عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, April 26,2024 | 1445, شَوّال 16
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
EmanKaSabaq آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
حقیقتِ زہد
:عنوان

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

حقیقتِ زہد

 

 

لغت کے اعتبار سے، ’زہد‘ کا مطلب ہے: آدمی کی رغبت کا کسی ایک چیز سے پھر کر کسی دوسری چیز سے وابستہ ہو جانا؛ اس انداز میں کہ جس چیز ’سے‘ آدمی کی رغبت پھر گئی وہ اس کی نظر میں کم وقعت ہو گئی، بہ نسبت اس چیز کے جس ’کی طرف‘ اس کی رغبت ہوئی۔

’زہد‘ کا لفظ ایک ایسی چیز کے آدمی کی نگاہ میں بے وقعت یا کم وقعت ہونے پر بولا جائے گا جس کی ویسے کچھ نہ وقعت ضرور ہو۔ مثلا تمہارے سامنے مٹی کا ڈھیر پڑا ہے تو اس کو بے وقعت جاننا لغت میں زہد نہ کہلائے گا۔ ہاں تمہارے آگے سونا چاندی پڑا ہے اور وہ تمہاری نگاہ میں بے وقعت ہو گیا ہے تو اس کو لغت میں زہد کہیں گے۔

اب چلتے ہیں ’زہد‘ کے اصطلاحی مفہوم کی طرف....

اہل نظر کے ہاں ’زہد‘ کی کئی ایک تعریفات کی گئی ہیں، یہاں ہم ان میں سے چند ایک نقل کریں گے:

”زہد“ نہ تو سوکھے ٹکڑے کھانے کا نام ہے اور نہ پھٹا پرانا لباس پہن رکھنے کا۔ ”زہد“ ہے دنیا کی بابت آدمی کی آرزو کا مختصر ہو جانا!!!

ایسی ہی تعریف امام احمدؒ سے منقول ہے، فرمایا: دنیا کی بابت ”زہد“ یہ ہے کہ آدمی کی آرزوئیں دراز نہ ہوں!!!

”زہد“ یہ ہے کہ آدمی ستائشِ خلق سے بے پروا ہو جائے۔ اوزاعیؒ کے بقول: ”دنیا کے معاملہ میں زہد“ یہ ہے کہ ستائش تمہاری نگاہ میں اپنی سب وقعت کھو دے۔ کہا کرتے تھے: تمہارے اعمال میں یہ کیفیت پائی جانا کہ لوگوں کی ستائش سے بالکلیہ مستغنی ہوجاؤ، اصل زہد ہے!!!

زہریؒ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں: ”زہد در دنیا“ یہ ہے کہ ’حرام‘ تمہارے ’صبر‘ کو بے بس نہ کر سکے تو ’حلال‘ تمہارے ’شکر‘ کو بے بس نہ کر سکے!!!

مالک بن انسؒ سے دریافت کیا گیا: دنیا کے معاملہ میں ”زہد“ اختیار کیا جانے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: حلال کمانا اور آرزو کا مختصر کر لینا!!!

امام مالکؒ ہی سے پوچھا گیا: ”زہد“ کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کو خدا سے ڈر کر ہاتھ ڈالنا!!!

حضرت علیؓ کا قول ہے: قرآن میں دو جملے اکٹھے آئے ہیں۔ ان دونوں کے عین بیچ، جو چیز پائی جاتی ہے اسی کا نام ”زہد“ ہے:لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ (الحدید: 23) ”تاکہ نہ افسوس کرو تم اس پر جو تمہیں نہ مل پایا، اور نہ پھولو اس پر جو اُس نے تمہیں عطا کردیا“۔ پس جس شخص کو دنیا کے اندر کچھ چھوٹ جانے پر ملال نہ ہو اور کچھ مل جائے تو اس پر وہ خوشی سے بے حال نہ ہو جاتا ہو، سمجھو اس نے ’زہد“ کو ہر دو طرف سے تھام رکھا ہے!!!

”زہد“ یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے تم وجود میں آئے ہو اسی کی فکر تمہارے ذہن پر سوار ہو اور اسی کی دھن تمہیں صبح شام مشغول رکھے۔ اور وہ چیز جس کیلئے تمہیں پیدا نہیں کیا گیا تمہاری سوچیں اس کی قید سے آزاد ہو جائیں!!!

یوسف بن اسباطؒ کہا کرتے تھے: جو شخص ایذاءپر صابر و ثابت قدم رہتا ہے، شہوات کو ترک کئے رکھتا ہے، اور حلال کی روٹی کھاتا ہے؛ وہ ”زہد“ کو عین اس کی بنیاد سے تھام کر کھڑا ہے!!!

جنید بغدادیؒ سے پوچھا گیا: ”زہد“ کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کا آدمی کی نگاہ میں حقیر ہو جانا اور قلب پر آ پڑنے والے اس کے اثرات کو کھرچ ڈالنا!!!

سلیمان دارانیؒ سے ”زہد“ کی بابت پوچھا گیا، فرمایا: ہر اس چیز سے دستبردار ہوجانا جو آدمی کو خدا سے غافل کردے!!!

بقول ابن تیمیہؒ: ”زہد“ ہے: اس چیز کو چھوڑ دینا جو آخرت میں فائدہ مند ہونیوالی نہیں۔ جبکہ ”ورع“ ہے اس چیز کو چھوڑ دینا جسکا آخرت میں ضرر رساں ہونیکا اندیشہ ہے۔

ابن قیمؒ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اس مذکورہ بالا تعریف کو نہایت سراہا ہے۔ ابن قیم مزید کہتے ہیں: عارفوں کے ہاں ”زہد“ کی بابت جس چیز پر اتفاق ہے وہ یہ کہ: قلب اپنے آپ کو وطنِ دنیا سے حالتِ سفر میں پائے اور آخرت کی آبادی میں اپنے لئے اچھے سے اچھا گھر ڈھونڈے!!!

 

 

 

’زہد‘ کی بابت ایک غلط فہمی کا ازالہ:

 

”زہد“ کسی ’دنیا بیزاری‘ کا نام نہیں، جیسا کہ بعض کم علم لوگوں کا خیال ہے....

اسلام کی حقیقت پر کئی صدیوں تک مسلسل پڑتی رہنے والی گرد نے اسلام کے کچھ مفہومات کو آخری حد تک بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ’بے عملی‘ اور ’بے دینی‘ بھی یقینا ایک آفت ہے اور اس نے بھی ہم مسلم معاشروں کا بہت نقصان کیا ہے مگر جو نقصان ہمارا ’دینداری‘ کے بعض غلط مفہومات نے کیا ہے اور جو اجاڑا ’خدا کا تقرب پانے‘ کے نام پر کچھ منحرف تصورات کے ہاتھوں ہمارا ہوا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دین اور عبادت کے ’نہایت بلند درجات‘ پانے کے حوالے سے ”زہد“ ایسے بعض مباحث جو ہمیں ائمۂ علم کے یہاں بہ تفصیل ملتے ہیں، ہمارے ہاں اس وقت جا کر ہی زیر بحث آنے چاہئیں جب ہم دین اور عبادت کی ’اصل بنیادوں‘ سے واقف ہو آئے ہوں۔

خصوصاً دین کے وہ پہلو جو مستحبات اور نوافل کے دائرہ میں آتے ہیں __اور یقینا ”زہد“ کے بیشتر جوانب ’مستحبات‘ کے دائرہ میں ہی آتے ہیں __ ان کی بابت پڑھنا پڑھانا اور ان کی ترغیب دینا دلانا، اور خطبات اور وعظ و ارشاد میں ان کا بکثرت جگہ پانا تو اس وقت تک نہ ہونا چاہیے جب تک بعثتِ انبیاءکا مقصد ہم پر پوری طرح واضح نہ ہوگیا ہو۔ بلکہ جب تک مقاصدِ شریعت کی بابت بھی ہمیں کچھ شد بدھ نہ ہوچکی ہو۔ اور یہ تو نہایت ضروری ہے کہ ان مباحث میں جانے سے پہلے دین کے ’واجبات‘ اور ’مستحبات‘ کا فرق ہم پر نہایت واضح ہوچکا ہو۔

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح صحابہ کو لے کر چلے اور مختلف حوالوں سے ان کے تنوع کو آپ نے جس عمدگی کے ساتھ برقرار رکھا، یہاں تک کہ ہم ان میں ایسے صحابہ کو بھی دیکھتے ہیں جو بہ مشکل دو لبادوں میں ملبوس، صفہ پر بیٹھے ہیں اور کار وبارِ زندگی میں بھی کچھ بہت سرگرم نہیں؛ بلکہ، یا تو کچھ خاص حالات سے گزرنے کے باعث، اور یا پھر کسی خاص مشن کو انجام دینے کی غرض سے، مسجد، علم اور جہاد وغیرہ کی سرگرمیوں تک ہی محدود ہیں اور زیادہ تر ان کی گزر صدقات وغیرہ پر ہی ہوتی ہے۔ جبکہ انہی اصحابِ رسول میں ہم ایسے ایسے اصحابؓ کو بھی دیکھتے ہیں جو کروڑوں اربوں پتی ہیں اور کاروبارِ زندگی میں بھی خوب سرگرم، بلکہ فضیلت میں کئی ’کروڑ پتی‘ صحابہ کئی ’غیر کاروباری‘ صحابہ کی نسبت بلند تر درجے پر ہیں، بلکہ عشرہ مبشرہ قریب قریب سبھی کے سبھی ٹھیک ٹھاک کھاتے پیتے تاجر پیشہ لوگ ہیں اور صحابہ کے مابین سب سے افضل.... پس ”زہد“ وغیرہ کی حقیقت اور مفہوم سمجھنے کیلئے صحابہ کی وہ مجموعی تصویر ہماری نگاہ سے روپوش نہیں ہو جانی چاہیے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے معاشرے کے اندر تشکیل دی تھی اور نہ ہی وہ ’تنوع‘ نظر انداز ہونا چاہیے جو صحابہ کے مابین کمال انداز میں پایا گیا اور جس کو نبی ﷺ نے باقاعدہ برقرار رکھا۔

چنانچہ ”زہد“ یہ نہیں کہ آدمی حلال اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کا درجہ دے لے۔ حلال کمائی کے معاملہ میں بے رغبتی پیدا کر لینا اور کاروبارِ دنیا کے اندر نہایت بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لینا ’زہد‘ کا ایک نہایت غلط تصور ہے جو بدقسمتی سے یہاںکئی ایک طبقوں کے ہاں بری طرح راسخ ہوگیا ہے۔ حلال کمانا، خدا کے پاکیزہ رزق کی تلاش میں نکلنا اور اس کیلئے صبح سے شام کردینی پڑے تو کردینا، اور اپنی اس کمائی سے والدین، اہل خانہ وغیرہ کے حقوق پورے کرنا، مقدور بھر اس سے صدقہ کرنا، دنیا میں اس مال سے، حسب استطاعت، جہاد اور خدا کے مشن کو بھر پور تقویت دینا، اور اپنی اس مجموعی روش سے اپنی امت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا اور اہل اسلام کو ایک بیروزگار اور غیر پیداوار معاشرہ نہ رہنے دینا اور یوں مسلم معاشرے کو ایک باعزت، خودکفیل اور ایک غیر دست نگر معاشرہ بنانے میں مؤثر سے مؤثر تر کردار ادا کرنا.... یہ عبادت کی ایک نہایت اعلیٰ وبرگزیدہ صورت ہے۔

”زہد“، جیسا کہ سلف سے منقول ہے، یہ ہے کہ ’دنیا‘ آدمی کے ہاتھ میں ہو نہ کہ دل میں، چاہے وہ کروڑوں کا مالک کیوں نہ ہو۔ اور یہ اسی وقت ہوگا جب اس دل میں کوئی ایسی برگزیدہ حقیقت بسا لی گئی ہو جس کے ہوتے ہوئے ’دنیا‘ کیلئے اور دنیا کے ’کروڑوں اربوں‘ کیلئے آدمی کے دل میں کوئی جگہ پائی ہی نہ جائے۔ اربوں کھربوں روپے بھی ہوں تو ان کو سمانے کیلئے ’دل‘ میں نہیں ’ہاتھ‘ ہی میں جگہ ملے!

چنانچہ حقیقی زہد جس چیز کا نام ہے وہ دراصل ایمان کے بنیادی حقائق پر محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایک نعمت ہے۔ یہ درحقیقت دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ ”زہد“ کا کوئی تعلق آدمی کے ’غریب‘ یا ’مالدار‘ ہونے کے ساتھ سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک آدمی ارب پتی ہوکر زاہدِ دنیا اور طالبِ آخرت ہوسکتا ہے، جبکہ ایک دوسرا آدمی مفلس ہوتے ہوئے دنیا پرست اور آخرت سے غافل۔ کیونکہ ’زہد‘ اور ’دنیا پرستی‘ کا تعلق سراسر ’ہاتھ‘ یا ’جیب‘ کے ساتھ نہیں بلکہ ’دل‘ کے ساتھ ہے اور آدمی کے ’اہدافِ زندگی‘ کے ساتھ۔

پس ’زہد‘ ایسی نہایت اعلیٰ حقیقت کا قلب میں جاگزیں ہونا جس بات پر منحصر ہے وہ ہے خدا کی تعظیم۔ وہ ہے مالک الملک کی شان کو جاننا۔ وہ ہے زندگی اور رزق کے مالک سے آگہی پانے پر آدمی کی خوب محنت ہوئی ہونا اور پھر ’آخرت‘ سے آدمی کا شناسائی پا رکھنا اور آخرت ہی کی طلب کو دل میں بٹھایا ہونا۔

زہد اگر آدمی کی نگاہ میں ’دنیا کا حقیر ہوجانا‘ ہے، چاہے جتنی بھی ہو.... زہد اگر دنیا کا ’دل‘ سے بے دخل کر دیا جانا ہے، چاہے ’ہاتھ‘ میں جتنی بھی ہو، اور ’دل‘ پر پڑنے والی اس کی گرد اور اس کے اثرات کو کھرچ دینا تاکہ اس دل پر خدا کا رنگ ہی گہرے سے گہرا ہوتا رہے، جیسا کہ جنید بغدادیؒ نے ”زہد“ کی تعریف کی ہے.... تو پھر ایک چیز کا ’چھوٹا‘ اور حقیر ہوجانا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کوئی اور چیز اس دل میں ’بڑی‘ اور ’عظیم‘ ہونے کا مرتبہ حاصل کر گئی ہو، جوکہ ’حقائقِ توحید‘ ہی کی دین ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ’زہد‘ اگر ’توحید‘ پر محنت کا ایک طبعی نتیجہ نہیں تو وہ کسی بڑے انحراف کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے اور عموماً ’ترکِ دنیا‘ اور ’رہبانیت‘ وغیرہ کا ہی کوئی مترادف۔

”زہد“ دینی طبقے کو اور پھر پورے مسلم معاشرے کو ایک نہایت بامقصد، عملی، ایثار شعار اور فاعلیت dynamism سے پُر بنا ڈالنے والی ایک برگزیدہ حقیقت ہے نہ کہ دنیا میں ’خدا‘ کے نام پر پسماندگی، کم دلی، سستی اور کاہلی کا مارا ہوا ایک طبقہ یا ایک تھکا ہارا معاشرہ برآمد کرانے کیلئے وجود میں آنے والا کوئی ’مذہبی‘ طرزِ عمل!!!

ایمان کے حقائق کو دل میں بٹھانے پر بے تحاشا محنت ہوتی ہے تو تب ہی کہیں جاکر آدمی ”زہد“ کے معنیٰ تک سے واقف ہوسکتا ہے، درجۂ زہد کو پہنچنا تو اس سے بھی سوا ہے۔

چنانچہ درجۂ زہد یہ ہے، اور جس کو پہنچنے کیلئے آدمی کا بے پناہ زور لگتا ہے ، کہ نہ تو دنیا کا آ جانا اس کیلئے کوئی بہت بڑی بات رہے اور نہ دنیا کا ہاتھ سے چلی جانا۔ یعنی اس کیلئے ’دنیا‘ کسی بھی پہلو سے ’بڑی بات‘ نہ رہے۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ’بڑی بات‘ اس کی نظر میں کوئی اور ہو جائے اور اس کے ہاں اشیاءکو ’ماپنے‘ کے پیمانے ’آخرت‘ والے ہوں نہ کہ ’دنیا‘ والے!

یہ ’پیمانے‘ بدل جانا ہی زہد کی اصل حقیقت ہے۔دنیا جتنی بھی بڑی ہو اور جتنی بھی زیادہ حاصل ہوگئی ہو، پیمانہ آخرت کا ہو تو اس میں دنیا بھلا کیا حیثیت رکھے گی!؟

تم اگر ایک حلال پاکیزہ مال کی بابت ’زہد‘ برتتے ہو.... ایک ایسے پاکیزہ مال کی بابت جس کو تم اپنے دین اور اپنی آخرت میں سرفراز ی کا ذریعہ بنا سکتے ہو.... تم اگر ایسے پاکیزہ مال پر پسینہ بہانے سے احتراز کرنے کو ’خدا کے تقرب کا ذریعہ‘ سمجھ بیٹھے ہو، تو نہ صرف یہ کہ تم زاہد نہیں ہو بلکہ حقیقی زہد سے آخری حد تک ناواقف بھی ہو۔

تم اگر ایک ایسے منصب اور عہدے کی بابت ’زہد‘ برتتے ہو جس پر فائز ہوکر معاشرے کے اندر تم حق کا احقاق اور باطل کا بطلان کر سکتے ہو اور اسلام کی قوت اور خلقِ خدا کے فائدہ کا ذریعہ بن سکتے ہو، مگر ایسے منصب یا سماجی مرتبے سے کنارہ کش رہنا ہی تم ’نیکی‘ سمجھتے ہو، تو تم نہ تو ’نیکی‘ کے مفہوم سے واقف ہو اور نہ ’زہد‘ کے معنیٰ ومطلب سے۔

”زہد“ دنیا کو رد کردینا نہیں بلکہ دنیا کو دل میں بٹھانے یا دنیا کو دنیا کیلئے لینے سے انکار کرنا ہے۔ ورنہ تم جانتے ہو ایک نبی اپنے دور کا سب سے بڑا زاہد ہوتا ہے اور تمہارے سامنے یہ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام ہیں جن کے مویشی پوری ایک وادی میں آتے ہیں۔ مہمانوںکا تانتا بندھا رہتا ہے، یہاں تک کہ آپؑ کا لقب ہی ’ابو الضیفان‘ پڑ جاتا ہے! یہ سلیمان علیہ السلام ہیں جن کے پاس مال دولت کے ڈھیر ہیں، بادشاہت کا منصب ہے اور حرم میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ خدا کی پیدا کردہ پاکیزہ نعمتوں کو معیوب ٹھہرانے والا کون ہوسکتا ہے؟

خاتم النبیین ﷺ سے بڑھ کر کوئی زاہد نہیں ہو سکتا۔ مگر تم دیکھتے ہو آپ نے پورے نو گھر بسا رکھے ہیں اور نو گھروں کے حقوق بدرجۂ اتم ادا کر رہے ہیں۔ آپ کی ملکیت میں سو بکریاں ہیں۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ بکریاں سو سے بڑھ جاتیں تو تب آپ ان میں سے کوئی ایک ذبح کر لیتے۔ آپ کے اخراجات کیلئے فدک میں زرعی زمین کا ایک قطعہ مختص ہے۔ گھر میں بڑی بڑی دیر تک کچھ نہیں پکتا تو یہ کوئی اس لئے تھوڑی ہے کہ ’ہاتھ‘ خالی ہے؟! بلکہ اس لئے کہ ’دل‘ بڑا ہے!!! النبی أولیٰ بالمؤمنین من أنفسہمیہ خدا کا نبی ہے جس کو مومنوں کی اس سے کہیں بڑھ کر فکر ہے جتنی کہ خود ان کو اپنی یا اپنے اہل خانہ کی فکر ہوسکتی ہے۔ یہ دنیا کی صالح ترین جمعیت کا قائد ہے اور جماعتوں، تحریکوں اور ’انقلابات‘ کی تاریخ میں سب سے بہتر اور سب سے روشن مثال پیش کر سکنے والا راہنما!!! لہٰذا اس کے گھر میں مہینوں چولہا نہیں جلتا تو یہ اس کی ان پہاڑ جیسی ذمہ داریوں کی وجہ سے، جن سے خود اس کے سوا کوئی واقف ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے گھر میں بھوک بستی ہے تو اس لئے کہ یہ ایک ایسی قیادت کا گھر ہے جو سب کو کھلانے کے بعد کھانا گوارا کرتی ہے!!!.... ادھر جاہلوں نے سمجھ لیا کہ یہ ’مال دشمنی‘ اور ’دنیا بیزاری‘ ہے! اور یہ کہ اہلِ اسلام کا حصولِ رزقِ حلال کے محاذ پر جُتنا اور معیشت پر حاوی ہونا ’توکل‘ اور ’زہد‘ کے منافی ہے اور ’آخرت سے بے رغبتی‘!!!

یہ عبد الرحمن بن عوفؓ ہیں۔ یہ زبیر بن العوامؓ ہیں۔ یہ عثمان بن عفانؓ ہیں۔ یہ سعد بن ابی وقاصؓ ہیں۔ یہ خدیجہ بنت خویلدؓ ہیں۔ یہ ابو بکر صدیقؓ ہیں۔ یہ عبدا للہ بن عمرؓ اور یہ عبداللہ بن عباسؓ ہیں۔ لا تعداد صحابہ ہیں جو مارکیٹوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ مال ودولت کی ریل پیل ہے مگر دل میں خدا بستا ہے اور زبان پر سوال ہے تو آخرت کا۔ اللہم لا عیش الا عیش الآخرة، فاغفر للأنصار والمہاجرة!!!

امام احمدؒ سے سوال کیا گیا: کیا آدمی مالدار ہوکر زاہد ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، اگر مال کا بڑھنا اس کو خوشی سے بے قابو نہیں کرتا اور مال کا گھٹنا اس کیلئے حسرت کا باعث نہیں بنتا۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: زہد یہ نہیں کہ آدمی مال کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کرے یا حلال اشیاءکو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لے۔ زہد یہ ہے کہ جو خیر خدا کے ہاتھ میں ہے اس کا وثوق تمہیں زیادہ ہو بہ نسبت اس چیز کے جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ کہ مصیبت میں بھی تم اپنے آپ کو خدا کی محبت وقربت کے احساس میں اسی طرح سرشار پاؤ جیسا کہ مصیبت نہ ہونے کے وقت۔ اور یہ کہ تمہاری ستائش کرنے والا شخص اور تمہاری مذمت کرنے والا شخص ہر دو تمہاری نظر میں ایک برابر ہوجائیں۔

’دنیا کی مذمت‘ سلف کے ہاں کس معنیٰ میں؟

یہ واضح ہوجانا بھی نہایت ضروری ہے کہ سلف کے ہاں جب ’دنیا کی مذمت‘ کی بات کی جاتی ہے تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے۔

جیسا کہ ابن جوزیؒ، ابن قیمؒ، ابن رجبؒ و دیگر سلف کے ترجمان ائمۂ علم کی توضیحات سے واضح ہوتا ہے، سلف ومابعد کے ائمۂ سنت کے ہاں ’دنیا کی مذمت‘ ہوتی ہے تو درحقیقت وہ اس سیاق میں ہوتی ہے:

1) دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا۔ دنیا کی طلب، آخرت کی طلب کی قیمت پر ہونا۔ اس سیاق میں دنیا کی جس قدر مذمت ہوئی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔

2) دنیا کی طلب میں حرام حلال کا فرق ملیا میٹ کر دینا، جوکہ دنیا کے طلبگاروں کے ہاں اکثر ہوتا ہے۔ اس معنیٰ میں بھی دنیا کی مذمت اہل علم کے ہاں بکثرت ہوئی ہے۔

3) دنیا کو دنیا کیلئے طلب کرنا، نہ کہ اس کو حق کی قوت اور آخرت میں سرخروئی پانے کیلئے حاصل کرنا۔ دنیا کو بس تکمیل خواہش کا ذریعہ جاننا نہ کہ خدا کی شکر و احسان مندی کا ذریعہ بنانا۔ پس اس معنیٰ میں کہ یہ فی نفسہ آدمی کی مقصود ہو جائے، دنیا سلف کے ہاں نہایت قابل مذمت جانی گئی ہے۔

4) پھر دنیا میں آرزوؤں کا دراز ہوجانا، ”مذمتِ دنیا“ کا ایک اور پہلو ہے جو اس باب میں ائمۂ سلف کے کلام کی روحِ رواں رہا ہے....

’خلود‘ کی طلب انسان کی فطرت کا جزوِ لازم ہے۔ صحت، عافیت، خیریت، آسودہ حالی، رزق کی فراوانی، ضروریات کی دستیابی، بیوی بچوں اور اصحاب احباب کے ساتھ اچھے سے اچھے لمحات، عزت، آبرو، حسن، خوبروئی.... سب کچھ نہ صرف یہ کہ اس انسانی مخلوق کے بنیادی ترین مطالب ہیں بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان چیزوں کا انسان کی دسترس میں رہنا اور کبھی ہاتھ سے نہ جانا اِس کیلئے بے انتہا اہم ہے۔ (خدا کی طلب گو ان سب پر فوقیت رکھتی ہے، دنیا کے اندر بھی اور آخرت کے اندر بھی۔) اسلام نے چونکہ فطرت کی نفی نہیں کی ہے اس لئے اسلام نے ان چیزوں کی بھی نفی نہیں کی ہے۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ یہ چیزیں اس معنیٰ میں یہاں پائی ہی نہیں جاتیں کہ ان کے ملنے کی انسان کو کوئی ضمانت ہو اور پھر، خصوصاً، ایک ملی ہوئی چیز کے انسان کے پاس باقی رہنے کی کوئی ضمانت ہو۔ پس یہ چیز یہاں اس دنیا میں کہیں پائی ہی نہیں جاتی۔ نہ ایمان والوں کے لئے نہ ایمان کے منکروں کیلئے۔ جو اس کو یہاں ڈھونڈتا ہے وہ درحقیقت احمق ہے، علاوہ اس بات کے کہ وہ ایمان سے بھی محروم ہے۔ پس یہ چیز جس کی ائمۂ سلف کے ہاں ’درازیِ آرزو‘ کے عنوان کے تحت مذمت ہوتی ہے، یہ ایمان سے محرومیت تو ہے ہی خرد سے بھی محرومیت ہے۔ اور درحقیقت تو ”ایمان“ سے محرومیت ایک مطلق محرومیت ہے۔

پس اسلام نے نفس کے ان جائز مطالب کا انکار نہیں کیا جنہیں خدا نے آپ ہی اِس کی فطرت کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اسلام نے کچھ کیا ہے تو وہ یہ کہ انسان کو اِن کے پائے جانے کا ”اصل محل“ دکھایا ہے اور اس حماقت سے باز رہنے کی تاکید کی ہے کہ وہ انہیں وہاں ڈھونڈنے پر ہی اصرار کرے جہاں خدا نے وہ رکھی ہی نہیں۔ اس حماقت کو ہی سلف کی زبان میں طول ال أمل یعنی ’درازیِ آرزو‘ کہا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بعض ائمہ نے ”زہد“ کی تعریف ہی ”آرزو کے مختصر ہوجانے“ کے الفاظ سے کی ہے۔ کیونکہ جو چیز ابھی ملی نہیں اس کا تو ذکر ہی کیا، جو چیز مل چکی وہ بھی ’دینے والے‘ نے بڑے ہی وقتی سے طور پر تمہارے ہاتھ میں چھوڑ رکھی ہے اور یقینی طور پر وہ کسی بھی وقت تمہارے ہاتھ سے ’واپس‘ لے لینے والا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے تم کسی سے ’ذرا دیکھنے‘ کیلئے ایک چیز پکڑ کر ہاتھ میں لو، یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اس سے وہ چیز عاریتاً لے رکھو۔ ایسی چیز پر ’دل آجانا‘ خست اور کمینگی بھی ہے، حماقت بھی اور ’مالک‘ کی نگاہ سے گر جانا بھی.... کہ اُس کا وہ چیز تمہیں ہی دے دینے کا کسی وقت اگر ارادہ ہو بھی، تو تمہاری اس گھٹیا حرکت کو دیکھ کر وہ اپنا ارادہ ہمیشہ کیلئے بدل لے! تم خود ہی کہو گے، ایسی چیز تو ’دل‘ میں نہیں ’ہاتھ‘ میں ہی اچھی لگتی ہے!!!

اب چونکہ غلط بات یہ نہیں کہ یہ چیزیں انسان کی ضرورت ہوں؛ اور نہ یہ غلط ہے کہ یہ انسان کے ’ہاتھ‘ میں ہوں، جیسا کہ ہم بیان کر چکے؛ اور نہ یہ غلط ہے کہ انسان ان چیزوں کو ’صاحبِ ملکیت‘ کی اجازت سے، اور پوری دیانت اور ذمہ داری کے ساتھ، اپنے معقول مطالب کی تکمیل کیلئے استعمال کرتا ہو، خصوصاً جبکہ ’صاحبِ ملکیت‘ نہایت فیاض اور بے پروا ہو اور خصوصاً جبکہ انسان اس ’صاحبِ ملکیت‘ سے جب بھی ملے اس پر اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولے، اُس کیلئے اپنی احسان مندی بار بار ظاہر کرے اور یہ تو ہر وقت اس کی زبان پر رہے کہ یہ چیز مالک ہی کی ہے اور یہ کہ وہ کبھی اتنا احمق اور کم ظرف ہونے والا نہیں کہ محض اس بات سے دھوکہ کھا کر کہ ایک چیز اس کے ’ہاتھ‘ میں ہے، جبکہ عنقریب واپس لے لی جانے والی ہے، اس پر وہ اپنا کوئی ’حق‘ بھی جاننے لگے؛ اور یہ تو کمال ہی کی بات ہے اگر وہ اس چیز کو مالک ہی کے کسی کام میں تندہی کے ساتھ برتتا ہے اور اس پر وہ مالک کا اور بھی شکر گزار ہوتا ہے کہ اُس نے اِسے اپنی خدمت کا ایک موقعہ دیا....!!!

اب چونکہ ان سب باتوں میں حرج کی کوئی بھی بات نہیں، لہٰذا دنیا کو ’ہاتھ‘ میں کرنے کے یہ سب پہلو ہرگز ہرگز قابلِ مذمت نہیں، بلکہ مستحسن ہیں۔ ائمۂ سنت وعلمائے زہد کے ہاں ’طلبِ دنیا‘ کو جو بکثرت معیوب ٹھہرایا گیا ہے اور جوکہ بالکل برحق ہے، تو وہ اُن چاروں میں سے کسی ایک لحاظ سے ہے جو پیچھے بیان ہوئے۔ رہا طلب یا حصولِ دنیا کا یہ صالح مفہوم جو اوپر کے پیرے میں بیان ہوا، تو اِس معنیٰ میں دنیا کے وسائل ہاتھ میں کرنا نہایت خوب ہے، مسلم فرد کیلئے بھی اور مسلم معاشرے کیلئے بھی:

عن موسیٰ بن علی عن أبیہ، قال: سمعت عمرو بن العاص، یقول: بعث اِلَیَّ رسول اللہ  فقال: خذ علیک ثیابک وسلاحک، ثم ائتنی، فأتیتہ وهو یتوضأ، فصعد فیَّ النظر ثم طأطأہ، فقال: اِنی أرید أن أبعثک علی جیش، فیسلمک اللہ ویغنمک، و أرغب لک من المال رغبة صالحة۔ قال: قلت: یا رسول اللہ! ما أسلمت من أجل المال ولکنی أسلمت رغبة فی الاِسلام و أن أکون مع رسول اللہ ۔ فقال: یا عمرو، نِعمَ المَالُ الصَّالِحُ لِلُمَرئِ الصَّالِحِ۔(1)

(رواہ أحمد فی مسندہ)

موسیٰ بن علی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، کہا: میں نے عمروؓ بن العاص کو بیان کرتے سنا، کہا:میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے پیغام روانہ فرمایا: اپنا (جنگی) لباس اور ہتھیار پہن کر میرے پاس پہنچو۔ میں آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ وضو کر رہے تھے۔ آپ نے مجھ پر اوپر سے لیکر نیچے تک نگاہ ڈالی، پھر فرمایا: میں تمہیں ایک لشکر کی کمان دے کر (مہم پر) روانہ کرنا چاہتا ہوں، کہ اللہ تمہیں (اس سے) صحیح سالم لائے اور نصرت و غنیمت دے، اور میں تمہارے مال پانے کیلئے بھی خوب طور پر خواہشمند ہوں۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں مال پانے کی خاطر اسلام نہیں لایا، بلکہ اس لئے اسلام لایا ہوں کہ اسلام ہی مجھے مرغوب ہے اور اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺ کی صحبت و معیت پاؤں۔ تب آپ نے فرمایا: یا عمرو، نِعمَ المَالُ الصَّالِحُ لِلُمَرئِ الصَّالِحِ۔ اے عمرو! کیا ہی خوب ہے کہ صالح مال ہو اور صالح آدمی کے ہاتھ میں ہو“!!!

یہ حدیث اس صالح معنیٰ پر دلالت کیلئے صرف ایک مثال ہے ورنہ شرعی نصوص میں، اور علمائے سنت کے اقوال و آثار میں، اس کے بے پناہ شواہد موجود ہیں۔ چونکہ یہاں یہ ہمارا موضوع نہیں لہٰذا اِس پر اللہ نے چاہا تو کسی اور موقعہ پر تفصیل سے بات کی جائیگی۔ البتہ یہاں یہ کہتے چلیں کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ لفظ نہایت قابل غور ہیں: ”کیا ہی خوب ہے کہ صالح مال ہو اور صالح آدمی کے ہاتھ میں ہو“۔ یہی بات ایک اچھے عہدے کی بابت کہی جائے گی کہ وہ صالح آدمی کے پاس ہو تو کیا ہی خوب ہے۔ یہی بات سماجی رتبے کے بارے میں کہی جائے گی اور یہی بات دنیا میں پائی جانے والی خدا کی اور بہت سی نعمتوں پر صادق آئے گی۔ ’صالحین‘ کے ہاتھ میں تو پوری دنیا آجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے، صالحین کے حق میں بھی اور خود اس ’دنیا‘ کے حق میں بھی!

اب چونکہ غلط بات یہ نہیں کہ یہ چیزیں انسان کے ’ہاتھ‘ میں ہوں؛ غلط صرف یہ ہے کہ ان پر انسان کا ’دل‘ آجائے؛ کیونکہ بنانے والے نے دنیا کا نقشہ بنایا ہی کچھ اس طرح ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ ’دل‘ لگانے کی گنجائش نہیں؛ اس لئے ان چیزوں کو دل کا راستہ دکھاناسلف کے ہاں بے انتہا مذموم جانا گیا ہے اور اسی چیز کو ’درازیِ آرزو‘ یا ’خواہشِ دنیا‘ کا نام دیا گیا ہے۔

دراصل انسان کے اندر ’نفس‘ کی کچھ ایسی ساخت کی گئی ہے کہ یہ ان فانی و وقتی اشیاءسے ہی چپک چپک جاتی ہے اور ان کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ یوں یہ نادان، ’دل‘ کیلئے اس کا سفر جاری رکھنا مشکل کر دیتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک لمبے سفر پر گامزن شخص کسی گھنے سائے کے نیچے دو ٹک آرام کرے اور ’منزلِ شوق‘ پر پہنچنے کیلئے اسے پھر آگے چل دینا ہو۔’دل‘ جانتا ہے ’منزل‘ کی کیا اہمیت ہے اور یہ ’سایہ‘ کتنا بھی سہانا اور خواب آور ہو، اس کے بیٹھ رہنے کیلئے قابل التفات نہیں۔ مگر ’نفس‘ ہے جو منزل کے حسن و اہمیت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور اس گھنے سائے کی جانب ہی کھنچی جاتی ہے۔ یہ ’تپتی دھوپ‘ میں سفر جاری رکھنے سے بھاگتی ہے اور اس ’آرام دہ پیڑ‘ کے نیچے ہی ہمیشہ کیلئے رہ جانا چاہتی ہے حالانکہ اس پیڑ کا سایہ مسلسل جگہ بدلتا جا رہا ہے اور چند ساعتوں میں بالکل ہی روپوش ہو رہنے والا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں یہاں اندھیری رات پڑ جانے والی ہے؛ اور یہ دشت ایسا ہے کہ جس مسافر کو یہاں اس حالت میں رات پڑ جائے اس کو اگلی صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ بلکہ ’اگلی صبح‘ یہاں اس دشت کی قسمت میں ہے ہی نہیں صرف رات ہی رات ہے، جس میں ’سائے‘ اپنی سب اہمیت کھو دیتے ہیں، بلکہ تو اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں! کسی خرد مند کو ’اگلی صبح‘ دیکھنے میں دلچسپی ہے تو اس کو آج ہی دِن دِن یہ دشت چل کر اُس ’پہاڑ‘ کے پار جانا ہے؛ جوکہ آدمی ذرا ہمت سے چل لے تو بہت دور نہیں؛ ہاں اُس پار نہایت خوب سبزہ اور آبشاریں ہیں، میٹھی شفاف نہریں ہیں، میووں سے لدے پیڑ ہیں ، مخملیں نشستیں ہیں، لطف کے جام چلتے ہیں، سرود کی انتہا نہیں، کمال کے دوست احباب جمع ہیں، وہ بیٹھکیں ہیں جو اجڑتی نہیں، ایسے میلے ہیں جن کی شام نہیں، مِلن ہیں جن کے بچھڑنے کا نام نہیں؛ ہاں وہاں ہیں وہ سائے جو سمٹتے نہیں، اور وہ گھر جو اجڑتے نہیں، اور وہ ساتھ جو ٹوٹتے نہیں، اور وہ مزے جو ختم نہیں ہوتے۔

دل کے حق میں اس سے بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ اس دشت میں بیٹھا، ایک سمٹتا سایہ دیکھ کر نفس کے چاؤ پورے کراتا رہے اور اسی میں سارا ’دن‘ پار کردے، اور یوں اسی اجاڑ بیابان میں اس کو وہ ’رات‘ آلے جس کی کوئی صبح نہیں۔یہاں، دل اگر عقلمندی سے کام لیتا ہے؛ اور راستے کی سب سہولتوں کو، اپنے اس سفر کو نہایت خوشگوار اور کامیاب بنانے کے کام لے آتا ہے، البتہ ’سفر‘ کسی ایک لمحہ کیلئے بھی اس کی نظر سے روپوش نہیں ہوتا، تو اس کا راستے کی کسی چیز سے دل نہ لگانا اور نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی راہ چلتے چلے جانا ”زہد“ کہلائے گا۔ اور اگر وہ نادانی اور حماقت کا شکار ہوتا ہے اور راستے کی آسائشوں کو ہی دل دے بیٹھتا ہے؛ جس سے منزل پہ پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے، تو اس کو ”درازیِ آرزو‘ اور ’خواہشِ دنیا‘ کہیں گے۔

یہ بھی جان لو کہ: تعلیم اور ارشاد کا معاملہ ہو تو اور بات ہے، ورنہ جو آدمی صحیح معنیٰ میں زاہد ہے وہ دنیا کی چاہت تو کیا کرے گا، دنیا کی مذمت کرنے اور اس کو برا بھلا کہنے میں بھی ہرگز وقت برباد نہیں کرے گا۔ وہ تو سیدھا اپنی راہ چلتا ہے اور اس کی نظر اپنی منزل پر ہوتی ہے۔ دائیں بائیں دیکھنے کیلئے اس کے پاس زیادہ وقت ہی نہیں ہوتا۔ وہ دنیا کو اپنے اس سفرِ آخرت کا توشہ بنانے کی تو ہر ہر تدبیر کرتا ہے اور اس معنیٰ میں ’مقاصدِ خیر‘ کیلئے دنیا کے تمام تر ذرائع کو مسخر کررکھنے کی بھی فکر میں رہتا ہے، کیونکہ یہ اس کے اس اخروی مشن ہی کا حصہ ہے۔ البتہ وہ اس دنیا کو فی نفسہ کسی قیمت کی نہیں جانتا۔ وہ اس کو اس قابل تک نہیں جانتا کہ وہ اس کو برا کہنے میں اپنا وقت صرف کرے۔

دنیا کو صبح شام دشنام دینا بھی دراصل انسان کے اندر کا ایک کھوکھلاپن ہے اور بسا اوقات ’محرومیت‘ کا ایک اظہار ہوتا ہے، گو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ’زہد‘ کی راہ پر ہے!

یحیی بن معاذؒ کہتے ہیں: دنیا ایک بھدی دلہن ہے۔ جو اس کا ’طالب‘ ہے وہ احمق اس کی غزلیں کہنے اور اس کے بناؤ سنگھار کرانے میں لگا ہے۔ جو سطحی قسم کا ’زاہد‘ہے وہ نادان گویا اس سے تنگ آیا ہوا ہے، بڑی تن دہی کے ساتھ اس کو کوسنے میں لگا ہے اور اس کا منہ کالا کرنے اور کھینچ کھینچ کر اس کے بال اکھاڑنے اور کپڑے پھاڑنے کے درپے ہے اور سمجھتا ہے کہ اصل نیکی یہی ہے۔ جبکہ وہ شخص جو اصل ’عارف‘ ہے اس کے پاس ان سب باتوں کیلئے وقت ہی نہیں؛ اس کی کل توجہ اور مصروفیت خدا کے ساتھ ہے!

چنانچہ ”زہد“ کسی ’منفیت‘ یا کسی ’مردہ دلی‘ یا کسی ’محرومیت‘ کا نام نہیں۔ یہ ایک زبردست ”فاعلیت“ کا نام ہے جو پوری انسانی زندگی اور انسانی نشاط کو آخرت کے دھارے میں لا رکھنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ ”زہد“دنیا کو ترک کرنے کا نام ہے اور نہ دنیا سے متنفر ہونے کا اور نہ دنیا سے فرار اختیار کرنے کا۔ ”زہد“ کا مطلب دنیا سے خالی رہنا نہیں۔ ”زہد“ تو درحقیقت دنیا سے آخرت کیلئے جھولیاں بھر بھر کر لے جانے کا نام ہے۔کوئی سمجھے تو ”زہد“ در اصل دنیا کو ”آخرت کی کھیتی“ بنا ڈالنا ہے۔

 

”زہد“ .. مومن کی اصل دولت

 

اب جب ’زہد‘ کا معنیٰ و مطلب واضح ہوگیا، خصوصاً ’زہد‘ کی بابت پھیلائے گئے غلط مفہومات کی کچھ تصحیح ہو گئی، اور بالخصوص ’دنیا کی مذمت‘ کا وہ مطلب واضح ہوگیا جو علمائے سنت وسلف کے پیش نظر ہوتا ہے.... اب جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ ’طلبِ دنیا‘ کس پہلو سے شدید مذموم ہے اور کس پہلو سے نہایت مستحسن؛ تو اب ہمارے لئے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ”زہد“ کی فضیلت و اہمیت پر ہم کچھ مزید بات کریں اور سلف کی زندگی سے اس کی کچھ نہایت عمدہ تصویریں بھی ملاحظہ کریں۔

عبد اللہ بن عمرؓ کا قول ہے، اور جس کی بابت بعض محدثین نے کہا کہ مرفوع ہے:

”اس امت کے پہلے لوگوں کا معاملہ نہایت خوب رہا تو ’زہد‘ اور ’یقین‘ کی بدولت۔ بعد کے لوگ ہلاکت میں پڑیں گے تو ’بخل‘ اور ’آرزو‘ کے سبب“

اہل علم نے ’زہد‘ کے تین پہلو بیان کئے ہیں:

پہلا: آدمی کے اقوال وافعال اور حرکات وسکنات خدا کے لئے خالص ہوجائیں اور ان کی کوئی غایت ’خدا‘ کے سوا سرے سے نہ رہے۔

دوسرا: وہ چیز جو آخرت میں کام دینے والی نہیں اس سے آدمی کا کوئی سروکار باقی نہ رہے، اور وہ چیز جو آخرت میں کام دینے والی ہو اس کو وہ البتہ چھوڑنے کا نام نہ لے۔

تیسرا: یہ کہ آدمی مباحات کو بھی، رضاکارانہ طور پر، اور بغیر ان کو حرام ٹھہرائے، اپنی زندگی اور اپنے معمولات میں کم کر لے؛ اور اپنا وقت اور توجہ زیادہ سے زیادہ بلند عزائم پر ہی مرکوز کر لے۔

زہد جب خدا کی تعظیم میں دنیا وما فیہا کو ہیچ جان لینا ہے، تو لازم ہے کہ خدا بھی پھر اس کے بدلے میں تمہیں اپنی محبت کیلئے چن لے۔ تم کسی کی ایسی حیثیت تسلیم کرو کہ اس کی عظمت اور اہمیت کے سامنے ہر چیز کو بے وقعت جاننے لگو تو جواب میں، لازمی بات ہے کہ، وہ بھی تمہیں قدر کی نگاہ سے دیکھے۔ تو پھر اگر تم خدا کی طلب میں اس حد تک چلے جاتے ہو کہ دنیا تمہاری نگاہ میں اپنی بڑی حیثیت کھو دے تو سمجھو تمہاری حیثیت خدا کی نگاہ میں آپ سے آپ بن گئی۔ یہ تو سمجھو تمہارا کام بن گیا!!!

خدا کی نگاہ میں جچ جانا.... اس سے بڑھ کر آدمی کو بھلا کیا چاہیے؟! کیا نہیں ہے جو خود بخود اس میں ساتھ ہی نہیں آجاتا؟!! دیکھئے کس طرح رسول اللہ ﷺ اپنے ایک صحابی کو یہ نسخہ بتاتے ہیں:

عن سہل بن سعد الساعدیؓ، قال: أتیٰ النبیَّ  رَجُلٌ، فقال: یا رسول اللہ، دلنی علیٰ عمل اِذا أنا عملته أحبنی اللہُ و أحبنی الناسُ۔ فقال رسولُ اللہِ : اِزہد فی الدنیا یحبک اللہُ، وازہَد فیما فی أیدی الناسِ یحبوک۔(2)

(سنن ابن ماجة، کتاب الزہد، باب الزہد فی الدنیا)

سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے، کہا: نبیﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کی: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جسے میں کرنے لگوں تو میں اللہ کو پسند آؤں اور لوگوں کو بھی پسند آؤں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دنیاکے معاملہ میں زہد اختیار کر لو، تم اللہ کو پسند آنے لگو گے۔ جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس کی بابت زہد اختیار کر لو، تم لوگوں کو پسند آنے لگو گے!!!“

سبحان اللہ! زہد بھی کیا چیز ہے! ایک ہی چیز سے دونوں کام ہوگئے!!! یہ صرف خدا کی شان ہے کہ کسی کی نظر اس چیز پر ہو جو اُس کے ہاتھ میں ہے تو اس کو وہ شخص بہت ہی پسند آئے، کیونکہ وہ غنی اور بے نیاز ہے!!! ورنہ ہر کسی کو وہ شخص بہت برا لگتا ہے جو اس کے ہاتھ کی چیز پر نظر لگائے بیٹھا ہو، کیونکہ وہ طمع کار اور محتاج ہے!!! پس یہ ہے زہد کی اصل حقیقت کہ کل نظر اس چیز پر ہوجائے جو خدا کے ہاتھ میں ہے اور مطلق بے نیازی اس چیز سے ہوجائے جو مخلوق کے ہاتھ میں ہے۔ خالق خوش کیونکہ اس کی شان سامنے آئی، اور مخلوق خوش کیونکہ اس کی محتاجی اور لاچاری آزمائے جانے سے بچی!!!

مختصر یہ کہ دنیا کا آدمی کی نگاہ میں بے وقعت ہوجانا، بندے کی خدا کے ہاں وقعت ہوجانے کا ایک یقینی راز ہے۔

حضرت علیؓ کہتے ہیں: خوش خبری ہو ان لوگوں کو جو دنیا کے زاہد ہیں اور آخرت کے راغب۔ یہی ہیں عقلمند جنہوں نے ہر دو کا صحیح صحیح مول لگایا!

حضرت عمرؓ کا قول ہے: زہد، تن کا آرام ہے اور من کی راحت!

سلف میں سے کسی اور کا قول ہے: زہد، دنیا کی آسودگی ہے اور آخرت کی سعادت۔

دنیا کی وقعت دیکھنا چاہتے ہو تو سید المرسلین کی زندگی پر نگاہ ڈالو۔ آخرت کے اندر مقامِ محمود پر جا پہنچنے والا اور بہشت میں سب سے اونچے محلات کا مالک، تاریخ کا یہ عظیم ترین انسان، یہاں دنیا کے اندر اپنے پھٹے ہوئے لبادے پر خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگاتا ہے اور پھر اس کو خدا کا شکر کرکے پہن لیتا ہے۔ اپنے جوتے کو جو ٹوٹ گیا ہے، خود ہی مرمت کر لیتا ہے۔ اپنی بکری کا دودھ خود دھوتا ہے۔ گندم تو گندم، جو کے آٹے سے مسلسل دو روز تک سیر ہونے کا واقعہ اس کی زندگی میں کبھی پیش آتا ہی نہیں، تاآنکہ الرفیق الاعلیٰ سے جاملنے کا دن آجاتا ہے۔ ایک چاند گزرتا ہے، پھر دوسرا چاند گزر جاتا ہے، تیسرا چاند چڑھ آتا ہے، گھر میں چولہا نہیں جلتا۔ چند کھجوریں، کچھ گھونٹ پانی اور پھر خدا کی حمد اور تعریفیں!!! لمبے قیام، طویل سجدے!!! جہاد میں مشغول!!! غزوۂ خندق میں اِس کے پیروکار پیٹ پر پتھر باندھ کر نکلتے ہیں تو اِس کے اپنے پیٹ پر دو پتھر بندھے دیکھے جاتے ہیں!!! خندق کھودتے ہوئے اِس کے ساتھی پسینے میں شرابور ہیں تو یہ بھی گینتی پکڑ کر پتھریلی خندق میں اترا، خدا کی تکبیریں بلند کرتا دیکھا جاتا ہے۔ بھوک سے بے حال، طلبِ آخرت سے سرشار، خندق کھودتے گرد میں اٹے، اِس کے اصحاب نشید گاتے ہیں تو یہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے: ”خدایا! ہم عیش مانگیں تو آخرت کے عیش....“!!!

صحیحین میں، ابو ذرؓ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ کے بالائی حصہ میں چلا جارہا تھا۔ اُحُد کا پہاڑ ہمارے سامنے آگیا۔ آپ نے مجھے مخاطب کیا: ’ابو ذر!‘ میں نے عرض کی: لبیک اے اللہ کے رسول! فرمایا: ”(یہ جو احد کا پہاڑ ہے) میں ہرگز پسند نہ کروں کہ میرے پاس اس احد جتنا سونا آجائے تو تیسری رات (مجھ پہ) اس حالت میں آئے کہ اس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس بچ گئی ہو۔ کچھ رکھنے کا روادار ہوں گا تو وہ قرض لوٹانے کیلئے۔ میں بندگانِ خدا میں بھر بھر کر ایسے دائیں اور ایسے بائیں، وہ سارا سونا لٹا دوں۔ پھر آپ کچھ دیر چلے اور بولے: آج جن کی دولت کا حساب نہیں قیامت کے روز وہ نادار نکلیں گے، سوائے ان میں سے وہ جو ایسے دائیں اور ایسے بائیں اور ایسے پیچھے مال لٹاتے ہوں۔ مگر ایسے ہیں بہت تھوڑے“۔

صحیح مسلم میں، بقول ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا: رسول اللہ ﷺ کا فراش، ایک سِلا ہوا چمڑا تھا جس میں کھجور کے ریشے بھر دیے گئے تھے!!!

بروایت بخاری، ام المومنینؓ سے ایک بار فرمائش کی گئی، تو انہوں نے ایک بوسیدہ پیوند لگابالائی لبادہ اور ایک کھردرا تہہ بند نکالا اور کہنے لگیں: یہ ہیں وہ دو لبادے جن میں رسول اللہ ﷺ نے یہ دنیا چھوڑی!!!

اللہم صل علیٰ محمد....!!!

فاطمہؓ بنت محمد ایسی شہزادی بھی دنیا نے کبھی نہ دیکھی ہوگی۔ سیدَةُ نِساء أہلِ الجنة، کندھے پر پانی کا مشکیزہ اٹھانے سے نشان پڑ جاتا ہے۔ علیؓ کہتے ہیں: میں نے فاطمہؓ سے شادی کی تو ہم دونوں کے پاس چمڑے کا ایک ہی بچھونا تھا اسی پر رات کو سوتے اور اسی پر دن میں نشست کرتے۔ فاطمہؓ کے پاس کوئی خادمہ نہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ سے اس کیلئے فرمائش کی گئی تو آپ نے خدا کے کچھ اذکار بتائے کہ انہی سے مدد پائیں۔ ابھی دوسروں کی ضروریات پوری نہ ہوئی تھیں، فاطمہؓ کو خادمہ نہ مل سکتی تھی۔ فاطمہؓ خود پانی بھرتیں، خود آٹا گوندھتیں اور گھر کا سارا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتیں!!!

عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں: ام المومنین عائشہؓ کو معاویہؓ نے اسی ہزار درہم کی رقم ہدیہ کی۔ شام تک ایک درہم بھی نہ بچا، سب صدقہ کردی گئی۔ روزہ سے تھیں۔ افطار کیلئے خادمہ کو کچھ لانے کیلئے کہا، تو خادمہ نے عرض کی: کیا لاؤں، ایک درہم رکھ لیا ہوتا جس سے گوشت خرید لاتے؟ عائشہؓ بے پروائی سے بولیں: تم یاد کرا دیتی تو خرید لیتے!

عبد اللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے: دنیا گھر ہے اس شخص کا جس کا کوئی گھر نہیں ہے۔ دنیا مال ہے اس شخص کا جس کا کوئی مال نہیں ہے۔ اور یہ پونجی ہے اس شخص کی جسے کوئی علم عقل نہیں ہے!

