[ب] سورۃ
الأنعام کے وصایا عشر:
سورۃ الانعام کا رکوع 19 پورا ایک مضمون ہے۔ ایک سی تاکیدات
پہلی تین آیات میں تکرار کے ساتھ آرہی ہیں۔ یہ سمجھنا درست نہیں کہ سورۃ الانعام
کے اِس مقام کی مناسبت بس اِتنی ہے کہ اس سے پہلی آیات میں اہل جاہلیت کی حرام
کردہ اشیاء کا ذکر ہوگیا تھا، اس لیے یہاں یہ بتادیا گیا کہ اللہ نے تو بس یہ اور
یہ اشیاء حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس مضمون کی خود اپنی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ اِن
دو اقوالِ سلف سے کرسکتے ہیں جو ابن کثیر عبد اللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ
سے لاتے ہیں:
عَنْ
عَلْقَمَةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: من أراد أن ينظر
إلى وصية رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي عَلَيْهَا
خَاتَمُهُ فَلْيَقْرَأْ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ
رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً- إِلَى قَوْلِهِ-
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
علقمہؒ
سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: جس کسی نے محمدﷺ کی وصیت دیکھنی
ہوجس پر آپﷺ کی باقاعدہ مہر ہو
وہ (سورۃ الأنعام کی) یہ آیات پڑھے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَلِيفَةَ، قَالَ:
سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: فِي الْأَنْعَامِ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ
الْكِتَابِ، ثُمَّ قَرَأَ قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ
الآيات
عبداللہ
بن خلیفہؒ سے روایت ہے: میں نے عبداللہ بن عباس کو فرماتے سنا: سورۃ الانعام میں
کچھ آیات محکمات ہیں جوکہ ام الکتاب ہیں، اس کے بعد انہوں نے یہ آیات پڑھیں۔
اس کے علاوہ ابن کثیر یہ روایت لاتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ نے ان تین آیات پر
صحابہ سے باقاعدہ بیعت لی تھی۔ نیز تفسیر ابن کثیر کی یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو:
قَالَ
عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: {فَاتَّبِعُوهُ
وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ} وَقَوْلُهُ {أَقِيمُوا
الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ} [الشُّورَى:13] ، وَنَحْوُ هَذَا فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: أَمَرَ
اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ بِالْجَمَاعَةِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الِاخْتِلَافِ
وَالْفُرْقَةِ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ
بِالْمِرَاءِ وَالْخُصُومَاتِ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَحْوِ هَذَا. قَالَهُ
مُجَاهِدٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ.
علی بن ابی
طلحہ عبد اللہ بن عباسؓ سے بیان کرتے ہیں
کہ آیت }فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا
السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ’’تو اس پر
چلو اور اور راہیں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی‘‘{
اسی طرح آیت }أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا
تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ’’دین کو قائم
رکھنا اور اس میں ٹکڑے مت ہونا‘‘{،
اور قرآن میں اسی طرح کے دیگر مقامات کی بابت ابن عباسؓ نے کہا: یہاں اللہ تعالیٰ
نے مومنوں کو ’’جماعت‘‘ کا حکم دیا اور ’’اختلاف و تفرقہ‘‘ سے منع فرمایا ہے۔ نیز
ان کو خبردار کیا کہ ان سے پہلے اسی وجہ سے برباد ہوئے کہ انہوں نے اللہ کے دین
میں بحثیں اور جدلیات شروع کرلی تھیں۔ یہی بات مجاہد اور متعدد دیگر مفسرینِ سلف
نے کی ہے۔
اس کے علاوہ مفسرین کعب الاحبارؒ سے، جوکہ
اسلام لانے سے پہلے ایک یہودی عالم تھے، بیان کرتے ہیں کہ توراۃ کے اندر بھی
احکامات کا آغاز عین انہی اشیاء سے ہوتا
ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ توارۃ کے وصایا عشر Ten
Commandments کسی
حد تک انہی ہدایات پر مشتمل ہیں۔
اب یہاں آپ سورۃ الانعام میں مذکور ان ’’وصایا‘‘ (ہر آیت میں ذٰلِکُمۡ وَصَّاکُمۡ بِہٖ کی تکرار) کو پڑھ لیجئے اور پھر دیکھئے کہ سوائے پہلی بات (أن لَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئاً) کے (جوکہ اصل نزاع ہے اور بعد کی
تمام اشیاء کےلیے اصل بنیاد فراہم کرتی ہے) ان تمام احکام میں آخر کونسی
بات ایسی ہے جو دیگر ملتوں کے اندر نہیں ہے؟! آپ خود ہی دیکھ لیں: والدین کے ساتھ احسان، اپنے
جگرگوشوں کو مفلسی کے ڈر سے موت کے گھاٹ نہ اتارنا، کھلی یا چھپی بےحیائیوں کے پاس
نہ پھٹکنا، کسی کی ناحق جان نہ لینا، یتیم کا مال ہڑپ نہ کرنا، ناپ تول میں انصاف، ہر حال میں
قریبیوں تک کے معاملہ میں عدل کرنا، اور خدا کے عہد کو پورا کرنا... دیگر ملتیں بھی یہی تو کہتی ہیں! پھر کیا وجہ
ہے کہ آغاز ’’شرک سے ممانعت‘‘ سے کیا تو اختتام اس بات پر کیا کہ بس یہ ’’میرا ہی
راستہ سیدھا راستہ ہے، صرف اس کی اتباع کرنا اور دیگر راستوں کے پیچھے نہ چل پڑنا؛
کیونکہ وہ راستے تمہیں میری راہ سے بھٹکا کر متفرق کردیں گے‘‘۔ ’’راستوں‘‘ کا
فرق ہے کہاں؛ سب ملتیں ایک سے ہی احکام تو دیتی ہیں؟!!! یہاں ہے وہ اصل سبق جو اسلام اور جاہلی سسٹمز کی جزئیات کے مابین
’’اشتراک‘‘ ڈھونڈنے والے حضرات کے سمجھنے کا ہے!
[ج] جدید معتزلہ اور انسان کو
’’خدا‘‘ سے آزاد کرانے کی مہم
اس سے پیشتر تعلیق نمبر 10
میں اس پر کچھ گفتگو ہوچکی۔ مختصراً یہاں ’’ایمانِ معتزلہ‘‘ سے مراد ہے کہ: شریعت تو محض عقل کے فیصلے کی
تائید کرنے آتی ہے لہٰذا ’’اصل‘‘ تو عقل ہی ہےجو سب انسانوں کے مابین مشترک ہے۔
(جس پر ’جدید معتزلہ‘ نے گرہ لگائی کہ): پس معاملاتِ کار کو (طریقوں طریقوں سے)
انسانوں اور ان کے کنونشنز ہی کی طرف لوٹایا جانا ہے }یہ وجہ ہے کہ ’جدید معتزلہ‘ کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی ہے
کہ ’’آسمان کی جانب کم سے کم اشیاء لوٹائی جائیں اور ’زمین‘ سے ان کی دلیلیں
زیادہ سے زیادہ ڈھونڈی جائیں؛ نوٹ کرنے والے ان کے منہج (یا ذہنیت) میں یہ بات
بآسانی نوٹ کرسکتے ہیں۔ (اصل میں یہ ہیومن اسٹ پیراڈائم کو ’انٹرنلائز‘ کرنے کا
نتیجہ ہے؛ ’’آسمان‘‘ سے جان چھڑانے کی ایک اچھی خاصی تگ و دو){۔ یہیں سے ’جدید معتزلہ‘ نے یہ مسلک بھی نکالا کہ
شریعت کا معروف ومنکر وہی ہے جو کسی معاشرے کے لوگوں کو معروف و منکر لگے (قدیم
معتزلہ یہ سنتے تو اس پر جھرجھری لیتے)۔ نیز یہ کہ رشتے
اور بندھن، اور حقوق وفرائض کا تعلق اس بات سے ہے جو انسان آپس میں طے کرلیں
(زیادہ سے زیادہ یہ ’نکاح‘ کے رشتے کو ’’آسمانی‘‘ مانیں گے کیونکہ یہ انسان کے
’پرسنل‘ معاملات میں آتا ہے؛ لہٰذا ’مذہب‘ یہاں پر ’’حوالہ‘‘ بنے تو کوئی بڑی
رکاوٹ نہیں؛ زیادہ امکان البتہ یہی ہے کہ جلد یا بدیر اس کو بھی ’معاشرے کا مانا
ہوا ایک تعلق‘ قرار دیا جائےاور اِس رشتے کا ’’ثبوت‘‘ تو اسی بنیاد پر ہو، البتہ
جب انسان کوئی چیز طے کرلیں تو پھر شریعت نے تو اس کی تائید کےلیے آنا ہی ہوتا
ہے!) البتہ باقی رشتے اور ان رشتوں کے احکام انسانوں کے اپنے طے کردہ (سوشل
کونٹریکٹ) ہی ہونے چاہئیں، اموال (جدید زبان میں ’’معیشت‘‘)، عدل، حقوق، جماعت،
اطاعت اور راعی و رعایا (جدید زبان میں ’’سیاست‘‘) وغیرہ ایسے سب معاملات کو یہ لوگ
اپنے ’مبادیاتِ فہم‘ کے چند فارمولے لگا کر (جو حدود، قصاص اور سود وغیرہ سے متعلق
آیات کو ’معاملے‘ سے غیرمتعلقہ ٹھہرا دیں) عملاً انسان کے سپرد کردیتے ہیں۔
چونکہ
’’اصل‘‘ ان کے نزدیک انسانی عقل ہے، لہذا وہ اصولی بنیاد کہ کونسی انسانی جماعت
اپنے معاملات خدا کو سونپ کر رکھے ہوئے ہے
(قطع نظر اس سے کہ تفصیلات میں اس کی ’’شریعت‘‘ کے بہت سے امور کفار کے ساتھ ایک
اشتراک اور مماثلت بھی رکھتے ہوں) اور کونسی جماعت اپنے معاملاتِ کار کو اللہ و رسول کی جانب نہ لوٹانے کے مسلک پر ہے
(قطع نظر اس سے کہ تفصیلات میں اس کے ’’نظام‘‘ کے بہت سے امور مسلمانوں کی شریعت
کے ساتھ ایک اشتراک اور مماثلت بھی رکھتے ہوں)... یہ اس اصولی بنیاد ہی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ کونسی جماعت خالق کی فرماں
بردار (’’مسلم‘‘) ہے اور کونسی جماعت خالق کی ’’کافر‘‘ اور اُس کی جانب سے آئی
ہوئی کتاب کو ’’رد‘‘ کر رکھنے کی روش پر ہے، یہ ہر دو جماعت کے ہاں پائی جانے والی
شریعت کو عین بیچ سے ہاتھ ڈالتے اور ان کو خلط ملط کرنے لگتے ہیں۔ اِدھر کی آدھی بات
اٹھا کر اُس سے جوڑی اور اُدھر کی آدھی بات اٹھا کر اِس سے جوڑی؛ اور روز ایک نیا
پکوان پکا کر پیش کردیا، اور دونوں کی ’’اصولیت‘‘
اور ’’کُلِّـیّـت‘‘ کو یوں بےپروائی سے لیا گویا
یہ تو کوئی چیز ہی نہیں! (چنانچہ ہمارے نزدیک یہ روٹ عملاً ’’رسالت‘‘ کے انکار تک
جاتا ہے؛ کیونکہ رسالت ’تفصیلات‘ سے پہلے ایک ’’اصولیت‘‘ اور ’’کلیت‘‘ ہی کا نام
ہے؛ اور اِس بنا پر ایک نبی کی اطاعت بھی سب سے پہلے ایک ’’اصولی اطاعت‘‘ ہوتی ہے؛
قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی شریعت کی کیا تفصیلات بتائے گا اور کیا نہیں بتائے گا
اور کب بتائے گا اور کب نہیں بتائے گا۔ ’’نبی کی اطاعت‘‘ بہ مقابلہ ’’نبی کو
مسترد کرنے‘‘ کا یہ اصولی فرق ان دونوں راستوں کی
جزئیات کے مابین پیوندکاری کا منہج اختیار کرنے سے البتہ کالعدم ہوکر رہ جاتا ہے) یہاں سے یہ
لوگ ملتوں کا فرق بھی ختم کرنے کا موجب ہوتے ہیں اور شرائع کا فرق بھی۔ ’’اسلامی
شریعت‘‘ اور ’کفر کا قانون‘ یہاں گڈمڈ ہوکر رہ جاتا ہے؛ اور اشیاء کا تعین اِس
بنیاد پر رہ ہی نہیں جاتا کہ ان کو ’’مقرر کرنے
والا کون ہے‘‘ (توحیدی پیراڈائم) بلکہ کل بحث اور توجہ کا محور یہ ہوجاتا ہے
کہ ’کیا مقرر کیا جارہا ہے‘ (ہیومنسٹ پیراڈائم)۔ انجامِ کار... ’’آسمانی
شریعت‘‘ اور ’انسان ساختہ راستوں‘ کا اصولی فرق
کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے اور ’’جزئیات‘‘ ہی طرفین کا موضوع بن کر رہ جاتی
ہیں؛ جبکہ مسئلہ اصولی وعقائدی اختلاف سامنے لانے کا ہوتا ہے۔
حق یہ ہے کہ دو ملتوں کے مابین جزئیات
کے اشتراک کو کبھی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ اصولوں
میں ان کے اختلاف اور تضاد ہی کو اس قدر نمایاں اور مسلسل تازہ رکھا جاتا ہے
کہ ’’نبی کو
مانا جانا اور نبی کو نہ مانا جانا‘‘ روئے زمین کا سب سے بڑا اور سب سے مرکزی ایشو بنا رہے۔ جبکہ
جزئیات کے اشتراک کو نمایاں کرنا ’’رسالت‘‘ کو زمین کا مرکزی ترین ایشو بنانے کے
اندر مانع بلکہ ’’رسالت‘‘ کے موضوع پر مٹی ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔(کجا یہ کہ ’’رسالت‘‘
سے ملنے والی جزئیات کو ’’رسالت‘‘ کے ماسوا مصادر سے بھی ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش ہو اور اِس ’تحقیقی مساعی‘ سے
’’ہیومن اسٹ‘‘ عفریت یہاں پر مسلسل پلتا جائے یہاں تک کہ لبرلزم کی اس پر باچھیں کھلتی جائیں!)۔
یہ لوگ آج اگر اپنی اس روش پر نظرثانی نہیں کرتے اور ’’الجماعۃ‘‘ کے تاریخی رستے
پر واپس نہیں آجاتے تو ڈر ہے کہ اِن کے آئندہ عشروں میں آنے والے ’’ورژن‘‘ اپنے
دور میں انبیاء کے بدترین دشمنوں پر مشتمل ہوں اور اُن کے گناہ کا ایک حصہ اِن پر
بھی آئے۔
[ز] عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ الشَّامِيِّ،
عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا فُسَيْلَةُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبِي
يَقُولُ، سَأَلْتُ النَّبِيَّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ
أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ؟ قَالَ: «لَا، وَلَكِنْ
مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُعِينَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ» (مسند أحمد 16989، ابن ماجۃ
3949)
عباد
بن کثیر شامی، وہاں کی ایک خاتون جس کو فسیلہ کے نام سے پکارا جاتا، روایت کرتے
ہیں، کہتی ہیں میں نے اپنے والد (واثلہ بن الاسقع) کو کہتے ہوئے سنا: میں نے نبیﷺ سے
پوچھاتھا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ عصبیت میں شمار ہوگا کہ آدمی اپنی قوم سے محبت
کرے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، عصبیت تو یہ ہے کہ آدمی ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرے۔
حدیث میں ’’قوم‘‘ سے سائل کی مراد وہی ہوسکتی ہے جو
’’الجماعۃ‘‘ سے منسلک اُس صحابیؓ کو اپنے
ماحول میں درپیش تھی؛ یعنی قوم قبیلہ وغیرہ۔ اور نبیﷺ کا جواب بھی اسی پر سمجھا
جائے گا۔ بڑی صدیوں تک ’’قوم‘‘ سے مراد دنیا میں وہی رہی جو اس کا طبعی مفہوم تھا
(صرف اسلام نے آکر ’’جماعۃ‘‘ کا ایک نیا اور اعلیٰ تر مفہوم دیا تھاجس میں
’’قومیں‘‘ اور ’’قبیلے‘‘ آپ جتنے لانا چاہیں آسکتے ہیں؛ اس ’’الجماعۃ‘‘ کے ذریعے
دنیا بھر کی قومیں اور قبیلے مل کر زمین میں مقاصدِ حق کی تعمیر میں حصہ لےسکتے
ہیں)۔ البتہ ’’قوم‘‘ کا وہ مصنوعی مفہوم جو صدی بھر سےاب سننے میں آرہا ہے اِس ’یو
این‘ کے دور سے پہلے کہیں سننے میں نہیں آتا۔ حق یہ ہے کہ اِس مُفسد فی الارض نے
لغت تک کو خراب کر دیا ہے۔ (جعلی fake اور مصنوعی artificial
اشیاء کا دور؛ ’کرنسی‘ سے لے کر ’اقوام‘ تک!)۔ تعجب البتہ اُن ’محققین‘ پر
ہوگا جو ’’قوم‘‘ کے اِس لفظ کو مسند احمد اور سنن ابن ماجہ سے اٹھا کر بڑے آرام سے
’یو این‘ کے پیراڈائم میں جڑ دیں گے؛ ’تحقیق‘ بھی مکمل اور ’ضرورت‘ بھی پوری!