سنگم
عبداللہ منصور
کوٹ مٹھن سے ذرا پرے پانچ دریاؤں کا سنگم ،پنج ند واقع ہے۔ وادیوں، گلزاروں، میدانوں اور کھلیانوں سے گزرتے ہوئے یہ دریا یہاں آملتے ہیں۔ ہر ایک کا رنگ جدا اور ہر ایک کا ذائقہ مختلف ہے۔ یہاں پہنچ کر سب یکجا ہوجاتے ہیں۔اس دیس میں دینی، تحریکی اور جہادی دریاؤں کا پنج نداگر کوئی کہلانے کے لائق رہا ہے تو وہ بلا شبہ قاضی حسین احمد تھے۔ محض سماجی طور پرہی قاضی صاحب کو یہ حیثیت حاصل نہ تھی بلکہ خود ان کی اپنی ذات اہلِ سنت کے دو بڑے دھاروں کا سنگم تھی۔ اس مجمع البحرین میں ایک جانب مولانا حسین احمد مدنی کی جانشینی تھی تو دوسری جانب سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وراثت۔ ایک طرف شرعی علوم کی وراثت سے لے کر استعمار کے سامنے ڈٹ جانے کی تاریخ تھی تو دوسری جانب مغرب کے علمِ کلام پر ضربتِ کاری اور مسئلۂ حاکمیت کا عوامی زبان میں بیان۔امّت کے ان دو میٹھے چشموں کا ملاپ ان کی ذات تھی۔یہ شرف انہیں محض اپنی ذات کےحوالےسے ہی حاصل نہ تھا بلکہ قاضی صاحب وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے حقیقت کی دنیا میں ان دونوں کو لا ملایا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دوری کو دور کرنے میں ان کی خدمات کا صلہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔اللہ انہیں اس کی بہترین جزا دے۔
امّتِ مسلمہ کی فکر، اس کے سینے پر چڑھے مغربی اور اشتراکی استعمار کے دیوکو اتارنے اور اس کی صفوں میں وحدت لانے کا قاضی صاحب جیسا جذبہ کم ہی لوگوں میں دیکھا ہے۔ان کے وحدت لانے کے طریقے سے اختلاف توممکن ہے لیکن اتحاد کایہ مجنونانہ انداز ایک طرح کی ادائے محبوبیت بھی لیے ہوئے ہے۔ہم تو ان کے متعلق یہی گمان کرتے ہیں۔مجھے نہیں یاد کہ کوئی ایک بھی جمعہ اور کوئی ایک بھی فرض نماز ایسی ہو جس کی امامت قاضی صاحب نے کی ہو اور اس میں 'أَللّٰہُمَّ النْصُرِ الْمُجاہِدِیْنَ فِیْ کُلِّ مَکَان أَللّٰہُمَّ انْصُرْھُمْ نَصْراً عَزِیْزاً' کی دعا نہ مانگی ہو۔ مخصوص لب و لہجے میں ادا کیے گئے ان الفاظ کا یادداشت سے محو ہوجانا شائد ممکن نہیں۔
میرے والد صاحب دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت غلام حبیب صاحب نقشبندی سے بیعت رہے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ حضرت شیخ وجیہ الدین سے سلسلۂ نقشبندیہ مجدّدیہ میں مجاز بھی ہیں۔دوسری جانب میرے نانا مولانا محمد ایّوب جماعتِ اسلامی کے اولین ارکان میں سے تھے۔منصورہ میں ہماری رہائش کے دوران میں اپنے مخصوص عمامے اور کرتے کی وجہ سے والد صاحب وہاں دور ہی سے پہچان لیے جاتے تھے۔اس گیارہ بارہ سالہ دور میں والد صاحب کو متعدد مرتبہ قاضی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔ایک موقع پر قاضی صاحب نے تبلیغی اجتماع کے موقع پر حاجی عبدالوہاب صاحب سے ملاقات کا حال سنایا۔حاجی عبدالوہاب صاحب نے قاضی صاحب کو کہا کہ جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت اللہ کے دین کی دو تلواریں ہیں۔ایک اور موقع پر مجھ سےازراہِ مزاح پوچھنے لگے کہ باپ کے دین پر چلو گے یا نانا کے دین پر۔جہادِ کشمیر کے اوائل کے دِنوں میں فیصل آباد میں جماعتِ اسلامی کے اجتماع میں جب قاضی صاحب نے انفاق فی سبیل اللہ کی اپیل کی تو لوگوں نے دل کھول کر انفاق کیا۔ خواتین نے اپنی چوڑیاں اور مردوں نے اپنی قیمتی گھڑیاں اتار کر دے دیں۔لوگوں نے جیبیں خالی کردیں۔ ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ میرے اتنے بیٹے ہیں میں ان میں سے ایک کو جہادِ کشمیر کے لیے وقف کرتا ہوں۔کسی نے کہا کہ اس کے دو پلاٹ ہیں ان میں سے ایک جہادِ کشمیر کے لیے حاضر ہے تو کسی نے اپنے دو مکانوں میں سے ایک کو اس جہاد کے لیے پیش کردیا۔ اس جلسے کی ایمان افروز روداد جماعت کے ہفت روزہ ایشیامیں شائع ہوئی۔ والد صاحب یہ روداد لے کر اپنے شیخ، حضرت شیخ وجیہ الدین صاحب کے پاس گئے اور انہیں جا کر کہا کہ حضرت یہ ملاحظہ فرمائیں۔اسے دیکھ کر حضرت فرمانے لگے کہ اسے پڑھ کر تو حضراتِ صحابہ کرامؓ کے دور کی یاد تازہ ہوگئ۔حق تو یہ ہے کہ صلحِ کل کے داعی،اس مردِ حق نے اہلِ سنت کے ان دو صالح طبقوں کے مابین بہت سی دیواریں ڈھائی ہیں اور بلاشبہ یہ کام لائقِ صد تحسین ہے۔
قاضی صاحب کی طبیعت میں حلم بہت تھا۔ہماری صحافتی "اخلاقیات" اس کی گواہ ہیں۔صحافت کے نام پر اس دیس میں جو اُدھم مچایا گیا ہےاس نےاپنی لپیٹ میں ہرقدآورکو لیا ہے۔قاضی صاحب بھی مستثنیٰ نہیں رہے۔ سیاسی مخالفین کے بارے میں اسلامی اخلاق تو دور، بنیادی انسانی اخلاقیات تک کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ کارٹون سازی کے نام پر 'قاضی آرہا ہے'؛'قاضی جارہاہے'؛'قاضی نہارہا ہے' جیسی یاوہ گوئی کی جاتی رہی ہے۔ نیچ پن کے ا س حمام میں سیکولر تو سیکولر، نظریۂ پاکستان کے دفاع میں،بزعمِ خود ،گھلنے والےبھی ننگےہیں۔ان قومی سطح کے اخبارات کے صحافتی عملے میں اسپِ اخلاق کے ایسے ایسے شہسوار موجود ہیں جن کی طبع آزمائی سازشی نظریوں، تہمتوں، جھوٹ اور بہتانوں کے میدانوں میں ہوتی ہے۔ کھل کر سوال کرنے کا مطلب جہاں زبان درازی لیا جاتا ہو وہاں قاضی صاحب کا حلم قابلِ داد ہی نہیں بلکہ خاصی حد تک قابلِ تقلید بھی ہے۔
قاضی صاحب کی ان یادوں میں کہیں بھی مبالغہ نہیں ہے۔ جو دیکھا ،جیسا دیکھا بلا کم و کاست بیان کردیا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ لکھنے میں ابھی بہت سے پہلو تشنہ رہ گئے ہیں۔قاضی صاحب کی طبیعت میں ساتھ ملا کر چلنے اور اعتماد کرلینےکی جو حیرت انگیز صفت تھی اس نے جہاں انہیں یہ اعزازات بخشے ہیں وہیں پر انہیں اتحادی سیاست میں اسکے ہاتھوں بہت نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔یہ انکی سادگی کی نہیں بلکہ شائد دِل کے صاف ہونے کی علامت تھی۔کسی نے کہا ہےکہ میرے دوست مجھ پر اور میں اپنے دشمنوں پر غالب رہتا ہوں۔قاضی صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
قاضی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کے روس کے خلاف جہاد اور باطل کے خلاف سرگرمِ عمل اہلِ سنت کے ان دومخلص اور نیک گروہوں کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے کے یہ دو کارنامے ،دراصل ،امّت کی فتح کے راستےکے دو بڑے سنگِ میل ہیں۔ امّت کو یہاں سے گزارنے میں ان کی ان کوششوں کا ثمر تو اللہ ہی کی ذات انہیں دے سکتی ہے تاہم اس کا اندازہ منزل پر ہی پہنچ کر ہوسکتا ہے کہ یہ دو کیسے کوہِ گراں تھے جنہیں امّت کو اس مردِ مجاہد نے سر کروایا تھا۔
جامع مسجد منصورہ کے منبر پر ،دین اور سیاست کے فرق کو ردّ کرتے ہوئے ،محترم قاضی صاحب کے خاص فارسی لب و لہجے میں پڑھے جانے والےاشعار کی بازگشت اب بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ان اشعار کو پڑھتے ہوئے ان کا آہنگ بلند ہوجاتا تھا اور جذبے کی ایک کیفیت کے ساتھ انہیں پڑھا کرتے تھے۔ ان کا یہ جذبہ سننے والوں کے دلوں میں ایک سماں سا باندھ دیا کرتا تھا۔ یہ باتیں یادکرکے دل کی کیفیت پھر سے اسی طرف لوٹ رہی ہے۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما زنامِ مصطفیٰ است
درشبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید