|
| چند اقتباسات از | |
| قرۃ عیون الموحدین | |
اس بات کی انتہائی اہمیت کے پیشِ نظر کہ لا الہ الا اللہ کا پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ شروط کے ساتھ پڑھا ہونا ضروری ہے اور پھر ساری زندگی ان شروط پر کاربند رہنے سے ہی کلمہ معتبر رہتا ہے، ذیل میں ہم ایک معروف عالمِ توحید شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد کے کچھ اقوال نقل کریں گے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللہﷺ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذاً اِلَی الْیَمَنِ قَالَ لَہٗ: اِنَّکَ تَأْتِیْ قَوْماً مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابَ، فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ شَہَادَۃُأَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ - الحدیث
”ابن عباسؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے جب معاذؓ کو یمن کی جانب نمائندہ بنا کر بھیجا تو ان سے کہا: دیکھو! تم ایک اہلِ کتاب قوم کے ہاں جارہے ہو۔ اس لئے سب سے پہلی بات جس کی تم انکو دعوت دو یہ ہونی چاہیے کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیں“
اس حدیث میں جو اہلِ کتاب مذکور ہیں وہ یہود اور نصاریٰ ہیں جو اُس وقت یمن میں آباد تھے۔ ان کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا: فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ شَہَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ یعنی سب سے پہلی بات جس کی تم انکو دعوت دو یہ ہونی چاہیے کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیں۔
جبکہ یہ کلمہ تو وہ کہتے تھے۔ مگر وہ اس کے معنیٰ اور حقیقت سے جاہل تھے جوکہ در اصل اسکا مفہوم ہے، یعنی کل عبادت ایک اللہ وحدہ لا شریک کیلئے خالص کردی جائے اور اسکے ماسوا کی عبادت اور پیروی چھوڑ دی جائے۔ چنانچہ وہ لا الہ الا اللہ کہتے مگر یہ ان کو فائدہ نہ دیتا تھا۔ وہ اس کلمہ کے معنیٰ و مطلب سے ایسے ہی ناواقف و نا بلد تھے جیسے اس امت کے آخری دور کی اکثریت کا حال ہے۔ چنانچہ آج وہ یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور ساتھ میں مردوں، غائب ہستیوں، طاغوتوں اور درگاہوں کی عبادت کی صورت میں شرک کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ اس طرح یہ اس کلمہ کے منافی امور کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یعنی اپنے اعتقاد، اپنے قول اور اپنے فعل کے ذریعے وہ عین اس شرک کا اثبات کرتے ہیں جس کی یہ کلمہ نفی کرتا ہے اور عین اس اخلاصِ بندگی کی نفی کرتے ہیں جس کا یہ کلمہ اثبات کرتا ہے۔ متکلمین اور اشاعرہ کی پیروی میں وہ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ اس کلمہ کا مطلب ہے ” پیدا کرنے پر اللہ تعالیٰ کا قادر ہونا“۔ جبکہ یہ تو وہ توحیدِ ربوبیت ہے جس کا پہلے مشرک بھی اقرار کرتے تھے مگر اس اقرار سے وہ داخلِ اسلام نہ ہو پاتے تھے....
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْهَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران:64)
”کہو: اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے .... اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم (صرف اللہ کی اطاعت وعبادت کرنے والے) ہیں“
چنانچہ یہ ہے وہ توحید جوکہ اصل اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ(یوسف:40)
”حکم وقانون کا حق ایک اللہ کو ہے۔ اس کا امر ہے کہ ایک اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی دینِ قیم ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے“(1)
عبادہ بن الصامت سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
مَنْ شَہِدَأَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، وَأَنَّ عِیْسَیٰ عَبْدُ اللہ وَرَسُوْلُہٗ وَکَلِمَتُہٗ الَّتِیْ أَلْقَاہَا اِلیٰ مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ، وَأَنَّ الْجَنَّۃ حَقٌّ، وَالنَّارَ حَقٌّ،أَدْخَلَہُ اللہ الْجَنَّۃ عَلیٰ مَا کَانَ مِنَ الْعَمَلِ
”جس نے یہ شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں وہ یکتا و لاشریک ہے، اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور یہ کہ عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے اور رسول تھے اور اُس کا وہ فرمان جسے اللہ نے مریم ؑ کی جانب القا کیااور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے، اور یہ کہ جنت برحق ہے اور دوزخ برحق ہے، اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا، خواہ اُس کا عمل کیسا بھی ہو“
آپ ﷺ نے فرمایا ہے: مَنْ شَہِدَ یعنی ”جس نے شہادت دی“۔ اس بات میں شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ شہادت، شہادت ہوتی ہی نہیں جب تک وہ علم، وثوق اور صدقِ دل سے نہ دی جائے۔ اور جو جہالت اور شک کی حالت میں سرزد ہو وہ ’شہادت‘ نہ تو معتبر ہوتی ہے اور نہ فائدہ مند۔ ایسی حالت میں تو ’شہادت‘ دینے والا جھوٹا ہوتا ہے کیونکہ جس بات کی وہ ’شہادت‘ دے رہا ہے اس کے مطلب سے وہ آگاہ تک نہیں جبکہ یہ عظیم الشان کلمہ تو پہلے ایک نفی و انکار پر مشتمل ہے اور پھر ایک اثبات و اقرار پر۔ نفی و انکار ایک اللہ کے سو ہر ایک کی الوہیت اور خدائی کا، جب آپ ”لا الہ“ کہہ دیں۔ اور اثبات و اقرار اللہ وحدہ لا شریک کی الوہیت اور فرماں روائی کا جب آپ ”الا اللہ“ کہہ دیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران:18)
”’اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ ایک اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اور فرشتے اورسب اہلِ علم بھی راستی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ اُس زبر دست و دانا کے سوا فی الواقع کوئی عبادت کے لائق نہیں“۔
سو کتنے گمراہ ہو جانے والے اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ وہ اس کلمہ کے مطلب اور معنیٰ سے نا آشنا و نابلد تھے۔ بلکہ اکثریت ایسوں کی ہے۔ اِنہوں نے اس کے معنی کی حقیقت ہی الٹ کر رکھ دی؛ جس الوہیت کی اس کلمہ میں نفی کروائی گئی تھی اُسی الوہیت کا اثبات وہ مخلوق ہستیوں کیلئے کرنے لگے، وہ مزاروں اور قبروں کی صورت میں بنائے گئے رب ہوں، طاغوت ہوں، اشجار و احجار ہوں یا جنات و شیاطین۔ اسی کو یہ لوگ دین بنا بیٹھے ہیں۔ اسی کی تزئین و آرائش میں لگے ہیں۔ توحید کو اب یہ بدعت کا درجہ دیتے ہیں۔ جو اِنہیں اس توحید کی دعوت دے اُسے یہ برا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اِنہوں نے اِس کلمہ کا مطلب اُتنا بھی نہ جانا جتنا کہ کفارِ قریش ایسے اہلِ جاہلیت جان گئے تھے۔ بات یہ ہے کہ وہ لوگ اس کلمہ کے مطلب سے آگاہ ہو کر اس بات سے انکاری تھے جو یہ کلمہ خالص عبادت اور بندگی کی صورت میں اُن سے تقاضا کرتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کی بابت ذکر کیا:
إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ۔وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ۔ (الصافات: 35- 36)
”یہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں“
جبکہ اس امت کے آخری دور کے مشرکوں نے بھی انکار تو اسی بات کا کیا جس کا انکار ان سے پہلوں نے کیا تھا، جو کہ اِنکے جوابات دینے میں اِن کا وتیرہ ہوتا ہے اور صاف نظر آتا ہے جب کبھی آپ انہیں ان قبروں، مزاروں اور طاغوتوں کی عبادت سے ٹوکیں اور ان ہستیوں کی بندگی اور پیروکاری سے، جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، ان کو روک کر دیکھیں ۔ بات یہ ہے اُن لوگوں نے اس کے معنیٰ کو جان کر اسکا انکار کیا تھا اور اِن لوگوں نے اس کے معنیٰ سے جاہل رہ کر اسکا انکار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اب ایسے لوگ ملیں گے جو بیک وقت لا الہ الا اللہ بھی کہتے ہیں اور اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی پکارتے ہیں!!
امام بقاعیؒ کہتے ہیں:
”لا الہ الا اللہ کا مطلب ہے اس بات کی صاف کھلم کھلا نفی کہ اُس عظیم ترین بادشاہِ مطلق کے سوا کوئی اور معبودیت اور خدائی کے لائق ہو“۔
پھر فرماتے ہیں:
”اس کلمہ کی حقیقت کا ادراک رکھنا ہی وہ اصل سہارا ہے جو قیامت کی ہولناک ساعتوں میں نجات کا باعث ہوگا۔ مگر یہ ’علم‘ تو تب ہوگا جب یہ فائدہ مند بھی ہو اور فائدہ مند تب ہوگا جب اس کے آگے انسان تسلیم ہو جائے اور اس کے تقاضوں پر آمادۂ عمل ہو، ورنہ تو یہ ”علم“ کہاں نری جہالت ہے“(2)
(1) قرۃ عیون الموحدین شرح کتاب التوحید، باب پنجم الدعاءالیٰ شہادۃأَن لا الہ الا اللہ
(2) قرۃ عیون الموحدین شرح کتاب التوحید، باب دوئم فضل التوحید وما یکفر من الذنوب