لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی چوتھی شرط | |
| صدق اور وفاء | |
چوتھی شرط ہے (اس کلمہ کے ساتھ) صدق اور وفا، یہاں تک کہ (اس کلمہ کے معاملہ میں) دروغ اور منافقت کا وتیرہ خارج از امکان ہوگیا ہو۔
توضیح:
دیانتدارانہ اقرار اس کلمہ کی چوتھی شرط ہے۔ ایک ایسی سچائی اس کلمہ کے ادا کرتے وقت قلب و ذہن میں پائی جانا ضروری ہے جو اس کلمہ کی بابت آدمی کے یہاں منافقت اور دروغ گوئی کا رویہ اپنایا جانے کی راہ مسدود کردے۔
”نفق“ عربی زبان میں سرنگ لگانے کو کہتے ہیں۔ منافقت دراصل دل کا کھوٹ ہے۔ ضروری نہیں کہ منافقت کا باعث محض کوئی ’بے وجہ کی بدنیتی‘ ہو۔ شخصی منافع، خاندانی روابط، معاشرتی مجبوریاں، سیاسی مفادات، ’مستقبل‘ سے متعلق خدشات .... بہت کچھ ایسا ہے جو ایک ایک کرکے اس لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت کے آڑے آنے کی کوشش کرتا ہے۔ بسا اوقات جس چیز کو دین میں نفاق کہا گیا ہے آدمی اُس کو ’حقیقت پسندی‘ اور ’دانش مندی‘ سمجھ کر اپناتا ہے اور جس چیز کو ’ایمان کا تقاضا‘ کہا گیا ہے وہ آدمی کو ’خواہ مخواہ کی بے وقوفی‘ اور ’دیوانہ پن‘ نظر آتا ہے۔ اہل ایمان پر اہل نفاق کی یہ محض کوئی پھبتی نہیں تھی جو قرآن میں یوں نقل ہوئی ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء (البقرہ: 13)
”اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ اس طرح جس طرح (یہ) لوگ ایمان لائے تو کہتے ہیں: کیا ہم ایمان لائیں اس طرح جس طرح (یہ) نادان ایمان لے کر آئے ہیں؟“
چنانچہ بہت سی شخصی یا خاندانی یا ملکی یا معاشرتی مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں جو اس لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت پر ڈٹ جانے میں مانع ہونے لگیں تب لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت پر عمل پیرا رہنا آدمی کو ایک بڑا نقصان کرانے کے مترادف لگتا ہے اور ایسا ’خواہ مخواہ کا‘ نقصان کرانے کو آدمی محض بے وقوفی سمجھتا ہے۔
’صدق‘ کی صورت میں جو چوتھی شرط لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شہادت معتبر ہونے کیلئے بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ آدمی پوری دیانت کے ساتھ اور ممکنہ نتائج کے علی الرغم اس دعوت کو قبول کرے۔ صدق یہ ہے کہ آدمی جس بات کو ایک بار تسلیم کرلے اسی پر جم رہنے پر آمادہ ہو اور جو کہے اس کو کر دکھانے پر پوری طرح سنجیدہ ہو۔
’صدق‘ کی جو قرآنی اصطلاح ہے وہ عام زندگی میں محض ’سچ بولنے‘ سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع ہے۔ یہ دراصل ایک بات پر ڈٹ رہنے کی استعداد ہے۔ صدق کی قرآنی اصطلاح کا مقصود یہ ہے کہ آدمی جو بات کردے پھر اس سے بدل جانے کو خارج از امکان کردے (رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا - الأحزاب: 23) صدق دراصل ایمان اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت پر جم جانا ہے اور اس کی راہ میں حائل ہر مفاد اور ہر خدشے کو نظر انداز کر دینا۔
یوں ایک طرح سے یہ ایک حلف وفاداری ہے۔ یہ انسان کا محض ایک حقیقت کو دل سے قبول کرنا ہی نہیں بلکہ باقی ماندہ زندگی اس پر ڈٹ جانے کا بھی اعلان ہے۔ چونکہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اقرار کی یہ بھی ایک اہم جہت ہے لہٰذا اس کو بھی ایک باقاعدہ شرط کے طور پر اَلصِّدْقُ الْمُنَافِیْ لِلنِّفَاقِ کے الفاظ کے تحت بیان کردیا گیا۔
ایک کلمہ گو کیلئے چونکہ آگے چل کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے تقاضوں میں دوستی اور دشمنی کا مسئلہ تقریباً سرفہرست رہنا ہے اس لئے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی اس چوتھی شرط میں اس بات کا انتظام کر دیا گیا۔ سو اگر یہ شرط سمجھ کر پوری کر لی جائے تو آگے چل کر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہکا ایک اہم ترین تقاضا (ولاءاور براء) پورا کیا جانا ممکن ہوتا ہے۔
************
شرطِ چہارم کے دلائل:
قرآن سے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الم ۔أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ۔وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ۔ (العنکبوت: 1۔3)
”الف، ل، م۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا! حالانکہ ہم سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون“۔
مزید ارشاد ہوتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ۔ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ۔فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (البقرۃ: 8-10)
”بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کیلئے دردناک سزا ہے“۔
سنت سے:
صحیحین میں معاذ بن جبلؓ سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، صِدْقاً مِّنْ قَلْبِہ اِلَّا حَرَّمَہٗ اللہ عَلَیٰ النَّارِ
(البخاری مع الفتح: 1 / 226 ج 128 مسلم 1 / 61)
”جو آدمی بھی صدق دل سے یہ شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جہنم پر حرام کر دیتا ہے“
توضیح:
پس اس حدیث میں صدقاً من قلبہ کے الفاظ بول کر، لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کے جنت جانے کے معاملہ میں ایک اور شرط بیان کردی گئی، یعنی دل کی سچائی سے لا الٰہ الا اللہ کہنا۔ کلمہ میں جو بات بیان ہوئی، اس سے دلی وفاداری۔ لا الہ الا اللہ کی صورت میں جس حقیقت کو جانا اور مانا گیا اس کو سچ کردکھانے پر آمادگی و دلجمعی۔
یہ کلمہ کی چوتھی شرط ہے جو اوپر مذکور آیات و احادیث میں وارد ہوئی ہے۔