کل جس طرح
آپ نے فیصل آباد کے ایک مرحوم کا یوم وفات "منایا"!
حامد کمال الدین
قارئین کو شاید اندازہ
ہو، کسی کی ولادت یا وفات کے دن کو کسی بھی انداز میں اپنے بولنے لکھنے یا گرمجوشی
دکھانے کا حوالہ میں کبھی نہیں بناتا۔ "پیچھے سے چلے آتے" مسلمانوں کے
دستور کی ہر چھوٹی سے چھوٹی شے مجھے لبھاتی اور نووارد اشیاء کے خلاف مزاحمت طبیعت
کو شاداب کرتی ہے۔ گو اوروں کو اس کی تبلیغ نہیں کرتا۔ اس لیے کہ "وقت"
کے ساتھ الجھنا ایک گھاٹے کا سودا ہے، سوائے "وقت" کے شرک یا بڑی ضلالتوں
کے۔ رد کرنے کی چیزیں اس سے کمتر حیثیت کی ہوں، تو معاملہ لوگوں کے ذوق اور نظر پر
چھوڑ رکھنا، اور جتنی محنت ہو ان کے ذوق اور نظر پر ہی کر لینا، ایک بہتر حکمت
عملی معلوم ہوتی ہے…
تاہم ایک بالکل ہی نئے
ٹرینڈ پر تھوڑا بول دینا اور بات ہے۔ یہ ٹرینڈ بھی اگر "چل" گیا تو
نظرانداز ہونے والی ایک لمبی فہرست میں اس کو بھی ڈال آنا مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہو
گا!
یہ ٹرینڈ جو ہو سکتا ہے
مجھے ہی "نیا" لگا ہو، وہ ہے کسی فوت شدہ مسلمان کا یوم وفات اسے برا
بھلا کہہ کر "منانا"۔
سچ بتاؤں، مجھے اس میں
تھوڑی گراوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اور تھوڑی سخت دلی بھی۔ عربی میں ایک لفظ ہے
"مُرُوءَة"، جو ہے تو خاصا وسیع لیکن "ظرف" کا معنیٰ بھی دیتا
ہے۔ اس کی بھی تھوڑی کمی۔ آپ کے پاس پورا سال پڑا ہے ایک آدمی کے معتقدات کو
رگیدنے اور اس کو کہیں سے کہیں پہنچا آنے کےلیے۔ خاص اس کی موت ہی کو یاد کر کے اس
کی سیئات کا تذکرہ!؟ سفر آخرت پر اس کی روانگی کی "نسبت" سے ہی اس کی
برائیاں گننا اور گنوانا!؟ باعثِ اذیت ہے۔ اور اگر جذبۂ نیکی کے تحت کیا جائے تو
اور بھی باعثِ اوازاری۔ "دین" ایک بہت نفیس چیز ہے دوستو!
کسی کا "سالانہ
یوم وفات" سرے سے میرے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جیسا کہ کہہ چکا۔ لہٰذا اس
سے متفرع مسائل کی بھی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہو گی، سلباً اور نہ ایجاباً۔ سو اس
کو کوئی "شرعی مسئلہ" تو میں نہیں کہہ رہا لیکن ذوق کے باب سے یہ
"أحسِنُوا ذكرَ موتاكم" سے ملحق کوئی شےء ضرور لگتی ہے۔ موت سفرِ آخرت
کا دوسرا نام ہے۔ یعنی فرشتوں کا ایک آدمی کو اس کے رب کے حضور پیش کرنے کےلیے
ہمارے بیچ سے لے جانا۔ اس بات کی اپنی ایک ہیبت ہے۔ یہ موقع اس شخص کے متعلق زیادہ
زبان کھولنے کا ہے ہی نہیں۔ گویا نبیﷺ کو پسند ہے کہ اس مسلمان کے دامن میں اگر
سیئات ہیں بھی تو مالک کے آگے پیش ہونے کے "موقع" اور "حوالے"
سے ان کا ذکر نہ ہو۔ حدیث میں مذکور اس حکم کا کچھ تعلق دربار کے
"پروٹوکول" سے بھی محسوس ہوتا ہے۔ "دربار" کے وقت سب کی زبان
پر رحمت اور اس کے موجبات ہی کا تذکرہ جچتا ہے۔ "پکڑ" کی بات یہاں زبان
پر نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔ کوئی روسیاہ ہے، اور رحمت کے موجبات آپ کو اس کے حق میں
کالمعدوم دِکھتے ہیں – گو دعویٰ یہ ایک بڑا ہے – تو بھی غضب کے موجبات سے لب دور
ہی رہیں۔ بات اس شخص ہی کی نہیں، دربار کی شان کی بھی ہے۔
جہمیہ وغیرہ ایسے کچھ بڑے ائمۂ بدعت کی موت پر سلف کا اظہارِ
خوشی اور اس کا تذکرۂ بد کرنا بھی بےشک ریکارڈ پر ہے، لیکن یہ ایک انتہائی
انتہائی استثنائی حالت باور کی گئی۔ اور یہ بھی درست اس وقت ہو گا جب وقت کے
سربرآوردہ علماء و اَعلامِ سنت ہی اس شخص کی بابت ایسا سخت رویہ اختیار کریں کہ اس
کی موت پر بھی اس کےلیے سرعام برے الفاظ ہی بولے اور بلوائے جائیں۔ نیز جب ظنِ
غالب یہ ہو کہ ایسا کرنے سے ماحول پر سنت کی ایک ہیبت قائم ہو گی اور بدعت مٹانے
کی ایک دھاک بیٹھے گی؛ یعنی عام عوام خوب اس سے ایک سبق لیں گے۔ ورنہ حق یہی ہے کہ
ایک برے سے برے مسلمان کےلیے بھی اس جہان سے جانے پر دعائے رحمت ہی ہو۔
*****
ایک اور بات جو تفصیل
سے تو کسی اور موقع پر ہی بیان ہو گی۔ دین کے ہندی پنسار سے ہمیں ایک گولی دی جا
رہی ہے جو ہمیں کسی صورت نہیں لینی۔ آپ کو معلوم ہے، دین کا سب سے بڑا مسئلہ توحید
ہے اور سب سے زیادہ "شدید ردعمل" دکھانے کی بات رب العزت کے ساتھ شرک۔
لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں، شرک کے باب میں بھی بہت سارے مسائل میں
"اصولِ اہل سنت" کی رُو سے لوگوں کو تاویل وغیرہ کا فائدہ دے لیا جاتا
ہے اور حکم (معیَّن) لگانے کےلیے اس بات کو از حد یقینی بنایا جاتا ہے کہ آدمی کو
اس بات میں کوئی الجھن اور غلط فہمی نہیں رہ گئی ہوئی تھی کہ وہ رسولؐ کے ساتھ صاف
ایک محاذآرائی تک چلا گیا ہوا ہے۔ یعنی تحقیق میں غلطی لگ جانے، اور بحثابحثی میں
آدمی کے کچھ افراط کر جانے پر – شرک سے متعلقہ کئی مسائل میں بھی – آدمی کو ایک عذر دے دیا جاتا ہے۔ اب صحابہ رضی
اللہ عنہم میں سے کسی کے متعلق آدمی کا ظلم اور زیادتی کر بیٹھنا بہت بڑا جرم ہو
گا، مگر شرک سے اوپر نہیں ہے۔ وہاں اگر تاویل، جہل، تقلید (کسی لکیر کی فقیری) وغیرہ کی بنیاد پر
"حکمِ معیّن" کے وقت ہتھ ہولا رکھ لیا جانا اصولِ اہل سنت کا اِعمال ہے
تو یہاں کیوں نہیں؟ ہمارا برصغیر کا ماحول چونکہ اپنا بیانیہ اِن اصولِ سنت کے
اِعمال پر نہیں رکھتا (الا ما شاء اللہ)، لہٰذا غلطی یا انحراف میں پڑ جانے والے
طبقوں پر سنت کے ان ضابطوں کو لاگو کرنے کا بھی اِس کے ہاں کچھ خاص دستور نہیں ہے۔
غلط فہمی میں نہ رہیے، شرک وغیرہ سے متعلق بہت سارے مسائل میں اپنا برصغیر کا
بیانیہ اگر ‘شدید نرم’ بلکہ ‘مہربان’ ہے تو اس کی بنیاد "عذر دینے" سے
متعلق اہل سنت کے علمی ضابطے نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ اغلب طور پر یہ کہ اس کے
یہاں وہ کوئی "مسئلے" ہی نہیں ہیں! ہاں جو مسئلے ہیں، ان کا حکم (معیّن)
لگاتے وقت تقریباً وہی سختی جو خوارج اور معتزلہ کے ہاں ملتی ہے (الا ما شاء
اللہ)۔ البتہ وہ توازن جو حکمِ مطلق کو تو شدید سنگین رکھنے جبکہ حکمِ معیّن میں
عذر دینے کی حد کر دینے کے حوالہ سے اہل سنت –
اور بالتحدید مدرسہ ابن تیمیہؒ کے ہاں –
پایا جاتا ہے، اس کو یہاں عام کرنا تاحال ایک محنت چاہتا ہے۔
کس قدر حیرت ہوئی
مجھے، کسی نے اگر بخشش کی دعاء "مشروط" طور پر بھی کر دی تھی (گو اپنی
جگہ وہ بھی ایک عجیب شے ہے کہ ‘اگر اس نے مرنے سے پہلے توبہ کر لی تھی تو اے اللہ
اس کی بخشش کر دے’!) تو یہ "مشروط استغفار" بھی جو اپنا ڈس کلیمر disclaimer ساتھ رکھتا تھا، زور دے دے کر اس سے
"ڈیلیٹ" کروایا جا رہا تھا! فوجداری کی حد ہی تو ہے!