|
| لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی پانچویں شرط | |
| گرویدگی | |
پھر پانچویں شرط یہ ہے کہ انسان کو اس کلمہ اور اس کے معنیٰ اور مفہوم سے ایک محبت و وارفتگی ہو گئی ہو اور اس کلمہ سے اس کو ایک سرور ملنے لگا ہو۔
توضیح:
پانچویں شرط یہ ہے کہ آدمی کو یہ کلمہ دِل وجان سے عزیز ہو۔ کلمہ میں جو حقیقت بیان ہوئی ہے اُس حقیقت سے انسان کو باقاعدہ ایک پیار ہو۔ یہ کلمہ اس کو اپنی ایک نہایت قیمتی متاع لگتی ہو۔ بے شک یہ کلمہ اس کی راحتِ جان میں خلل انداز ہوتا ہو، بے شک یہ اس سے مفادات کی قربانی مانگتا ہو، بے شک یہ اس کو فرائض کا پابند کرتا ہے، بے شک یہ اس پر بہت سے مرغوبات حرام ٹھہرا دیتا ہے، بے شک یہ کلمہ کبھی اس کی جان بھی لے لے .... پھر بھی یہ کلمہ اس کو بے انتہا عزیز ہو اور اس کے اقرار سے ہی اس کو اصل راحت ملتی ہو۔
اندازہ کر لیجئے، کلمہ اور اس کے مفہوم سے ایک واضح قلبی وابستگی ہونا، ’کلمہ‘ معتبر ہونے کی باقاعدہ ایک شرط ٹھہرا دی گئی ہے۔ یعنی کلمہ اور اس کے مفہوم سے انسان کو اگر ایک واضح قلبی لگاؤ ہی نہیں تو محض اس کا کلمہ پڑھ ڈالنا دین میں معتبر نہ ہو گا۔
پس ایک تو اس کلمہ کا مفہوم ہے اور دوسرا اس مفہوم کے ساتھ عقیدت اور وارفتگی۔
یہ کلمہ کیا ہے؟ غیر اللہ کی بندگی کا قطعی اور دو ٹوک انکار اور اللہ کی بندگی اور فرمانبرداری کا پرجزم اقرار۔ تو اب کلمہ کی پانچویں شرط یہ ہے کہ غیر اللہ کی پرستش و بندگی کے اس انکار سے آدمی کو لطف ملتا ہو ا اور خدا کے ما سوا ہستیوں کی خدائی کا انکار کر کے اس کو راحتِ جان نصیب ہوتی ہو اور یہ کہ تنہا رب العالمین کی خدائی کے اعلان سے اور ایک اُسی کی بندگی کے اقرار سے وہ دل میں گہرا سکون پاتا ہو۔ یوں لا الٰہ والا یہ انکار اور الا اللہ والا یہ اقرار اس کے لئے ایک ایسی چیز بن گیا ہو کہ اسی بات میں وہ اپنے لئے روح کا چین اور دل کا اطمینان پاتا ہو۔
خدا کے سوا پوجی جانے والی ہستیوں کی پرستش کو غلط اور باطل کہنے میں آدمی کو لطف آنا خواہ اس سے خدا کے دشمنوں کو کتنی ہی تکلیف ہو اور بندگی و نیاز کی سب اداؤں کو خدا کیلئے خاص کر دینے میں ایک مزہ پانا .... یہ کلمہ کی ایک باقاعدہ شرط ہے۔
کچھ اسی بات کا اظہار رسول اللہ ﷺ کے ایک مسنون ذکر میں ہوتا ہے جو فرض نماز کا سلام پھیرنے کے بعد آپ کا معمول تھا۔
لا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اَلَّا بِاللہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاہُ، لَہُ النِّعْمَةُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُخْلِصیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔(مسلم 1/410)
”نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر ایک اللہ وحدہ لا شریک۔ بادشاہی اس کی۔ حمد اس کی۔ ہر چیز پر قدرت کاملہ وہی رکھنے والا ہے۔ نہ کوئی زور نہ کوئی طاقت سوائے اک خدا کے سہارے۔ کوئی نہیں بندگی کے لائق سوائے اللہ کے۔ اس ایک کے سوا ہم نہیں کسی کو پوجنے کے۔ نعمت اس کی۔ فضل اس کا۔ خوب سے خوب ستائش بس اس کی۔ کوئی نہیں (ہماری) بندگی کے لائق سوائے اللہ کے۔ یوں کہ دین (اطاعت وبندگی) کو ہم بس ایک اسی کیلئے خالص کئے رہیں چاہے کافر لوگ اس سے کتنا ہی آزردہ ہوں“۔
کلمہ کی اس پانچویں شرط کا مطلب یہ ہے کہ آدمی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا نہ صرف اقرار کرے بلکہ اس کو اپنے اوپر خدا کی سب سے بڑی نعمت جانے اور دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت آدمی کو اس کے سامنے ہیچ نظر آئے۔ اس کے بغیر آدمی اپنے آپ کو کہیں کا نہ سمجھے۔ اس کے جانے کی صورت میں آدمی کو دنیا اندھیر ہوتی ہوئی نظر آئے۔ اس کے بغیر جینے کا آدمی تصور تک نہ کرے۔ اس کے بغیر جینے پر آدمی موت کو بلکہ آگ میں کود پڑنے کو اپنے دل میں ترجیح دے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کو زندگی کی متاعِ عزیز ترین جاننا اس کلمہ کا اقرار کرنے کی ایک بنیادی شرط ہے۔ اور یہاں یہ کلمہ کی پانچویں شرط کے طور پر بیان ہوئی ہے۔
مزید برآں.... یہ بھی ایک حقیقت ہے اور عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جس بات کے کرنے اور سننے میں آدمی کو سب سے زیادہ سرور ملتا ہو وہ ضرور اس کا موضوعِ سخن بھی بن جاتی ہے۔ بلکہ وہ اس کی گفتگو اور اس کی دعوت کا اصل محور ہی بن جاتا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک چیز کو انسان اپنی سب سے بڑی دولت جانے اور گرد و پیش میں وہ اُس کے موضوعات کے اندر نہایت مرکزی حیثیت نہ رکھے۔
اگرچہ یہ بات ایک نتیجے کے طور پر آتی ہے نہ کہ ایک شرط کے طور پر، لیکن یہ شرط (یعنی کلمہ سے شدید محبت و وارفتگی ہو جانا اور اس سے آدمی کو سرور ملنا) اگر پوری ہونے لگتی ہے تو اس کا ایک لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے موضوعات اب آدمی کی دعوت پر چھا جائیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شروط واضح ہو جانے سے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضوں کا بھی خود بخود ایک نہایت خوب تعین ہو جاتا ہے۔
**************
شرطِ پنجم کے دلائل:
قرآن سے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ (البقرہ: 165)
”کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں“۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ (المائدہ: 54)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے“۔
سنت سے:
حضرت انسؓ سے صحیح حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ثَلَاثٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَةَ اْلاِیْمَانِ: اَنْ یَکُوْنَ اللہ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا، وَاَنْ یُحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہٗ اِلَّا لِلّٰہِ، وَاَنْ یَکْرَہَ اَنْ یَعُوْدَ فِی الْکُفْرِ، بَعْدَ اِذْأَنْقَذَہُ اللہ مِنْہُ، کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ (البخاری مع الفتح 1 / 72 ح 43 مسلم 1 / 66)
”تین باتیں جس آدمی میں آجائیں بس وہ ایمان کا مزہ اور لطف اٹھا لیتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کو دنیا کی ہر ہستی سے زیادہ عزیز اور محبوب ہو جائیں، دوسری یہ کہ وہ کسی انسان سے محبت کرے تو صرف اور صرف اللہ کی خاطر، اور تیسری یہ کہ کفر سے ایک بار نکل آنے کے بعد اس میں لوٹ جانے سے اس کو اتنی کراہت ہونے لگے جتنا انسان آگ میں پڑ جانے سے لرزاں اور گریزاں ہو“