہن میں یہ ہے کہ اس کی حقیقت کے ظاہراً اور باطناً تابع ہونے کیلئے اسے کچھ کرنا کرانا نہیں تو اس کا کلمہ پڑھنا غیر معتبر ہے۔
قرآنی استعمال میں بعض مقامات پر انقیاد کیلئے ’اسلام‘ اور تسلیم کیلئے ’ایمان‘ کا لفظ بھی وارد ہوا ہے۔ خصوصاً دیکھیے سورۃ الحجرات کی آیت 14۔
اس سیاق میں ’اسلام‘ یا ’انقیاد‘ سے مراد خود سپردگی ہے اور ’تسلیم‘ یا ’ایمان‘ سے مراد اس خود سپردگی کے واقعہ کو دل وجان سے قبول کر لینا اور اس پر دل کے خلجان سے آزادی پانا۔
بسا اوقات انقیاد اور تسلیم یا اسلام اور ایمان ایک دوسرے کے ہم معنی بھی استعمال ہوتے ہیں۔
انقیاد اور تسلیم کی اس کیفیت کا آدمی کے ظاہر وباطن میں کم از کم حد تک وجود پانا ہر شخص کے حق میں لازم ہے کیونکہ یہ شہادت کے اعتبار کیلئے باقاعدہ شرط ہے۔