بیت المقدس میں نصاریٰ، مجاہد افواج کے سامنے بے بس ہوگئے تو شہر کی کنجیاں دینے کیلئے شرط رکھی کہ خلیفة المسلمین خود تشریف لائیں۔ عمر فاروقؓ ان کی یہ شرط تسلیم کرتے ہوئے شام میں مسلم افواج کی چھاؤنی میں پہنچتے ہیں، جس کے بعد ان کو بیت المقدس جانا تھا۔ اپنا وہی قمیص زیب تن کر رکھا ہے جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہیں۔ خلیفہ کے کمانڈر درخواست کرتے ہیں کہ یہ جو ایک تاریخی موقعہ ہے، اس لبادہ میں وہ نصارائے بیت المقدس کے ہاں نہ جائیں اور اپنی سواری کی ہیئت بھی ذرا بہتر کرلیں، وہاں بڑی بڑی شخصیات آپ کو دیکھیں گی۔ فرمایا: سنو! ہم دنیا کی سب سے ذلیل قوم تھے۔ خدا نے ہمیں عزت اور سربلندی دی ہے تو اسلام کی بدولت۔ بخدا، یہ عزت اور سربلندی ہم اسلام کے سوا کسی اور چیز میں تلاش نہ کریں گے!!!

حسن بصریؒ حضرت عمرؓ کا تذکرہ کرتے، اکثر کہاکرتے تھے: بخدا ان کا دوسروں پر سبقت لے جانا نہ تو اسلام لانے میں پہل کرنا تھا اور نہ خدا کے راستے میں اوروں سے زیادہ مال خرچ کرنا۔ وہ اوروں پر سبقت لے گئے تو دنیا کو بے وقعت جاننے کے باعث اور خدا کے معاملہ میں شدتِ غیرت کی بدولت۔ وہ خدا کا ایک ایسا بندہ تھا جسے خدا کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی کوئی پروا تھی ہی نہیں!

سفرِ شام میں، کمانڈروں کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا تو عمرؓ، ابوعبیدہؓ سے فرمائش کرتے ہیں کہ شب بسری کیلئے وہ انہیں اپنے گھر لے چلیں۔ شاید دیکھنا چاہتے ہوں گے کہ خلیفہ کے اس عہدہ دار کا گھر کیسا ہے۔ ابوعبیدہؓ کچھ ہچکچانے کے بعد انہیں گھر لے جاتے ہیں۔ گھر میں دیکھنے کو مگر کچھ ہو تو! عمرؓ پوچھتے ہیں: کچھ کھانے کو ہے؟ پورے گھر میں اس وقت سوائے کچھ خشک ہو چکی روٹی کے کھانے کی کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی۔ عمرؓ رو پڑتے ہیں، کہتے ہیں: بخدا اس دنیا نے آکر ہم سب کو کچھ نہ کچھ بدل دیا مگر یہ ابو عبیدہؓ کا کچھ نہ بدل سکی!!!

رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے صحابی معاذ بن جبلؓ کو عین جوانی میں موت آتی ہے۔ بوقت وفات، ان کی زبان پر یہ کلمات سنے جاتے ہیں: خدایا! تو جانتا ہے دنیا سے میرا لگاؤ اور یہاں اور رہنے کیلئے میری خواہش یہاں زمینیں آباد کرنے اور نہریں نکالنے کیلئے کبھی نہ تھی۔ دنیا سے میری رغبت تھی تو گرم دوپہروں میں روزے کی پیاس میں لذت ڈھونڈنے کی حد تک۔ یا خلوت کی گھڑیوں میں، عبادت میں محنت کشی کیلئے۔ اور یا پھر مجھے شوق تھا تو مجالسِ علم و ذکر میں اژدہام کرنے اور سب سے آگے بڑھ کر نشست پانے کا!!!

ابو جعفر منصور نے عمر بن عبد العزیزؒ کے بیٹے سے پوچھا: تمہارے والد مسندِ خلافت پر فائز ہوئے تو کتنی دولت پاس تھی؟ کہا: چالیس ہزار طلائی اشرفی۔ پوچھا: وفات کے وقت کتنی تھی؟ کہا: صرف چار سو۔ کچھ دن زندگی اور وفا کرتی تو یہ بھی نہ بچتے! عمر بن عبد العزیزؒ، جنہوں نے ڈھائی سال کے لگ بھگ حکومت کی، بیت المال سے ایک پائی نہ لیتے تھے ، سب خرچہ سب صدقہ اپنی جیب سے کرتے تھے!

عمر بن عبد العزیزؒ خلافت سنبھالتے ہی بیت المال کی ہر چیز بیت المال کو واپس کر چکے تھے۔ شاہی خاندان غریبوں کی طرح کھاتا امیروں کی طرح شکر کرتا۔ عمرؒ کا معمول تھا عشاءکے بعد کچھ دیر گھر والوں کے ساتھ گزارتے۔ ایک رات، دیکھا بیٹیاں زیادہ قریب نہیں آرہیں۔ پاس آتی ہیں تو منہ پر ہاتھ دھرا ہوتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد چپ چاپ کمرے سے نکل گئیں۔ خلیفہ نے بچیوں کی آیا سے سبب پوچھا۔ آیا نے جواب دیا: گھر میں کچھ نہیں تھا۔ شہزادیوں نے آج مسور اور پیاز کے ساتھ رات کا کھانا کھایا ہے۔ ان کو خدشہ تھا کہ منہ سے بو آتی ہوگی۔ چین سے سپین تک کا حکمران، خدا شناسی کا یہ حسین انسانی نمونہ اس لمحے رو پڑتا ہے۔ بیٹیوں کو بلاتا ہے۔ ان کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے: میری جگر گوشو! تم یہ تو پسند نہیں کرو گی کہ تم انواع واقسام کے خوان کھاؤ اور تمہارے باپ کو گھسیٹ کر جہنم میں پھینکا جائے! شہزادیاں آبدیدہ جواب دیتی ہیں: ہرگز نہیں ابا جان!!!

آدھی دنیا کا خراج عمر بن عبد العزیزؒ کے قدموں میں ڈھیر ہوتا تھا۔ ایک ایک پائی، ایک ایک دانہ حقداروں تک پہنچا دیا جاتا۔ عمرؒ ہاتھ جھاڑتے، خدا کی حمد کرتے، وہاں سے اٹھ کھڑے ہوتے۔ معمول کی ایک ایسی ہی کارروائی کے دوران، کہ جب ایک کم سن بیٹا ساتھ تھا، مال کے ایک ڈھیر سے بچہ ایک سیب اٹھا کر کھانے لگتا ہے۔ عمرؒ کی نظر پڑتی ہے تو اس سے سیب واپس لے لیتے ہیں۔ بیٹا روتا اور ضد کرتا ہوا اماں کو ’بتانے‘ چلا جاتا ہے۔ اماں سے بچے کا رونا دیکھا نہیں جاتا، پیسے نکالتی ہیں اور بازار سے سیب منگوا لیتی ہیں۔ عمرؒ گھر آتے ہیں تو سیب کی خوشبو پا کر غصے میں آنے لگتے ہیں: ’اس کو پھر کسی نے سیب پکڑا دیا؟‘.... ’نہیں، یہ میں نے بازار سے منگوائے ہیں‘، فاطمہؒ بنت عبد الملک، عمرؒ کی شریکِ خانہ، جواب دیتی ہیں۔ وضاحت فرماتے ہیں: ’واللہ! بیٹے کے ہاتھ سے سیب کھینچتے ہوئے مجھے لگتا تھا گویا میں اس کو اپنے دل سے کھینچ رہا ہوں مگر مجھے یہ ناپسند تھا کہ خدا کے ہاں میرا حصہ، بیت المال کے ایک سیب کی نذر ہو جائے‘!!!

مسلمہ بن عبد الملک کہتے ہیں: میں اپنے چچا زاد، عمر بن عبد العزیزؒ کی عیادت کو گیا، جب وہ بستر مرگ پر تھے۔ مجھے محسوس ہوا ان کی قمیص دھلنے والی ہو چکی ہے۔ میں نے اپنی ہمشیرہ (عمرؒ کی زوجہ) سے کہا: فاطمہ! امیر المومنین کی قمیص تو دھلوا دو۔ کہنے لگی: اچھا۔ میں پھر آیا تو قمیص ویسے کی ویسے تھی۔ میں نے غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا: فاطمہ! تم نے امیر المومنین کی قمیص پھر نہیں دھوئی؟ فاطمہ جھینپتے ہوئے بولیں: ان کے پاس یہ ایک ہی تو قمیص ہے، تندرست تھے تو اسی کو دھو کر پہن لیتے، اب گھڑی گھڑی تیمار دار آرہے ہیں، قمیص اتار کر کیسے دھوئیں!

مالک بن دینارؒ، جوکہ دورِ تابعین کے ایک مشہور ترین زاہد و عبادت گزار اورتوکل، یقین اور خدا پرستی کی ایک حسین ترین مثال جانے جاتے ہیں، کہا کرتے تھے: ’لوگ مجھ جیسوں کو زاہد گنتے ہیں۔ حالانکہ زاہد اگر کوئی ہے تو وہ عمر بن عبد العزیزؒ ہیں۔ پوری دنیا ان کیلئے پیش ہے مگر وہ اس کو دل کے پاس تک نہیں پھٹکنے دیتے‘!

مکحولؒ کہتے ہیں: کوئی مجھے اپنے دیکھے کی سچی ترین قسم اٹھانے کیلئے کہے تو میں کہوں: ’واللہ عمر بن عبد العزیزؒ سے بڑھ کر میں نے اپنی پوری زندگی میں کوئی زاہد دیکھا ہے اور نہ کوئی خدا خوف‘۔

عمر بن عبد العزیزؒ اپنے خطبوں میں اکثر کہا کرتے تھے: ’سنو، یہ دنیا خوشیاں کم دیتی ہے اور رلاتی زیادہ ہے، کیا تم اس مصیبتوں کے گھر پر ریجھ بیٹھے ہو؟‘

”دنیا کو قابل اجتناب جاننا“ جس معنیٰ میں ”زہد“ کہلاتا ہے او رصالحین کے ہاں مستحسن گنا جاتا ہے اور خدا کے ہاں رفعِ درجات کا باعث ہے، اس ”زہد“ کا حقیقی مفہوم کسی پر اوجھل رہتا ہے تو وہ ایک نظر عمر بن عبد العزیزؒ ایسے زاہدوں کے سرخیل، آدھی دنیا کے حکمران کو دیکھ لے اور پھر امام شافعیؒ کے اس قول کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرے :

’دنیا وہ مردار ہے جس کے گردا گرد کتے ہجوم کئے ہوئے ہوں۔ تم اگر اس کو انہی کیلئے چھوڑ دو تو یہ تمہارے بھی لائق ہے اور ان کے بھی‘!

امام ابن قیمؒ کہتے ہیں: قرآن دنیا کو ”زہد“ کی نگاہ سے دیکھنے کی دعوت سے بھرا ہوا ہے، اور سنت بھی:

” خوب جان لو یہ دنیا کی زندگی بس ایک کھیل ہے، اور محض ایک دل لگی، اورنری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ جانے کی کوشش میں رہنا....اس بارش کی مثل جس کا سبزہ کاشتکاروں کو خوش کردے۔ پھر وہ جوبن پر آئے۔ پھر تو دیکھتا ہے وہ زرد ہوگیا ہے۔ آخر میں وہ چورا چورا ہوجاتا ہے۔ (ابھی) آخرت (پڑی ہے) جہاں سخت عذاب ہے اور (یا) خدا کی بخشش اور خوشی۔ دنیا کی یہ زندگی تو کچھ نہیں مگر ایک دھوکے کا سامان۔

ارے لپکو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس بہشت کی طرف جس کا پھیلاؤ آسمان و زمین کے پھیلاؤ ایسا ہے، جو تیار کی گئی ہے ان (خوش بختوں) کیلئے جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔ یہ اللہ کا فضل ہے عطا فرمائے گا اسے جسے چاہے گا، اور اللہ تو فضلِ عظیم کا مالک ہے۔

نہیں پڑتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ (لکھ رکھی گئی ہے) ایک دستاویز میں اس سے پہلے کہ ہم اسے وجود میں لائیں۔ بلاشبہ یہ بات اللہ کیلئے بہت آسان ہے.... یہ اس لئے کہ تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہی اس کا افسوس نہ کرو اور جو اس نے تمہیں دیا اس پر اتراؤ نہیں۔ اور اللہ تو ہر گز کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا.. وہ جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروںکو کنجوسی کی تلقین کرنے میں لگے ہیں.... اور کوئی منہ موڑ لے تو اللہ بے نیاز ہے اور اکیلا صاحبِ تعریف “ (57: 24-20)

”انسانوں کیلئے خوش نما بنا دی گئی ہیں اُن کی خواہشات؛ مثل عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور لہلہاتی فصلیں.... پر، یہ اس دنیا کی زندگی کا سامان ہے۔ عمدہ ٹھکانا (پھر بھی) اللہ ہی کے پاس ہے ۔

ان سے کہو: کیا میں تمہیں ان چیزوں سے ایک کہیں بہتر چیز کی خبر دوں؟ (تو پھر سنو!) جو لوگ (یہاں) پرہیزگاری اختیار کر رکھیں؛ اُن کےلئے ان کے پروردگار کے ہاں باغ ہائے بہشت ہیں، جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں، اور جن میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں.... اور پھر پاکیزہ شریک ہائے حیات.... اور (سب سے بڑھ کر) اللہ کی خوشنودی.. اور ایسے بندگی میں لگے لوگ تو ہر دم اللہ کی نگاہ میں ہی رہتے ہیں۔

.... جو التجائیں کرتے ہیں: ’اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے، پس بخش دے ہمیں ہمارے گناہ، اور بچا لے ہمیں دوزخ کے عذاب سے....

یہ صبر کرنے والے، یہ سچ بولنے والے، یہ چپ چاپ حکم مان لینے والے، یہ خدا کی راہ میں لٹانے والے..اور بوقتِ سحر، استغفار کیلئے (ہاتھ پھیلانے) والے!!! (3: 14-17)

”جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کیلئے ہم اس کی کھیتی خوب بڑھائیں گے؛ البتہ جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے ضرور دیں گے (مگر پھر) اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہو گا“۔ (42:20)

کہنے لگے: اے ہمارے رب! تو نے ہم پر قتال (جلد) کیوں فرض کر دیا کیوں نہ تھوڑی مدت ہمیں اور مہلت دے دی؟ کہہ دو: دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو ایک پرہیزگار کےلئے آخرت ہے۔ اور تم پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔

(اے جہاد سے ڈرنے والو!) تم کہیں رہ لو، موت تو تمہیں آکر رہے گی، بے شک تم اونچے مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہوئے....“ (4: 77-78)

”نہیں، مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت کہیں بہتر ہے اور کہیں زیادہ پائیدار“  (87: 16-17)

”دنیا میں یوں رہو، گویا پردیسی ہو یا پھر راہ گیر“

(صحیح بخاری)

اسی حدیث کی ترمذی کی روایت میں اضافہ ہوا: ”اور اپنے آپ کو قبرستان کی آبادی میں شمار کرو“

”دنیا مومن کی قید ہے اور کافر کی جنت“

(صحیح مسلم)

”میرا دنیا سے کیا لینا دینا!!! میری مثال اور دنیا کی مثال تو بس ایسے ہے گویا کسی (منزل کا) سوار، تپتے دن میں، کسی پیڑ کے سائے تلے (کچھ وقت گزارے)، اور پھر اس کو چھوڑ کر آگے چل دے“!

(ترمذی و مسند احمد، حدیث صحیح ہے)

”دنیا خدا کی نگاہ میں کہیں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی، تو اس نے کافر کو کبھی پانی کا ایک گھونٹ نہ دیا ہوتا“!

(ترمذی، صححہ الالبانی)

”قیامت قریب ہوئے جارہی ہے، اور لوگوں کی حرص دنیا کیلئے بڑھتی جا رہی ہے، خدا سے ان کی دوری اور بڑھتی جارہی ہے“۔

(مستدرک حاکم، البانی نے اسے حسن کہا ہے)

”روزِ قیامت، جہنمیوں میں سے دنیا کے سب سے زیادہ ناز ونعم میں رہنے والے شخص کو آگے لایا جائے گا۔ اس کو دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا۔ پھر اس سے پوچھا جائے گا: آدم کے بیٹے! زندگی میں کبھی خیر دیکھی ہے؟ کبھی کوئی اچھا وقت گزرا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں، اللہ کی قسم نہیں، اے رب! اور جنتیوں میں سے دنیا کے اندر سب سے برا وقت گزار آئے شخص کو سامنے لایا جائے گا۔ اس کو جنت میں ایک غوطہ دلایا جائے گا۔ پھر اس سے پوچھا جائے گا: آدم کے بیٹے! کبھی زندگی میں برا وقت دیکھا ہے؟ کبھی تم پر مشکل آئی ہے۔ وہ کہے گا: اللہ کی قسم، کبھی نہیں خدایا۔ مجھ پر تو کبھی کوئی برا وقت نہیں آیا۔ میں نے تو کبھی کوئی مشکل نہیں دیکھی!!!
(صحیح مسلم)

اس کے بعد، امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: آخرت کیلئے رغبتِ تام دل میں آتی ہی نہیں جب تک دنیا کی وقعت دل سے چلی نہ جائے۔ آدمی کا دنیا کو آخرت پر ترجیح دے ڈالنا یا تو اس کے ایمان کی خرابی ہے، یا عقل کی خرابی ہے، اور یا ایمان اور عقل دونوں کی خرابی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحابؓ نے دنیا کے عیش وآرام کو بالکل ہی پس پشت ڈال کر رکھا۔ دنیا کو دل میں نہ رہنے دیا اور دل کو دنیا میں نہ رہنے دیا۔ دنیا کو بہشت نہیں، قید گنا۔ دنیا کے معاملہ میں وہ زہد اختیار کیا جوکہ اس کا حق تھا۔ حالانکہ چاہتے تو اس سے کیا نہ پاسکتے تھے؟ اس کی کونسی چوٹی تھی جسے وہ سر نہ کر سکتے تھے؟ کونسی خواہش تھی جسے وہ پورا نہ کرسکتے تھے؟ مگر بات یہ ہے کہ وہ جان گئے تھے کہ: یہ عبور گاہ ہے نہ کہ سرورگاہ۔یہ وہ بھاگتا بادل ہے جو ابھی برستا نہیں کہ چھٹ جاتا ہے۔ یہ وہ سرِ راہ کا مہمان ہے جو ابھی آتا نہیں کہ جانے کے لئے تیار نظر آتا ہے۔ یہ وہ سہانا سپنا ہے جسے آدمی پکڑتا رہ جاتا ہے، پر آج تک کوئی اسے پکڑ نہیں سکا۔ (3)

’بلبلے‘ کے پیچھے بھاگنے والے نادان ضرور ہیں!!!

 

 

زہد کی چند اہم علامتیں:

 

”زاہد“ ہونا تو خیر ایک بہت بڑا مرتبہ ہے، زہد سے کچھ حصہ پایا ہونا بھی ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ آدمی کو یہ دیکھنا ہو کہ ”زہد“ ایسی نعمت سے کچھ حصہ پایا ہونے کے معاملہ میں وہ کہاں کھڑا ہے.... تو، جیسا کہ متعدد علماءنے بیان کیا ہے، وہ اپنے آپ کو ان تین علامات سے جانچے:

1) ”زہد“ یہ ہے، جیسا کہ سورہ حدید کی آیت 23 کے ضمن میں ہم پیچھے دیکھ آئے، کہ آدمی ’موجود‘ پر خوش نہ ہو اور ’مفقود‘ پر افسوس نہ کرے۔ دوسری چیزوں کے معاملہ میں بھی یہ درست ہے، مگر مال و دولت اور عیش و آسائش کے معاملہ میں ”زہد“ کا یہ اہم معیار ہے۔ پس یہاں سے تم دیکھ سکتے ہو کہ ”زہد“ سے تم نے کتنا حصہ پایا ہے۔

2) ”زہد“ یہ ہے کہ وہ شخص جو تمہاری ستائش کرتا ہے اور وہ جو تمہاری مذمت کرتا ہے، تمہاری نگاہ میں ایک برابر ہوجائیں۔ اول الذکر، مال ودولت اور وسائلِ راحت کے معاملہ میں ”زہد“ تھا تو یہ ’ جاہ اور مقام‘ کے معاملہ میں ”زہد“ ہے۔ اب اس معاملہ میں بھی تم اپنا جائزہ لے سکتے ہو کہ تم کہاں کھڑے ہو۔

3) ان دونوں سے اہم بات یہ دیکھنے کی ہے کہ تمہیں خدا کے ساتھ اُنس کتنا ملتا ہے؟ خدا کے ساتھ خلوت کی کچھ گھڑیاں گزارنے میں لطف کتنا آتا ہے؟ عبادت میں مٹھاس اور فرماں برداری میں حلاوت کہاں تک آتی ہے؟ آخرت کی سمت چلنے میں سکھ کتنا پاتے ہو اور عزم الامور کے ساتھ دل لگانے میں اطمینان کتنا ہوتا ہے؟ اور اس کیلئے اور سے اور کی طلب کہاں تک ہے؟.... کیونکہ زہد کو زہد بنا دینے والی اصل چیز بس یہی ہے۔ ورنہ تو وہ نری مشقت ہے!

پیچھے، ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ مال و دولت یا جاہ وحشمت سے محض دل کا ’اچاٹ‘ ہوجانا زہد نہیں۔ ’بے دلی‘ اور ’مردنی‘ کا ”زہد“ سے کیا تعلق؟!!! ’زہد‘ تو شوق اور رغبت کا ایک طوفان ہے۔ ”زہد“ تو درحقیقت اِس شوق اور رغبت کا ”محور“ بدل جانا ہے۔ ”زہد“ تو اس جوش و ولولہ کو، جوکہ ایک فنا ہوجانے والے جہان میں اٹک کر رہ گیا تھا اور مٹی کی چیزوں کے ساتھ مل کر مٹی ہوجانے والا تھا، ابدیت کی ایک جہت مل جانا ہے اور عرش کے مالک سے اس کی ایک نسبت ہوجانا۔یہ تو دل کی اس حالت کا کچھ سے کچھ ہوجانا ہے؛ کہ پہلے اسے دنیا کے یہ رنگ اپنی جانب کھینچتے تھے، اب اس کا دل آخرت میں جا بسا ہے اور محض ایک خدا سے لو لگا بیٹھا ہے۔اس کی ’زندہ دلی‘ تو کہیں نہیں گئی؛ صرف ”زندگی“ کا سراغ مل گیا ہے، جس سے فانی اشیاءاس کی نظر میں اب ہیچ ہوگئی ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ اسے اس نسخۂ کیمیا تک بھی رسائی ہوگئی ہے جو اس کیلئے ’مٹی‘ کو ’سونے‘ میں بدل دے؛ اور جس سے کام لے کر اب یہ ان فانی اشیاءکو ہی، ایک کمال سلیقے سے، اپنے لافانی جہان کے سامان میں باندھ سکتا ہے! پس پہلے اگر یہ کم پرجوش تھا تو اب یہ کہیں بڑھ کر سرگرم ہوگا۔ وہ جن کی نظر ’زمین‘ سے نہیں اٹھتی، وہ کیا کچھ کرنے میں یہاں نہیں لگے ہوئے؛ جس کو ’آسمان‘ نظر آتا ہواس کے پیر بھلا کہاں ٹک سکتے ہیں؟!!!

کسی عابد سے پوچھا گیا: یہ زہد ان لوگوں کو لے کہاں جاتا ہے؟ اس نے جواب دیا: خدا کے ساتھ دل لگانے!!!

بعض اہل علم نے ’زہد‘ کے معاملہ میں، آدمی کے اپنے آپ کو جانچنے کیلئے یہ علامات بھی ذکر کی ہیں:

1) جب تم دیکھو کہ خدا کی حرام کردہ باتوں سے تمہاری طبیعت حد درجہ بھاگنے لگی ہے۔

2) حلال پر اطمینان ہونے لگا ہے۔

3) فرائض ہر دم آنکھوں کے سامنے رہنے لگے ہیں

4) ’شبہات‘ سے اپنے آپ کو دستکش پاتے ہو

5) مستحبات میں رغبت بڑھنے لگی ہے

6) ایک چیز جو فی نفسہ نہ تو حرام ہے اور نہ واجب یا مستحب؛ یعنی مباح ہے اور اس کے کرنے میں ہرگز کوئی گناہ نہیں البتہ کوئی ثواب بھی نہیں.... وہ بھی تمہارے لئے قابل اعتنا نہیں رہا۔ اس کو بھی ہاتھ ڈالو تو پہلے یہ دیکھ کر کہ وہ تمہارے مقاصدِ آخرت میں کہاں تک فٹ آتی ہے ؟ کیونکر تم ایک چیز کو ’عزم الامور‘ کے ساتھ جوڑ لینے کا سلیقہ پا چکے ہو ؟ ’عزم الامور‘ میں فٹ نہ آنے والے مباحات سے صرفِ نظر کر رکھنے کی صلاحیت کہاں تک اپنے اندر پیدا کر چکے ہو؟ زہد کی یہ نہایت اہم علامت ہے: تمہارا وقت، روپیہ پیسہ، صحت، طاقت، چستی، پھرتی، رابطے، تعلقات، سماجی رتبہ، وجاہت، سب کچھ کسی بلند مقصد کیلئے مسخر ہو جائیں۔ یہ سب کچھ کسی ادنیٰ مقصد کیلئے صرف ہونا ، چاہے وہ مباح ہی کیوں نہ ہو، تمہیں لاکھوں کروڑوں کا نقصان نظر آئے۔

اہل علم کے ہاں اس باب میں جس دولت پر سب سے زیادہ فریفتہ ہونے کی تاکید ملتی ہے اور وہ اس کا اربوں کھربوں میں بھی حساب کرنے کے روادار نہیں، وہ انسان کا ’وقت‘ ہے۔ اس کا ایک لمحہ کسی ادنیٰ چیز پر صرف ہونا، چاہے وہ مباح کیوں نہ ہو، اگر تمہیں کھلنے لگے اور یہ تمہیں کروڑوں کے نقصان سے بھاری لگنے لگے، تو سمجھو زہد کی راہ پر تمہارا قدم باحسن اسلوب پڑ چکا ہے۔

اہل علم تو مباحات ہی کیا، بعض اعلیٰ درجہ کے مستحبات کے سامنے کم درجہ مستحبات تک کو وقت کا اچھا مصرف نہیں جانتے(4)۔ یہاں، ہر آدمی اوپر سے اوپر دیکھتا ہے! ’نفع‘ بھی کم ہو تو لینے پر تیار نہیں ہوتا! ہمتوں کا زور لگا دینے کا یہی اصل محل ہے! یہ ایسے ہی ہے جیسے کروڑوں کے سودے کرنے والا ایک تاجر دو دو چار چار روپے کے سودے کو ہاتھ نہیں ڈالتا۔ باوجود اس کے یہ بھی ’منافعہ‘ ہے، پروہ جن ہواؤں میں ہے اس کے حساب سے وہ اس کیلئے گھاٹا ہے۔ وہ نہایت اعلیٰ سودے کرنے سے نیچے آنا، جبکہ ایسے سودوں کی اس پاس کمی نہ ہو، اپنے حق میں خسارہ جانتا ہے۔ اسی معنیٰ میں علمائے قلوب کے ہاں ایک نہایت حسین مقولہ پایا جاتا ہے:

حَسَنَاتُ الأبرَارِ سَیّئَاتُ المُقَرَّبِین(5)۔ مراد یہ کہ ’ابرار‘ یعنی نیکوکاروں کے حق میں جو باتیں ’حسنات‘ کا درجہ رکھتی ہیں، ’مقربین‘ یعنی خدا کا خاص قرب پا رکھنے والے لوگوں کے حق میں کسی وقت وہ ’سیئات‘ کا درجہ رکھیں گی۔

یہ موخر الذکر، زہد کا، بلکہ درحقیقت آدمی کے فہم ودانش مندی کا، ایک نہایت وسیع باب ہے۔ یہی وہ بازار ہے جہاں کوئی خوش قسمت مٹی کو سونا بنالینے کا ہنر رکھتا ہے تو کوئی قسمت کا مارا سونا مٹی میں ملا آتا ہے!

پس یہ درجہ بدرجہ یہ چھ ٹیسٹ ہیں جن کو آدمی اپنے سامنے رکھ سکتاہے۔ ان کی روشنی میں اپنا جائزہ لیتے رہنا فائدہ مند رہے گا ۔ اور سب فضل تو آدمی کو خدا ہی سے مانگنا ہے۔

ابن قیمؒ کہتے ہیں: حکمِ شرعی کے لحاظ سے زہد کے کئی ایک مراتب ہیں:

- ایک زہد وہ جو فرض عین ہے۔ یہ خدا کے حرام کردہ امور کے معاملہ میں ہے۔

- زہد کی ایک وہ صورت ہے جو شبہات سے بچنے سے متعلق ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں: شبہ قوی ہو تو اس کی بابت زہد اختیار کرنا وہی حکم رکھتا ہے جو حرام کے معاملہ میں زہد کا ہے، یعنی واجب۔ اور اگر شبہ قوی نہ ہو تو اس صورت میں اس سے دشتکش رہنا مستحب ہوگا۔

- فضول سے بچنا: بے فائدہ بولنا، نگاہ کا فضول استعمال، بے فائدہ پوچھ پڑتال، بے فائدہ میل جول، بے کار وقت گزاری، لایعنی مشغلے؛ گو بے شک حرام نہ ہوں.... سب کچھ متروک ہوجانا زہد میں آتاہے، اور نہایت مستحسن۔

- لوگوں کی بابت زہد اختیار کرنا: دنیا کی محفلیں اچھی اور مفید بھی ہوں پھر بھی ایک حد سے زیادہ نہ ہوں۔ اس کے بجائے خدا کے ساتھ وقت گزرنا آدمی کو زیادہ مرغوب ہو۔

- اپنے آپ کی بابت زاہد ہوجانا۔ یعنی آدمی کو اپنی راحت، حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی زندگی خدا کی راہ میں وار دینا کوئی بڑی بات نہ لگے۔ اپنی جان مال کو خدا کی راہ میں بے وقعت جاننا، زہد کا ایک نہایت بلند درجہ ہے۔

- سب سے جامع زہد، جس میں یہ سب اور اس کے سوا بہت کچھ آتا ہے، یہ ہے کہ: خدا کے سوا ہر چیز کے معاملہ میں ہی آدمی زاہد ہوجائے؛ ہر وہ چیز جو تمہیں، خدا کے ساتھ اور خدا کے لئے، مشغول نہ رہنے دے وہ تمہاری نگاہ میں اپنی سب وقعت کھودے اور تمہاری زندگی میں متروک ہونے لگے۔

آخر میں امام ابن قیمؒ کہتے ہیں: ’زہد‘ کو چھپانا ’زہد‘ کی سب سے اعلیٰ اور افضل قسم ہے(6)۔ یہ اس لئے کہ زہد کسی ظاہری ہیئت کا نام نہیں۔ زہد یہ ہے کہ آدمی اسی دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کا ہوگیا ہو، جوکہ نہایت مشکل ہے؛ اور بیشتر، ایک چھپا رہنے والا عمل، بہ نسبت کوئی ’حلیہ‘ اپنا لینے کے یا کوئی ’گوشہ‘ سجا لینے کے۔ اسی زندگی کے ہنگاموں میں شریک رہ کر ”زہد“ اپنانا اصل کام ہے۔ ’زہد‘ کا سارا حسن ہے ہی اس کے قدرتی پن اور اس کی بے ساختگی میں، ورنہ ’زہد‘ تو اسے کہنا ہی مشکل ہے!

امام زہریؒ نے زہد کی جو تعریف کی ہے وہ ہم پیچھے دیکھ آئے ہیں؛ یعنی نہ ’حرام‘ تمہارے صبر واستقامت کو اپنی جگہ سے ہلا سکے چاہے کتنا بھی زیادہ اور کتنا بھی دلکش کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اور نہ ’حلال‘ چاہے جتنا بھی تمہیں مل گیا ہو، تمہارے شکر کو عاجز کرسکے۔ پس زہد کے دراصل یہ دو محاذ ہیں....

کچھ لوگ ’صبر‘ کے محاذ پر ہار جاتے ہیں اور ’حرام‘ یہاں ’صبر‘ کے کئی ایک بند توڑ دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے؛ یہاں اگر صبح شام یہ بند مضبوط کر رکھنے پر چوکس نہ رہا جائے ، اور کہیں کسی بند میں اگر تھوڑا بہت سوراخ ہونے لگے تو اس کو ساتھ ساتھ بند کرتے جانے کا بندوبست نہ رہے تو قریب ہے کہ آدمی کی دولتِ زہد ساری کی ساری ہی اس طوفان کی نذر ہو جائے اور محرمات کا ارتکاب اور خدا کی حدیں توڑی جانے کا واقعہ اس کے ہاں کا معمول بن جائے۔

جبکہ کچھ لوگ ’شکر‘ کے محاذ پر ہار جاتے ہیں؛ بلکہ اکثر ’صبر‘ کے محاذ پر اچھی کارکردگی رکھنے والے، دیکھے گئے، کہ یہاں دم ہار جاتے ہیں۔ ’حلال‘ ملنے پر خدا کی حمد وتعریف میں رطب اللسان رہنا اور دل پر ہر وقت خدا کیلئے احسان مندی کی حالت طاری کئے رکھنا ’زہد‘ کا ایک دوسرا بڑا میدان ہے۔ خدا کی نعمتیں جوکہ طیبات ہیں، اورجن کو لینے میں ہرگز کوئی خرابی نہیں، یہ ہر دم آدمی کو اگر ”خدا کا فضل“ نظر نہ آئیں اور اِن پر خدا کیلئے آخری درجے کی ایک ”نیاز مندی“ انسان کے دل میں موجزن نہ ہو تو اِن نعمتوں کی اپنی ایک حیثیت انسان کے دل میں بن جاتی ہے اور یہ آپ اپنی ذات میں اس کیلئے اہم ہوجاتی ہیں۔ یہ نوبت آتی ہے تو پھر ’زہد‘ نام کی جو چیز ہے وہ اس کے یہاں سے روپوش ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کی جو مناجات یا حتیٰ کہ ان کی اپنے اصحاب کے ساتھ جو گفتگو قرآن میں مذکور ہوئی ہے، یا قرآن کی اپنی تعلیقات جو آلِ داودؑ کی بابت ملتی ہیں، سب کی سب ’شکر‘ کے گرد گھومتی ہیں، کیونکہ یہ ایک نہایت مشکل عبادت ہے اور اکثر کا پایۂ استقلال یہاں ڈول جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ’صبر‘ کرنے والے زاہد آپ کو زیادہ ملیں گے بہ نسبت ’شکر‘ کرنے والے زاہدوں کے۔ یہاں تک کہ لوگوں کے یہاں ’زہد‘ کا مفہوم ہی ’صبر‘ کا ہم معنیٰ ہوگیا ہے! حالانکہ یہ کچھ بعید نہیں کہ آدمی خدا کی نعمتوں میں کھیلتا ہو اور شکر وقدردانی ایسی نایاب بندگی اختیار کرکے خدا کے ہاں زاہدوں میں شمار ہو۔
پس ’زہد‘ کے یہ دو محاذ اگر تم پر واضح ہوجاتے ہیں، تو یہاں سے بھی تمہیں اپنا جائزہ لینے میں مدد مل سکتی ہے کہ اس سعادت کو پانے میں تم کہاں کھڑے ہو۔

 

 

’زہد‘ میں ممد ہونے والی باتیں:

 

اب آخر میں چند ایسی باتوں کا ذکر کرتے چلیں جو زہد کی حقیقت کو اپنانے میں انسان کی معاون ہوسکتی ہیں:

- ہو سکے تو روز کچھ وقت دنیا کی حقیقت پر غور وفکر میں صرف کرو۔ اس کا تیزی کے ساتھ روپوش ہوتے جانا، اس کا زوال قریب ہونا، اس کا فانی ہونا، اس کا ناقص اور معیوب ہونا، اس کا کمتر اور حقیر ہونا، اس کی دوڑ میں آدمی کے ہاتھ حسرت کے سوا کوئی چیز نہ آنا، اس کے مزوں کا کرکرا پن.... سب کچھ بار بار ذہن میں تازہ کرو۔

- آخرت کی بابت سوچنا تو ہر وقت کا معمول بنا لو۔ آخرت کس طرح روزبروز قریب آرہی ہے، اس کا آجانا کس قدر یقینی ہے، اس کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باقی رہنا کیسی زبردست بات ہے، اس کی پائیداری کیسی دلکش ہے، اس کی وسعت کیسی بے اندازہ ہے، اس کی نعمتیں کیسی پر لطف ہیں، اور اس کی صحبتیں کیسی اعلیٰ ہیں، سب وہ باتیں ہیں جو بار بار سوچ میں آنی چاہئیں۔

- موت کا بکثرت تذکرہ کرو اور سنو۔ کسی جنازے کو جاتے ہوئے بڑے غور سے دیکھو، اور یہ دیکھ کر کہ تمہارے پاس ابھی وہ موقعہ باقی ہے جو اس شخص کے پاس نہیں رہا جو ابھی قبر میں جا اترے گا اور یہ کہ یہ مردہ جس چیز کی تمنا کرتا ہوگا، یعنی یہ کہ اسے ایک بار یہاں واپس آنے دیا جائے تاکہ وہ سچے دل سے توبہ کر جائے، یہ موقعہ تمہیں ابھی پوری طرح حاصل ہے.... یہ دیکھ کر تم وہ کام کر لو جو وہ مردہ اس وقت نہیں کرسکتا۔ سچے دل سے تائب ہوجاؤ، خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو ازسرنو جوڑو، زندگی کے اہداف اور ترجیحات کا ایک بار پھر جائزہ لے لو۔ تمہارا وہ رشتہ جو دنیا کے ساتھ ہے اور وہ رشتہ جو آخرت کے ساتھ ہے اس پر پھر ایک نظر ثانی کرلو.. قبل اس کے کہ جس طرح کسی کا جنازہ آج تمہیں ایک پیغام دے رہا ہے تمہارے اعمال نامے بند کرکے دھر دیے جائیں اور ’تم‘ کسی کیلئے پیغام بن جاؤ۔ قبرستان میں گاہے بگاہے جاتے رہنا اور وہاں پر تنہائی کے کچھ لمحات گزارنا بھی تمہیں زہد کے بہت سے اسباق یاد کرا دینے کا باعث ہوسکتا ہے۔

- اپنے گھر میں ہو یا کسی عزیز کے گھر میں آنا جانا ہو، تو ذرا ان بھلی صورتوں کو ذہن میں لانے کی کوشش کرو جو ان گھروں میں رہتے تھے مگر اب نہیں رہتے! اپنے آباءکو تصور میں لاؤ جو یہاں بسا کرتے تھے مگر اب ان کا صرف ’ذکر‘ ہوتا ہے۔ کچھ بھی یہاں سے ان کا ساتھ نہ دے سکا سوائے ان ’اشیاء‘ کے جن کو ساتھ لے جانے کیلئے باقاعدہ ’تیار‘ کیا گیا تھا، باقی سب یہیں پڑا ہے۔ اس گھر کی کونسی چیز تھی جو ان کو پیاری نہ تھی؟ لیکن حق یہ ہے کہ اصل جو چیز ان کو ’پیاری‘ تھی وہ تو وہ ساتھ لے گئے ہیں! ’وہ‘ چیز انہوں نے یہاں کب چھوڑی ہے؟! ’اپنی‘ چیز کو کسی دوسرے کیلئے کون چھوڑتا ہے؟! ہوسکتا ہے تم دیکھو کہ وہ کچھ بھی یہاں سے لے کر نہیں گئے سب کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ حالانکہ ہوسکتا ہے وہ خوش قسمت یہاں سے بہت کچھ لے گئے ہوں اور جو تم یہاں ’بچا ہوا‘ دیکھ رہے ہو وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہو! یہ سوچتے ہوئے، پھر ذرا وہ وقت ذہن میں لاؤ جب تمہاری جگہ یہاں گھر کا حساب کرنے اور یہاں کی چارپائیوں پر کچھ دن کیلئے سونے کو کوئی اور بیٹھا ہوگا اور تم اپنے ’اصل‘ سامان اور ’اصل‘ پونجی کے ساتھ کہیں اور ہوگے....! ’زہد‘ دراصل ایک ’پونجی‘ بنانے ہی کا نام ہے، وہ ’پونجی‘ جو تمہارے ساتھ یہ جہان پار کر کے اگلے جہان جا سکتی ہے اور جس کو لوگ تمہارے بعد ’یہاں‘ بانٹتے نہیں پھریں گے!!! پس جب تم ان خطوط پر سوچنا اپنا معمول بنا لو گے تو ’زہد‘ کی بہت سی دولت تمہارے ہاتھ آنے لگے گی۔

- ہر وہ چیز جو تمہارے ہاتھ میں ہے ، خواہ وہ کتنے بھی اعلیٰ معیار کی ہے، اس کو زوال کی آنکھ سے ضرور دیکھو، اور صبح شام یہ ’مشق‘ کرو۔ بے شک کسی محل میں رہو، نہایت اعلیٰ گاڑی استعمال کرو، مگر دن میں ایک آدھ بار اس کو اس نظر سے ضرور دیکھوکہ اس محل اور اس کے باسی کا ساتھ چند گھڑیوں کا ہے پھر یہ کسی اور کے پاس ہوگا، اور یہ کہ یہ نہایت خوبصورت گاڑی اور یہ سوار ہمیشہ اکٹھے نظر نہیں آئیں گے۔

دنیا کی نعمتوں کو زوال کی آنکھ سے دیکھنا ’زہد‘ کی افزائش کا ایک یقینی نسخہ ہے۔ دوسری جانب دنیا کو خلود کی آنکھ سے دیکھنا ’دنیا پرستی‘ کا یقینی سبب ہے۔

ایک خدا شناس آدمی جو اپنی حلال کمائی سے حاصل ہونے والے محل میں رہتا ہے مگر اپنے اس محل کو ’زوال‘ کی آنکھ سے دیکھنے کا اس نے شعور پا رکھا ہے اور اس وجہ سے آخرت ہمیشہ اس کی نگاہوں کے سامنے رہتی ہے اور خدا کی حدیں اس کی نگاہ سے کسی وقت روپوش نہیں ہوتیں.... بلاشبہ یہ شخص ’زاہد‘ ہوسکتاہے۔
جبکہ ایک آدمی جو جھونپڑی میں رہتا ہے مگر اپنی اس جھونپڑی کو ’زوال‘ کی آنکھ سے دیکھنے کے شعور سے عاری ہے اور جب بھی اس کو دیکھتا ہے ’خلود‘ کی آنکھ سے دیکھتا ہے، نہ اسے لگتا ہے کہ یہ دنیا کہیں جانے والی ہے اور نہ وہ اس حقیقت پر صبح شام غور کرتا ہے کہ عنقریب یہاں آخرت کا بازار لگ جانے والا ہے، اور ’خدا کی حدیں‘ تو اس کی بلا سے سوچنے کی چیز تک نہ ہوں.... یہ جھونپڑی میں رہنے والا شخص ہوسکتا ہے آخری درجے کا ’دنیا پرست‘ ہو۔

زہد یہ ہے کہ دنیا آدمی کے دل میں اپنی وقعت کھو دے، اور اس کی جگہ پر آخرت دل میں گھر کر لے۔ زہد یہ ہے کہ آخرت کی طلب غالب آنے کے سبب، آدمی کا دل کوئی بھی ’تکلف‘ یا ’تصنع‘ کئے بغیر دنیا سے نکل آئے؛ یعنی آخرت کی طلب دل پر اس طرح وارد ہو کہ دنیا آدمی کیلئے کوئی بڑی بات نہ رہ جائے، مل گئی تب اور نہ ملی تب۔ یہ ’عدم تکلف‘ اور یہ ’بے پروائی‘ سمجھو ’زہد‘ کی اصل جان ہے۔

پس یہ نہایت مفید ہوگا کہ:

- سب کچھ جو تمہارے ہاتھ میں ہے، خواہ وہ تمہارا گھر ہے، یا تمہاری سورای، یا دولت، یا رتبہ، یا حسن، یا تن درستی.. اس پر ایک نظر شکر کی ڈالو اور پھر ایک نظر زوال کی.... اور مقدور بھر اس کا اعادہ کرتے رہو۔

- پھر، وہ سب کچھ جو تمہیں نہیں ملا اور تم اوروں کو ان نعمتوں سے محظوظ ہوتا دیکھتے ہو، اس پر ایک نظر استغناءکی ڈالو، ایک نظر صبر اور عفت کی ڈالو، اور ایک نظر حسد یا منفیت کی بجائے اس شخص کے لئے نیک خواہشات کی ڈالو، اور ایک نظر زوال کی.... اور حسب مقدور یہ عمل دہراؤ۔

’نظر‘ کی یہ ریاضت جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی ’زہد‘ کی نعمت خالص سے خالص ہوکر تمہاری زندگی میں ظاہر ہونے لگے گی۔

- دنیا کی کوئی کامیابی حاصل ہوجائے تو اس کو خدا کا فضل بھی سمجھو اور آزمائش بھی۔ اس موقعہ پر سلیمان علیہ السلام کے لفظ یاد کرو:

هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ(النمل: 40)

”یہ میرے پروردگار ہی کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بے پروا (اور) کرم کرنے والا ہے“

دوسری جانب، دنیا کی کوئی چیز ملنے سے رہ گئی تو یہ ذہن میں لاؤ کہ خدا نے تمہارا بوجھ نہیں بڑھنے دیا اور یہ کہ یہ اُس حکیم کا منصوبہ ہے جو مطلق علم رکھتا ہے اور تمہاری مصلحت سے تم سے بڑھ کر واقف ہے.. اور یہ بھی کہ یہ دنیا تمہیں نہیں ملی تو تم سے نہایت افضل ہستیوں کو بھی نہیں ملی تھی اور بڑے بڑے اولیاءوصالحین ایسے گزرے جن کو دنیا نہ دی گئی تھی، اس وجہ سے نہیں کہ وہ لوگ خدا کی نگاہ میں کوئی بڑی اہمیت نہ رکھتے تھے تو خدا نے ان کو دنیا نہیں دی بلکہ اس لئے کہ دنیا خدا کی نگاہ میں کوئی بڑی اہمیت نہ رکھتی تھی اور شاید اس کو ان کے قابل نہ جانا۔

- قرآن میں گہرا اترنا، مجالسِ علم وذکر، صالحین کی صحبت، علم پر محنت، علماءوصلحاءکی سوانح کا مطالعہ.... سب کچھ زہد کے اندر ترقی پانے میں ممد ہوگا۔ مگر اس بات کی اہمیت اس باب میں محض ’ممد‘ ہونے سے بڑھ کر ہے۔ اس سے پہلے، زہد کی حقیقت کا سمجھ آنا ہی دراصل اس پر منحصر ہے کہ حقیقت اور حکمت کے ان سرچشموں تک آدمی کی خوب رسائی ہو۔

- کثرت سے صدقہ خیرات کرنا، غریبوں کے ہاں آنا جانا رکھنا ، یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا، بیواؤں کے حالات سے باخبر رہنا۔ بے گھروں سے ملتے رہنا، کچی بستیوں سے بکثرت گزرنا اور وہاں لوگوں کو بہت قریب سے دیکھنا، بیماروں کی تیمار داری کرنا، ہسپتالوں میں جانا اور مصیبت زدہ لوگوں کو نہایت غور اور ہمدردی کے ساتھ دیکھنا,, ان سب اصناف کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو وقت گزارنا اور اس سارے عمل کے دوران عبرت کی آنکھ کھلی رکھنا۔

- عن أبی هریرةؓ قال: قال رسول اللہ : انظروا اِلیٰ من أسفل منکم ولا تنظروا اِلیٰ من هو فوقکم فهو أجدر أن لا تزدروا نعمة اللہ

(صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقائق)

روایت ابو ہریرہؓ سے، کہا: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:

”دیکھو اس کی طرف جو تم سے نیچے ہے اور مت دیکھو اس کی طرف جو تم سے اوپر ہے، ایسا کرنے سے نہایت ممکن ہے کہ تم خدا کی نعمت کو کم وقعت نہ جاننے لگو“۔

- کھانا، پینا، سونا ، ہنسنا اور مذاق دل لگی وغیرہ کم کر لینا بھی زہد کے بڑھنے اور عزم الامور کے اختیار کیا جانے میں نہایت مددگار ہوگا، علمائے قلوب کے ہاں اس کی بکثرت تاکید پائی گئی ہے۔

٭٭٭٭٭

 

زہد، جیسا کہ پیچھے ایک حدیث کے ضمن میں ہم دیکھ آئے ہیں، ایک ایسی زبردست چیز ہے کہ اسے پا کر آدمی خدا کے ہاں بھی پسندیدہ ہوتا ہے اور انسانوں کے ہاں بھی۔ یقین رکھو،تم اس راہ کو اپنے لئے اختیار کر لیتے ہو تو یہ دو جہانوں کی سرخروئی ہے....

یہ ایک ایسی عجب دنیا ہے کہ اسے بے وقعت جانو تو تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے! اسے حرص کے ساتھ دیکھو اور اسے فی نفسہ مطلوب جانو تو یہ تمہیں بے وقعت جاننے لگے گی! تمہیں تعظیم دے گی تو وہ جھوٹی تعظیم ہوگی اور وہ تعظیم دراصل تمہاری نہ ہوگی اس کی اپنی ہی کسی چیز کی ہوگی جو تمہارے آس پاس پائی جائے گی خواہ وہ مال ہو یا اقتدار؛ اور تم خوامخواہ ’اپنی‘ اس تعظیم پر خوش فہمی میں مبتلا رہوگے؛ جونہی وہ چیز تمہارے پاس سے نکل کر کسی اور کے پاس چلی جائے گی، تو پھر تم اس کی بلا سے گویا یہاں پائے بھی نہیں جاتے!

دراصل یہ اپنی وقعت خود جانتی ہے لہٰذا جو اِسے وقعت دے سب سے پہلے وہی اِس کی نگاہ میں بے وقعت ہوجاتا ہے، بے شک وہ اِس کی جھوٹی مسکراہٹوں سے کچھ دیر فریب کھاتا رہے۔ ایک ایسی بدصورت دلہن کی طرح جو اپنے لئے پیغام لانے والے کی ’پھوٹی قسمت‘ سے سب سے بڑھ کر واقف ہے مگر اس کے ’انتخاب‘ پر داد دینا اس کی مجبوری ہے!

اگلا جہان، جوکہ ایک حقیقی جہان ہے، البتہ اس سے برعکس ہے۔ اُس کو وقعت نہ دو تو اُس کی نگاہ میں تمہاری کوئی وقعت نہیں۔ کیونکہ اُس کو پانا اُسکی نہیں تمہاری مجبوری ہے۔ وہ تو تمہیں کسی بھی قیمت پر مل جائے تو تمہاری خوش قسمتی ہے!!! بے شک تم آخرت کے بہت سارے کام بھی کیوں نہ کرتے ہو اور اس کو پانے کی اپنی زندگی میں گاہے بگاہے بات بھی کیوں نہ کرلیتے ہو، اگر اُس کو ہر چیز سے بڑھ کر دل میں وقعت نہیں دیتے تو تمہاری کوئی وقعت وہاں ہے ہی نہیں۔ وہاں تعظیم پانا چاہو تو سب سے پہلے اُس کی شرط ہی یہ ہے کہ اُس کو دل میں وہ مقام دو جو اُس کے لائق ہے۔ وہ چاہیے تو پھر اُسی کو دل میں رکھو....

ایک نہایت اونچے گھر کی دوشیزہ جو نہ تو حسن میں اپنا جواب رکھتی ہو اور نہ ثروت میں اور نہ وفا میں اور نہ سچی اداؤں میں، اپنے لئے پیغام لانے والے اس شخص کو کیسے قبول کر لے جو، راستے میں ایک کالی بھکارن پر للچائی ہوئی نظریں ڈالتا آیا ہے اور واپسی میں ویسی ہی کسی ہرجائی کیلئے غزلیں پاس رکھتا ہے؟!!!

ایسے شخص کی تو یہ جسارت، کہ وہ ’رشتہ‘ مانگنے یہاں چلا آیا ہے، معاف ہو جائے تو بڑی بات ہے!!!

جب کبھی خدا کے آگے اس کے دائمی فضل کیلئے ہاتھ پھیلاؤ اور اس کیلئے نماز پڑھنے گھر سے نکلو، یہی بات پیش نظر رکھو!!!

چونکہ آخرت کا جہان ایک حقیقی جہان ہے نہ کہ فریب کا گھر؛ تو جو تعظیم تمہیں وہاں ملے گی وہ حقیقی بھی ہے اور دائمی بھی۔ بس یہ سمجھ لو، وہاں جو چیز تمہاری ہے پھر وہ تمہاری ہی ہے!!!

 

(اس مضمون میں اقوال و آثارِ سلف کے نقولات کے سلسلہ میں

‘’کن من الزاہدین “مؤلفہ امیر بن محمد المدری یکے از مشائخ یمن

پر انحصار کیا گیا ہے)

 


 

(1) البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ذکر کیا کہ: اس حدیث کو مسند احمد کے علاوہ ابویعلیٰ، حاکم، بغوی، قضاعی اور ابن عساکر ایسے محدثین نے بھی دیگر طرق سے موسیٰ بن علی سے روایت کیا ہے۔ دیکھئے شیخ البانی کی تخریج بر: غایة المرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام، حدیث نمبر 454، ص 261۔

(2) البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، دیکھئے صحیح سنن ابن ماجہ ج 2 ص 392، حدیث نمبر 4092

(3) الفوائد، مؤلفہ ابن القیم، ص 95

(4) گو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی عمل کے دائرہ کو نہایت وسیع، جامع، متوازن اور متنوع رکھنے پر محنت نہ کرے، کیونکہ ایک جامع قسم کی عبدیت درجے میں سب سے بلند ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اسی کتاب کی ایک فصل: ’عبدیتِ تام‘۔

(5) دیکھئے: مدارج السالکین، مؤلفہ امام ابن القیم، جلد 1 صفحہ 257، علاوہ ازیں یہی کتاب جلد2 صفحہ 285

(6) الفوائد، مؤلفہ ابن القیم، ص 118

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز