عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, April 25,2024 | 1445, شَوّال 15
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-07 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
لفظ "خدا" پر اعتراضات؟
:عنوان

اس ذہن کے لوگوں سے اگر آپ صرف اتنا پوچھ لیں کہ آپ سے پہلے کس کس نے لفظ "خدا" کو حرام کہا یا اسے الحاد گِنا؟.. تو وہ اس پر حیرانی سے دیکھتے ہیں: یہ بھی کوئی سوال ہے! ۔

. تنقیحات :کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف


لفظ "خدا" پر اعتراضات؟

مدیر ایقاظ

فیس بک پر ہمیں موصول ہونے والا ایک سوال:

آپ جیسا شخص بھی لفظ "خدا" استعمال کرتا ہے!!!!!!

جواب:

اس سے پہلے کہ ہم یہ مسئلہ زیربحث لائیں... ایک اصولی بنیاد واضح ہوجائے تو اِس طرح کے آئے روز اٹھنے والے مسئلوں اور نئی نئی بحثوں سے جان چھوٹ جاتی ہے... خاص ایسے دور میں جب ہم اِس فکری تعیّش  اور اِس نکتہ آفرینی کے متحمل ہی نہیں ہیں۔

یہ اصولی بنیاد ہے: امت کا علمی تسلسل۔

’’امت کے علمی تسلسل‘‘ کے برعکس جو چیز ہے اس کو ہم نے ’’نکتہ آفرینی‘‘ کہا ہے۔ اسی تسلسل کا الٹ ہمارے ہاں ’’انقطاع‘‘ بھی کہلاتا ہے۔

’’انقطاع‘‘... یعنی ایک مسئلہ کا پورے تسلسل کے ساتھ پیچھے دورِ سلف تک نہ جا سکنا؛ جبکہ وہ مسئلہ دورِ سلف میں پوری طرح پیش آ چکا ہو۔

’’انقطاع‘‘... یعنی ایک قول کی ’’تاریخ پیدائش‘‘ بعد کا کوئی دور ہونا (جبکہ دورِ اول کا تعامل اس سے مختلف چلا آیا ہو)۔ یہ  اُس  قول کے مُحدَث (دین میں نئی بات) innovation ہونے کے قوی شواہد میں شمار ہوگا۔

جبکہ ’’تسلسل‘‘ (یعنی ’’ایک مسئلہ کا شروع سے چلاآنا‘‘) اہل سنت و اہلِ صحابہ (اہل اتباع) کی ایک نمایاں ترین علامت۔

ایک بات کو ازسرنو لینے کی اپروچ، سمجھئے ’’ابتداع‘‘ (بدعتی ہونے) کا اصل الاصول ہے؛ جوکہ ابتداءً  خوارج کی سنت ہے۔ اِسی کو ہم اپنی اصطلاح میں ’’انقطاع‘‘ کہتے ہیں۔

’’انقطاع‘‘...

یعنی ایک مسئلہ پیدا تو ہوا چودہ سو سال پہلے۔ اور وہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں جو خال خال کسی کو پیش آنے والا ہو اور اِس وجہ سے یہ معلوم ہونا مشکل ہو کہ امت کا اس بابت کیا تعامل رہا ہوگا، بلکہ وہ مسئلہ لاکھوں مربع میل پر پھیلے ایک خطے میں مسلمانوں کو ہر منٹ پر پیش آتا؛ اور نسل در نسل پیش آیا رہتا ہے؛ اور اُس وقت سے پیش آیا رہتا ہے جب اس وسیع و عریض خطے میں علمائے صحابہ و تابعین کے ٹھٹھ موجود تھے؛ پھر بعد میں بھی علمائے اہل اِتباع کا ایک جمع غفیر متواتر اس خطے میں موجود رہا اور نسلاً بعد نسلٍ لوگوں کو کتاب و سنت کی راہ پر چلاتا رہا... ظاہر ہے ان سب ائمۂ سنت کا اس مسئلہ کے ساتھ کوئی تعامل رہا ہوگا؛ حتیٰ کہ اس کے ساتھ پیش آنے میں اگر ان ائمہ کے مابین کوئی اختلاف ہوا تو وہ بھی لازماً ریکارڈ پر ہوگا؛ کیونکہ یہ مسئلہ اس خطہ کے اندر پیش ہی اس کثرت کے ساتھ آیا رہا ہے... لیکن چودہ سو سال گزر جانے کے بعد؛ آج ایک آدمی اسے اس طرح لے گا گویا ’’کتاب و سنت‘‘ کی روشنی میں یہ مسئلہ پہلی بار اسی کو حل کرنا ہے! اِس کو کچھ غرض ہی نہیں ہے کہ اس سے پہلے فقہائے سنت نے ’’کتاب و سنت‘‘ کی روشنی میں اس مسئلہ پرکیا تعامل اختیار کیے رکھا! بس یہ اتنا جانتا ہے کہ امت کے ہر شخص کو ہر دور میں ہر مسئلے پر ایک نئے سرے سے ’تحقیق‘ کرنا ہوتی ہے؛ خواہ اس ’تحقیق‘ کا نتیجہ کچھ بھی ہو؛ اور اس سے کیسے بھی نئے سے نئے اقوال جنم لے لیتے رہیں؛ ایک ایسے مسئلہ میں جو امت کو روزِ اول سے پیش آیا رہا ہے! اہل اتباع کا تسلسل اور دستور اِس کی بلا سے کوئی چیز ہی نہیں ہے! اس نئے ’قولِ صحیح‘ کے نتیجے میں پہلوں پر خواہ جیسا مرضی استدراک* ہوتا رہے!

(استدرا ک*: یعنی پہلوں کو ایک بات معلوم ہی نہیں ہوئی اور یہ شخص اب آ کر اس کی نشاندہی کیے دیتا ہے!)۔ ہے وہ ’’دین‘‘؛ لیکن کھلا وہ پہلی بار اِس شخص پر؛ اِس سے پہلے البتہ وہ روپوش ہی چلا آیا ہے؛ اور امت اس سے ناواقف ہی چلی آئی ہے!

چنانچہ آپ دیکھتے ہیں، ہر مسئلے کا فائل آج ایک نئے سرے سے کھل گیا ہے؛ اور ایسا کھلا ہے کہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بڑی بڑی طےشدہ باتیں ایک لامتناہی بحث اور تحقیق کی ضرورتمند ہو گئی ہیں۔ ہر لامسئلہ non-issue  سے ایک مسئلہ issue  بن جانے لگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، امریکہ میں ایک صاحب خاصی دیر تک اس موضوع پر ’حالتِ تحقیق‘ میں رہے کہ آیات و احادیث میں زکات ادا کرنے کا حکم تو ہے، ہر سال ادا کرنے کا حکم کہاں ہے! دیکھتے ہی دیکھتے، اچھے خاصے لوگ ان کے ساتھ مصروفِ بحث ہوگئے؛ یوں اس ایک مسئلے نے کئی مہینے تک کمیونٹی میں گرمجوشی پیدا کیے رکھی۔ آخر میں جب ان صاحب کی تھوڑی بہت تسلی ہوئی تو بھی ان کا کہنا تھا کہ آج تک ہم ایک ’سنی سنائی‘ بات پر بغیر دلیل عمل کرتے رہے تھے؛ اللہ تعالیٰ اس گناہ پر ہمیں معاف فرمائے؛ ’تحقیق‘ تو اب جا کر ہوئی ہے! تصور کرلیں کیسے کیسے مسئلوں کے فائل آج نئے سرے سے کھلیں گے! فقہاء کے تعامل کی بات کریں تو یہ حضرات تعجب سے پوچھتے ہیں: فقہاء کیا ہوتے ہیں! بلکہ کچھ حضرات تو ایسے ہیں کہ صحابہؓ  کا حوالہ دینے پر پوچھتے ہیں کہ صحابہؓ  کون ہوتے ہیں!

چنانچہ ایک استدلال کے نالائقِ اعتناء ہونے کےلیے  ’’انقطاع‘‘ بجائے خود ایک کافی وجہ ہے؛ ایک ایسے مسئلہ میں جو صدیوں سے مسلمانوں کو پیش آیا رہا ہو؛ کیونکہ ’’انقطاع‘‘ ایک بات کے ’’محدَث‘‘ (نئی بات) ہونے ہی کا دوسرا نام ہے۔

’’انقطاع‘‘ کی ایک اور مثال:

پچھلے چند سالوں سے پنجاب کے بعض شہروں میں: مساجد کےلیے درجنوں یا پھر سینکڑوں کے حساب سے سُترے آرڈر کیے جانا! جو اِس سے پہلے امت نے کبھی دیکھا نہ سنا! آپ دیکھتے ہیں، لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھڑے ہوئے پائے مساجد میں درجنوں یا سینکڑوں کے حساب سے ڈھیر کروا رکھے گئے ہیں؛ جیسے ہی کوئی شخص نماز پڑھنے کےلیے کھڑا ہوتا ہے وہ لکڑیوں کے اِس ڈھیر کی طرف لپکتا ہے اور ایک عدد لکڑی اٹھا اپنے آگے دھر لیتا ہے؛ اگر اس کے بغیر نماز شروع کر لے تو کوئی اور صاحب رضاکارانہ اس کے آگے ایک عدد لکڑی لا دھریں گے؛ اور اغلباً بعد میں اس کو متنبہ کریں گے کہ اس شخص سے دین کا ایک عمل چھوٹ گیا تھا! ظاہر ہے اس امت کے چودہ سو سال مساجد میں ہر طرف ’کاشت‘ کر رکھی جانے والی اِن لکڑیوں کے بغیر گزرے۔ لیکن کوئی صاحب اٹھتے ہیں، حدیث سے ’ڈائریکٹ‘ استدلال فرماتے ہوئے مسلمانوں کی مساجد میں ایک ایسی نئی چیز کا اجراء فرما دیتے ہیں جس سے مسلمانوں کی مساجد اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں خالی چلی آئی ہیں۔ بھئی اگر یہ بات دین ہوتی تو آخر چند صد لاٹھیوں کا بندوبست کرنا کونسا مشکل ہے؛ نبیﷺ خود اپنی مسجد میں اس کا التزام فرماتے؛ اہل مدینہ کو لکڑی کی ایسی کسی قلت کا سامنا بہرحال نہیں تھا۔ اور اگر تھا بھی، تو جیسے کعبہ کے اِعادۂ تعمیر نہ کرنے کی مجبوری باقاعدہ بیان فرما دی؛ اس کی بابت بھی فرما دیتے کہ اگر لکڑی کی قلت نہ ہوتی تو میں اپنی مسجد میں بھاری تعداد کے اندر سُترے رکھواتا؛ کیا دیکھتے نہیں سُتروں کے بغیر لوگوں کی نماز کتنی خراب ہو رہی ہے! لیکن یہ صاحب یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ ’’مساجد‘‘ ایسی چیز امت کی تاریخ میں رسول اللہﷺ کے وقت سے لےکر کس تواتر سے چلی آتی ہے؛ آخر امت کی یہ سب مساجد کس ہیئت پر رہی ہیں اور ان میں نماز کس ڈھب پر ادا ہوتی آئی ہے؛ آخر کیوں ایک کام دین میں پہلی بار میرے ہی ہاتھوں انجام پائے اور بعد والوں کی نظر میں دین بنا رہے؟ لیکن نہیں، ان صاحب کے تئیں یہ ’’سنت‘‘ پر عمل کر رہے ہیں؛ بلکہ آج تک جو ایسا نہیں کرتے رہے ’’سنت‘‘ تو اُن سے چھوٹی رہی!!!

یعنی ایک ’’سنت‘‘ کا نصوص کے معانی تلے سے آج جا کر برآمد ہو جانا!!!

امت کو روز پیش آئے رہنے والے مسائل میں سنتوں کی یہ ’’دریافت‘‘... ’’انقطاع‘‘ کی ایک واضح ترین صورت ہے۔

اِس کو ہم کہتے ہیں پہلوں پر ’’استدراک‘‘۔ جبکہ ’’پہلوں‘‘ سے ہماری مراد اکثر اوقات علمائے صحابہ و تابعین ہوتے ہیں۔ وجہ یہ کہ: ہماری تاریخ اللہ کے فضل سے ایک ایسی بھرپور اور شاندار تاریخ ہے کہ رسول اللہﷺ سے ’’کتاب اور حکمت‘‘ کی براہِ راست تعلیم لےچکے صحابہؓ  کی زندگی زندگی، نصف معمورۂ ارض اسلام کے زیرنگیں آ گیا ہوا تھا۔ لہٰذا مسائلِ عمران کی ایک غیرمعمولی تعداد علمائے صحابہ و تابعین کے اپنے ہاتھوں سلجھائی گئی ہے۔ اِس امت کی نسلِ اول کو پیروانِ مسیحؑ کی طرح چھپتے چھپاتے اور دیس پردیس ہوتے دنیا میں نہیں پھرنا پڑا؛ بلکہ نصف دنیا پر اس کی دھاک اور حکومت رہی؛ اس کی پہلی نسل کے علماء کو اللہ کے فضل سے پوری تمکنت اور آزادی کے ساتھ اپنے علمی و عمرانی دستور چلا دینے کے مواقع ہاتھ آئے؛ جبکہ علم میں وہی سب سے کامل بھی تھے۔ لہٰذا اِس امت کے اعمال کو جس انداز کا ’’تواتر‘‘ حاصل ہے، کسی اور امت کے ہاں اس کا تصور ہی ممکن نہیں۔ ایسی عظیم نعمت کی ناقدرشناسی ہمارے لوگوں کے حق میں فی الواقع ظلمِ عظیم ہو گا۔

غرض ایک ایسا مسئلہ جو اِس امت کو صحابہؓ کے وقت سے بکثرت اور مسلسل پیش آیا رہا ہے؛ اس میں اختیار کیے جانے والے قول کے اندر ’’انقطاع‘‘ پایا جانا؛ یعنی اس قول کا تسلسل کے ساتھ پیچھے نہ جاسکنا؛ اس کی قباحت پر بجائےخود ایک دلیل ہوگی۔

پس یہ ہے ہمارا مسلک: وہ مسائل جو قرونِ سلف سے لے کر اِس امت کو ایک بڑے پیمانے پر پیش آئے رہے ہیں... ان میں ہم وہی دستور رکھیں گے جو قرونِ سلف ہی سے چلا آتا ہے۔ اگر اُن کے ہاں ایک چیز میں گنجائش رکھی گئی تو ہم بھی وہ گنجائش رکھیں گے۔ اگر اُن کے ہاں ایک بات کی گنجائش نہیں تھی تو ہم بھی اس کےلیے کوئی گنجائش نہیں آنے دیں گے۔ جو چیز اُن کے ہاں دین تھی ہم بھی اُسے دین مانیں گے۔ جو چیز ان کے ہاں دین نہیں تھی ہم بھی اُسے دین نہیں بننے دیں گے۔ ہم اہل اتباع ہیں نہ کہ اہل ابتداع۔ یعنی ایک پیچھے سے چلی آنے والی علمی چیز کا علمی اور عملی چیز کا عملی تسلسل بننے والے؛ اور ایک نئی چیز کو رد کرنے والے؛ خواہ وہ نصوص سے ’استدلال‘ کا معاملہ کیوں نہ ہو؛ ایک ایسے مسئلہ میں جو اِس امت کو آج جا کر پیش نہیں آیا؛ بلکہ قرونِ سلف سے لے کر پیش چلا آتا ہے۔

*****

یہ اصولی بنیاد اگر واضح ہوگئی ہے تو اب اِس مسئلہ کو دیکھنا ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں۔

برادرم! فارسی صحابہ﷢ کے دور سے بولی چلی آنے والی زبان ہے، اور صحابہؓ  کا مفتوحہ ایک بڑا خطہ یہ زبان بولتا رہا۔ ائمۂ سنت اور فقہائے شریعت کے ہاں ہمیں کوئی ایسا اعتراض نہیں ملتا جس کی رو سے فقہائے صحابہ و تابعین و تبع تابعین کی جانب سے اہل فارسی کو اپنی زبان کا ایک بکثرت استعمال ہونے والا لفظ متروک کرنے کی ہدایت کی گئی ہو؛ جبکہ فقہائے تابعین و تبع تابعین میں سے بہت سوں کی اپنی زبان فارسی تھی۔ اس کے برعکس، فارسی میں تصنیف و تالیف کرنے والے متقدمین علماء سے لفظ ’’خدا‘‘  کا استعمال ضرور ثابت ہے۔ یعنی جن اہل علم نے (آپ کے خیال میں) اس پر نکیر کرنی تھی وہ خود یہ لفظ بولتے رہے! یہی فارسی اردو کی ماں ہے، ہزاروں علماء، فقہاء، واعظ، مصنفین، اہل ادب اردو میں بھی فارسی کا یہ لفظ بولتے چلے آئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے دو سو سال بعد تک بھی اس پر کوئی نکیرِ عام ہمارے علم میں نہیں ہے۔ خود ہمارے دور میں بھی اعلیٰ سطح کے اہل فقہ و افتاء سے صادر ہونے والا ایسا کوئی فتوى ہماری نظر میں نہیں ہے جو چودہ سو سال سے مستعمل لفظ ’’خدا‘‘ کے استعمال کو یکلخت ممنوع قرار دینے لگا ہو۔ اگر کوئی اِکادُکا قول آج کہیں نکل بھی آیا ہو تو یہ اہل علم کا کوئی متفق علیہ قول بہرحال قرار نہیں پائے گا، جس کے باعث ایک بات پر سرعام روک ٹوک شروع ہو جائے۔ آپ کو معلوم ہے ’’نکیر‘‘ ایک ایسی بات پر ہی کی جاتی ہے جو تمام طوائفِ حق کے نزدیک خلافِ شریعت ہو۔ البتہ جس مسئلہ میں کوئی ایک فریقِ علم ایک بات کا قائل ہو اور دوسرا فریق دوسری بات کا، اُس میں ’’انکار على المنکر‘‘ نہیں ہوتا۔ جبکہ ہمیں آئے روز اعتراضات موصول ہوتے ہیں کہ ہم لفظِ ’’خدا‘‘ کیوں استعمال کرتے ہیں!

اس سلسلہ میں ہمارا منہج وہی ہے جو اوپر بیان ہوا: یعنی قرونِ اولی سے چلے آنے والے ایک تعامل کو جوں کا توں چلانا۔ ’’سلفیت‘‘ دراصل یہ ہے نہ کہ ’دلیلوں‘ کی وہ غیراختتام پزیر بحث جس میں عامی بھی شریک ہوتا ہے؛ اور جس میں تعاملِ سلف اور تعامل امت ایک غیرمتعلقہ سوال رہتا ہے، اور جسے برصغیر میں ’سلفیت‘ باور کیا جاتا ہے، جبکہ وہ ’’سلفیت‘‘ کی ضد ہے۔

اس ذہن کے لوگوں سے اگر آپ اتنا پوچھ لیں کہ آپ سے پہلے کس کس نے لفظ ’’خدا‘‘ استعمال کرنے کو حرام یا الحاد گنا ہے.. تو وہ اس پر حیرانی سے دیکھتے ہیں: یہ بھی کوئی سوال ہے!

یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، لفظ خدا علمائے متقدمین کے ہاں بغیر روک ٹوک مستعمل رہا ہے، جس پر ان کی فارسی تالیفات شاہد ہیں۔ اگر کوئی صاحب متقدمین کا کوئی ایک آدھ ایسا قول لا بھی دیں، جس میں اس لفظ پر کوئی تحفظ ظاہر کیا گیا ہو تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ متقدمین میں سے کسی ایک آدھ شخص کی رائے یہ بھی رہی ہے۔ اس صورت میں بھی  نکیر کی کوئی وجہ بہرحال نہیں رہتی۔ جبکہ متقدمین کا ایسا کوئی قول –  ہمارے علم کی حد تک –  سرے سے موجود نہیں۔

*****

اب یہاں ہم متقدمین ائمۂ سنت کے کلام سے چند شواہد دیتے چلیں گے:

امام رازی: فارسی لفظ "خدا" کا مطلب "واجب الوجود"

امام فخر الدین رازی﷫ اپنی ’’التفسیر الکبیر‘‘ المعروف ’’مفاتیح الغیب‘‘ میں ’’مباحث بسم الله الرحمن الرحيم‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:

وقولهم بالفارسية " خداي " معناه أنه واجب الوجود لذاته ؛ لأن قولنا " خداي " كلمة مركبة من لفظتين في الفارسية إحداهما : خود ، ومعناه ذات الشيء ونفسه وحقيقته والثانية قولنا " آي " ومعناه جاء فقولنا : " خداي " معناه أنه بنفسه جاء وهو إشارة إلى أنه بنفسه وذاته جاء إلى الوجود لا بغيره ، وعلى هذا الوجه فيصير تفسير قولهم " خداي " أنه لذاته كان موجودا۔                                                                           (ج 1 ص 122)[i]

فارسی لفظ ’’خدا‘‘  کا مطلب ہے واجب الوجود لذاتہٖ، کیونکہ لفظ خدا فارسی کے دو کلمات سے مرکب ہے: ایک ہے ’’خود‘‘، جس کا مطلب ہے ذات، اور دوسرا ہے ’’آ‘‘، جس کا مطلب ہے آیا یا وجود رکھا۔ چنانچہ ’’خدا‘‘ کا مطلب ہوا: کہ وہ خودبخود ہے۔ یعنی اس کا وجود بنفسہٖ اور بذاتہٖ ہے نہ کہ کسی کے لانے سے۔ اس لحاظ سے ان کے بولے جانے والے لفظ ’’خدا‘‘ کی تفسیر ہوئی: اس کا وجود لِذاتہٖ ہے۔

لفظ "خدا"... الفتاوى الکبریٰ لابن تیمیہ:

كَذَلِكَ الرَّبُّ سُبْحَانَهُ يُوصَفُ بِالْعَرَبِيَّةِ (اللَّهُ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ وَبِالْفَارِسِيَّةِ خداي بزرك وَبِالتُّرْكِيَّةِ سركوي) وَنَحْوُ ذَلِكَ وَهُوَ سُبْحَانَهُ وَاحِدٌ وَالتَّسْمِيَةُ الدَّالَّةُ عَلَيْهِ تَكْثُرُ.

(الفتاوى الکبریٰ ج 6 ص 568، ط دار الکتب العلمیۃ، الشاملۃ)[ii]

’’اسی طرح رب سبحانہٗ وتعالیٰ کا وصف ہوتا ہے عربی میں ’’اللہ‘‘، ’’رحمٰن‘‘ اور ’’رحیم‘‘ سے، فارسی میں ’’خدائے بزرگ‘‘ سے، ترکی میں ’’سرکوی‘‘ سے، اور اس جیسے (الفاظ)۔ جبکہ وہ ایک ہی ذات ہے سبحانہٗ وتعالیٰ، اُس پر دلالت کرنے والے الفاظ بہت ہیں‘‘۔

لفظ "خدا"... اور متقدمین فقہائے احناف:

ٖ(واضح رہے، عجمی معاشروں کے ساتھ سابقہ سب سے پہلے فقہائے عراق کو پیش آیا)

یہ ایک معلوم امر ہے، امام ابوحنیفہ﷫ اور صاحبین﷮ کے مابين اختلاف ہوا ہے کہ تکبیرۃ الاحرام میں ’’اللہ اکبر‘‘ کی بجائے ’’خدا بزرگ تر‘‘ کہہ لیا جائے:

ولو افتتح الصلاة بالفارسية بأن قال : خداي بزر كتر أو خداي بزرك - يصير شارعا عند أبي حنيفة ، وعندهما لا يصير شارعا إلا إذا كان لا يحسن العربية (بدائع الصنائع ج 1 ص 131) [iii]

اگر وہ فارسی میں نماز شروع کر لے، مثلاً (اللہ اکبر کی جگہ) ’’خدائے بزرگ تر‘‘ یا ’’خدائے بزرگ‘‘ کہہ لے تو ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا نماز شروع کرنا معتبر ہوگا۔ صاحبین کے نزدیک معتبر نہ ہوگا، اِلّا یہ کہ وہ عربی نہ جانتا ہو۔

یہاں ہم اس مسئلہ میں نہیں پڑیں گے کہ ’’تکبیر تحریمہ‘‘ کے حوالے سے کس کی بات صحیح ہے، گو یہ معروف ہے کہ مذہب حنفی اس مسئلہ میں صاحبین کے قول پر ہے۔

ہم یہاں صرف یہ سوال اٹھانا چاہیں گے کہ دورِ سلف میں اگر روزمرہ گفتگو میں ہی فقہائے صحابہ وتابعین کی جانب سے لفظ ’’خدا‘‘ کی ممانعت ہوتی... تو امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے مابین یہ مسئلہ زیربحث آنا ہی فضول اور ناقابل تصور ٹھہرتا ہے۔

یہاں؛ صاحبین کی دلیل ظاہر ہے یہ نہیں ہے کہ ’خدا‘  کا لفظ تو روزمرہ استعمال کرنا ہی ممنوع ہے؛ کجا یہ کہ آپ نماز میں اس لفظ کے استعمال کی بات کرتے ہیں‘! بلکہ صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ نماز کے اپنے الفاظ توقیفی ہیں۔

یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ﷫ کے شدید ترین ناقدین جو اس مسئلہ پر امام ابوحنیفہ پر طعن و تشنیع تک چلے گئے کہ دیکھو امام ابو حنیفہ نماز میں فارسی بولنے کی اجازت دے رہے ہیں، ایسے شدید ترین ناقدین کے ہاں بھی ہم نے کہیں یہ تنقید نہیں دیکھی کہ دیکھو ابوحنیفہ لفظ ’’خدا‘‘ کے استعمال کو جائز کہتے ہیں۔ بلکہ یہ سب تنقید ’’تکبیر تحریمہ‘‘ کے حوالے سے ہی کی، جبکہ یہ تابعین سے متصل بعد کا زمانہ ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ روزمرہ محاورہ میں لفظ ’’خدا‘‘ کے استعمال سے الرجی محسوس کرنا بڑی صدیوں تک مسلمانوں کے ہاں نہیں تھا۔

چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب بدائع الصنائع میں کاسانی﷫ اس مسئلہ کے بیان میں کہتے ہیں: امام﷫ اور صاحبین﷮ میں یہ اختلاف تکبیرۃ التحریم کے حوالے سے ہے۔ یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ کے ساتھ اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تکبیرۃ التحریم میں تو ’’اللہُ أکبر‘‘ کی بجائے ’’الرحمٰنُ أکبر‘‘ کہے تب بھی غلط ہے۔ البتہ جانور ذبح کرتے وقت کسی بھی انداز میں اللہ کا ذکر کردے تو اس کے جائز ہونے پر امام اور صاحبین کے مابین وہ اختلاف نہیں۔                           (دیکھئے بدائع الصنائع کے مذکورہ بالا حوالہ سے متصل عبارت) [iv]

علاوہ ازیں... فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتح القدیر (مؤلفہ کمال الدین بن الھمام)  عربی ہونے کے باوجود (طلاق سے متعلقہ ایک مسئلہ میں) لفظ ’’خدا‘‘ کا ذکر کرتی ہے:

لو قال حلال الله علي حرام أو قال حلال خداي وله امرأة ينصرف إليها من غير نية وعليه الفتوى                                                                        (فتح القدیر د 5 ص 91)[v]

اگر آدمی نے کہا: اللہ کا حلال مجھ پر حرام ہوا، یا کہا: خدا کا حلال (مجھ پر حرام ہوا)، اور اس کی ایک بیوی ہے تو طلاق اس کی طرف پھر جائے گی، نیت ضروری نہیں رہے گی، اسی پر فتویٰ ہے۔

فقہ حنفی کی ایک اور کتاب لسان الحکام (مؤلفہ لسان الدین الحلبی) میں  عبارت آتی ہے:

والمجوسي إِذا قَالَ خداي يَك است وهمة بيغمبران حق، يُحكَم بِإِسْلَامِهِ (ص 413) [vi]

مجوسی اگر کہہ دے کہ خدا ایک ہے اور اس کے سب پیغمبر حق ہیں، تو اس کو مسلمان تسلیم کرلیا جائے گا۔

جبکہ فقہ حنفی کی کتاب الفتاوى الھندیۃ تو لفظ ’’خدا‘‘ کا جگہ جگہ ذکر کرتی ہے۔

فقہ شافعی:

امام غزالی﷫ کی کتاب ’’الوجیز‘‘ کی شرح ’’فتح العزیز‘‘ مؤلفہ عبد الکریم بن محمد القزوینی (متوفیٰ 623ھ)، میں لکھا ہے:

وترجمة التكبير بالفارسية (خداى بزركتر) ذكر الشيخ أبو حامد والقاضى الروياتي فلو قال خداى بزرك وترك صيغة التفضيل لم يجز لقوله الله الكبير             (فتح العزيز ج 3 ص 268)

تکبیر (اللہ اکبر) کا فارسی ترجمہ ہے: ’’خدا بزرگ تر‘‘۔ امام ابو حامد الغزالی اور قاضی رویاتی نے ذکر کیا۔ پس اگر وہ صرف اتنا کہے: ’’خدا بزرگ‘‘ اور تفضیل کا صیغہ (تر) چھوڑ دے تو وہ صحیح نہ ہوگا، اس لیے کہ وہ ’’اللہ کبیر‘‘ کا معنیٰ بنے گا۔

فقہ شافعی کی مشہور کتاب مغنی المحتاج إلی معرفۃ معانی الفاظ المنہاج، مؤلفہ خطیب شربینی﷫ کی عبارت۔

قابل توجہ بات: ’’خدائے بزرگ تر‘‘ کو یہاں تکبیر کا باقاعدہ ترجمہ قرار دیا جا رہا ہے:

فَائِدَةٌ: تَرْجَمَةُ التَّكْبِيرِ بِالْفَارِسِيَّةِ خداي بزركتر فَلَا يَكْفِي خداي بزرك لِتَرْكِهِ التَّفْضِيلَ كَاللَّهُ كَبِيرٌ.                                  (مغني المحتاج ج 1 ص 346. ط دارالكتب العلمية)

فائدہ: تکبیر کا فارسی ترجمہ ہے: خدا بزرگ تر۔ چنانچہ ’’خدا بزرگ‘‘ کہنا کافی نہیں، اس لیے اس میں صیغہ تفضیل چھوٹ گیا ہے یعنی ’’اللہ کبیر‘‘۔

عقیدہ کی کتاب "الحجۃ فی بیان المحجۃ":

عقیدہ کی کتاب ’’الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ‘‘ مؤلفہ اسماعیل بن محمد الفضل القرشی (متوفی 535ھ) محققہ محمد بن ربیع المدخلی، میں لکھا ہے:

وَذكره مُحَمَّد بن عِيسَى الدَّامغَانِي، حَدَّثَنِي أَبُو بكر صَالح الْمروزِي وَكَانَ صَاحب قُرْآن قَالَ: دس الْجَهْمِية إِلَى ابْن الْمُبَارك رجلا. فَقَالَ: يَا أَبَا عبد الرَّحْمَن خداي رابذان جهان چون بینذ. فَقَالَ: بحشم - يَعْنِي كَيفَ نرى رَبنَا يَوْم الْقِيَامَة؟ فَقَالَ: بِالْعينِ.

محمد بن عیسیٰ دامغانی نے بیان کیا: ہم سے روایت کی ابو بکر صالح مرزوی نے جوکہ ایک صاحبِ قرآن ہو گزرے ہیں، کہا: جہمیوں نے ایک شخص کو عبد اللہ بن المبارک﷫ کے پاس داخل کروایا۔ اُس نے آپ سے (فارسی میں) پوچھا: اے ابو عبد الرحمن! خدا کو ہم کیسے دیکھیں گے؟ عبد اللہ بن المبارک نے جواب دیا: آنکھ کے ساتھ۔

غرض یہ عبد اللہ بن المبارک﷫ کا زمانہ ہے۔ اُس وقت سے یہ لفظ مسلمانوں میں عام مستعمل ہے؛ تب سے اس پر اعتراض ہونے کی کوئی وجہ محسوس نہیں کی جاتی۔

*****

"وَلِلہِ الأسۡمَاءُ الۡحُسۡنیٰ" والی آیت سے استدلال!

رہ گئی ہمارے معترضین کی یہ بات کہ یہ ’’الحاد فی أسماء اللہ‘‘ ہے جس کی سورۃ الاعراف (آیت 180) میں مذمت ہوئی ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ.. تو اس کےلیے یہ دیکھ لینا بہتر ہے کہ ’’اللہ کے ناموں کے اندر الحاد کرنے‘‘ کا معنیٰ، اِس آیۃ الاعراف کے تحت، امت کے معتبر مفسرین نے کیا کیا ہے۔ ظاہر ہے کسی ایک مفسر نے بھی اس کا یہ معنیٰ نہیں کیا جو ہمارے معترضین کر رہے ہیں۔

سلف کے ہاں اس کی کیا تفسیر ہوئی ہے؟ ابن جریر طبری﷫ سورۃ الاعراف کی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

وكان إلحادهم في أسماء الله، أنهم عدَلوا بها عمّا هي عليه، فسموا بها آلِهَتَهُم وأوثانَهُم، وزادوا فيها ونقصوا منها، فَسَمَّوا بعضَهَا "اللات" اشتقاقًا منهم لها من اسْمِ الله الذي هو "الله"، وسَمَّوا بعضَهَا "العُزَّى" اشتقاقًا لها من اسْمِ الله الذي هو "العزيز".

وَبِنَحْوِ الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل.

* ذكر من قال ذلك:

15453 - حدثني محمد بن سعد قال: حدثني أبي قال: ثني عمي قال: حدثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس: (وذروا الذين يلحدون في أسمائه) ، قال: إلحاد الملحدين: أن دعوا "اللات" في أسماء الله.

15454 - حدثنا القاسم قال: حدثنا الحسين قال: حدثني حجاج، عن ابن جريج، عن مجاهد: (وذروا الذين يلحدون في أسمائه) قال: اشتقوا "العزى" من "العزيز"، واشتقوا "اللات" من "الله".                                 (دیکھئے تفسیر طبری بہ ذیل آیت 180 سورۃ الاعراف)

انکا ’’اللہ کے ناموں میں الحاد کرنا‘‘ یہ تھا کہ انہوں نے اللہ کے ناموں کو انکی اصل سے ہٹا کر کچھ سے کچھ کر دیا تھا ، یعنی ان میں کچھ اضافہ یا کمی کر کے اُس کے ناموں پر اپنے معبودوں اور بتوں کے نام رکھنے لگے تھے۔ چنانچہ لفظ ’’اللہ‘‘ سے اشتقاق کرتے ہوئے (اسی مادہ سے مؤنث بناتے ہوئے) انہوں نے ’’اللات‘‘ کا نام رکھ دیا تھا۔ اللہ کے نام ’’العزیز‘‘ سے اشتقاق کرتے ہوئے  (اسی مادہ سے مؤنث بناتے ہوئے) ’’العُزىٰ‘‘ رکھ دیا تھا۔

ہم (طبری) نے یہ جو بیان کیا، اہل تفسیر نے بھی اس کے تحت یہی بیان کیا ہے:

یہ تفسیر کرنے والے (صحابہ و تابعین وغیرہ کا) کچھ تذکرہ:

روایت نمبر 15453:... ابن عباس﷠ سے (وذروا الذين يلحدون في أسمائه) فرمایا: ملحدوں کا الحاد یہ تھا کہ: وہ اللہ کے ناموں میں ’’اللات‘‘ کو پکارنے لگے تھے۔

روایت نمیر 15454:... مجاہد سے (وذروا الذين يلحدون في أسمائه) فرمایا: انہوں نے ’’العزیز‘‘ سے ’’العزیٰ‘‘ کشید کر لیا تھا اور ’’اللہ‘‘ سے ’’اللات‘‘۔

ابن کثیرؒ نے بھی عبداللہ بن عباسؓ، مجاہدؒ اور ابن جریجؒ سے عین یہی تفسیر بیان کی ہے۔ یعنی مشرکین کا ’’اللہ‘‘ سے ’’اللات‘‘ اور ’’العزیز‘‘ سے ’’العزیٰ‘‘ بنا ڈالنا۔ وغیرہ

سعودی اِفتاء کمیٹی کی بھی یہی تقریر ہے کہ لفظ ’’خدا‘‘ الحاد فی اسماء اللہ میں نہیں آتا۔ شیخ ابن باز﷫ کی سربراہی میں چلنے والی  اللجنۃ الدائمۃ للإفتاء سے صریح طور پر دریافت کیا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی صفات توقیفی ہیں اور اس بنا پر ہمیں اللہ کےلیے صرف اُسی چیز کا اِثبات کرنا ہے جس کا اللہ نے خود اپنے لیے اِثبات فرمایا اور ان باتوں سے سکوت اختیار کرنا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ کتاب یا بذریعہ سنت سکوت فرمایا تو کیا اللہ کےلیے کوئی ایسا لفظ استعمال کرنا جائز ہے جو اُس کے اسماء میں نہیں آیا، جیسے فارسی میں ’’خدا‘‘ یا پشتو میں ’’خدای‘‘، یا انگریزی میں ’’گاڈ‘‘؟ اور کیا وہ شخص جو اللہ کےلیے ایک ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جو کتاب اور سنت میں نہیں آیا ملحد شمار ہوگا؛ کیونکہ آیت میں آیا ہے (وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِاستفتاء کے جواب میں اس بات کو ناقابلِ اعتراض قرار دیا گیا۔ اِس جواب پر شیخ عبد اللہ بن قعود، عبد اللہ بن غدیان، عبد الرزاق عفیفی اور عبدالعزیز بن باز کے دستخط موجود ہیں۔    (دیکھئے اللجنۃ الدائمۃ برائے افتاء سے صادر فتوى نمبر 8115۔ جلد 3 صفحہ 167) [vii]



[i]   تفسیر رازی کی عبارت کا ویب لنک: http://goo.gl/m9253G 

[ii]   مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ کی عبارت کا ویب لنک: http://goo.gl/qU3KBZ 

[iii]   فقہ حنفی کی کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ کی عبارت کا ویب لنک: http://goo.gl/scjuOG 

[iv]   خصوصاً دیکھئے اوپر والے (بدائع الصنائع) لنک کے آخری دو پیرے۔ 

[v]   فقہ حنفی کی کتاب ’’فتح القدیر‘‘ کی عبارت کا ویب لنک: http://goo.gl/VTGmNu  

[vi]   فقہ حنفی کی کتاب ’’لسان الحکام‘‘ کی عبارت کا ویب لنک: http://goo.gl/VLRoQb 

[vii]   سعودی اللجنۃ الدائمۃ للإفتاء کے فتویٰ 8115  کا ویب لنک: http://goo.gl/adUuyg  

Print Article
  لفظ خدا
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
فرد اور نظام کا ڈائلیکٹ، ایک اہم تنقیح
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل، ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
ديگر آرٹیکلز
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
Featured-
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ کی تکفیر و عدم تکفیر، ہر دو اہل سنت کا قول ہیں تحریر: حامد کمال الدین ہمارے یہاں کی مذہبی (سن۔۔۔
تنقیحات-
اصول- منہج
Featured-
حامد كمال الدين
گھر بیٹھ رہنے کا ’آپشن‘… اور ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ اردو استفادہ: حامد کمال الدین از مجموع فتاوى ا۔۔۔
Featured-
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ایک نظامِ قائمہ کے ساتھ تعامل ہمارا اور ’اسلامی جمہوری‘ ذہن کا فرق تحریر: حامد کمال الدین س: ۔۔۔
اصول- ايمان
اصول- ايمان
حامد كمال الدين
عہد کا پیغمبر تحریر: حامد کمال الدین یہ شخصیت نظرانداز ہونے والی نہیں! آپ مشرق کے باشندے ہیں یا ۔۔۔
تنقیحات-
راہنمائى-
حامد كمال الدين
مابین "مسلک پرستی" و "مسالک بیزاری" تحریر: حامد کمال الدین میری ایک پوسٹ میں "مسالک بیزار" طبقوں ۔۔۔
کیٹیگری
Featured
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز