عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
Shuroot2ndAdition آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
لا الٰہ الا اللہ ہر رسالت کا مرکزی عنوان
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

لا الٰہ الا اللہ

 
 

ہر رسالت کا مرکزی عنوان

 


 

وہ بہترین الفاظ جو کائنات میں کبھی بھی کہے گئے یا کبھی بھی کہے جا سکیں، یہ ہیں کہ:

”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“..

یعنی.. ”لا الٰہ الا اللہ“....!!!

صاحبو! اِس لا الٰہ الا اللہ سے بہتر کوئی کلمہ نہیں۔ اس سے اعلیٰ تر کوئی دعوت نہیں۔ اس سے افضل کوئی ذکر نہیں۔ اس سے بہتر کوئی دعاءنہیں۔ اِس سے کارگر کوئی وسیلہ نہیں۔ اس سے حسین تر کوئی حقیقت نہیں۔ اس سے بڑھ کر انسان کے پاس کوئی دولت پائی ہی نہیں جا سکتی۔ اس سے بیش قیمت کوئی اثاثہ اِس جہان میں کبھی دیکھا ہی نہ گیا ہو گا۔

یہاں سے رخصت ہوتے دم، ساتھ اٹھانے کیلئے اس سے بہتر کوئی اسباب نہیں۔ یہاں سے تیار کئے جانے والے سامان میں اِس سے نفیس تر کوئی سوغات پائی گئی ہے اور نہ اس سے بڑھ کر آخرت میں مول پانے والی کوئی جنس۔

مبارک ہے وہ نفس کہ روزِ قیامت اُس کا سامان کھلے تو ہر ہر گرہ سے یہی دولت ڈھیروں کے حساب سے برآمد ہو اور اُس کے چاروں طرف اِسی کی جگمگ ہو؛ اُس کے ہر ہر عمل سے اِسی لا الٰہ الا اللہ کی روشنی پھوٹے۔ یقینا اگلے جہان میں اِس کلمہ سے بڑھ کر فائدہ دینے والی اور اِس کلمہ سے بڑھ کر وزن پانے والی کوئی شے نہیں۔

قرآن ہے تو اس کا لب لباب یہی کلمہ ہے۔

رسول ہے تو اس کا سب سے زیادہ زور اِسی کلمہ کو منوانے اور قائم کرنے پر صرف ہوا ہے۔

انبیاءہیں تو وہ جہان میں اِسی کی گونج اٹھا کر گئے۔

صحابہ ہیں تو وہ اِسی لا الٰہ الا اللہ سے جنم پا کر وجود میں آئے اور اِسی کی عظمت کیلئے جئے۔

شہداءہیں تو وہ اسی کی راہ میں مرے۔

اولیاءہیں تو وہ اِسی کی شہادت دینے کے دم سے اولیاءہوئے۔

صالحین ہیں تو اُن کی زندگیاں اِسی کا محور بنی رہیں۔

اَبرار و مقربین ہیں تو وہ اِسی کی راہ میں ترقیاں کر کر کے یہ رتبۂ بلند پا جاتے رہے کہ.... ”نہیں کوئی اطاعت اور نیاز کے لائق، مگر اللہ“۔

زمین ہے تو وہ اِسی کلمہ کی کہانی جاری رکھی جانے کیلئے اپنا فرش پیش کرتی ہے کہ ”نہیں کوئی الٰہ، مگر اللہ“.... جس دن یہ ”کہانی“ یہاں ختم ہوگی، زمین کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔

آسمان ہیں تو وہ اسی کو سایہ دے رکھنے کیلئے قائم ہیں؛ جونہی اِن کلمات کا عرش کی جانب بلند ہونا یہاں پر موقوف ہوا، آسمان سمیٹ دیے جائیں گے۔

جہان قائم ہیں تو وہ اسی کی گونج سننے کو۔

اَجرام اور تارے ہیں تو وہ زمین کی انہی سرگوشیوں کے دم سے فلک کی زینت ہیں؛ جس روز زمین سے اٹھنے والی یہ مانوس صدا نہ سنی جائے گی کہ ”نہیں ہرگز کوئی پرستش کے لائق، مگر خدائے مالک الملک“.. سنسار کے یہ ٹمٹماتے چراغ یکایک بجھ جائیں گے؛ تارے اُس دن بے نور ہو کر دم توڑ دیں گے، اَجرام بکھر کر ٹکراتے پھریں گے اور یہ چمکتا دمکتا چرخ سب ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔

غرض.... خدا کا صحیح صحیح مرتبہ اور مقام بیان کرنے والا یہ کلمہ جب تک یہاں نشر ہوتا ہے تب تلک وجود کی جان میں جان ہے اور نظامِ ہستی کو فنا سے تحفظ حاصل ہے۔

کائنات کا مالک ہے تو وہ خود شہادت دیتا ہے اور اپنی سب مخلوق کو اِس پر گواہ ٹھہراتا ہے کہ: ”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر وہ خود ہی“۔

ملائکہ اسی شہادت کے دینے پر مامور ہیں اور ہردم اِسی حقیقت کا ورد کرتے ہیں کہ: ”نہیں کوئی بندگی کے لائق، مگر صرف عرش کا مالک“۔

علم والی سب ہستیاں یہی شہادت دے دے کر جاتی رہیں اور یہی شہادت دینے کو جہان میں آتی رہیں کہ: ”نہیں کوئی حمد اور تعریف اور سپاس اور عبادت کے لائق، مگر ایک جہانوں کا مالک“۔

علم، دانائی اور روشنی کا سراغ اس جہان میں جس کو بھی ملا اور ”حقیقت“ کا سرا جس کے بھی ہاتھ آیا اس کی ابتدا اور انتہا پھر اسی بات پر ہوئی کہ: ”نہیں کوئی تعظیم اور کبریائی، اور سجدہ اور تقدیس، اور دعاءو فریاد، اور امید و خشیت، اور اطاعت و فرماں برداری و فرماں روائی کے لائق، مگر ایک جہانوں کا خالق“:

شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ  (آل عمران: 18-19)

”اللہ خود شہادت دیتا ہے کہ نہیں کوئی معبود مگر وہ خود ہی۔ اور فرشتے (یہی شہادت دیتے ہیں) اور علم کی مالک سب ہستیاں، نہایت عدل پہ قائم (شہادت، کہ) نہیں کوئی معبود مگر ایک وہی ذات، عزت اور اقتدار والی، حکمت اور دانائی والی۔ بے شک دین جو اللہ کے ہاں (قبول) ہے ایسا ہی اسلام ہے“۔

کرۂ ارض پر.... ”زندگی“ سلامت ہے تو سراسر اِسی کی بدولت۔ ”زندگی“ پر آج ایک سے بڑھ کر ایک رنگ کھلتا ہے، راحت اور آسائش بے حساب اور تاحد نگاہ ّپھیلی ہے؛ اِس کی جاذبیت اور اس کا حسن ودل آرائی دیکھیں تو ”فنا“ کا گویا کہیں نام نہیں....! صاحبو! ایک ”جہانِ فانی“ سے ”فنا“ ہی کو ٹال رکھنے والی وہ برگزیدہ حقیقت اِس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ابھی توحید کے نغمے اِس جہان کے اندر برابر نشر ہوتے ہیں؟!

یہاں ”زندگی“ سانس لیتی ہے؛ شہر بستے ہیں ، مخلوق چلتی پھرتی ہے، چرند پرند حیات کا لطف پاتے ہیں.. تو کیا شک ہے کہ یہ سب کچھ زمین پر اِسی کلمہ کے دوام سے ہے۔

کائنات کی ہر چیز برسر عمل رکھی گئی ہے اور ہزارہا برس گزر جانے کے بعد بھی اپنے اپنے کام پر عین اُسی طرح چست اور چوبند.... بادل اُسی تن دہی سے دوردراز بیابانوں کو سیراب کرنے پہنچتے ہیں اور اُسی نیاز مندی سے آج بھی زمین کا پانی بھرتے ہیں۔ بجلیوں کے کوندنے اور مچلنے میں اب بھی وہی بے چینی ہے۔ ہواؤں نے اپنی سبک خرامی نہیں چھوڑی اور وہ عین اُسی عقیدت سے زمین کے چاروں طرف بھاگی پھرتی اِس سیارچے کی بلائیں لیتی ہیں، کہ اب تک مائل بہ آرام نہیں۔ ہشاش بشاش سورج، روشنی اور حرارت کے بے حد و حساب خزانے لئے روز اپنے کام پر آیا ہوتا ہے، گویا تھکنے کا نام نہیں۔ چاند اُسی باقاعدگی سے پوری پوری شب آسمان پہ پہرہ دیتا ہے اور ایک لمحہ تاخیر کا روادار نہیں۔ دریا اور ندی نالے اُسی زور و شور اور اُسی شوق و رغبت سے بہتے ہیں اور اُسی انہماک سے اپنے دائیں بائیں حیات کی پرورش کرنے میں لگے ہیں۔ سمندر اپنی موجوں کے اضطراب میں کمی لانے پر آج بھی آمادہ نہیں اور اس کا جوار بھاٹا یہاں کے پانیوں کی تازگی جوں کی توں رکھے ہوئے ہے، کہ جس کے دم سے زندگی رواں دواں ہے۔ مٹی میں دانہ پھاڑ کر کونپل نکال دینے کے کرشمے آج بھی اُسی شان اور اُسی قوت سے ظہور کرتے ہیں۔ پودے، کھیت، سبزہ، پھلواری، اور رواں چشمے زندگی کو رعنائی دینے میں اُسی طرح مست ہیں۔ یہاں کے پربت اور وادیاں، میدان اور صحرا، جھنڈ اور سائے، طرح طرح کے چوپائے، ہزارہا قسم اناج، میووں سے لدے باغ، موسم اور فضائیں، مہک اور دھنک.... سب اپنے اپنے وجود سے ہستی میں رنگ بھرتے ہیں تو وہ اِسی دم سے اور یہاں ازل سے چلی آئی اُسی ایک کہانی کو دوام بخشنے کیلئے جس کا عنوان ہے: ”نہیں کوئی پرستش کے لائق، مگر اللہ“۔

البتہ جس دن لا الٰہ الا اللہ کے شرارے یہاں بالکل سرد پڑگئے؛ جس دن توحید کی ایک بھی چنگاری اِس جہان میں دیکھنے کو نہ ملی، اُس دن یہ پورا جہان اپنی وقعت کھودے گا اور اِس کا مالک کوئی پروا کئے بغیر اِسے توڑ پھوڑ ڈالے گا! خدا کے مرتبہ و مقام کا سچا دم بھرنے والا جب کوئی ایک بھی شخص یہاں باقی نہ رہا، اُس روز یہ عالم نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس سانحہ کے پیش آنے میں اُس روز نہ تو نظمِ عالم کی یہ دلکشی اور سحر انگیزی کوئی ”رکاوٹ“ ہو گی اور نہ اِس کے پرستاروں کا یہ ہجوم! تب یہاں زندگی کی خیر ہو گی اور نہ زندگی کے میلوں کی! یہاں کی سب رونق اور انجمن آرائی دھری کی دھری رہ جائے گی اور ایک نیا جہان بسائے جانے کا اعلان کر ڈالا جائے گا، جوکہ ایک دائمی جہان ہو گا اور جس میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خدائے لا شریک کی حمد اور تسبیح ہو گی....!!!

”نہیں کوئی پوجا کے لائق، مگر خود ہستی کا موجد“ کے نغمے چھیڑ رکھنے والوں کے، اِس بزم سے اٹھ کر جانے کی دیر ہے، سب ’کارروائی‘ ہی برخاست کر دی جائے گی!!!!!

کوئی شک نہیں، خداکی وحدانیت کے تذکرے ہی زمین پر اِس ساری چہل پہل کا راز چلے آتے ہیں۔ خدا کے مرتبہ اور مقام کا ورد ہونا ہی اِس پورے جہان کو بچا کر کھڑا ہے۔ خدا کے مرتبہ اور مقام کے اِن تذکروں سے جونہی البتہ یہ دنیا خالی اور سنسان نظر آئی، اِس کے خاتمے کا فی الفور اعلان کر دیا جائے گا۔ صورِ اسرافیل پھونک دیا جانے کو بس اِسی ایک بات کی دیر ہے، کہ ہستی کو پیامِ فنا مل جائے گا۔ تب وہ ’وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ‘ ہو جائے گا جس کے ڈر سے زمین اور آسمان آج بھی تھر تھر کانپتے ہیں اور جس کی دہشت سے ہر باخبر آج بھی یہاں دم سادھ کر بیٹھا ہے!!!

ہاں پھر یہی سیارچہ جس کی کوکھ میں ہزارہا سال ’زندگی‘ ناز سے پلتی رہی، اُس روز لرزہ بر اندام ہو گا!!! اِس کے شکم میں جتنے آتش فشاں قید کر رکھے گئے ہیں، اِس کا خول توڑ توڑ کر ابلنے لگیں گے اور یہ ہنستا مسکراتا سیارہ جل کر راکھ ہونے سے پہلے اُس پھٹے ہوئے گیند کا نقشہ پیش کرے گا جس کے اندر گویا صرف ہوا بھر رکھی گئی تھی!!!

یہی پہاڑ جو لاکھوں برس سے دھرتی کو تھام کر کھڑے ہیں اُس دن بے قابو لڑھکتے پھریں گے، یہاں تک کہ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے !!! یہی خلقت جو یہاں ٹھاٹھ سے بستی ہے بکھرے پتنگوں کی طرح رلتی پھرے گی!!! یہی سمندر جو یہاں تحفظِ حیات کا ذریعہ ہیں، آگ بن کر دہکیں گے اور پھٹ پھٹ کر اڑیں گے!!!

غرض ”زندگی“ کا یہ سامان ہی اُس روز ”فنا“ کا اسباب کر دیا جائے گا!!!!!

صاحبو! زمین پر اِس شہادت کی گونج سنی جانا کہ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“، واقعتا اِسی قدر عظیم الشان مسئلہ ہے!!!!!

بقائے نوعِ انسانی سراسر اِسی پر معلق ہے۔ ایک نوعِ انسانی ہی کیا، زیست کی سب انواع اِسی دل نشیں واقعہ کی مرہونِ منت ہیں۔ جب تک یہاں اِس کلمہ کی بازگشت ہے ”زندگی“ کے آثار سمجھو تبھی تلک ہیں۔ انسان کیا حیوان، مسلم کیا کافر، نیک کیا بد، جو بھی اِس کرۂ ارض پر بستا ہے اور صبح شام رزقِ وافر اور صحت و شادمانی سے حظ اٹھاتا ہے، محض اِس سلسلہ کے جاری وساری رہنے کی بدولت ہے۔

یہ کلمہ واقعتا اتنی ہی بڑی سچائی ہے!!!

”بہشت“ ایسا حسین جہاں، جو کسی کے خواب میں آیا ہو گا اور نہ خیال میں، مگر انبیاءکی بتائی ہوئی نہایت سچی حقیقت ہے اور جس کو دار الخلود یعنی ہمیشگی کا جہان کہا گیا ہے.. ”بہشت“ کا وہ حسین جہاں وجود ہی میں اس لئے آیا کہ وہ اُن پاکیزہ نفوس کی جائے قرار بنے جنہیں لا الٰہ الا اللہ میں ہی یہاں زندگی کا قرار ملتا تھا اور جو اِس بات کو اپنا دستورِ حیات بنا لینا قبول کرلیتے رہے کہ: ”نہیں کوئی پرستش و فرماں برداری کے لائق، مگر اللہ“۔

”دوزخ“ ایسا وحشت ناک جہاں، جو کسی کے تصور میں آسکتا ہے اور نہ اندازے میں، مگر انبیاءکی خبر دی ہوئی نہایت سچی حقیقت ہے، اور جو کہ خدائے جبار و قہار کی پکڑ کا ہی دوسرا نام ہے، کہ جس سے ہر مخلوق پناہ مانگتی ہے.. ”دوزخ“ کا وہ خوفناک جہاں وجود ہی میں اس لئے آیا ہے کہ اُس میں وہ شقی نفوس جھونکے جائیں جو اس قدر نڈر ہو گئے تھے کہ انہوں نے جہنم سے بھاگ کر کبھی اِس لا الٰہ الا اللہ کا سہارا نہ لیا اور کبھی اِس حقیقت کو اپنا آئینِ زندگی بنا لینے میں پناہ نہ ڈھونڈی کہ ”نہیں کوئی پرستش و فرماں برداری کے لائق، مگر اللہ“۔

یہ وہ حق ہے کہ عرش تا زمیں اِسی کا اعلان اور اِسی کا بیان ہوتا ہے....!!!

آسمان سے کتابیں اور صحیفے پے در پے آتے رہے اور وحی کا سلسلہ ہزار ہا برس جاری رہا تو اسی ایک مضمون کی بے حد و حساب جہتیں بیان کرنے کو کہ: ”نہیں کوئی پرستش و بندگی کے لائق، مگر وہ ذات جو جہانوں کا پروردگار ہے“۔

’آسمان‘ کے پیغامات زمین پر جب بھی سنے گئے، اُن کو یہی بولتا ہوا پایا کہ اہل زمین خبردار رہیں کہ خدا کے سوا یہاں کبھی کسی کی ”تعظیم“ اور ”کبریائی“ ہو۔ اُس کے سوا یہاں کسی کی ”شریعت“ اور ”آئین“ چلے۔ پرستش کیلئے کہیں اہل زمین کے اپنے ’خدا‘ ہوں اور اطاعت و حکم برآری کیلئے ان کے اپنے پیشوا اور معبود۔ ”امید اور لو لگانے“ کیلئے یہیں کی کچھ ’ہستیاں‘ ہوں اور ”خوف اور خشیت“ ایسے بندگانہ رویوں کیلئے یہیں کی ’سرکاریں‘۔ ”دعاءاور پکار اور سہارا ڈھونڈنے“ کیلئے یہیں کے ’آستانے‘ ہوں اور ”حاجت روائی“ کے لئے یہیں کی ’درگاہیں‘۔ غرض ”عبادت“ کے معاملہ میں ایک اُس الحی القیوم کے سوا جو عرش کے اوپر ہے، مطلق طور پر یہ کسی کا دم بھریں۔

ایسے پیغامات اور انتباہات زمین پر کوئی ایک آدھ بار نہیں، بے حد و حساب نشر کرائے گئے۔ بشارتوں اور نذارتوں کے ایک دو نہیں ہزاروں سلسلے اِسی ایک غرض سے جاری رہے....

زمین کے فرماں روا کی جانب سے یہاں پر انسانوں کو ڈرانے اور خبردار کرنے والوں کا تانتا باندھ دیا جاتا رہا، جو اُس کی جانب سے لوگوں کو کمال کی حیات آفرین بشارتیں سناتے اور نہایت خوفناک انجام سے خبردار کرتے؛ مالک کے ہاں واپس پہنچنے پر خوش بختوں کیلئے ایسے ایسے خیر مقدم کی خبر دیتے اور اُس کی رحمتوں اور برکتوں کی ایسی ایسی کیف آور تصویریں دکھاتے اور اُس کے ہاں پائی جانے والی تواضع و نوازشات کی ایسی ایسی منظر کشی کرتے کہ خدا کی ملاقات سے بڑھ کر کوئی چیز انسان کو دنیا میں عزیز نہ رہے۔ البتہ مالک کے ہاں واپس پہنچنے پر بدبختوں کی بھی پھر وہ ایسی ایسی ہولناک تصویریں دکھاتے اور اُن کا ایسا ایسا خوفناک حشر کئے جانے کی خبر دیتے کہ رونگٹے کھڑے ہوں اور خدا کے روبرو پیش ہونے کا تصور کر لینے سے بھی انسان کے اوسان خطا ہوں ....خدا کا پیغام گھر گھر پہنچا دینے والے اِن برگزیدہ انسانوں کی زبان پر امید اور ڈراوے کی سب سے بڑھ کر جو بات سنی گئی اور نہایت تکرار سے بیان ہوئی، اور جس کو تاریخ نے نہایت غور سے نوٹ کیا، وہ بات یہی تھی کہ:

يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ  ....(1)

”اے میری قوم! پوجو اللہ کو؛ کہ نہیں ہے فی الواقع تمہارے پوجنے کے لائق کوئی ذات، بجز اُس کے“۔

قومیں باریاب ہوتی رہیں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ٹھہریں تو وہ اِسی حقیقت کو مان کر۔ قومیں عذابات سے بچ جاتی رہیں اور یہاں ”بقائے انسان“ کا سبب بنی رہیں تو اِسی بات کو قبول کر کے اور اِسی کو اپنی زندگی کا دستور ٹھہرا کر کہ: ”نہیں کوئی پرستش و اطاعت کے لائق، مگر اللہ“۔

خراباتِ عبرت ناک سے صالحین کو عین وقت پر نکال لیا جاتا رہا تو اِسی شہادت کی برکت سے اور زمین پر اِسی کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے۔

قومیں صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی رہیں؛ کوئی غرقِ طوفاں ہو کر، کوئی بادِ صرصر کی نذر ہو کر، کوئی کڑک سے تو کوئی دہل سے، کسی کو زمین میں دھنسا کر تو کسی پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا کر.. تو اساساً وہ قوموں کے اِس بات کو ٹھکرا دینے اور اِس ایک حقیقت کو آئینِ زندگی کے طور پر قبول نہ کرنے کے باعث کہ: ”نہیں کوئی پرستش و اطاعت کے لائق، مگر اللہ“۔

تباہ شدہ قومیں کہ جن پر پھر کبھی آسمان رویا نہ زمین،تہہ خاک ہوئیں اور آسمانی صحیفے اُن پر کوئی کتبہ لگانے کے روادار ہوئے تو بھی یہی کہ:

كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ !!! ”ان کے اکثر لوگ مشرک تھے“

اور ..

بُعْداً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ !!! ”مردود ہوں ایسے ظالم لوگ“

تہذیبیں لگاتار مسمار ہوئیں تو وہ اِسی کلمہ کی زد میں آکر۔ ہر تباہی کے بعد ’انسان‘ کو ایک بار پھر سر اٹھا لینا نصیب ہوا تو اِسی شرط پر۔ ہر بار ایک نئی تہذیب کی پیدائش کرائی گئی اور ایک کہانی کا ازسر نو آغاز کرایا گیا تو وہ اِسی کلمہ کے زیر عنوان اور اِسی کو اپنا آئینِ زندگی بنا لینے والوں کے ہاتھوں۔

ہجرتیں ہوئیں تو اِسی کی خاطر۔ صالحین کی تلواریں کسی وقت بے نیام ہوئیں تو اِسی کی خاطر۔ گھر چھوٹے تو اِسی کی خاطر۔ شہر بسے تو اِسی کی خاطر۔

’داستانِ زمین‘ میں جا بجا ’آسمان‘ کی دخل اندازی ہوتی رہی اور ہر بار معاملے کو ’ایک حد‘ سے بڑھ جانے سے روک دیا جاتا رہا تو وہ اِسی حقیقت کے زیر نگیں کہ ”نہیں کوئی تعظیم اور پرستش کا سزاوار، مگر خدائے لم یزل“۔

زمین کی بکثرت ”صفائی“ کی جاتی رہی اور ’تہذیب‘ کی ”دھلائی“ کبھی کسی وقت رکنے میں نہیں آئی.... تو در اصل وہ اِس کلمہ کی حقیقت پر پڑنے والی دھول ہٹا دینے ہی کی خاطر اور اِس کی تاب برقرار رکھنے ہی کیلئے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ۔(الروم: 41۔42)

”فساد بولنے لگا ہے خشکی اور تری میں، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے کارن۔ تاکہ چکھا دے خدا اِن کو اِن کے کرتوتوں کا ایک حصہ ، کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔ کہو: زمین میں خوب چل پھر کر دیکھ لو کہ اُن پہلوں کا کیسا انجام رہا تھا۔ اُن کے اکثر بھی مشرک ہی تھے“۔

سب سے بڑی حقیقت اور سب سے وزنی بات اِس جہان میں کسی کے کہنے کی ہے تو وہ یہی کہ ”نہیں کوئی بندگی و پرستش کے لائق، مگر اللہ“.. ایسی وزنی بات کہ اگر ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالی جائے اور دوسرے پلڑے میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں، تو یہ سب آسمان اور زمینیں اس کے مقابلے میں بے وزن نکلیں اور یہ اکیلی بات وزن میں ان سب آسمانوں اور زمینوں کو مات دے جائے.. ایک ایسی زوردار بات کہ اِس کے سامنے اگر آسمانوں اور زمینوں کی سختی اور چوڑائی مل کر بھی آ جائے تو وہ اس کو پھاڑ کر گزر جائے:

آمُرُکَ بِلَااِلٰہَ اِلَّا اللہ، فَاِنَّ السَّمٰوَاتِ السّبْعَ وَ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ لَوْ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّۃ وَ وُضِعَتْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ فِیْ کَفَّۃ رَجَحَتْ بِہِنَّ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ، وَ لَوْ اَنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعَ وَ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ کُنَّ حَلَقَۃ مُبْہَمَۃ قَصَمَتْہُنَّ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ (مسند أحمد (رقم: 6583) عن عبد اللہ بن عمرؓ۔)(2)

”میری تجھ کو وصیت ہے: لا الٰہ الا اللہ (”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“)۔ اِس لئے کہ اگر ساتوں کے ساتوں آسمان اور ساتوں کی ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں پڑیں اور لا الٰہ الا اللہ ایک پلڑے میں پڑے، تو لا الٰہ الا اللہ کا پلڑا اِن سب کے بالمقابل بھاری پڑ جائے۔ اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوںزمینیں (مل کر) ایک بند کڑا ہوں تو لا الٰہ الا اللہ ان کو پھاڑ کر گزر جائے“۔(2)

دنیا میں کیا کیا مسئلے نہ تھے اور جہان کیسے کیسے مصائب سے پر نہ تھا، آخر کوئی تو بات ہو گی کہ جو بھی دنیا کے اندر رسول آیا اُس کو یہی پکار لگانے اور یہی نزاع اٹھانے کا حکم ہوا، کہ فیصلہ ہو تو سب سے پہلے اِسی کا فیصلہ ہو اور تصفیہ ہو تو ہر نزاع سے پہلے اِسی نزاع کا:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الأنبیاء: 25)

”اور نہیں بھیجا تجھ سے پہلے ہم نے کوئی رسول، مگر اُس کو یہی وحی کرتے رہے کہ: نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے میرے، پس ایک مجھ ہی کو پوجو“

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُواْ فِي الأَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (النحل: 36)

”اور یقینا ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ: عبادت کرو اللہ کی، اور دامن کش رہو طاغوت (خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں) سے۔ پھر کسی کو اللہ نے ہدایت دی اور کسی پر گمراہی کا ثبوت ہو گیا۔ تو پھر چل پھر لو زمین میں اور آنکھوں دیکھ لو کیسا رہا انجام جھٹلانے والوں کا“

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ۔وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنْ الشَّاكِرِينَ۔وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ۔ (الزمر: 64 - 67)

”کہہ دو: کیا مجھ سے فرمائش کرتے ہو کہ میں غیر اللہ کو پوجوں، ارے اے جاہلو؟ یہ تو پہلے ہی وحی کی جا چکی ہے تجھ کو بھی اور تجھ سے پہلوں کو بھی کہ: اگر تو نے شرک کر لیا تو تیرا سب کیا کرایا غارت ہو جائے گا اور تو خسارہ پانے والوں میں ہو رہے گا۔ بس توپوج ایک اللہ کو اور ہو جا (اُس کے) شکر مندوں میں۔ (در حقیقت) نہیں حیثیت جانی ان لوگوں نے اللہ کی، جیسی حیثیت جاننا حق رکھتا ہے۔ وہ تو وہ ہے کہ قیامت کے روز ساری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور سب کے سب آسمان لپٹ کر اُس کے دست راست میں آ رہیں گے۔ پاک ہے وہ ذات اور بلند و برتر ہے اس سے جو یہ اُس کے ساتھ شریک کرتے ہیں“

يُنَزِّلُ الْمَلآئِكَةَ بِالْرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُواْ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاتَّقُونِ۔خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ۔(النحل: 2 - 3)

”وہ فرشتوں کو بھیجتا ہے الروح کے ساتھ، خاص اپنے حکم سے، اپنے بندوں میں سے جن پر وہ چاہے، (اِس مشن کیلئے) کہ ”خبر دار کردو، کہ نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر میں ہی۔ پس مجھ سے ہی ڈرتے رہو“۔ آسمانوں اور زمین کو اُس نے حق پر بنایا ہے۔ بلند و برتر ہے وہ اُس سے جو یہ اُس کے ساتھ شریک کرتے ہیں“

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ۔(الزخرف: 45)

”تو اُن سب پیغمبروں سے جن کو ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا، پوچھ لے: کیا خدائے رحمٰن کے سوا کبھی ہم نے دوسرے معبود ٹھہرائے ہیں، کہ اُن کی بھی عبادت ہو؟“

یہ ہے شان اِس کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی....!!!

تو صاحبو! کیا یہ روا ہو گا کہ ایسا عظیم الشان کلمہ ہمارے یہاں آئے تو بے معنیٰ ہو کر رہ جائے؟! نہ اِس کا کوئی مطلب جسے ازبر کیا جائے، نہ اِس کا کوئی اطلاق جو مفاہمت سے بالاتر ہو اور نہ اِس کا کوئی دائرہ جس کو توڑ دیا جانے سے ہماری نظر میں قیامت آ جاتی ہو؟!

کیا یہ روا ہو گا کہ وجودِ کائنات جس ”کلمہ“ کے دم سے قائم ہو، ہمارا اپنا وجود سرے سے اُس کلمہ کی شہادت نہ ہو؟! پورا جہان اگر اِس ”کلمہ“ کی خاطر آباد رکھا گیا ہے، تو کیا یہ درست ہو گا کہ ہماری اپنی زندگیاں اِس کی شہادت سے خالی اور ویران ہوں؟! وجودِ ہستی کا تو یہی عنوان ہو، مگر ہماری اپنی ہستی میں اِس کی صدائے بازگشت سنی ہی نہ جاتی ہو؟!

ایسی با معنیٰ بات جس کیلئے انبیاءآتے رہے اور جس کو اپنا مرکزی ترین موضوع بناتے رہے ہمارے لئے سرے سے کوئی مفہوم نہ رکھتی ہو اور ہم اِس کو زبان سے بول دیا جانے والا ’اجنبی زبان‘ کا ایک غیر مفہوم لفظ سمجھیں؟! زیادہ سے زیادہ ہم روادار ہوں تو بس یہ کہ منہ سے اُسے بول دیں، اور یہ بولتے وقت نہ دل ہمارا ساتھ دے رہا ہو اور نہ دماغ؟! شعور اس میں شریک ہو اور نہ وجدان؟! بلکہ ایسی بامعنیٰ بات جو صحیفوں میں بار بار دہرائی گئی اور کتابوں میں پوری تکرار کے ساتھ بتائی گئی بلکہ جو سب شریعتوں کا ہی مرکزی ترین عنوان ٹھہرا دی گئی، اُس کو بول دیتے وقت ہمارا قلب و ذہن اور ہمارا شعور و وجدان تو کیا ساتھ دے گا، اور ”یقین“ کا موضوع بھی ہمارے یہاں یہ کلمہ کیونکر بنے گا، ہمیں اِس بات کا ہی ادراک نہ ہو کہ اِس کا معنیٰ اور مراد کیا ہے؟! ہماری اپنی زندگی اور ہمارے ماحول اور معاشرے میں اور وہ پورا جہان جس میں ہم بستے ہیں اُس کے اندر ہمیں یہی معلوم نہ ہو کہ اِس کلمہ کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے؟! یہ کلمہ ہماری دنیا میں کس کس چیز کی نفی کراتا ہے اور کس کس چیز کا اثبات؟! زمانے میں یہ کس کس بات کا انکار کرواتا ہے اور کس کس بات کا اقرار؟! جہان میں کس کس بات کو یہ کلمہ ختم کروانے آیا ہے اور کس کس بات کو باقی رکھنے؟ اور کس کس بات کو عدم سے وجود میں لانا ہی اِس کلمہ کا منشا اور تقاضا ہے؟!

صاحبو! قرآن کا لب لباب اگر یہی کلمہ ہے، رسول کا سب سے زیادہ زور اگر اِسی کلمہ کو منوانے اور قائم کرنے پر صرف ہوا ہے، انبیاءجہان میں اِسی کی گونج اٹھا کر گئے، صحابہ نے اِسی سے جنم پایااور پھر اِسی کی عظمت کیلئے جئے، شہداءاِسی کی راہ میں مرے اور اولیاءاِسی کی شہادت دینے کے دم سے اولیاءہوئے، صالحین کی زندگیاں اِسی کا محور بن کر رہیں اور اَبرار و مقربین کو رتبے اِسی کی راہ میں ترقی کے بقدر ملتے رہے، حق پرستوں کی سب ہجرتیں اِسی کی راہ میں ہوئیں اور سب جہاد اور سب قربانیاں ایک اِسی کی خاطر.... تو اِس کلمہ کو جاننے اور سمجھنے پر زندگیاں لگا دینے سے بھلا ہم ہی کیوں پیچھے رہیں؟! زندگی کوئی دوسری بار تھوڑی ملے گی!!!

یہ تو ایک ہی زندگی ہے.. یا یہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت ہے اور یا یہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت نہیں ہے!!!!!

دوستو! یہ کلمہ ہی اگر کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے تو اِس کو قلب و ذہن میں بٹھانے اور اپنی دنیا میں اِس کی سچی ترین شہادت دینے سے بڑھ کر کونسا فرض ہو سکتا ہے؟! اگر یہ سچ ہے کہ جہان کی سب سے بڑی اور سب سے برگزیدہ حقیقت یہی ہے اور عرش والے کے ہاں سب سے بڑھ کر پزیرائی لے کر دینے کی قدرت بھی اِسی کلمہ کے اندر رکھ دی گئی ہے؛ عرش والے کو اِسی کے واسطے دے دے کر بلانا اگر سب سے زیادہ برحق ہے، تو پھر اِس کی مراد پا لینے کیلئے صبح شام ایک کر دینا بھی آخر کیا بڑی بات ہے!!!

ایسی وزنی بات جو آسمانوں اور زمینوں پر بھاری پڑ جائے، ہمارے یہاں بے وزن نکلے؟! خرد پر اِس کی کوئی ہیبت ہو اور نہ دل پر اِس کی کوئی دھاک؟!

بہشت کے دروازے کھلوا لینے کی سب سے مؤثر صلاحیت اگر اِسی کلمہ میں رکھ دی گئی ہے کہ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“ تو پھر اِس کے معانی کی گہرائی میں اترنے کے اندر آخر کیا مانع ہے؟! دوزخ کو قفل لگوا دینے کا راز اگر اِسی ایک کلمہ میں پوشیدہ کر رکھا گیا ہے تو پھر اِس کلمہ کا ایک ایک معنیٰ اور ایک ایک مفہوم پالینے کیلئے دنیا جہان ایک کر دینا اور اِس سے متعارض ایک ایک بات کی چھان بین کر لینا بھلا کیونکر وارے کا نہیں؟!

سب سے بڑا وسیلہ اور مالک کا قرب پانے کا موثر ترین ذریعہ اگر یہی کلمہ ہے تو اِس کو علم اور یقین کا میدان نہ ماننا اور اِس کے اندر سوخ پانے کیلئے تگ و دو نہ کرنا کیونکر عقلمندی ہے؟!

اور تو اور.. ”مسلمان“ ہونے کی شرط اگر یہی ایک کلمہ ہے تو پھر اِس کلمہ کو ادا کرنے کے قواعد اور ضوابط سے ہی ناواقف رہنا کہاں کی خرد مندی ہے؟! ایک ایسا شخص جو یہ کلمہ ادا کر کے خدا کے ہاں سرخرو ہونا چاہتا ہے اور قبر اور حشر کی سب دشواریاں کامیابی کے ساتھ پار کرنا ہی کلمہ پڑھنے سے درحقیقت اس کا مقصد ہے، کیونکر روادار ہو سکتا ہے کہ وہ اِس کلمہ کی شروط اور قیود سے ہی انجان رہے؟!

آخر یہ کلمہ آدمی کو چھڑوانے ہی کیلئے تو ہے، بشرطیکہ اِس کو ایک با معنیٰ کلمہ مان لیا جائے جس کا کوئی نہ کوئی مطلب ہے اور جو آدمی سے کچھ کہتا ہے!!!

ایسے شخص کیلئے اِس کلمہ میں کونسی خوشخبری اور بشارت، جو اِس کو ایک بے معنیٰ لفظ کے طور پہ لینے پر ہی مصر ہے اور جو یہ مان لینے کیلئے ہی تیار نہیں کہ اِس کلمہ کا باقاعدہ ایک مطلب ہے اور اِس کے ادا ہونے کی باقاعدہ کچھ شروط؟!

جس ”بات“ پر نجات کا کل دار و مدار ہے اور فلاح کا سب انحصار، ہم یہی نہ جانتے ہوں کہ اُس کا بنیادی مفہوم کیا ہے؟! ہمیں یہی معلوم نہ ہو کہ اُس کے پورا ہونے کی کم از کم شروط کیا ہیں اور اُس کو کالعدم کر دینے والی موٹی موٹی کوئی اشیاءہیں تو کیا؟!

ایسی برگزیدہ حقیقت جس کے سرے لگنے کے انتظار میں قیامت کا آنا روک رکھا گیا ہو، جس کے دم سے آسمان اور زمین قائم ہوں اور جس کو ممکن العمل بنا رکھنے کیلئے جہان کی ہر ہر چیز مسخر کر رکھی گئی ہو اور جس کی بدولت ہی دنیا کے یہ سب رنگ باقی ہوں.. اُس پر ہمارا البتہ کوئی وقت صرف ہوا ہو اور نہ محنت؟!!! کائنات کا سب سے بڑا، سب سے عظیم المرتبت اور سب سے عالی شان واقعہ ہماری زندگی کا ایک ناقابل ذکر واقعہ ہو اور ہمارے معاشرے کی ایک ناقابل التفات حقیقت؟!!!

وہ بات جو ہر رسالت کا ”مرکزی ترین“ موضوع رہی ہو، ہماری دعوت کا نہایت ’غیر مرکزی‘ موضوع ہو.... اور وہ بھی اگر ہو!

”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“ ہمارا مدعا ہو اور نہ معاشرے اور دنیا کے اندر ہمارا یہ کیس؟! نہ اِس پر ہمارا جھگڑا اور نہ اِس پر ہماری صلح؟! نہ یہ ہمارے ”اختلاف“ کی قوی ترین اور مرکزی ترین بنیاد ہو اور نہ یہ ہمارے ”اتفاق“ کی خالص ترین اساس؟! نہ یہ ہمارا ”وجہِ نزاع“ اور نہ یہ ہمارا ”وجہِ امتیاز“؟! نہ اِس پر ہمارا جڑنا اور نہ اِس پر ہمارا ٹوٹنا؟! نہ اِس پر ہماری دوستی اور نہ اِس پر ہماری دشمنی؟! نہ یہ ہماری نمایاں ترین شناخت اور نہ دوسروں کے ساتھ یہ ہماری وجہِ مفاصلت یا عنوانِ مخاصمت؟! نہ یہ ہمارا مرکزی ترین موضوع ہو اور نہ ہماری سرگرمیِ عمل کا واضح ترین محور؟! نہ اِس کیلئے محنت اور نہ سعی پیہم؟! اِس کے لئے ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘ کا رتبہ تو خیر بے حد بلند ہے، اِس کی بنیاد پر وہ ”اختلاف“ ہی کھڑا نہ کیا گیا ہو جو ایسی کسی ”ہجرت“ یا ”جہاد“ کا رخ اور سمت متعین کرتا ہے یا سرے سے اُس کی نوبت آنے کا سوال پیدا کرتا ہے؟!

ہر حد کے توڑے جانے پر اپنے یہاں شور اٹھ کھڑا ہو سوائے لا الٰہ الا اللہ کی حدوں کے؟!!!!! ’فرد‘ بھی جانتا ہو کہ کس بات کے توڑے جانے پر زمین آسمان ایک کر دینا اُس کا پیدائشی حق ہے اور اُس کے یہاں ہر چیز سے بڑھ کر ضروری۔ ’گھر‘ کس بات پر چیخے گا، پورے گھر کو یہ بات معلوم ہو۔ کیا چیز ہو جائے تو ’جماعت‘ آسمان سر پر اٹھا لینے پہ تیار ہو گی اور اس پر ’خاموش‘ رہنے کو موت سے برا جانے گی، جماعت کے ہر فرد اور ہر کارکن پر یہ بات واضح ہو بلکہ ہر شخص کو اِس کا پیشگی اندازہ ہو۔ کونسا آئین ہے جس کے پامال ہونے پر ’معاشرہ‘ برہم ہو کر دکھائے گا اور وہاں ’برداشت‘ اور ’رواداری‘ کا نام بھی لیا جائے تو آپے سے باہر ہونے لگے گا اور اُس کی حرمت پہ کٹ مرنے پر آخری حد تک تیار پایا جائے گا، پوری دنیا کو اِس کی خبر ہو۔ کونسا دستور ہے جس کے ٹوٹنے پر چیخ پڑنا یہاں ہر ’باشعور‘ کا فرض ہے اور ’پڑھا لکھا‘ ہونے کی ایک نہایت پکی علامت، کسی سے یہ بات اوجھل نہ ہو.... ہاں مگر ”لا الٰہ الا اللہ“ کو ڈھونڈیں تو اُس پوری فہرست سے روپوش پائیں جس میں ایک فرد بھی ’مفاہمت سے بالا تر اشیاء‘ کا پورا پورا اندراج رکھتا ہے اور ایک گھرانہ بھی، جماعت بھی اور معاشرہ بھی!!!!!! ’پڑھے لکھے‘ بھی اور ’ان پڑھ‘ بھی!!! اِلا من رحم ربک۔ ”لا الٰہ الا اللہ“ کا دستور زمانے میں کتنا ہی پامال ہو اور اِس کی حدیں کتنا ہی جی کھول کر کیوں نہ توڑی جائیں، شرک کتنا ہی اپنے آس پاس کیوں نہ پایا جائے اور عبادتِ طاغوت کا کیسا ہی چلن کیوں نہ ہو، یہ نہ جھگڑا کرنے کی بات ہے اور نہ نزاع اٹھانے کی!!!!!! ”نہیں کوئی بندگی و پرستش کے لائق، مگر بندوں کا مالک“ کسی کا مقدمہ نہ نزاع!!! اور تو اور، اِسی پر تعجب ختم ہونے میں نہیں آتا کہ ”لا الٰہ“ سرے سے کوئی نزاع ہے! یہی تسلیم کرنا مشکل ہے کہ اِس کلمہ کے شروع میں ”لا“ کسی نزاع کی نشاندہی کیلئے رکھا گیا ہے اور ”نہیں“ سے ایک بات کا آغاز کرایا جانا کسی واضح ”انکار“ پر دلالت کرتا ہے....!!

صاحبو! سب سے بڑھ کر کوئی چیز اِس ”لا الٰہ“ کی رو سے ناقابل برداشت ہے تو وہ یہی کہ بندگی اور پرستش میں، فریاد اور استغاثہ میں، فرماں برداری اور اطاعت میں، اور قانون و آئین دینے میں کوئی یہاں مالک الملک کا شریک ہو اور اِن سب معاملات میں زمین پر عرش کے مالک کی ہمسری ہوتی ہو۔

صاحبو! ’کلمہ‘ تو اصل میں وہی ’چیز‘ ہے جس پر کسی قوم کا شیرازہ مجتمع کر رکھا گیا ہو۔ ’کلمہ‘ اُسی ’چیز‘ کو کہیں گے جو کسی فرد، کسی جماعت یا کسی معاشرے کیلئے ہر مفاہمت سے بالا تر ہو۔ جس پر اُس کے پڑھے لکھے کیا ان پڑھ، سب غیرت میں آتے ہوں اور جس کو توڑا جانا وہاں لوگوں کو سب سے بڑھ کر چیلنج کرتا ہو۔ اور جس کی حرمت اور ناموس کی اُس کے یہاں صبح شام آوازیں پڑتی ہوں۔ دنیا میں کسی کا ’کلمہ‘ کچھ ہے تو کسی کا کچھ۔ البتہ وہ ملت جس کو ”ملت ابراہیم ؑ“ کہا گیا ہے، اِس بات سے وجود میں آتی ہے کہ انسان کے ٹوٹنے اور جڑنے کی بنیا د یہ ہو کہ ”نہیں کوئی بندگی اور پرستش کے لائق، مگر اللہ“۔ یہی چیز اُس ”فرد“ کی پہچان ہو جو اِس ملت سے نسبت کا دعویٰ کرے اور یہی پہچان اُس جماعت یا اُس قوم یا اُس ملک کی جسے یہ نسبت عزیز ہو۔ کم ہی لوگ ہوں گے جو اِس کلمہ کو ”کلمہ“ سمجھ کر ادا کرتے ہیں!!!

حضرات! انبیاءنے یہ کلمہ یونہی تھوڑی پڑھایا تھا! یہ محض کوئی ’تلاوت‘ کی چیز تھوڑی ہے!!! یہ نرا ’خوش الحانی‘ کا میدان تھوڑی ہے!!! اِس پر تو ایک ”ملت“ کی تشکیل ہوتی تھی۔ اور اس سے پہلے یہ کلمہ ایک ”ملت“ کی نفی کرتا اور کراتا تھا!!! یہ کلمہ وفاداریاں بدلواتا تھا۔ دوستیوں کو دشمنیوں میں تبدیل کروا دیتا اور دشمنیوں کو دوستیوں میں۔ یہ وہ کلمہ ہے جو باپ اور بیٹے کے مابین جدائی ڈال دیتا، بھائی کو بھائی سے الگ کروا دیتا اور آدمی کو ’برادری‘ کا ہی سراسر ایک نیا تصور دیتا جس میں لوگ اپنے سات سات خون معاف کر دینا فخر کی بات جانتے اور اپنے باپ کا قاتل بھی ہو تو اُس کے ساتھ پیر سے پیر ملا کر خدائے واحد کی بندگی کرتے، وہ بھی کس ماحول میں؟ ’قبائل‘ کی دنیا میں جہاں ’قبیلہ‘ ہی آدمی کیلئے زمین ہوتا اور ’قبیلہ‘ ہی اُس کیلئے آسمان! ’کلمہ‘ زندگی کو بالکل ایک نیا رخ دینے کا اعلان ہوتا۔ آدمی کے جذبات، احساسات، خیالات، افکار، نظریات، ترجیحات، زندگی کے مقاصد اور اہداف، کونسی چیز ہے جو تبدیل ہوئے بغیر رہ جاتی؟! پس یہ چند لفظ تھوڑی ہیں۔ یہ تو ایک دنیا ختم کرنے کا عنوان ہے اور ایک دنیا کھڑی کر دینے کا!!! یہ جہان میں سب سے بڑی تبدیلی لائی جانے کا اعلان ہے اور سب سے بڑا انقلاب برپا کر دینے کا حجر اساس!!! صاحبو! یہ محض ’پڑھ دینے‘ کی چیز تو نہیں!!!!!

اِس کلمہ پر ایمان کا کم از کم حق یہ ہے کہ انسان ہاتھ اور زبان سے کچھ نہیں کر سکتا تو بھی اُس کا قلب و ذہن تو ضرور ہی اُس باطل کو رد کرے جو خدا کے ماسوا پوجا جاتا ہے۔ اُس کا دل اور دماغ تو ضرور ہی اُن باطل ہستیوں کی نفی کرے جن کی اِس دنیا میں تعظیم اور کبریائی ہوتی ہے۔ شعور کی دنیا میں تو وہ ہر حال میں اُس شرک سے برأت کرے جو اُس کے گرد و پیش میں کیا جاتا ہے۔ قلب و ذہن سے تو وہ لازماً اُس نزاع میں شریک ہو جو دنیا کے اندر ”عبادتِ غیر اللہ“ کے خلاف اٹھایا جانا ہے۔ سب سے بڑھ کر گرم ہونے اور جوش میں آنے کی بات اُس کے یہاں ہو تو یہی کہ اُس کی دنیا میں کہیں خدا کی عظمت پر حرف آیا ہے اور کسی نادان نے زمین پر آسمان والے کا شریک ٹھہرا دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر رد کرنے کی بات اُس کے ہاں ہو تو یہی کہ خدا کے مرتبے اور مقام کو چیلنج کر دیا گیا ہے، جویہ ہے کہ پرستش، اطاعت، بندگی اور اتباعِ آئین میں کسی کو اُس کا شریک یا ہمسر ٹھہرا دیا جائے۔ یہ بات بہرحال اُس کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ اِس کے بغیر آدمی کیسا ’کلمہ گو‘ اور کیسا ’مسلمان‘؟؟؟!

 


(1) سورۃ الاعراف اور سورۃ ہود پڑھیں تو انبیاءکی دعوت کا ایک طویل مضمون بیان ہوا ہے، جس میں ہر نبی کی دعوت کی عین ابتدا کے اندر یہی ایک بات تسلسل کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔

(2) یہ نوح علیہ السلام کی وصیت ہے جو انہوں نے بوقتِ وفات اپنے فرزند کو کی: کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کو لازم پکڑ کر رکھے، اور پھر لا الٰہ الا اللہ کی وہ فضیلت بتائی کہ یہ وزن میں ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں پر بھاری پڑنے والی چیز ہے اور یہ کہ اِن کلمات میں وہ صلاحیت ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی چوڑائی اور سختی کبھی مل کر بھی اِس کی راہ میں آجائے تو یہ ان کو صاف پھاڑ کر گزر جائے۔

ہم نے یہاں حدیث کا صرف ایک حصہ نقل کیا ہے جبکہ اِسی حدیث میں نوح علیہ السلام کی کچھ دیگر وصیتیں بھی مذکور ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام کے خدا کے ساتھ ایک مکالمے کے حوالے سے جو ایک مشہور حدیث مروی ہے اور جس میں لا الٰہ الا اللہ کی فضیلت پر اِس سے ملتے جلتے الفاظ آتے ہیں، اُس حدیث کو محدث البانی نے (سلسلۂ احادیث ضعیفہ میں) ضعیف قرار دیا ہے۔ البتہ نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت کے حوالے سے مروی درج بالا اِس حدیث کو البانی نے صحیح تسلیم کیا ہے۔ اِس حدیث کی صحت بیان کرتے ہوئے البانی ؒ لکھتے ہیں:

” اس حدیث کو بخاریؒ نے الادب المفرد (548) میں، احمد بن حنبلؒ نے (مسند میں: 2 169 - 170 ، 225 )، اور بیہقی نے الاسماءوالصفات (79 ہندیۃ ) میں صقعب ابن زہیر عن زید بن اسلم کے طریق سے روایت کیا ہے“۔  (السلسلۃ الصحیحۃ: حدیث رقم: ، جلد 1 صفحہ 209)

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز