پانامہ پیشرفت کے حوالے سے یہ تاثر کہ سیاست کے اس کوچے میں
کرپشن کا یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ ہے، یا کچھ دوسرے کہنہ مشق جو ’’کرپشن‘‘ کے ایک
مبینہ کیس پر یک لخت غصہ دکھانے چلے ہیں وہ اِس بہتی گنگا میں نرے ہاتھ دھونے کی
بجائے پورےپورے نہا نہیں چکے، میرا خیال ہے ایک گمراہ کن بات ہو گی۔ نیز ’اِس‘ کے
جانے کے بعد کوئی دوسرا یہاں آپ کو ایک ’کرپشن فری‘ پاکستان دینے جا رہا ہے، یہ
بھی شاید وہی ’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ والی بات ہے۔ ایک گول دائرے کی دوڑ ہے؛ چلتی
آئی ہے اور چلے گی۔ ایک کو ہٹانا، دوسرے کو کندھے پر بٹھانا، پھر اس کو پٹخنا اور
تیسرے کو ’سواری‘ کا موقعہ دینا، قوم کی ایک آزمائش نجانے کب تک جاری ہے۔ سسٹم کے
ساتھ دلچسپی قائم کروانے کے ایسے اکثر واقعات میری نظر میں حوصلہ افزائی کے لائق
نہیں ہوتے۔
چنانچہ بڑےبڑے کرپشن کِنگ اور مسٹر پرسنٹیج اِس وقت ’چور مچائے
شور‘ کے ہنگامے میں شامل ہو کر اگر ایک طرح کا سیاسی ’ڈرائی کلین‘ حاصل کر رہے
ہیں، تو ملک کی تاریخ میں یہ نہ صرف ایک مضحکہ خیز واقعہ ہے بلکہ قوم کے حافظے یا
شعور کا کسی قدر استخفاف بھی ہے۔
سو کوئی بڑا واقعہ ’’کرپشن‘‘ کے حوالے سے تو نہ یہ ہے اور نہ
ہو گا۔ ’’کرپشن‘‘ کے حوالے سے تو اسے ڈسکس کرنا بھی مجھے عجیب لگتا ہے۔ میری سوچوں
پر البتہ جو بات حاوی ہے وہ یہ کہ جہاں غبن اور خورد برد کے پہاڑ اوجھل ہیں وہاں
چند سیر یا چند من کیونکر گرفت میں آ گئے؟ خدائی تدبیر میں کیوں کچھ لوگوں کے
بڑےبڑے گھپلے یہاں چھپے رہے اور یہ ایک نسبتاً چھوٹی سی چیز یوں عدالتی سطح پر
برہنہ کروا دی گئی؟ اصل چیز تو یوم الحساب ہے کہ عدل کا کامل ظہور اُسی روز ہونا
ہے مگر دنیوی واقعات میں بھی کچھ حکمتیں ظہور کرتی ہیں اور اکثر غور و فکر کی دعوت
دیتی ہیں۔
میں نے اس باب میں جتنا غور کیا... اللہ اعلم، یہاں ایک کردار
سامنے آیا اور وہ حالیہ سیاست میں صرف ایک ہی کردار ہے، جس نے ایک عرصہ تک
’’اسلامی سینٹی منٹ‘‘ کا ادھار کھایا۔ شریعت کے حامیوں کے کاندھے پر چڑھ کر اقتدار
کے چبوترے تک پہنچا؛ ایک ایسا نیک بےلوث کاندھا جو اگر اس کےلیے رام نہ ہوتا اور
تمام تر ناگواری کے باوجود اِسے اپنے اوپر نہ چڑھاتا تو یہ نحیف اور لاغر ٹانگیں
چبوترے تک پہنچنے والی نہ تھیں؛ کیونکہ تب کوئی اِس کی قوم تھی اور نہ قبیلہ۔ کوئی
بیس base اور نہ کوئی پشت
پناہ۔ حتیٰ کہ کچھ درپردہ چندوں کی خبریں سنتے ہیں! شنید یہ ہے کہ وہ چندے اُن
لوگوں نے انتظام کیے تھے جو اُن دنوں افغان جہاد کو ضیاء الحق کی ناگہانی شہادت کے
مہلک اثرات سے بچانے کےلیے ہزارہا جتن کرنے میں لگے تھے؛ اور انہی میں سے ایک
ہمارے اِس ممدوح کی الیکشن کیمپین بھی تھی۔ سیاسی عمل میں دینی قوتوں کا پورا
لیوریج (سوائے اُس ایک دینی قوت کے جو اِس وقت اِس کی حمایت میں اتری ہوئی ہے؛
کیونکہ اُس وقت یہ دینی قوت اپنا وزن ایم آر ڈی وغیرہ کے پلڑے میں رکھتی تھی)...
دینی قوتوں کا پورا لیوریج، جو ضیاءالحق کی ناگہانی شہادت کے بعد اپنے ایجنڈا کی
بقاء کےلیے میدان میں اتر آیا تھا، اسلام کےلیے تشویش اور پریشانی کے اُن تمام
مبارک جذبات کے ساتھ اِس ایک شخصیت کو اونچا لےجانے میں فیصلہ کن رہا تھا اور اِسے
قومی دھارے کی قیادت بنانے میں اُس کی بہت محنت پڑی تھی۔ اِس لحاظ سے، پاکستانی
سیاست میں صرف ایک ہی کردار ہے جو اہلِ شریعت کا مقروض تھا۔ بلکہ صحیح تر لفظوں
میں، شریعت کا قرض دبا کر بیٹھا تھا.. اور ہوتے ہوتے پوری طرح آنکھیں پھیر گیا
تھا؛ بلکہ آنکھیں دکھانا شروع ہو چکا تھا۔ بنجارے قرض خواہ نے بہت بار اپنا یہ قرض
یاد دلایا، مختلف مواقع پر وہ اپنا حق جتلانے پہنچا، مگر ہر بار اِس کے در سے
دھتکارا گیا اور بےعزت کر کے لوٹایا گیا۔
جہاں تک محض اقتدار کا پجاری ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس کوچے
میں بھلا کون نہیں۔ اس میں یہ شخص اُن باقیوں سے زیادہ برا بہرحال نہیں۔ میرے
نزدیک دیانت کی بات یہی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ باقیوں کی نسبت اِس کے ہاتھ آج بھی
زیادہ ہی صاف ستھرے ہوں۔ انتظامی صلاحیتوں کا بھی شاید اِس نے دوسروں سے کچھ اچھا
ہی مظاہرہ کیا ہو۔ اِس لحاظ سے تو یہ کم از کم اُن دوسروں سے زیادہ نرمی کے معاملہ
کا حقدار تھا؛ اور خدائی انصاف آخرت سے پہلے اِس دنیا میں بھی ایک درجے کے اندر
بہرحال ظہور کرتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ اُن جذبوں کا دَیندار تھا جو خدا کی
شریعت سے وابستہ ہیں۔ یہ ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ کر آیا تھا جن کی دوڑ خدا تک ہے۔ اُن
میں سے بہت سے لوگ اپنے اردگرد دیکھتے ہوئے شاید آج بھی اِسی کو ’چھوٹی برائی‘
سمجھتے ہوں، اور ایسا جانتے ہوئے شاید کسی درجے میں حق بجانب بھی ہوں، لیکن ایک
وقت بہرحال اِس پر اور اُن پر ایسا گزرا ہے کہ یہ اُن کی اسلامی امیدوں کا باقاعدہ
امین بن کر چلا اور وہ اِسے اپنے اسلامی اہداف کا راہ رَو سمجھ کر اِس کے پیچھے
رہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے بس یہ قرض نگلا جانے والا نہ تھا۔ قومی دولت کی حرمت بھی
بےشک ہمارے نزدیک حد سے بڑھ کر ہے مگر یہ شریعت کا ’مال‘ اور اسلامی امیدوں کی
’امانت‘ حرمت میں بہرحال اس سے بڑھ کر ہے۔ پس وہ قومی دولت کچھ لوگوں نے اِس سے
زیادہ مقدار میں کھائی اور تاحال وہ اُن کو ہضم ہے۔ البتہ یہ دولت اِس کو ہضم نہ
ہو سکی؛ اور یہ ظاہر ہے اُنہوں نے نہیں اِسی اکیلے نے کھائی تھی۔ اس میں عبرت ہے
نگاہ والوں کےلیے۔ ایک نسبتاً زیادہ صاف ستھرا اور ملک کا زیادہ اچھا انتظام کر
دکھانے والا شخص مکافاتِ عمل کی لپیٹ میں آ گیا اور وہ اِس سے زیادہ کرپٹ، مسٹر
پرسنٹیج، اِس کا احتساب کرنے چلے! سبحان اللہ وہ اِس سے کرپشن کا حساب لیں گے!
نشانیاں ہیں اس میں دیکھنے والوں کےلیے۔
اور ایسا نہیں کہ یہ بالکل یکلخت دھر لیا گیا۔ قدرتِ حق کی
جانب سے کئی بار اِس کو تنبیہ ہوئی۔ بار بار اِس سے وہ اقتدار لے کر دکھایا گیا جس
کی خاطر اِس نے خدا کے دوستوں سے آنکھیں پھیریں اور شاید ایک درجے میں اُن کے سودے
کیے۔ جس اقتدار کےلیے اِس نے اسلام اور شریعت سے کیے گئے اُن سب وعدوں کو پس پشت
ڈالنا ذہانت اور کاروباری ہوشیاری جانا اُسی اقتدار سے اِس کو برطرف کروا کر بار
بار اِس کو بتایا گیا کہ اِس کا معاملہ کسی اور ذات سے ہے؛ شاید کہ یہ اندازہ کر
لے اِس کے وہ کاروباری موازنے کہیں ’’فَمَا رَبِحت تجارتُھُم‘‘ قبیل سے نہ ہوں۔ ملک میں اسلامی
ایجنڈا کو ٹھوکر مار کر جس اقتدار کو ’یقینی‘ بنایا گیا، اُسی کو بےحقیقت بنا کر
کئی بار اِس کے آگے رکھا گیا؛ کہ شاید نصیحت لے۔ لیکن وہ ایک ہی وتیرہ مسلسل چلا۔
اور اِس آخری بار تو زیادہ ہی رعونت اختیار کر گیا۔ ’’شریعت‘‘ کا وہ بھلا سا لفظ
اِس بار کبھی غلطی سے بھی لب پر نہیں آیا۔ ہاں ’لبرل‘ قاموس کی کچھ تعبیرات آس پاس
منڈلاتی رہیں اور موقع مناسبت دیکھ کر منہ پر چڑھ آتی رہیں۔ ملکی تاریخ میں شاید
پہلی بار ایسا ہوا کہ ’’دو قومی نظریے‘‘ کی خالق جماعت، یا کم از کم اس کی قیادت،
یہاں کے اُن گھاگ طبقوں کی امید بننے چلی جن کی تمام تر جنگ یہاں اِسی ’’دو قومی
نظریے‘‘ کے ساتھ رہی ہے۔ ’امن کی آشا‘ کے مخصوص تار چھیڑنے والے یہاں کے وہ
جہاندیدہ طبقے جو اپنے چناؤ کا تعین کرنے میں بالعموم غلطی نہیں کرتے... پچھلے چند
سال اُن پر اِس حالت میں گزرے کہ وہ ہمدردیاں جو چھپائے نہیں چھپتیں اور وہ ارمان
جو چہروں سے اپنی خبر دیتے ہیں، یہاں اُسی قیادت کی بلائیں لیتے رہے جو ضیاءالحق
کے بعد اِس ملک میں اسلامی ایجنڈا کی محافظ جانی جاتی رہی تھی! کیسے کیسے ’گناہ‘
نہیں جو وہ ضیاء باقیات کو بخش دینے پر آج آمادہ نہیں! سب پاپ دھل گئے اور ’ضیاء
الحق‘ کا ایک پروردہ اُن کی نیمے دروں نیمے بروں ہمدردیوں کا اچھا خاصا محل دیکھا
جانے لگا۔ یہ آخری دو سال جو کشمیریوں کےلیے چیخ پڑنے کے تھے، کہ ایسا ظلم اِس بڑی
سطح پر کشمیر کی نہتی معصوم جانوں نے اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا ہو، یہاں بہرے
کانوں اور گونگی زبانوں کی تصویر پیش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اِس پر بھارت کو ہوش کے
ناخن لینے کے پیغام یہاں کے ان شعبوں اور اداروں کو دینے پڑے جن کا بنیادی کام اس
چیز سے متعلق نہ تھا۔ چین کا بھارت کے ساتھ ایک سرحدی تنازعہ جو پچھلے عرصے میں
مسلسل بڑھا ہے، اُسے پاکستانی اور کشمیری زاویے سے بےحد زیادہ نمایاں کرنے کا جو
ایک کمال موقع ہاتھ آیا تھا، دوسری جانب نریندرہ مودی ایسے ایک دہشت گرد بھیانک
چہرے کو نہ صرف کشمیر ایشو بلکہ بھارت میں مسلم مظلومیت نمایاں کرنے کےلیے سامنے
لانے کی شدید ضرورت تھی، یہ کام بھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کسی اور نے تو کیا
ہو گا، مگر ہمارے اِس ممدوح اور اس کی کشمیر کمیٹی کے ہاں اس پر کوئی تڑپ اور
بےچینی نہیں دیکھی گئی۔ آخر مکافاتِ عمل کا چرخ دوبارہ گردش میں آیا اور ذہانت و
تدبیر ایک بار پھر بےبس نظر آنے لگے۔ البتہ اِس بار وہ عزت اور آبرو جو ہر بار
رخصت ہوتے وقت ایک درجے میں قائم رہی تھی، ساتھ چھوڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ پہلی بار
یہاں کسی کو ’تلاشی‘ دے کر جانا پڑ رہا ہے اور وہ بدقسمتی سے وہ شخص ہے جس نے سب
پہلے گزرنے والوں سے، اللہ اعلم، کم ہی چرایا ہو گا اور خدمت میں سب پہلے والوں سے
کچھ بہتر ہی رہا ہو گا! دیدہ وروں کو چاہئے وہ اس کے اسباب ’کرپشن‘ میں نہیں بلکہ
کچھ زیادہ گہرے اور دُوررَس و دیرپا حوالوں میں دیکھیں؛ کہ یہ فی الواقع مقامِ
عبرت ہے۔
******
ایک شخص پر اصرار کے نتیجے میں ایک پارٹی کا نقصان ہونے کا اِس
موقع پر جو اندیشہ ہے میرے لیے وہ بھی تشویشناک ہے۔ اوروں کےلیے اس کی کچھ اور
وجوہات ہوں گی مگر میری تشویش کا باعث وہ ممکنہ خلا ہے جو مسلم لیگ کے پیچھے جانے
کی صورت میں آ سکتا ہے۔ مذہبی جماعتیں یہاں کسی بہت اچھی پوزیشن میں نہیں۔ مسلم
لیگ کی قیادت کا اپنا حال بےشک وہی ہو جو اوپر بیان ہوا، اس کے باوجود یہ پارٹی
رائٹ ونگ کے ایک بڑے طبقے کا شیرازہ جمع کیے ہوئے رہی ہے اور آج تک ہے۔ ’’دو قومی
نظریے‘‘ کے حق میں بہت کھل کر بات کرنے والے اور اس کے باقاعدہ مبلغ میری نظر میں
آج بھی اگر کسی بڑی سیاسی جماعت میں بکثرت پائے جاتے ہیں تو وہ صرف مسلم لیگ ہے۔
شاید بہت کم لوگوں کو اندازہ ہے کہ اس دو قومی نظریے کو تاریخ کے میوزیم میں چن
دینے کے کچھ غیر معمولی منصوبے اس وقت زیر عمل ہیں اور آئندہ سالوں میں کچھ بڑے
بڑے جھٹکے اسے پیش آ سکتے ہیں، اللہ عافیت رکھے۔ ’’پاکستان‘‘ کے سافٹ ویئر کو
برقرار رکھنے میں اس دو قومی نظریے کی بقاء کو سیفٹی والو کا درجہ حاصل ہے؛ اور
دشمن کا تمام تر حملہ اب اِسی پر ہونے والا ہے۔ مسلم لیگ کا اِس موقع پر تتر بتر
ہونا میرے نزدیک ایک ایسا سانحہ ہو سکتا ہے جو ملکی تاریخ میں اِس ناگہانی حادثے
کی راہ ہموار کر جائے، خدانخواستہ۔ مسلم لیگ میں موجود نظریاتی عنصر کو، جو کہ کم
نہیں، اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ چودھری نثار اور راجہ ظفر الحق ایسے
لوگوں کے ساتھ اِس حوالے سے شاید ان لوگوں کی بھی امیدیں اور دعائیں ہوں جو ویسے
مسلم لیگ کا حصہ نہیں۔ لیگ میں موجود محبِ اسلام اور محبِ ملک عنصر کو ہر قیمت پر
یہ شیرازہ بکھرنے سے بچانا ہو گا۔
سیاسی پارٹیوں میں موجود احباب سے استدعاء ہے کہ وہ ہماری ان
گزارشات کو ’کسی کی حمایت‘ اور ’کسی کی مخالفت‘ سے بڑے سیاق میں لیں۔ ہر کسی کی
اپنی اپنی ترجیحات ہیں اور ہمارے تجزیے ملک میں اسلامی ایجنڈا کی نزدیکی و دُوررَس
جہتوں کو مرکز رکھ کر تحریر کیے جاتے ہیں۔ غلطی کا امکان ان میں بےشک ہے، تاہم کسی
کے ساتھ جزوی اشتراک یا جزوی مخالفت ان تجزیوں کے اندر سرے سے ہمارا مقصود نہیں
ہوتا۔ ہاں کسی حد تک دُکھتی اور بےلاگ بات کرنا اِن موضوعات کی طبیعت و نوعیت کا
تقاضا ہے؛ لہٰذا اتنا سا کھل جانا ہماری مجبوری سمجھیے۔ پھر بھی ہماری کوئی بات
اگر کسی کو بری لگے تو ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔ ایک عرصہ سے میں اِس رائے پر ہوں
کہ اندریں حالات اسلامی ایجنڈا کے محافظ عناصر کو یہاں کی سب بڑی بڑی سیاسی
جماعتوں میں ہونا چاہئے اور کسی ایک جماعت کو بھی لبرلزم کےلیے تر نوالہ نہیں بننے
دینا چاہئے۔ خاص طور پر وہ جماعتیں جو اپنا تمام تر جھکاؤ لبرلزم کے پلڑے میں
ڈالنے کا فیصلہ کر نہیں چکیں۔ ایسی جماعتوں کو لبرل عناصر کی آماجگاہ بننے سے
روکنے کےلیے ضروری ہے کہ اسلام پسند ایسی ہر پارٹی کے اندر کم از کم اتنی تعداد
میں ہوں کہ معاملہ اسلام کے حق میں اگر نہیں بھی جھکتا تو ’’توازن‘‘ سے باہر
بہرحال نہ جائے؛ اور اِس دوران اسلامی سیکٹر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک اچھا
موقع پا لے۔ لہٰذا... اسلام سے محبت رکھنے والے وہ تمام حضرات و خواتین جو یہاں کی
کسی بھی سیاسی پارٹی میں ہیں، ہماری امید اور ہمارا وجود ہیں، ان کو ناراض کرنے
کے، یا ان میں سے ایک کی قیمت پر دوسرے کو خوش کرنے کے، ہم متحمل ہی نہیں۔ امیدوار
ہیں کہ وہ ہماری اِس تنقید یا اِس تجزیے کو اس کے درست تناظر میں لیں گے۔ اللہ ان
کا حامی و ناصر ہو۔