عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Saturday, April 20,2024 | 1445, شَوّال 10
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-01 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’’المورد‘‘ کی ذمہ دار شخصیت بسلسلہ ’’پاکستان کی مذہبی بنیاد‘‘:
:عنوان

ایک ملک بنانے والی چیز کونسی ہے؟ وہ تنہا مذہب تھا۔ اس بنیاد کے اوپر پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کا اقدام کرنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ پہلی چیز یہ۔ (!!!)

. احوال :کیٹیگری
ادارہ :مصنف

’’المورد‘‘ کی ایک ذمہ دار شخصیت کے خیالات بسلسلہ ’’پاکستان کی مذہبی بنیاد‘‘:

چونکہ ’مذہب‘ کو بنیاد بنایا گیا تھا اس لئے:

 ’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘!

سماع ٹی وی کا یہ پروگرام بہ عنوان ’’غامدی کے ساتھ‘‘مورخہ  27 دسمبر 2013 کو براڈکاسٹ ہوا۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں من و عن دیا جارہا ہے۔ ذیل میں[1]  اس پروگرام کا ویب لنک بھی دے دیا گیا ہے۔

ہمارے حالیہ شمارہ کا مرکزی موضوع چونکہ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ ہے، جس کی اصل بنیاد ہے ہی ’’دین‘‘ (جس کو غامدی صاحب اور ان کی ہوسٹ خاتون ’مذہب‘ کے نام سے ذکر فرماتے ہیں)... اور چونکہ ہمارے اِن مضامین میں جدید مغربی پیراڈائم سے متاثر ہونے والی اسلامی عقول کا جابجا ذکر ہے... لہٰذا اس کی ایک مثال قائل کے اپنے ہی الفاظ میں یہاں دے دی جانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ البتہ ہے یہ محض ایک مثال؛ یہ ’’فکر‘‘ بڑی بڑی گندھی عبارتوں میں تقریباً روز ہی پیش کی جارہی ہوتی ہے۔ درمند اصحاب فی الوقت جیو کے ’’امن کی آشا‘‘ سے ہی پریشان رہتے ہیں، ان کو اگر المورد کے اِس فکری پراجیکٹ کی سنگینی معلوم ہو جس کو بیک وقت کئی کئی نشریاتی چینل میسر ہیں، اور جس کا ایک خاصا مرکزی نقطہ ہے ہی یہ کہ ملک کی بنیاد ’مذہب‘ نہیں ہوسکتا... تو ان کو اندازہ ہو کہ ’مذہب‘ کے نام پر بننے والے عالم اسلام کے اِس واحد ملک کو گرانے پر جو بیشمار پراجیکٹ مختلف جہتوں اور مختلف انداز سے اِس وقت سرگرمِ عمل ہیں ان میں خطرناک ترین پراجیکٹ شاید یہی ہو؛ کیونکہ مذہب کو مذہب کی دلیل سے ہی گرا دیا جائےتو وہ ملک جو اپنے وجود میں آنے کی بنیاد ہی ’مذہب‘ بتائے سو فیصد گر جاتا ہے۔

سقوطِ ڈھاکہ اور موجودہ ملکی حالات (سماع ٹی وی):

ہوسٹ خاتون :      السلام علیکم غامدی صاحب

غامدی صاحب:   وعلیکم السلام

خاتون:    غامدی صاحب ویسے تو بہت سارے فیکٹرز ہوں گے جن کی وجہ سے نوبت یہاں تک آئی  کہ انہوں نے علیحدگی کی بات کر دی۔ لیکن اگر ایک مین فیکٹر ہم کہیں جس کی وجہ سے نوبت  یہاں تک آئی تو وہ کیا وجہ تھی؟

غامدی صاحب:   میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایک بڑی بنیادی چیز  جس کو کہتے ہیں نا:

؎   میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت  خرابی کی

وہ یہ تھی کہ ہم نے جودونوں خطوں کو ملانے کے لئے  وجہ بیان کی وہ مذہب تھا۔ مذہب بڑی مقدس چیز ہے۔  میرا نظریہ ہے، آپ کا نظریہ ہے ، ہم اس کے لئے جان دینے کے لئے بعض اوقات  تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن دنیا میں جینے کے لئے اور باہمی ربط قائم کرنے کے لئے  دنیا کی بعض تلخ حقیقتیں ہیں جن کا ادراک کرناچاہئے۔ 

یعنی جب آپ کسی قوم کے ساتھ معاملہ کر رہے ہوتے ہیں  تو جس طرح فرد اپنی ذاتی شناخت رکھتا ہے ہر قوم بھی اپنی ایک ذاتی شناخت رکھتی ہے۔ میں بحثیت فرد اپنی ذاتی شناخت  کو خدا کے سامنے سرنڈر کرتا ہوں۔  میں جب مذہب کو قبول کرتا ہوں  تو میں یہ مانتا ہوں کہ میرا ایک پروردگار ہے اور  مجھے اسکے ماتحت ہو کر رہنا ہے۔ مجھے اسکی حکومت اپنے اوپر تسلیم کرنی ہے۔  وہ میرا رب بھی ہے، میرا معبود بھی ہے اور میرا بادشاہ بھی ہے۔ لیکن یہ جو میری کیفیت ہے، یہ جو میرا   احساس ہے  یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ اس کو قرآن مجید بیان کرتا ہے نا کہ ایمان کی کیفیتیں اوپر  بھی جاتی ہیں اور نیچے بھی جاتی ہیں۔[2]

خاتون: گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔

غامدی صاحب:   زندگی کی جو تلخ حقیقتیں ہیں وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہتی  ہیں ۔ تو میری ذاتی شناخت  یہ جس طرح انفرادی زندگی میں  بنیادی کردار ادا کرتی ہے قوم بھی شناخت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔  وہ بنیادی کردار  زبان سے بھی  ادا ہوتا ہے، لباس سے بھی ، رہن سہن سے بھی، ملنے جلنے سے بھی، معاشرت، تہذیب، ثقافت کے بیشمار مظاہر ہیں  جو مل کر مجھے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔  ایک مظاہر بالکل کنکریٹ ہوتے ہیں، واقعی ہوتے ہیں ، یہ سامنے نظر آرہے ہوتے ہیں ، یعنی نظریاتی پہلو کبھی اوپر جاتا ہے کبھی نیچے جاتا ہے ۔

میری ایمان کی کیفیتیں کبھی اوپر ہوتی ہیں کبھی نیچے ہوتی ہیں ۔ ایک برتر چیز ہے کوئی شک نہیں، مذہب،  لیکن وہ میرے لئے جو بائنڈنگ فورس  کی حیثیت اختیار کرے  یہ ہر وقت ایک صورت میں کر نہیں سکتا۔  اس میں کسی بھی نظریے کو لے  لیجئے...

خاتون: ٹھیک اس میں اور چیزیں بھی آتی ہیں، اس میں کلچر بھی آتا ہے...

غامدی صاحب:   وہ چیزیں بنیادی ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ  وہ میری ذاتی شناخت کا ذریعہ ہیں

خاتون:    حصہ ہیں

غامدی صاحب:   دیکھیں نا  میرا ایک وجود ہے ، میری کچھ جبلتیں ہیں۔ میں کھاتا ہوں ، میں پیتا ہوں ، میرے اندر جنس کے داعیات ہیں اور  بے شمار چیزیں ہیں  یہ تو ہر وقت موجود ہوتی ہیں نا۔ لیکن میں کسی فکر کو مانتا ہوں، کسی نظریئے کو مانتا ہوں ، میرا ایک نقطہ نظر ہے۔ نقطہ نظر استدلال پر مبنی ہو گا، شعور پر مبنی ہوگا۔  اس کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔

خاتون: صحیح

غامدی صاحب:   یعنی جبلتیں اپنی  جگہ قائم رہتی ہیں  تو جبلی تقاضوں کی بنیاد پر  جو آپ کا رشتہ قائم ہوتا ہے یہ زیادہ قوی ہوتا ہے ہمیشہ۔ اس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ  یہ کوئی اجنبی سی بات ہے لیکن  حقیقی بات یہی ہے۔ لہٰذا اس حقیقی بات کی بنیاد پر ہی آپ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ مذہبی بنیاد آپ کے اندر ایک شعور اخوت پیدا کر سکتی ہے ۔ چنانچہ دیکھئے قرآن مجید میں  بڑی خوبصورت تعبیر اختیار کی ہے ۔ اس نے یہ نہیں کہا  انما المؤمنون قومٌ واحد: مسلمان ایک قوم ہیں۔ یعنی ان کی قومیت ایک ہے یہ نہیں کہا۔ انما المؤمنون اخوة : مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ تو مراکش میں رہتا ہوا آدمی میرا بھائی ہے مذہبی بنیاد پر، بنگلہ دیش میں رہتا ہوا آدمی بھی میرا بھائی ہے  لیکن جو میری  جو بنیادیں رشتے کو قائم کریں گی وہ مادی بنیادیں زیادہ حقیقی ہوں گی۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔

  چنانچہ  پہلی چیز یہ ہے کہ ہم نے اس چیز کو نظر انداز کیا۔ ہمارے مقابلے میں اگر آپ دیکھیں  تو ہم ادھر پڑے ہوئے تھے ، شمال مغربی ہندستان میں وہ  بالکل مشرقی حصہ میں پڑے ہوئے تھے۔ انکا کلچر اور تھا ، ان کی تہذیب اور تھی ، انکے سوچنے کے انداز اور تھے ، انکا تعلیمی پس منظر اور تھا۔ بنگال کے لوگ سیاسی لحاظ سے ، تعلیمی لحاظ سے ہم سے بہت آگے تھے۔ ہمارے ہاں جاگیر دارانہ نظام تھا  انکے ہاں یہ چیز اس صورت میں موجود نہیں تھی ، یعنی اگر تھی بھی کہیں تو بہت کمزور تھی۔  اور بے شمار عوامل تھے جو ان کو ہماری شناخت سے  مختلف کر دیتے تھے۔ تو شناخت کی وہ بنیادیں جو بالکل  جبلی بنیادیں ہیں ، یعنی جو انسان کے وجود سے  پھوٹتی ہیں  ان میں اتنا زیادہ تفاوت کے ساتھ آپ کو  قریب لانے والی چیز کون سی ہے ؟ ایک ملک بنانے والی چیز کونسی ہے؟ وہ تنہا مذہب تھا۔

اس بنیاد کے اوپر پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کا اقدام کرنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ پہلی چیز یہ۔ لیکن جب  آپ نے کر لیا تو  پھر یہ ضروری تھا کہ ان بنیادوں کو مستحکم تر کیاجائے۔ جو حقیقی بنیادیں ہیں  ان کے درمیان اچھے رابطے پیدا کیے جائیں۔  اور وہ شناخت کی چیزیں  ہمیشہ ملحوظ رہیں کہ ہم ان کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ چناچہ آپ دیکھئے کہ ان کے ہاں سب سے پہلا مسئلہ ان کی زبان سے پیدا ہوا۔  یعنی وہ ہم سے تعداد میں زیادہ تھے، اس کے باوجود جب ہم نے اس بات پر اسرار کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہو گی تو یہ کوئی حکیمانہ بات نہیں تھی۔  یعنی اپنی جگہ اس کے  بے شمار دلائل دئے جا سکتے ہیں  لیکن اس طرح در حقیقت آپ ایک جبلی تقاضے  کی نفی کر رہے ہیں۔ میری زبان میری شناخت ہے  جس طرح میرا چہرہ میری شناخت ہے ، میرا لباس میری شناخت ہے ، میرا خاندان میری شناخت ہے  بالکل اسی طرح میری زبان میری شناخت ہے۔  میں اپنی تہذیبی روایات کو کم تر ماننےکے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یعنی اس وقت دیکھیں نا دنیا پر مغربی تہذیب کا غلبہ ہے   اس کے باوجود میں یہ کہتا ہوں کہ میری شناخت میری تہذیب، میری ثقافت ، اس کی عزت ہونی چاہئے ہر حال میں۔ 

تو دوسری چیز  کیا بنی، زبان اور زبان کے بعد: ثقافت اور تہذیب کے مظاہر، رہن سہن کے طریقے۔  یہ چیزیں جو ہیں یہ بھی احترام کا تقاضا کرتی ہیں اب ان کو زیادہ احترام ملنا چاہیئے تھا اس کے بعد۔  پھر  حقوق، دیکھیں نا آپ کے سیاسی حقوق ہیں آپ کے معاشرتی  حقوق ہیں  ہم اس وقت جس دنیا میں جی رہے ہیں یہ بادشاہی زمانے کی دنیا نہیں ہے۔  اس کے اندر یہ نہیں ہے کہ ایک بار بادشاہ سلامت  آ گئے ہیں تو اس کے بعد آپ بزور لوگوں کو ایک قاعدے کے اندر رکھیں گے۔ ان کا سیاسی شعور ہم سے بہتر تھا۔ اس کا وہ اظہار کرتے تھے۔  اس سیاسی شعور کے تقاضوں کے ساتھ ہم ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔   اس وجہ سے ایک برتری کا احساس ان کے اندر پیدا ہوا کہ یہ لوگ غالبا ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔  اس کو آپ مذہب کا نام دیں کسی اور چیز کا نام دیں  عام طور پر انسان اس کو قبول نہیں کرتا۔ یعنی اگر آپ مذہب کے لحاظ سے بھی غور کریں تو سوال یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کو کوئی مذہبی برتری حاصل تھی۔  وہ بھی مسلمان ہی تھے۔

خاتون:    غامدی صاحب مذہب بھی تو  کہتا ہے کہ آپ equality قائم کریں ۔ اگر صرف ہم مذہب کی ہی  بات لے لیں تو مذہب بھی یہ سب کچھ کہتا ہے۔ جس کی ہم بات کر رہے ہیں جدید  دور کے لحاظ سے۔

غامدی صاحب:   مذہب تو دراصل انہی چیزوں کی تبلیغ کرے گا  نا، وہ یہ کہے گا آپ دوسروں کے حقوق ادا کریں۔  دیکھیں مذہب نے جب سیاست پر گفتگو کی ہے تو قرآن مجید نے سیاسی قانون بیان  کرنے سے پہلے کیا کہا؟  پہلے یہ کہا:  أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إلَى أَهْلِهَا۔ یعنی آپ یہ نظام  میرٹ پر قائم کریں گے۔ پہلی بات یہی کہی۔ تو اگر میرٹ کہیں مجروح ہو جائے گا کسی بھی طرح  تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جبلی تقاضے  احتجاج کریں گے ۔ انسان اپنی شناخت کو مجروح محسوس کرے گا۔ جو سبق ہمیں اس سے حاصل ہوتا ہے وہ سبق یہی ہے کہ انسان جیسے کہ وہ ہے پہلے اس کو پہچاننا چاہئے۔  اسکے ساتھ اپنے کوئی معاملہ کرنا ہے ، دو آدمی مل کر کوئی کاروبار کریں ، کوئی گھر بنائیں ، چند آدمی  مل کر کوئی ادارہ بنائیں  اسکے اندر محض یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ کا مذہب ایک ہے۔  وہ مقاصد کیا ہیں؟ کیسے اکٹھے ہوئے ہو؟  کیا آپ کے جبلی تقاضے  ایک جگہ پر آگئے ہیں؟  ان کے درمیا ن کوئی مساوات قائم ہو گئی ہے؟  آپ کے مفادات مجتمع ہو گئے ہیں  ؟ آپ کی سیاسی امنگیں مجتمع ہو گئی ہیں؟ یہ چیزیں دیکھنا ضروری  ہیں۔



[2]   گویا اسلامی ریاست ’مذہبی اپیلوں‘ سے چلتی ہے! (’مذہبی چندوں‘ کی طرح؛ جن کا کچھ پتہ نہیں گھٹ جائیں یا بڑھ جائیں!) پس ثابت ہوا کہ ’مذہب‘ ریاست کی بنیاد نہیں ہوسکتا! اس پر ہم ابن تیمیہ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کی دوسری فصل (جو آئندہ شمارہ میں آرہی ہے) کے تحت تعلیق میں کچھ بات کریں گے، یہاں ہم ساتویں صدی ہجری کے ایک عالم کی ایک مختصر عبارت شیئر کریں گے جو انہوں نے خلافتِ عباسیہ کی بابت دی ہے اور جس سے معلوم ہوگا کہ ’’ریاست‘‘ ایسی سنجیدہ حقیقتیں ہمارے ہاں کیسے دیکھی گئی ہیں:

واعلم- علمت الخير- أنّ هذه دولة من كبار الدّول، ساست العالمَ سياسةً ممزوجةً بالدّين والملك، فكان أخيارُ الناس وصلحاؤهم يطيعونها تديُّناً، والباقون يطيعونها رهبةً أو رغبةً، ثمّ مكثت فيها الخلافة والملك حدود ستمائة سنة

(الفخری فی الأحکام السلطانیۃ والدول الإسلامیۃ، مولفہ محمد بن علی بن طباطبا۔ طبع دار صادر۔ بیروت۔ صفحۃ 140۔ ویب لنک: http://ia601207.us.archive.org/11/items/faadsufaadsu/faadsu.pdf )

جان لو، خدا تمہیں خیر سمجھنے کی توفیق دے، یہ (خلافتِ عباسیہ) نہایت عظیم ریاستوں میں سے ایک ریاست رہی ہے جو اپنی سیاست سے پورے جہان کو چلاتی رہی ہے۔ اس کی سیاست دین اور بادشاہت کا امتزاج تھی؛ جس کا نتیجہ یہ کہ لوگوں میں سے نیکوکار اور صالحین تو اس کی اطاعت کرتے تھے دین اور عبادت سمجھ کر، جبکہ باقی لوگ اس کی اطاعت کرتے کوئی خوف سے تو کوئی طمع سے۔ خلافت اور بادشاہت اس کے ہاں لگ بھگ چھ سو سال چلی۔

’’ایمان کے گھٹنے بڑھنے‘‘ کے مسئلہ سے ’’ریاست‘‘ کے مسئلہ پر دلیل پکڑ کر واقعتاً ان صاحب نے کمال کردیا ہے! ’’جدید ریاست‘‘ کو بھی سمجھا ہوتا تو یہ ’دلیل‘ نہ دیتے۔ یہاں ’’دین‘‘ تو پھر لوگوں کو جوڑنے کی کوئی بنیاد ہے (بلکہ قوی ترین بنیاد ہے) جدید ریاست تو کسی بھی بنیاد کے بغیر لوگوں کو جوڑ تی ہے اور ایک اٹوٹ مملکت کھڑی کرکے دکھا دیتی ہے۔ (مزید دیکھئے اِس شمارہ میں ہماری گفتگو بہ عنوان ’’جبر ایک انسانی ضرورت اور صلاح و فساد کا میدان‘‘) حیرت کی بات ہے، اِس سلسلہ میں ان کو ’’بھارت‘‘ ایسا چوں چوں کا مربّہ نظر نہیں آیا، پنجابی اور بنگالی کو ’’اسلام‘‘ کے رشتے سے جوڑنے پر اعتراض ہوا ہے۔ ’’دین‘‘ تو (جس کو یہ صاحب ’مذہب‘ کہنا پسند کرتے ہیں) ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے کہ ریاستی سطح پر اس کے کم از کم تقاضے بھی پورے کر لیے جائیں تو اس کے مقابلے کا کوئی رشتہ نہیں۔ ہاں ’مذہب‘ کے نام پر ملک بنا کر خود ہی ’مذہب‘ کی خاک اڑائیں اور بدترین گوورننس  the most shameful sort of  governance    دیں تو جس چیز کو مرضی توڑ لیں!

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
یہاں کی سیاسی ہاؤ ہو میں ’حصہ لینے‘ سے متعلق ہماری پوزیشن
احوال- تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
یہاں کی سیاسی ہاؤ ہو میں ’حصہ لینے‘ سے متعلق ہماری پوزیشن حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے وا۔۔۔
یاسین ملک… ہمتوں کو مہمیز دیتا ایک حوالہ
احوال-
جہاد- مزاحمت
حامد كمال الدين
یاسین ملک… ہمتوں کو مہمیز دیتا ایک حوالہ تحریر: حامد کمال الدین یاسین ملک تم نے کسر نہیں چھوڑی؛&nb۔۔۔
ایک کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان
راہنمائى-
احوال-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان تحریر: حامد کمال الدین چند ہفتے پیشتر۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
کل جس طرح آپ نے فیصل آباد کے ایک مرحوم کا یوم وفات منایا
تنقیحات-
احوال-
حامد كمال الدين
کل جس طرح آپ نے فیصل آباد کے ایک مرحوم کا یوم وفات "منایا"! حامد کمال الدین قارئین کو شاید ا۔۔۔
‘بندے’ کو غیر متعلقہ رکھنا آپکے "شاٹ" کو زوردار بناتا
احوال-
حامد كمال الدين
’بندے‘ کو غیر متعلقہ رکھنا آپ کے "شاٹ" کو زوردار بناتا! حامد کمال الدین لبرلز کے ساتھ اپنے ا۔۔۔
مزاحمتوں کی تاریخ میں کونسی بات نئی ہے؟
احوال-
حامد كمال الدين
مضمون کا پہلا حصہ پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیےمزاحمتوں کی تاریخ میں کونسی بات نئی ہے؟ صلیبی قبضہ کار کے خلاف۔۔۔
یہ "سیزفائر" یا "جان بخشی" کی خوشی نہیں، دانش گرو!
جہاد- مزاحمت
احوال-
حامد كمال الدين
یہ "سیزفائر" یا "جان بخشی" کی خوشی نہیں، دانش گرو! حامد کمال الدین فلسطینی قوم کی خوشیوں پر ۔۔۔
سعودی سکولوں میں "مہابهارت پڑهانے" کی ہوائی!
احوال-
حامد كمال الدين
سعودی سکولوں میں "مہابهارت پڑهانے" کی ہوائی! حامد کمال الدین ایک طرف حالیہ سعودی رہنماؤں کا بوجوہ بن ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز