عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-01 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
خلافت و ملوکیت.. ’تھیوکریسی‘ اور ’ڈیموکریسی‘ ہردو شرک کی نفی
:عنوان

نہ یہاں کےعلماء کبھی پوپوں،پادریوں والے’آسمانی‘ اختیارات رکھیں گےاور نہ یہاں کےامراء کبھی جمہوری نمائندوں والے’زمینی‘اختیارات۔ یہاں ہر چیز آپکو"اخذ"کرنا ہے کتاب و سنت کی"نصوص" سے بذریعہ "اصول فقہ"و"علماء شریعت

. اصولمنہج :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

تعلیق 6  [1]   (بسلسلہ: خلافت و ملوکیت، از ابن تیمیہ)

’تھیوکریسی‘ اور ’ڈیموکریسی‘ ہردو شرک کی نفی

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ 

پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف۔

یہاں سے اُس ’’پاپائیت‘‘ papacy اور اُس ’’پیشوائیت‘‘ clergy کی بھی نفی ہوجاتی ہے جو یورپ کے ’مذہبی ادوار‘ (جس کا ایک نام اُنکے ہاں ’تاریک ادوار‘ dark ages ہے) کی یادگار باور کی جاتی ہے (اور جس کا ترجمہ ہمارے دانشوروں کی لغت میں ’ملائیت‘ سے کیا جاتا ہے!)، اور جس میں اُن کے احبار و رہبان کو تحلیل و تحریم کا مطلق اختیار حاصل رہا ہے؛ اور جس پر سورۃ التوبۃ (آیت 31) کے اندر باقاعدہ ’’شرک‘‘ کی فردِ جرم عائد کی گئی ہے... نیز اُس ’’جمہوریت‘‘ کی بھی نفی ہوجاتی ہے جس میں نام نہاد نمائندگانِ جمہور سب معاملات کے اندر حتمی مرجع ہوتے ہیں۔ اِدھر ہے دینِ توحید، جو دنیا کی کسی ملت پر قیاس نہیں ہوتا: یہاں حتمی مرجع اللہ اور اس کا رسول ہے؛ نہ ملّا نہ امیر، نہ پوپ نہ پارلیمنٹ: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ ’’پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسولؐ کی طرف‘‘۔  اسلام میں ’’امراء و علماء‘‘ کو ’’اُولِی الۡاَمۡرِ‘‘ کے زیرعنوان جماعتِ مسلمہ کی امامت سونپ ضرور رکھی گئی ہے۔  لیکن ہے یہ’’جماعتِ مسلمہ‘‘ کی امامت؛ جس کا وجود ہی ’’اسلام‘‘ یعنی توحید اور فرمانبرداری سے پھوٹتا ہے اور خدائے واحد کی ’’عبادت‘‘ اور اُس کے فرستادہ نبی کی ’’اطاعت‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ نہ یہاں کے علماء کبھی پوپوں اور پادریوں والے ’آسمانی‘ اختیارات رکھیں گے۔ اور نہ یہاں کے امراء کبھی جمہوری نمائندوں اور قانون سازوں والے ’زمینی‘ اختیارات رکھیں گے۔  یہاں ہر شخص کتاب اور سنت کی نصوص کو بنیاد بنا کر علماء کو بھی چیلنج کر سکتا ہے اور امراء کو بھی۔ یہاں ’’اتباع‘‘ ہے نہ کہ ’’ابتداع‘‘۔ یہاں ہر چیز آپ کو ’’نکالنا‘‘ اور ’’اخذ‘‘ کرنا ہے کتاب و سنت کی ’’نصوص‘‘ سے، بذریعہ ’’اصولِ فقہ‘‘، و بذریعہ ’’علماء و فقہائے شریعت‘‘، جس طرح کہ خلفائے راشدین کے یہاں ہوتا رہا تھا اور جوکہ سیدھا سیدھا کتاب اور سنت سے ’’استنباط اوراستدلال‘‘ کہلاتا ہے۔ یہاں معروف معنوں کی ’قانون سازی‘ ایسی سنتِ جاہلیت کہاں سے نکل آئی؟

نہایت واضح ہو: جملہ معاملات کو ’’اللہ اور رسول کی طرف‘‘ لوٹانا ایک معلوم اور واضح اسلامی آئین ہے۔ یہ ایک باقاعدہ فقہی پراسیس ہے؛ جو اول تا آخر ’’اتباع‘‘ ہے۔ اس عظیم الشان مبحث کو اتنی سی ایک شق میں بھگتا دینا  کہ ’کتاب و سنت کے خلاف قانون نہ بنایا جائے گا‘ مضحکہ خیز ہے۔[i] کتاب و سنت کے خلاف‘ قانون بنانے یا نہ بنانے کی نوبت تو بعد میں آئے گی حضرات؛ اسلام کا آئین تو یہ ہے کہ خود کتاب و سنت ہی کو قانون مانا جائے، ہر قانون سے بالاتر قانون اور  ہر آئین سے بالاتر آئین؛ جس سے استنباط اور استدلال کے طریقے بھی اسلام کا علمِ اصولِ فقہ خود فراہم کرے گا۔ یعنی اسلام آپ کو آئین اور قانون بھی نہ صرف خود دیتا ہے بلکہ اُس آئین اور قانون کی تعبیر وتشریح interpretation of the text    کے اصول ومبادی بھی خود دیتا ہے، نیز اِس تعبیر و تشریح کے مجاز لوگوں کا بھی اسلام خود تعین کرتا ہے، یعنی فقہائے شریعت۔[ii] (’پارلیمنٹ‘ اِس ’’اللہ و رسول کے در پر‘‘ اتنی ہی ایک بےدخل مخلوق ہے حضرات؛ بشرطیکہ ’’اللہ اور رسولؐ‘‘ کا تعارف آپ کو ’’قرآن‘‘ اور ’’یومِ آخرت پر ایمان‘‘ سے ہوا ہو!) پس یہاں سے ’قانون سازی‘ کا وہ سارا تصور اور وہ پوری اپروچ ہی باطل ٹھہرتی ہے جو ایک ڈیڑھ سو سالہ تعلیمی و تہذیبی عمل کے نتیجے میں اذہان کے اندر راسخ کرائی گئی؛ اور اب وہ لاشعور میں جا اتری ہے؛ لہٰذا ہمارے قرآنی پیراڈائم کے ساتھ وہ قدم قدم پر معاملے کو الجھانے کا باعث بن رہی ہے۔ اسی ذہنیت کو مغرب سے درآمد کرلینے کے بعد طریقے طریقے سے آج ہمارے یہاں اسلام کے پیوند لگوائے جارہے ہیں جبکہ اصل خناس اس کے اندر وہی ’پارلیمنٹ کا اختیار‘ ہے (جس کو ’ختم کریں تو آخر کتنا کریں‘؟! ہمارا جواب: اس کو دفن ہی کردینا اور اس سے بیزار ہی ہوکر آنا ہوگا) جو اِس درآمدشدہ اور پیوندشدہ جمہوریت میں مسلسل اور بآوازِ بلند بول رہا ہے؛ اور جس سے انکار کرنا ایک سامنے کی حقیقت جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ ایک سرتا پیر تبدیلی ہے حضرات: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور تم میں سے اولی الامر کی۔ پھر جہاں اختلاف کرلو وہاں اسے لوٹاؤ اللہ  اور رسول کی طرف، اگر تم ہو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے‘‘۔ کلام اللہ کے یہ چند الفاظ مکمل آئین ہیں۔



[1]  ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل اول، حاشیہ 6



[i] یہ وہ قوی ترین عبارت ہے جو موجودہ دور کے بعض دساتیر سے ’’اسلام‘‘ کے حق میں پیش کی جاتی ہے: (کتاب وسنت کی ’تعلیمات‘ کے خلاف کوئی قانون نہ بنایا جائے گا)۔ ابھی ہم ان چوردروازوں کی بات نہیں کریں گے جو اِن دستوری ابواب ہی کے اندر باقاعدہ ’’نصوص‘‘ کی صورت رکھے گئے ہیں؛ اور جس کے بعد خود اِس عبارت کی بھی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ جاتی (ورنہ ’’آئین‘‘ کی خلاف ورزی کوئی ایسی چیز نہیں جس کو آپ اس ملک کی عدالت میں چیلنج ہی نہ کرسکیں؛ مسئلہ خود آئین ہی کے کسی سقم کا ہوتا ہے، اور جس کو ہم نے ’چوردروازے‘ کہا ہے، اور جس کے باعث وہ چیز ایک ’واضح آئینی خلاف ورزی‘ کے زمرے میں ہی نہیں  آتی؛ بلکہ آئینی ماہرین کے ہاں اُس کی ہزارہا توجیہات ہونے کا امکان ہوتا ہے؛ جس کے باعث آپ کو ’سپریم کورٹ‘ سے اس مسئلہ پر کچھ ملنے کی توقع نہیں ہوتی؛ اور یہ ابہام آئین سازوں کا باقاعدہ مقصود ہوتا ہے؛ ورنہ اگر خود آئین ہی کے اندر یہ چوردروازے نہ ہوں تو ایسا بہرحال نہیں کہ ایک ’آئینی ریاست‘ میں ’آئین کی ایک واضح خلاف ورزی‘ کوئی ایسی ہی مبہم اور ناقابلِ چیلنج رہے)۔ البتہ ہم یہاں ان چوردروازوں کی بھی بات نہیں کررہے؛ جن کے ہوتے ہوئے اصولاً ایسی کسی دفعہ کو زیربحث لانا وقت کا ضیاع ہے۔ ہم اِس ’مفروضے‘ کو لیتے ہوئے کہ ’آپ کے یہاں کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا‘ عقیدۂ اسلام کا یہ مبحث بیان کرنا چاہیں گے کہ ’’آئینِ اسلام‘‘ اِس چیز کا نام بہرحال نہیں ہے۔ ’’اتَّبِعُوۡا مَا اُنۡزِلَ إلَیۡکُم مِّن رَّبِّکُمۡ‘‘ اِس کو نہیں کہیں گے۔ ’’اسلام‘‘ اور ’’اتباع‘‘ یہ ہے کہ آپ ہدایت ہی اُس چیز میں تلاش کریں جو آسمان سے اتری ہے اور جوکہ کلماتِ خداوندی ہیں اور احادیثِ رسولِ خداوندی۔ خود اسی ’’آسمان سے اتری ہوئی چیز‘‘ کو وہ ٹیکسٹ ماننا ہوگا جس کے ایک ایک لفظ سے آپ ’’استدلال‘‘ اور ’’استنباط‘‘ کے پابند ہوں گے اور پھر اسی سے جو چیز ’’نکل‘‘ کر آئے اُس کے ’’پیچھے چلنا‘‘ ہوگا۔ المختصر... اِن دو باتوں میں بہت فرق ہے:

1.      ایک ہے ’’حکمِ خداوندی کے خلاف نہ چلنا‘‘ (وہ بھی اگر کوئی چوردوازہ نہ رکھا گیا ہو، جوکہ ایک مفروضہ ہے؛ یہاں تو بڑے بڑے پھاٹک ہیں، جوکہ ہر کس و ناکس کو معلوم ہے)

2.      اوردوسرا ہے ’’حکم خداوندی کے پیچھےچلنا اور اس کے ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک اشارے سے احکام اخذ کرنااور ان کو اپنے لیے مطلق لائقِ اطاعت جاننا‘‘۔

ثانی الذکر کا نام ’’ایمان‘‘ ہے۔ ’’اتباع‘‘ ہے۔ ’’اطاعت‘‘ ہے۔  ہم چود سو سال سے اس کو اپنے ایک باقاعدہ آئین کے طور پر جانتے ہیں۔ آسمانی ہدایت کے بالمقابل یہ انسانی رویہ  ہمارے شرعی مصادر میں جگہ جگہ سراہا گیا ہے۔ البتہ اول الذکر ہمارے لیے ایک نامانوس چیز ہے، نہ ہماری تاریخ اس سے واقف، نہ ہماری شریعت میں اس کا کوئی بیان اور نہ ہمارے راشدین سے ایسی کوئی چیز ماثور۔ راشدین جو سیدھا سیدھا قرآن مجید سے ’’اخذِ مسائل‘‘ کرتے تھے۔ ’قانون سازی‘ کا لفظ ہی یا اس کا کوئی مترادف ہی کوئی ہمیں خلفائے راشدین سے لا کر دکھا دے۔ ایک چیز اپنے پورے پس منظر کے ساتھ خود بتاتی ہے کہ وہ آپ کے یہاں ’کہاں‘ سے آئی ہے۔

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ     (النور: 51، 52)

مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔ اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔

[ii]  جبکہ یہاں صورتحال یہ ہے کہ ’’کلام اللہ‘‘ کو اور نہ ’’سنتِ رسول اللہ‘‘ کو  آئین اور قانون کا متن text of the law    ہی نہیں مانا جاتا، اس سے ’’استدلال و استنباط‘‘ کا پابند ہونا تو بعد کی بات!!! اس کو ’اسلامی‘ کی سند دینے والے حضرات فرمائیں، ابوبکرؓ و عمرؓ کے ہاں کیا واقعتاً کلام اللہ کی یہی ’آئینی حیثیت‘تھی؟ کیا وہاں ’’جماعتِ مسلمہ‘‘ (جس کا ترجمہ آپ کے یہاں ’اسلامی ریاست‘ ہوتا ہے) کلام اللہ کو  text of the law جانتے ہوئے اسکے ایک ایک لفظ سے براہِ راست استنباط و استدلال کی پابند نہ تھی؟ اور یہ بھی فرمائیے کہ قرآنِ مجید کی اس ’’حیثیت‘‘ کو نہ ماننا کیا ہے؟ اس مبحث کو بھی ہم ان شاء اللہ کسی اور مقام پر کھولیں گے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات، ایک تصویر کو پورا دیکھ سکنا حامد کمال الدین برصغیر کا ایک المیہ، یہاں کے کچھ۔۔۔
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں
اصول- عقيدہ
حامد كمال الدين
نواقضِ اسلام کو پڑھنے پڑھانے کی تین سطحیں حامد کمال الدین انٹرنیٹ پر موصول ہونے والا ایک س۔۔۔
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات
راہنمائى-
اصول- عبادت
حامد كمال الدين
(فقه) عشرۃ ذوالحج اور ایامِ تشریق میں کہی جانے والی تکبیرات ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کے متن سے۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز