عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Shuroot2ndAdition آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
پہلی شرط علم
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی پہلی شرط

 
 

علم

 

 

لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کہتے وقت انسان نے اس کا معنیٰ اور مطلب جان لیا ہو اور یہ خوب ذہن نشین کرلیا ہو کہ اس کلمہ سے کن کن باتوں کی نفی ہوتی ہے اور کن کن باتوں کا اِثبات۔

 

توضیح:

 

آدمی کا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہنا معتبر کب ہوگا؟ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی نے خوب اچھی طرح یہ جان لیا ہو کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ اس سے کہتا کیا ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ اس سے کن کن باتوں کا بطلان کراتا ہے اور کس کس بات کا اِثبات۔

یعنی اتنا کافی نہیں کہ آدمی کلمہ کا ’اُردو ترجمہ‘ جانتا ہو بلکہ یہ بھی مطلوب ہے کہ کلمہ میں جو نفی اور جو اثبات ایک باقاعد انداز میں بیان ہوتا ہے آدمی اس کی حقیقت کو جانے۔ یعنی اس بات کو سمجھے کہ یہ کلمہ اس سے کس بات کی نفی کراتا ہے اور کس بات کا اثبات۔

1) نفی اور انکار واضح طور پر اس بات کا کہ غیر اللہ کی کبھی کوئی ذرہ بھر عبادت اور پوجا و پرستش ہو۔ انکار صاف صاف اس بات کا کہ غیر اللہ کو کبھی بھی پکارا جائے یا انسان کی زندگی میں اپنی چلانے کا غیر اللہ کو ذرہ بھر کوئی اختیار ہو۔ یہ نفی اور یہ انکار لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا جزوِ اول ہے۔ آدمی کو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ سے اگر یہ بات ہی معلوم نہ ہو پائی ہو تو سمجھئے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی سب سے پہلی شرط ہی اس کے حق میں پوری ہونے سے رہ گئی۔ یہ تو ہوئی نفی جو کہ لَآ اِلٰہَ کے لفظ سے واضح ہے۔

اس کے بعد ”اِلاَّ اللہ“ آتا ہے۔ یہ ایک اقرار ہے اور کلمہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس نفی کے ساتھ ساتھ جو کہ ”لااِلٰہ“ کی صورت میں ہوئی، آدمی یہ بھی جانے کہ اس کلمہ کو زبان سے بول کر ”اِلاَّ اللہ“ کی صورت میں وہ اقرار یا اِثبات کس چیز کا کرتا ہے۔

2) اقرار اور اِثبات واضح انداز میں اس بات کا کہ بندگی، گرویدگی، نیاز، پرستش، اطاعت، فرمانبرداری، وفاداری اور دُعا والتجا کو اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کر دیا جائے اور پورے اخلاص کے ساتھ بندگی کے ان سب امور کو آدمی صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشریک کیلئے ہی سزاوار جانے۔ یہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا جزو دوئم ہے۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا یہ جزو دوئم جانے بغیر بھی کلمہ کی پہلی شرط (یعنی کلمہ کی حقیقت کا علم رکھنا) پوری نہیں ہوتی۔

یہاں ہم ایک اہم امر کی جانب انتباہ کی درخواست کریں گے۔

ہمارے یہاں بہت سے نیک قابل احترام حضرات کلمہ پر یقین پختہ کرانے کی محنت پر زور دیتے ہیں جو کہ نہ صرف مستحسن ہے بلکہ حد سے بڑھ کر ضروری ہے۔ کلمہ پر یقین حاصل کرانا کلمہ کی دوسری شرط کے طور پر آپ اس کتاب میں آگے چل کر دیکھ ہی لیں گے۔ تاہم کلمہ کی پہلی شرط کلمہ کی حقیقت کا علم ہے۔ کلمہ کی حقیقت واضح ہی نہ ہوگی تو اس پر یقین پختہ کرانے کی محنت بھی بڑی حد تک بے سمت ہی رہے گی اور اس محنت پر جت رہنے والوں کا بھی عین وہ رخ نہ بنے گا جو کہ انبیاءنے اپنی اپنی قوموں اورمعاشروں کو دینے کی اپنے اپنے دور کے اندر کوشش کی تھی اور اس پر اپنی زندگیاں صرف کر دی تھیں اور جس کو ___ بہت تھوڑے پیروکار ملنے کے باوجود ___ انبیاءنے اپنی تحریک میں واضح کر لیا تھا اور جس کے باعث ان کے خلاف مخالفت اور عداوت کا وہ طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا جو محض ’خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین‘ کی دعوت دیتے رہنے سے کبھی اٹھنے والا نہ تھا۔

چنانچہ کلمہ کا (اس میں مذکور نفی اور اِثبات سمیت) پہلے علم لیا جانا ہے اور پھر یقین۔ یہی اس معاملے کی سنت ترتیب ہے.... پہلے ’علم‘ ہے اور پھر ’یقین‘۔

اب جہاں تک کلمہ کی پہلی شرط (یعنی کلمہ کی حقیقت کا علم پانے) کا تعلق ہے، تو اس باب میں اختصار سے دو باتیں ذہن نشین کرا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے:

 

پہلی بات:

جب تک ”کلمہ“ کے اندر پائی جانے والی ”نفی“ اور ”اِثبات“ ہر دو کا علم حاصل نہ کیا گیا اور عین اُسی ترتیب سے حاصل نہ کیا گیا جس ترتیب سے یہ ”نفی“ اور ”اِثبات“ اِس ”کلمہ“ کے اندر وارد ہوئے ہیں.... تب تک ”کلمہ“ کا مفہوم نامکمل رہے گا۔ یعنی:

 

1) ایک تو اِس کلمہ میں وارد نفی اور اِثبات کی دلالت، اور

2) دوسرا، اس نفی اور اِثبات کی ترتیب۔

یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ضروری ہے، اِثبات ہے۔ مگر لا الٰہ الا اللہ کی شہادت کے حوالہ سے یہ اِثبات بے معنیٰ ہے، جب تک کہ اِس ”اثبات“ سے پہلے ایک ”نفی“ نہیں آتی اور وہ یہ کہ غیر اللہ کی عبادت اور پرستش سراسر باطل ہے۔ ”کلمہ“ کی عین یہی ترتیب ہے؛ ”انکار“ پہلے اور ”اقرار“ بعد میں۔ ”نفی“ پہلے اور ”اِثبات“ بعد میں۔ ”باطل“ کو مسترد کرنا پہلے اور ”حق“ کو تسلیم کرانا بعد میں۔ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا بطلان پہلے اور اللہ کی عبادت و بندگی و فرماں برداری کا بیان بعد میں۔ خدا کے ما سوا پوجی جانے والی ہستیوں کی دہلیز سے برگشتہ و بیزار ہونے کی بات پہلے اور خدا کے در پر آبیٹھنے کی بات بعد میں۔ غیر اللہ کی خدائی کا انکار پہلے اور اللہ وحدہ لا شریک کی خدائی کا اعلان اس کے بعد۔ طاغوت کے ساتھ کفر پہلے اور اللہ پر ایمان اس کے بعد۔ یہی کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی تفسیر ہے، یہی اس کا معنیٰ اور یہی اس کا مفہوم:

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ (البقرۃ: 256)یعنی جس نے کفر کیا طاغوت کے ساتھ اور وہ ایمان لایا اللہ کے ساتھ، وہی ہے جس نے عروۂ وثقیٰ کو تھام لیا۔جبکہ سورۂ بقرۃ کی اس آیت میں مذکور ”عروۂ وثقیٰ“ (مضبوط ترین سہارا) کی تفسیر میں کوئی مفسر کہتا ہے کہ اس سے مراد ہے لا الٰہ الا اللہ، اور کوئی مفسر کہتا ہے اس سے مراد ہے اسلام (جوکہ دو الگ الگ چیزیں نہیں؛ ”لا الٰہ الا اللہ“ ہی ”اسلام“ ہے اور ”اسلام“ ہی ”لا الٰہ الا اللہ“ ہے )۔ مراد یہ کہ جس نے کفر کیا طاغوت (خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں) کے ساتھ اور وہ ایمان لایا اللہ کے ساتھ وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تھام لینے میں در حقیقت کامیاب ہوا اور وہی ہے جو اسلام کے سہارے کو تھام لینے میں بالفعل کامیاب ہوا۔ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا۔ ایک ایسا مضبوط ترین سہارا جو کبھی شکستہ ہونے والا نہیں۔ جسے آدمی تھام لے تو وہ دنیا اور آخرت میں ہر جگہ کام دے اور کبھی خدا کے ہاں اس کو بے سہارا نہ رہنے دے۔

یہ ہوا اس بات کا بیان کہ کلمہ میں پائی جانے والی پہلے نفی (لا الٰہ) اور بعد میں اِثبات (الا اللہ) کی دلالت درحقیقت کیا ہے اور کلمہ کے الفاظ کی یہ ترتیب کس چیز کو ثابت کرنے کے لئے رکھی گئی ہے۔ اس بات کی کچھ تفصیل کتاب کے آخر میں فصل ”کلمۂ لا الٰہ الا اللہ.. نفی کا اِثبات پر مقدم ہونا اسکا مفہوم متعین کرنے میں نہایت اہم ہے“ میں دیکھ لی جانا بھی فائدہ مند ہو گا۔

 

دوسری بات:

نفی واثبات کے مسئلہ کے بعد دوسری اہم بات خود مسئلۂ الوہیت ہے...

نفی و اِثبات والا مسئلہ، جوکہ ابھی اوپر بیان ہوا، واضح ہو جانے کے بعد.... یہ ذہن نشین ہو جانا بھی ضروری ہے کہ اس کلمہ میں خاص لفظِ ’الٰہ‘ ہی استعمال کیا گیا ہے تو آخر اِس کی کیا معنویت ہے۔ اس کلمہ میں لفظ ’الٰہ‘ کی جگہ لفظ ’رب‘ بھی تو استعمال ہو سکتا تھا۔ مگر خاص لفظِ ”الٰہ“ ہی اس کلمہ میں وارد ہوا ہے تو آخر اس کی کیا دلالت ہے؟

”رب“ کا مطلب ہے: وہ ذات جو پیدا کرتی ہے، جو کھلاتی اور پلاتی اور مارتی اور جلاتی ہے، جو مینہ برساتی اور فصلیں اگاتی ہے، جو کائنات کو چلاتی ہے اور جہان کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور سب امور جس کی مرضی سے وقوع پزیر ہوتے ہوں۔ غرض لفظِ ”رب“ سے خدائی کی وہ جہت سامنے آتی ہے جو ”خدا کے افعال“ سے متعلق ہے۔

”الٰہ“ کا مطلب ہے(1) : وہ ذات جس کی پوجا ہو، جس کو سجدے کئے جائیں، جس کے آگے ماتھا دھرا جائے، جس کے در کا طواف ہو، جس کے نام کی نذر دی جائے، جس کے گھاٹ پر قربانی اور ذبیحہ پیش کیاجائے، جس سے دعا اور فریاد کی جائے، جس کے لئے سب نیاز و بندگی ہو، جس کی عظمت کے آگے کورنش بجا لائی جائے، جس کا خوف اور خشیت رکھی جائے، جس سے امیدیں رکھی جائیں، جس پر توکل کیا جائے، جس کی مطلق اطاعت کی جائے اور جس کی بات کو حرفِ آخر تسلیم کیا جائے۔ غرض لفظِ ”الٰہ“ سے خدائی کی وہ جہت سامنے آتی ہے جو ”بندے کے افعال“ سے متعلق ہے۔

”رب“ یا ”ربوبیت“ کا تعلق ”خدائی افعال“ سے ہے۔ جبکہ ”الٰہ“ یا ”الوہیت“ کا تعلق ”بندگانہ افعال“ سے ہے۔ ”رب“ وہ ہے جو اپنے فعل کی بدولت خدا ہو۔ جبکہ ”الٰہ“ وہ ہے جس کو بندے کے افعال خدا بنا دیں۔

بنا بریں، ’اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین‘ اللہ کو ”رب“ ماننا ہے۔ البتہ اللہ کو ”الٰہ“ ماننا یہ ہے کہ پرستش یعنی دعا وفریاد، نذر و نیاز، سجدہ ور کوع، ذبیحہ و طواف ، خوف اور امید، انابت اور توکل، اور اطاعت و خود سپردگی اللہ کے لئے ہے۔

’اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ ہونے کا یقین‘ درحقیقت ”ربوبیت“ میں اللہ کی وحدانیت ہے۔ البتہ ”الوہیت“ میں اللہ کی وحدانیت یہ ہے کہ پرستش یعنی دعا وفریاد ہرگز ہرگز کسی سے نہ ہو گی، نذر و نیاز ہرگز ہرگز کسی کیلئے نہ ہوگی، سجدہ و رکوع کسی کو نہ ہوگا، ذبیحہ و طواف، خوف اور امید، انابت اور توکل، اور اطاعت و خود سپردگی کسی کیلئے نہ ہوگی سوائے اللہ وحدہ لاشریک کے۔

اور یہ تو واضح ہے کہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ میں ’لا‘ سے بات شروع کرتے ہوئے جو ایک صاف نفی اور انکار کرایا گیا ہے، تو یہاں جھگڑا ”الوہیت“ کا اٹھایا گیا ہے نہ کہ ”ربوبیت“ کا۔ فریقین میں مسئلۂ باعثِ نزاع خدا کا ”فاعلِ حقیقی“ ہونا نہیں بلکہ ”معبودِ حقیقی“ ہونا ہے۔ تنازعہ یہاں ’فاعلیت“ کا نہیں جوکہ خدا کا فعل ہے بلکہ ”اطاعت اور پرستش“ کا ہے جوکہ بندوں کا فعل ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ اس کو توجہ دیے بغیر یا ایک سرسری نظر ڈال کر ہی آگے گزر جایا جائے۔ اِس مسئلۂ عظیم سے ہی تو اسلام کی کچھ نہایت اہم بنیادیں ثابت ہوتی ہیں! اِس سے ہی تو وہ اصل کہانی سمجھ آتی ہے جو انبیاءاور ان کی قوموں کے مابین پیش آتی رہی تھی! انبیاءاور ان کے ہم نواؤں کو پتھر کیوں پڑتے رہے، دیس نکالا کیوں ملتا رہا، ہجرتوں کی نوبت کیونکر آئی، فریقین میں تلواریں کیونکر نکل آتی رہیں اور دو ملتوں میں تاقیامت جدائی ڈال دینے کیلئے نہایت صریح عنوان کیا اختیار کیا جاتا رہا.. اِن سب حقیقتوں کی نقاب کشائی ”الوہیت“ ہی کو اعلانِ توحید کی بنیاد بنانے سے ہو سکتی ہے۔

ہر آدمی دیکھ سکتا ہے کلمہ میں ”لا الٰہَ“ کے لفظ آتے ہیں نہ کہ ”لا ربَّ“ کے لفظ۔ باوجود اِس کے کہ اللہ ہمارا رب بھی ہے اور ہمارا الٰہ بھی، البتہ ”کلمہ“ میں ہم دیکھتے ہیں کہ غیر اللہ سے ”الٰہ“ ہونے کی نفی کروائی گئی ہے اور اِسی کو از ابتدائے آفرینش تا قیامت ”اسلام“ کا اصل عنوان ٹھہرایا گیا ہے۔ غیر اللہ سے ”الوہیت“ کی نفی ہو تو غیر اللہ سے ”ربوبیت“ کی نفی آپ سے آپ ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ”لا الٰہَ“ میں ”لا ربَّ“ کا مفہوم ضمناً آپ سے آپ آجاتا ہے، البتہ جس بات کو نہایت صراحت کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ میں ادا کروایا جاتا ہے وہ ہے غیر اللہ کی الوہیت کی نفی اور اللہ وحدہ لا شریک کی الوہیت کا اِثبات۔ انبیاءکا پورا کیس جو وہ اِس کلمہ کے زیر عنوان اپنی قوموں کے سامنے پیش کرتے رہے تھے، خاص اسی حقیقت پر بنیاد کرتا ہے۔

اس نقطہ کی مزید وضاحت رسالہ کے آخر میں علیحدہ فصل ”کلمۂ لا الٰہ الا اللہ میں لفظِ ”الٰہ“ کی خاص دلالت کیا ہے؟“ میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

یہ وہ دو باتیں تھیں جو ’کلمہ کا علم‘ حاصل کرنے کے حوالے سے (جوکہ کلمہ کی شرطِ اول ہے) آدمی پر نہایت واضح ہونی چاہئیں۔ خصوصا آج جب اس کلمہ کے معنی و مفہوم کی بابت ایک شدید ابہام پایا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے دیندار اس کا مفہوم ہی صحیح بیان نہیں کر پاتے.. آج تو یہ نہایت ضروری ہو گیا ہے کہ یہ دو باتیں آدمی پر آخری حد تک واضح ہوں۔

اب ہم کلمہ کی اِس پہلی شرط کے کچھ دلائل قرآن اور حدیث سے واضح کریں گے۔

 

شرطِ اول کے دلائل:

قرآن سے:

 

پہلی دلیل:

 

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (محمد: 19)

”پس اے نبی اس بات (کی حقیقت) جان لو کہ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“

 

توضیح:

 

اس آیت سے واضح ہوا کہ لا الہ الا اللہ کی ”حقیقت و معنیٰ کا علم“ ہونا ضروری ہے نہ کہ اس کا محض ”کہہ دیا جانا“....

کلمہ کے الفاظ بولتے ہوئے آدمی یہ شعور ہی نہ رکھتا ہو کہ وہ زبان سے کہہ کیا رہا ہے اور یہ بولتے ہوئے وہ کس کس کی عبادت اور پوجا پاٹ کی نفی کر رہا ہے اور زمانے میں کس کس کی خدائی اُس کے بولے ہوئے ان الفاظ کی رو سے سراسر باطل ٹھہرتی ہے، پھر نہ ہی وہ یہ جانتا ہو کہ وہ کس ہستی کی تعظیم و بندگی کا اثبات کر رہا ہے، اور نہ اُس کو یہ شعور ہو کہ یہ لفظ جو وہ بول رہا ہے خدائے وحدہ لا شریک کیلئے بندگی کو مختص کردینے کا ایک باقاعدہ عہد نامہ ہے.... ایسے آدمی کے حق میں کلمہ فائدہ مند نہیں۔ ایسے شخص کے حق میں ’کلمہ‘ کوئی سماجی کہاوت ہے یا کوئی آبائی و علاقائی محاورہ یا پھر روحانی فارمیلٹی، نہ کہ ایک متعین حقیقت جس کا کہ صحف اور رسل سے باقاعدہ علم لیا جائے۔

اب جو آدمی لا الہ الا اللہ کو کسی ثابت و متعین حقیقت کا مدعا ہی نہ مانے تو اُس نے اِس کلمہ کو وہ مقام ہی نہ دیا جو کہ اس سے ایک باقاعدہ شرط کے طور پر مطلوب ہے۔

یہ آیت جو اوپر ذکر ہوئی اس موضوع پر ایسی زبر دست حجت ہے کہ امام بخاریؒ اس سے استدلال کرتے ہوئے صحیح بخاری کی کتاب العلم میں ایک باقاعدہ باب باندھتے ہیں:

بَابُ: الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ، لِقَوْلِ اللہ تَعَالیٰ: فَاعْلَم أَنَّہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ

”اس بات کا بیان کہ علم وفہم کا مرتبہ قول اور عمل سے پہلے آتا ہے، جس پر دلیل ہے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ: ”پس جان لو اس بات (کی حقیقت‘) کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“ چنانچہ (یہاں) اللہ تعالیٰ نے بات علم سے شروع کی“

 

امام بخاریؒ کے اس ”ترجمۂ باب“ سے واضح ہوا کہ لا الہ الا اللہ کی حقیقت کا علم پہلے ہے اور دین کے احکام و مسائل پر عمل پیرا ہونا اس کے بعد۔ لہٰذا سب سے بڑھ کر کسی بات کو اہمیت حاصل ہے تو وہ یہی کہ آدمی اسلام کا اصل مدعا جانے کہ وہ ہے کیا۔ اب جب لا الہ الا اللہ ہی اسلام کا اصل مدعا ہے تو اسی کو سب سے پہلے اور خوب سمجھ کر جاننا چاہیے۔ یہ بات محض کوئی فضائل اور نوافل میں شمار ہونے والی چیز نہیں بلکہ مسلمان ہونے اور کلمہ گو کہلانے کیلئے ایک بنیادی شرط ہے۔

 

دوسری دلیل:

 

إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (الزخرف: 86)

”سوائے اس کے جو حق کی شہادت دے اس حال میں کہ وہ جانیں“

اس آیت میں ”حق“ سے مراد لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ ہے۔

چنانچہ (وَهُمْ يَعْلَمُونَ) کہہ کر (اس شہادتِ حق کی یہ شرط) بیان کر دی کہ جو بات وہ زبان سے کہیں دل سے اس کا علم وادراک اور شعور رکھتے ہوں۔

 

توضیح:

پوری آیت یوں ہے:

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ(الزخرف: 86)

”جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں (مستحقِ شفاعت وہ ہیں) جو ”حق“ بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو“ (ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی)

اب آئیے وجہِ استدلال کی طرف....

اس آیت میں ”حق“ جس کی شہادت دینا مقصود ہے، سے مراد لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ ہے۔ کیونکہ اسی کی شہادت آدمی کو نجات اور شفاعت کا مستحق بناتی ہے۔ مگر اس پر شرط یہ لگائی کہ:وَهُمْ يَعْلَمُونَ ”اس حال میں کہ وہ جانیں“۔ یعنی انہیں معلوم ہو کہ وہ ”حق“ کیا ہے جس کی وہ شہادت دے رہے ہیں۔

پس قیامت کے روز شفاعت نصیب ہونا اسی صورت میں ہے کہ آدمی کا کلمہ گو ہونا معتبر ہو۔ اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ جسے یہ شفاعت میسر آئے گی ایک تو یہ کہ  مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ ”جس نے ”حق“ (یعنی لا الہ الا اللہ) کی شہادت دی“.... اور دوسرا یہ کہ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ”انہیں (اِس حق کا) علم بھی ہو“ یعنی وہ شخص اس حق (لا الہ الا اللہ) کی حقیقت کا علم اور ادراک بھی رکھتا ہو۔

پس واضح ہوا کہ سوچ سمجھ کر اور علم وشعور رکھتے ہوئے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینا ہی باعثِ نجات ہے نہ کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر اس کا معنیٰ و مراد جانے محض اس کے الفاظ بول دینا۔

لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ زبان سے بول دینا بے شک ضروی ہے اور یقینا فائدہ مند ہے مگر تب جب آدمی یہ علم اور شعور رکھے کہ یہ لفظ بول کر در اصل وہ کہہ کیا رہا ہے۔

سورۂ زخرف کی اس آیت میں وَهُمْ يَعْلَمُونَ کہہ کر واضح طور پر کلمہ گو ہونے کیلئے ”علم“ کی شر ط لگا دی گئی ہے۔ یعنی وہی کلمہ آدمی کو فائدہ دینے والا ہے جو علم کا نتیجہ ہو اور جسے کہتے وقت آدمی کو یہ شعور تھا کہ کلمہ کے یہ الفاظ بول کر وہ کس بات کا کھلا انکار کر رہا ہے اور کس بات کا اقرار کرنے لگا ہے۔

 

سنت سے دلیل:

عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللہ عَنْہُ قاَلَ، قاَلَ رَسُولُ اللہ : مَنْ مَاتَ وَھُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ لااِلہَ اِلا اللہ دَخلَ الْجَنَّۃ (مسلم: 1 / 55 ح (26)

”حضرت عثمانؓ سے مروی صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص مرا اس حال میں کہ وہ اس بات (کی حقیقت) جانتا ہو کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ، وہ جنت میں داخل ہوگا“

 

توضیح:

 

”جو شخص مرا اِس حال میں کہ وہ اس بات (کی حقیقت) جانتا ہو کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“....

شیخ حمود العقلا اپنے رسالہ ”شروط لا الٰہ الا اللہ“ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ”جو شخص مرا اس حال میں کہ وہ اس بات کی حقیقت جانتا ہو کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ، وہ جنت میں داخل ہوگا“.. تو پھر ثابت ہوا کہ جو شخص مرا اس حال میں کہ اس نے ساری عمر توحید ہی نہ سیکھی تھی اور وہ خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں کا بطلان ہی نہ جان پایا تھا، اس کیلئے جنت کی یہ خوش خبری نہیں۔ یہ خوش خبری اُسی شخص کیلئے ہے جس نے لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت جان لینے کے بعد ہی اِس دارِ ابتلاءسے دارِ بقاءکیلئے رخت سفر اختیار کیا۔

حدیث کے الفاظ کیا خوب ہیں....

مَنْ مَاتَ وَھُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ لااِلہَ اِلا اللہ.... لا الہ الا اللہ کی حقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کو مسلمان سینے میں ساتھ ہی لے کر دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ اسی پر موت پانا، اسی پر جان دینا ایک مسلمان کا مقصود ہے۔ خدائے ذو الجلال کے سوا دوسروں کی پوجا و بندگی کو باطل اور مسترد جاننے کا احساس اور تنہا اللہ وحدہ لا شریک ہی کے اس مقام کا اعتراف کہ سب کی سب بندگی اور حمد اور پرستش اور اطاعت پر ایک اسی کا حق ہے.... یہ علم، یہ احساس اور قلب و ذہن کی یہ کیفیت اگر آدمی کو موت کے وقت حاصل ہو جائے تو اس خوش قسمت کے کیا ہی کہنے! آگے جنت ایسے ہی شخص کی منتظر ہے!!!

چنانچہ حدیث سے واضح ہوا: بوقتِ موت بھی جس لا الہ الا اللہ کا اعتبار ہے وہ ہے جس کے ہمراہ علم اور شعور ہو۔

 


(1) ”الٰہ“ کا مفہوم وضاحت سے جاننے کیلئے اور لفظِ ”رب“ کی نسبت اس کا فرق جاننے کیلئے کچھ تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے ہمارے اسی سلسلۂ تالیف کے تیسرے حصہ ”توحید کے تین اساسی محور“ میں ”توحید الوہیت“ کے مبحث کے تحت۔ اس مسئلہ کی کچھ تفصیل ”میثاقِ لا الٰہ الا اللہ“ کی فصل میں بھی گزر چکی ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز