|
عنصرِ دوم: |
رومن شہوتِ قبضہ و جبر |
جہاں تک مغرب کی فکری وتہذیبی شناخت کے دوسرے عنصر کا تعلق ہے، یعنی اس کا رومن پسِ منظر.... تو تاریخ سے باخبر لوگوں کیلئے ’روم‘ Romans دنیا کی ایک ایسی قدیم ترین داستان کا نام ہے جس کو دنیا اب جا کر ’استعمار‘ colonialism کے لفظ سے تعبیر کرنے لگی ہے۔
دوسری قوموں کو اپنے زیر نگین لا کر رکھنا اور ان کو ہرگز نہ اٹھنے دینا .... انکے وسائل، انکی افواج، ان کے جوان گبھرو، ان کے کھیت کھلیان، ان کے حکمران اورا ن کے لیڈر سب کو اپنے یہاں گروی رکھنا .... ان کو اپنے تاج وتخت کا وفادار خدمتگار بنا کر رکھنا .... بلکہ اس عمل کو ایک منظم ادارے کی صورت دے رکھنا .... یہ دنیا کے اندر ’رومنز‘ ہی کی متعارف کردہ سوغات ہے۔
اس سے پہلے قومیں تاراج ہوتی رہیں مگر ’کالونیاں‘ نہ بنائی گئیں۔ ’مہذب دنیا‘ کے اندر یہ البتہ رومنز ہی کی جاری کردہ سنتِ خبیثہ ہے۔ اس استعماری عمل میں دنیا کے اندر اگر کوئی دس بارہ صدیوں کا تعطل آیا رہا تو اس کی وجہ ان کی نیکی نہیں بے بسی تھی، کیونکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ اس دوران اُمت محمدیہ کے زیرنگین آگیا تھا جس کے باعث یہ توحید کا گہوارہ بن گیا تھا اور عدل وانصاف اور امن کی قلمرو۔ آپ ہنسیں گے یہی وہ دور ہے جو ’اقوامِ مغرب‘ کی تاریخ میں ’دور ہائے تاریک‘ Dark Ages کے نام سے جانا جاتا ہے!
البتہ اس امت کے اپنے فرض سے غافل پڑنے کی دیر تھی کہ ’وارثانِ روم‘ دنیا کے ایک بڑے حصے کو ’تیسری‘ دنیا میں تبدیل کر دینے کیلئے پھر اس پر چڑھ دوڑے اور آج تک اس میں اودھم مچاتے پھر رہے ہیں۔
دنیا میں افراد کو غلام بنا رکھنے کا رواج تو واقعی بہت پرانا ہے اور شاید ہر جگہ رائج رہا ہے مگر قوموں کی قومیں غلام بنا رکھنا ایک باقاعدہ نظام کی صورت میں اس بڑی سطح پر ’رومن ایمپائر‘ ہی کی یادگار ہے خواہ وہ عیسائیت قبول کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ اپنی یہ یادگار، ’آزادی‘ کے مجسمے جگہ جگہ نصب کرنے والی ان اقوام کو آج بھی بہت عزیز ہے!
اگلی فصل