عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Shuroot2ndAdition آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
چھٹی اور ساتویں شرط انقیاد و تسلیم
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

 
 

لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی چھٹی اور ساتویں شرط

 
 

انقیاد و تسلیم

 

چھٹی شرط یہ ہے کہ انسان خلوصِ دل کے ساتھ، اللہ کی خوشنودی طلب کرتے ہوئے، اس کلمہ کے حقوق یعنی فرائض و واجبات ادا کرنے پر کار بند ہونا قبول کر چکا ہو۔ اس کو ”انقیاد“ کہتے ہیں۔

 

ساتویں شرط یہ ہے کہ آدمی نے اس کلمہ کے حقوق کو (ظاہر میں ہی نہیں) دل سے مان لینا بھی قبول کر لیا ہو، یوں کہ اس کی کوئی بات رد کر دینے کا اس کے ہاں تصور تک باقی نہ رہ گیا ہو۔ اس کو ”تسلیم“ کہتے ہیں۔

 

توضیح:

کلمہ کی چھٹی شرط ”انقیاد“ اور ساتویں شرط ”تسلیم“ بتائی گئی ہے۔

”انقیاد“ عملی اور ظاہری طور پر تابع فرمان ہو جانا ہے اور ”تسلیم“ قلبی وباطنی طور پر تابع ہونا۔ ”انقیاد“ کا مطلب ہے حکم کی تعمیل اور ”تسلیم“ کا مطلب ہے دل سے اس پر راضی بہ رضا ہو جانا اور عین اسی کو برحق ماننا۔ ”انقیاد“ رویے میں تابع فرمان ہو جانا ہے اور ”تسلیم“ قلبی کیفیات میں رام ہو جانا۔ یہ دونوں باتیں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شہادت معتبر ہونے کیلئے شرط ہیں۔ چنانچہ ظاہر اور باطن میں اس حقیقت کے تابع ہو جانا جو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں بیان ہوئی کلمہ گو ہونے کیلئے باقاعدہ طور پر مطلوب ہے۔

عربی میں ”انقیاد“ کا لفظ قَادَ یَقُوْدُ کے مادہ سے انْقَادَ یَنْقَادُ باب انْفِعَال ہے۔ ”انقیاد“ یعنی کوئی جیسے چلائے ویسے چلتے جانا، بالکل ویسے ہی جیسے نکیل سے کھینچا جانے والا اونٹ جدھر کو چلایا جائے اُدھر کو چلتا جاتا ہے۔ ”انقیاد“ کی یہی حقیقت ہے۔ جبکہ ”تسلیم“ کا مطلب ہے اپنا من کسی کے سپرد کر دینا اور اپنی مرضی سے دستبردار ہو کر اس کی مرضی کو ہی دل سے اختیار کر لینا۔ پس لا الٰہ الا اللہ کہتے وقت باقاعدہ طور پر یہ مطلوب ہے کہ انسان کا بیرون اور اندرون ہر دو خدا کا تابع فرمان ہونے پہ آمادہ ہوں اور اِن ہر دو پہلو سے وہ ”اسلام“ یعنی خدا کے آگے surrender ہونے اور رام ہوجانے کا باقاعدہ ایک عہد کرے۔ کلمہ پڑھتے وقت انسان خدا کا فرماں بردار رہنے کا گویا ایک باقاعدہ حلف اٹھاتا ہے۔

اب یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:

’انقیاد‘ اور ’تسلیم‘ دونوں یہاں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شروط کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے یہ مراد نہیں کہ انسان پہلے ظاہر وباطن میں دین کے تمام احکام پر عمل پیرا ہو تو پھر جا کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی یہ دو شرطیں (انقیاد اور تسلیم) اس کے حق کے میں پوری ہوں اور تب تک آدمی کی کلمہ گوئی کا اعتبار ہی معلق رہے یعنی آدمی اس وقت تک مسلمان ہی شمار نہ ہو!

لا الٰہ الا اللہ کہتے وقت جو ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ مطلوب ہے وہ بس یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ظاہر اور باطن میں لا الٰہ الا اللہ کے حقوق کا پابند جانے اور وہ ابتدائی آمادگی اس کے ہاں پوری طرح پائی جائے جس کو خدا کی فرماں برداری کا ایک عہد کہا جا سکتا ہو۔ اسلام میں داخل ہوتے وقت (یعنی کلمہ زبان سے ادا کرتے وقت) ایسی ہی ایک آمادگی درکار ہوتی ہے۔ خدا کا فرماں بردار رہنے کی یہ واضح دوٹوک آمادگی ابتداءً اگر اس کے ہاں پائی جاتی ہے تو اس کو ”داخلِ اسلام“ ماننے کی شروط میں سے چھٹی اور ساتویں شرط سمجھئے اس کے حق میں پوری ہوئی اور اس کا اسلام میں داخلہ معتبر ہوا۔ رہ گیا زندگی میں پل پل پر ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ کا عملاً ثبوت دیتے چلے جانا تو وہ لا الٰہ الا اللہ کے تقاضوں میں آتا ہے نہ کہ لا الٰہ الا اللہ کی شروط میں۔ ”شروط“ وہ چیز ہیں جن کے پورا ہونے سے پہلے ایک شخص کا مسلمان ہونا ہی پایۂ ثبوت کو نہ پہنچے۔ البتہ ”تقاضے“ وہ چیز ہیں جس کی نوبت انسان کا ”قبولِ اسلام“ معتبر مانا جانے کے بعد آتی ہے۔ ”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ کو عین ابتدا میں ہی یعنی لا الٰہ الا اللہ کہتے وقت ہی پورا کرنا ہوتا ہے، اس کے بغیر آدمی کا کلمہ پڑھنا ہی معتبر نہیں۔ البتہ جس چیز کو ہم ”لا الٰہ الا اللہ کے تقاضے“ کہتے ہیں تو اس کا معاملہ ساری عمر چلتا ہے۔

یعنی ’اعمال‘ کرنا تو دراصل لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کا تقاضا ہی ہے نہ کہ اس کی شرط۔ البتہ شریعت کے بتائے ہوئے ’اعمال‘ کرنے کیلئے ظاہراً اور باطناً ایک آمادگی اور استعداد کا آدمی کے یہاں پایا جانا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کی بہرحال ایک شرط ہے۔

چنانچہ کلمہ پڑھتے ہوئے اگر آدمی کے ذہن میں یہ ہے کہ کلمہ میں جو حقیقت بیان ہوئی، ظاہراً اور باطناً اس کا تابع ہو رہنے کیلئے اسے کچھ کرنا کرانا نہیں.. تو اس کا کلمہ پڑھنا غیر معتبر ہے۔

یہاں ایک اور مبحث واضح ہو جانا بھی ضروری ہے:

اللہ اور رسول کے آگے کسی کی بات کو مقدم نہ ٹھہرانا اسلام کی ایک اساسی شرط ہے اور عقیدہ کا ایک نہایت بنیادی مسئلہ۔ ”انقیاد“ یعنی اپنی مہار اللہ اور اس کے رسول کو تھما دینا درحقیقت یہی ہے۔ رسول کی آواز کے آگے اپنی آواز اونچی ہو جانے دینا تک قرآن کے اندر ایمان کے منافی ٹھہرایا گیا ہے اور اس پر سب کے سب اعمال برباد ہو جانے کی وعید سنائی گئی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ۔ (الحجرات: 1-2)

”اے ایمان والو! مت بڑھاؤ اللہ اور رسول کے آگے کسی کو، اور ڈرتے رہو اللہ سے۔ بے شک اللہ سننے والا ہے جاننے والا۔ اے ایمان والو! مت اونچی ہونے دو اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر۔ اور نہ اس کے آگے یوں کھل کر بولا کرو جیسے ایک دوسرے کے آگے کھل کر بول لیتے ہو۔ یہ نہ ہو کہ تمہارے سب اعمال برباد ہو جائیں اس حال میں کہ تمہیں خبر بھی نہ ہو“۔

مسلم فرد اور مسلم معاشرے کا یہ وہ باقاعدہ دستور اور آئین ہے جو سورۂ حجرات کی ان دو آیتوں کے اندر بیان ہوا۔ اِس کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو ”انقیاد“ کہیں گے۔ یہ ”انقیاد“ اگر دل میں گھر کر لے تو اس کو ”تسلیم“ کہیں گے۔ دونوں شہادتِ لا الٰہ الا اللہ کے معتبر ٹھہرنے کے معاملہ میں شرط ہیں۔

امام ابن قیمؒ سورۂ حجرات کی اِن آیات کے حوالے سے کہتے ہیں:

”نبی کی آواز کے آگے ان کا اپنی آواز اونچی کر لینا اگر ان کے سب اعمال برباد ہوجانے کا باعث ٹھہرا دیا گیا ہے.... تو پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ نبی جو چیز لے کر خدا کے یہاں سے آیا یہ اس پر اپنی آراءکو مقدم ٹھہرائیں؟ یہ اپنے ذوق کو اس پر مقدم جانیں؟ اپنی سیاست کو اس پر مقدم رکھیں؟ اور اپنے فلسفہ و فکر کو اس پر مقدم کریں؟ یہ اپنی اِن (خانہ سازیوں) کو نبی کی لائی ہوئی بات کے اوپر کر دیں؟ کیا یہ تو کہیں اولیٰ تر نہیں کہ ان کے اس روے اور وتیرے سے ان کے اعمال برباد ہو جائیں؟؟؟ (اِعلام الموقعین 1: 51)

امام ابن قیمؒ کے زمانے میں معاملہ کی سنگینی شاید یہیں تک تھی اور وہ اسی پر تعجب کرتے ہیں کہ کوئی شخص لا الٰہ الا اللہ کا دعویٰ بھی کرتا ہو اور پھر نبی کی لائی ہوئی ہدایت کے بالمقابل اپنی رائے یا اپنے ذوق یا اپنی سیاست کو ہی مقدم جانتا ہو۔ امام ابن قیمؒ کے زمانے میں مسلم معاشروں کے اندر ظاہر ہے نبی کی لائی ہوئی شریعت کے سوا کوئی قانون تھا اور نہ آئین۔ لیکن اب آج اس بارے میں کیا خیال ہے کہ نبی کے لائے ہوئے قانون کے آگے کوئی اپنا قانون لے کر آئے؟ کوئی نبی کے قانون سے متصادم قانون کو ’مقدس‘ کہے؟ اس بارے میں کیا خیال ہے نبی کی بات سے متصادم چیز کو کوئی شخص باقاعدہ قانون جانے اور اس کا چلن کرنے اور کروانے کو اپنی زندگی کا آئین اور معاشرے کا دستور مانے؟ کوئی اللہ و رسول کی بات سے متصادم قانون کی پابندی کرنے اور کروانے کا داعی ہو اور اس بات کو وہ ایک ’اچھے انسان‘ اور ’اچھے شہری‘ کی تعریف کا لازمی حصہ قرار دیتا ہو؟ کیا شک ہے کہ ایسے شخص کے حق میں شہادتِ لا الٰہ الا اللہ کی وہ بنیادی ترین شرط ہی پوری نہیں ہوئی جس کو علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں ”انقیاد“ کہا جاتا ہے۔

قرآنی استعمال میں بعض مقامات پر انقیاد کیلئے ’اسلام‘ اور تسلیم کیلئے ’ایمان‘ کا لفظ بھی وارد ہوا ہے۔ خصوصاً دیکھئے سورۃ الحجرات کی آیت 14۔

اس سیاق میں ’اسلام‘ (انقیاد) سے مراد ہے اپنی نکیل دین کو تھما دینا اور ’ایمان‘ (تسلیم) سے مراد نکیل تھما دینے کے اس واقعہ کو دل وجان سے قبول کر لینا اور اس پر دل کے خلجان سے آزادی پانا۔

بسا اوقات ’انقیاد‘ اور ’تسلیم‘ ایک دوسرے کے ہم معنی بھی استعمال ہوتے ہیں بعینہ جس طرح ’اسلام‘ اور ’ایمان‘ کسی وقت ایک دوسرے کے ہم معنیٰ استعمال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ ہر دو شرط پر گفتگو کو ایک ہی فصل میں اکٹھا کر دیا ہے۔

”انقیاد“ اور ”تسلیم“ کی اس کیفیت کا آدمی کے ظاہر وباطن میں کم از کم حد تک وجود پانا ہر شخص کے حق میں لازم ہے کیونکہ یہ شہادت کے اعتبار کیلئے باقاعدہ شرط ہے۔

 

************

 

شرطِ ششم کے دلائل:

 

قرآن سے:

وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ (الزمر: 54)

”اور پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اسکے“۔

وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لله (النساء: 125)

”اس شخص سے بہتر اور کس کا طرزِ بندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور اپنا رویہ نیک رکھا“

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى (لقمان: 22)

”جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور عملاً وہ نیک ہو اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا“۔

 

فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (النساء: 65)

”نہیں اے محمد ﷺ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم کرلیں“۔

 

سنت سے:

 

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعاً لِّمَا جِئْتُ بِہ  (النووی فی الأَربعین)

”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں جب تک اس کی ہر خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائے“۔

توضیح:

أَسْلَمَ وَجْهَهُ لله (النساء: 125).... يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ (لقمان: 22).... یعنی اپنے وجود کا رخ خدا کی جانب کردینا اور اپنا آپ خدا کو سونپ دینا، اپنے آپ کو خدا کے تابع کردینا۔

سورۂ لقمان کی مذکورہ بالا آیت کے اندر واضح کردیا گیا کہ ایسا ہی شخص در اصل عروۂ وثقیٰ کو تھامتا ہے۔ عروۂ وثقیٰ یہی لا الہ الا اللہ ہے، جیسا کہ کتبِ تفسیر سے واضح ہے۔ یعنی جو شخص اپنا آپ خدا کے تابع کردے تو در اصل وہی ہے جس نے لا الہ الا اللہ کا یہ مضبوط سہارا تھاما جو نہ دنیا میں آدمی کو بے آسرا رہنے دے اور نہ آخرت کی مشکل گھڑیوں میں۔

چنانچہ’انقیاد‘ ( جس کو ’اسلام‘ یا ’خود سپردگی‘ بھی کہا جاتا ہے) لا الہ الا اللہ کے معتبر ہونے کیلئے ایک باقاعدہ شرط مانی گئی ہے۔

اس کے بعد سورۂ نساءکی جو آیت مذکور ہوئی ہے اُس میں بتادیا گیا ہے کہ آدمی کا ایمان تب تک معتبر نہیں جب تک وہ اپنی زندگی کے سب فیصلے خدا کے فرستادہ رسول کو نہ سونپ دے۔ یعنی اسلام میں داخل ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی زندگی کے سب معاملات میں اپنے اور ہر کسی کے اختیار سے دستبردار ہو جائے اور ان کو طے کردینے کا حق صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کو دینے پر آمادہ ہو۔ جب تک وہ زندگی کے جملہ امور میں اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور ہستی کے اختیار یا قاعدہ و قانون کو تسلیم کرتا ہے اس آیت کی رو سے تب تک وہ صاحبِ ایمان تصور نہ ہوگا.... یہاں تک کہ وہ غیر اللہ کے ہر اختیار اور قانون کو خدا کے اختیار اور خدا کے قانون کے آگے ہیچ نہ جاننے لگے۔

یہ ”انقیاد“ کلمہ کے معتبر ہونے کیلئے ایک شرط کے طور پر ہی مطلوب ہے۔

 

**************

 

شرطِ ہفتم کے دلائل:

 

قرآن سے:

وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ ۔قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ آبَاءكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ۔ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ۔ (الزخرف: 23- 25)

”اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی ڈرانے والا بھیجا اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہمیں تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کرنی ہے۔ ہر نبی نے ان سے کہا: کیا تب بھی (تمہیں اسی کی پیروی کرنی ہے)، اگرچہ میں اُس آئین سے، جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کہیں زیادہ ہدایت یافتہ آئین لے کر تمہارے پاس آ پہنچا ہوں؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جو آئین دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم تو اس کو مان کر دینے کے نہیں۔ آخرکار ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا“۔

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ۔ وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ۔ (الصافات: 35- 36)

”یہ (جہنمی) لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا اللہ کے سوا بندگی کسی کو سزاوار نہیں، تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہم ایک شاعرِ مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں“۔

 

توضیح:

 

مراد یہ کہ نبی جو چیز لے کر آیا، یہ اس کو مان کر دینے کے نہ ہوئے۔ اپنے آباءو اجداد سے وابستگی کا پندار ان کے آڑے آتا رہا اور نبی کو ان کی جانب سے ایک صاف جواب مل جاتا رہا کہ وہ اس کے تابع فرمان ہو جانے کیلئے تیار نہیں۔ اور یہ کہ ان کے اپنے دستور، ان کے اپنے آئین، ان کے اپنے بڑے اور ان کے اپنے طریقے جو ان کے یہاں ’ہمیشہ سے‘ چلتے آئے ہیں ان کو بس انہی سے وابستگی عزیز ہے۔ خدائے واحد کی بندگی و پرستش کی اِس پکار پر اور اُس کے نازل کئے ہوئے اِس دستور کے آگے ان کی گردن نے نیچی ہو کر نہ دیا۔

نبی کا مطالبہ یقینا ایک کڑا مطالبہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ سب دستور اور قاعدے جو آج تک ’چلتے‘ آئے ایک قوم کی زندگی میں اب معطل ٹھہریں گے سوائے اس حق کے جس پر آسمان سے ہی حق کی باقاعدہ مہر لگ کر آئی ہو۔ اور یہ کہ کسی کی پیروی، کسی کی بندگی، کسی کی پرستش زمین پر نہیں ہوگی سوائے اس ذاتِ کبریاءکے جو اُن کی جانوں کی مالک ہے اور جوکہ اُن کی معبودِ حقیقی ہے۔ باقی ہر معبود، ہر دستور اور ہر طرزِ حیات سے ان کو برگشتہ ہو جانا ہو گا۔ خدا کی چوکھٹ پر جھکنا در حقیقت یہی ہے۔ نبی کا یہ مطالبہ جو نہایت واضح انداز میں ایک فرد یا ایک قوم کے سامنے رکھ دیا جاتا رہا اور اس کے بیان کا پورا حق ادا کر دیا جاتا رہا، بہرحال ایک کڑا مطالبہ ہے۔ اس کے آگے سر تسلیم خم ہو جانا آسان بہر حال نہیں۔ یہ بہرحال ایک قوم کی زندگی میں 180 کے زاویے پر مڑ جانے کا مطالبہ ہے اور زندگی کے دھارے کو ایک رخ سے ہٹا کر بالکل ہی ایک اور رخ پر ڈال دینے کا واضح واضح تقاضا۔ یہی وجہ ہے جو اوپر مذکور آیات میں اس رویے کا ذکر ہے جو نبی کی دعوتِ توحید و اتباع کے بالمقابل قومیں اپنی جہالت کے باعث ہمیشہ ظاہر کر لیتی رہیں اور بالآخر آسمان سے ماتھا لگا لیتی رہیں؛جس کے نتیجے میں حق اور باطل کے مابین باقاعدہ ایک میدان سج جاتا رہا، یہاں تک کہ باطل کو سورج کی روشنی تلے لا کر اور نہایت برہنہ و بد نما کر کے اور ’حق‘ پر ہونے کے معاملہ میں اس کے سب زعم دور کر دینے کے بعد اس کو برباد کروا دیا جاتا اور زمین پر از سر نو حق کا دور دورہ کروا دیا جاتا۔ البتہ اس مبارک کہانی کا آغاز ہمیشہ اِس ’کٹھن‘ مطالبے کو ان کے سامنے رکھ کر کیا جاتا کہ ہر معبود، ہر رِیت اور ہر دستور سے منہ موڑ کر، خواہ وہ کتنا ہی ان کے قومی و آبائی فخر کی بنیاد رہے ہوں، ان کو اپنا رخ خدائے واحد قہار کی جانب پھیر دینا ہوگا اور ایک اُسی کی بندگی اختیار کر لیتے ہوئے اُسی کے فرستادہ رسولوں سے اپنی زندگی کا ایک ایک مسئلہ دریافت کرنا ہوگا اور جو وہ کہہ دیں اسی کو اپنے لئے حتمی دستور ماننا ہوگا۔ یہاں تک کہ رسولوں کی بات کے آگے چوں و چرا کر لینے کو بھی اپنے حق میں کفر ماننا ہوگا۔

البتہ جب ان کے سامنے لا الٰہ الا اللہ کے یہ مضامین رکھے جاتے، جس کا مطلب ان کے آئینِ زندگی میں ایک بنیادی ترین تبدیلی تھی، خصوصاً جب ان کے کھاتے پیتے اور قوم کو لے کر چلنے والے آسودہ حال طبقوں کے سامنے نہایت واضح لفظوں میں آسمان سے اترنے والا یہ مطالبہ رکھا جاتا تو ان کا پندار انہیں گردن خم کرنے سے روک دیتا اور وہ کہتے کہ محض ایک جنون زدہ شاعر کے کہنے پر کیا ہم اتنا بڑا کام کر ڈالیں، یعنی اپنے ان خداؤں کو خیر باد کہہ کر اور اپنے آبائی و قومی دستوروں کو دفن کر کے بس اسی کے پیچھے چل دیں؟ اس کی یہ حیثیت؟؟؟؟؟!

جی ہاں! رسول کی اور اس کے لائے ہوئے آئین کی یہی حیثیت!!!!!!!

کم از کم اُنہوں نے سمجھ خوب لیا تھا کہ رسولوں کا مطالبہ اُن سے عین ہے کیا اور یہ جھگڑا آخر کس بات کا جھگڑا ہے.... اور یہ کہ ’آسمان‘ اور ’زمین‘ میں کسی بات پر ٹھن سکتی ہے تو وہ کونسی بات ہے؛ یعنی آسمان سے اترنے والے عذابات کی بات / یا پھر فریقِ حق کو فریقِ باطل کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے کے اِذن پر مبنی آسمانی احکام و شرائع.. کسی نزاع کے باعث زمین پر نازل ہو سکتے ہیں تو وہ کونسا نزاع ہے۔ ورنہ تو آسمان سے زمین کیلئے رحمتیں ہی اترتی ہیں نہ کہ پے در پے عذابات یا قتال و خون ریزی کو مشروع ٹھہرانے کے احکامات۔

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ۔ وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ۔ (الصافات: 35- 36)

”یہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا اللہ کے سوا بندگی کسی کو سزاوار نہیں، تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہم ایک شاعرِ مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں“۔

وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ ۔قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ آبَاءكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ۔ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ۔ (الزخرف: 23- 25)

”اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی ڈرانے والا بھیجا اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہمیں تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کرنی ہے۔ ہر نبی نے ان سے کہا: کیا تب بھی (تمہیں اسی کی پیروی کرنی ہے)، اگرچہ میں اُس آئین سے، جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کہیں زیادہ ہدایت یافتہ آئین لے کر تمہارے پاس آ پہنچا ہوں؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جو آئین دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم تو اس کو مان کر دینے کے نہیں۔ آخرکار ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا“۔

پس اصل نزاع کسی فرد یا کسی قوم کی زندگی میں اِس کلمہ اور اِس نبی کی یہ حیثیت طے کرانا ہے، نہ کہ محض اس کی نعتیں کہلوا لینا یا اس کے نام کی سیرت کانفرنسیں منعقد کرا لینا یا محض اس کی ’تصدیق‘ کروا لینا۔ اِس کلمہ اور اس نبی کو قبول کرنے کے حوالے سے جو واضح ترین سوال ایک فرد یا ایک قوم کے سامنے رکھا جانا ہے وہ ”انقیاد“ ہے کہ آیا وہ یہ ”انقیاد“ (یعنی اپنی مہار تھما دینا ہی) قبول کرتا ہے یا نہیں۔ لا الٰہ الا اللہ کی چھٹی شرط یہ کہتی ہے کہ اِس ”انقیاد“ کے بغیر کسی کا لا الٰہ الا اللہ محمدٌ رسول اللہ کہنا سرے سے معتبر نہیں۔

”انقیاد“.... یعنی ہر طریقے، ہر دستور اور ہر آئینِ زندگی سے دستبردار ہو کر اپنی مہار اپنے وقت کے نبی کو ہی تھما دینا کہ وہ خدا کی بندگی کی راہ میں اِسے جدھر کو چاہے لے کر چلتا جائے.. ”انقیاد“ بطورِ فرد بھی اور ”انقیاد“ بطورِ قوم بھی....

آدمی کی زندگی میں ایسا ایک عہد باقاعدہ انداز میں ہو جانا.... جہاں یہ چیز شہادتِ لا الٰہ الا اللہ کا آپ سے آپ مطلب ہے وہاں یہ لا الٰہ الا اللہ کی بنیادی ترین شروط میں سے ایک شرط کے طور پر بھی بیان ہوئی ہے۔

زندگی بھر کیلئے ایسا ایک عہد کر رکھنے کا ہی نام علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں ”انقیاد“ ہے۔ کسی کی زندگی میں یہ عہد ہونے سے رہ گیا ہے، کسی کی زندگی میں خد ا کی نازل کردہ دستاویز اور خدا کے فرستادہ پیام بر کی یہ حیثیت طے ہونے سے رہ گئی ہے، تو سمجھئے اس کی زندگی میں لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دینے کی کارروائی سرے سے عمل میں نہیں آئی۔ آسمان سے آئی ہوئی قرآنی دستاویز اور عرش سے بخشے گئے اختیارات کی مالک پیغمبر ہستی کی یہ حیثیت اپنی زندگی میں طے کئے بغیر اور اس کو باقاعدہ ایک عہد کے طور پر اختیار کئے بغیر آدمی ’کلمہ گو‘ ہونے کا زعم رکھے تو یہ جہالت اور فریب خوردگی کے سوا کچھ نہیں۔

یہ چیز جس کو ”انقیاد“ کہا گیا آدمی کے ”مسلم“ مانا جانے کی شرط ہے۔ حق یہ ہے کہ ”اسلام“ ہی یہ ہے۔ اور ”اسلام لانے“ سے مراد بھی ”انقیاد“ اختیار کرنا ہے۔ ’مسلم‘ مانا جانے کیلئے منافقین تک کو ہر شریعت ہر قانون ہر دستور اور ہر آئین کا قلادہ اپنی گردن سے اتار کر لا الٰہ الا اللہ کے دستور کا قلادہ پہننا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ”اسلام“ کا کوئی تصور ہی نہیں اور ’کلمہ گوئی‘ کا کوئی معنیٰ ہی نہیں۔ البتہ یہ چیز یعنی غیر اللہ کی شریعت کا قلادہ اتار کر خدائی دستور کا قلادہ پہن رکھنا.. یہ رویہ ظاہری اعمال میں ہی نہیں بلکہ انسان کے درون میں بھی مطلوب ہے۔ کیونکہ ظاہری اعمال میں منافقین کو بھی ہر دستور کا پٹہ گردن سے اتار کر خدائی دستور کا پٹہ ہی گردن میں پہن کر رہنا ہوتا ہے، جس کا فائدہ ان کو انسانوں ہی کے یہاں ہوسکتا ہے نہ کہ خدا کے یہاں۔ پس لازم ہے کہ ”ظاہر“ کے ساتھ ساتھ انسان کا ”باطن“ بھی یہ قلادہ پہنے، تاکہ یہ خدا کے ہاں جا کر کام دے نہ کہ انسانوں سے جان بخشی کروانے تک محدود رہے۔ اصل جان بخشی وہ ہے جو خدا کے ہاں جا کر ہو جائے اور اصل جان کندن بھی وہی جو خدا کے ہاں ہونے والی ہے۔ پس وہ چیز جس کے، ظاہر میں پائے جانے کو ہم نے ”انقیاد“ کا نام دیا ہے عین اسی چیز کا انسان کے درون میں پایا جانا ”تسلیم“ کہلاتا ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ ”تسلیم“ بھی ”کلمہ“ کی ایک باقاعدہ شرط ہے۔ پس ہر باطل آئین سے دستبردار ہو کر صرف ایک رب العالمین کی شریعت کا قلادہ ہی اپنے ظاہر میں ڈال لینا ”انقیاد“ کہلاتا ہے اور اپنے باطن میں ڈال لینا ”تسلیم“۔ ہر دو، ”کلمہ“ معتبر ہونے کیلئے شرط ہیں؛ یعنی ہر دو کے بغیر ”کلمہ“ پڑھا ہونا معتبر نہیں۔ اول الذکر، ”کلمہ“ کی چھٹی شرط کے طور پر بیان ہوا ہے.. اور ثانی الذکر، ”کلمہ“ کی ساتویں شرط کے طور پر۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ ایک ہی خوبصورت حقیقت کے دو رخ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی وقت ان میں سے ایک ہی لفظ بول کر دوسرا ساتھ مراد لے لیا جاتا ہے۔ کتبِ عقیدہ کے اندر بھی اِن دونوں کے مباحث زیادہ تر جڑے ہوئے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض علمائے عقیدہ ان دونوں کو کسی وقت ایک ہی شرط کے طور پر بیان کر دیتے ہیں۔ اور بلا شبہ ان میں سے ایک کا ذکر ہونا دوسرے کو آپ سے آپ لازم ہے۔ کیونکہ اسلام میں: ظاہر، باطن کے بغیر بے معنیٰ ہے اور باطن، ظاہر کے بغیر۔

یہاں ضروری ہو جاتا ہے کہ ”مرجئہ“ کے مذہب کا بھی کھل کھلا کر رد کر دیا جائے جو محض ’تصدیق‘ کو ہی کلمہ معتبر ہونے کیلئے کافی جانتا ہے اور ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ کی شرط لگانے کو باطل قرار دیتا ہے۔ جس قدر اِس مرجئہ کے مذہب نے امت کے عقیدے کا ستیاناس کیا ہے درون یا بیرون کے کسی دشمن نے نہ کیا ہوگا۔ مرجئہ کا مذہب جو کہ ”ارجاء“ کہلاتا ہے، اور جوکہ امت کی تاریخ میں پائی جانے والی ایک نہایت خطرناک گمراہی ہے، کا کہنا ہے کہ ’انقیاد‘ اور ’تسلیم‘ ایسی اشیاءآدمی کے یہاں پائی جائیں تو بڑی اچھی بات ہے مگر شہادتِ لا الٰہ الا اللہ کے معتبر قرار پانے کیلئے شرط بہر حال نہیں۔ مرجئہ کے نزدیک ’ایمان‘ محض تصدیق کر دینے کا نام ہے۔ یعنی آدمی کا بس یہ مان لینا کہ لا الٰہ الا اللہ میں جو بات ہوئی وہ ’ٹھیک ہے‘ یا یہ کہ اس کلمہ اور نبی کی کسی بات کو وہ ’جھٹلاتا‘ نہیں یا یہ کہ وہ کلمہ اور نبی کی کسی بات کو ’غلط‘ نہیں کہتا.. مرجئہ کے نزدیک آدمی کا محض یہ کر لینا اس کی شہادتِ لا الٰہ الا اللہ کو معتبر قرار دلوانے کیلئے نہایت کافی ہے اور اس پر مزید کوئی شرط لگانا سراسر باطل!

رسولوں کا اپنی قوموں سے جو ایک بنیادی ترین مطالبہ تھا، اور جس کے پورا ہوئے بغیر انبیاءکے اور ان کی قوموں کے مابین پایا جانے والا نزاع ہرگز ختم نہ ہوتا تھا، اور جس کو پورا کئے بغیر کوئی شخص حالتِ کفر سے نکل کر حالتِ اسلام میں ہرگز نہ آسکتا تھا.. رسولوں کے اس بنیادی ترین مطالبہ کو محض ’تصدیق‘ کے اندر محصور کر دینا اور ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ کو رسولوں کے اس بنیادی ترین مطالبہ سے منہا کر دینا جس قدر مضحکہ خیز ہو سکتا ہے اور کتابوں اور صحیفوں کی اپنی ہی شہادت سے جس قدر متصادم ہے وہ آپ سے آپ عیاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے سنت ’ارجاء‘ کی گمراہی کو امت کے عقیدہ کیلئے نہایت عظیم خطرہ قرار دیتے ہیں، خصوصاً اِن آخری صدیوں میں جب لوگ اور یہاں کے معاشرے واقعتاً ’ضرورت مند‘ نظر آتے ہیں کہ کوئی ’عالمِ دین‘ محض زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق پر ہی ان کو ’اسلام‘ کا ایسا سرٹیفکیٹ دے دیا کرے جو کہیں چیلنج نہ ہو سکتا ہو اور جو ”انقیاد“ اور ”تسلیم“ ایسی ”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ سے اب ان کو قیامت تک کیلئے چھوٹ دے ڈالے!

آج کے دور میں اسلام کے احیاءکا جو عمل مطلوب ہے اس میں لوگوں کو ”شروطِ لا الٰہ الا اللہ“ اور ”نواقضِ لا الٰہ الا اللہ“ ایسے بنیادی اسباق پڑھانا بھی باقاعدہ طور پر شامل ہو گا۔ باطل کے روبرو حق کی سیسہ پلائی دیوار کھڑی کر دینے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ لوگوں پر نہایت واضح کر دیا جائے کہ ”اسلام“ کس سنجیدہ و برگزیدہ حقیقت کا نام ہے اور یہ کہ اس میں داخل تصور ہونے کی بنیادی ترین شروط کیا ہیں اور اس سے خارج کر دینے والے اعمال اور رویے کیا کیا۔

 

سنت سے:

عَنْ أَبِیْ مُوْسَیٰ الْاَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللہ عَنْہُ، أَنَّ النَّبِیِّ  قَالَ:

مَثَلُ مَا بَعَثَنِیَ اللہ بِہ مِنَ الْھُدَیٰ وَالْعِلْمِ، کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ، أَصَابَ اَرْضاً، فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃ قَبِلَتْ الْمَائَ فَاَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ، وَکَانَتْ مِنْھَا اَجَادِبُ اَمْسَکَتِ الْمَائَ فَنَفَعَ اللہ بِھَا النَّاسَ، فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا، وَأَصَابَ مِنْھَا طَائِفَۃ اُخْرَیٰ اِنِّمَا ھِیَ قِیْعَانٌ لَا تُمْسِکُ مَائً وَلَا تُنْبِتُ کَلَأَ، فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقِہَ فِیْ دِیْنِ اللہ وَنَفَعَہٗ مَا بَعَثَنِیَ اللہ بِہ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ بِذٰالِکَ رَأَساً وَلَمْ یَقْبَلْ ھُدَی اللہ الَّذِیْ أَرْسِلْتُ بِہ  (البخاری: 1/175)

حضرت ابوموسیٰ اشعری سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

”مجھے اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اور علم دے کر معبوث فرمایا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہیں بہت زیادہ بارش برسے۔ کہیں تو زمین نرم وشاداب ہو اور اس بارش سے خوب سیراب ہو کر فصل اگائے اور ہرا بھرا ہو جائے۔ کہیں پر چٹیل نشیب ہوں جو اس پانی کو روک رکھیں پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ لوگوں کیلئے منفعت کا وسیلہ کردے کہ وہ اس کوپینے، فصلیں سیراب کرنے اور غلے اگانے کیلئے کام میں لائیں۔ جبکہ یہ بارش کسی بنجر زمین پر بھی برسے جو نہ تو پانی کو روک رکھے اورنہ اسے پی کر ہریالی اگا سکے۔ سو یہ مثال اس شخص کی ہے جو اللہ کے دین کا تفقہ حاصل کرے اور اسے میرے ساتھ مبعوث شدہ ہدایت سے اللہ تعالیٰ یوں فائدہ دے کہ وہ اسے خود سیکھے اور دوسروں کوسکھائے اور یہی مثال اس شخص کی ہے جو اس کو لیکر نہ تو اٹھا اور نہ اللہ کی اس ہدایت کو، جوکہ مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، خود قبول کیا“۔

 

توضیح:

 

قبول اور تسلیم.... یہاں تک کہ مالک کی بات کو رد کردینے کا تصور باقی نہ رہے۔

”قبول“ سے وہی مراد ہے جو سورۂ حجرات میں بیان ہوا؛ یعنی اللہ و رسول کی بات کے آگے پھر کسی چیز کو مقدم نہ رہنے دے، یہاں تک کہ رسول کی آواز کے آگے آواز بلند کر لینے کو بھی اعمال اکارت چلے جانے کا موجب جانے۔ علاوہ ازیں، قبول سے وہی مراد ہے جو سورۂ نساءمیں مذکور ہے: فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًاً (النساء: 65) یعنی : ”نہیں، اے نبی! یہ ہرگز ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ تجھے سب تنازعات میں اپنا حکم نہ ٹھہرا لیں، پھر یہ اس پر اپنے نفسوں میں کوئی تنگی تک محسوس نہ کریں، اور جب تک یہ (اسکے آگے) سر تا سر تسلیم نہ ہو جائیں“۔

یہ ہے وہ مطالبہ جو انبیا کا اپنی قوموں سے رہا ہے۔ ایمان کے معتبر ہونے کیلئے یہ ایک باقاعدہ شرط ہے۔ لا الہ الا اللہ کے مقرر کردہ امور کو بلا چوں و چرا تسلیم کرنااور اس کو مطلق حق ماننا اور اس سے متصادم ہر راستے ہر آئین کو متروک ٹھہرا لینا.... یہ ہے اس ہدایت کو قبول کرنا جسے لے کر رسول اللہ ﷺ دنیا کے اندر مبعوث ہوئے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز