عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 27,2024 | 1445, شَوّال 17
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Shuroot2ndAdition آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
کلمہ کی ”شروط“ اور چیز ہیں اور کلمہ کے ”تقاضے“ اور چیز
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

کلمہ کی ”شروط“ اور چیز ہیں اور کلمہ کے ”تقاضے“ اور چیز

 
   

 

کلمہ کی ”شروط“ pre-conditionsا ور کلمہ کے ”تقاضوں“ compultions کا فرق جان لیا جانا ایک ضروری امر ہے۔ اس فرق کے روپوش ہونے سے ’خارجیت‘ اور ’رجاء‘ کی صورت میں افراط اور تفریط کی بعض صورتیں بھی بر آمد ہوتی ہیں:

لوگوں کو جب کلمہ کی ”شروط“ بتائی جاتی ہیں تو وہ ’کلمہ کی ان شرطوں‘ کو’کلمہ کے تقاضوں‘ کے ہم معنیٰ جان لیتے ہیں۔ چونکہ ایک کثیر تعداد ”شروط“ کو ’تقاضوں‘ کے معنی میں ہی لے بیٹھتی ہے اس لئے وہ کسی داعیِ توحید سے یہ سن کر کہ ”شروطِ لا الہ الا اللہ پوری نہ ہوں تو آدمی کا کلمہ گو ہونا کوئی اعتبار ہی نہیں رکھتا“، اور جوکہ بالکل برحق ہے، کچھ لوگوں کو تعجب ہونے لگتا ہے۔ اگر وہ ”شروط“ اور ”تقاضوں“ کا فرق جان لیں تو شاید اِس پر تعجب نہ کریں۔

جہاں تک کلمہ کے ”تقاضوں“ کا تعلق ہے تو وہ تو بے شمار ہیں اور بلحاظِ اہمیت درجہ بدرجہ تقسیم ہوتے ہیں۔ کلمہ کے ”تقاضے“ تو چھ یا سات نہیں ہیں۔ کلمہ کے ”تقاضوں“ کو پورا کرنے میں تو مومن کو زندگی بتا دینا ہوتی ہے؛ کہیں پر وہ پورا اترتا ہے اور کہیں پر ناکام بھی رہتا ہے۔ ہر شخص کو ہی ”کلمہ کے تقاضوں“ پر محنت کرنا ہوتی ہے.... مگر ”کلمہ کی شرطیں“ اس سے ایک مختلف چیز ہیں۔

کسی چیز کی ’شروط‘ وہ چیز ہیں جن پر اُس چیز کا وجود ہی موقوف ہو۔ یعنی ان کے پورا ہوئے بغیر اُس چیز کا وجود ہی تسلیم نہ کیا جائے گا۔ البتہ اُس کے ’تقاضوں‘ کی نوبت تب آتی ہے جب اُس کا وجود ایک بار معتبر مان لیا جائے۔ چنانچہ اس امر کی ترتیب یوں ہوگی کہ پہلے لا الہ الا اللہ کی شرطیں پوری ہوں گی تو آدمی کا ’کلمہ گو‘ ہونا معتبر ہوگا۔ پھر جب شہادتین یعنی آدمی کا کلمہ گو ہونا معتبر ہوگا تو اُس کے بعد لا الہ الا اللہ کے تقاضے پورے کرنے پر محنت کروائی جائے گی۔

لا الہ الا اللہ کے تقاضے بے شمار ہیں۔ لا الہ الا اللہ کے فکری و نظریاتی تقاضے ہیں۔ شعوری و وجدانی تقاضے ہیں۔ عملی تقاضے ہیں۔ انفرادی تقاضے الگ ہیں، اجتماعی تقاضے الگ۔ ان میں سے کچھ تقاضے، فرائض کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ، مستحبات کا۔ حتیٰ کہ خود فرائض میں درجہ بندی ہے۔ پھر مستحبات میں درجہ بدرجہ تقسیم ہے۔ محرمات و مکروہات سے اجتناب بھی لا الہ الا اللہ کے تقاضوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔ محرمات میں کبائر اور صغائر کی تقسیم الگ ہے۔ غرض دین کے جتنے مطالبے ہیں ان سب پر عمل پیرا ہونا لا الہ الا اللہ کے تقاضوں ہی میں آتا ہے۔ یقینا دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں جن کے ترک سے آدمی کا کفر بھی لازم آتا ہے جبکہ کچھ تقاضے ایسے ہیں جن کے ترک سے محض فسق لازم آتا ہے اور کچھ کے ترک سے محض بلندیِ درجات میں کمی آتی ہے..

مگر لا الہ الا اللہ کی ’شروط‘ بالکل ایک اور چیز ہیں۔ ’شروط‘ کو ’تقاضوں‘ کے ساتھ خلط کردینا ہرگز درست نہیں۔

دین کے بقیہ امور (جوکہ لا الٰہ الا اللہ کے تقاضاجات ہیں) پر محنت بھی بہت ضروری ہے، مگر شروطِ لا الہ الا اللہ پر محنت اس سے کہیں پہلے اور کہیں بڑھ کر ضروری ہے۔ بلکہ دین کے باقی امور پر محنت کا فائدہ مند ہونا ہی اس بات پر منحصر ہے کہ کلمہ کی شروط صحیح طریقے سے ادا کر لی گئی ہو۔

 

****************

 

یقینا کسی وقت اہل علم کے بیان میں ایسی عبارتیں آتی ہیں، خصوصاً ”انقیاد“ کے مباحث کے تحت، جن سے لا الٰہ الا اللہ کی شروط اور تقاضوں کے مابین ایک گونہ قربت نظر آتی ہے، مگر اِس سے ان دونوں کو خلط کر دینا درست نہیں۔ علمائے اہل سنت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اِس بات کا قائل ہو کہ: دین کا کوئی ایک بھی تقاضا رہ جانے سے آدمی کا ”کلمہ گو“ ہونا غیر معتبر ہو جاتا ہے۔ ہاں دین کے کسی تقاضے کو چھوڑ دینا ”نواقض اسلام“ میں آتا ہو تو اور بات ہے۔ البتہ علمائے اہل سنت اِس بارے میں نہایت واضح ہیں کہ شروط لا الٰہ الا اللہ میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری ہونے سے رہ جائے تو آدمی کا کلمہ گو ہونا معتبر نہیں رہتا، جیسا کہ آئندہ فصل میں آپ شیخ عبد العزیز الراجحی کے ایک جواب میں بھی ملاحظہ کریں گے۔

بنا بریں، لا الٰہ الا اللہ کی چھٹی اور ساتویں شرط کے حوالے یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:

’انقیاد‘ اور ’تسلیم‘ دونوں یہاں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شروط کے طور پر بیان ہوئے ہیں (دیکھئے: لا الٰہ الا اللہ کی چھٹی اور ساتویں شرط)۔ اس سے ظاہر ہے یہ مراد نہیں کہ انسان پہلے ظاہر وباطن میں دین کے تمام احکام پر عمل پیرا ہو تو پھر جا کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی یہ دو شرطیں (انقیاد اور تسلیم) اس کے حق کے میں پوری ہوں اور تب تک آدمی کی کلمہ گوئی کا اعتبار ہی معلق رہے یعنی آدمی اس وقت تک مسلمان ہی شمار نہ ہو!

دین کے تمام کے تمام احکام پر عمل پیرا ہونا یقینا مطلوب ہے مگر ایسا عملاً ہونے لگنا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضے کے طور پر مطلوب ہے نہ کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شرط کے طور پر۔ جہاں تک تقاضوں کا تعلق ہے تو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے بعض تقاضوں کے ترک کے باوجود آدمی مسلمان شمار ہوگا البتہ جہاں تک شروط کی بات ہے تو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو اس کلمہ کا اقرار سرے سے معتبر نہ ہوگا۔ یعنی شرط کے ترک سے آدمی مسلمان ہی شمار نہ ہوگا۔

چنانچہ دین کے احکام پر بالفعل عملدرآمد کرکے دکھانا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضوں میں آتا ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شرط کے طور پر انقیاد اور تسلیم سے مراد یہ ہے کہ آدمی ظاہراً اور باطناً اس پر آمادہ ہو اور مجسم اطاعت ہو۔

’اعمال‘ کرنا تو دراصل لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کا تقاضا ہی ہے نہ کہ شرط۔ البتہ اعمال کرنے کیلئے ظاہراً اور باطناً ایک آمادگی اور استعداد کا پایا جانا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کی بہرحال شرط ہے۔

یعنی کلمہ پڑھتے ہوئے اگر آدمی کے ذہن میں یہ ہے کہ اس کی حقیقت کے ظاہراً اور باطناً تابع ہونے کیلئے اسے کچھ کرنا کرانا نہیں تو اس کا کلمہ پڑھنا غیر معتبر ہے۔

قرآنی استعمال میں بعض مقامات پر انقیاد کیلئے ’اسلام‘ اور تسلیم کیلئے ’ایمان‘ کا لفظ بھی وارد ہوا ہے۔ خصوصاً دیکھیے سورۃ الحجرات کی آیت 14۔

اس سیاق میں ’اسلام‘ یا ’انقیاد‘ سے مراد خود سپردگی ہے اور ’تسلیم‘ یا ’ایمان‘ سے مراد اس خود سپردگی کے واقعہ کو دل وجان سے قبول کر لینا اور اس پر دل کے خلجان سے آزادی پانا۔

بسا اوقات انقیاد اور تسلیم یا اسلام اور ایمان ایک دوسرے کے ہم معنی بھی استعمال ہوتے ہیں۔

انقیاد اور تسلیم کی اس کیفیت کا آدمی کے ظاہر وباطن میں کم از کم حد تک وجود پانا ہر شخص کے حق میں لازم ہے کیونکہ یہ شہادت کے اعتبار کیلئے باقاعدہ شرط ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز