’دوحہ‘ اہل اسلام کی ’جنیوا‘ سے بڑی جیت، ان شاء اللہ
حامد کمال
الدین
ہمیں ’’زیادہ خوش نہ ہونے‘‘ کا مشورہ دینے والے احباب اس کی
وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ سوویت یونین کی بار ایک پورے نظریے کو شکست ہوئی تھی، نیز
ایک پورا بلاک ڈھ گیا تھا، جبکہ یونائٹڈ سٹیٹس کی بار ایسا نہیں ہوا۔
جبکہ ہمارا خیال، جو کامیابی ناٹو کے مقابلے پر افغانستان
میں اللہ نے مسلمانوں کو دکھائی، وہ سوویت یونین والے واقعے سے بڑھ کر خوش ہونے کی
ہے۔ کل کیا ہوتا ہے اس کی خبر اللہ کو ہے لیکن سر دست ایسا ہی ہے۔ اس کی کچھ
وجوہات میں عرض کرتا ہوں:
ایک مقدمہ کے طور پر... دورِ حاضر میں روس اور امریکہ کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ
دورِ اول میں فارس اور روم کے ساتھ ایک گونا مماثلت رکھتا ہے، جس کی بابت رسول
اللہﷺ سے مروی ہوا:
فَارِسُ
نَطْحَةٌ أَوْ نَطْحَتَانِ ثُمَّ لَا فَارِسَ بَعْدَهَا أَبَدًا وَالرُّومُ ذَاتُ
الْقُرُونِ أَصْحَابُ بَحْرٍ وَصَخْرٍ كُلَّمَا ذَهَبَ قَرْنٌ خَلَفَ قَرْنٌ
مَكَانَهُ , هَيْهَاتَ إِلَى آخَرِ الدَّهْرِ هُمْ أَصْحَابُكُمْ مَا كَانَ فِي
الْعَيْشِ خَيْرٌ
’’فارس (تمہاری) ایک ٹکر ہو گی یا
دو۔ پھر کبھی کوئی فارس نہ ہو گا۔ البتہ روم بڑے سینگوں والا ہو گا، یہ بحر و کوہ
کے مالک، جیسے ہی ان کا کوئی سینگ جائے گا اس کی جگہ کوئی اور سینگ لے لے گا۔ ابھی
بڑا دُور پڑا ہے۔ آخری زمانے تک۔ وہ تمہارے حریف ہیں جب تک زندگی میں خیر ہے‘‘۔
سوویت اور امریکہ کا فارس اور روم سے عین وہ
موازنہ، نہ صرف واقعاتی لحاظ سے بلکہ بلحاطِ اہمیت بھی۔ ابن تیمیہؓ نے خلیفۂ اول
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے: لَكَفْرٌ
مِن كُفُورِ الشام أحَبُّ إلَيَّ مِن مدينةٍ بالعراق
’’شام کے دیہات میں سے ایک دیہہ فتح کرنا
مجھے عراق میں پورا ایک شہر فتح کر لینے سے زیادہ عزیز ہے‘‘۔
چنانچہ اصل وجہ تو یہی ہے: ایک جنگ (سوویت کے ساتھ) جس کی کل عمر ستر
سال ہو، اس کا دس بارہ سال میں سرے لگ جانا کیا بڑی بات۔ وہ تو سمجھیے بیچ کا ایک
مرحلہ تھا۔ البتہ ملتِ صلیب کے ساتھ ہماری جنگ چودہ سو سال سے چلی آتی ہے۔ اس میں
پیش قدمی انچوں کے حساب سے گنی جائے گی۔ اور ایک انچ آگے بڑھ لینا ان شاء اللہ اس
میں بڑی بات ہو گی۔
بہت سے لوگ اصل میں سمجھ نہیں رہے اس معرکہ کی سنگینی جو
ہمیں پچھلے دو عشروں سے درپیش ہے۔ زمین کے توازن کی اصل جنگ یہ ہے؛ جب زمین آخری
حد تک بےتوازن ہو چکی تھی۔ ایسا دور تو روئےزمین پر شاید ہی کبھی آیا ہو۔ اور ایسا
اندھیرا تو، جو اس وقت ہے، زمین پر شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ یوں سمجھو مسلمان کا اصل
اٹھنا وہ ہے جو پچھلے دو عشروں سے ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے تو ایک ’’پارٹنرشپ‘‘ تھی کسی ’’درمیانی مرحلے‘‘ سے
گزرنے کےلیے۔ اُس جنگ میں ہم کوئی اکیلے تھوڑی جیتے تھے! لہٰذا پورا ایک بلاک ڈھ گیا اور کسی نظریہ نامی
چیز کی موت ہو گئی تو بھی اس قدر تعجب کی بات نہیں۔ ہاں یہ بےسروسامانی جو ہمیں اس
بار لاحق تھی، جرأت، ہمت اورخدا پر توکل کی سطح جو اس بار ہمیں درپیش تھی، یہ تو
بخدا ہم نے بچشمِ سر نہ دیکھا ہوتا تو یقین کرنا مشکل تھا! کل کیا
ہوتا ہے ہمیں کیا معلوم، لیکن پچھلے دو عشروں سے مسلمان جس بڑی آزمائش میں ہے، اور
ہزار ہا نقصان کے باوجود اس سے الحمد للہ جس کامیابی کے ساتھ اپنا راستہ بناتا آ
رہا ہے، یہاں تک کہ ایک طرف وسطِ ایشیا تا دیبل ایک مضبوط مسلم سنی بلاک کے خدوخال
روز بروز نمایاں ہونے لگے جو (ان شاء اللہ ظلم کی ایمپائر ’’بھارت‘‘
کی چولیں ہلا دینے والا ہے)... تو دوسری طرف بحر ابیض تا بحر احمر ’’عثمانیوں‘‘ کی چاپ
سنائی دینے لگی، یہ صرف دو عشروں کی پیش رفت ہے۔ ورنہ سن دو ہزار ایک، آپ کو دُور
دُور تک اندھیرا ہی دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کہا گیا کہ زمین پر اتنا اندھیرا کر
دینے میں خود مسلمان کا کردار ہے جو اپنی کسی نادانی سے سوویت جہاد میں صلیب کے نیزے میں فِٹ کسی انّی کا کردار ادا کر
بیٹھا تھا! لیکن خدائی تقدیر نے اب جا کر پردہ فاش کیا کہ یہ ’’مسلمان‘‘ کس قدر
آگے کے اہداف سر کرانے کےلیے رکھا گیا تھا اور اِس کا وہ ’’سوویت مرحلہ‘‘ کس بڑے
مرحلے کی تیاری تھا۔ البتہ چیلنج اب تھا۔ اتنے مشکل عہد اور اس قدر دشوار گزار
گھاٹیوں میں تو آپ کا ایک ایک قدم پیش رفت ہے۔ البتہ یہ اتنی بڑی پیش رفت جو اس
سال کے بالکل شروع میں ہوئی، اِدھر ’’جنوب ایشیائی‘‘ فرنٹ پر بھی اور اُدھر ’’مشرقِ
وسطیٰ‘‘ کی طرف بھی، سجدۂ شکر کا مقام ہے۔
راستے کی دشوار گزاری ابھی پوری طرح باقی ہے، یا شاید پہلے
سے بڑھ گئی ہے، ہمیں مکمل ادراک ہے، سوشل میڈیا کے تماش بین خاطر جمع رکھیں۔ آئندہ
مراحل میں افغانستان تا شام ہمارے صبر، استقامت اور ہوشمندی کا پہلے سے بڑھ کر
امتحان ہے، اور کسی ادنیٰ غلطی سے ہم پہلے سے بھی زیادہ پیچھے دھکیلے جا سکتے ہیں،
اس کا ہمیں پوری طرح اندازہ ہے۔ اگلے مراحل کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، بالکل سچ
ہے۔ دوحہ معاہدہ کو ہم نے مسلمان کے حق میں ایک بڑی جیت قرار دیا ہے، تو اس کا یہ
مطلب بہرحال نہیں کہ یہ جنگ ختم ہو چکی اور بس فتح کے شادیانے بجانا باقی ہے!
نہیں، اس جنگ کا صرف ایک مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے ہوا ہے۔ یا یوں کہیے، ایک ’’معرکہ‘‘
سر ہوا، ’’جنگ‘‘ البتہ جاری ہے۔ اس میں بہت سے ششدر کر دینے والے موڑ آنا کم از کم
ہمیں حیران نہیں کرنے والا۔ ہم خوش ہیں تو اس پر، کہ بےتحاشا قربانیوں کے بعد
مسلمان آج دو ہزار ایک والے مقام سے بہت آگے ہے، اور جو کہ ملتِ صلیب کو اچھا خاصا
پسپا کر دینے کے بعد ہوا ہے۔
آج سے ڈیڑھ عشرہ پیشتر ہماری ایک کتاب آئی تھی: ’’رو بہ
زوال امیریکن ایمپائر، عالم اسلام پر حالیہ صلیبی یورش کے پس منظر میں‘‘۔ اس کی
بعض فصول پڑھ لینے سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا، ملتِ صلیب کے ساتھ اپنی اس حالیہ
کشمکش کو ہمیں کن زاویوں سے دیکھنا ہے اور یہ کہ ماضی اور مستقبل میں اس کی جہتیں
کتنی دور دور تک جاتی ہیں۔ لہٰذا اس دشمن کے مقابلے پر ایک انچ آگے بڑھ لینا ہمیں
سوویت یونین کے مقابلے پر کئی میل پیش قدمی کر لینے سے عزیز تر رہے گا۔ پچھلے چودہ
سو سال سے، روئے زمین کی سب سے سچی اور سب سے فیصلہ کن جنگ یہی ہے۔