ایک سیکولر دور میں.. ارضِ فلسطین پر یہود
کا ’مذہبی‘ دعویٰ!
گزشتہ
مضمون میں ارضِ فلسطین کا مالک ہونے سے متعلق یہود کے ’قومی‘ یا ’تاریخی‘ دعویٰ کی
حقیقت بیان کی جا چکی۔ حالیہ مضمون میں ہم اس دعویٰ کے ’مذہبی‘ پہلو پر کچھ روشنی ڈالیں
گے۔ ایک سیکولر دور میں کسی ملک پر دھاوا بولنے کےلیے محض ایک ’مذہبی‘ بنیاد رکھنا
خود اُنہی کے اصولوں کی رُو سے مضحکہ خیز ہے۔ اس کے باوجود اس ’مذہبی‘ دعویٰ کا ایک
جائزہ لے لینے میں حرج نہیں۔
******
عرب
عمومی طور پر اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں، جس کیلئے
اصطلاحی طور پر ’عرب مستعربہ‘ کا لفظ چلتا ہے۔ اسرائیلؑ (یعقوب علیہ السلام کا
لقب) سام کی نسل سے ہیں تو اسماعیل ؑ (عربوں
کے جدِ امجد) بھی سام ہی کی نسل سے ہیں۔ ابراہیمؑ کے حق کی بات ہے یا سامی تخم میں
اگر کوئی خاص فضیلت پائی جاتی ہے تو وہ دونوں جانب برابر ہے۔ فلسطین میں آباد
عربوں کی ایک بڑی تعداد اسماعیلؑ سے ہی منسوب ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور نسبت
سے واقف نہیں۔ مگر یہاں اگر کوئی دوسری اجناس بھی ہیں جو ابراہیمؑ کا تخم نہیں تو
آج وہ ابراہیمؑ کے دین پر ہیں! ابراہیمؑ بہر حال ایک سمت اور ایک راستہ تھا: اِنَّ اِبۡرَاھِیۡمَ کَانَ أُمَّۃً!!!
بعثت
محمدی کے ساتھ ارضِ فلسطین کے اندر، بلکہ دنیا کے ایک بڑے خطے کے اندر، ایک نہایت
عظیم الشان فرق رونما ہوچکا تھا۔ فلسطین کے کنعانی، عیلامی، فلستی وغیرہ وغیرہ سب
کی سب بت پرست اقوام تھیں، جن کے بالمقابل، قبل مسیح ادوار میں، بنی اسرائیل کو
انبیاءکی معیت حاصل رہی تھی، اور اسی وجہ سے نصرت خداوندی کا استحقاق بھی۔ محمد ﷺ کہ رحمۃ للعالمین
تھے، ان کنعانیوں، عیلامیوں، آرامیوں، فلستیوں، فینیقیوں اور موآبیوں سب کے لئے ذریعۂ
ہدایت بن گئے اور یہ سب کی سب اقوام دین توحید کی علمبردار بنیں۔ پورا فلسطین ہمیشہ
کیلئے اب اذانوں کا دیس تھا جہاں سب کے سب بت خانے ان اقوام کے اپنے ہاتھوں توڑ
دیے گئے اور ان سب اقوام کو مسجد اقصیٰ میں قدم سے قدم ملا کر خدائے واحد کی بندگی
کرنا اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سمیت سب کے سب انبیاءکے ساتھ اپنا
رشتہ جوڑ لینا نصیب ہوا۔ دور محمدی، تاریخ کا جدید ترین عہد تھا جس کے حقائق ہی
سراسر اور تھے، جبکہ یہ ظالم اسی بند ذہنی کے اسیر!!!
کس
قدر ترس آتا ہے امریکہ میں جگہ جگہ بائبل کے اسٹڈی سرکلوں میں شرکت کیلئے آئے ہوئے
’خردمندوں‘ پر، جب وہ فلسطین کے حوالے سے ’اسرائیلیوں‘ اور ’کنعانیوں‘ کو آج بھی
اُسی سیاق میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جس سیاق میں کبھی انبیاءکے صحیفوں میں یہ باتیں
بیان ہوئی ہوں گی! دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی، اور یہ جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں! صرف
یہودی نہیں بلکہ آج کے بنیاد پرست عیسائی بھی۔ یہ ابھی تک دنیا کو اسی یہودی آنکھ
سے دیکھنے پر مصر ہیں جب فلسطین کے اندر ’غیر اسرائیلی‘ کا لفظ ’کافر‘ اور ’بت
پرست‘ کا ہی مترادف ہوا کرتا تھا! امریکہ اور یورپ کے یہ سب بھلے مانس تاریخ کے اس
’میوزیم‘ سے حقائق کی دنیا میں نکل آنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ یہ نبوتِ محمد کا
زمانہ ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سہی، باہر کتنا بڑا سورج نکل آیا ہے! فلسطین
تو سارے کا سارا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے اور ابراہیم، یعقوب، یوسف،
موسیٰ، داود اور عیسیٰ علیہم السلام اور محمد ﷺ پر دل و جان سے فدا ہوتا ہے۔
اسی لئے تو خدا نے اقصیٰ والی انبیاءکی تاریخی جائے نماز پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے ان
کے سپرد کر رکھی ہے۔ فلسطین کے نگر نگر، ڈیڑھ ہزار سال سے اذان اور تکبیراتِ
خداوندی ہی کی صدا بلند ہوتی ہے۔ یہاں کا ہر ہر محلہ ہر چند ساعت بعد صفیں باندھ
کر خدائے واحد کو پوجتا اور دن میں پانچ بار ابراہیمؑ کے رب کے سامنے سجدہ ریز
ہوتا ہے۔ انبیاءکی یہاں اب وہ عزت ہوتی ہے کہ دلوں میں بستے ہیں۔ ایک ایک کیلئے
”علیہ السلام“ سے کم کوئی لقب نہیں۔ ہر ہر نبی کیلئے پورے فلسطین کی زبان پر درود
اور تسلیمات! یہاں ’اسرائیلیوں‘ کے سوا اب ’کافر‘ کہاں!!!!؟
کل
کے بت پرست کنعانی آج کے موحد، مومن، فرماں بردار، انبیاءکے پیروکار، مسجد اقصیٰ
کے نمازی، قرآن کے قاری.. اور کل جو انبیاءکے نسبت یافتگان رہے تھے وہ آج انبیاءکے
کافر، مسیحؑ کے منکر، محمد ﷺ کے گستاخ، خدا کے دشمن، متکبر، گھمنڈی، حیلہ باز اور مفسدین فی الارض!
خدا
کہ ”حق“ اور ”عدل“ نام رکھتا ہے، ’ایمان‘ اور ’اعمال‘ کو دیکھے یا ’نسلی تعلق‘
کو؟؟؟!!
حق
یہ ہے کہ یہود دنیا کے اندر نسل پرستی کے بانی ہیں۔ آپ ان کے دعوے دیکھیں، ان کی
ذہنیت کا جائزہ لیں، اور خصوصاً کبھی ان کی تلمود پڑھیں، تو معاذ اللہ یہ خدا کو
بھی اسی نسل پرستی کے مذہب پر سمجھتے ہیں!
ان
کے ہاں ٹیپ کا مصرعہ ہے کہ خدا نے یعقوب علیہ السلام کو سرزمین قدس دے ڈالی تھی۔
مگر ان کی اپنی روایات سے ثابت ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام
خدا سے سرزمین قدس لے کر مصر نقل مکانی کر گئے تھے! وہیں پر فوت ہوئے اور وہیں پر
نسلیں چھوڑیں۔ اس کا یہ جو بھی جواب دیں مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوگا کہ خدا کا یہ
وعدہ کسی خاص وقت اور خاص شروط اور حدود سے مقیّد تھا، اور یہی ہم مسلمانوں کا
موقف ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ خاص قیود اور حدود کے اندر خدا نے مومنینِ بنی
اسرائیل سے قدس کی پاک سرزمین میں تمکین کا وعدہ فرمایا تھا۔ موسیٰ و ہارون علیہما
السلام کے متصل بعد یوشع بن نون کے دور میں اور پھر داود و سلیمان علیہما السلام
کے دور میں اور ان کے مابین اور ان کے بعد کے کچھ جزوی ادوار میں کہ جب انہوں نے
اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا، خدا اپنا یہ عہد پورا کرتا رہا۔ گو یہ خدا کے ساتھ
بار بار عہد شکنی کرتے رہے اور خدا ان کی نصرت سے دستکش ہو کر بار بار ان کو
خبردار کرتا رہا کہ ’نسلی برتری‘ اُس کے دین میں نہیں۔ آخر یہ خدا کے آخری انبیاء (مسیحؑ
و محمدﷺ)
کے ساتھ سیدھا سیدھا کفر کر لینے کے بعد ہمیشہ کیلئے راندۂ درگاہ ٹھہرے۔ تب سے یہ
دنیا میں ذلت اور عبرت کا نشان ہیں نہ کہ کسی خدائی عہد کا ثبوت!
ادوارِ
ماضی میں خدا سے اِن کو کچھ قربت تھی تو وہ اس حقیقت کے دم سے کہ یہ انبیاءکے مومن
جبکہ باشندگانِ فلسطین خدا اور نبیوں کے منکر بت پرست۔مگر خدا کی آیات کو جھٹلانے
اور نبیوں کا خون کرنے کے مجرم ہوکر، اور پھر خصوصا عیسیٰ بن مریمؑ اور پھر خاص
طور پر محمد ﷺ
کے ساتھ کفر کر لینے کے بعد، کونسا خدائی عہد اور کونسا وعدۂ زمین؟! سوائے ایک
عہد کے کہ یہاں دنیا میں ذلت کے جوتے اور آخرت میں عذابِ الیم!!!
جبکہ
وہ جن کے کفر کے مقابلے پر کبھی یہ ایمان اور خدا آشنائی کی برتری رکھتے تھے.. ان
کے مقابلے پر اپنی نسل پرستی اور ’امیوں‘ سے حسد کے سبب، نہ صرف یہ اپنی اس دولتِ
امتیاز سے محروم کر دیے گئے بلکہ وہ ”دولتِ ایمان“ ہی نہایت وافر صورت میں ان
’امیوں‘ کو مل گئی جو زمانے بھر میں اب خدا کے نام کی پاسبانی کرتے ہیں اور خدا کی
توحید اور خدا کی تعظیم اور کبریائی کیلئے ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا کے اندر برسرِ
جہاد ہیں، براعظموں کے بر اعظم بتوں کی پلیدی سے پاک کر دینے کے کامیاب مشن پر ہیں
اور جہان کے اندر نہایت اعلیٰ قدریں قائم کرنے کا امتیاز رکھتے ہیں!!!
وہ
تو خدا ہے، زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور مردہ سے زندہ کو! سارا فضل اسی کے پاس
ہے، اور وہ بے نیاز جس کو چاہے بخشے!!! نبوت محمد کی صورت، زمین پر یہ خیرات بے حد
و حساب بانٹی گئی اور زمانوں کے بے نور صدیوں کے لق ودق لمحوں میں روشن اور شاداب
ہوئے! اور تو اور، کیا کوئی یقین کرسکتا ہے ہند کے سومناتوں میں بستے ہوئے ہمارے
مقدر جاگے!!!.. پر اس بدقسمتی پر کیا کہیے، اس بے مثال باران رحمت کا وقت آیاتو
صدیوں کے واقف، کبر کے بھرے دل اس کا کوئی اثر قبول کرنے سے انکار کر گئے اور چٹیل
کے چٹیل رہنے پر ہی مصر ہوئے! یہاں سے زمانہ بالکل ہی ایک نیا موڑ مڑ گیا، پیچھے
رہنے والے ہمیشہ کیلئے پیچھے رہ گئے اور دنیا میں ’نئی حقیقتیں‘ پورے زور اور قوت
سے راج کرنے لگیں!
سورۂ
بقرۃ میں بنی اسرائیل کا قصہ شروع کرنے سے پہلے خدا نے ابلیس کا قصہ سنایا؛ حسد،
تکبر ، خود پسندی، کفر، ہٹ دھرمی اور خدا کے فیصلے پر معترض ہونے کا انجام نہایت
عبرت ناک ہے۔ توبہ کے دروازے تک بند ہوجاتے ہیں! معاذ اللہ، خدا سے ٹھن جائے تو
مخلوق سے بیر کیا بڑی بات ہے! اور اگر ایسے بغض بھرے کو فساد فی الارض کیلئے کسی
وقت ’چھوٹ‘ دے دی جائے تو زمین میں رہنے والوں کو کیا کچھ دیکھنے کیلئے تیار رہنا
چاہیے، سورہ بقرہ تا مائدہ پڑھ لیجئے اور بتائیے اس شر سے خبردار کر دینے کے
معاملہ میں کونسی بات ذکر ہوجانے سے رہ گئی ہے!؟ دنیا ”ہدایت“ کیلئے قرآن نہیں
پڑھتی تو بھی ’بقائے عالم‘ کیلئے مخلص طبقے اس شر سے آگاہ ہونے کے معاملہ میں آخری
آسمانی دستاویز سے کبھی مستغنی نہ ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
ارضِ
مقدس پر یہود کے ’آبائی حق‘ کے ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے، جوکہ اپنی جگہ
بے انتہا اہم ہے، کہ آج دنیا میں جو یہودی پائے جاتے ہیں ان میں ’بنی اسرائیل‘ کے
یہود ایک نہایت چھوٹی اقلیت جانے جاتے ہیں اور قیادت کے منصب پر بھی قریب قریب
کہیں فائز نہیں۔ آج کے یہود کی اکثریت اشکنازی Ashkenazi
کہلاتی ہے جن کے آباءخزر Khazarians ہیں۔ انہی کو ’کوکیشین‘ Caucasians
بھی کہتے ہیں (قوقاز سے نسبت کے باعث)۔
یہ
نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی گوری اقوام ہیں جو کبھی بحیرہ خزر کے مغربی جانب
خطۂ قوقاز میں آباد تھیں اور کوئی دسویں اور گیارھویں صدی عیسوی (چوتھی اور
پانچویں صدی ہجری) میں جاکر داخلِ یہودیت ہوئیں، بعد ازاں یہ ہنگری، پولینڈ اور
ماسکو میں جا کر بیٹھیں، اور پھر رفتہ رفتہ پورے یورپ میں پھیل گئیں اور ہر جگہ
میڈیا، معیشت اور سیاست کے جوڑتوڑ پر اجارہ قائم کر لینے کی حیرت انگیز استعداد
دکھانے لگیں۔ ان کو کوئی ایسی شیطانی قوت حاصل تھی کہ جہاں گئے وہیں پر پتلیاں
نچانے لگے۔ علاوہ ازیں، دنیا کے ملحد ترین مفکر اور فلسفی اِنہی نے پیدا کئے۔
چونکہ یہ اقوام زیادہ تر اور خاصا طویل عرصہ پولینڈ میں رہی تھیں اس لئے کسی وقت Jews
of Poland بول کر بھی یہ سب کی سب اقوام مراد لے لی
جاتی ہیں۔ بہرحال یہودیوں کے اندر نسلی طور پر یہ بالکل ایک نیا عنصر ہے۔ یہودیت
پر آج یہی گوری اقوام حاوی ہیں۔ دنیا کے اندر پائے جانے والے آج کے یہودیوں میں 80
فیصد یہود، اشکنازی (گورے یہودی) ہیں اور یہود کی باقی سب کی سب اجناس ملا کر صرف
20 فیصد۔ باقی دنیا کی طرح بنی یعقوبؑ بھی جوکہ تاریخی طور پر اصل یہود ہیں، انہی
اشکنازی (غیر بنی اسرائیلی) یہودیوں کے محکوم ہیں۔ اکثریت بھی یہود کے اندر آج
انہی کی ہے اور زور اور اقتدار بھی۔ اسرائیلی قیادت ہو یا امریکہ اور یورپ میں
بیٹھی ہوئی یہودی لابیاں ’بنی اسرائیل‘ کا یہودی کہیں خال خال ہی ان کے مابین نظر
آئے گا۔ ”بنی اسرائیل“ آج بھی ذلیل اور بے اختیار ہیں۔
یہاں
سے یہ معاملہ اور بھی دلچسپ ہوجاتا ہے۔ ’گورے یہودیوں‘ (جوکہ آج اِن میں کی اکثریت
ہے، یعنی اشکنازی یہود) کا ابراہیمؑ کے نطفہ سے دور نزدیک کا کوئی تعلق نہیں،
’سامی‘ نسل سے اِن کا کوئی واسطہ نہیں مگر ’سامی‘ نسلیت کی سب ٹھیکیداری اور
’سامیت‘ کے جملہ حقوق یورپ اور امریکہ میں اِنہی کے نام محفوظ ہیں! کوئی اِن یہود
کے خلاف ایک لفظ تو بولے ’سام دشمنی‘ Anti-Semitism کے الزامات کی لٹھ لے کر
یہ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، حتیٰ کہ کسی وقت عدالت کے کٹہروں میں کھڑا کر لیتے
ہیں۔ ہاروڈ ایسی جامعات سے لوگوں کو اس بنا پر خارج کروا دینے کے واقعات ہوئے ہیں۔
کسی کو ان کی حقیقت بیان کرنا ہی ہو تو بہت گھما پھرا کر بات کہنا ہوتی ہے تاکہ Anti-Semitism
کے ’خطرناک‘ دائرے میں نہ آنے پائے!
آج
کے دور کی سب سے بڑی جعلسازی اور نوسر بازی شاید اسی کو کہا جائے گا۔ پولینڈ،
بلغاریا، ہنگری اور آسٹریا سے آئی ہوئی، تل ابیب کے عریاں ساحلوں پر پھرتی نیلی
آنکھوں اور سنہرے بالوں والی بکینی پوش گوریاں ، جو ثقافتی ہی نہیں نسلی لحاظ سے
بھی قطعی اور یقینی طور پر یورپ ہی کا پھیلاؤ ہیں اور یورپ ہی کی تلچھٹ، آج بیت
المقدس پر ابراہیمؑ اور یعقوبؑ کے نسب کا حق مانگ رہی ہیں!!! اور ان کے اس ’آبائی
حق‘ کیلئے، یہاں صدیوں سے آباد، ابراہیم کے طریقے پر اقصیٰ میں خدا کی عبادت کرنے
والوں کو، مسجد خالی کرنے کے نوٹس دیے جارہے ہیں۔ کیونکہ سرزمین مقدس پر
’کنعانیوں‘ کا نہیں ’اولادِ ابراہیمؑ‘ کا حق ہے!!!
جادو
وہ جو سر چڑھ کر بولے! جھوٹ کے کوئی پیر ہوتے ہی نہیں! ان سب محاوروں کا آج ایک ہی
بدل: ’میڈیا کی طاقت‘!!!
اتنا
بڑا جھوٹ کس آرام سے آج ’حقیقت‘ مانا جارہا ہے، بلکہ منوایا جارہا ہے، بلکہ جو نہ
مانے اس کا ’خرد‘ اور ’دانش‘ سے تعلق تک مشکوک ٹھہرتا ہے!!! آخر بو العجبی کی
انتہا نہیں تو کیا ہے: پولینڈ کے گورے، ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی
اولاد!!!؟
جو
اس ’حقیقت‘ کا آج مذاق اڑائے وہ ’سام دشمن‘ اور ’نسل پرست‘!!! امریکہ اور یورپ کی
عدالتیں آخر کس لئے ہیں؟! یہ ہولوکوسٹ کا نشانہ بننے والے ’سامیوں‘ کو اتنا بھی
تحفظ نہ دیں تو دنیا میں ’انصاف‘ اور ’مظلوم کی داد رسی‘ ایسے اصولوں کا تو بھرم
ہی ختم ہوکر رہ جائے!
وائے
ناکامی! امتِ اسلام کے ’خاموش‘ پایا جانے کی، دنیا کس کس طرح قیمت دے رہی ہے! زمین
کے مختلف خطے کیونکر مسلم ضعیفی کا وبال بھگت رہے ہیں! دھرتی کا بوجھ کس قدر بڑھ
گیا ہے! سچائی کس طرح پابجولاں ہے اور حقیقت کس طرح قید کردی گئی ہے! اِس کی اپنی
نسلیں داؤ پر لگ چکیں۔ مسجدیں، عبادت گاہیں دہائی دے رہی ہیں کہ ’مسلمان‘ آج خاموش
ہے اور تماشائے عالم سے آخری حد تک روپوش!
نوٹ: یہ مضمون ہمارے کتابچہ ’’بیت المقدس
ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ‘‘ کی ایک طویل فصل ’’بیت
المقدس مسلم جسد کا اٹوٹ حصہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