شرک کے تہواروں پر مبارکباد دینے والے حضرات کے دلائل، ایک
مختصر جائزہ
تحریر: شیخ
خباب بن مروان الحمد (دورِ
حاضر میں مقبوضہ فلسطین کے علمائے حنابلہ میں ایک بڑا نام)
اردو استفادہ: حامد کمال الدین
لغت سے متعلق:
مبارکباد کےلیے عربی میں لفظ ’’تہنئت‘‘ چلتا ہے۔ جس کا لغوی
مطلب ہے: کسی کےلیے خواہش کا اظہار کرنا کہ اس کا وہ عمل اس کےلیے باعثِ خیر و برکت
ہو۔ اس کےلیے وہ خوش گوار ہو۔
بحث سے متعلق:
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
کچھ عیسائی ہمیں ہماری عیدوں پر مبارکباد دیتے
ہیں تو ہم کیوں اُن کو اُن کی عیدوں پر مبارکباد نہ دیں؟ ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کے
اس فرمان کو کہاں رکھیں گے: ھَلۡ جَزَاءُ الۡإحۡسَانِ إلَّا الۡإحۡسَانُ؟!
اس کے جواب میں انہیں یہ کہا جا سکتا ہے:
عیسائی ہماری عیدوں پر مبارکباد دیں تو بھی ہم ان کی عیدوں پر
مبارکباد دینے کے مجاز نہیں۔ اس لیے کہ ہماری اور اُن کی عیدیں برابر نہیں۔ ہماری
عید مبارکباد کے لائق ہے کیونکہ یہ اللہ
لا شریک کی تعظیم و عبادت ہے۔ جبکہ اُن کی عید غیر اللہ کی تعظیم و عبادت۔ لہٰذا ہر
دو ملت کی عیدوں کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا ہی غلط ہوا۔
ہم اپنے ان بھائیوں سے بس یہی پوچھ لیتے ہیں: کیا ایک زانی
کو اس کے زنا پر مبارکباد دی جا سکتی ہے؟
ظاہر ہے اس کا جواب نہیں میں ہے۔
تو پھر اس عید پر مبارکباد کیسے جائز ہو گی جو ایک ایسے
عقیدے پر قائم ہے جو رحمان کےلیے بیٹا تجویز کرتا ہے اور جس کی بابت قرآن نے
فرمایا:
لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (89) تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ
مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90) أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا(91) وَمَا
يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا (92) سورۃ مریم
سخت گھناؤنی بات جوتم لوگ گھڑ لائے ہو.
قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں۔ اس بات پر
کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا! رحمان کی یہ شان نہیں
ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔
نیز فرمایا:
لَّقَدْ
كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ (73) سورۃ
المائدة
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا
کہ اللہ تین میں کا ایک ہے.
نیز فرمایا:
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ سورۃ
الإخلاص
کہو، وہ اللہ ہے، یکتا۔ اللہ سب سے بےنیاز ہے اور سب اُس کے محتاج۔ نہ اُس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔
پس جب یہ ایک عظیم گناہ ہے کہ اللہ کے ساتھ بیٹا منسوب کیا
جائے، اور جو ایسا کرے وہ کفرِ عظیم کا مرتکب ہوتا ہے، تو میں ایک ایسے اعتقاد پر
قائم تہوار پر اس شخص کو مبارکباد دینے کیسے چلا جاؤں گا، بلکہ وہ ان کے زعم میں
خدا کے بیٹے ہی کا جنم دن ہے (تَعَالَى اللهُ
عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا)۔ یعنی جو
جشن ان کے ایک شرکیہ اعتقاد پر کھڑا ہے اس کی مبارکباد کیسے دے دی جائے جبکہ ہم ان
کے اس شرکیہ اعتقاد پر رضامندی ظاہر کرنے کے مجاز نہیں۔ اس شرکیہ اعتقاد کے باعث
نہ مسلمانوں کی نصاریٰ کے ساتھ دلی محبت ہو سکتی ہے اور نہ نصاریٰ کی مسلمانوں کے
ساتھ۔ ہاں رہن سہن میں خیر سگالی اور چیز ہے۔ محبت اور مودت البتہ ایک قلبی چیز
ہے؛ یہ ان لوگوں کے ساتھ کیسے آپ کے دل میں آ سکتی ہے جو کہیں: إِنَّ
اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ؟
پھر جبکہ نصاریٰ کو یہ مبارکباد دینا صحابہ، تابعین اور بعد
کے فقہاء کی اجماعی روش کے خلاف بھی ہو۔ ہمارے ان بھائیوں میں سے کوئی شخص ایک بھی
صحابی یا تابعی کا قول نہیں دکھا سکتا جس سے نصاریٰ یا دیگر کفار کو ان کی عیدوں
پر مبارکباد کہہ آنے کا جواز ملتا ہو۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
ہم ان کو مبارکباد اس لیے دیتے ہیں کہ اس وقت وہ
طاقت میں ہیں اور ایسا کر کے ہم ان کے شر اور مکر سے اپنے آپ کو محفوظ کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے:
تو پھر تہنئت اور مبارکباد کیا آپ اس شخص کےلیے کرتے ہیں جس
کی بابت آپ کا گمان ہے کہ وہ آپ کے خلاف شر اور مکر کرنے والا ہے؟!
چلیے یہ فرض بھی کر لیں، تو ہم جانتے ہیں اسلام پر اس سے
پہلے ایسے ادوار گزرے ہیں جب مسلمان اپنی ضعیفی کے بدترین ایام سے دوچار ہوئے۔
مثلاً جب تاتاری عالم اسلام پر چڑھ آئے تھے اور سن 656ھ میں دارالخلافت بغداد تک
پر قابض ہو گئے تھے۔یا مثلاً بلاد الشام میں فاطمی (عبیدی) دولت کے غلبہ و اقتدار
کے دوران مسلمانوں پر گزرنے والے ایامِ ضعیفی یا صلیبی افواج کے مسلمانوں کے ان
بہت سے خطوں پر قابض ہونے کے ادوار۔ نیز اندلس میں مسلمانوں کو پیش آنے والے ضعف اور
طوائف الملوکی کے ادوار۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایسے کسی فتویٰ نے کبھی مسلمانوں
کے یہاں ظہور نہیں کیا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
زمانہ بدلنے کے ساتھ فتویٰ بدل جاتا ہے۔ لہٰذا
ہمیں اس ’معاصر اجتہاد‘ کی طرف جانا چاہئے جو دورِ حاضر کے بہت سے علماء آج جا کر
کرنے لگے ہیں اور ان نئے احوال کے مطابق ایک نیا فتویٰ دینے لگے ہیں۔
اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے:
دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں وہ کونسی چیز بدلی ہے جس
کےلیے فتویٰ بدل جانا ضروری ہو گیا ہے؟ اس پہلو سے موجودہ زمانہ پہلے زمانوں جیسا
ہی تو ہے۔ حالتِ ضعیفی مسلمانوں پر کوئی پہلی بار نہیں آئی۔ زمانے کی نظر میں نا
چیز ہو جانا کوئی پہلی بار ہم پر واقع نہیں ہوا۔ نصاریٰ اس سے پہلے بھی بہت سے
خطوں میں ہم پر غلبہ پا لیتے رہے ہیں۔ آج بھی وہ ویسے ہی ہمارے خلاف جنگیں کر رہے
ہیں اور ہمارے دین کے خلاف نفرتیں اچھال رہے ہیں جیسے پہلے زمانوں میں تھے۔
چنانچہ دورِ حاضر کے اِس شاذ فتویٰ کے حاملین جو بھی دلائل
دے رہے ہیں وہ اپنے محل پر نہیں۔ اب مثلاً کسی کا اس بات سے استدلال کرنا کہ رسول
اللہﷺ ایک یہودی کی عیادت کرنے کےلیے تشریف لے گئے اور اس کو
اسلام کی دعوت دی جس پر وہ مسلمان ہو گیا، اس سے کرسمس پر مبارکباد دینا ثابت ہو
گیا! حالانکہ اس سے اگر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو وہ یہ کہ رسول اللہﷺ لوگوں کو اسلام کی
دعوت دینے پر اس قدر حریص تھے کہ ایک غیر مسلم بیمار کی عیادت کو جا پہنچے اور اسے
اسلام قبول کروانے میں کامیابی پائی۔ ان دونوں باتوں میں ایک واضح فرق موجود ہے۔
علاوہ ازیں، دورِ حاضر کے اِس شاذ فتویٰ کے قائلین کا اس
آیت سے استدلال کرنا:
لَّا
يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ
يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ
يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ سورۃ
الممتحنۃ۔
اللہ تمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان
لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ
نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو
پسند کرتا ہے۔
آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت کر کے
آئیں یا ان کو مبارکباد دیں۔ بلکہ آیت میں یہ بات آئی ہے کہ ہم ان کے ساتھ انصاف
اور نیکی کا سلوک کریں۔ مثلاً ان کے بیمار کی عیادت کر آنا۔ ان کا کوئی فوت ہو جائے
تو اس پر تعزیت کر آنا۔ سلام کا جواب دینا۔ شادی بیاہ، امتحان میں پاس ہونے پر مبارکباد دینا، وغیرہ۔ رہ گیا ان کے ایک
مذہبی عمل پر مبارکباد دینا، جوکہ اللہ کے ساتھ شرک اور کفر پر قائم ہے، نیز جس
میں شرابیں چلتی ہیں، تو وہ اس ’’حسنِ سلوک‘‘ میں نہیں آتی جو اس آیت کی تعلیم ہے۔
مبارکباد لغت کے اعتبار سے محض ’’حسن سلوک‘‘ نہیں بلکہ اس میں محبت اور مودت کا
اظہار بھی آتا ہے۔ جبکہ محبت اور مودت ان دو ملتوں کے مابین ختم کروا دی گئئ ہے،
اس لیے کہ اُس ملت نے اللہ کے ساتھ کفر کی روش رکھی ہوئی ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
اسلام نے جب ایک نصرانی عورت سے بیاہ کی اجازت دے
دی ہے تو وہ اس کی عید پر اس کو مبارکباد دینا حرام کیسے ٹھہرا سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ:
تمہارے اس اعتراض پر ہی ایک اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اسلام نے
نصرانی عورت سے بیاہ کو تو جائز کیا ہے لیکن اس مسلمان کے فوت ہونے پر وہ عورت اِس
کے ترکے میں وارث نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ دین کا اختلاف ایک دوسرے کا وارث بننے
میں مانع ہو چکا ہے۔
اسلام نے اُس سے شادی کو جائز کیا ہے تو بھی یہ جائز نہیں
کیا کہ یہ شادی اُس (نصرانی عورت) کے مذہبی طریقوں سے انجام پائے۔
اسلام نے نصرانی عورت سے شادی کو جائز کیا ہے لیکن اِس
مسلمان شوہر کو یہ حق پھر بھی ہے کہ یہ اُس عورت کو شراب پینے یا سوؤر کھانے سے
منع کرے، جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے۔
(غرض شادی کے جواز سے دیگر بہت سی اشیاء کا جواز خودبخود
ثابت نہیں ہو جاتا)۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
ارے ہر چیز میں شدت پسندی؟ خالی مبارکباد بھی
حرام؟
اس کے جواب میں کہا جائے گا:
’’خالی مبارکباد‘‘ کو ہم نے بالکل حرام نہیں کہا۔ تمہارے ایک
عیسائی پڑوسی یا کولیگ کے ہاں ایک عام خوشی ہے، جیسے شادی، بچے کی پیدائش، ملازمت
میں پروموشن، اس کو کوئی انعام ملا ہے، تو بڑی خوشی سے ان مواقع پر اس کو مبارکباد
دو۔ بیمار ہو گیا ہے، جاؤ اس کی عیادت کرو۔ اس کا کوئی فوت ہو گیا ہے اس کا افسوس
کر کے آؤ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو۔ تحفہ تحائف دو تاکہ اُس کی تالیفِ قلب ہو۔ ہاں
البتہ جب مسئلہ اس کے شعائرِ دین سے متعلق ہو، جن میں اُس کی عید بھی آتی ہے، تو
وہاں البتہ معاملہ مختلف ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
مسئلہ شرمندگی سے بچنے کا ہے۔ ملازمت میں آدمی کے
ساتھ ایک عیسائی کولیگ ہو، کوئی عیسائی ڈائریکٹر ہو، تو وہاں آدمی کیا کرے؟
ان سے کہا جائے گا:
خدا کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا
اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن
16)۔ مقصد یہ کہ اپنے بس کی حد تک پابندی ہی کرو۔ ویسے یہاں اپنے دین کی عزت و بالاتری
ظاہر کرنے کا ایک موقع بھی ہے۔ اصل یہ ہے کہ تم اپنے دین پر عزت اور فخر کے اِس
موقع کا پورا استعمال کرو۔ اپنے عیسائی پڑوسی یا کولیگ کے ساتھ اتنا دوٹوک رویہ
رکھو کہ بھئی یہ عقائد کا مسئلہ ہے، جس میں کوئی لاگ لپیٹ نہیں۔ عقائد کے معاملہ
میں ہم صرف اپنے رب کو راضی کرنے کے روادار ہیں اور اس میں لوگوں کی خوشی ہمارا
مطلوب و مقصود نہیں رہتی۔ ان کو بھی مسلمان کے اس اصولی رویے کا ادراک ہونا چاہئے۔
خود انہی کا آرتھوڈکس چرچ ان کے کیتھولک چرچ کو مبارکباد نہیں دیتا۔ اس لیے کہ
دونوں ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور ہر دو ایک دوسرے کی بابت یہ اعتقاد رکھتے
ہیں کہ وہ دینِ مسیحؑ پر نہیں ہے۔
غیر مسلموں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے اس اصولی رویے کو
سمجھیں۔ اگر ان کو یہ بات سمجھا دی جائے تو وہ بھی یہ جان لیں گے کہ ایک ایسے موقع
پر ہمارا ان کو مبارکباد سے رکا رہنا (جبکہ ہم ویسے ان کی ہر خوشی غمی میں شریک
ہوں) خاص عقائدی اختلاف کی وجہ سے ہے۔ اب ذرا یہی بات دیکھ لیجئے کہ جس وقت
کیتھولک کلیسا (ویٹی کن) کا پوپ مصر آیا تھا تو مصر کے (قبطی) کلیسا کا پوپ شنودہ
نے اس کا استقبال نہیں کیا۔ سب پر یہ واضح تھا کہ اس کا اپنے ملک آئے کیتھولک پوپ
کا استقبال کرنے سے عمداً رکے رہنا ان کے عقائدی اختلاف کی وجہ سے ہے۔ (غرض یہ
مسئلہ اُن کو سمجھ آ تو سکتا ہے اگر ہمیں سمجھ آ جائے!)
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
حنابلہ سے بھی بعض ایسی نقولات ملتی تو ہیں جن سے
کفار کو تہنئت دینے کا جواز نکلتا ہے۔
ان سے کہا جائے گا:
یہ درست نہیں۔ کیونکہ مذہب میں معتمد قول اس بات کی تحریم
ہی ہے۔ مزید برآں، ان میں اگر کوئی اختلاف بھی ہے تو وہ عمومی تہنئت سے متعلق ہے
نہ کہ ان کے تہواروں سے متعلق، جو کہ ان (اہل کفر) کے شعائر کا ایک مظہر ہیں۔ لہٰذا
حنابلہ کا وہ اختلاف اس سلسلہ میں پھر بھی غیر متعلق ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
یہ رہن سہن میں خیر سگالی قسم کی چیز ہے، اس میں
کیا مسئلہ ہے؟
ان سے کہا جائے گا:
مسئلہ عام رہن سہن کا واقعتاً نہیں۔ بات ہو رہی ہے ان کے
شعائرِ دین میں سے ایک شعار پر مبارک سلامت کہنا، جو کہ ان کے ایک مذہبی شعار پر
رضامندی ظاہر کرنے کا مظہر ہے۔ یہ کہنا بےمحل ہے کہ ایک چیز پر مبارک سلامت کہنا
اس پر رضامندی ظاہر کرنا نہیں۔ نصرانی تمہارے اس مبارک سلامت کہنے سے یہی سمجھتا
ہے کہ تم اس پر اپنی رضامندی ظاہر کر رہے ہو، اسی لیے اُسے مبارکباد دینے پہنچے
ہو۔ رہ گیا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ان کو مبارکباد دینا سرے سے ہمارا مقصد نہیں
ہوتا بلکہ ہماری مراد ہوتی ہے کہ اللہ (عام زندگی میں) تمہیں بھلائی کی توفیق دے۔
تو ہم کہیں گے یہ بہت اچھی دعاء ہے کہ اللہ انہیں بھلائی کی توفیق دے۔ مگر یہ چیز
’میری کرسمس‘ تو نہ رہی۔ جبکہ ہماری بحث تو اس سے متعلق ہے!
فقہاء کی بعض نقولات:
علامہ منصور البہوتی کتاب ’’الاقناع‘‘ پر تعلیق میں لکھتے
ہیں:
(ويحرم تهنئتهم); لأنه تعظيم لهم أشبه
السلام.
كشف القناع عن متن الإقناع للعلامة البهوتي (3/131)
ان کو مبارک دینا حرام ہے، کیونکہ اس میں ان کی ایک تعظیم
ہے جو سلام کے مشابہ ہے۔
امام دمیری (شافعی) فرماتے ہیں:
يُعزّر من وافق الكفار في أعيادهم، ومن يمسك الحية، ومن يدخل النار ، ومن
قال لذمي : يا حاج ، ومَـنْ هَـنّـأه بِـعِـيـدٍ" عن النجم الوهاج في شرح
المنهاج للعلامة الدَّمِيري (9/244) وفي مُغني المُحتاج: ( 4/ 194) : (لا يجوز
تهنئة الكفار في أعيادهم، ويُعزّر فاعله).
ایسے شخص کو تعزیر لگائی جائے گی جو کفار کے ساتھ اُن کی عیدوں میں
موافقت کرے، یا جو (تماشے کے طور پر) سانپ پکڑ کر دکھائے، یا جو آگ میں داخل ہو کر
دکھائے، یا جو ذمی کو ’حاجی صاحب‘ کہہ کر مخاطب کرے، یا جو ذمی کو اُس کی عید پر
مبارکباد دے۔ اور ’’مغنی المحتاج‘‘ میں آتا ہے: کفار کو ان کی عیدوں پر مبارکباد
دینا جائز نہیں، اور ایسا کرنے والے کو تعزیر لگائی جائے گی۔
ابن قیم فرماتے
ہیں:
فصل في
تهنئتهم بزوجة أو ولد أو قدوم غائب أو عافية أو سلامة من مكروه ونحو ذلك , وقد
اختلفت الرواية في ذلك عن أحمد , فأباحها مرة , ومنعها أخرى
.
والكلام فيها كالكلام في التعزية والعيادة , ولا فرق بينهما
.
ولكن
ليحذر الوقوع فيما يقع فيه الجهال من الألفاظ التي تدل على رضاه بدينه , كما يقول
أحدهم : متعك الله بدينك أو نيحك فيه , أو يقول له : أعزك الله أو أكرمك . إلا أن
يقول : أكرمك الله بالإسلام , وأعزك به , ونحو ذلك , فهذا في التهنئة بالأمور
المشتركة .
وأما
التهنئة بشعائر الكفر المختصة به فحرام بالاتفاق , مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم
, فيقول : عيد مبارك عليك , أو تهنأ بهذا العيد , ونحوه , فهذا إن سلم قائله من
الكفر , فهو من المحرمات , وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب , بل ذلك أعظم إثما عند
الله وأشد مقتا من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس وارتكاب الفرج الحرام ونحوه.
وكثير
ممن لا قدر للدين عنده , يقع في ذلك , ولا يدري قبح ما فعل
.
فمن
هنأ عبدا بمعصية أو بدعة أو كفر فقد تعرض لمقت الله وسخطه
.
وقد كان أهل الورع من اهل العلم يتجنبون تهنئة الظلمة بالولايات وتهنئة
الجهال بمنصب القضاء والتدريس والإفتاء تجنبا لمقت الله وسقوطهم من عينه وإن بلي
الرجل بذلك فتعاطاه دفعا لشر يتوقعه منهم فمشى إليهم ولم يقل إلا خيرا ودعا لهم
بالتوفيق والتسديد فلا بأس بذلك. (أحکام أهل الذمة. مؤلفه
ابن القيم. لنک)
فصل: (ذمیوں) کو
مبارکباد دینا شادی پر یا ولادت پر یا کسی بِچھڑے کے لوٹ آنے، یا شفا پانے، یا کسی
مصیببت سے نجات پانے کے موقع پر۔ اس مسئلہ میں امام احمد کا قول روایت ہونے میں
اختلاف ہوا ہے، کہیں اس کا جواز ملتا ہے اور کہیں ممانعت۔ اس کی نوعیت بھی ویسی ہے
جیسی ذمی سے تعزیت یا عیادت کرنے کا مسئلہ، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
تاہم ایسے الفاظ بولنے
سے محتاط رہنا چاہئے جو جاہل لوگ بول بیٹھتے ہیں کہ جن سے کافر کے دین پر رضامندی
کا معنیٰ نکلتا ہو۔ مثلاً یہ کہنا کہ خدا تمہارے دھرم میں تم کو خوش رکھے یا تمہیں اس میں پختگی بخشے۔ یا یہ کہنا
کہ خدا تمہیں طاقت دے یا اعزاز بخشے۔ سوائے یہ کہ بات یوں کی جائے: خدا تمہیں
اسلام کے ساتھ اعزاز بخشے، یا طاقت دے، وغیرہ۔ یہ تو ہوا مبارکباد کا حکم ان امور
میں جو (تمام انسانوں کے مابین) مشترک ہیں۔
رہ گیا مبارکباد دینا ان امور میں کفر کے شعائر سے متعلق ہیں اور جو کہ اسی
(کافر) کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً ان کی عبد پر یا روزے پر ان کو مبارکباد دینا
وغیرہ، تو ایسا آدمی اگر کفر سے بچ گیا ہو تو محرماات کا مرتکب تو ضرور ہوا ہے۔ اس
کی سنگینی ایسی ہی ہے جیسے اُسے صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دے دے۔ بلکہ یہ
اللہ کے نزدیک زیادہ سنگین اور گھناؤنا ہے بہ نسبت اس بات کے کہ اُسے شراب پینے پر
مبارکباد دے یا قتل نفس پر یا ایک حرام شرمگاہ سے بدکاری وغیرہ پر اسے تہنئیت دے۔
پس
جو شخص کسی آدمی کو مبارکباد دے ایک معصیت پر یا ایک بدعت پر یا ایک کفر پر، تو وہ
اپنے آپ کو خدا کے غصے اور ناراضی کی زد میں دیتا ہے۔
اہل
علم میں اہلِ ورع کا تو یہ حال تھا کہ وہ ظالم (حکمرانوں اور افسروں) کو عہدے پانے
پر مبارکباد دینے سے بچتے تھے۔ نیز اگر کسی جاہل کو قضاء یا تدریس یا افتاء کا
منصب مل جاتا تو اسے مبارکباد دینے سے دامن بچاتے مبادا خدا کے غصے کا شکار ہو
جائیں اور خدا کی نگاہ سے گر جائیں۔ آدمی ایسی کسی مصیبت میں پھنس ہی گیا ہو تو
صرف اس صورت میں ایسی کوئی بات بول لے گا جب اسے ان سے کوئی شر پہنچنے کا اندیشہ
ہو۔ تب آدمی (ملاقاقتیوں میں شامل ہو کر) ان کے پاس جا کھڑا ہو لے مگر بولے کوئی
ایسا ہی لفظ جس میں خیر ہو، یا ان کےلیے خیر کی توفیق اور بھلائی پر رہنے کی دعاء
کر دے تو اس میں برائی نہیں۔
ابن قیم کا کلام ختم ہوا۔
شیخ خباب بن
مروان الحمد کی اصل (عربی) تحریر
کا لنک