عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 27,2024 | 1445, شَوّال 17
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Shuroot2ndAdition آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ کے ’الفاظ‘ یا ’گنتی‘ اہم نہیں
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ کے ’الفاظ‘ یا ’گنتی‘ اہم نہیں

 
   

 

جامعہ ام القریٰ مکہ المکرمہ، فیکلٹی ”عقیدہ“ کے سابق ڈین شیخ سفر الحوالی اپنے ایک محاضرہ بہ عنوان ” أعمال القلوب“ میں کہتے ہیں:

 

”ہمارا یہ محاضرہ ”اعمال القلوب“ کے عنوان سے ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ عین وہی چیز ہیں جن کو علماء”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک جہت سے یہ ”لا الٰہ الا اللہ“ کی شروط ہیں جبکہ دوسری جہت سے یہ قلوب کے کرنے کچھ عظیم اعمال ہیں، کہ جن پر قلب اور جوارح کے دیگر سب اعمال کا دار و مدار ہے۔ ان کو ”اعمال القلوب“ کہیں یا ”شروط لا الٰہ الا اللہ“ ہر دو بات میں ہرگز کوئی تعارض نہیں۔ درحقیقت یہ ایک ہی چیز ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا، اِن اعمال کی بنتی کچھ ایسی ہے کہ یہ باہم جڑے ہوئے اور ایک دوسرے کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ قلوب کے اعمال باطن میں پائی جانے والی ایک حقیقت ہیں، جبکہ باطن کے اعمال کو اُس طرح الگ الگ کر دینا بے حد مشکل ہے جس طرح کہ ظاہری اعمال کو الگ الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور آپ بڑے آرام سے ’حج‘ اور ’روزہ‘ کو الگ الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ ’زکات‘ اور ’نماز“ کو بڑی آسانی کے ساتھ علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ قلبی اعمال کا یہ معاملہ نہیں۔ قلبی اعمال میں بطور مثال ’یقین‘ آتا ہے۔ ’اخلاص‘ آتا ہے۔ ’گرویدگی‘ آتی ہے۔ ’توکل‘، ’رضا‘، ’صدق اور وفاء‘ اور ایسے ہی کچھ دیگر اعمال آتے ہیں۔ یہ سب اعمال ایسے ہیں کہ ساتھ ساتھ ہی پائے جا سکتے ہیں بلکہ آپس میں گڈمڈ ہوتے ہیں۔ ظاہری اعمال کی طرح ان کا الگ الگ ہونا ممکن نہیں۔ گو اگر آپ ان کے آثار و نتائج پر غور کریں اور ان کے حقائق کی تہہ میں جائیں تو آپ محسوس کریں گے کہ بے شک یہ ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں پھر بھی ان کے مابین ایک فرق یقینا ہے۔

ان قلبی اعمال میں ”اخلاص“ تو بطورِ خاص دیگر اعمال سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ ”اخلاص“ ہوتا ہی نہیں جب تک کہ دیگر قلبی اعمال اِس کے ساتھ جڑے ہوئے نہ ہوں۔ خاص طور پر ”صدق و وفاء“۔ کیونکہ جہاں دروغ اور غدر ہو گا وہاں ”اخلاص“ کا کیا کام؟ نہ لغت کے اعتبار سے، نہ عرف کے اعتبار سے اور نہ شرع کے اعتبار سے۔ ”اخلاص“ جب بھی پایا جائے گا ”صدق و وفاء“ کے ہمراہ پایا جائے گا۔ (از محاضرہ: من أعمال القلوب الاِخلاص)

علماءکے مابین شروطِ لا الٰہ الا اللہ کو بیان کرنے کے متعدد اسلوب پائے گئے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے جو اوپر شیخ سفر الحوالی کے کلام میں بیان ہوئی۔ بسا اوقات ایک عالم ایک ہی عنوان کے تحت کئی ایک شروط بیان کر دیتا ہے اور بسا اوقات وہ ان شروط کو الگ الگ عنوانات کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ لہٰذا طالب علموں پر ایک تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ ”شروط لا الٰہ الا اللہ“ کو بیان کرنے کیلئے کیا الفاظ یا عنوانات اختیار کئے جاتے ہیں، یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں آدمی اٹک کر رہ جائے۔ دوسرا، یہ واضح رہنا چاہیے کہ اِن شروط کی گنتی اہم نہیں کہ آیا یہ چھ ہیں یا سات یا آٹھ۔ اصل چیز وہ حقائق ہیں جو اِن شروط کے تحت بیان میں آنا چاہییں۔ کسی کے بیان میں ان کی تعداد زیادہ آئے اور کسی کے بیان میں کم، اِس سے ہرگز کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اِسی ضمن شیخ عبد العزیز الراجحی(1) کا ایک جواب دیکھ لینا بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا۔ عقیدہ طحاویہ پر اپنے سلسلۂ دروس میں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

سوال: بعض اہل علم شروط لا الٰہ الا اللہ کو دو ہی شرطوں میں سمیٹ دیتے ہیں: ایک ”علم“ اور دوسری ”اخلاص“۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ ساتوں کی ساتوں شرطیں دو ہی شرطوں کی طرف لوٹائی جا سکتی ہیں۔

جواب: جی ہاں، یہ از راہِ اختصار ہوتا ہے۔ کیونکہ ”صدق“ جس کے ہوتے ہوئے ”نفاق“ کی گنجائش نہ رہنے دی گئی ہو، ”اخلاص“ ہی میں آجاتا ہے۔ ”یقین“ کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ تاہم جس وقت تفصیل کے ساتھ یہ اشیاءبیان کرنا ہوں تو ان کو علیحدہ علیحدہ بیان کرنا ہی اولیٰ ہے۔

(شرح عقیدہ طحاویہ از شیخ عبد العزیز الراجحی حصہ اول 1، ص 26)

اہم چیز چونکہ وہ ”حقائق“ ہیں جو اِن شروط کے تحت بیان ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بات نہایت واضح کر دی جانی چاہیے کہ علماءنے لا الٰہ الا اللہ کی جو شروط بیان کی ہیں، قطع نظر اِس سے کہ ان کیلئے کیا الفاظ اور پیرائے استعمال ہوئے اور ان کی گنتی کس طرح کی گئی، کسی شخص کے ہاں اِن میں سے اگر ایک بھی شرط پوری ہونے سے رہ جاتی ہے تو اُس کا لا الٰہ اللہ کہنا ہرگز ہرگز معتبر نہیں۔ ہاں اِس نقطہ کی بابت البتہ کوئی غموض اور ابہام نہ چھوڑنا چاہیے۔ یہ بے حد واشگاف کر کے بیان کر دینا چاہیے۔

شیخ عبد العزیز الراجحی اپنے اسی سلسلۂ دروس میں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

سوال: شروطِ لا الٰہ الا اللہ میں سے اگر کوئی ایک شرط پوری ہونے سے رہ گئی ہو، جبکہ باقی سب کی سب شروط پوری کر لی گئی ہوں، تو کیا ایسے شخص کو یہ کلمہ فائدہ دے گا؟

جواب: یہ سب کی سب پائی جانی چاہییں۔ اب مثلاً ”علم“ کی شرط پوری ہونے سے رہ گئی ہے اور آدمی اِس کی حقیقت سے ہی جاہل ہے، اُس کو یہ کلمہ فائدہ نہ دے گا۔ ”اخلاص“ کی شرط پوری ہونے سے رہ گئی ہے اور آدمی خدا کے ساتھ اوروں کو شریک کرتا ہے، اُس کو کلمہ فائدہ نہ دے گا۔ ”یقین“ کی شرط پوری نہیں ہوئی اور آدمی شک کرنے والوں میں سے ہے اُس کو کلمہ فائدہ نہ دے گا۔ ”صدق اور وفاء“ کی شرط پوری نہیں ہوئی اور آدمی منافق ہے، اُس کو کلمہ فائدہ نہ دے گا۔ ”محبت اور گرویدگی“ کی شرط پوری نہیں ہوئی اور آدمی اہل ایمان اور اہل توحید سے بغض پال کر رکھتا ہے، اُس کو کلمہ فائدہ نہ دے گا۔ ”قبول“ کی شرط پوری نہیں ہوئی، یعنی اُس کے دل نے اِس کلمہ کو تسلیم ہی نہیں کیا، اُس کو یہ فائدہ نہ دے گا۔ ”انقیاد“ کی شرط پوری نہ ہوئی، یعنی کلمہ کے حقوق کی فرماں برداری اختیار کرنے پر تیار نہیں، لا الہٰ الا اللہ کہتا ہے مگر اِس کے حقوق کے آگے سپر ڈالنے پر تیار نہیں.... اِن سب ہی شروط کو پورا کرنا ہوگا۔

(شرح عقیدہ طحاویہ از شیخ عبد العزیز الراجحی حصۂ اول 1، ص 27)

اوپر جو مباحث بیان ہوئے، ان کی روشنی میں.... شروطِ لا الہ الا اللہ کے ضمن میں دو اور باتیں اختصار سے واضح ہو جانا ضروری ہے:

 

پہلی بات:

یہ کہ لوگوں پر لا الہ الا اللہ کی شروط واضح کرنا ایک تعلیمی اور دعوتی عمل ہے۔ ان کی بدولت ایک انسان اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کلمہ گو کہنے میں کہاں تک حق بجانب ہے۔ البتہ جس وقت دوسروں پر فتویٰ لگانے کیلئے شروطِ لا الہ الا اللہ کو بنیاد بنانے کا سوال ہو وہاں بلا شبہہ کچھ شرعی رکاوٹیں بھی پائی جا سکتی ہیں۔

نواقضِ اسلام کے برعکس، شروطِ لا الہ الا اللہ کا معاملہ زیادہ تر انسانوں کی گرفت میں آنے والا نہیں۔ یہ بات شروطِ لا الہ الا اللہ پر ایک نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتی ہے۔ مثلاً لا الہ الا اللہ کی شرط ہے کہ آدمی کو اِس کی حقیقت کا علم ہو۔ یقین ہو۔ اِس کے لئے اُس میں اخلاص ہو۔ صدق و وفا ہو۔ محبت ہو وغیرہ وغیرہ۔ اب کسی دوسرے کی بابت یہ فیصلہ کرنا کہ کہاں تک اُس (دوسرے) نے لا الہ الا اللہ کی حقیقت کا علم لیا ہے، کہاں تک اُس کو اِس پر یقین حاصل ہے، کہاں تک اُس میں اِس کے لئے اخلاص پایا جاتا ہے، اور کہاں تک وہ اِس سے محبت کرتا ہے.... کسی دوسرے کی بابت یہ فیصلہ کرنا ظاہر ہے کہ آسان نہیں، بلکہ بیشتر حالات کے اندر یہ غیر ضروری بھی ہوتا ہے۔ شروطِ لا الہ الا اللہ کی نشر و اشاعت دراصل ایک تعلیمی، دعوتی، تربیتی اور تحریکی ضرورت ہے، مگر دوسروں پر ان کی تطبیق ایک الگ موضوع ہے۔پس یہی ضروری ہے کہ ہمارے داعی و داعیات دعوت کے اندر ہی اِس کو ایک اہم موضوع بنائیں، البتہ دوسروں پر اِن کے لاگو کیا جانا کسی وقت ضروری بھی نظر آتا ہو تو اس کو اہلِ علم پر چھوڑ دیں۔

 

دوسری بات:

یہ کہ شروطِ لا الہ الا اللہ کے پورا کیا جانے کی ایک کم از کم حد ہے، اور وہ ہر شخص سے ہی ہر حال میں مطلوب ہے۔ البتہ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ یوں تو اعضاءو جوارح کے عمل کا بھی یہی معاملہ ہے مگر قلبی اعمال میں تو ’زیادہ سے زیادہ‘ کی بہت گنجائش ہے۔ اب مثلاً لا الہ الا اللہ کی حقیقت کا علم ہے، جو کہ کلمہ کی پہلی شرط ہے، تو ظاہر ہے حقیقتِ لا الہ الا اللہ کا علم پانے کی کوئی حد نہیں۔ یقین ہے، جو کہ دوسری شرط ہے، اِس کی کوئی انتہا نہیں۔ اخلاص ہے، صدق و وفا ہے، کلمہ کیلئے محبت اور وارفتگی ہے، اِس کے حقوق کا اپنے آپ کو پابند پانا اور اس کی حقیقت کے آگے آدمی کا سرِ تسلیم خم ہوا ہونا.... اِن سب امور میں کوئی ایسا خاص نقطہ نہیں جس سے آگے آپ کہہ دیں کہ اب مزید کچھ نہیں۔ لہٰذا شروطِ لا الہ الا اللہ کا کم از کم حد تک پورا کرنا جہاں ایک متعین defined فریضہہے وہاں اس میں زیادہ سے زیادہ آگے جانا انسان کی قلبی و شعوری سعی کا ایک کھلا میدان ہے؛ کوئی جتنا چاہے اِس میں آگے بڑھے اور اپنے عمل کی قبولیت کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنائے۔


(1) جامعہ الامام محمد بن سعود، ریاض، سعودی عرب میں ”عقیدہ“ کے استاد۔ عقیدہ پر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے کئی ایک مقالات کے سپروائزر رہ چکے ہیں۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز