اظہار محبت تو حديث ميں بھى ہے مگر؟
یہ مغرب آلودہ معاشرہ، غلاموں کی غلام قوم، اور 'سٹیٹس کو'
کے پجاری لوگ ۔۔مغرب سے آنے والی ہوا کی بھی پرستش کے قائل ہيں کیونکہ اس ہوا کا
جادو جب جسموں میں سرائیت کرتا ہے تو وزیر مشیر اور اس سے اعلیٰ رتبوں تک پہنچاتا
یا کم سے کم معاشرے میں "عزت کا مقام" تو دیتا ہے۔ ہو بھی کیوں نہ؟ اس
آلودگی کے تعفن سے سارا معاشرہ ہی بیمار ہے۔ یہ بیماری نہ ہوتی تو آج یہ لوگ بھی
بغیر سرخاب کے پروں کے ہوتے ۔
یہ ہوا تو بس خوشنودی کی عرضیوں اور وزارتوں کی صورت میں اجازت ناموں پر مبنی ہوتی
ہے مگر جب بات ہوتی ہے سراسر اُن کی حمایت کی، ان کے خیالات اورطور طریقے اپنانے
کی تو پھر یہ معاشرہ ، یہ پجاری ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو ترستے ہیں۔ یہی تو ذریعہ ہے "دستِ
شفقت" اپنے سر بلکہ پورے جسم پر لینے کا۔
حرمت وقار اور عزیمت جیسے الفاظ تو گویا ناپید ہو چکے۔ مغرب کی رضامندی کیلئے
"کچھ بھی" کرنا کوئی گھاٹے کا سودہ نہیں۔ اُن سے محبت کا اظہار اوّلین
ترجیح اور اُن کے طور اطوار کو منانا اِن کا شعار۔ بات اُن سے محبت سے بڑھ کر ان
کے "محبت کے دنوں( ویلنٹائینز ڈے)" سے محبت تک جا پہنچتی ہے۔
ضروری نہیں کہ مغرب سے آنے والا ہر عمل ہی مکروہ اور غیر شرعی ہے بلکہ اس کی بابت اپنی قدروں کا ادراک اوّلین ترجیح ہونی چاہیے، چاہے
وہ دینی ہو یا معاشرتی۔ یہ آزاد منش لوگ درآمد شدہ ہر عمل یا تہوار کے پس پردہ
حقائق کو کم سے کم ایک دفعہ جانچ لیتے کہ آیا یہ عمل ہمیں اُن سے مشابہت کی بنا
پر "روشن خیال" بنائے گا بھی یا
نہیں۔ حالانکہ خود مغرب کا مذہبی طبقہ ویلنٹائنز ڈے کے خلاف ہے۔ وہ راہب تھا نفس
پرستی سےبھرا اور بن گیا اس معاشرے کا محبوب۔ افسوس صد افسوس کہ ایک بد کردار
پادری ہمارے با کردار بھائی بہنوں کیلئے اظہارِمحبت کا باعث بن گیا۔
یہ دن ویلنٹائین پادری کی یاد میں منایا جائے یا قدیم رومی دیوتا
"لوپرکالیا" کی یاد میں منایا جائے( جس میں مرد اپنی قمیضوں پر اپنی
محبوباؤں کا نام لکھ کر اپنی پسند کا اظہار کرتے تھے) یا پرندوں کے اختلاط Mating season
کی مناسبت سے منایا جائے قطع نظر ان بے حیا حقیقتوں سے، کسی ایک بھی حقیقت کی مناسبت سے منانا ایک عزت
دار باحیا معاشرے کی شایانِ شان نہیں۔
اس تردید سے یہ مطلب نکالنا کہ اسلام محبت کی اجازت نہیں دیتا، سراسر اسلام کے
درخشاں اور محبت بھرے اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن تو خود بندوں کو اپنے رب سے محبت کا
درس دیتا ہے۔
والّذِین اٰمنوآ اشدُّ حبّا للہ
اہلِ ایمان اللہ سے شدید محبت کرنے والے ہیں (البقرہ 165:2)
اللہ اور اس کے رسول کے محبت سے متعلق بے
شمار آیات و احادیث مروی ہیں۔ اگر دوسری طرف فطری محبت کو دیکھا جائے تو اسلام نے
اس کے لیے کچھ اصول وضع کیے ہیں تا کہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار نہ ہو۔ جنس مخالف
سے روابط کے لیے اسلام نے نکاح کا مقدس بندھن باندھا ہے۔ خود محمد ﷺ خاوند اور
بیوی میں محبت کی مثال تھے۔ آپ ﷺسے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ
عزیز کون ہے تو آپ ﷺ نے اپنی زوجہ عائشہ
رضی اللہ عنہا کا نام لیا۔
ہاں جب بات اس سوال تک چلی جاتی ہے کہ اسلام محبت سے منع نہیں کرتا تو اظہار کرنے
میں کیا حرج ہے؟ جس کے ساتھ حدیث کی یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ "تمہیں جس سے
محبت ہو اس کو کہہ دو" واقعی محبت کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر کیا
محبت سال کے باقی 364 دن مفلوج ہو جاتی ہے؟ کیا اسی دن اظہار کرنا ہے جب بدکار
ویلنٹا ئن نے اظہار کیا؟ کیوں ہم اپنی پاکیزہ محبت کو پادری کی غلیظ محبت اور
ناپاک عمل سے مناسبت دے رہے ہیں۔ یہ دن منانا تو ان لوگوں کا کام ہے جو مادیت
پرستی میں گم ہیں اور مدر فادر ڈے کی طرح ان کی محبت بھی ایک ہی دن جاگتی ہے۔
اجتنبو اعدآءاللہ فی اعیادھم
"اللہ کے دشمنوں کے تہواروں سے اجتناب کرو" (البیہقی الکبریٰ)
ایک عالمگیر مذہب ہونے کے ناطے اسلام نہ صرف محبت کی تلقین کرتا ہے بلکہ نکاح جیسے
مقدس رشتے کا پابند بھی کرتا ہے۔ مگر افسوس اس نوجوان معاشرے پر جو خاندانی تباہی
کیلئے خود ہی وار کر رہا ہے۔ اور رہی سہی كسر مغرب نواز میڈیا اور موبائل کمپنیز
اس بے حیائی کو پھیلانے میں نکال رہی ہیں جو اپنے کاروبار کی خاطر کفر کے نظام کو
اپنانے میں عمل درآمد ہیں۔ خداراس غلیظ تہوار کو اپنے انداز میں روکنے کی کوشش کیجیئے
وگرنہ وہ کل جلد ہی آج ہو جائے گا جب اپنی بیٹیاں اور بہنیں "یونیورسٹیوں اور
کالجوں" میں تو دور ،گھر کی چار دیواری میں بھی محفوظ نہیں ہو ں گی۔
ندعواللہ ان یّحفظنا من ھذه الفتنہ
۔۔۔
ایقاظ
کا خصوصی ضمیمہ ’’ویلنٹائن.. مردار تہذیب کی دستک‘‘ اس
لنک سے