عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-01 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’’آسمانی شریعت‘‘ نہ کہ ’سوشل کونٹریکٹ‘۔۔۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ بہ موازنہ ’ماڈرن سٹیٹ‘
:عنوان

اصل آئین "إن الله يأمر" ہے جسے ہمارے ہیومن اسٹ ’اسلام پسند‘ نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی نظر ہی سیدھی "أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها" پر پڑتی ہے؛ جس سے ان کو پورا قرآن ’ہیومن ازم‘ کا سبق نظر آنے لگتا ہے!

. اصولمنہج :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

تعلیق 12   [1]   (بسلسلہ: خلافت و ملوکیت، از ابن تیمیہ)

’’آسمانی شریعت‘‘ نہ کہ ’سوشل کونٹریکٹ‘

’’جماعۃ المسلمین‘‘ بہ موازنہ ’ماڈرن سٹیٹ‘

بہ سلسلہ حدیث: ’’الدِّینُ النَّصِیۡحَۃُ‘‘

سماجی ’’بندھنوں‘‘، ’’ذمہ داریوں‘‘، ’’پابندیوں‘‘ اور ’’وفاداریوں‘‘ کی بابت اسلام (مالکِ کائنات کی فرمانبرداری بذریعہ اتباعِ رسالت) اور جدید جاہلیت (ہیومن اسٹ پیراڈائم کے بطن سے جنم پانے والے کانسٹی ٹیوشنز) کے راستے عین ابتداء سے الگ ہوتے ہیں۔ اسلام اور جدید جاہلیت کو ’آگے چل کر‘ جوڑ لگانے والے حضرات یہیں پر اس فرق کی نشاندہی فرما لیں تو شاید وہ اس پیوندکاری کی کوفت سے بچ جائیں۔ ’’ایمان‘‘ اور ’’کفر‘‘ کا فرق یہاں قدم قدم پر بولتا ہے۔ اِس سلسلہ میں چند مقدمات:

1.      انسان کا خدا کے ساتھ اُس کی ’’بندگی‘‘ اور ’’اطاعت‘‘ کا عہد عالم ارواح میں طے پاچکا: وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا۔ اُس کو پہچاننے، اُس سے ڈرنے، اُس کو چاہنے اور اُس کو پوجنے کی استعداد یہ ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے؛ یعنی فطرت۔  فطرت کی مثال  بصارت کی طرح جانئے: ’’دیکھنے‘‘ کی صلاحیت انسان کے اندر ہے؛ البتہ بیرون میں روشنی کے بغیر یہ معطل رہتی ہے۔ ’’فطرت‘‘ کی آنکھ، جوکہ اِس مخلوق پر خدا کی کمال نعمت ہے، خارج میں ’’آفتابِ نبوت‘‘ کی محتاج ہے۔ فطرت کے نور پر وحی کا نور؛ نورٌ علیٰ نورٍ! یہاں ’’ہدایت‘‘ مکمل ہوجاتی ہے اور انسان اپنے مالک کے کھونٹے پر آ بندھتا ہے۔البتہ جو اندھاپن ہی اختیار کرے، یعنی نبوت کے ذریعے خالق کی پہچان اور عبادت پر تیار نہ ہو،[‌أ]  اُس کی آنکھیں کھولنے کےلیے ’’قیامت‘‘ کا دن مقرر ہے؛ یہاں فی الحال اُسے اپنی عمر اور زمین کے وسائل کا اجاڑا کرنے کی مہلت ہے۔  یہ ہوا میثاقِ فطرت۔ }جدید جاہلیت جوکہ خود ہی وہ اندھاپن ہے جس کا آگے سورۃ طہ اور الرعد کی آیات میں ذکر آرہاہے... اِس اندھاپن (جدید جاہلیت) کی ’نظر‘ میں ظاہر ہے یہ ایک ڈھکوسلہ ہے! اس کی ’نظر‘ میں اس مخلوق کے اندر کسی ان دیکھی ہستی کی تلاش، اُس کے احسانات کی ممنونیت، اُس کی چاہت، اُس سے ڈرنا، اور اُس کی اطاعت اور فرماں برداری کا جذبہ رکھنا اور اپنی سب حسن و خوبی کو اُس سے جوڑنا نرا ایک مفروضہ ہے؛ حق صرف وہ ہے جو اِس اندھے کے ’ٹیلی سکوپ‘ یا اِس کے ’الٹراساؤنڈ‘ میں آئے!{

2.      پھر میثاقِ فطرت کے علاوہ؛ ایک وعدہ اِس مخلوق کو زمین پر اتارتے وقت کیا گیا تھا: }قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى  وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (طہ: 123، 124) ’’ فرمایا تم دونوں یہاں سے اترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے، پھر اگر تم سب کو میری طرف سے ہدایت آئے، تو جو میری ہدایت کا پیرو ہو ا وہ نہ بہکے نہ بدبخت ہو اور جس نے میرے پیغام سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے‘‘{۔( جدید جاہلیت اس کو سوؤروں اور بندروں کی ترقی یافتہ شکل مانتی ہے۔ یعنی اصل میں یہ جنگل کی مخلوق ہے جس کو مکان بنا کر رہنا اور کائنات کے چھپے خزانوں میں تصرف کرنا ’کہیں سے‘  آگیا ہے؛ اس جانور کےلیے ’آسمانی ہدایت‘ اور ’نبوت‘  کا کیا سوال؟)

3.      پھر حسبِ وعدہ، جب آسمان سے ہدایت اتر آتی ہے، اور ’’بیناؤں‘‘ اور ’’نابیناؤں‘‘ کا تعین ہو جاتا ہے... تو ساتھ ہی اللہ کے عہد کو پورا کرنے، نیز کچھ رشتوں اور بندھنوں کے بھی جوڑنے بات ہوتی ہے: }أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ  الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ  وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ  ’’بھلا جو شخص جانتا ہے کہ تیرے رب سے تجھ پر جو کچھ اترا ہے حق ہے اس کےبرابر ہو سکتا ہے جو اندھا ہے؟ بات تو عقل والے پاتے ہیں: وہ لوگ جو الله کے عہد کو پوراکرتے ہیں، قول باندھ لینے کے بعد پھرتے نہیں، اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب کا خوف رکھتے ہیں‘‘ وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ’’اور جو لو گ الله کا عہد اُس کے پکے ہونے کے بعد توڑ تے ہیں، ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں الله نے جوڑنے کا حکم دیا، اور زمین میں فساد کرتے ہیں ان کےلیے لعنت ہے اور ان کےلیے برا گھر ہے‘‘(الرعد: 19۔25) (اس کی تفسیر میں سلف سے متعدد اقوال ماثور ہیں، تاہم اس عہد اور ان رشتوں کے حوالے سے سعد بن ابی وقاصؓ نے ان آیات کا اطلاق خوارج تک پر کیا؛ جنہوں نے جماعۃ المسلمین سے خروج کیا تھا){

4.      یعنی ایک تو ’’اللہ کا عہد‘‘ ہے؛ جوکہ اُس کی بندگی اور اطاعت ہے (عین وہ بات جو اِس کائنات میں صحیح صحیح ’’خدا‘‘ کی حیثیت ہے اور جو  صحیح صحیح ’’بندے‘‘ کی حیثیت ہے)۔ انسان کے معاملہ میں یہ ’اختیاری‘ ہوگیا تھا البتہ ہے یہ کائناتی دستور (أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا)، لہٰذا وہ انسانی جماعت جو اس کائناتی دستور کو اختیار کرے وہ ایک جہانی واقعہ ہے۔ اس کائناتی رویے (’’اسلام‘‘) پر آنا اسی صورت ممکن ہے کہ خدا کی بندگی واطاعت کو ’’ناں‘‘ کرنے کا اختیار جوکہ پوری کائنات کو نہیں ہے، انسان رضاکارانہ اپنے حق میں ختم کرلے۔ تب یہ (بطور فرد و بطور جماعت) خیرالبریۃ ہوجاتا ہے؛ یعنی کائنات میں اعلیٰ ترین۔ یہ ہے ایمان۔ اس کو اصولاً ہر مومن قبول کرتا ہے اگرچہ عملاً اس پر پورا اترنے میں اس سے ڈھیروں کمزوریاں سرزد ہوں۔ یہاں سے اسلام اور جدید جاہلیت کے راستے اصولاً الگ ہوتے ہیں۔

5.      دوسرا، وہ ’’رشتے‘‘ اور ’’وفاداریاں‘‘ ہیں جو اِس ’’عہد‘‘ سے خودبخود پھوٹتی ہیں؛ اور جن کی پابندی آپ سے آپ زمین کو سکھ کا گھر بناتی ہے؛ صرف آپ کے شعبۂ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو ’’اللہ اور یومِ آخرت‘‘ پر فوکس کروانا ہوتا ہے، نیز ایک خداشناس قوتِ نافذہ کا بندوبست کرکے رکھنا ہوتا ہے؛ کیونکہ کوئی بھی ضابطہ خواہ وہ کتنا ہی اعلیٰ ہو  کسی ’’تعلیم‘‘ اور ’’قوتِ نافذہ‘‘ کے بغیر ایک بڑی سطح پر معطل ہی رہتا ہے۔ البتہ وہ فرد اور وہ انسانی جماعت جو زمین کی صلاح اور فلاح کا ذریعہ بنے اِس خدائی عہد، اخروی جوابدہی، اور شرعی حرمت کے حامل رشتوں اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے وجود میں ضرور آجاتی ہے۔ یہاں سے؛ خود انسانوں کے باہمی رشتے اور ذمہ داریاں ’’آسمانی شریعت‘‘ ٹھہرتے ہیں نہ کہ ان کے ’اپنے طےکردہ‘۔ انسان کے سب تعلقات اور زمین کے سب وسائل اور اموال پر ’’شرائع‘‘  کا حق طے پاجاتا ہے اور ان معاملوں میں سب ہدایات اعلیٰ ترین انداز میں مالکِ کائنات کی طرف سے آنے لگتی ہیں۔ یعنی اِس انسان کو درون میں تزکیہ دینا اور ’’اللہ و یومِ آخرت‘‘ کی بنیاد پر اس کے نفس کو سنوارنا بھی صرف آسمانی شریعت کے بس کی بات ہے اور بیرون میں رشتوں، ذمہ داریوں اور وفاداریوں کی حرمت قائم کروانا اور اس سے متعلقہ دُوررَس امور کی گتھیاں سلجھانا بھی صرف شریعت کا کام ہے؛ یہاں (سماجیات میں) البتہ ایک خاصا وسیع دائرہ یہ (شریعت) انسان کی عقل اور دانش کےلیے بھی چھوڑتی ہے؛ تاہم اِس ’’انسانی عقل و دانش‘‘ کی نوبت اُس ’’فریم‘‘ میں فٹ ہونے کے بعد آتی ہے جو شریعت اس کےلیے وضع کرتی ہے؛ اُس فریم میں فٹ ہوکر عقل و دانش کا عمل ’’عبادت‘‘ ہے اور اس سے آزاد رہ کر اِس کا عمل کرنا ’’کفر‘‘۔[2]  یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جہاں سے ’’شرائع آسمانی‘‘ اور ’ماڈرن سوشل سائنسز‘ کے راستے عملاً بھی  الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ }مسلم امت کے اندر ایسی بولیاں سنی جانا کہ ہم مذہب کا احترام کرتے ہیں مگر سماجی مسائل کو ’مذہب‘ سے الگ کرکے دیکھنا اور پڑھنا پڑھانا چاہتے ہیں، کھلا ارتداد ہے۔ انبیاء کی کھلی تکذیب ہے۔ ’’شرائع‘‘ نے اگر ان سماجی رشتوں، بندھنوں، ذمہ داریوں اور وفاداریوں ہی کی بابت ایک واضح فریم دیا ہے... تو اس سے ’’اعراض‘‘ کرنا بھی ویسے تو کفر ہی کہلائے گاالبتہ اس کو باقاعدہ ’’رد‘‘ کرنا اور یہ کہنا کہ شریعت کا تو یہ منصب یا میدان ہی نہیں ہے ’’زیادۃٌ فی الکفر‘‘ ہوگا۔ قرآن میں صبح شام ’’رشتوں‘‘، ’’امانتوں‘‘، ’’ذمہ داریوں‘‘، ’’حدود‘‘، ’’اموال‘‘، ’’عقود‘‘  اور ’’حقوق‘‘ پر مشتمل آیات کی تلاوت ہو... اور ادھر یہ ’خیال‘ کہ ان تمام معاملات میں ’مذہب‘ کا کیا کام! ہاں یہ کہیں کہ ہم محمدﷺ پر اتری ہوئی شریعت کے کافر ہیں، تو کم از کم ’’اسلام‘‘ اور خود ان لوگوں کی بابت ایک اشکال ختم ہوجاتا ہے۔ مگر، جیساکہ استاذ جعفر شیخ ادریس فرماتے ہیں، ہمارے یہ دیسی لبرل منافقت اور بزدلی کی اعلیٰ مثال ہیں جو اتنی سی جرأت نہیں رکھتے کہ صاف کہہ دیں ہم محمدﷺ کی شریعت کو نہیں مانتے، بلکہ ان کو کافر کہا جائے تو برا مان جاتے ہیں! حالانکہ ان کے اساتذہ (مغرب کے لبرلز) کو کہا جائے کہ تم شرائعِ آسمانی کے کافر ہو تو وہ کہتے ہیں تم نے ٹھیک کہا{۔

6.      اب جب یہ طے پاگیا کہ سماجی رشتوں، ذمہ داریوں اور پابندیوں کو اصولی جنم دینے والی چیز خود وہ خدائی عہد ہی ہے جو ’’انسانی فطرت‘‘ اور ’’آسمانی وحی‘‘  کا فرض کردہ ہے، اور جوکہ ’’ایمان‘‘ کے نتیجے میں ’’مسلمان‘‘ (فرد اور جماعت) کی وجہِ تاسیس بنتا ہے... تو یہاں سے ’’حقوق و فرائض‘‘ کی بابت اسلامی اپروچ اول تاآخر واضح ہوگئی: ان سب ’’باہمی معاملات‘‘ spheres of life   میں ایک انسانی جماعت (’’الذین آمنوا‘‘) خدائے علیم و حکیم سے حکم لینے کو یہاں منتظر بیٹھی ہے اور اپنے سب تنازعات اُس کی جانب لوٹانے کےلیے ہردم آمادہ؛ جوکہ اُس کی خدائی کا اصل اعتراف ہے۔ (گناہ یا کمزوری ہوجانا اور بات ، اصولاً یہ جماعت اسی مسلک پر ہے)۔  اب یہ ایک باقاعدہ شاہراہ ہے جو ہر ’’ہیومن اسٹ‘‘ راستے سے ایک اصولی علیحدگی رکھتی ہے۔ اِس شاہراہ میں اٹھائے گئے ایک ایک قدم کو ’’ایمان‘‘ اور ’’عبادت‘‘ بنا رکھنے کےلیے اس کا یہ امتیاز برقرار رہنا ہی سب سے بڑھ کر اہم ہے۔ }وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ’’اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور اور راہیں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی، یہ تمہیں حکم فرمایا؛ شاید کہ تم کج روی سے بچو‘‘{[‌ب]۔ یہاں؛ اگر آپ ’معتزلہ کے ایمان‘[‌ج]  سے خبردار ہیں؛ اور آپ کا ایمان ’’الجماعۃ‘‘ والا ایمان[‌د]  ہے... تو اِس ’’خدائی شاہراہ‘‘ کا امتیاز ’ہیومنسٹ‘ راستوں سے بہت سے مقامات پر ظاہری مماثلت کے باوجود آپ پر واضح رہتا ہے۔ ’انسانی راستوں‘ سے بیزاری کی شرط پر ’’خدائی شاہراہ‘‘ سے آپ کی وابستگی قائم ہے تو ’’کارِ جہان‘‘ میں آپ کی تمام تر شرکت ’’عبادت‘‘ کا درجہ پائے رکھتی ہے؛ اور آپکی پوری زندگی ’’توحید‘‘ کی شہادت اور لاالٰہ الا اللہ کی تفسیر بنی رہتی ہے۔[‌ه]

7.      چنانچہ اصل آئین ’’إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ‘‘ ہے جسے ہمارے ہیومنسٹ ’اسلام پسند‘ نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی نظر ہی سیدھی ’’أنۡ تُؤَدُّوا الۡأمَانَاتِ إِلیٰ أھۡلِھَا‘‘ پر پڑتی ہے؛ جس سے ان کو پورا قرآن ’ہیومن ازم‘ کا سبق نظر آنے لگتا ہے! یہیں سے؛ یہ ’’أھۡلِھَا‘‘ کی تفسیر بھی اپنے ہیومنسٹ پیراڈائم میں رکھ کر کریں گے! حالانکہ اصل کانٹے ’’إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ‘‘ سے ہی الگ ہو آئے ہیں۔ ’’دو جماعتیں‘‘ وہیں پر وجود میں آ گئی تھیں: ’’امر‘‘ سارے کا سارا ہے ہی اللہ کو سزاوار۔ غیراللہ کا ’’امر‘‘ تو ’’حُکۡم الۡجَاھِلِیَّۃ‘‘ ہے۔ ’’تحاکم اِلی الطاغوت‘‘ ہے؛ اگرچہ بہت سی جزئیات میں وہ خدائی احکام سے ملتا ہو۔ اس ’’إنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ‘‘ سے ہی تو دو جماعتوں میں تفریق ہوتی ہے۔ یہیں سے تو انسانیت ’’الَّذِیۡنَ آمَنُوا‘‘ اور ’’الَّذِیۡنَ کَفَرُوا‘‘ میں نیز ’’اہلِ جنت‘‘ و ’’اہل دوزخ‘‘ میں تقسیم ہوتی ہے۔[3]

8.      اب اگر یہ اصل آئین واضح ہوگیا جس نے ’’الجماعۃ‘‘ کو وجود دیا تھا... تو پھر ’’امانتوں‘‘ (ذمہ داریوں) کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ }ملاحظہ ہو اس فصل میں وارد پہلی آیت (النساء 58) جو اِبن تیمیہؒ کے متن میں درج ہے{: ظاہر ہے یہ کوئی سیاسی کمیونٹی نہیں (جسے جدید زبان میں ’’ریاست‘‘ کہتے ہیں)۔ بلکہ یہ ’’ریاست‘‘ سے کہیں وسیع تر معنیٰ میں ایک ’’جماعت‘‘ ہے اور اس کے رشتے بوجوہ ریاستی رشتوں سے مضبوط تر ہیں۔ لہٰذا اس کےآئین اور قانون میں (جو سب سے پہلے قرآن میں بیان ہوا) وہ خاص سیاسی زبان مستعمل نہیں جو دنیاکے آئینوں میں ہوتی ہے۔ (ہم بھی حدیث کی شرح میں سیاسی زبان استعمال نہیں کریں گے؛ گو ’’سیاست‘‘ اِس میں آتی ضرور ہے)۔ یہاں زندگی کے جملہ معاملات میں بیک وقت ’’لیجس لیشن‘‘ ہورہی ہے: نماز کے مسئلے، ساتھ ہی نکاح، طلاق، باندیوں اور غلام آزاد کرنے کے مسئلے، بیچ میں ہی جہاد کے مسئلے،  جہاد کے دوران ہی وضو، تیمم، جنابت، قضائے حاجت، طہارت اور سفر کے مسئلے،جہاد سے متصل ہی شہیدوں، یتیموں، بیواؤں، وصیتوں اور اموال کے مسئلے، ساتھ میں رُک رُک کر اُس ’’اصل مسئلے‘‘ (توحید و شرک) کا اعادہ جو جاہلیت کے ساتھ اس تمام تر نزاع اور ہجرت اور جہاد کا موجب بنا ہے۔ پھر اسی دوران کچہریوں، عدالتوں، گواہیوں اور سزاؤں کے مسئلے، قصاص، زنا، چوری، ڈکیتی اور قذف کے احکام، بیچ میں ہی کہیں منافقین کو ڈانٹ ڈپٹ، کہیں توبہ کے احکام اور تزکیہ کے مسائل، کہیں ’باپ دادا‘ کے آئین کا بطلان اور سماجی برائیوں کا خاتمہ،  اسی دوران عفت، اخلاق، انساب اور آبروؤں کے مسئلےاور آمدو رفت، لین دین، بازاروں، کھانے پینے اور شکار کے مسئلے۔ اور اس سارے بیان کے دوران صفاتِ خداوندی کا بیان، اخروی وعد و وعید، زندگی کی حقیقت... یہ سب کچھ یوں گندھا ہوا ہے، حتیٰ کہ ایک ہی آیت کے اندر زندگی کے کئی کئی ’میدانوں‘، ’شعبوں‘ اور ’’جہتوں‘‘ کو اس بےساختگی سے یکجا کر دیا گیا ہے، کہ قرآن کا ایک ایک ورق بلکہ ایک ایک سطر بول کر کہتی ہے کہ اسے نازل کرنے والی ہستی کے سامنے ’’پوری انسانی زندگی‘‘ ہے ۔یہ زندگی جس طرح خارج میں باہم جڑی ہوئی اور شدید حد تک ناقابل تقسیم ہے؛ عین اُسی خوبصورتی کے ساتھ یہ قرآن میں باہم جڑی ہوئی اور شدید حد تک ناقابل تقسیم ہے۔ یہ کتاب تو بس یہ حق رکھتی ہے کہ ’’سوسائٹی‘‘ اس کے آگے دست بستہ کھڑی ہو؛ اس کی آیات پڑھتے جائیں اور ’’زندگی‘‘ تشکیل ہوتی چلی جائے! (نماز کے قیام میں، جوکہ قراءتِ قرآن کا محل ہے، ’’جماعت‘‘ کے دست بستہ ہونے میں ہمیں یہ معنیٰ واقعی نظر بھی آتا ہے!)

9.      انہی ’’امانتوں‘‘ کو جو ’’توحید وتشریعِ خداوندی‘‘ سے پھوٹی تھیں ہم ’’وفاداریاں‘‘ بھی کہتے ہیں جوکہ اوپر کی حدیث ’’الدِّینُ النَّصِیۡحَۃُ‘‘ میں مذکور ہیں۔ (’’جماعت‘‘ ان کے بغیر بےمعنیٰ ہے)؛ یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ’’وفاداری‘‘ اور ’’خیرخواہی‘‘ جو اس حدیث میں مذکور ہے، اصل میں ’’دین‘‘ ہے۔ سبحان اللہ! کہیں فرمایا: لا إیۡمَانَ  لِمَن لَا أمَانَۃَ لَہٗ ’’جس کی امانت نہیں اُس کا ایمان نہیں‘‘۔ یہاں فرمایا: الدِّینُ النَّصِیۡحَۃُ ’’دین تو ہے وفاداری اور خیرخواہی‘‘۔ پس یہاں ہمارے سامنے ایک ایسا فرد اور اور ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے مالک کو پہچان گئی ہے اور رشتوں کی وہ حرمتیں جو مالک نے قائم فرما دی ہیں اِس کے سماجی بندھنوں اور سرگرمیوں کو ’’دین‘‘ اور ’’عبادت‘‘ بنانے لگی ہیں؛ اور اب اس جماعت کا ایک ایک آدمی ان رشتوں کی بابت اخروی جوابدہی سے عین اسی طرح ڈرتا اور دل سے ان کی پابندی کرتا ہے جس طرح اپنی نماز یا قربانی کے معاملے میں۔ کیونکہ یہ ’’خدا کے فرض کردہ‘‘ ہیں۔  اب یہ ’’سوشل کونٹریکٹ‘‘ کرنے والا وہ جانور نہیں جو ’’جنگل کی زندگی‘‘ گزارتا گزارتا اپنے باہمی مفادات کو تحفظ دینے اور ایک دوسرے کی چیرپھاڑ سے بچنے کےلیے ’’قوانین‘‘ اور ’’باہمی حقوق وفرائض‘‘ کا سہارا لینا چاہتا ہے۔ }البتہ یہ ’قوانین‘ وضع کرنے میں معاملہ جس طرح ’’افراد‘‘ سے نکل کر ’’طبقات‘‘ کی چیرپھاڑ اور ساہوکاری میں بدلتا ہے وہ جاننے سے تعلق رکھتا ہے! ہمارے ’اسلامی‘ ہیومنسٹوں کی آزمائش کےلیے؛  اس پر اتنا سا پردہ پڑا رہا کہ اِن کو ابھی تک مغرب کے ڈھول سہانے لگتے ہیں، تو وہ اس طرح کہ یہ تمام عرصہ وسائل سے مالا مال ایک ’’تیسری دنیا‘‘قربانی کا بکرا بننے کو موجود رہی ہے (ایک مضبوط خلافت کی غیرموجودگی) لہٰذا مغربی اقوام کی اس ساہوکاری ہوس کی تسکین ہمارے اوپر ہو جاتی رہی اور وہاں کا غریب بھی پیٹ بھر لیتا رہا؛ جس سے نہ صرف اُن کا بھرم قائم رہا بلکہ وہاں کے خرانٹ دماغوں نے اپنے غریب کو وافر روٹی دے کر اندرونی انقلاب کا راستہ بھی بند کرلیا؛ جوکہ اپنی عالمی ساہوکاری کا راستہ کھلا رکھنے کے حق میں کوئی برا سودا نہیں۔ جس دن البتہ باہر کی لوٹ کھسوٹ بند ہوئی اور اُن اقوام کے اپنے یہاں بھوک پڑی اُس دن آپ دیکھیں گے وہ قومیں نہ صرف آپس میں ایک دوسرے پر ’عالمی جنگوں‘ سے بڑھ کر غراتی ہیں بلکہ اپنے اپنے ملک کے اندر بھی ’طبقوں‘ کی سطح پر رزق کی چھیناجھپٹی میں ’جنگل‘ کے غولوں کو مات دینے لگی ہیں{۔ کہاں’’جماعت‘‘ کا وہ تصور جو ’’اللہ اور یوم آخرت‘‘ سے وجود پاتا ہے  اور کہاں یہ ’’سوسائٹی‘‘ جو سوشل جانوروں کی باہمی مفاہمت اور آپس کے حساب کتاب کا نتیجہ ہے؛ اور جس پر بڑی دیر سے ہمارے نادانوں کی رال ٹپک رہی ہے!

10.   اب اگلی تعلیق میں ہم ان رشتوں اور امانتوں کی ایک جھلک دیکھیں گے جو ’’الدِّینُ النَّصِیۡحَۃُ‘‘ کے تحت حدیث میں ذکر ہوئیں؛ آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ ایک جانب ہمارے نبیﷺ کی دی ہوئی ’’الجماعۃ‘‘[4]  اور دوسری جانب ’سوشل اینی َملز‘ social animals کے کسی باڑے پر مشتمل ’سٹیٹ‘، دو کتنی مختلف حقیقتیں ہیں؛ اور یہ کہ ان دونوں کے مابین پیوندکاری کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے ’’انسانی جسم‘‘ میں ’حیوانی اعضاء‘ کی ٹرانس پلانٹ! }’سوشل اینی ملز‘ کا یہ باڑا یعنی ’نیشن سٹیٹ‘ جس کو سرخاب کا پر بنا کر آج ہمیں پیش کیا جارہا ہے، ایک ایسی لغو اور لایعنی چیز ہے جو اپنی بنیاد کے معاملے میں کسی ایک بھی قاعدے پر کھڑی نہیں ہوتی مگر شان یہ کہ اس پر آپ کو اپنا تن من دھن ہی نہیں اپنی دینی ولاء تک وار دینا ہوتی ہے! (کیونکہ ’’مطلق ولاء‘‘ absolute allegiance   ایک ہی ہوسکتی ہے؛ اور یہ بات عقلاء کے ہاں مسلّم ہے)۔ اس کے لغو inconsistent and  baseless    ہونے کا اندازہ اس سے کریں کہ یہ ’باڑا‘ ایک ٹرین کی سواریوں سے کم نفوس اور چند مربع کلومٹر کے اندر بھی ’’مکمل‘‘ ہوسکتا ہے... اور اربوں نفوس، متعدد اقوام اور لاکھوں مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوكر بھی ’’نامکمل‘‘ اور اپنی ’’تکمیل‘‘ کےلیے کوشاں رہ سکتا ہے! اور جہاں باڑے اس قدر مختلف سائز کے ہوں گے وہاں بڑے سائز کا ایک طاقتور باڑا آئے روز اُس ’حیوانیت‘ کا واسطہ دے کر جو اِس ’سوشل اینی مل‘ کی پاس کردہ ’قدروں‘ سے کشید ہوتی ہے، ’جرمِ ضعیفی‘ میں ملوث کسی باڑے کو تاک کر نہ صرف اس میں اودھم مچا سکتا ہےبلکہ اُس کے وسائل کو بھی ہزارہا انداز کے غیرمرئی پائپ لگا کر ’کش‘ لگا سکتا اور اس ’رضاکارانہ‘ خدمت پر ’’عالمی برادری‘ سے داد پاسکتا ہے!{۔ یہاں صرف ’’ادیان‘‘ اور ’’ملتوں‘‘ کے پامال ہونے کی بھی بات نہیں، اس (ماڈرن سٹیٹ) کے بےبنیاد ہونے کا اندازہ آپ اس سے کرلیں کہ ایک طبعی قومیت (مانند رنگ، لسان، رہن سہن، اقلیم وغیرہ) کو بھی متعدد باڑوں میں منقسم رکھا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ خاص صورتحال میں ان کو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے تک جانا پڑ سکتا ہے(نیشن سٹیٹ پورا ایک پیکیج اور باقاعدہ ایک ولاء allegiance   ہے؛ جوکہ کسی واقفِ حال پر مخفی نہیں)۔ یعنی ایک جانب یہ حال کہ ایک طبعی قومیت (جیسے پٹھان، یا کرد، یا پنجابی، یا بلوچ، یا ازبک وغیرہ) کئی کئی باڑوں میں منقسم ہوسکتی ہے یہاں تک کہ ان کی یہ تقسیم ’’قطعِ ارحام‘‘ کا موجب ہوسکتی ہے[‌و]  تو دوسری جانب یہ حال کہ ایک ایک باڑا کئی کئی طبعی قومیتوں پر مشتمل ہوسکتا ہے! (بنابریں؛ یہ ایک پشتون کو ’’آرڈر‘‘ کر سکتا ہے کہ آئندہ سے ’ازبک‘ تمہاری قوم ہیں جبکہ وہ ’’پشتون‘‘ جو کسی دوسرے باڑے میں ڈال دیے گئے ہرگز تمہاری قوم نہیں! کیوں؟ آخر خون کے رشتے؟ نہیں، بس آرڈر! ایک ’’کرد‘‘ پر یہ فرض کرسکتا ہے کہ وہ ایک ’فارسی‘ کو اپنا بھائی کہے جبکہ ’سرحد پار‘ بسنے والے ایک ’’کرد‘‘ کو غیرقوم مانے! پوری بےرحمی اور بےپروائی کے ساتھ یہ ایک ’’تاجک‘‘ کو پاس بیٹھے تاجکوں سے کاٹ دے اور اس کو حکم دے کہ اُن چند گز دور بیٹھے (پاس کے سرحد ’پار‘) تاجکوں کو تو نہیں البتہ اِن سینکڑوں میل دور بیٹھے (دور کی سرحد کے ’آر‘) پشتونوں کو اپنی ’’قوم‘‘ مانے![5]  جی ہاں ’’قوم‘‘ جوکہ محض کوئی ’انتظامی‘ بندوبست بھی نہیں بلکہ ’’ولاء‘‘ (وفاداری) اور ’’شناخت‘‘ کی واحد معتبر بنیاد باور ہوتی ہے! آخر کس بنیاد پر؟ کتنا جغرافیائی فاصلہ ہو تو آپ کا اپنا خون آپ کےلیے ’غیرقوم‘ ہوجاتا ہے  اور کسی دوسری نسل کا آدمی آپ کی ’قوم‘ ہوجاتا ہے؟ تاکہ اُس ’فاصلے‘  کا اطلاق پھر ہم دنیا کی ہر ریاست پر کریں؟ (اگر بات ’جغرافیائی‘ فاصلے کی ہے، اور اگر ’نسل‘ یا ’زبان‘ یا ’اقلیم‘ کی ہے تو آپ دیکھ چکے کہ وہ یہاں کوئی بنیاد اور کوئی  اصول ہی نہیں ہے)۔ کوئی منضبط قاعدہ؟ جی نہیں۔ نرا دھکہ؛ ’بس ہم نے کہہ دیا اور آپ کو ماننا ہے‘؛ ’البتہ آپ کی ’’شناخت‘‘ اور ’’وفاداری‘‘ کی سب سے معتبر بنیاد یہ ہے جو ہم آپ کو دے رہے ہیں‘؛ اِس دور میں ہر انسان کو یہی یونیفارم پہننی ہے! آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں، یہ اوٹ پٹانگ (ماڈرن سٹیٹ) جو نرسری سے شروع ہوتی اور ہائر کلاسز تک چلتی  اور بقیہ عمر ایک ’عقیدے‘ کے طور پر رَٹوائی جاتی ہے...اس کو ’بدیہیات‘ میں داخل کروانے کےلیے اتنی بڑی تعلیمی وابلاغی مشینری نہ ہو تو یہ ’فلسفہ‘ دنیا میں لطیفے کے طور پر سنا جائے!  اس لحاظ سے ہم اِن جدید باڑوں کو جوکہ ایک نہایت مصنوعی چیز ہے، اُن طبعی قومیتوں سے بالکل الگ ایک چیز دیکھتے ہیں جو تاریخ میں ایک قدرتی عمل کی صورت ہمیں پورے تسلسل کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ طبعی قومیتیں وہ ’قبیلے‘، ’لسانیں‘ اور ’قدرتی اقالیم‘ وغیرہ ہیں جو ماضی میں انسانوں کو بانٹنے کی ایک بنیاد رہی ہیں ]جن کا کئی ایک پہلو سے آسمانی شرائع نے گو شدید بطلان بھی کیا ہے، }قبیلوں، لسانوں اور اقالیم وغیرہ پر مشتمل تقسیمات کا بطلان وہاں پر کیا گیا جہاں یہ باقاعدہ ’’عصبیتیں‘‘ بن جائیں؛ یعنی ’’الجماعۃ‘‘ (ایک نبی کے وابستگان) کو منقسم کرنے کا موجب ہوں، نیز جہاں یہ اتباعِ حق، اصولوں کی حکومت اور عدل و انصاف کے اندر مانع بنیں{  تاہم کئی ایک پہلو سے شرائع نے ان تقسیمات کا اعتبار بھی کیا ہے[‌ز]  }مثلاً نبیﷺ کا قبیلوں کے الگ الگ سردار مقرر فرمانا، مختلف خطوں کے الگ الگ والی مقرر فرمانا، جہاد میں بھی ان کی علیحدہ علیحد بٹالین رکھنا، نیز ان کی قبائلی یا علاقائی  انفرادیتوں کو تحفظ دینا، بعد ازاں خلافت کا بھی عین اسی سنت کو جاری رکھنا،[‌ح]   اور صدیوں تک یہ معاملہ چلنا۔ ان کا یہاں تک اعتبار کیا گیا کہ فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا۔ ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے‘‘۔ ظاہر ہے ’’پہچان‘‘ میں ایک گونہ ’’تمییز‘‘ بھی آجاتی ہے۔جبکہ پچھلی شریعتوں میں تو ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ کسی خاص قبائلی یا لسانی یونٹ کےلیے نبوت ہی الگ کردی، جیسے عاد، ثمود، مدین اور بنی اسرائیل وغیرہ؛ اور اس لحاظ سے ایک قبائلی یا لسانی یونٹ کے وابستگانِ نبی کو ہی آسمانی ’’الجماعۃ‘‘ کا مرتبہ حاصل رہا؛ یوں ایک وقت میں زمین پر کئی کئی آسمانی جماعتیں بھی پائی گئیں{ لہٰذا یہ طبعی اکائیاں جو ’’ادیان‘‘ ہی کی طرح آج یہاں کچلی جارہی ہیں، ایک خاص دائرے میں ان کا اعتبار ہوتا رہا ہے[ تاہم ماڈرن ’سٹیٹ‘ ایک ایسی لغو[‌ط]  اور غیرطبعی چیز ہے کہ قرآن کے ذکر کردہ وہ طبعی ’’قبیلے‘‘ اور ’’شعوب‘‘ جن کو شرائع میں ایک درجہ کا اعتبار حاصل رہا ہے... آج کی یہ ماڈرن سٹیٹ ان پر قیاس ہونے کے قابل بھی نہیں ہے۔ پھر بھی (غیرطبعی ہونے کے باوجود فی الوقت کا واحد ’’دستیاب‘‘ یونٹ ہونے کے باعث) اگر اس کا ’’قبیلے‘‘ اور ’’لسان‘‘ سے بھی کم کسی درجہ میں اعتبار کیا جائے (اور جس کی ایک گونہ گنجائش ہے، گو اِس مبحث کو ہم یہاں پر بیان نہ کر پائیں گے)... تو البتہ اپنی اِس حیثیت میں کہ آج یہ (نیشن سٹیٹ) ’’جماعت المسلمین‘‘ کے متبادل یا ہمسر کے طور پر ہمیں پیش کی جا رہی ہے[6]  یہ قطعی باطل ہے۔



[1]   ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل اول، حاشیہ 12

[2]  جبکہ اصل چیز ’’اصولی اطاعت‘‘ ہے۔ رہ گئی اس ’’اطاعت‘‘ کی جزئیات تو ان کا درجہ اس کے بعد آتا ہے، نیز جزئیات ’’اصولی اطاعت‘‘ کے تابع ہوتی ہیں۔پس یہ اصولی مسلک کہ (اندرنی و بیرونی)  ہر معاملہ میں آپکا مطاع نبی ہے آپکو ’’فرماں برداروں کی جماعت‘‘ (’’جماعۃ المسلمین‘‘ یا ’’نبی کی جماعت‘‘) بناتا ہے۔  جبکہ معاملات کو ’’خود طے کرنے‘‘ کا دستور آپکو ’’ماڈرن سٹیٹ‘‘ بناتا ہے۔ جبکہ ان دونوں کے مابین پیوندکاری: ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘!  پس لامحالہ آپ ان تین حالتوں سے باہر نہ ہوں گے۔ البتہ پہلی حالت میں آنے کےلیے یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ: نبی آپکا مطاع اُسی وقت ٹھہرتا ہے جب اس کے ماسوا اطاعتوں سے آپکی بیزاری عیاں ہو نیز جب آپکی ’’جماعۃ‘‘ کا دیگر انسانی جماعتوں سے ’’نقطۂ نزاع و اختلاف‘‘ محمدﷺ کی رسالت ہو نہ کہ دنیا کی  250  ریاستوں میں سے محض ایک ’ریاست‘ ہونا؛ دنیا کے ساتھ اِس ’’اختلاف‘‘ کو سامنے لائے بغیر آپ ’’نبی کی جماعت‘‘ کیسے!

[3]   ’’الَّذِیۡنَ آمَنُوا‘‘ اور ’’الَّذِیۡنَ کَفَرُوا‘‘  کرۂ ارض کو بانٹے والے دو فریق... آمنے سامنے کے یہ دو صفحے... سورۃ محمد کو پڑھیں  تو اسکا آغاز ہی انسانیت کو دو جماعتوں میں بٹا ہوا دکھانے سے ہوتا ہے، جس کا حوالہ خود ’’محمد‘‘ ہے ﷺ۔ سورۃ کا یہ نام اِس تصویر کی معنویت اور بھی بڑھا دیتا ہے اور بخاری کی حدیث ’’محمدٌ فرقٌ بَینَ النَّاس‘‘  خودبخود اس کی تفسیر نظر آتی ہے۔ دیکھئے سورۃ محمد شروع کس طرح ہوتی ہے:

الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ  وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ  ذَلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّهِمْ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ’’جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے عمل برباد کیے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے اور ہے وہ سراسر حق اُن کے رب کی طرف سے، اللہ نے ان کی برائیاں اُن سے دور کر دیں اور ان کی حالتیں سنوار دیں۔ یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اُس حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے اِس طرح اللہ لوگوں کو اُن کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے‘‘۔

[4]   جس پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے}یَدُ اللہِ عَلَى الۡجَمَاعَۃِ (النسائی عن عرفجۃ بن شریح رقم 4020، ترمذی عن ابن عباس رقم 2166،  صححہ الالبانی: صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ رقم 8065){ اور جس پر خدا کی رحمت ہوتی ہے }وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ  إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ (سورۃ ہود: 118){۔ کیوں نہ ہو،  یہ انسانوں کا وہ اکٹھ ہے جو روئے زمین پر مل کر خدا کی عبادت کرتا، اُس  کا نام بلند کرتا اور کفر کے کلمہ کو پست کرتا ہے؛ اور خدا جانتا ہے کہ زمین پر اُس کی عبادت اکیلے ’فرد‘ کے کرنے کی نہیں بلکہ اس کیلئے ’’جماعت‘‘ بھی درکار ہے۔ جبکہ زمین میں اُس کا نام بلند ہونا اور اُس کے شریکوں اور ہمسروں کا کلمہ پست ہونا تو ہے ہی ’’جماعت‘‘ سے متعلق۔

[5]  ’’دین‘‘ کی تو یہ حیثیت نہیں مگر ’سٹیٹ‘ ایسی لغو چیز  کی یہ حیثیت ہے کہ دو بھائیوں کو پھاڑ دے اور ایک ہی خون کے مابین ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ’غیرقوم‘ ہونے کی خلیج ڈال دے؛ ’مذہب‘ کی تو نہیں مگر ’’سٹیٹ‘‘ کی  یہ شان قبول کرنے پر ہمارے ’اسلامی‘ ہیومنسٹوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا! (اس پر مزید دیکھئے: ذیلی مبحث 1’’نسلی اکائیوں اور علاقائی رہن سہن کا تحفظ، جماعۃ المسلمین بہ موازنہ ماڈرن سٹیٹ‘‘)

[6] ’’نیشن سٹیٹ‘‘ کو حالیہ عالمی پیراڈائم کی بخشی ہوئی یہ حیثیت کہ نسلِ آدم کو ’’تقسیم‘‘ کرنے کی واحد جائز بنیاد یہ ہے۔ جبکہ ہماری ’’الجماعۃ‘‘ کا پیراڈائم  یہ کہ: نسلِ آدم کو ’’تقسیم‘‘ کرنے کی واحد بنیاد ’’ان کی جانب بھیجے گئے رسول پر ایمان لانے والی ’’جماعت‘‘ بہ مقابلہ اُس پر ایمان نہ لانے والے ٹولے‘‘ ہے۔ یعنی نسل آدم کو تقسیم کرنے کے حوالے سے: ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کو ماننا اُن کی ’نیشن سٹیٹ‘ کا انکار ہوا اور اُن کی ’نیشن سٹیٹ‘ کو ماننا ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا انکار۔



[‌أ] یہ ایک نہایت اصولی بات ہے اور ’’الجماعۃ‘‘ کے حوالے سے ایک بنیادی مبحث۔ اس کی تفصیل ان شا اللہ اگلی فصل کی دوسری تعلیق میں آئے گی۔

[‌ب]  سورۃ الأنعام کے وصایا عشر:

سورۃ الانعام کا رکوع 19 پورا ایک مضمون ہے۔ ایک سی تاکیدات پہلی تین آیات میں تکرار کے ساتھ آرہی ہیں۔ یہ سمجھنا درست نہیں کہ سورۃ الانعام کے اِس مقام کی مناسبت بس اِتنی ہے کہ اس سے پہلی آیات میں اہل جاہلیت کی حرام کردہ اشیاء کا ذکر ہوگیا تھا، اس لیے یہاں یہ بتادیا گیا کہ اللہ نے تو بس یہ اور یہ اشیاء حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس مضمون کی خود اپنی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ اِن دو اقوالِ سلف سے کرسکتے ہیں جو ابن کثیر عبد اللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ سے لاتے ہیں:

    عَنْ عَلْقَمَةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: من أراد أن ينظر إلى وصية رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي عَلَيْهَا خَاتَمُهُ فَلْيَقْرَأْ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً- إِلَى قَوْلِهِ- لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

علقمہؒ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود﷛ نے فرمایا: جس کسی نے محمد کی وصیت دیکھنی ہوجس پر آپ کی باقاعدہ مہر ہو وہ (سورۃ الأنعام کی) یہ آیات پڑھے۔

    عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَلِيفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: فِي الْأَنْعَامِ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ، ثُمَّ قَرَأَ قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ الآيات

عبداللہ بن خلیفہؒ سے روایت ہے: میں نے عبداللہ بن عباس﷛ کو فرماتے سنا: سورۃ الانعام میں کچھ آیات محکمات ہیں جوکہ ام الکتاب ہیں، اس کے بعد انہوں نے یہ آیات پڑھیں۔

    اس کے علاوہ ابن کثیر یہ روایت لاتے ہیں کہ رسول اللہ نے ان تین آیات پر صحابہ سے باقاعدہ بیعت لی تھی۔ نیز تفسیر ابن کثیر کی یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو:

قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: {فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ} وَقَوْلُهُ {أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ} [الشُّورَى:13] ، وَنَحْوُ هَذَا فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: أَمَرَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ بِالْجَمَاعَةِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الِاخْتِلَافِ وَالْفُرْقَةِ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ بِالْمِرَاءِ وَالْخُصُومَاتِ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَحْوِ هَذَا. قَالَهُ مُجَاهِدٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ.

علی بن ابی طلحہ عبد اللہ بن عباسؓ  سے بیان کرتے ہیں کہ آیت }فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ’’تو اس پر چلو اور اور راہیں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی‘‘{ اسی طرح آیت }أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ’’دین کو قائم رکھنا اور اس میں ٹکڑے مت ہونا‘‘{، اور قرآن میں اسی طرح کے دیگر مقامات کی بابت ابن عباسؓ نے کہا: یہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ’’جماعت‘‘ کا حکم دیا اور ’’اختلاف و تفرقہ‘‘ سے منع فرمایا ہے۔ نیز ان کو خبردار کیا کہ ان سے پہلے اسی وجہ سے برباد ہوئے کہ انہوں نے اللہ کے دین میں بحثیں اور جدلیات شروع کرلی تھیں۔ یہی بات مجاہد اور متعدد دیگر مفسرینِ سلف نے کی ہے۔

    اس کے علاوہ مفسرین کعب الاحبارؒ سے، جوکہ اسلام لانے سے پہلے ایک یہودی عالم تھے، بیان کرتے ہیں کہ توراۃ کے اندر بھی احکامات کا آغاز عین  انہی اشیاء سے ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ توارۃ کے وصایا عشر Ten Commandments   کسی حد تک انہی ہدایات پر مشتمل ہیں۔

   اب یہاں آپ سورۃ الانعام میں مذکور ان ’’وصایا‘‘ (ہر آیت میں ذٰلِکُمۡ وَصَّاکُمۡ بِہٖ کی تکرار) کو پڑھ لیجئے اور پھر دیکھئے کہ  سوائے پہلی بات (أن لَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئاً) کے (جوکہ اصل نزاع ہے اور بعد کی تمام اشیاء کےلیے اصل بنیاد فراہم کرتی ہے) ان تمام احکام میں آخر کونسی بات ایسی ہے جو دیگر ملتوں کے اندر نہیں ہے؟! آپ خود ہی دیکھ لیں: والدین کے ساتھ احسان، اپنے جگرگوشوں کو مفلسی کے ڈر سے موت کے گھاٹ نہ اتارنا، کھلی یا چھپی بےحیائیوں کے پاس نہ پھٹکنا، کسی کی ناحق جان نہ لینا، یتیم کا مال ہڑپ نہ کرنا، ناپ تول میں انصاف، ہر حال میں قریبیوں تک کے معاملہ میں عدل کرنا، اور خدا کے عہد کو پورا کرنا...  دیگر ملتیں بھی یہی تو کہتی ہیں! پھر کیا وجہ ہے کہ آغاز ’’شرک سے ممانعت‘‘ سے کیا تو اختتام اس بات پر کیا کہ بس یہ ’’میرا ہی راستہ سیدھا راستہ ہے، صرف اس کی اتباع کرنا اور دیگر راستوں کے پیچھے نہ چل پڑنا؛ کیونکہ وہ راستے تمہیں میری راہ سے بھٹکا کر متفرق کردیں گے‘‘۔ ’’راستوں‘‘ کا فرق ہے کہاں؛ سب ملتیں ایک سے ہی احکام تو دیتی ہیں؟!!! یہاں ہے وہ اصل سبق جو اسلام اور جاہلی سسٹمز کی جزئیات کے مابین ’’اشتراک‘‘ ڈھونڈنے والے حضرات کے سمجھنے کا ہے!

[‌ج]  جدید معتزلہ اور انسان کو ’’خدا‘‘ سے آزاد کرانے کی مہم

اس سے پیشتر تعلیق نمبر 10 میں اس پر کچھ گفتگو ہوچکی۔ مختصراً یہاں ’’ایمانِ معتزلہ‘‘  سے مراد ہے کہ: شریعت تو محض عقل کے فیصلے کی تائید کرنے آتی ہے لہٰذا ’’اصل‘‘ تو عقل ہی ہےجو سب انسانوں کے مابین مشترک ہے۔ (جس پر ’جدید معتزلہ‘ نے گرہ لگائی کہ): پس معاملاتِ کار کو (طریقوں طریقوں سے) انسانوں اور ان کے کنونشنز ہی کی طرف لوٹایا جانا ہے }یہ وجہ ہے کہ ’جدید معتزلہ‘ کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ ’’آسمان کی جانب کم سے کم اشیاء لوٹائی جائیں اور ’زمین‘ سے ان کی دلیلیں زیادہ سے زیادہ ڈھونڈی جائیں؛ نوٹ کرنے والے ان کے منہج (یا ذہنیت) میں یہ بات بآسانی نوٹ کرسکتے ہیں۔ (اصل میں یہ ہیومن اسٹ پیراڈائم کو ’انٹرنلائز‘ کرنے کا نتیجہ ہے؛ ’’آسمان‘‘ سے جان چھڑانے کی ایک اچھی خاصی تگ و دو){۔  یہیں سے ’جدید معتزلہ‘ نے یہ مسلک بھی نکالا کہ شریعت کا معروف ومنکر وہی ہے جو کسی معاشرے کے لوگوں کو معروف و منکر لگے (قدیم معتزلہ یہ سنتے تو اس پر جھرجھری لیتے)۔ نیز یہ کہ رشتے اور بندھن، اور حقوق وفرائض کا تعلق اس بات سے ہے جو انسان آپس میں طے کرلیں (زیادہ سے زیادہ یہ ’نکاح‘ کے رشتے کو ’’آسمانی‘‘ مانیں گے کیونکہ یہ انسان کے ’پرسنل‘ معاملات میں آتا ہے؛ لہٰذا ’مذہب‘ یہاں پر ’’حوالہ‘‘ بنے تو کوئی بڑی رکاوٹ نہیں؛ زیادہ امکان البتہ یہی ہے کہ جلد یا بدیر اس کو بھی ’معاشرے کا مانا ہوا ایک تعلق‘ قرار دیا جائےاور اِس رشتے کا ’’ثبوت‘‘ تو اسی بنیاد پر ہو، البتہ جب انسان کوئی چیز طے کرلیں تو پھر شریعت نے تو اس کی تائید کےلیے آنا ہی ہوتا ہے!) البتہ باقی رشتے اور ان رشتوں کے احکام انسانوں کے اپنے طے کردہ (سوشل کونٹریکٹ) ہی ہونے چاہئیں، اموال (جدید زبان میں ’’معیشت‘‘)، عدل، حقوق، جماعت، اطاعت اور راعی و رعایا (جدید زبان میں ’’سیاست‘‘) وغیرہ ایسے سب معاملات کو یہ لوگ اپنے ’مبادیاتِ فہم‘ کے چند فارمولے لگا کر (جو حدود، قصاص اور سود وغیرہ سے متعلق آیات کو ’معاملے‘ سے غیرمتعلقہ ٹھہرا دیں) عملاً انسان کے سپرد کردیتے ہیں۔

چونکہ ’’اصل‘‘ ان کے نزدیک انسانی عقل ہے، لہذا وہ اصولی بنیاد کہ کونسی انسانی جماعت اپنے معاملات خدا کو سونپ کر رکھے ہوئے ہے (قطع نظر اس سے کہ تفصیلات میں اس کی ’’شریعت‘‘ کے بہت سے امور کفار کے ساتھ ایک اشتراک اور مماثلت بھی رکھتے ہوں) اور کونسی جماعت اپنے معاملاتِ کار کو اللہ و رسول کی جانب نہ لوٹانے کے مسلک پر ہے (قطع نظر اس سے کہ تفصیلات میں اس کے ’’نظام‘‘ کے بہت سے امور مسلمانوں کی شریعت کے ساتھ ایک اشتراک اور مماثلت بھی رکھتے ہوں)... یہ اس اصولی بنیاد ہی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ کونسی جماعت خالق کی فرماں بردار (’’مسلم‘‘) ہے اور کونسی جماعت خالق کی ’’کافر‘‘ اور اُس کی جانب سے آئی ہوئی کتاب کو ’’رد‘‘ کر رکھنے کی روش پر ہے، یہ ہر دو جماعت کے ہاں پائی جانے والی شریعت کو عین بیچ سے ہاتھ ڈالتے اور ان کو خلط ملط کرنے لگتے ہیں۔ اِدھر کی آدھی بات اٹھا کر اُس سے جوڑی اور اُدھر کی آدھی بات اٹھا کر اِس سے جوڑی؛ اور روز ایک نیا پکوان پکا کر پیش کردیا، اور دونوں کی ’’اصولیت‘‘ اور ’’کُلِّـیّـت‘‘ کو یوں بےپروائی سے لیا گویا یہ تو کوئی چیز ہی نہیں! (چنانچہ ہمارے نزدیک یہ روٹ عملاً ’’رسالت‘‘ کے انکار تک جاتا ہے؛ کیونکہ رسالت ’تفصیلات‘ سے پہلے ایک ’’اصولیت‘‘ اور ’’کلیت‘‘ ہی کا نام ہے؛ اور اِس بنا پر ایک نبی کی اطاعت بھی سب سے پہلے ایک ’’اصولی اطاعت‘‘ ہوتی ہے؛ قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی شریعت کی کیا تفصیلات بتائے گا اور کیا نہیں بتائے گا اور کب بتائے گا اور کب نہیں بتائے گا۔ ’’نبی کی اطاعت‘‘ بہ مقابلہ ’’نبی کو مسترد کرنے‘‘  کا یہ اصولی فرق ان دونوں راستوں کی جزئیات کے مابین پیوندکاری کا منہج اختیار کرنے سے البتہ کالعدم ہوکر رہ جاتا ہے)  یہاں سے یہ لوگ ملتوں کا فرق بھی ختم کرنے کا موجب ہوتے ہیں اور شرائع کا فرق بھی۔ ’’اسلامی شریعت‘‘ اور ’کفر کا قانون‘ یہاں گڈمڈ ہوکر رہ جاتا ہے؛ اور اشیاء کا تعین اِس بنیاد پر رہ ہی نہیں جاتا کہ ان کو ’’مقرر کرنے والا کون ہے‘‘ (توحیدی پیراڈائم) بلکہ کل بحث اور توجہ کا محور یہ ہوجاتا ہے کہ ’کیا مقرر کیا جارہا ہے‘ (ہیومنسٹ پیراڈائم)۔ انجامِ کار... ’’آسمانی شریعت‘‘ اور ’انسان ساختہ راستوں‘ کا اصولی فرق کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے اور ’’جزئیات‘‘ ہی طرفین کا موضوع بن کر رہ جاتی ہیں؛ جبکہ مسئلہ اصولی وعقائدی اختلاف سامنے لانے کا ہوتا ہے۔

          حق یہ ہے کہ دو ملتوں کے مابین جزئیات کے اشتراک کو کبھی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ اصولوں میں ان کے اختلاف اور تضاد ہی کو اس قدر نمایاں اور مسلسل تازہ رکھا جاتا ہے کہ ’’نبی کو مانا جانا اور نبی کو نہ مانا جانا‘‘ روئے زمین کا سب سے بڑا اور سب سے مرکزی ایشو بنا رہے۔ جبکہ جزئیات کے اشتراک کو نمایاں کرنا ’’رسالت‘‘ کو زمین کا مرکزی ترین ایشو بنانے کے اندر مانع بلکہ ’’رسالت‘‘ کے موضوع پر مٹی ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔(کجا یہ کہ ’’رسالت‘‘ سے ملنے والی جزئیات کو ’’رسالت‘‘ کے ماسوا مصادر سے بھی ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش ہو اور اِس ’تحقیقی مساعی‘ سے ’’ہیومن اسٹ‘‘ عفریت یہاں پر مسلسل پلتا جائے یہاں تک کہ  لبرلزم کی اس پر باچھیں کھلتی جائیں!)۔ یہ لوگ آج اگر اپنی اس روش پر نظرثانی نہیں کرتے اور ’’الجماعۃ‘‘ کے تاریخی رستے پر واپس نہیں آجاتے تو ڈر ہے کہ اِن کے آئندہ عشروں میں آنے والے ’’ورژن‘‘ اپنے دور میں انبیاء کے بدترین دشمنوں پر مشتمل ہوں اور اُن کے گناہ کا ایک حصہ اِن پر بھی آئے۔

[‌د]  معتزلہ کے مقابلے پر اہل سنت کے ایمان سے مراد یہاں پر یہ کہ: الٰہیات سے لے کر سماج، تعلقات اور معیشت تک: ’’احکام‘‘ کے تعین میں ’’اصل‘‘: شریعت ہے؛ عقل اُس کی تائید کرے تو بہت اچھی بات ہے؛ البتہ اُس کے وجوب اور لزوم کی بنیاد نیز اُس پر چلنے کو ’’ایمان‘‘ اور ’’عبادت‘‘ اور ’’دستور‘‘ ٹھہرانے والی چیز اُس کا آسمان سے نازل ہونا ہے؛ لہٰذا اُس کی اتباع ہونی ہی اس بنیاد پر ہے کہ وہ آسمان سے اتری ہے نہ یہ کہ اس سے ملتی جلتی کوئی بات انسانوں نے خود اپنے مابین بھی ’’طے‘‘ کرلی ہے۔

[‌ه]     اس کےلیے دیکھئے اگلی فصل کی دوسری تعلیق۔ (آئندہ شمارہ)

[‌و] مثلاً دو پڑوسی ملکوں کی افواج میں موجود ایک ہی نسل اور خون کے لوگوں کو ان ملکوں کے مابین جنگ ہوجانے کی صورت میں ایک دوسرے کے مدمقابل آنا ہوتا ہے۔  یہاں ایک آدمی  اپنی ہی نسل اور اپنے ہی قبیلے کے آدمی کا گلا کاٹے گا؛ جوکہ ’نیشن سٹیٹ‘ کے فلسفے میں ایک بالکل صحیح بات ہے۔ (اِس بت کو ’’مطلق وفاداری‘‘ چاہئے؛ یہ ’مطلق حق‘ ہے اس کے مقابلے پر قبیلہ، نسل، برادری اور خون کیا ہوتا ہے؟!)۔ ہماری ’’الجماعۃ‘‘ کے دستور میں تو اللہ کےفضل سے یہ لکھا ہے کہ لَا طَاعَۃَ لِمَخۡلُوقٍ فِی مَعۡصِیَۃِ الۡخَالِقِ ’’خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو تو مخلوق کی کوئی فرماں برداری نہیں‘‘۔ لہٰذا ’’الجماعۃ‘‘ کی قیادت اگر اسلامی عدل اور انصاف کے منافی کوئی حکم دے بیٹھتی ہے تو الجماعۃ کے اپنے دستور کی رو سے وہ تو اُس کو ماننے کا پابند نہیں۔ (یہ روبوٹوں کی جماعت نہیں بلکہ الذین یتقون اور الذین یعقلون کی جماعت ہے)۔ البتہ ’’نیشن سٹیٹ‘‘ کے فلسفے یا دستور میں آپ کسی ایسی شق کی نشاندہی کرکے دکھائیے کہ ’’سٹیٹ‘‘ جب ایک آدمی کو دوسری سٹیٹ سے وابستہ اپنے ہی خون اور اپنے ہی قبیلے کے آدمی کا خون کرنے کا ’آرڈر‘ دے، جبکہ ازروئے شریعت وہ ناحق خون ہو، تو وہ شخص سٹیٹ کا حکم رد کردینے کا مجاز ہے؟ یعنی ’’سٹیٹ‘‘ اموال کو بھی مباح کرسکتی ہے اور ارواح کو بھی! ’’سٹیٹ‘‘ جو اپنے آپ کو ’’رب‘‘ کی حیثیت میں پیش کرتی ہے کہ جس کے اوپر کوئی بالاتر اتھارٹی ہے ہی نہیں، نہ کہ کسی ’’جماعۃ‘‘ کی حیثیت میں جو کسی ’’رب ‘‘ کو جوابدہ ہو... اپنے حکم اور آئین کو ’’ناں‘‘ بھلا کب سن سکتی ہے؟! (مزید تفصیل کےلیے دیکھئے اس تعلیق کا ذیلی مبحث 3 بہ عنوان’’جبر ایک انسانی ضرورت اور صلاح و فساد کا عنوان، جماعۃ المسلمین بہ موازنہ ماڈرن سٹیٹ)

[‌ز]   عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ الشَّامِيِّ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا فُسَيْلَةُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ، سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ؟ قَالَ: «لَا، وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُعِينَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ» (مسند أحمد 16989، ابن ماجۃ 3949)

عباد بن کثیر شامی، وہاں کی ایک خاتون جس کو فسیلہ کے نام سے پکارا جاتا، روایت کرتے ہیں، کہتی ہیں میں نے اپنے والد (واثلہ بن الاسقع﷛) کو کہتے ہوئے سنا: میں نے نبیﷺ سے پوچھاتھا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ عصبیت میں شمار ہوگا کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، عصبیت تو یہ ہے کہ آدمی ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرے۔

  حدیث میں ’’قوم‘‘ سے سائل کی مراد وہی ہوسکتی ہے جو ’’الجماعۃ‘‘ سے منسلک اُس صحابیؓ  کو اپنے ماحول میں درپیش تھی؛ یعنی قوم قبیلہ وغیرہ۔ اور نبیﷺ کا جواب بھی اسی پر سمجھا جائے گا۔ بڑی صدیوں تک ’’قوم‘‘ سے مراد دنیا میں وہی رہی جو اس کا طبعی مفہوم تھا (صرف اسلام نے آکر ’’جماعۃ‘‘ کا ایک نیا اور اعلیٰ تر مفہوم دیا تھاجس میں ’’قومیں‘‘ اور ’’قبیلے‘‘ آپ جتنے لانا چاہیں آسکتے ہیں؛ اس ’’الجماعۃ‘‘ کے ذریعے دنیا بھر کی قومیں اور قبیلے مل کر زمین میں مقاصدِ حق کی تعمیر میں حصہ لےسکتے ہیں)۔ البتہ ’’قوم‘‘ کا وہ مصنوعی مفہوم جو صدی بھر سےاب سننے میں آرہا ہے اِس ’یو این‘ کے دور سے پہلے کہیں سننے میں نہیں آتا۔ حق یہ ہے کہ اِس مُفسد فی الارض نے لغت تک کو خراب کر دیا ہے۔ (جعلی fake   اور مصنوعی artificial  اشیاء کا دور؛ ’کرنسی‘ سے لے کر ’اقوام‘ تک!)۔ تعجب البتہ اُن ’محققین‘ پر ہوگا جو ’’قوم‘‘ کے اِس لفظ کو مسند احمد اور سنن ابن ماجہ سے اٹھا کر بڑے آرام سے ’یو این‘ کے پیراڈائم میں جڑ دیں گے؛ ’تحقیق‘ بھی مکمل اور ’ضرورت‘ بھی پوری!

[‌ح]  دیکھئے اس تعلیق کا ذیلی مبحث 1، بہ عنوان ’’نسلی اکائیوں اور علاقائی رہن سہن کا تحفظ، جماعۃ المسلمین بہ موازنہ ماڈرن سٹیٹ‘‘۔

[‌ط]  دیکھئے اس تعلیق کا ذیلی مبحث 2، بہ عنوان ’’اسلامی ہیومنسٹوں کی منطق‘‘۔

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز