عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, April 23,2024 | 1445, شَوّال 13
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2014-04 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
شریعت، بغیر مرضیِ عوام!؟
:عنوان

مسلم حکمران پر مسلم ملک میں شریعت نافذ کر رکھنا منجانب خداوندی فرض ہے اور وہ اس کےلیے خدا کے آگے جوابدہ ہے۔ شریعت نے مسلم حکمران کو ہرگز اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ اس کےلیے لوگوں سے منظوری لے۔

. راہنمائى . اصولعقيدہ :کیٹیگری
ابن علی :مصنف

Text Box: 44شریعت، بغیر مرضیِ عوام!؟

شیخ لطف اللہ خوجہ (استاذ العقیدہ جامعۃ ام القریٰ مکۃ المکرمۃ)

اردو استفادہ: ابن علی         

سوال:   اسلام میں شریعت کو عوام پر زبردستی نافذکرنے کا کیا حکم ہے، جبکہ اس معاملہ میں عوام کی منظوری یا رائے نہ لی گئی ہو؟  نیز انتخابات کے ذریعے حکومت یا اقتدار میں تبدیلی لانے کی بابت شرعی موقف کیا ہے؟ کیا یہ بات اسلام کے بنیادی مسلمات اور مبادی کے ساتھ متصادم نہیں ہے؟ نیز اس بابت کیا شرعی موقف ہے کہ اسلام پسند حضرات کچھ دوسرے لوگوں کے حق میں جو کہ سیکولر ہو سکتے ہیں حکومت اور اقتدار سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ اقتدار میں رہنے کےلیے جتنی سیٹیں درکار تھیں  اسلام پسندوں کو اتنی سیٹیں نہیں مل پائیں؟

جواب:  سوال میں بنیادی طور پر تین مسئلے اٹھائے گئے ہیں:

1.        عوام کی مرضی اور منظوری حاصل کیے بغیر ان پر شریعت نافذ کرنے کا حکم؟

2.        انتخابات کے ذریعے حکومت اور اقتدار میں تبدیلی لانے کا حکم؟ نیز یہ کہ اس کا اسلام کے مسلمات اور مبادی کے ساتھ کوئی تصادم تو نہیں ہے؟

3.        اسلام پسندوں کا اقتدار سے دستبردار ہونا اور ناکافی سیٹوں کے باعث کرسیِ اقتدار کو کچھ ایسے لوگوں کےلیے جو سیکولر ہوسکتے ہیں، چھوڑ دینا؟

عوام کی مرضی کے بغیر شریعت کا نفاذ؟

ایک مسلمان ملک میں ایک مسلمان حکمران کے لیے جائز  ہی نہیں ہے کہ وہ خدا کی نازل کردہ شریعت کے ماسوا کسی چیز کے مطابق فیصلے کرے، اگرچہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا عوام کی خواہشاتِ نفس سے موافقت نہ رکھتا ہو۔ شریعت  کے مطابق فیصلے کرنا اصل دستور ہے؛ اس پر نہ کسی لے دے کی گنجائش ہے اور نہ اس پر ووٹنگ کرائی جائے گی۔

اِسی پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کےلیے اپنا عہد مقرر فرما رکھا ہے، فرمایا:

وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدۃ: 49، 50)

پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو؛ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے اِن کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

پھر عملاً نبیﷺ نے یہی کیا۔ بعدازاں خلفاء کا بھی یہی معمول رہا (کہ عوام کی منظوری لیے بغیر ان پر اللہ کی شریعت لاگو کی جائے) اور چودہ صدیاں معاملہ اِسی طرح چلتا رہا۔

لہٰذا مسلم حکمران پر مسلم ملک میں شریعت نافذ کر رکھنا منجانب خداوندی فرض ہے اور وہ اس کےلیے خدا کے آگے جوابدہ ہے۔ شریعت نے مسلم حکمران کو ہرگز اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ اس کےلیے لوگوں سے منظوری لے۔

یہ ہے قاعدہ۔ ہاں ہر قاعدے میں استثناء ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک ایسی صورتحال میں جہاں مسلم حکومت کو اِس درجہ کا ضعف لاحق ہو کہ وہ اپنا بچاؤ کرنے سے ہی عاجز ہو، اور اس کا اقتدار میں باقی رہنا  کچھ دوسرے عناصر کے رحم وکرم پر  ہو، اگرچہ وہ عناصر دین میں اس کے مخالف ہوں؛  لہٰذا یہاں اگر وہ عوام پر شریعت لاگو کردے، جبکہ اس سے پہلے شریعت وہاں پر لاگو نہیں تھی،  تو اس صورت میں اس کا اقتدار چلا جانا یقینی ہو، یا اس کو کوئی ایسا نقصان لاحق ہونے کا اندیشہ ہو جسے وہ برداشت کرنے کی متحمل نہ ہو... تو یہ ایک حالتِ اضطرار ہے؛ اور اضطرار کے وقت ممنوعہ چیزیں مباح ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کےلیے یہ تک مباح کردیا کہ جہاں اس کو اپنی جان کا خطرہ ہو وہاں وہ زبان سے کلمہِ کفر بول دے۔ مسلمان جب مکہ کے اندر حالتِ استضعاف میں تھے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے شریعت کے یہ احکاماتِ عامہ نازل نہیں فرمائے۔ یہاں تک کہ جب مسلمان قوت میں آگئے،  ان کو پشت کی مضبوطی میسر آگئی تو مدینہ میں جاکر یہ احکام نازل ہونے لگے۔

یہ تدریجی عمل اِس بات پر دلیل ہے، نیز حالتِ ضعف کا اعتبار کرنا اور اکراہ کی صورتحال میں آدمی کو معذور جاننا ایسے قواعد سے بھی یہ بات ثابت ہے... کہ شریعت نافذ کرنے کے معاملہ میں مسلمانوں کو یہ گنجائش حاصل ہے کہ جہاں یہ بات یقینی نظر آتی ہو کہ ان کا دھڑن تختہ ہوجائے گااور ان کی آبادیاں دشمن کے زیرتسلط آجائیں گی، جبکہ ایسے خطرے سے نمٹنے کی وہ طاقت نہیں رکھتے تو وہاں وہ نفاذِ شریعت کو مؤخر کرسکتے ہیں، تاوقتیکہ اللہ ان کےلیے اس معاملہ میں کوئی سبیل نکال دے۔

البتہ شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ اجتہاد کرنا اضطرار کی دلیل پر انحصار کرتا ہو، نہ کہ شریعت کے دلائل ہی کو توڑ مروڑ کر یہ بات ثابت کی جارہی ہو۔[1]

صرف ایسی کسی مجبوری کے تحت اس بات کی گنجائش ہے کہ شریعت نافذ کرنے کےلیے عوام کی منظوری حاصل کرلی جائے، یا اس پر لوگوں سے ووٹ ڈلوا لیے جائیں، کیونکہ اس سے بڑھ کر کچھ کرلینا ممکن ہی نہیں ہے؛ جس طرح اضطرار کے وقت مردار کھالینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔

انتخابات کے ذریعے اقتدار میں تبدیلی لانا؟

ظاہر ہے اس سے مراد عام انتخابات ہیں جو جمہوری اصولوں کے مقرر کردہ ہیں۔ انتخابات کا یہ جو طریقہ ہے، اس کی سند نہ تو نصوصِ شریعت میں ملتی ہے اور نہ خلفائے راشدین کی تطبیقات میں نظر آتی ہے، باوجود اس کے کہ لوگوں نے کھینچ تان کر اس کو شریعت اور خلفائے راشدین کے دستور سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چودہ سو سال تک یہ طریقہ ہمارے ہاں کہیں نہیں پایا گیا۔ اس کے قریب ترین، نہ کہ اس جیسی، جو چیز ہمارے ہاں پائی گئی اس کے نام ہے شوریٰ۔ ان دونوں کے مابین واضح فرق ہے۔ کیونکہ شوریٰ ایک خاص طبقے میں محصور ہے جن کو ہم اہل حل و عقد کہتے ہیں اور جوکہ علماء اور فہم و دانش میں اعلیٰ سطح کے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ’عام لوگ‘ اس میں نہیں آتے، جو کہ جمہوریت کی رو سے ضروری ہے۔

یہ طریقہ ہمارے ہاں کبھی معروف نہیں رہا، تاہم انتخابِ عام کے ذریعے حاکم کا چناؤ کرنے میں شریعت کے اندر کوئی واضح ممانعت بھی وارد نہیں ہوئی ہے۔ البتہ چناؤ کے اِس طریقے  میں جو مفاسد پائے جاتے ہیں اُن پر اگر نصوصِ شریعت کی روشنی میں نظر ڈالی جائے تو مقاصد و نتائج کے اعتبار سے نصوصِ شریعت ہمیں اس طریقۂ انتخاب سے ممانعت کرتی نظر آئیں گی۔ کیونکہ اصل مقصود ہے ایک اہل اور موزوں حکمران کا چناؤ، جبکہ اِس طریقے سے صرف وہی شخص اوپر آتا ہے جو زیادہ پرکشش بن سکے، زیادہ زبان چلا سکے یا جس کے پاس پیسہ زیادہ ہو یا جس کی پشت پر سرمایہ دار ہوں۔ اس طریقۂ انتخاب میں آپ بکثرت دیکھتے ہیں کہ اپنے اپنے امیدوار کےلیے نہایت گمراہ کن پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ گروپ بازی اور پارٹی بازی پر اصل سہارا ہوتا ہے۔ کہیں پر برادری کا تعصب کام میں لایا جاتا ہے تو کہیں پر مفادات کی بنیاد پر جیت ہار کرائی جاتی ہے۔ قوم کا اچھا خاصا وقت اور وسائل ضائع کیے جاتے ہیں۔  ایک ایک امیدوار خاصا خاصا خرچہ کرتا ہے اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ پھر اکثر اوقات دھاندلی پر مبنی نتائج لائے جاتے ہیں اور تب جاکر ایک امیدوار جیت پاتا ہے۔ اب اتنے سے وقت میں وہ جتنی قوم کی خدمت کرے گا اس سے بڑھ کر اُن طبقوں کی خدمت کرے گا جو اُسے اقتدار میں لے کر آئے۔ پھر یہ چلا جائے گا اور اس سیٹ پر کوئی دوسرا آجائے گا۔ یوں ایک دوڑ چلی رہتی ہے۔  لوگوں کی حالت وہی رہتی ہے۔ ان کے مسائل عموماً پڑے ہی رہتے ہیں، خال خال کہیں کوئی امیدیں بر آتی ہیں۔ رہ گیا ایک صالح ایماندار آدمی تو الا ماشاء اللہ وہ  اِس ہائے ہو میں کودنے پر ہی آمادہ نہیں ہوتا۔ ہر ہر جگہ جا کر اپنی ’خدمات‘ جتانا اور ان کی بنیاد پر ووٹ مانگ کر آنا اس کی عزتِ نفس کو گوارا ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ میدان ریاکاروں اور حیلہ بازوں کےلیے خود ہی خالی پڑا رہتا ہے۔ اصلاح کرنے والے کم ہی یہاں راستہ بنا سکتے ہیں۔

یہ باتیں جمہوریت کے لوازمات میں آتی ہیں، اور ایسے ہی واقعات اس پر غالب ہیں۔ ظاہر ہے شریعت ایسے شورشرابے اور ایسی کھینچاتانی  پر موافقت نہ کرے گی۔

ہاں اگر یہ دور کا مفرضہ قائم کرلیا جائے کہ یہ سب مفاسد اس طریقۂ انتخاب میں نہیں پائے جائیں گے، اور اسلام کے تقرر کردہ اخلاق، اقدار، دین اور سنت سے اس کی ہم آہنگی رہے گی تب ہم کہیں گے کہ عام رائے دہی کے ذریعہ سے حکمران کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔

مزید برآں، جہاں انتخابات کا مقصد ایک قانون ساز مجلس کا چناؤ کرنا ہو جو حلال اور حرام کا تقرر کرے گی اور جوکہ شریعتِ خداوندی کے آگے دبی ہوئی نہیں ہے، تو اُس کا  یہ عمل کفر اور شرکِ اکبر ہوگا اور دراصل یہ ایک ایسی بات میں جو خالصتاً خدا کا حق ہے خدا کی ہمسری کرنے کے مترادف ہے۔

ہاں اگر دوردراز کا یہ مفروضہ قائم کرلیا جائے، اور جو کہ عملاً اس قدر نادر ہے کہ تقریباً محال ہے، کہ معاشرہ دین اور سنت پر قائم ہے، عین جس طرح صحابہ کا معاشرہ دین اور سنت پر قائم تھا، تو ایک ایسی نادر بلکہ خیالی صورتحال میں ہی ہم یہ کہہ سکیں گے کہ اب اس ممانعت کی علت ختم ہوگئی ہے۔ اُس صورت میں ہی یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے پابندِ دین معاشرے سے چن کر آئی ہوئی مجلس خدا کی مشروع کردہ حدوں سے گزر کر تحلیل و تحریم نہ کرے گی، اور ایسی فرضی صورتحال میں مجلسِ قانون ساز کا چناؤ کرنا جائز ہوجائے گا۔

لیکن... کہاں یہ صورتحال جو ہم دیکھ رہے ہیں اور کہاں وہ صورتحال جو ہم فرض کررہے ہیں!

سیکولرز کیلئے اقتدار سے دستبردار ہونا

یہ سوال کرنا بنتا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ اسلام پسندوں کو اقتدار میں باقی رہنے کےلیے مطلوب سیٹیں نہیں ملیں تو ان کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں ہے۔ یہاں وہ اقتدار سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ انتخابی عمل میں شریک ہوتے وقت انہوں نے جس اصول پر اتفاق کیا ہے اس کی رو سے اقتدار اُسی کے پاس جائے گا جو انتخابات میں فتح پائے گا۔ ہاں اب وہ حزبِ اختلاف کی سیٹ پر بیٹھ سکتے ہیں اور وہاں سے حکمرانوں کا محاسبہ اور نگرانی کر سکتے ہیں، نیز اگلے انتخابات کےلیے تیاری کرسکتے ہیں۔ یہ رائے جو اسلام پسندوں کے جمہوری عمل میں شریک ہونے کو مباح قرار دیتی ہے، صرف حالتِ اضطرار کو مدنظر رکھ کر اختیار کی گئی ہے۔

مضمون کا عربی متن اس لنک سے حاصل کیا جا سکتا ہے:

تغییر السلطۃ بالانتخابات

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Text Box: matbooateeqaz@gmail.com  Ph: 0323-4031624,	    042-35941459



[1]    شریعت کے دلائل کو توڑ مروڑ کر یہ بات ثابت کرنے سے مراد ہے: (آج کے ہیومنزم سے متاثر) وہ فکری رجحانات  جو اِس وقت ہمیں یہ ’اصول‘ سمجھا رہے ہیں کہ جب تک عوام پسند نہ کریں اُس وقت تک ان پر شریعت نافذ کرنا ہے ہی غلط! یہ ہے دین کے اندر تحریف۔  پس اس کی دلیل  صرف اضطرار اور بےبسی ہوسکتی ہے؛ اور ایک موحد جماعت اِسی باب سے کسی وقت ’عوامی آمادگی‘  کا ہتھیار استعمال کرسکتی ہے۔  رہ گیا یہ کہ اس بات کو اصولاً ضروری سمجھا جائے کہ جب تک عوام پسند نہ کریں اُس وقت تک ان پر شریعت لاگو نہ ہونی چاہئے، تو یہ صاف الحاد ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویں
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
عہد کا پیغمبر
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
مابین مسلک پرستی و مسالک بیزاری
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
بربہاریؒ ولالکائیؒ نہیں؛ مسئلہ ایک مدرسہ کے تسلسل کا ہے تحریر: حامد کمال الدین خدا لگتی بات کہنا عل۔۔۔
ایک بڑے شر کے مقابلے پر
Featured-
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک بڑے شر کے مقابلے پر تحریر: حامد کمال الدین اپنے اس معزز قاری کو بےشک میں جانتا نہیں۔ لیکن سوال۔۔۔
ایک کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان
راہنمائى-
احوال-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک کافر ماحول میں "رائےعامہ" کی راہداری ادا کرنے والے مسلمان تحریر: حامد کمال الدین چند ہفتے پیشتر۔۔۔
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا
احوال- تبصرہ و تجزیہ
تنقیحات-
اصول- منہج
حامد كمال الدين
ایک خوش الحان کاریزمیٹک نوجوان کا ملک کی ایک مین سٹریم پارٹی کا رخ کرنا تحریر: حامد کمال الدین کوئی ۔۔۔
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت
اصول- منہج
حامد كمال الدين
فقہ الموازنات پر ابن تیمیہ کی ایک عبارت وَقَدْ يَتَعَذَّرُ أَوْ يَتَعَسَّرُ عَلَى السَّالِكِ سُلُوكُ الط۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز